شب برات اور حلوہ

Status
Not open for further replies.

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)
شب برات اور حلوہ
پاکستان میں شبِ برات کے حوالے سے اور اس دن کئے جانے والے اعمال کی بابت کچھ لوگ اسے بدعت قرار دیتے ہیں۔ اس رات آپ، نفل نماز پڑھیں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں ، ذکرکریں ، تسبیح پڑھیں ، دعائیں کریں ، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں۔
شبِ برات میں قبرستان جانا، حدیث سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ جنت البقیع میں تشریف لے گئے، اب چونکہ حضور ﷺ اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے ہیں کہ قبرستان جایا جائے۔
اللہ کے رسول ﷺ شعبان کے روزے کا بہت خیال رکھتے تھے اور اس ماہ بہت کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے۔

۔
عَنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ اَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا حَدَّثَـتْـہُ قَالَتْ لَمْ یَکُنِ النَّبِیُّ ﷺ یَصُوْمُ شَھْرًا اَکْثَرَ مِنْ شَعْبَانَ فَاِنَّـہٗ کَانَ یَصُوْمُ شَعْبَانَ کُلَّہٗ وَ کَانَ یَقُوْلُ: ((خُذُوْا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِیْقُوْنَ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَمَلُّ حَتّٰی تَمَلُّوْا)) (صحیح البخاری‘ کتاب الصوم‘باب صوم شعبان۔)
’’حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ اللہ کے نبی ﷺ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہ رکھتے تھے ۔آپؐ شعبان کا سارا مہینہ روزے رکھتے اور کہا کرتے تھے :’’اتنا عمل کروجس کی تم استطاعت رکھتے ہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ (اجر دینے سے) نہیں اُکتاتا ‘یہاں تک کہ تم (عمل سے) اکتاجاؤ۔
‘‘
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : (( اِذَا بَقِیَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُوْمُوْا)) (جامع الترمذی‘ابواب الصوم عن رسول اللہﷺ‘ باب ما جاء فی کراھیۃ الصوم فی النصف الثانی من شعبان۔)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’جب نصف شعبان باقی رہ جائے (یعنی نصف شعبان گزر جائے) تو روزہ نہ رکھو۔‘‘

اس حدیثِ مبارکہ میں اللہ کے رسول ﷺ نے نصف شعبان کے بعد اپنی اُمت کو اس لیے روزہ رکھنے سے منع فرمایاکہ مبادارمضان کے فرض روزوں میں کوتاہی اور سستی ہوجائے۔
ہمارے معاشرے میں شب برات کے حوالے سے
چراغاں کرنا اور پٹاخے چھوڑنا بدعات پائی جاتی ہیںجن کی نقل و عقل میں کوئی دلیل نہیں ہے۔
چراغاں کرنا اور پٹاخے چھوڑنا ایک بری رسم ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ رسم ہندوؤں اور آتش پرست مجوسیوںسے مشابہت ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
((
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ ))
(سنن ابی داوٗد‘کتاب اللباس‘ باب فی لبس الشھرۃ۔ و مسند احمد۔)
’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے (یعنی اس کا مجھ سے او ر دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے )۔‘‘
شب برات پر حلوہ پکانا اور کھانا ایک مباح امر ہے ۔آپ سال بھر میں ہر روز اسے پکا اور کھا سکتے ہیں‘ لیکن شب برات میں حلوہ پکانے کو حرام قرار دینے سے متعلق کوئی حدیث میری نظر سے نہیں گذری ہے۔ ہمارے دین میں حرام اور حلال کے احکامات بالکل واضح ہیں، کسی شخص کو اس میں ترمیم یا اضافہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
حلوہ بنانے اور کھانے میں کوئی گناہ نہیں ہے ‘لیکن ایک مخصوص فرقہ اس کی مخالفت اس بنا پر کرتا ہے کہ یہ ایک ہندوانہ رسم ہے۔ اسلام میں اعمال کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے، لیکن اگر کوئی اسے ایصال ثواب کے طور پر کرتا ہے، یا یہ سوچ کر کرتا ہے کہ رسول اللہﷺ کو مرغوب تھا تو یہ احسن امر ہے۔


 
Last edited:

such bolo

Chief Minister (5k+ posts)
نصف شعبان کو قبرستان جانے کی حقیقت

ہ1—حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے نبی کریم*صلی اللہ علیہ وسلم**کو اپنے پہلو سے غائب پایا ،تلاش کیا تو آپ بقیع [ قبرستان] سے تشریف لا رہے**تھے ، واپس آئے تو آپ نے فرمایا:*
اے عائشہ کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول تمہارے ساتھ نا انصافی سے کام لیں گے [ کہ میں تمھاری باری میں کسی اوربیوی کے یہاں شب باشی کے لئے چلا جاوں گا،] میں نے کہا اے اللہ کے رسول*صلی اللہ علیہ وسلم**میں یہ سمجھی کہ آپ اپنی کسی اور بیوی کے پاس چلے گئے ہیں، آپ*صلی اللہ علیہ وسلم*نے فرمایا**: نہیں ایسی بات نہیں ہے ،[بلکہ حقیقت یہ ہےکہ] اللہ تبارک وتعالی نصف شعبان کی شب کو سمائے دنیا پر نازل ہوتا ہے اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادکے برابر لوگوں کو بخش دیتا ہے۔*****

سنن الترمذي: 739 الصوم، سنن ابن ماجة: 1389 الصلاة، مسند احمد6/238.

امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں "اور میں نے**محمد [ امام بخاری] سے سنا**وہ اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس حدیث کو عروۃ سے [ روایت کرنے والے راوی ] یحیی ابن ابی کثیر نے نہیں سنا ہے، اور نہ ہی یحیی بن ابی کثیرسے [**روایت کرنے والےراوی ] حجاج بن ارطاۃ نے**ان سے سنا ہے"۔*

سنن الترمذی3/117۔

ه2—حضرت علی رضی اللہ عنہ**سے روایت ہے کہ رسول اللہ*صلی اللہ علیہ وسلم**نے فرمایا:*( إذا كانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلهاوصوموا نهارها).سنن ابن ماجة: 1388 الصلاة.

***ترجمہ : جب شعبان کی پندرہویں**شب ہو تو اس رات**کا قیام کرو اور اس دن کا روزہ رکھو۔

یہ حدیث باتفاق علما سخت ضعیف بلکہ موضوع ہے، کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی اسحاق بن ابوسبرہ ہے جو حدیثیں گھڑ کر بیان کرتا تھا۔*دیکھئے مصباح الزجاجہ للبوصیری 1/247خ الضعیفہ للالبانی رقم:2132َ۔

*اسلامی شریعت میں کسی بھی دن ،کسی بھی مہینہ اور کسی بھی وقت قبرستان جانا اور اہل قبور کے لئے دعاء مغفرت کرنا جائز ودرست ہے ۔لیکن کسی دن،رات ،کسی مہینہ اور کسی وقت کو مخصوص کر لینا غیر شرعی فعل ہے ۔
پندرھویں شعبان میں قبرستان جانے کا اہتمام کرنا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔جیسا کہ آپ نے اوپر دیکھا ۔اورپھر اس ضعیف روایت سے بھی ثابت نہیں ہوتا ہے کہ افراد امت جو ق در جوق قبرستان جاکر چراغاں کریں ۔

مسلمانوں کو غور کرنا چاہئے کہ اس رات قبرستان جانا کسی صحابی سے بھی ثابت نہیں ۔صحابہ نے تو اس رات گهروں میں آرام کیا اور ہم لوگ قبرستان کے چکر لگائیں ۔تو کیا ہم نیکی حاصل کرنے میں صحابہ سے بھی آگے ہیں
 
Last edited:
نصف شعبان کو قبرستان جانے کی حقیقت

ہ1—حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے نبی کریم*صلی اللہ علیہ وسلم**کو اپنے پہلو سے غائب پایا ،تلاش کیا تو آپ بقیع [ قبرستان] سے تشریف لا رہے**تھے ، واپس آئے تو آپ نے فرمایا:*
اے عائشہ کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول تمہارے ساتھ نا انصافی سے کام لیں گے [ کہ میں تمھاری باری میں کسی اوربیوی کے یہاں شب باشی کے لئے چلا جاوں گا،] میں نے کہا اے اللہ کے رسول*صلی اللہ علیہ وسلم**میں یہ سمجھی کہ آپ اپنی کسی اور بیوی کے پاس چلے گئے ہیں، آپ*صلی اللہ علیہ وسلم*نے فرمایا**: نہیں ایسی بات نہیں ہے ،[بلکہ حقیقت یہ ہےکہ] اللہ تبارک وتعالی نصف شعبان کی شب کو سمائے دنیا پر نازل ہوتا ہے اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادکے برابر لوگوں کو بخش دیتا ہے۔*****

سنن الترمذي: 739 الصوم، سنن ابن ماجة: 1389 الصلاة، مسند احمد6/238.

امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں "اور میں نے**محمد [ امام بخاری] سے سنا**وہ اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس حدیث کو عروۃ سے [ روایت کرنے والے راوی ] یحیی ابن ابی کثیر نے نہیں سنا ہے، اور نہ ہی یحیی بن ابی کثیرسے [**روایت کرنے والےراوی ] حجاج بن ارطاۃ نے**ان سے سنا ہے"۔*

سنن الترمذی3/117۔

ه2—حضرت علی رضی اللہ عنہ**سے روایت ہے کہ رسول اللہ*صلی اللہ علیہ وسلم**نے فرمایا:*( إذا كانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلهاوصوموا نهارها).سنن ابن ماجة: 1388 الصلاة.

***ترجمہ : جب شعبان کی پندرہویں**شب ہو تو اس رات**کا قیام کرو اور اس دن کا روزہ رکھو۔

یہ حدیث باتفاق علما سخت ضعیف بلکہ موضوع ہے، کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی اسحاق بن ابوسبرہ ہے جو حدیثیں گھڑ کر بیان کرتا تھا۔*دیکھئے مصباح الزجاجہ للبوصیری 1/247خ الضعیفہ للالبانی رقم:2132َ۔

*اسلامی شریعت میں کسی بھی دن ،کسی بھی مہینہ اور کسی بھی وقت قبرستان جانا اور اہل قبور کے لئے دعاء مغفرت کرنا جائز ودرست ہے ۔لیکن کسی دن،رات ،کسی مہینہ اور کسی وقت کو مخصوص کر لینا غیر شرعی فعل ہے ۔
پندرھویں شعبان میں قبرستان جانے کا اہتمام کرنا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔جیسا کہ آپ نے اوپر دیکھا ۔اورپھر اس ضعیف روایت سے بھی ثابت نہیں ہوتا ہے کہ افراد امت جو ق در جوق قبرستان جاکر چراغاں کریں ۔

مسلمانوں کو غور کرنا چاہئے کہ اس رات قبرستان جانا کسی صحابی سے بھی ثابت نہیں ۔صحابہ نے تو اس رات گهروں میں آرام کیا اور ہم لوگ قبرستان کے چکر لگائیں ۔تو کیا ہم نیکی حاصل کرنے میں صحابہ سے بھی آگے ہیں
lol .. issay kehtay hain aqal say paidal ... naiki k kam mai bhe dalel mangna aesay he hai jaisay ghada insan say kahay apnay aqal mand hounay ki dalel lao .... moulana tariq jameel or zakir naik jo universities mai jakar lecture dytay hain ye kounsay sahabi say sabit hai ...ye tou najaiz howa phr ?? tm logo ko deen samjh he nahe aya 1400 saal bad bhe ....tm jo bhe karo chahay wo sahaba nay kiya hou ya nahe wo jaiz hai magar koe or kuch karay tou wo najaiz .....kisi sahabi nay 40 roza chilla kata ?? tm log kyu kattay hou 40 roza chilla ... biddat
 

Veila Mast

Senator (1k+ posts)
اللہ کی یاد سے غافل کرنے کو نجانے یار لوگ کس کس حیلوں بہانوں سے اس امت کو گمراہ کرتے ہیں،وہی رٹی رٹائی دلیل جی کسی صحابی سے عمل ثابت نہیں، جو عمل صحابی سے ثابت ہو جیسے بیس تراویح وہاں یہ دغا کرتے ہیں جی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو جیسے سوموار کو روزہ رکھنا کہ اس دن آپ اس دنیا میں تشریف لائے تو کہا جاتا ہے جی یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تو ہے مگر کسی صحابی سے ثابت نہیں تو کیا آپ صحابہ سے زیادہ "عاشق" ہیں

الامان الحفیظ

تاسف تو یہ توحید کے نام پر یار لوگ اللہ کی مسجدوں سے ہی لوگوں کو بگھاتے ہیں، اب ذرا یہ فرما دیں جو اصول آپ نے بیان کیا ہے کہ کسی دن کو یا کسی گھڑی کو کسی مہینے کو مخصوص کر لینا "غیر شرعی" ہے کہاں سے ثابت ہے؟

مدینہ منورہ میں جو ہفتے میں دو بار افطاری کی صفیں بنتی ہیں، ذرا موصوف اس پر روشنی ڈالنا پسند فرمائیں گے کہ ان دو دنوں کو کیونکر مخصوص کیا اور ان کے متعلق کیا خیال ہے؟
 

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
lol .. issay kehtay hain aqal say paidal ... naiki k kam mai bhe dalel mangna aesay he hai jaisay ghada insan say kahay apnay aqal mand hounay ki dalel lao .... moulana tariq jameel or zakir naik jo universities mai jakar lecture dytay hain ye kounsay sahabi say sabit hai ...ye tou najaiz howa phr ?? tm logo ko deen samjh he nahe aya 1400 saal bad bhe ....tm jo bhe karo chahay wo sahaba nay kiya hou ya nahe wo jaiz hai magar koe or kuch karay tou wo najaiz .....kisi sahabi nay 40 roza chilla kata ?? tm log kyu kattay hou 40 roza chilla ... biddat

الله تعالی ہم سب کو دین کی سمجھ عطا فرمائے
 
اللہ کی یاد سے غافل کرنے کو نجانے یار لوگ کس کس حیلوں بہانوں سے اس امت کو گمراہ کرتے ہیں،وہی رٹی رٹائی دلیل جی کسی صحابی سے عمل ثابت نہیں، جو عمل صحابی سے ثابت ہو جیسے بیس تراویح وہاں یہ دغا کرتے ہیں جی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو جیسے سوموار کو روزہ رکھنا کہ اس دن آپ اس دنیا میں تشریف لائے تو کہا جاتا ہے جی یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت تو ہے مگر کسی صحابی سے ثابت نہیں تو کیا آپ صحابہ سے زیادہ "عاشق" ہیں

الامان الحفیظ

تاسف تو یہ توحید کے نام پر یار لوگ اللہ کی مسجدوں سے ہی لوگوں کو بگھاتے ہیں، اب ذرا یہ فرما دیں جو اصول آپ نے بیان کیا ہے کہ کسی دن کو یا کسی گھڑی کو کسی مہینے کو مخصوص کر لینا "غیر شرعی" ہے کہاں سے ثابت ہے؟

مدینہ منورہ میں جو ہفتے میں دو بار افطاری کی صفیں بنتی ہیں، ذرا موصوف اس پر روشنی ڈالنا پسند فرمائیں گے کہ ان دو دنوں کو کیونکر مخصوص کیا اور ان کے متعلق کیا خیال ہے؟
shaitan nay in ko choo k bavla kiya howa hai ...in ki samjh nahe aeygi ,,,, ye bahanay bahanay say musalmano ko roukaingay ebadatoun say takay is din bhe musalman in ki tarhan indian ya hollywood movie dykh kar soujain har roz ki tarhan ...
 

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)
نصف شعبان کو قبرستان جانے کی حقیقت

ہ1—حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے نبی کریم*صلی اللہ علیہ وسلم**کو اپنے پہلو سے غائب پایا ،تلاش کیا تو آپ بقیع [ قبرستان] سے تشریف لا رہے**تھے ، واپس آئے تو آپ نے فرمایا:*
اے عائشہ کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول تمہارے ساتھ نا انصافی سے کام لیں گے [ کہ میں تمھاری باری میں کسی اوربیوی کے یہاں شب باشی کے لئے چلا جاوں گا،] میں نے کہا اے اللہ کے رسول*صلی اللہ علیہ وسلم**میں یہ سمجھی کہ آپ اپنی کسی اور بیوی کے پاس چلے گئے ہیں، آپ*صلی اللہ علیہ وسلم*نے فرمایا**: نہیں ایسی بات نہیں ہے ،[بلکہ حقیقت یہ ہےکہ] اللہ تبارک وتعالی نصف شعبان کی شب کو سمائے دنیا پر نازل ہوتا ہے اور بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادکے برابر لوگوں کو بخش دیتا ہے۔*****

سنن الترمذي: 739 الصوم، سنن ابن ماجة: 1389 الصلاة، مسند احمد6/238.

امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں "اور میں نے**محمد [ امام بخاری] سے سنا**وہ اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس حدیث کو عروۃ سے [ روایت کرنے والے راوی ] یحیی ابن ابی کثیر نے نہیں سنا ہے، اور نہ ہی یحیی بن ابی کثیرسے [**روایت کرنے والےراوی ] حجاج بن ارطاۃ نے**ان سے سنا ہے"۔*

سنن الترمذی3/117۔

ه2—حضرت علی رضی اللہ عنہ**سے روایت ہے کہ رسول اللہ*صلی اللہ علیہ وسلم**نے فرمایا:*( إذا كانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلهاوصوموا نهارها).سنن ابن ماجة: 1388 الصلاة.

***ترجمہ : جب شعبان کی پندرہویں**شب ہو تو اس رات**کا قیام کرو اور اس دن کا روزہ رکھو۔

یہ حدیث باتفاق علما سخت ضعیف بلکہ موضوع ہے، کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی اسحاق بن ابوسبرہ ہے جو حدیثیں گھڑ کر بیان کرتا تھا۔*دیکھئے مصباح الزجاجہ للبوصیری 1/247خ الضعیفہ للالبانی رقم:2132َ۔

*اسلامی شریعت میں کسی بھی دن ،کسی بھی مہینہ اور کسی بھی وقت قبرستان جانا اور اہل قبور کے لئے دعاء مغفرت کرنا جائز ودرست ہے ۔لیکن کسی دن،رات ،کسی مہینہ اور کسی وقت کو مخصوص کر لینا غیر شرعی فعل ہے ۔
پندرھویں شعبان میں قبرستان جانے کا اہتمام کرنا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے ۔جیسا کہ آپ نے اوپر دیکھا ۔اورپھر اس ضعیف روایت سے بھی ثابت نہیں ہوتا ہے کہ افراد امت جو ق در جوق قبرستان جاکر چراغاں کریں ۔

مسلمانوں کو غور کرنا چاہئے کہ اس رات قبرستان جانا کسی صحابی سے بھی ثابت نہیں ۔صحابہ نے تو اس رات گهروں میں آرام کیا اور ہم لوگ قبرستان کے چکر لگائیں ۔تو کیا ہم نیکی حاصل کرنے میں صحابہ سے بھی آگے ہیں


ماہِ شعبان کی فضیلت میں بہت سی موضوع روایات کی موجودگی کے علاوہ احسن روایات بھی ہیں، میں نے تھریڈ میں کوئی موضوع روایت نہیں لکھی ہے، اور نہ لکھنا چاہئے۔
ان احادیث کی روشنی میں شعبان کی عبادت ثابت ہے۔ آپ ایسی کوئی بھی حدیث پیش نہیں کر سکے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہو کہ قبرستان جانا، روزہ رکھنا اور حلوہ کھانا حرام ہو،
اللہ کو بندے کا وہ عمل پسند ہے جو تواتر سے ہوتا ہو، چاہے وہ قلیل ہو۔
 

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)
lol .. issay kehtay hain aqal say paidal ... naiki k kam mai bhe dalel mangna aesay he hai jaisay ghada insan say kahay apnay aqal mand hounay ki dalel lao .... moulana tariq jameel or zakir naik jo universities mai jakar lecture dytay hain ye kounsay sahabi say sabit hai ...ye tou najaiz howa phr ?? tm logo ko deen samjh he nahe aya 1400 saal bad bhe ....tm jo bhe karo chahay wo sahaba nay kiya hou ya nahe wo jaiz hai magar koe or kuch karay tou wo najaiz .....kisi sahabi nay 40 roza chilla kata ?? tm log kyu kattay hou 40 roza chilla ... biddat


دوسری صدی ہجری میں معتزلہ فرقہ وجود میں آیا تھا جو حدیث کو نہیں مانتا تھا، اٹھارویں صدی عیسوی میں وہابی ازم وجود میں ایا تھا، جو مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی یہود و نصاریٰ کی سازش ہے، یہ بنیادی طور پر رسول اللہﷺ سے مسلمان کی محبت کے خلاف سازش کرتے ہیں، ان کے پاس حدیث نہیں ہوتی ہے بلکہ تاویلات سے مسلمانوں کو بدعتی کافر اور مشرک قرار دیتے ہیں، جب وہابی ازم کی پول کھل گئی تو اب ہند و پاکستان میں انہوں نے دیوبندی کے نام سے کام شروع کردیا۔

 

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)
الله تعالی ہم سب کو دین کی سمجھ عطا فرمائے


فرمانِ باری تعالی ہے: ( يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ... )

ترجمہ: لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ان کےلئے کیا کچھ حلال کیا گیا ہے؟ آپ ان سے کہئے کہ تمام پاکیزہ چیزیں تمہارے لیے حلال کردی گئی ہیں۔۔۔ المائدة/ 4

اللہ تعالی نے جس چیز کو بھی حلال قرار دیا ہے، اس کو کوئی بھی شخص حرام نہیں کہہ سکتا ہے، مین جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کے پاس ایسی کوئی حدیث ہے جس میں شب برات کو حلوہ کھانا حرام قرار دیا گیا ہو؟
 

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)
lol .. issay kehtay hain aqal say paidal ... naiki k kam mai bhe dalel mangna aesay he hai jaisay ghada insan say kahay apnay aqal mand hounay ki dalel lao .... moulana tariq jameel or zakir naik jo universities mai jakar lecture dytay hain ye kounsay sahabi say sabit hai ...ye tou najaiz howa phr ?? tm logo ko deen samjh he nahe aya 1400 saal bad bhe ....tm jo bhe karo chahay wo sahaba nay kiya hou ya nahe wo jaiz hai magar koe or kuch karay tou wo najaiz .....kisi sahabi nay 40 roza chilla kata ?? tm log kyu kattay hou 40 roza chilla ... biddat


طارق جمیل جھوٹی حدیث بیان کرتا ہے اپنی طرف سے گھڑ کر اس طرح بات کرتا ہے کہ لو گ اسے دین کی بات سمجھتے ہیں، میں نے جب بھی اس کی نشاندہی کری تو ان لوگوں کو برا لگا اور بجائے جواب دینے کے مجھ پر جھوٹ باندھا شیعہ ہونے کا۔

 

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)

[TD="class: right, bgcolor: #99CC33"][/TD]

[TD="class: right, bgcolor: #FFFF99"][/TD]

[TD="class: left, bgcolor: #FFFFCC"][/TD]
[TD="bgcolor: #FFFFCC"] (ف 1) سورۃ مائدہ مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی سوائے آیت (اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۝) 5- المآئدہ:3) کے یہ آیت روز عرفہ حجّۃ الوداع میں نازل ہوئی اور سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خطبہ میں اس کو پڑھا ، اس میں ایک سو بیس آیتیں اور بارہ ہزار چار سو چونسٹھ حرف ہیں ۔
(ف 2) عقود کے معنی میں مفسرین کے چند قول ہیں ابن جریر نے کہا کہ اہل کتاب کو خطاب فرمایا گیا ہے معنی یہ ہیں کہ اے مؤمنین اہل کتاب میں نے کتب متقدمہ میں سید عالم محمد مصطفٰے (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لانے اور آپ کی اطاعت کرنے کے متعلق جو تم سے عہد لئے ہیں وہ پورے کرو ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ خطاب مؤمنین کو ہے انہیں عقود کے وفا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ان عقود سے مراد ایمان اور وہ عہد ہیں جو حرام و حلال کے متعلق قرآن پاک میں لئے گئے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس میں مؤمنین کے باہمی معاہدے مراد ہیں ۔
(ف 3) یعنی جن کی حرمت شریعت میں وارد ہوئی ان کے سوا تمام چوپائے تمہارے لئے حلال کئے گئے ۔
(ف 4) مسئلہ : کہ خشکی کا شکار حالت احرام میں حرام ہے اور دریائی شکار جائز ہے جیسا کہ اس سورۃ کے آخر میں آئے گا ۔

[/TD]
 
Last edited:

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)

[TD="class: right"][/TD]

[TD="class: left, bgcolor: #99CC33"][/TD]
[TD="bgcolor: #99CC33"] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّن رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ۚ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَن صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَن تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿2﴾
[/TD]
[TD="class: right, bgcolor: #99CC33"][/TD]

[TD="class: left, bgcolor: #FFFF99"][/TD]
[TD="bgcolor: #FFFF99"] اے ایمان والو! حلال نہ ٹھہرالو اللہ کے نشان (ف۵) اور نہ ادب والے مہینے (ف۶) اور نہ حرم کو بھیجی ہوئی قربانیاں اور نہ (ف۷) جن کے گلے میں علامتیں آویزاں (ف۸) اور نہ ان کا مال و آبرو جو عزت والے گھر کا قصد کرکے آئیں (ف۹) اپنے رب کا فضل اوراس کی خوشی چاہتے اور جب احرام سے نکلو تو شکار کرسکتے ہو (ف۱۰) اور تمہیں کسی قوم کی عداوت کہ انہوں نے تم کو مسجد حرام سے روکا تھا، زیادتی کرنے پر نہ ابھارے (ف۱۱) اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو (ف۱۲) اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے،
[/TD]
[TD="class: right, bgcolor: #FFFF99"][/TD]

[TD="class: left, bgcolor: #FFFFCC"][/TD]
[TD="bgcolor: #FFFFCC"] (ف 5) اس کے دین کے معالم ، معنی یہ ہیں کہ جو چیزیں اللہ نے فرض کیں اور جو منع فرمائیں سب کی حرمت کا لحاظ رکھو ۔
(ف 6) ماہ ہائے حج جن میں قتال زمانہ جاہلیت میں بھی ممنوع تھا اور اسلام میں بھی یہ حکم باقی رہا ۔
(ف 7) وہ قربانیاں ۔
(ف 8) عرب کے لوگ قربانیوں کے گلے میں حرم شریف کے اشجار کی چھالوں وغیرہ سے گلوبند بن کر ڈالتے تھے تاکہ دیکھنے والے جان لیں کہ یہ حَرَم کو بھیجی ہوئی قربانیاں ہیں اور ان سے تعرُّض نہ کریں ۔
(ف 9) حج و عمرہ کرنے کے لئے ۔
شان نزول : شُریح بن ہند ایک مشہور شقی تھا وہ مدینہ طیبہ میں آیا اور سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا کہ آپ خلق خدا کو کیا دعوت دیتے ہیں ؟ فرمایا اپنے رب کے ساتھ ایمان لانے اور اپنی رسالت کی تصدیق کرنے اور نماز قائم رکھنے اور زکوٰۃ دینے کی ، کہنے لگا بہت اچھی دعوت ہے میں اپنے سرداروں سے رائے لے لوں تو میں بھی اسلام لاؤں گا اور انہیں بھی لاؤں گا ، یہ کہہ کر چلا گیا حضور سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کے آنے سے پہلے ہی اپنے اصحاب کو خبر دے دی تھی کہ قبیلہ ربیعہ کا ایک شخص آنے والا ہے جو شیطانی زبان بولے گا اس کے چلے جانے کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ کافر کا چہرہ لے کر آیا اور غادِر و بدعہد کی طرح پیٹھ پھیر کر گیا یہ اسلام لانے والا نہیں چنانچہ اس نے غدر کیا اور مدینہ شریف سے نکلتے ہوئے وہاں کے مویشی اور اموال لے گیا ، اگلے سال یمامہ کے حاجیوں کے ساتھ تجارت کا کثیر سامان اور حج کی قلادہ پوش قربانیاں لے کر باِرادہ حج نکلا ، سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف لے جا رہے تھے ، راہ میں صحابہ نے شریح کو دیکھا اور چاہا کہ مویشی اس سے واپس لے لیں ، رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے منع فرمایا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور حکم دیا گیا کہ جس کی ایسی شان ہو اس سے تعرُّض نہ چاہئے ۔
(ف 10) یہ بیان اباحت ہے کہ احرام کے بعد شکار مباح ہو جاتا ہے ۔
(ف 11) یعنی اہل مکہ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اور آپ کے اصحاب کو روز حدیبیہ عمرہ سے روکا ، ان کے اس معاندانہ فعل کا تم انتقام نہ لو ۔
(ف 12) بعض مفسرین نے فرمایا جس کا حکم دیا گیا اس کا بجا لانا بِر اور جس سے منع فرمایا گیا اس کو ترک کرنا تقوٰی اور جس کا حکم دیا گیا اس کو نہ کرنا اثم (گناہ) اور جس سے منع کیا گیا اس کا کرنا عدوان (زیادتی) کہلاتا ہے

[/TD]
 
Last edited:

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)

[TD="bgcolor: #99CC33"] حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿3﴾
[/TD]
[TD="class: right, bgcolor: #99CC33"][/TD]

[TD="class: left, bgcolor: #FFFF99"][/TD]
[TD="bgcolor: #FFFF99"] تم پر حرام ہے (ف۱۳) مُردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا اور جو گلا گھونٹنے سے مرے اور بے دھار کی چیز سے مارا ہوا اور جو گر کر مرا اور جسے کسی جانور نے سینگ مارا اور جسے کوئی درندہ کھا گیا مگر جنہیں تم ذبح کرلو، اور جو کسی تھان پر ذبح کیا گیا اور پانسے ڈال کر بانٹا کرنا یہ گناہ کا کا م ہے، آج تمہارے دین کی طرف سے کافروں کی آس نوٹ گئی (ف۱۴) تو اُن سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کردیا (ف۱۵) اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی (ف۱۶) اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا (ف۱۷) تو جو بھوک پیاس کی شدت میں ناچار ہو یوں کہ گناہ کی طرف نہ جھکے (ف۱۸) تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
[/TD]
[TD="class: right, bgcolor: #FFFF99"][/TD]

[TD="class: left, bgcolor: #FFFFCC"][/TD]
[TD="bgcolor: #FFFFCC"] (ف 13) آیت ' اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ ' میں جو استثناء ذکر فرمایا گیا تھا یہاں اس کا بیان ہے اور گیارہ چیزوں کی حرمت کا ذکر کیا گیا ہے ، ایک مردار یعنی جس جانور کے لئے شریعت میں ذبح کا حکم ہو اور وہ بےذبح مر جائے ، ٢ دوسرے بہنے والا خون ،٣ تیسرے سور کا گوشت اور اس کے تمام اجزاء ، چوتھے وہ جانور جس کے ذبح کے وقت غیر خدا کا نام لیا گیا ہو جیسا کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ بتوں کے نام پر ذبح کرتے تھے اور جس جانور کو ذبح تو صرف اللہ کے نام پر کیا گیا ہو مگر دوسرے اوقات میں وہ غیر خدا کی طرف منسوب رہا ہو وہ حرام نہیں جیسے کہ عبد اللہ کی گائے ، عقیقے کا بکرا ، ولیمہ کا جانور یا وہ جانور جن سے اولیاء کی ارواح کو ثواب پہنچانا منظور ہو ، ان کو غیر وقت ذبح میں اولیاء کے ناموں کے ساتھ نامزد کیا جائے مگر ذبح ان کا فقط اللہ کے نام پر ہو اس وقت کسی دوسرے کا نام نہ لیا جائے ، وہ حلال و طیِّب ہیں ۔ اس آیت میں صرف اسی کو حرام فرمایا گیا ہے جس کو ذبح کرتے وقت غیر خدا کا نام لیا گیا ہو ، وہابی جو ذبح کی قید نہیں لگاتے وہ آیت کے معنی میں غلطی کرتے ہیں اور ان کا قول تمام تفاسیر معتبرہ کے خلاف ہے اور خود آیت ان کے معنی کو بننے نہیں دیتی کیونکہ ' مَآ اُھِلَّ بِہٖ ' کو اگر وقت ذبح کے ساتھ مقیّد نہ کریں تو ' اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ' کا استثناء اس کو لاحق ہوگا اور وہ جانور جو غیر وقت ذبح میں غیر خدا کے نام سے موسوم رہا ہو وہ ' اِلَّامَا ذَکَّیْتُمْ' سے حلال ہوگا ، غرض وہابی کو آیت سے سند لانے کی کوئی سبیل نہیں ، پانچواں گلا گھونٹ کر مارا ہوا جانور ، چھٹے وہ جانور جو لاٹھی ، پتھر ، ڈھیلے ، گولی ، چھرے یعنی بغیر دھار دار چیز سے مارا گیا ہو ، ٧ ساتویں جو گر کر مرا ہو خواہ پہاڑ سے یا کنوئیں وغیرہ میں ، ٨ آٹھویں وہ جانور جسے دوسرے جانور نے سینگ مارا ہو اور وہ اس کے صدمے سے مر گیا ہو ، ٩ نویں وہ جسے کسی درندے نے تھوڑا سا کھایا ہو اور وہ اس کے زخم کی تکلیف سے مر گیا ہو لیکن اگر یہ جانور مر نہ گئے ہوں اور بعد ایسے واقعات کے زندہ بچ رہے ہوں پھر تم انہیں باقاعدہ ذبح کر لو تو وہ حلال ہیں ، ١٠ دسویں وہ جو کسی تھان پر عبادۃً ذبح کیا گیا ہو جیسے کہ اہل جاہلیت نے کعبہ شریف کے گرد تین سو ساٹھ ٣٦٠ پتھر نصب کئے تھے جن کی وہ عبادت کرتے اور ان کے لئے ذبح کرتے تھے اور اس ذبح سے ان کی تعظیم و تقرُّب کی نیت کرتے تھے ، ١١ گیا رھویں حصّہ اور حکم معلوم کرنے کے لئے پانسہ ڈالنا ، زمانہ جاہلیت کے لوگوں کو جب سفر یا جنگ یا تجارت یا نکاح وغیرہ کام درپیش ہوتے تو وہ تین تیروں سے پانسے ڈالتے اور جو نکلتا اس کے مطابق عمل کرتے اور اس کو حکم الٰہی جانتے ، ان سب کی ممانعت فرمائی گئی ۔
(ف 14) یہ آیت حجّۃ الوداع میں عرفہ کے روز جو جمعہ کو تھا بعد عصر نازل ہوئی ، معنی یہ ہیں کہ کفار تمہارے دین پر غالب آنے سے مایوس ہو گئے ۔
(ف 15) اور امور تکلیفیہ میں حرام و حلال کے جو احکام ہیں وہ اور قیاس کے قانون سب مکمل کر دیئے ، اسی لئے اس آیت کے نزول کے بعد بیان حلال و حرام کی کوئی آیت نازل نہ ہوئی اگرچہ ( وَاتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ ۼ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ ٢٨١؁ۧ) 2- البقرة:281) نازل ہوئی مگر وہ آیت موعظت و نصیحت ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ دین کامل کرنے کے معنی اسلام کو غالب کرنا ہے جس کا یہ اثر ہے کہ حجّۃ الوداع میں جب یہ آیت نازل ہوئی کوئی مشرک مسلمانوں کے ساتھ حج میں شریک نہ ہو سکا ۔ ایک قول یہ ہے کہ معنی یہ ہیں کہ میں نے تمہیں دشمن سے امن دی ۔ ایک قول یہ ہے کہ دین کا اکمال یہ ہے کہ وہ پچھلی شریعتوں کی طرح منسوخ نہ ہوگا اور قیامت تک باقی رہے گا ۔
شان نزول : بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ حضرت عمر (رض) کے پاس ایک یہودی آیا اور اس نے کہا کہ اے امیرالمومنین آپ کی کتاب میں ایک آیت ہے اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم روز نزول کو عید مناتے فرمایا کون سی آیت ؟ اس نے یہی ( اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۝) 5- المآئدہ:3) پڑھی آپ نے فرمایا میں اس دن کو جانتا ہوں جس میں یہ نازل ہوئی تھی اور اس کے مقام نزول کو بھی پہچانتا ہوں وہ مقام عرفات کا تھا اور دن جمعہ کا ، آپ کی مراد اس سے یہ تھی کہ ہمارے لئے وہ دن عید ہے ۔ ترمذی شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے آپ سے بھی ایک یہودی نے ایسا ہی کہا آپ نے فرمایا کہ جس روز یہ نازل ہوئی اس دن ٢ دو عیدیں تھیں جمعہ و عرفہ ۔
مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ کسی دینی کامیابی کے دن کو خوشی کا دن منانا جائز اور صحابہ سے ثابت ہے ورنہ حضرت عمرو ابن عباس رضی اللہ عنہم صاف فرما دیتے کہ جس دن کوئی خوشی کا واقعہ ہو اس کی یادگار قائم کرنا اور اس روز کو عید منانا ہم بدعت جانتے ہیں ، اس سے ثابت ہوا کہ عید میلاد منانا جائز ہے کیونکہ وہ اعظمِ نِعَمِ الٰہیہ کی یادگار و شکر گزاری ہے ۔
(ف 16) مکہ مکرمہ فتح فرما کر ۔
(ف 17) کہ اس کے سوا کوئی اور دین قبول نہیں ۔
(ف 18) معنی یہ ہیں کہ اوپر حرام چیزوں کا بیان کر دیا گیا ہے لیکن جب کھانے پینے کو کوئی حلال چیز میسر ہی نہ آئے اور بھوک پیاس کی شدت سے جان پر بن جائے اس وقت جان بچانے کے لئے قدر ضرورت کھانے پینے کی اجازت ہے اس طرح کہ گناہ کی طرف مائل نہ ہو یعنی ضرورت سے زیادہ نہ کھائے اور ضرورت اسی قدر کھانے سے رفع ہو جاتی ہے جس سے خطرہ جان جاتا رہے ۔

[/TD]
 
Last edited:

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)

[TD="bgcolor: #99CC33"] يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ﴿4﴾ [/TD]
[TD="class: right, bgcolor: #99CC33"][/TD]

[TD="class: left, bgcolor: #FFFF99"][/TD]
[TD="bgcolor: #FFFF99"] اے محبوب! تم سے پوچھتے ہیں کہ اُن کے لئے کیا حلال ہوا تم فرمادو کہ حلال کی گئیں تمہارے لئے پاک چیزیں (ف۱۹) اور جو شکاری جانور تم نے سدھالیے (ف۲۰) انہیں شکار پر دوڑاتے جو علم تمہیں خدا نے دیا اس سے انہیں سکھاتے تو کھاؤ اس میں سے جو وہ مار کر تمہارے لیے رہنے دیں (ف۲۱) اور اس پر اللہ کا نام لو (ف۲۲) اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کو حساب کرتے دیر نہیں لگتی،
[/TD]
[TD="class: right, bgcolor: #FFFF99"][/TD]

[TD="class: left, bgcolor: #FFFFCC"][/TD]
[TD="bgcolor: #FFFFCC"] (ف 19) جن کی حرمت قرآن و حدیث اجماع اور قیاس سے ثابت نہیں ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ طیّبات وہ چیزیں ہیں جن کو عرب اور سلیم الطبع لوگ پسند کرتے ہیں اور خبیث وہ چیزیں ہیں جن سے سلیم طبیعتیں نفرت کرتی ہیں ۔
مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کی حرمت پر دلیل نہ ہونا بھی اس کی حلّت کے لئے کافی ہے
۔
شان نزول : یہ آیت عدی ابن حاتم اور زید بن مہلہل کے حق میں نازل ہوئی جن کا نام رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے زید الخیر رکھا تھا ، ان دونوں صاحبوں نے عرض کیا یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم لوگ کتّے اور باز کے ذریعہ سے شکار کرتے ہیں تو کیا ہمارے لئے حلال ہے تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔
(ف 20) خواہ وہ درندوں میں سے ہوں مثل کتّے اور چیتے کے یا شکاری پرندوں میں سے مثل شکرے ، باز ، شاہین وغیرہ کے ، جب انہیں اس طرح سدھا لیا جائے کہ جو شکار کریں اس میں سے نہ کھائیں اور جب شکاری ان کو چھوڑے تب شکار پر جائیں ، جب بلاے ٔ واپس آ جائیں ، ایسے شکاری جانوروں کو معلَّم کہتے ہیں ۔
(ف 21) اور خود اس میں سے نہ کھائیں ۔
(ف 22) آیت سے جو مستفاد ہوتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص نے کتّا یا شکرہ وغیرہ کوئی شکاری جانور شکار پر چھوڑا تو اس کا شکار چند شرطوں سے حلال ہے (١) شکاری جانور مسلمان کا ہو اور سکھایا ہوا (٢) اس نے شکار کو زخم لگا کر مارا ہو (٣) شکاری جانور بِسۡمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکۡبَر کہہ کر چھوڑا گیا ہو (٤) اگر شکاری کے پاس شکار زندہ پہنچا ہو تو اس کو بِسۡمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکۡبَر کہہ کر ذبح کرے ، اگر ان شرطوں میں سے کوئی شرط نہ پائی گئی تو حلال نہ ہوگا مثلاً اگر شکاری جانور معلَّم (سکھایا ہوا) نہ ہو یا اس نے زخم نہ کیا ہو یا شکار پر چھوڑتے وقت بِسۡمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکۡبَر نہ پڑھا ہو یا شکار زندہ پہنچا ہو اور اس کو ذبح نہ کیا ہو یا معلَّم کے ساتھ غیر معلَّم شکار میں شریک ہو گیا ہو یا ایسا شکاری جانور شریک ہو گیا ہو جس کو چھوڑتے وقت بِسۡمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکۡبَر نہ پڑھا گیا ہو یا وہ شکاری جانور مجوسی کافر کا ہو ، ان سب صورتوں میں وہ شکار حرام ہے ۔
مسئلہ : تیر سے شکار کرنے کا بھی یہی حکم ہے اگر بِسۡمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکۡبَر کہہ کر تیر مارا اور اس سے شکار مجروح ہو کر مر گیا تو حلال ہے اور اگر نہ مرا تو دوبارہ اس کو بِسۡمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکۡبَر پڑھ کر ذبح کرے ، اگر اس پر بِسۡمِ اللہ نہ پڑھی یا تیر کا زخم اس کو نہ لگا یا زندہ پانے کے بعد اس کو ذبح نہ کیا ، ان سب صورتوں میں حرام ہے

[/TD]
 
Last edited:

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)

[TD="bgcolor: #99CC33"] الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿5﴾
[/TD]
[TD="class: right, bgcolor: #99CC33"][/TD]

[TD="class: left, bgcolor: #FFFF99"][/TD]
[TD="bgcolor: #FFFF99"] آج تمہارے لئے پاک چیزیں حلال ہوئیں، اور کتابیوں کا کھانا (ف۲۳) تمہارے لیے حلال ہوا، اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے، اور پارسا عورتیں مسلمان (ف۲۴) اور پارسا عورتیں ان میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب ملی جب تم انہیں ان کے مہر دو قید میں لاتے ہوئے (ف۲۵) نہ مستی نکالتے اور نہ ناآشنا بناتے (ف۲۶) اور جو مسلمان سے کافر ہو اس کا کیا دھرا سب اکارت گیا اور وہ آخرت میں زیاں کار ہے(ف۲۷)
[/TD]
[TD="class: right, bgcolor: #FFFF99"][/TD]

[TD="class: left, bgcolor: #FFFFCC"][/TD]
[TD="bgcolor: #FFFFCC"] (ف 23) یعنی ان کے ذبیحے ۔
مسئلہ : مسلِم و کتابی کا ذبیحہ حلال ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت یا بچّہ ۔
(ف 24) نکاح کرنے میں عورت کی پارسائی کا لحاظ مستحب ہے لیکن صحت نکاح کے لئے شرط نہیں ۔
(ف 25) نکاح کر کے ۔
(ف 26) ناجائز طریقہ پر مستی نکالنے سے بےدھڑک زنا کرنا اور آشنا بنانے سے پوشیدہ زنا مراد ہے ۔
(ف 27) کیونکہ ارتداد سے تمام عمل اَ کارت ہو جاتے ہیں ۔

[/TD]
 
Last edited:

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)

[TD="bgcolor: #99CC33"] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿6﴾
[/TD]
[TD="class: right, bgcolor: #99CC33"][/TD]

[TD="bgcolor: #FFFF99"] اے ایمان والو جب نماز کو کھڑے ہونا چاہو (ف۲۸) تو اپنا منہ دھوؤ اور کہنیوں تک ہاتھ (ف۲۹) اور سروں کا مسح کرو (ف۳۰) اور گٹوں تک پاؤ ں دھوؤ (ف۳۱) اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو خوب ستھرے ہولو (ف۳۲) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا یا تم نے عورتوں سے صحبت کی اور ان صورتوں میں پانی نہ پایا مٹی سے تیمم کرو تو اپنے منہ اور ہاتھوں کا اس سے مسح کرو، اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کچھ تنگی رکھے ہاں یہ چاہتا ہے کہ تمہیں خوب ستھرا کردے اور اپنی نعمت تم پر پوری کردے کہ کہیں تم احسان مانو،
[/TD]
[TD="class: right, bgcolor: #FFFF99"][/TD]

[TD="bgcolor: #FFFFCC"] (ف 28) اور تم بےوضو ہو تو تم پر وضو فرض ہے اور فرائض وضو کے یہ چار ہیں جو آگے بیان کئے جاتے ہیں ۔
فائدہ : سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) اور آپ کے اصحاب ہر نماز کے لئے تازہ وضو کے عادی تھے اگرچہ ایک وضو سے بھی بہت سی نمازیں فرائض و نوافل درست ہیں مگر ہر نماز کے لئے جُداگانہ وضو کرنا زیادہ برکت و ثواب کا موجِب ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ ابتدائے اسلام میں ہر نماز کے لئے جُداگانہ وضو فرض تھا بعد میں منسوخ کیا گیا اور جب تک حَدَث واقع نہ ہو ایک ہی وضو سے فرائض و نوافل سب کا ادا کرنا جائز ہوا ۔
(ف 29) کہنیاں بھی دھونے کے حکم میں داخل ہیں جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے ، جمہور اسی پر ہیں ۔
(ف 30) چوتھائی سر کا مسح فرض ہے یہ مقدار حدیث مغیرہ سے ثابت ہے اور یہ حدیث آیت کا بیان ہے ۔
(ف 31) یہ وضو کا چوتھا فرض ہے ، حدیث صحیح میں ہے سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کچھ لوگوں کو پاؤں پر مسح کرتے دیکھا تو منع فرمایا اور عطا سے مروی ہے وہ بہ قسم فرماتے ہیں کہ میرے علم میں اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں سے کسی نے بھی وضو میں پاؤں پر مسح نہ کیا ۔
(ف 32) مسئلہ : جنابت سے طہارت کاملہ لازم ہوتی ہے ، جنابت کبھی بیداری میں دفق و شہوت کے ساتھ انزال سے ہوتی ہے اور کبھی نیند میں احتلام سے جس کے بعد اثر پایا جائے حتی کہ اگر خواب یاد آیا مگر تری نہ پائی تو غسل واجب نہ ہوگا اور کبھی سبیلین میں سے کسی میں ادخال حشفہ سے فاعل و مفعول دونوں کے حق میں خواہ انزال ہو یا نہ ہو ، یہ تمام صورتیں جنابت میں داخل ہیان سے غسل واجب ہو جاتا ہے ۔
مسئلہ : حیض و نفاس سے بھی غسل لازم ہوتا ہے ، حیض کا مسئلہ سورۃ بقرہ میں گزر گیا اور نفاس کا موجب غسل ہونا اجماع سے ثابت ہے ۔ تیمّم کا بیان سورۃ نساء میں گزر چکا ۔

[/TD]
 
Last edited:

[TD="bgcolor: #99CC33"] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ﴿6﴾ [/TD]
[TD="class: right, bgcolor: #99CC33"][/TD]

[TD="bgcolor: #FFFF99"] اے ایمان والو جب نماز کو کھڑے ہونا چاہو (ف۲۸) تو اپنا منہ دھوؤ اور کہنیوں تک ہاتھ (ف۲۹) اور سروں کا مسح کرو (ف۳۰) اور گٹوں تک پاؤ ں دھوؤ (ف۳۱) اور اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو خوب ستھرے ہولو (ف۳۲) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا یا تم نے عورتوں سے صحبت کی اور ان صورتوں میں پانی نہ پایا مٹی سے تیمم کرو تو اپنے منہ اور ہاتھوں کا اس سے مسح کرو، اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر کچھ تنگی رکھے ہاں یہ چاہتا ہے کہ تمہیں خوب ستھرا کردے اور اپنی نعمت تم پر پوری کردے کہ کہیں تم احسان مانو، [/TD]
[TD="class: right, bgcolor: #FFFF99"][/TD]

[TD="bgcolor: #FFFFCC"] (ف 28) اور تم بےوضو ہو تو تم پر وضو فرض ہے اور فرائض وضو کے یہ چار ہیں جو آگے بیان کئے جاتے ہیں ۔
فائدہ : سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) اور آپ کے اصحاب ہر نماز کے لئے تازہ وضو کے عادی تھے اگرچہ ایک وضو سے بھی بہت سی نمازیں فرائض و نوافل درست ہیں مگر ہر نماز کے لئے جُداگانہ وضو کرنا زیادہ برکت و ثواب کا موجِب ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ ابتدائے اسلام میں ہر نماز کے لئے جُداگانہ وضو فرض تھا بعد میں منسوخ کیا گیا اور جب تک حَدَث واقع نہ ہو ایک ہی وضو سے فرائض و نوافل سب کا ادا کرنا جائز ہوا ۔
(ف 29) کہنیاں بھی دھونے کے حکم میں داخل ہیں جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے ، جمہور اسی پر ہیں ۔
(ف 30) چوتھائی سر کا مسح فرض ہے یہ مقدار حدیث مغیرہ سے ثابت ہے اور یہ حدیث آیت کا بیان ہے ۔
(ف 31) یہ وضو کا چوتھا فرض ہے ، حدیث صحیح میں ہے سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کچھ لوگوں کو پاؤں پر مسح کرتے دیکھا تو منع فرمایا اور عطا سے مروی ہے وہ بہ قسم فرماتے ہیں کہ میرے علم میں اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں سے کسی نے بھی وضو میں پاؤں پر مسح نہ کیا ۔
(ف 32) مسئلہ : جنابت سے طہارت کاملہ لازم ہوتی ہے ، جنابت کبھی بیداری میں دفق و شہوت کے ساتھ انزال سے ہوتی ہے اور کبھی نیند میں احتلام سے جس کے بعد اثر پایا جائے حتی کہ اگر خواب یاد آیا مگر تری نہ پائی تو غسل واجب نہ ہوگا اور کبھی سبیلین میں سے کسی میں ادخال حشفہ سے فاعل و مفعول دونوں کے حق میں خواہ انزال ہو یا نہ ہو ، یہ تمام صورتیں جنابت میں داخل ہیان سے غسل واجب ہو جاتا ہے ۔
مسئلہ : حیض و نفاس سے بھی غسل لازم ہوتا ہے ، حیض کا مسئلہ سورۃ بقرہ میں گزر گیا اور نفاس کا موجب غسل ہونا اجماع سے ثابت ہے ۔ تیمّم کا بیان سورۃ نساء میں گزر چکا ۔
[/TD]
مولوی جی یہ گٹوں کو دھونے کا حکم کدھر ہے ؟
دھونے کا حکم صرف ادھر ہے دیکھو ذرا غور سے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا
اس کے بعد
فَاغْسِلُوا کدھر ہے غسل یعنی دھونے کا ذکر کدھر ہے خدا کا خوف کرو قران پاک کا ترجمہ خود نہیں کر سکتے تو غور تو کرو صرف کسی نے لکھ دیا تو بس ماں لیا یہ دیکھو نیچے اور بتاؤ کدھر ہے دھونے کا حکم دوسری بار ؟

وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ
اس میں صرف مسح کرنے کا حکم ہے سر کا اور پاؤں کا گٹوں تک
 

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)
مولوی جی یہ گٹوں کو دھونے کا حکم کدھر ہے ؟
دھونے کا حکم صرف ادھر ہے دیکھو ذرا غور سے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا
اس کے بعد
فَاغْسِلُوا کدھر ہے غسل یعنی دھونے کا ذکر کدھر ہے خدا کا خوف کرو قران پاک کا ترجمہ خود نہیں کر سکتے تو غور تو کرو صرف کسی نے لکھ دیا تو بس ماں لیا یہ دیکھو نیچے اور بتاؤ کدھر ہے دھونے کا حکم دوسری بار ؟

وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ
اس میں صرف مسح کرنے کا حکم ہے سر کا اور پاؤں کا گٹوں تک


اللہ عزجل نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
( وَامْسَحُوۡا بِرُءُ وۡسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیۡنِ ؕ )
ترجمہ کنزالایمان:''اور سروں کا مسح کرواورگٹوں تک پاؤں دھوؤ۔''[المائدۃ: ۶]
اس آیت مبارکہ میں اَرْجُلکم کو نصب وجر دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے نصب کی صورت میں مغسول پرعطف ہے اور معنی یہ ہیں: اور اپنے سر کا مسح کرو اور دھوؤ اپنے پاؤں کو۔
شیعہ مسح پائوں کے ظاہر پر کرتے ہیں اور ہاتھ کو ساق تک کھینچتے ہیں جب کہ ٹخنے پائوں کے دونوں کناروں پر ہیں شیعہ مسح پائوں کے ظاہر پر کتے ہیں پائوں دھونے کا حکم حضور صل اللی علیہ وسلم نے سمجھایا ہے ۔
جن پر کتب اہل سنت دلالت کرتی ہیں۔ وضو کا سنت طریقہ یہ ہے ۔

حدیث مبارکہ:
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 187
عبداللہ بن یوسف، مالک، عمرو بن یحیٰی مازنی، یحیی مازنی سے روایت کرتے ہے کہ ایک شخص نے جو عمر وبن یحیی کے دادا ہیں، عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ یہ کر سکتے ہیں کہ مجھے یہ دکھلا ویں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کس طرح کرتے تھے؟ عبداللہ بن زید نے کہا ہاں، میں دکھا سکتا ہوں، پھر انہوں نے پانی منگوایا اور اپنے ہاتھ پر ڈالا، ہاتھ دو مرتبہ دھوئے، پھر تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر اپنے منہ کو تیں مرتبہ دھویا، پھر دونوں ہاتھ کہنیوں تک دو مرتبہ دھوئے، پھر اپنے سر کا اپنے دونوں ہاتھوں سے مسح کیا یعنی ان کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے، سر کے پہلے حصے سے ابتدا کی اور دونوں ہاتھ گدی تک لے گئے، پھر ان دونوں کو وہیں تک واپس لائے، جہاں سے شروع کیا تھا، پھر اپنے دونوں پیر دھوئے۔
 

Zia Hydari

Chief Minister (5k+ posts)

حدیث مبارکہ:
سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 116، پاکی کا بیان
ابوحیوۃ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی کو دیکھا انہوں نے وضو کیا تو دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا۔ اور تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تین مرتبہ اور منہ دھویا تین مرتبہ اور دونوں بازوں تین تین مرتبہ دھوئے اور سر کا مسح کیا اور تین تین مرتبہ دونوں پاؤں کو دھویا۔ پھر فرمایا کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہی وضو تھا۔

حدیث مبارکہ:
سنن ابوداؤد:جلد اول:حدیث نمبر 110
مسدد، ابوعوانہ، خالد بن علقمہ، حضرت عبد خیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے ہاں تشریف لائے آپ اسی وقت نماز سے فارغ ہوئے تھے تبھی آپ نے وضو کے لئے پانی طلب کیا میں نے دل میں سوچا کہ پتہ نہیں آپ پانی کو کیا کریں گے کیونکہ آپ ابھی ابھی نماز سے فارغ ہوئے ہیں سوچا کہ شاید ہم کو کچھ سکھانا مقصود ہو۔ اتنے میں ایک برتن میں پانی اور ایک طشت لایا گیا تو آپ نے اس برتن سے داہنے ہاتھ پر پانی ڈالا اور دونوں ہاتھوں کو پہنچوں تک تین مرتبہ دھویا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تین تین مرتبہ اسی داہنے ہاتھ سے جس میں پانی لیتے تھے ہر تین مرتبہ منہ دھویا پھر تین مرتبہ داہنا ہاتھ اور تین ہی مرتبہ بایاں ہاتھ دھویا پھر برتن میں ہاتھ ڈال کر (پانی لیا) اور ایک مرتبہ سر کا مسح کیا پھر داہنا پاؤں تین مرتبہ دھویا اور بایاں پاؤں تین مرتبہ دھویا اور فرمایا جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کا طریقہ معلوم کر کے خوش ہونا چاہتا ہے تو وہ طریقہ یہی ہے۔

 

اللہ عزجل نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
( وَامْسَحُوۡا بِرُءُ وۡسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیۡنِ ؕ )
ترجمہ کنزالایمان:''اور سروں کا مسح کرواورگٹوں تک پاؤں دھوؤ۔''[المائدۃ: ۶]
اس آیت مبارکہ میں اَرْجُلکم کو نصب وجر دونوں کے ساتھ پڑھا گیا ہے نصب کی صورت میں مغسول پرعطف ہے اور معنی یہ ہیں: اور اپنے سر کا مسح کرو اور دھوؤ اپنے پاؤں کو۔
شیعہ مسح پائوں کے ظاہر پر کرتے ہیں اور ہاتھ کو ساق تک کھینچتے ہیں جب کہ ٹخنے پائوں کے دونوں کناروں پر ہیں شیعہ مسح پائوں کے ظاہر پر کتے ہیں پائوں دھونے کا حکم حضور صل اللی علیہ وسلم نے سمجھایا ہے ۔
جن پر کتب اہل سنت دلالت کرتی ہیں۔ وضو کا سنت طریقہ یہ ہے ۔

حدیث مبارکہ:
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 187
عبداللہ بن یوسف، مالک، عمرو بن یحیٰی مازنی، یحیی مازنی سے روایت کرتے ہے کہ ایک شخص نے جو عمر وبن یحیی کے دادا ہیں، عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ یہ کر سکتے ہیں کہ مجھے یہ دکھلا ویں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کس طرح کرتے تھے؟ عبداللہ بن زید نے کہا ہاں، میں دکھا سکتا ہوں، پھر انہوں نے پانی منگوایا اور اپنے ہاتھ پر ڈالا، ہاتھ دو مرتبہ دھوئے، پھر تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر اپنے منہ کو تیں مرتبہ دھویا، پھر دونوں ہاتھ کہنیوں تک دو مرتبہ دھوئے، پھر اپنے سر کا اپنے دونوں ہاتھوں سے مسح کیا یعنی ان کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے، سر کے پہلے حصے سے ابتدا کی اور دونوں ہاتھ گدی تک لے گئے، پھر ان دونوں کو وہیں تک واپس لائے، جہاں سے شروع کیا تھا، پھر اپنے دونوں پیر دھوئے۔
مولوی ادھر توں خود ہی پھنس گیا ہے شاباش اب دیکھ کر مجھے بتا یہاں کدھر یہ لفظ موجود ہے (فَاغْسِلُوا) اس آیات میں( وَامْسَحُوۡا بِرُءُ وۡسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیۡنِ ؕ )
شاباش
 
Last edited:
Status
Not open for further replies.

Back
Top