Mazhabi Sodagar - مذہبی سوداگر - Kursheed Nadeem - Best Journalist in Pakistan

indigo

Siasat.pk - Blogger
مذہبی سوداگر

ناموسِ دین اور جنسِ بازار!

آدمی حیرت سے سوچتا اور پھر اقبال کو یاد کرتا ہے۔


یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے


گلیم بوذر و دلقِ اویس و چادرِ زہرا


رمشا کا مقدمہ تو ایک طرف رہا، گواہ نے معلوم نہیں کس کس کے چہرے سے نقاب اٹھادیاہے۔


میرے وجود کے مطالبات کون پورا کرسکتا ہے؟ میں صرف مادی وجود ہی نہیں رکھتا، ایک نفسیاتی، اخلاقی، سماجی اور روحانی وجود بھی رکھتا ہوں۔ بدن تو محض پیرہن ہے۔ میں اس کے اندر رہتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں، محسوس کرتا ہوں۔۔۔ کبھی رودیتا ہوں، کبھی ہنس پڑتا ہوں۔ سوچ ایک وجود سے متعلق ہے اور رونا ہنسنا کسی اور سے۔ جو صرف میرے مادی وجود کو مخاطب بناتا ہے، میرے بدنی مطالبات پورے کرتا ہے، شب وروز کی محنت سے میری زندگی کو آسودہ بناتا ہے، اپنی ایجاد واختراع سے میرے چاروں طرف آسانیاں بکھیر دیتا ہے، میں اس کا شکرگزار ہوں، لیکن میرا بدن ہی تو میری تمام شخصیت نہیں ہے۔۔۔ تو پھر وہ کون ہے جو میرے سارے وجود کا احاطہ کرتا ہے، میرے تمام وجودی مطالبات کا ادراک رکھتا ہے؟


اللہ کا الہام۔۔۔ وہ الہام جس کا احساس میری فطرت میں رکھ دیا گیا اور وہ الہام جو عالم کا پروردگار اپنے پیغمبر کی معرفت مجھے عطا کرتا ہے۔۔۔ ہم اِسے مذہب کہتے ہیں۔ سیدنا مسیح ؑنے فرمایا تھا کہ آدمی صرف روٹی سے نہیں جیتا، اس رزق سے جیتا ہے جو کلمہ الٰہی کی صورت اس پر نزول کرتا ہے۔ ایسی بے بہا نعمت اور کوئی اسے جنسِ بازار بناڈالا۔ حیرت تو ہونی ہے!


رمشا کا مقدمہ، پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ان گنت واقعات کا سلسلہ ہے کہ کس طرح مذہب کے نام پر سیاسی، سماجی اور مادی مفادات سمیٹے گئے۔ جی چاہاتو زمین کے ایک ٹکڑے کے لیے اپنے مسلمان بھائی کو توہین رسالت کا ملزم ٹھہرادیا۔ مسلکی تعصب میں مخالف کو توہین قرآن کا مجرم ثابت کرڈالا۔ ووٹ کے لیے کتاب کو الکتاب بنادیا۔ مسلمان اور توہینِ پیغمبر؟ کیا وہ دیوانہ ہوگیا ہے؟ آبروئے ما زنامِ مصطفی است۔ توہین تو ایک طرف، وہ جانتا ہے کہ امیرالمومنین سیدنا ابوبکر صدیق جیسی جلیل القدر شخصیت بھی مجلس میں بیٹھتی تو دھیرے سے کلام کرتی۔ کئی بار تو پوچھنا پڑتا کہ آپ نے کیا فرمایا۔۔۔ سورہ حجرات نازل ہوئی تو احتیاط کا یہ عالم ہوگیا ۔ تو پھر کون مسلمان ہے ، جو مسلمان ہو اور پھر اس شان میں گستاخی کا تصور کرے۔ لیکن کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ بہت سے مسلمان اسی ناکردہ جرم میں جیلوں میں بند ہیں؟


مذہب کے سوئے استعمال کو اب روکنا ہوگا۔ علما کو آواز اٹھانی ہوگی کہ انذارکی ذمہ داری اصلاً ان ہی کی ہے۔ پاکستان کی سماجی فضا، میرا احساس ہے کہ سیکولرزم کے لیے موزوں نہیں ہے۔ لیکن مذہب کا یہ سوئے استعمال ہوتا رہا اور ہم اس کے مظاہر دیکھتے رہے تو کچھ بعید نہیں کہ فضا بدل جائے۔ لوگ اہلِ مذہب کی سیاسی قیادت قبول نہیں کرتے، لیکن ان کی مذہبی دعوت پر لبیک کہتے ہیں۔ مدارس کا یہ غیرمعمولی نظام عوام کی تائید ہی سے قائم ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ لوگ مذہب کو اپنی ضرورت سمجھتے ہیں، لیکن اگر مذہب سیاست اور مادی مفادات کے لیے استعمال ہونے لگا تو پھر کیا خبر کہ لوگ اس سے نجات کی صورت تلاش کرنے لگیں۔ مغرب میں لوگ مذہب سے نہیں، اہلِ مذہب سے نالاں تھے۔ اہلِ کلیسا نے جب مذہب کو اقتدار اور مفاد کے لیے جنسِ بازار بناڈالا توپھر ردِ عمل ہوا اور آج مذہب سماج میں اجنبی ہے۔


پاکستان میں شاید اسلام اور سیکولرزم کی بحث کبھی نہ اٹھتی، اگر مذہب کو ادنیٰ خواہشوں کا اسیر نہ بنایا جاتا۔ جس ملک کی ۷۹ فی صد آبادی مسلمان ہو، وہاں یہ سوال بے معنی تھا کہ سیاست ومعیشت میں اسلام کی حیثیت کیا ہوگی۔ انحرافات اب بھی ہیں اور رہیں گے۔ ان کا تعلق اس سے نہیں ہے کہ لوگ اسلام نہیں چاہتے، یہ سب دراصل فکری وسیاسی بانجھ پن کا حاصل ہے۔اس عارضے کا علاج اگر پیش نظر رہتا تو شاید کسی سیاسی تحریک کی حاجت نہ ہوتی۔


مذہب ہمارے ہاں آج بھی متنازع نہیں ہے۔ تنازع ہے تو تعبیرات کا یا پھر سماجی رویوں کا۔ تعصب، تنگ نظری، غرورِ تقویٰ،خبط عظمت، کسی سماجی عالم سے پوچھ لیجیے، مذہبی نہیں سماجی عوارض ہیں۔ ان کا تعلق انسانی رویے سے ہے۔ اگر ان کا ظہور سیاست کے باب میں ہو تو اس کا نتیجہ بھی وہی ہوگا جو ہم مذہبی حوالے سے دیکھ رہے ہیں۔ فتنہ، فساد فی الارض اور انسانی جان ومال کی ارزانی۔ کراچی میں مذہب مسئلہ نہیں لیکن یہ سب عوارض موجود ہیں۔ وہاں عنوان مذہب نہیں لسانیت یا قومیت ہے۔


آج پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان میں سے نوے فی صد غیرمذہبی ہیں۔ ہم ان کی مذہبی تعبیر کرتے ہیں۔ یہ حاصل ہے سوئے فہم کا یا پھر کسی مفاد کا۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی اخلاص کی دولت رکھتا ہے لیکن ذہنی افلاس کا شکار ہو۔ یہ مظاہر تو ہم دیکھ چکے کہ مذہب سیاست کے لیے استعمال ہوتا ہے اور زمین پر قبضے کے لیے بھی۔ میں یہ جان کر حیران ہوا کہ کراچی میں لوگ دینی مدرسہ سال دوسال ٹھیکے پر دے دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہی کچھ ہوگا جو رمشا کے مقدمے میں ہوا۔


یہ سنجیدہ سوال ہے کہ وہ الہام جو انسان کی ضرورت اور اس کے وجودی مطالبات کا فطری جواب ہے، آج کیا سبب ہے کہ سماج کے اکثر مسائل اس سے منسوب ہورہے ہیں؟ نعمت زحمت کیوں بن رہی ہے؟ سوچتاہوں تو جواب ملتا ہے کہ اجتماعی اندازِ فکر میں ایک جوہری تبدیلی (Paradigm Shift)ناگزیر ہوچکی۔ ہم اپنی مذہبی تعبیر کی نظر سے سماج کو دیکھتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اب سماج کی نگاہ سے اپنی مذہبی تعبیر کو دیکھیں۔ مذہب جب فطری مطالبات کو مخاطب کرتا ہے تو اس کا پیغام غیرمتبدل ہے۔ وہ جب سماج سے متعلق ہوتا ہے تو تفصیلات انسانی عقل پر چھوڑ دیتا ہے۔ فطری مطالبات کا جواب شریعت ہے اور سماجی تعبیرات کا فقہ۔ ہماری روایت یہی ہے۔ اس فرق کو نظر انداز کرنے کا حاصل یہ ہے کہ مسائل مذہب سے منسوب ہونے لگے ہیں، ان کا حل نہیں۔


رمشا کے مقدمے نے ، مذہب کے باب میں ہمارے طرزِ عمل اور اندازِ فکر کو ایک بار پھر موضوعِ بحث بنادیا ہے۔اب لازم ہوگیا ہے کہ مذہب کے سماجی کردار پر سنجیدہ گفتگو ہو۔ علما اور وہ لوگ، جن کا تعارف مذہب ہے، انہیں آگے بڑھنا چاہیے۔ کیا اس سے بڑھ کر بھی مذہب پر کوئی مشکل وقت آنا ہے کہ اس کی آبرو کو جنسِ بازار بنادیا جائے۔ اس پر کم از کم حیرت تو ہونی چاہیے!

Khurshid-day5-web.jpg