Zia Hydari
Chief Minister (5k+ posts)
شب برات اور حلوہ
پاکستان میں شبِ برات کے حوالے سے اور اس دن کئے جانے والے اعمال کی بابت کچھ لوگ اسے بدعت قرار دیتے ہیں۔ اس رات آپ، نفل نماز پڑھیں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں ، ذکرکریں ، تسبیح پڑھیں ، دعائیں کریں ، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں۔
شبِ برات میں قبرستان جانا، حدیث سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ جنت البقیع میں تشریف لے گئے، اب چونکہ حضور ﷺ اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے ہیں کہ قبرستان جایا جائے۔
اللہ کے رسول ﷺ شعبان کے روزے کا بہت خیال رکھتے تھے اور اس ماہ بہت کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے۔
۔عَنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ اَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا حَدَّثَـتْـہُ قَالَتْ لَمْ یَکُنِ النَّبِیُّ ﷺ یَصُوْمُ شَھْرًا اَکْثَرَ مِنْ شَعْبَانَ فَاِنَّـہٗ کَانَ یَصُوْمُ شَعْبَانَ کُلَّہٗ وَ کَانَ یَقُوْلُ: ((خُذُوْا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِیْقُوْنَ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَمَلُّ حَتّٰی تَمَلُّوْا)) (صحیح البخاری‘ کتاب الصوم‘باب صوم شعبان۔)
’’حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ اللہ کے نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہ رکھتے تھے ۔آپؐ شعبان کا سارا مہینہ روزے رکھتے اور کہا کرتے تھے :’’اتنا عمل کروجس کی تم استطاعت رکھتے ہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ (اجر دینے سے) نہیں اُکتاتا ‘یہاں تک کہ تم (عمل سے) اکتاجاؤ۔
‘‘
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : (( اِذَا بَقِیَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُوْمُوْا)) (جامع الترمذی‘ابواب الصوم عن رسول اللہﷺ‘ باب ما جاء فی کراھیۃ الصوم فی النصف الثانی من شعبان۔)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’جب نصف شعبان باقی رہ جائے (یعنی نصف شعبان گزر جائے) تو روزہ نہ رکھو۔‘‘
اس حدیثِ مبارکہ میں اللہ کے رسول ﷺ نے نصف شعبان کے بعد اپنی اُمت کو اس لیے روزہ رکھنے سے منع فرمایاکہ مبادارمضان کے فرض روزوں میں کوتاہی اور سستی ہوجائے۔
ہمارے معاشرے میں شب برات کے حوالے سے چراغاں کرنا اور پٹاخے چھوڑنا بدعات پائی جاتی ہیںجن کی نقل و عقل میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
چراغاں کرنا اور پٹاخے چھوڑنا ایک بری رسم ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ رسم ہندوؤں اور آتش پرست مجوسیوںسے مشابہت ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
((مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ ))
(سنن ابی داوٗد‘کتاب اللباس‘ باب فی لبس الشھرۃ۔ و مسند احمد۔)
’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے (یعنی اس کا مجھ سے او ر دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے )۔‘‘
شب برات پر حلوہ پکانا اور کھانا ایک مباح امر ہے ۔آپ سال بھر میں ہر روز اسے پکا اور کھا سکتے ہیں‘ لیکن شب برات میں حلوہ پکانے کو حرام قرار دینے سے متعلق کوئی حدیث میری نظر سے نہیں گذری ہے۔ ہمارے دین میں حرام اور حلال کے احکامات بالکل واضح ہیں، کسی شخص کو اس میں ترمیم یا اضافہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
حلوہ بنانے اور کھانے میں کوئی گناہ نہیں ہے ‘لیکن ایک مخصوص فرقہ اس کی مخالفت اس بنا پر کرتا ہے کہ یہ ایک ہندوانہ رسم ہے۔ اسلام میں اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی اسے ایصال ثواب کے طور پر کرتا ہے، یا یہ سوچ کر کرتا ہے کہ رسول اللہﷺ کو مرغوب تھا تو یہ احسن امر ہے۔
پاکستان میں شبِ برات کے حوالے سے اور اس دن کئے جانے والے اعمال کی بابت کچھ لوگ اسے بدعت قرار دیتے ہیں۔ اس رات آپ، نفل نماز پڑھیں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں ، ذکرکریں ، تسبیح پڑھیں ، دعائیں کریں ، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں۔
شبِ برات میں قبرستان جانا، حدیث سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ جنت البقیع میں تشریف لے گئے، اب چونکہ حضور ﷺ اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے ہیں کہ قبرستان جایا جائے۔
اللہ کے رسول ﷺ شعبان کے روزے کا بہت خیال رکھتے تھے اور اس ماہ بہت کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے۔
۔عَنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ اَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا حَدَّثَـتْـہُ قَالَتْ لَمْ یَکُنِ النَّبِیُّ ﷺ یَصُوْمُ شَھْرًا اَکْثَرَ مِنْ شَعْبَانَ فَاِنَّـہٗ کَانَ یَصُوْمُ شَعْبَانَ کُلَّہٗ وَ کَانَ یَقُوْلُ: ((خُذُوْا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِیْقُوْنَ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَمَلُّ حَتّٰی تَمَلُّوْا)) (صحیح البخاری‘ کتاب الصوم‘باب صوم شعبان۔)
’’حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ اللہ کے نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہ رکھتے تھے ۔آپؐ شعبان کا سارا مہینہ روزے رکھتے اور کہا کرتے تھے :’’اتنا عمل کروجس کی تم استطاعت رکھتے ہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ (اجر دینے سے) نہیں اُکتاتا ‘یہاں تک کہ تم (عمل سے) اکتاجاؤ۔
‘‘
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : (( اِذَا بَقِیَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُوْمُوْا)) (جامع الترمذی‘ابواب الصوم عن رسول اللہﷺ‘ باب ما جاء فی کراھیۃ الصوم فی النصف الثانی من شعبان۔)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’جب نصف شعبان باقی رہ جائے (یعنی نصف شعبان گزر جائے) تو روزہ نہ رکھو۔‘‘
اس حدیثِ مبارکہ میں اللہ کے رسول ﷺ نے نصف شعبان کے بعد اپنی اُمت کو اس لیے روزہ رکھنے سے منع فرمایاکہ مبادارمضان کے فرض روزوں میں کوتاہی اور سستی ہوجائے۔
ہمارے معاشرے میں شب برات کے حوالے سے چراغاں کرنا اور پٹاخے چھوڑنا بدعات پائی جاتی ہیںجن کی نقل و عقل میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
چراغاں کرنا اور پٹاخے چھوڑنا ایک بری رسم ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ رسم ہندوؤں اور آتش پرست مجوسیوںسے مشابہت ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
((مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ ))
(سنن ابی داوٗد‘کتاب اللباس‘ باب فی لبس الشھرۃ۔ و مسند احمد۔)
’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے (یعنی اس کا مجھ سے او ر دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے )۔‘‘
شب برات پر حلوہ پکانا اور کھانا ایک مباح امر ہے ۔آپ سال بھر میں ہر روز اسے پکا اور کھا سکتے ہیں‘ لیکن شب برات میں حلوہ پکانے کو حرام قرار دینے سے متعلق کوئی حدیث میری نظر سے نہیں گذری ہے۔ ہمارے دین میں حرام اور حلال کے احکامات بالکل واضح ہیں، کسی شخص کو اس میں ترمیم یا اضافہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
حلوہ بنانے اور کھانے میں کوئی گناہ نہیں ہے ‘لیکن ایک مخصوص فرقہ اس کی مخالفت اس بنا پر کرتا ہے کہ یہ ایک ہندوانہ رسم ہے۔ اسلام میں اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی اسے ایصال ثواب کے طور پر کرتا ہے، یا یہ سوچ کر کرتا ہے کہ رسول اللہﷺ کو مرغوب تھا تو یہ احسن امر ہے۔
Last edited: