اسلامی علوم کی تدوین

انجام

MPA (400+ posts)
غصہ نا کریں جناب ! آرام سے بات کرتے ہیں

ویسے آج پہلی بار آپ سے سن رہا ہوں کہ اتنی زیادہ احادیث حضرت علی سے مروی ہیں ، اس سے پہلے مجھے یہی پڑھایا گیا تھا کہ اہل سنت کے پاس تقریبا دو ہزار کے لگ بھگ احادیث ہیں اور زیادہ تر احادیث بھی پنج تن پاک سے نہیں بلکے غیروں سے ہیں . . . . . اور اس فورم سمیت جہاں بھی میں نے آپ کی احادیث سنی وہاں حضرت علی کا نام شاز و ناظر ہی دیکھنے میں آیا . . . . . لیکن خیر میں ابھی تعداد پر بحث نہیں کرنا چاہتا

میرا نکتہ یہ ہے کہ پنج تن پاک سے مروی احادیث معتبر ترین ثابت ہوئیں کیوں کہ ان کی صداقت کی گواہی قرآن میں موجود ہے دوسرا امت کتنا ہی تردد کر لے ان جیسے سچے نہیں لا سکتی . . . . . . . اس پر کوئی اعتراض ہو تو بتائیں پھر آگے چلتے ہیں

آپ اچھی طرح سوچ لیں تب تک میں بھی ذرا کچھ کام نبٹا لوں

غصہ سوال پر نہیں بلکہ غیر ضروری بچوں والے سوال پر ہوا۔ جب ایک بات کو رد ہی نہیں کیا۔ کسی نے بات ہی نہیں کی۔ بلاوجہ غیر ضروری ،غیرعقلی ،غیر منطقی بات۔ وہ بات جس کو پہلے ہی تسلیم کیا جا چکا ہو اس پر بے تکے سوالوں سے پریشانی ہوتی ہے۔

کسی بات کا علم نہ ہونا۔ یا اس کا کم بیان ہونا اس کے وجود کا انکار نہیں کرتا۔ یہ ہمارے علم و معلومات کی کمی ہے۔ جہاں بھی احادیث بیان کی جاتی ہیں وہاں انکے موضوع کو دیکھ کر بیان کی جاتی ہیں۔ انمیں عوامی سطح پر سند کا پہلو ثانوی ہوتا ہے۔
نیز احادیث کے قبول میں ادنی صحابی کی حدیث بھی بغیر حجت کے قبول ہوتی ہے۔ تو ان ہستیوں کے بغیر تو ایمان ہی نامکمل۔
صحابی وہ ہے جس نے ایمان کی حالت میں نبی ﷺ کو دیکھا اور ایمان پر ہی فوت ہوا۔ چاہے صرف ایک مرتبہ ہی دیکھا ہو۔

سند حدیث میں جِرح صحابہ کرام پر نہیں ہوتی۔ بلکہ انسے لینے والوں پر ہوتی ہے۔ یعنی تابعین و مابعد۔ لہذا اس میں ایک اور اشکال/مشکل/شک/ بھی رد ہوگیا۔

یہ جو آپ نے غیروں سے لکھا یہ لفظ غلط ہے۔ بلکہ دیگر صحابہ سے۔
اگر کسی کی روایات کی تعداد کم ہے تو اس سے انکی علمی شان، دیانت داری وجاہت ،مرتبہ وقار ،تقوی میں شک ہی وجہ نہیں۔ بلکہ اسکی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر خلیفہ اول سے صرف 100 کے قریب ،خلیفہ ثانی سے بھی چند سو یعنی 2 سے 3سو۔ اسی طرح خلیفہ ثالث۔ لہذا یہ بالکل غیر فطری و غیر ضروری بحث ہے۔
اسی لئے اوپر والی پوسٹ میں سخت جملہ استعمال کیا۔ آپ بچوں والی بجھارتوں سے نکل کر اصل مسائل پر بات کریں۔

 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

غصہ سوال پر نہیں بلکہ غیر ضروری بچوں والے سوال پر ہوا۔ جب ایک بات کو رد ہی نہیں کیا۔ کسی نے بات ہی نہیں کی۔ بلاوجہ غیر ضروری ،غیرعقلی ،غیر منطقی بات۔ وہ بات جس کو پہلے ہی تسلیم کیا جا چکا ہو اس پر بے تکے سوالوں سے پریشانی ہوتی ہے۔

کسی بات کا علم نہ ہونا۔ یا اس کا کم بیان ہونا اس کے وجود کا انکار نہیں کرتا۔ یہ ہمارے علم و معلومات کی کمی ہے۔ جہاں بھی احادیث بیان کی جاتی ہیں وہاں انکے موضوع کو دیکھ کر بیان کی جاتی ہیں۔ انمیں عوامی سطح پر سند کا پہلو ثانوی ہوتا ہے۔
نیز احادیث کے قبول میں ادنی صحابی کی حدیث بھی بغیر حجت کے قبول ہوتی ہے۔ تو ان ہستیوں کے بغیر تو ایمان ہی نامکمل۔
صحابی وہ ہے جس نے ایمان کی حالت میں نبی ﷺ کو دیکھا اور ایمان پر ہی فوت ہوا۔ چاہے صرف ایک مرتبہ ہی دیکھا ہو۔

سند حدیث میں جِرح صحابہ کرام پر نہیں ہوتی۔ بلکہ انسے لینے والوں پر ہوتی ہے۔ یعنی تابعین و مابعد۔ لہذا اس میں ایک اور اشکال/مشکل/شک/ بھی رد ہوگیا۔

یہ جو آپ نے غیروں سے لکھا یہ لفظ غلط ہے۔ بلکہ دیگر صحابہ سے۔
اگر کسی کی روایات کی تعداد کم ہے تو اس سے انکی علمی شان، دیانت داری وجاہت ،مرتبہ وقار ،تقوی میں شک ہی وجہ نہیں۔ بلکہ اسکی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر خلیفہ اول سے صرف 100 کے قریب ،خلیفہ ثانی سے بھی چند سو یعنی 2 سے 3سو۔ اسی طرح خلیفہ ثالث۔ لہذا یہ بالکل غیر فطری و غیر ضروری بحث ہے۔
اسی لئے اوپر والی پوسٹ میں سخت جملہ استعمال کیا۔ آپ بچوں والی بجھارتوں سے نکل کر اصل مسائل پر بات کریں۔

اگر آپ کو لفظ غیر پر اعتراض ہے تو یقین دلاتا ہوں کہ اس سے تضحیک مقصود نہیں تھی صرف پنج تن پاک سے علحیدہ بتانا مقصود تھا
چلیں یہ تو آپ نے مان لیا کہ پنج تن پاک سے احادیث لینے میں کوئی شک نہیں

اب دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں عرض ہے کہ دوسرے لوگ جنہیں آپ صحابی کہہ رہے ہیں ، غلطیوں سے پاک نہیں تھے آپ یہ بھی فرما چکے ہیں کہ ان کا معشرتی راویہ دیکھا جائے گا کہ یہ سچے تھے کہ نہیں . . . . . اس بارے میں مزید وضاحت فرما دیں کہ کس قدر برائی کی اجازت ہے ؟ کبھی بڑا جھوٹ نا بولا ہو ؟ کبھی کبیرہ گناہ نا کیا ہو ؟ یا کچھ اور پیمانہ ؟
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس لگے نہ ٹھیس آبگینوں کو

شاہ جی، طفل مکتب سے انفینٹ مکتوب ہی مطلوب ہوتے ہیں، اب شاہوں کا حکم کون رد کر سکتا ہے چاہے اس کے لیے پھر سے لائیکس اکٹھا کرنے کو لالچی گردانا جائے یا ڈرون خرمست اور اس کے اہل و عیال کے پرخچے اڑائیں

رہے گے ہم کب کسی سے دب کر آصف
وہ شاہ حسن سہی تو تاجدار ہم بھی ہیں

جسے اس کے اعمال گرا دیں اسے اس کا نسب اٹھا نہیں سکتا
حضرت علی

آپ شاہ شوو کے چکروں میں نا پڑیں ، ٹو دی پواینٹ بات لکھیں
خدا آپ کا حامی و ناصر ہو
 

اللہ کا بندہ

MPA (400+ posts)
جناب شاید آپ تحقیق کا ذوق نہیں رکھتے یا صرف اپنے ہی خول سے تحقیق کو دیکھنے کے متمنی ہیں۔ نہ تو تحقیق و اجتہاد کے دروازے پہلے بند تھے نہ ہی اب بند ہوئے۔
انسانی کاوش سے مرتبہ جملہ کتب کو کسی نے بھی حرف آخر قطعی حتمی نہیں کہا۔ نہ ہی ایسا ہو سکتا ہے۔
تقلید شخصی کے بابت آپ نے لکھا تو عرض ہے کہ فقہاء نے مجتہدین کے 7 گروہ لکھے ہیں۔
جیسا کہ اس فورم پر اپنے تئیں ہم بھی مجتہد کی ذمہ داریوں پر فائز ہیں۔ جو جس سطح کا فرد ہوگا وہ اسی سطح کی بات کرے گا۔ یعنی یہاں جس نے صرف ایک عنوان پر صرف 4 احادیث پڑھ لیں وہ بھی مجتہد اعظم ہے۔
جس شخص نے اپنے استاد کی بات پر ہی انحصار کرنا ہے تو اس کا فقط تاویل سے ہی کام چلے گا۔
علم تحقیق و جستجو کے دروازے بند نہیں ہوئے۔ مگر تقلید کا جو مفہوم اپ سمجھے ہیں ایسا بالکل بھی نہیں۔ اور ہو بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اجتہاد قرآن و سنت پر فیصل نہیں ہو سکتا۔
تیسرے یا چوتھے درجے تک کےمجتہدین کے ہاں تقلید کا مفہوم ائمہ کے اصولون کی تقلید ہے۔ یعنی اجتہاد میں ائمہ کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر احکامات اخذ کئے جائیں گے۔ جبکہ اس کے بعد کے درجے والے تمام ناقلین ہیں۔ وہ امام صاحبان کی رائے تک بہت کم پہنچتے ہیں۔ بلکہ خود کو ہی مجتہد اعظم سمجھ کر اپنے استاد کی رائے پر فتوی جاری کرتے ہیں۔۔

جیسا کہ عرض کیا کہ کتب احادیث کی تدوین انسانی کاوش ہے۔ انہوں نے اپنے تئیں اسکو جہاں تک ہو سکا جمع ومدون کر کے پیش کر دیا۔
مگر یاد رکھیں تدوین قران کے بعد سب سے سخت اصول روایت حدیث کے ہیں۔آپ کا یہ کہنا کہ شاگردوں نے اساتذہ کی طرف کتب منسوب کر دیں تو جناب پہلے کتب مطبوعہ نہیں ہوتی تھیں بلکہ شاگرد استاد سے سنکر لکھتے تھے یاد کرتے تھے۔ اجازت پاتے تھے۔ صدیوں یہ سلسلہ مروج رہا۔ آج بھی جاری ہے مگر نسبتا کم ہوگیا۔
موضوع/ مکذوب روایات کو پرکھنے کے لئے ہی علم اصول الحدیث اور اس میں جرح و تعدیل کا اہم کردار ہے۔ ائمہ کے مرتب کردہ اصولوں کی روشنی میں ہی احادیث کی سند کے حسن وقبح کے اعتبار سے 70 کے قریب یا اس سے بھی زیادہ اقسام بیان کی گئی ہیں۔
جنمیں معروف صحیح ، حسن اور ضعیف ہیں۔ جبکہ موضوع کو ضعیف میں شامل نہیں کرتے۔
جب یہ واضح ہو گیا کہ یہ انسانی کاوش ہیں۔ تو ائمہ کےتمام تقوی، پرہیزگاری، خلوص اور للہیت کے باوجود ان ہی عظیم ہستیوں کے بیان کردہ اصولوں سے ہی احادیث کو پرکھا جائے گا۔

اب رہ گئی بات فرقہ واریت کی تو فرقہ واریت کی ابتدا بھی دور خلفاء راشدین سے ہوگئی تھی۔ حضرت عمر فاروق کے رعب دبدبہ کے سبب یہ فتنے دبے رہے۔ عہد عثمانی کے نصف کے بعد انمیں اضافہ شروع ہوا۔ بعد ازاں یہ پھیلتا ہی گیا۔ یہ بھی اپنی جگہ الگ طویل موضوع ہے۔
یعنی فرقہ واریت کا الزام احمد بن حنبل، ابن ابو شیبہ، یا حاکم وغیرہ کو دینا سرا سر ظلم ہے۔ کیونکہ یہ وبا تو انکی پیدائش سے بھی بہت پہلے پروان چڑھ چکی تھی۔



میں آپ سے بہتر جواب کی توقع کر رہا تھا، لیکن آپ نے جواب ہی طنز سے شروع کیا، میں ذیل میں چند ایک نکات پیش کرتا ہوں امید ہے اسی اعتبار سے جواب دیں گے۔
۔ چاروں فقہ مرتب ہو جانے کے بعد صدیوں تک ان میں کونسی تحقیق ہوئی، چند ایک مسائل ہی کی نشاندہی کر دیں جو تقلید سے ہٹ کر حل کئے گئے ہوں، مذاہبِ اربعہ میں جو ارتقا ہوا اس کا بھی کچھ تذکرہ کر دیں۔
۔آپ نے احادیث کے بارے میں لکھا کہ جب یہ واضح ہو گیا کہ یہ انسانی کاوش ہیں۔ تو ائمہ کےتمام تقوی، پرہیزگاری، خلوص اور للہیت کے باوجود ان ہی عظیم ہستیوں کے بیان کردہ اصولوں سے ہی احادیث کو پرکھا جائے گا،تو مجھے بتائیے کہ بخاری کی تدوین کے بعد آج تک اس کو حرفِ آخر ثابت کرنے کے علاوہ کیا تحقیقی کام ہوا، بلکہ جو بخاری کی کسی روایت پر علمی اعتراض بھی کرے اسے کفر کے فتوے کے لئے تیار رہنا چاہئیے۔
۔ موطا امام مالک، صحیح بخاری و مسلم اور دیگر کتب ان کے مولفین کی زندگیوں ہی میں کتابت کے مرحلے طے کر کے معروف ہو چکی تھیں، جبکہ مسند ابو حنیفہ، اور مسندِ احمد دونوں جلیل القدر ائمہ کی وفات کے بعد مرتب ہوئیں، خصوصاً مسند احمد تو چھٹی صدی ہجری میں منظرِ عام پر آئی کہ اس کی امام احمد سے نسبت ہی مشکوک ہے ۔ آپ کو شاید مسندِ احمد کی سیر کا موقع نہیں ملا، پوری را فضیت اس کتاب سے اخذ کی جا سکتی ہے، لیکن امام احمد کا رتبہ اس سے بہت بلند ہے کہ ان پر فرقہ بندی کا الزام عائد کیا جائے، کیونکہ یہ کتاب ان کی مرتب کردہ نہیں۔ حاکم کے بارے میں تو خود امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں ابواسماعیل ، عبداللہ انصاری کے حوالے سے را فضی خبیث کے لفظ استعمال کیے ہیں ۔ جبکہ المصنف ابن شیبہ بھی من گھڑت کوفی روایتوں سے بھری ہوئی ہے۔
۔ اسلام کا پہلا فرقہ خوارج کا ہے جس کا ظہور سیدنا علیؓ کے عہد میں ہوا، اس سے پہلے کسی فرقہ بندی کا ذکر اسلام میں نہیں ملتا۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ مسندِ احمد، حاکم مستدرک اور
مصنف ابن شیبہ جیسی کتب نے فرقہ بندی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

میں نے اوپر کی بحث کو دیکھا ہے، آپ جن لوگوں سے بحث میں الجھے ہوئے ہیں ان کی سوچ کا ٹیڑھ پن ان کے بجھارت نما سوالوں سے عیاں ہے، ان سے کسی معقول بات کی توقع عبث ہے۔
 
Last edited:

انجام

MPA (400+ posts)
اگر آپ کو لفظ غیر پر اعتراض ہے تو یقین دلاتا ہوں کہ اس سے تضحیک مقصود نہیں تھی صرف پنج تن پاک سے علحیدہ بتانا مقصود تھا
چلیں یہ تو آپ نے مان لیا کہ پنج تن پاک سے احادیث لینے میں کوئی شک نہیں

اب دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں عرض ہے کہ دوسرے لوگ جنہیں آپ صحابی کہہ رہے ہیں ، غلطیوں سے پاک نہیں تھے آپ یہ بھی فرما چکے ہیں کہ ان کا معشرتی راویہ دیکھا جائے گا کہ یہ سچے تھے کہ نہیں . . . . . اس بارے میں مزید وضاحت فرما دیں کہ کس قدر برائی کی اجازت ہے ؟ کبھی بڑا جھوٹ نا بولا ہو ؟ کبھی کبیرہ گناہ نا کیا ہو ؟ یا کچھ اور پیمانہ ؟
کسی لفظ سے آپ کی کیا مراد ہے یہ دلوں کے معاملات اللہ ہی جانتا ہے۔ مگر جیسے کبھی چہرے حالات کی گواہی دیتے ہیں ویسے ہی تحریر بھی خطروں کا پتہ دیتی ہے۔ آپ کی پہلی تحریر کے لہجے سے ہی اندازہ ہو گیا تھا۔
پنج تن پاک کا ماننے یا یوں ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں جیسے پہلے میں کافر تھا اب مسلمان ہوا۔ بھائی میری تو پہلی تحریر سے ہی آپ کو یہی مؤقف ملے گا۔ یہ الگ بات کہ کہیں تفصیل سے بیان ہوا تو کہیں قدرے کم۔
لفظ غیر کا استعمال کا اس تحریر سے مزید واضح ہو گیا۔
جناب جو پیمانہ آپ پوچھنا چاہتے ہیں یا بیان کرنا چاہتے ہیں وہ بیان کردیں ۔ یہ برائیاں تلاش کرنے کا ٹھیکہ آپ کو کس نے دیا یہ بھی واضح کر دیجئے گا۔

آپ کا حافظہ کمزور ہے یا نظر کا مسئلہ ۔ اوپر لکھ ایا ہوں جس کا جھوٹا ہوناثابت ہوچکے اسکی گواہی قبول نہیں۔
نیز یہ بھی لکھ چکا کہ جس کی صحابیت ثابت ہوجائے اس پر جرح نہیں۔ یعنی اس کی بات قبول کی جائے گی۔
مزید لکھنے سے قبل سابقہ پوسٹوں پر نظر ثانی فرمالیں۔ تاکہ ایک ہی بات پر کھچڑی نہ بنے۔

 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
کسی لفظ سے آپ کی کیا مراد ہے یہ دلوں کے معاملات اللہ ہی جانتا ہے۔ مگر جیسے کبھی چہرے حالات کی گواہی دیتے ہیں ویسے ہی تحریر بھی خطروں کا پتہ دیتی ہے۔ آپ کی پہلی تحریر کے لہجے سے ہی اندازہ ہو گیا تھا۔
پنج تن پاک کا ماننے یا یوں ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں جیسے پہلے میں کافر تھا اب مسلمان ہوا۔ بھائی میری تو پہلی تحریر سے ہی آپ کو یہی مؤقف ملے گا۔ یہ الگ بات کہ کہیں تفصیل سے بیان ہوا تو کہیں قدرے کم۔
لفظ غیر کا استعمال کا اس تحریر سے مزید واضح ہو گیا۔
جناب جو پیمانہ آپ پوچھنا چاہتے ہیں یا بیان کرنا چاہتے ہیں وہ بیان کردیں ۔ یہ برائیاں تلاش کرنے کا ٹھیکہ آپ کو کس نے دیا یہ بھی واضح کر دیجئے گا۔

آپ کا حافظہ کمزور ہے یا نظر کا مسئلہ ۔ اوپر لکھ ایا ہوں جس کا جھوٹا ہوناثابت ہوچکے اسکی گواہی قبول نہیں۔
نیز یہ بھی لکھ چکا کہ جس کی صحابیت ثابت ہوجائے اس پر جرح نہیں۔ یعنی اس کی بات قبول کی جائے گی۔
مزید لکھنے سے قبل سابقہ پوسٹوں پر نظر ثانی فرمالیں۔ تاکہ ایک ہی بات پر کھچڑی نہ بنے۔


مجھے قرآن سے حکم ہے کہ سچوں کے ساتھ ہو جاؤ ، اب میں کسی غیر سے حدیث نہیں لے سکتا ، پکا ثبوت چاہیے کہ بندہ صادق و امین ہو

آپ نے کہا کہ صحابی پر جرح نہیں ، یہ بھی فرما دیں کہ یہ حکم کہاں سے لیا ہے جہاں تک میرا عقیدہ ہے اسلام میں اعمال کی حیثیت ہے اور اعلیٰ عمال والے لوگ ، جو رسول پاک کے ساتھ رہے ، صحابی کہلائے

اگر آپ بضد ہیں کہ میں آپ کو پیمانہ بتاؤں تو پہلا سوال حاضر ہے
رسول پاک نے کسی کو ایک راز بتایا اور خود تک محدود رکھنے کا کہا ، مگر اس نے راز فاش کر دیا ، جب رسول نے پوچھا تو الٹا سوال پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ ؟
اب بتائیں ایسے شخص سے حدیث لی جا سکتی ہے ؟
 

انجام

MPA (400+ posts)

میں آپ سے بہتر جواب کی توقع کر رہا تھا، لیکن آپ نے جواب ہی طنز سے شروع کیا، میں ذیل میں چند ایک نکات پیش کرتا ہوں امید ہے اسی اعتبار سے جواب دیں گے۔
۔ چاروں فقہ مرتب ہو جانے کے بعد صدیوں تک ان میں کونسی تحقیق ہوئی، چند ایک مسائل ہی کی نشاندہی کر دیں جو تقلید سے ہٹ کر حل کئے گئے ہوں، مذاہبِ اربعہ میں جو ارتقا ہوا اس کا بھی کچھ تذکرہ کر دیں۔
۔آپ نے احادیث کے بارے میں لکھا کہ جب یہ واضح ہو گیا کہ یہ انسانی کاوش ہیں۔ تو ائمہ کےتمام تقوی، پرہیزگاری، خلوص اور للہیت کے باوجود ان ہی عظیم ہستیوں کے بیان کردہ اصولوں سے ہی احادیث کو پرکھا جائے گا،تو مجھے بتائیے کہ بخاری کی تدوین کے بعد آج تک اس کو حرفِ آخر ثابت کرنے کے علاوہ کیا تحقیقی کام ہوا، بلکہ جو بخاری کی کسی روایت پر علمی اعتراض بھی کرے اسے کفر کے فتوے کے لئے تیار رہنا چاہئیے۔
۔ موطا امام مالک، صحیح بخاری و مسلم اور دیگر کتب ان کے مولفین کی زندگیوں ہی میں کتابت کے مرحلے طے کر کے معروف ہو چکی تھیں، جبکہ مسند ابو حنیفہ، اور مسندِ احمد دونوں جلیل القدر ائمہ کی وفات کے بعد مرتب ہوئیں، خصوصاً مسند احمد تو چھٹی صدی ہجری میں منظرِ عام پر آئی کہ اس کی امام احمد سے نسبت ہی مشکوک ہے ۔ آپ کو شاید مسندِ احمد کی سیر کا موقع نہیں ملا، پوری را فضیت اس کتاب سے اخذ کی جا سکتی ہے، لیکن امام احمد کا رتبہ اس سے بہت بلند ہے کہ ان پر فرقہ بندی کا الزام عائد کیا جائے، کیونکہ یہ کتاب ان کی مرتب کردہ نہیں۔ حاکم کے بارے میں تو خود امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں ابواسماعیل ، عبداللہ انصاری کے حوالے سے را فضی خبیث کے لفظ استعمال کیے ہیں ۔ جبکہ المصنف ابن شیبہ بھی من گھڑت کوفی روایتوں سے بھری ہوئی ہے۔
۔ اسلام کا پہلا فرقہ خوارج کا ہے جس کا ظہور سیدنا علیؓ کے عہد میں ہوا، اس سے پہلے کسی فرقہ بندی کا ذکر اسلام میں نہیں ملتا۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ مسندِ احمد، حاکم مستدرک اور
مصنف ابن شیبہ جیسی کتب نے فرقہ بندی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

میں نے اوپر کی بحث کو دیکھا ہے، آپ جن لوگوں سے بحث میں الجھے ہوئے ہیں ان کی سوچ کا ٹیڑھ پن ان کے بجھارت نما سوالوں سے عیاں ہے، ان سے کسی معقول بات کی توقع عبث ہے۔
جناب معذرت خواہ ہوں کہ میرے الفاظ سے اپ کو دکھ ہوا ۔ شاید مجھے بھی آپ کی تحریر سمجھنے میں مغالطہ ہوا۔
جہاں تک اجتہاد وتحقیق کی بات ہے تو جیسا کہ پہلے ذکر کر آیا ہوں کہ فقہاء کو 6 یا 7گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔یہ گروہ بندی مختلف علماء ومجتہدین کی خدمات سے انکی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اپنائی گئی۔ وہ گروہ درج ذیل ہیں۔
1مجتہد فی الشرع
مجتہد فی المذہب
مجتہد
[FONT=&amp]فی المسائل
اصحاب التخریف/التخریج
اصحاب الترجیح
اصحاب الیزج /التمیز
ہمارے ہاں اکثریت تقریبا 95 فی صداس دور میں اصحاب التمیز یا اس سے بھی کم مقلد محض طرح کے لوگوں کی ہے۔ فقہ کے بنیادی مسائل نماز روزہ ،حج زکوۃ وغیرہ چونکہ زمانہ نبوی ﷺ سے ہی چلے آرہے ہیں۔ یا پھر آج کل علماء کو نکاح طلاق تک محدودکر دیا گیا۔ لہذا کثرت اسی طرح کے لوگوں کی ہے۔ چاہے وہ کسی بھی مسلک میں ہوں۔ ان مسائل میں مزید کیا تحقیق ہونی ہے ممکنہ حالات پر مختلف اہل علم اپنی تحقیقات پیش کرتے رہتے ہیں۔
ماضی کے تمام فقہی اجتہاد کے کارناموں پر روشنی ڈالنے کے لئے اتنی ہی فرصت اور وسیع مطالعہ کی ضرورت ہے۔ دور حاضر میں کئی اہم مسائل علماء و محققین نے اپنی آراء پیش کی ہیں۔ مذاہب اربعہ میں آپ کس طرح کا ارتقاء پڑھنا چاہتے ہیں۔؟کچھ وضاحت
دور حاضر میں جدید بینکاری، اسلامی نظام انشورنس، وغیرہ سمیت کئی معاملات پر علماء نے اپنی رائے دی۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں نئے مسائل پر علماء کے بورڈ بنے ہوئے ہیں جو تحقیق کر کے اپنی آراء پیش کرتے ہیں۔

میرا جملہ کتب احادیث تھا۔ نیز یہ کہ صرف بخاری کو ہی ثابت کرنا اور اسی خبط میں مبتلا رہنا یہ مخصوص طبقے کا کام ہے۔ مگر دیگر اہل علم جامع بخاری کو بھی دیگر کتب کی طرح ایک کتاب ہی سمجھتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اس کودیگر کتب احادیث مین کہاں فوقیت ہے کہاں نہیں۔ مگر اہل علم اسے دیگر کتب پر فوقیت دیتے ہیں۔ یہ بھی بالکل متفق علیہ نہیں۔ کئی علماء کے ہاں مؤطا اور کئی مسلم کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔

کتب احا دیث میں من گھڑت روایات کا انکار تو کسی صاحب علم کو نہیں۔ اسی وجہ سے علم اسماء الرجال اور علم جرح و تعدیل مدون ہوئے۔ باقی رہی بات مختلف فرقوں کی تو اس بابت جیسا کہ پہلے عرض گزار ہوا کہ اس کی ابتدا ء حضرت عثمان کے دور سے ہوئی۔ مگر انکی علیحدگی خلافت علوی میں ہوئی۔ اسی عہد میں شیعیت کا بھی اغاز ہوا۔ بعد ازاں ایک طبقہ ناصبیت ابھرا۔ یہ طبقہ غالبا شام سے ابھرا۔ حضرت علی کے شاگرد و خلیفہ سید التابعین امام حسن بصری کے شاگرد نے فرقہ معتزلہ شروع کیا۔ شان علی میں غلو کی روایات بھی دور علوی سے ہی ملتی ہیں کہ آپ نے کچھ لوگوں کو آگ میں جلانے کی سزا دی۔ اس سے ایک نیا فرقہ کھڑا ہوا۔ یہ تو مختلف گروہوں کی بالکل ابتدا بیان کی ہے۔ جبکہ ابھی امام احمد و حاکم و ابن شیبہ پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔
لہذا فرقہ بندی کا الزام ابن شیبہ پر غلط ہے۔ یہ مانا جا سکتا ہے کہ انہوں نے روایت حدیث میں نرم رویہ اختیار کیا۔ اس میں کثرت موضوع روایات کے مختلف اسباب بھی ہوسکتے ہیں۔
یہاں تک اپنے تئیں کوشش کی کہ بہت تفصیلی دلائل سے اجتناب برت کر صرف معروف باتوں کو ہی ذکر کیا جائے۔ کیونکہ دلائل پھر انکی جانچ پرکھ /جرح و تعدیل بھی ایک جان گسل کام ہے
۔ [/FONT]​
 
Last edited:

انجام

MPA (400+ posts)
مجھے قرآن سے حکم ہے کہ سچوں کے ساتھ ہو جاؤ ، اب میں کسی غیر سے حدیث نہیں لے سکتا ، پکا ثبوت چاہیے کہ بندہ صادق و امین ہو

آپ نے کہا کہ صحابی پر جرح نہیں ، یہ بھی فرما دیں کہ یہ حکم کہاں سے لیا ہے جہاں تک میرا عقیدہ ہے اسلام میں اعمال کی حیثیت ہے اور اعلیٰ عمال والے لوگ ، جو رسول پاک کے ساتھ رہے ، صحابی کہلائے

اگر آپ بضد ہیں کہ میں آپ کو پیمانہ بتاؤں تو پہلا سوال حاضر ہے
رسول پاک نے کسی کو ایک راز بتایا اور خود تک محدود رکھنے کا کہا ، مگر اس نے راز فاش کر دیا ، جب رسول نے پوچھا تو الٹا سوال پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ ؟
اب بتائیں ایسے شخص سے حدیث لی جا سکتی ہے ؟
جناب بہت اچھی دلیل دی۔ مگر نہ تو کسی کانام لیا۔ نہ کوئی حوالہ دیا۔ کہ اس کی نوعیت کودیکھا جائے۔
جس نبی ﷺ کا فرمان آپ نے نقل کیا اسی کے سامنے کئی لوگوں کو گناہوں پر سزا دی گئی ۔ وہ گناہ زنا بھی تھا، شراب نوشی بھی تھی۔ سزا کے بعد اعلان فرمایا خبردار انکی محبت و ایمان میں شک نہ کرنا۔
یہ بھی اسی رسولﷺ نے فرمایاکہ میرے صحابہ عدول ہیں۔
اب آپ نے جو بات پیش کی اس فرد کا عمل یہ ہے کہ اس نے راز فاش کرکے الٹا اعترض کیا۔ اب اس اعتراض پر کئی سوال ہیں۔ آیا یہ اعتراض تھا یا سوال۔؟ اگر اعتراض تھا تو یہ منافقین کا طریقہ ہے۔ اگر سوال تھا تو امتی کا سوال جائز ہے۔ منافق مسلم نہیں۔ بہروپیہ ہے۔ ان کو چن چن کر نکالا گیا۔
صادق و امین کا کلیہ تو حضور نے دیا۔ اس ادب میں ہم خاموش ہوجاتے ہیں۔ ہم یہ امید کرتے ہیں کہ وہ حضور پر بہتان نہیں باندھیں گے۔ مگر صاحب کسی کے جھوٹا ہونے پر بغیر دلیل دیئے ہی جھوٹا ثابت کر دیا۔ واہ۔۔۔۔

بغیر دلیل وثبوت کے ہی آپ سچوں کے ساتھ ہم جھوٹوں کےساتھ۔
آپ بچوں والے فورم میں بجھارتیں بوجھنا کھیلیں۔۔۔۔


 
Last edited:

اللہ کا بندہ

MPA (400+ posts)
جناب معذرت خواہ ہوں کہ میرے الفاظ سے اپ کو دکھ ہوا ۔ شاید مجھے بھی آپ کی تحریر سمجھنے میں مغالطہ ہوا۔
جہاں تک اجتہاد وتحقیق کی بات ہے تو جیسا کہ پہلے ذکر کر آیا ہوں کہ فقہاء کو 6 یا 7گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔یہ گروہ بندی مختلف علماء ومجتہدین کی خدمات سے انکی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اپنائی گئی۔ وہ گروہ درج ذیل ہیں۔
1مجتہد فی الشرع
مجتہد فی المذہب
مجتہد
[FONT=&amp]فی المسائل
اصحاب التخریف/التخریج
اصحاب الترجیح
اصحاب الیزج /التمیز
ہمارے ہاں اکثریت تقریبا 95 فی صداس دور میں اصحاب التمیز یا اس سے بھی کم مقلد محض طرح کے لوگوں کی ہے۔ فقہ کے بنیادی مسائل نماز روزہ ،حج زکوۃ وغیرہ چونکہ زمانہ نبوی ﷺ سے ہی چلے آرہے ہیں۔ یا پھر آج کل علماء کو نکاح طلاق تک محدودکر دیا گیا۔ لہذا کثرت اسی طرح کے لوگوں کی ہے۔ چاہے وہ کسی بھی مسلک میں ہوں۔ ان مسائل میں مزید کیا تحقیق ہونی ہے ممکنہ حالات پر مختلف اہل علم اپنی تحقیقات پیش کرتے رہتے ہیں۔
ماضی کے تمام فقہی اجتہاد کے کارناموں پر روشنی ڈالنے کے لئے اتنی ہی فرصت اور وسیع مطالعہ کی ضرورت ہے۔ دور حاضر میں کئی اہم مسائل علماء و محققین نے اپنی آراء پیش کی ہیں۔ مذاہب اربعہ میں آپ کس طرح کا ارتقاء پڑھنا چاہتے ہیں۔؟کچھ وضاحت
دور حاضر میں جدید بینکاری، اسلامی نظام انشورنس، وغیرہ سمیت کئی معاملات پر علماء نے اپنی رائے دی۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں نئے مسائل پر علماء کے بورڈ بنے ہوئے ہیں جو تحقیق کر کے اپنی آراء پیش کرتے ہیں۔

میرا جملہ کتب احادیث تھا۔ نیز یہ کہ صرف بخاری کو ہی ثابت کرنا اور اسی خبط میں مبتلا رہنا یہ مخصوص طبقے کا کام ہے۔ مگر دیگر اہل علم جامع بخاری کو بھی دیگر کتب کی طرح ایک کتاب ہی سمجھتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اس کودیگر کتب احادیث مین کہاں فوقیت ہے کہاں نہیں۔ مگر اہل علم اسے دیگر کتب پر فوقیت دیتے ہیں۔ یہ بھی بالکل متفق علیہ نہیں۔ کئی علماء کے ہاں مؤطا اور کئی مسلم کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔

کتب احا دیث میں من گھڑت روایات کا انکار تو کسی صاحب علم کو نہیں۔ اسی وجہ سے علم اسماء الرجال اور علم جرح و تعدیل مدون ہوئے۔ باقی رہی بات مختلف فرقوں کی تو اس بابت جیسا کہ پہلے عرض گزار ہوا کہ اس کی ابتدا ء حضرت عثمان کے دور سے ہوئی۔ مگر انکی علیحدگی خلافت علوی میں ہوئی۔ اسی عہد میں شیعیت کا بھی اغاز ہوا۔ بعد ازاں ایک طبقہ ناصبیت ابھرا۔ یہ طبقہ غالبا شام سے ابھرا۔ حضرت علی کے شاگرد و خلیفہ سید التابعین امام حسن بصری کے شاگرد نے فرقہ معتزلہ شروع کیا۔ شان علی میں غلو کی روایات بھی دور علوی سے ہی ملتی ہیں کہ آپ نے کچھ لوگوں کو آگ میں جلانے کی سزا دی۔ اس سے ایک نیا فرقہ کھڑا ہوا۔ یہ تو مختلف گروہوں کی بالکل ابتدا بیان کی ہے۔ جبکہ ابھی امام احمد و حاکم و ابن شیبہ پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔
لہذا فرقہ بندی کا الزام ابن شیبہ پر غلط ہے۔ یہ مانا جا سکتا ہے کہ انہوں نے روایت حدیث میں نرم رویہ اختیار کیا۔ اس میں کثرت موضوع روایات کے مختلف اسباب بھی ہوسکتے ہیں۔
یہاں تک اپنے تئیں کوشش کی کہ بہت تفصیلی دلائل سے اجتناب برت کر صرف معروف باتوں کو ہی ذکر کیا جائے۔ کیونکہ دلائل پھر انکی جانچ پرکھ /جرح و تعدیل بھی ایک جان گسل کام ہے
۔ [/FONT]​

آپ کا کہنا ہے نہ تو تحقیق و اجتہاد کے دروازے پہلے بند تھے نہ ہی اب بند ہوئے، نظری طور پر تو یہ بات درست ہے لیکن عملی طور پر مذاہبِ اربعہ کی تدوین کے بعد یہ کام ہوا نہیں۔ آپ ائمۂ اربعہ کے بعد چند مجتہدین کے نام گنوا دیں اور اشارتاً ہی بتا دیں کہ انہوں نے کس مسئلے پر اجتہاد کیا۔
کیا تمام فقہی مذاہب کے ماننے والے اور اہلِ حدیث صحیحین کو حرفِ آخر نہیں مانتے، وہ قرآن میں نسخ پر راضی ہو جائیں گے لیکن صحیحین کی کسی روایت پر اعتراض انہیں گوارا نہیں، یہ سب تقلید اور جمود نہیں تو اور کیا ہے۔ دورِ حاضر کےایک دو علما اور شاہ ولی اللہ کے علاوہ کوئی نام لیں جو موطا کو بخاری پر ترجیح دیتا ہو۔
جہاں تک فرقہ بندی کا تعلق ہے، سیدنا علیؓ کے دور میں شیعہ ایک مذہبی فرقہ نہیں بلکہ سیاسی گروہ تھا، اس کی مذہبی فرقے کے طور پر تشکیل بعد میں ہوئی۔ ہماری کتبِ احادیث میں بخاری ہی واحد کتاب ہے جس نے اس فرقے کے خلاف مضبوط حصار باندھا، ورنہ باقی تمام کتب تو شیعہ روایات سے بھری پڑی ہیں، ان میں المصنف ابن ابی شیبہ، مستدرک حاکم اور مسندِ احمد خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔
 

انجام

MPA (400+ posts)

آپ کا کہنا ہے نہ تو تحقیق و اجتہاد کے دروازے پہلے بند تھے نہ ہی اب بند ہوئے، نظری طور پر تو یہ بات درست ہے لیکن عملی طور پر مذاہبِ اربعہ کی تدوین کے بعد یہ کام ہوا نہیں۔ آپ ائمۂ اربعہ کے بعد چند مجتہدین کے نام گنوا دیں اور اشارتاً ہی بتا دیں کہ انہوں نے کس مسئلے پر اجتہاد کیا۔
کیا تمام فقہی مذاہب کے ماننے والے اور اہلِ حدیث صحیحین کو حرفِ آخر نہیں مانتے، وہ قرآن میں نسخ پر راضی ہو جائیں گے لیکن صحیحین کی کسی روایت پر اعتراض انہیں گوارا نہیں، یہ سب تقلید اور جمود نہیں تو اور کیا ہے۔ دورِ حاضر کےایک دو علما اور شاہ ولی اللہ کے علاوہ کوئی نام لیں جو موطا کو بخاری پر ترجیح دیتا ہو۔
جہاں تک فرقہ بندی کا تعلق ہے، سیدنا علیؓ کے دور میں شیعہ ایک مذہبی فرقہ نہیں بلکہ سیاسی گروہ تھا، اس کی مذہبی فرقے کے طور پر تشکیل بعد میں ہوئی۔ ہماری کتبِ احادیث میں بخاری ہی واحد کتاب ہے جس نے اس فرقے کے خلاف مضبوط حصار باندھا، ورنہ باقی تمام کتب تو شیعہ روایات سے بھری پڑی ہیں، ان میں المصنف ابن ابی شیبہ، مستدرک حاکم اور مسندِ احمد خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔

جناب کچھ عرصہ قبل انڈیا کے علماء بورڈ کے نام سے کچھ تحقیقی مقالات اور اہم اجتہادی مسائل پر مشتمل جریدہ دیکھا۔ ماضی قریب جب مختلف الخیال لوگوں کی اجتماعی مجالس کا اہتمام ہوتا تھا۔ اس میں عورت کی دیت کے مسئلہ پر اختلاف رائے ہوا۔ اس موقع پر ڈاکٹر طاہر القادری سمیت چند دیگر علماء مفتی اقتدار احمد، نے بھی عورت کی دیت مرد کے برابر ہونے کی رائے دی۔
اسی طرح علامہ غلام رسول سعیدی نے اس دور میں علم تفسیر و حدیث میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ کئی مسائل میں اجتہاد پیش کیا۔
علامہ احمد رضا خان آف بریلی نے بھی بہت سارے مسائل میں اجتہاد پیش کیا۔ توقیت نماز کا تعین وغیرہ۔ نیز اِسی دور
[FONT=&quot]میں [/FONT][FONT=&quot]ڈاکٹر طاہرالقادری نے چاند دیکھنے کے لئے قانون سازی و لائحہ عمل کا طریقہ پیش کیا۔ کیلنڈر بنانے اور اس کے لئے مکمل فارمولا بھی پیش کیا۔ بد قسمتی سے ہمارے دور میں میدیا تو سرف بے حیائی دکھاتا ہے۔ فقہاء و مجتہدین کو لوگوں کے سامنے لایا ہی نہیں جاتا۔ اگر سامنے اتے ہیں تو نکاح و طلاق کے مسائل میں ہی الجھا دیا جاتا ہے۔

کتب احادیث بارے عرض کر چکا ہوں کہ ایک طریق جہال ہے دوسرا طریق علم ہے۔ اہل علم کبھی بھی صرف صحیحین پر اصرار نہیں کرے گا۔ جہال کا فقیر ذمہ دار نہیں۔ ان 2 کتب کو دیگر کتب پر شہرت و صحت اسناد میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ میری طرف سے آپ ارود زبان میں علامہ سعیدی کی شرح مسلم پڑھیں ۔ شرح بخاری پڑھیں۔ اسی طرح آپ مفتی تقی عثمانی صاحب کو پڑھ لیں۔ سب نے بخاری میں ضعفاء کی نشاندہی کی ہے۔ واضح لکھا ہے جو بخاری نے نہیں کہا تمہں کیا حق ہے کہ تم وہ دعوی کرو۔

آپ کبھی شیعہ کے بارے میں کتب پڑھیں ۔ انمیں سیاسی کے ساتھ اعتقادی خرابیوں کی نشاندہی بھی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ ایک گروہ نے حضرت علی کرم اللہ کی طرف سے آگ میں جلانے کی سزا پر آپ کو الہ کا درجہ دے دیا۔ ابن سبا یہودی نے آپ کے بارے بہت کچھ گھڑا۔ بعد ازاں مختار ثقفی نے بھی اہل بیت کے نام پر بہت اودھم مچایا۔

کتب احادیث میں موضوع روایات پر بار بار آپ ایک ہی بات پر اصرار کر رے ہیں۔ جناب کسی بھی حدیث کی صحت کو معلوم کرنے کے لئے علم اسماء الرجال اور جرح وتعدیل متعارف ہوئے۔ رہی بات شیعہ کے رد میں بخاری کی تو بخاری کی کتاب کا نام واقعی بڑا ہے مگر اس میں بھی کئی شدید مختلف فیہ واقعات درج ہیں۔
نیز یہ بھی قابل غور ہے کہ بہت سارے لوگوں پر دور حاضر کی طرح بے جا فتوی بازی بھی ہوئی۔ ائمہ نے کسی بھی حدیث کو صرف راوی کے مسلک سے اختلاف کے [/FONT][FONT=&quot] ہونے کی [/FONT][FONT=&quot] وجہ سے رد نہیں کیا۔ لہذا مصنف کی احادیث میں بھی لازم نہیں کثرت موضوعات کی ہو۔ انمیں ضعفاء بھی ہونگی۔ انکے بھی 70 درجے ہیں۔ یہ بہت طویل علمی بحث ہے۔[/FONT]​
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
جناب بہت اچھی دلیل دی۔ مگر نہ تو کسی کانام لیا۔ نہ کوئی حوالہ دیا۔ کہ اس کی نوعیت کودیکھا جائے۔
جس نبی ﷺ کا فرمان آپ نے نقل کیا اسی کے سامنے کئی لوگوں کو گناہوں پر سزا دی گئی ۔ وہ گناہ زنا بھی تھا، شراب نوشی بھی تھی۔ سزا کے بعد اعلان فرمایا خبردار انکی محبت و ایمان میں شک نہ کرنا۔
یہ بھی اسی رسولﷺ نے فرمایاکہ میرے صحابہ عدول ہیں۔
اب آپ نے جو بات پیش کی اس فرد کا عمل یہ ہے کہ اس نے راز فاش کرکے الٹا اعترض کیا۔ اب اس اعتراض پر کئی سوال ہیں۔ آیا یہ اعتراض تھا یا سوال۔؟ اگر اعتراض تھا تو یہ منافقین کا طریقہ ہے۔ اگر سوال تھا تو امتی کا سوال جائز ہے۔ منافق مسلم نہیں۔ بہروپیہ ہے۔ ان کو چن چن کر نکالا گیا۔
صادق و امین کا کلیہ تو حضور نے دیا۔ اس ادب میں ہم خاموش ہوجاتے ہیں۔ ہم یہ امید کرتے ہیں کہ وہ حضور پر بہتان نہیں باندھیں گے۔ مگر صاحب کسی کے جھوٹا ہونے پر بغیر دلیل دیئے ہی جھوٹا ثابت کر دیا۔ واہ۔۔۔۔

بغیر دلیل وثبوت کے ہی آپ سچوں کے ساتھ ہم جھوٹوں کےساتھ۔
آپ بچوں والے فورم میں بجھارتیں بوجھنا کھیلیں۔۔۔۔


یہ واقعہ قرآن میں ہے آپ سورہ تحریم کی ابتدائی آیات دیکھیں

اور جناب یہ پروپیگنڈہ بند کریں کہ میں کسی سے نفرت کرنے یا کسی کا حساب لینے کی کوشش کر رہا ہوں ، کسی کے جو بھی اعمال ہیں اس کا حساب لینا اللّه کا کام ہے میں صرف صادق اور امین کی کسوٹی پر پرکھ رہا ہوں کیوں کہ یہ حکم بھی قرآن میں ہے کہ سچوں کے ساتھ ہو جاؤ
اور آپ بھی یہ فرما چکے ہیں کہ کسی آدمی کے سچے ہونے کا فیصلہ اس کا معشرتی راویہ دیکھ کر کیا جائے گا ، جب میں نے آپ سے معیار سیٹ کرنے کا پوچھا تو آپ نے میرے سے ہی سوال کر دیا

اور میں کسی کا نام نا لے کر آپ کو پہیلیاں نہیں بجھا رہا ، صرف ان لوگوں کے احترام کی وجہ سے نام نہیں لے رہا ، جیسا کہ رسول پاک کو کوئی بات ناگوار گذرتی تھی تو یہ نہیں کہتے تھے کہ فلاں نے یہ کام کیا بلکے کہتے تھے کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ایسا کام کرتے ہیں

مجھے آپ پر حیرت ہے کہ آپ کو عمل سے زیادہ بندے کو اہمیت دے رہے ہیں
اور اس سے بھی زیادہ حیرت اس بات کے جائز قرار دینے پر ہے کہ امتی اپنی خیانت پکڑے جانے پر صاحب وحی سے سوال پوچھے کہ آپ کو کیسے پتہ چلا
 
Last edited:

انجام

MPA (400+ posts)
یہ واقعہ قرآن میں ہے آپ سورہ تحریم کی ابتدائی آیات دیکھیں

اور جناب یہ پروپیگنڈہ بند کریں کہ میں کسی سے نفرت کرنے یا کسی کا حساب لینے کی کوشش کر رہا ہوں ، کسی کے جو بھی اعمال ہیں اس کا حساب لینا اللّه کا کام ہے میں صرف صادق اور امین کی کسوٹی پر پرکھ رہا ہوں کیوں کہ یہ حکم بھی قرآن میں ہے کہ سچوں کے ساتھ ہو جاؤ

اور میں کسی کا نام نا لے کر آپ کو پہیلیاں نہیں بجھا رہا ، صرف ان لوگوں کے احترام کی وجہ سے نام نہیں لے رہا ، جیسا کہ رسول پاک کو کوئی بات ناگوار گذرتی تھی تو یہ نہیں کہتے تھے کہ فلاں نے یہ کام کیا بلکے کہتے تھے کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ایسا کام کرتے ہیں

مجھے آپ پر حیرت ہے کہ آپ کو عمل سے زیادہ بندے کو اہمیت دے رہے ہیں
اور اس سے بھی زیادہ حیرت اس بات کے جائز قرار دینے پر ہے کہ امتی اپنی خیانت پکڑے جانے پر صاحب وحی سے سوال پوچھے کہ آپ کو کیسے پتہ چلا

جس قرآن نے یہ بتایا اسی نے یہ بھی بتایا کہ وہ تمہاری مائیں ہیں۔ اور نبی ﷺ کا حق تم سے زیادہ ہے۔ یہ تمہاری بد بختی ہے کہ گھر میں پیدا ہونے والے ان جھگڑوں کو تم اپنے لئے باعث نجات جانتے ہو یا اپنی دنیا و آخرت برباد کرتے ہو۔
مجھے بندے سے زیادہ واقعہ سے ہی اہمیت تھی مگر میرے ذہن میں یہ بھجارت نہیں آرہی تھی ۔ تمہاری تحریر سے نفرت کے آثار ضرور واضح تھے۔ تمہیں اس بات میں کوئی شرم نہیں کہ تم کس کے بارے کیا بات کر رہے ہو۔ مگر تمہارا نہیں استاد کی تعلیم کا قصور ہے۔
یہ امتی کے ساتھ نبی ﷺ کی ازواج بھی ہیں۔ یہ سوال جیسا کہ عرض کیا کہ امتحان یا آزمائش کے لئے نہیں ۔ قرآن کے لفظ سے ٹیڑھ پن مراد ہے تو پھر آپ سورہ عبس پڑھ کر لوگوں کو نبی ﷺ کے بارے لوگوں کو گمراہ کرو گے۔ بد معاشی کی بھی حد ہوتی ہے۔؟

 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

جس قرآن نے یہ بتایا اسی نے یہ بھی بتایا کہ وہ تمہاری مائیں ہیں۔ اور نبی ﷺ کا حق تم سے زیادہ ہے۔ یہ تمہاری بد بختی ہے کہ گھر میں پیدا ہونے والے ان جھگڑوں کو تم اپنے لئے باعث نجات جانتے ہو یا اپنی دنیا و آخرت برباد کرتے ہو۔
مجھے بندے سے زیادہ واقعہ سے ہی اہمیت تھی مگر میرے ذہن میں یہ بھجارت نہیں آرہی تھی ۔ تمہاری تحریر سے نفرت کے آثار ضرور واضح تھے۔ تمہیں اس بات میں کوئی شرم نہیں کہ تم کس کے بارے کیا بات کر رہے ہو۔ مگر تمہارا نہیں استاد کی تعلیم کا قصور ہے۔
یہ امتی کے ساتھ نبی ﷺ کی ازواج بھی ہیں۔ یہ سوال جیسا کہ عرض کیا کہ امتحان یا آزمائش کے لئے نہیں ۔ قرآن کے لفظ سے ٹیڑھ پن مراد ہے تو پھر آپ سورہ عبس پڑھ کر لوگوں کو نبی ﷺ کے بارے لوگوں کو گمراہ کرو گے۔ بد معاشی کی بھی حد ہوتی ہے۔؟


بھولے بادشاہ ! یہ گھر کا واقعہ نہیں ، قرآن میں بیان کیا گیا ہے ذرا سوچ کے بتاؤ اس واقعے کو قرآن میں بیان کرنے کا مقصد کیا لگتا ہے تمھیں ؟

اور میرا سوال حساب لینے کے لئے نہیں بلکے بندے سے احادیث لینے کا تھا
، قرآن میں سچوں کے ساتھ رہنے کا کہا گیا ہے کسی رشتے داری کا نہیں،. . . . یہ نبی کے ہم پر حق اور سچے لوگوں کے ساتھ ہونے کو گڈ مد نا کرو

اور امھات المومنین کا سہارا لے کر بھاگ نہیں سکتے ، آگے کچھ واقعات ایسے آنے والے ہیں جو امھات المومنین سے متعلق نہیں ، ان کا کیا جواب دو گے ؟

مجھے یہ قاعدہ پہلے بتا دیتے کہ امھات المومنین کو استثنیٰ حاصل ہے تو بات یہاں تک نا آتی ، اب بھی موقع ہے باقی استثنیٰ کے بارے بتا دو تا کہ بعد میں تمھیں تڑکا نا لگے
 
Last edited:

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

جس قرآن نے یہ بتایا اسی نے یہ بھی بتایا کہ وہ تمہاری مائیں ہیں۔ اور نبی ﷺ کا حق تم سے زیادہ ہے۔ یہ تمہاری بد بختی ہے کہ گھر میں پیدا ہونے والے ان جھگڑوں کو تم اپنے لئے باعث نجات جانتے ہو یا اپنی دنیا و آخرت برباد کرتے ہو۔
مجھے بندے سے زیادہ واقعہ سے ہی اہمیت تھی مگر میرے ذہن میں یہ بھجارت نہیں آرہی تھی ۔ تمہاری تحریر سے نفرت کے آثار ضرور واضح تھے۔ تمہیں اس بات میں کوئی شرم نہیں کہ تم کس کے بارے کیا بات کر رہے ہو۔ مگر تمہارا نہیں استاد کی تعلیم کا قصور ہے۔
یہ امتی کے ساتھ نبی ﷺ کی ازواج بھی ہیں۔ یہ سوال جیسا کہ عرض کیا کہ امتحان یا آزمائش کے لئے نہیں ۔ قرآن کے لفظ سے ٹیڑھ پن مراد ہے تو پھر آپ سورہ عبس پڑھ کر لوگوں کو نبی ﷺ کے بارے لوگوں کو گمراہ کرو گے۔ بد معاشی کی بھی حد ہوتی ہے۔؟


اور ہاں ! سورہ عبس کا واقعہ ہم رسول کے پلے باندھنے کی جسارت نہیں کرتے ، یہ کسی دوسرے شخص کا واقعہ ہے جو ان کی مخفل میں موجود تھا اور اس کا ثبوت قرآن میں موجود ہے

بولو گے تو اس کا بھی حوالہ دے دوں گا

قصور تمہارا نہیں تمہارے استادوں کا ہے
 

اللہ کا بندہ

MPA (400+ posts)

جناب کچھ عرصہ قبل انڈیا کے علماء بورڈ کے نام سے کچھ تحقیقی مقالات اور اہم اجتہادی مسائل پر مشتمل جریدہ دیکھا۔ ماضی قریب جب مختلف الخیال لوگوں کی اجتماعی مجالس کا اہتمام ہوتا تھا۔ اس میں عورت کی دیت کے مسئلہ پر اختلاف رائے ہوا۔ اس موقع پر ڈاکٹر طاہر القادری سمیت چند دیگر علماء مفتی اقتدار احمد، نے بھی عورت کی دیت مرد کے برابر ہونے کی رائے دی۔
اسی طرح علامہ غلام رسول سعیدی نے اس دور میں علم تفسیر و حدیث میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ کئی مسائل میں اجتہاد پیش کیا۔
علامہ احمد رضا خان آف بریلی نے بھی بہت سارے مسائل میں اجتہاد پیش کیا۔ توقیت نماز کا تعین وغیرہ۔ نیز اِسی دور
[FONT=&amp]میں [/FONT][FONT=&amp]ڈاکٹر طاہرالقادری نے چاند دیکھنے کے لئے قانون سازی و لائحہ عمل کا طریقہ پیش کیا۔ کیلنڈر بنانے اور اس کے لئے مکمل فارمولا بھی پیش کیا۔ بد قسمتی سے ہمارے دور میں میدیا تو سرف بے حیائی دکھاتا ہے۔ فقہاء و مجتہدین کو لوگوں کے سامنے لایا ہی نہیں جاتا۔ اگر سامنے اتے ہیں تو نکاح و طلاق کے مسائل میں ہی الجھا دیا جاتا ہے۔

کتب احادیث بارے عرض کر چکا ہوں کہ ایک طریق جہال ہے دوسرا طریق علم ہے۔ اہل علم کبھی بھی صرف صحیحین پر اصرار نہیں کرے گا۔ جہال کا فقیر ذمہ دار نہیں۔ ان 2 کتب کو دیگر کتب پر شہرت و صحت اسناد میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ میری طرف سے آپ ارود زبان میں علامہ سعیدی کی شرح مسلم پڑھیں ۔ شرح بخاری پڑھیں۔ اسی طرح آپ مفتی تقی عثمانی صاحب کو پڑھ لیں۔ سب نے بخاری میں ضعفاء کی نشاندہی کی ہے۔ واضح لکھا ہے جو بخاری نے نہیں کہا تمہں کیا حق ہے کہ تم وہ دعوی کرو۔

آپ کبھی شیعہ کے بارے میں کتب پڑھیں ۔ انمیں سیاسی کے ساتھ اعتقادی خرابیوں کی نشاندہی بھی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ ایک گروہ نے حضرت علی کرم اللہ کی طرف سے آگ میں جلانے کی سزا پر آپ کو الہ کا درجہ دے دیا۔ ابن سبا یہودی نے آپ کے بارے بہت کچھ گھڑا۔ بعد ازاں مختار ثقفی نے بھی اہل بیت کے نام پر بہت اودھم مچایا۔

کتب احادیث میں موضوع روایات پر بار بار آپ ایک ہی بات پر اصرار کر رے ہیں۔ جناب کسی بھی حدیث کی صحت کو معلوم کرنے کے لئے علم اسماء الرجال اور جرح وتعدیل متعارف ہوئے۔ رہی بات شیعہ کے رد میں بخاری کی تو بخاری کی کتاب کا نام واقعی بڑا ہے مگر اس میں بھی کئی شدید مختلف فیہ واقعات درج ہیں۔
نیز یہ بھی قابل غور ہے کہ بہت سارے لوگوں پر دور حاضر کی طرح بے جا فتوی بازی بھی ہوئی۔ ائمہ نے کسی بھی حدیث کو صرف راوی کے مسلک سے اختلاف کے [/FONT][FONT=&amp] ہونے کی [/FONT][FONT=&amp] وجہ سے رد نہیں کیا۔ لہذا مصنف کی احادیث میں بھی لازم نہیں کثرت موضوعات کی ہو۔ انمیں ضعفاء بھی ہونگی۔ انکے بھی 70 درجے ہیں۔ یہ بہت طویل علمی بحث ہے۔[/FONT]​

تو آپ کو پوری اسلامی تاریخ میں یہی مجتہدین میسر آئے، تقلید جن کا مذہب ہے ، ان کے اجتہاد کو تو برِصغیر کے ایک قلیل گروہ کے علاوہ کوئی نہیں مانتا

علم اسماء الرجال اور جرح وتعدیل بھی تو انسانوں ہی کا بنایا ہوا ہے، غلطی سے مبرا تو نہیں، لیکن بہت سی روایات اسی پیمانے پر ہی پوری نہیں اترتیں، اور جن لوگوں نے جھوٹی روایات گھڑیں ان کو اسناد گھڑنے سے کون روک سکتا ہے​
 

khan_sultan

Banned

جناب کچھ عرصہ قبل انڈیا کے علماء بورڈ کے نام سے کچھ تحقیقی مقالات اور اہم اجتہادی مسائل پر مشتمل جریدہ دیکھا۔ ماضی قریب جب مختلف الخیال لوگوں کی اجتماعی مجالس کا اہتمام ہوتا تھا۔ اس میں عورت کی دیت کے مسئلہ پر اختلاف رائے ہوا۔ اس موقع پر ڈاکٹر طاہر القادری سمیت چند دیگر علماء مفتی اقتدار احمد، نے بھی عورت کی دیت مرد کے برابر ہونے کی رائے دی۔
اسی طرح علامہ غلام رسول سعیدی نے اس دور میں علم تفسیر و حدیث میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ کئی مسائل میں اجتہاد پیش کیا۔
علامہ احمد رضا خان آف بریلی نے بھی بہت سارے مسائل میں اجتہاد پیش کیا۔ توقیت نماز کا تعین وغیرہ۔ نیز اِسی دور
[FONT=&amp]میں [/FONT][FONT=&amp]ڈاکٹر طاہرالقادری نے چاند دیکھنے کے لئے قانون سازی و لائحہ عمل کا طریقہ پیش کیا۔ کیلنڈر بنانے اور اس کے لئے مکمل فارمولا بھی پیش کیا۔ بد قسمتی سے ہمارے دور میں میدیا تو سرف بے حیائی دکھاتا ہے۔ فقہاء و مجتہدین کو لوگوں کے سامنے لایا ہی نہیں جاتا۔ اگر سامنے اتے ہیں تو نکاح و طلاق کے مسائل میں ہی الجھا دیا جاتا ہے۔

کتب احادیث بارے عرض کر چکا ہوں کہ ایک طریق جہال ہے دوسرا طریق علم ہے۔ اہل علم کبھی بھی صرف صحیحین پر اصرار نہیں کرے گا۔ جہال کا فقیر ذمہ دار نہیں۔ ان 2 کتب کو دیگر کتب پر شہرت و صحت اسناد میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ میری طرف سے آپ ارود زبان میں علامہ سعیدی کی شرح مسلم پڑھیں ۔ شرح بخاری پڑھیں۔ اسی طرح آپ مفتی تقی عثمانی صاحب کو پڑھ لیں۔ سب نے بخاری میں ضعفاء کی نشاندہی کی ہے۔ واضح لکھا ہے جو بخاری نے نہیں کہا تمہں کیا حق ہے کہ تم وہ دعوی کرو۔

آپ کبھی شیعہ کے بارے میں کتب پڑھیں ۔ انمیں سیاسی کے ساتھ اعتقادی خرابیوں کی نشاندہی بھی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ ایک گروہ نے حضرت علی کرم اللہ کی طرف سے آگ میں جلانے کی سزا پر آپ کو الہ کا درجہ دے دیا۔ ابن سبا یہودی نے آپ کے بارے بہت کچھ گھڑا۔ بعد ازاں مختار ثقفی نے بھی اہل بیت کے نام پر بہت اودھم مچایا۔

کتب احادیث میں موضوع روایات پر بار بار آپ ایک ہی بات پر اصرار کر رے ہیں۔ جناب کسی بھی حدیث کی صحت کو معلوم کرنے کے لئے علم اسماء الرجال اور جرح وتعدیل متعارف ہوئے۔ رہی بات شیعہ کے رد میں بخاری کی تو بخاری کی کتاب کا نام واقعی بڑا ہے مگر اس میں بھی کئی شدید مختلف فیہ واقعات درج ہیں۔
نیز یہ بھی قابل غور ہے کہ بہت سارے لوگوں پر دور حاضر کی طرح بے جا فتوی بازی بھی ہوئی۔ ائمہ نے کسی بھی حدیث کو صرف راوی کے مسلک سے اختلاف کے [/FONT][FONT=&amp] ہونے کی [/FONT][FONT=&amp] وجہ سے رد نہیں کیا۔ لہذا مصنف کی احادیث میں بھی لازم نہیں کثرت موضوعات کی ہو۔ انمیں ضعفاء بھی ہونگی۔ انکے بھی 70 درجے ہیں۔ یہ بہت طویل علمی بحث ہے۔[/FONT]​

کتب احا دیث میں من گھڑت روایات کا انکار تو کسی صاحب علم کو نہیں۔ اسی وجہ سے علم اسماء الرجال اور علم جرح و تعدیل مدون ہوئے۔ باقی رہی بات مختلف فرقوں کی تو اس بابت جیسا کہ پہلے عرض گزار ہوا کہ اس کی​
ابتدا ء حضرت عثمان کے دور سے ہوئی۔ مگر انکی علیحدگی خلافت علوی میں ہوئی۔ اسی عہد میں شیعیت کا بھی اغاز ہوا۔​
بعد ازاں ایک طبقہ ناصبیت ابھرا۔ یہ طبقہ غالبا شام سے ابھرا۔ حضرت علی کے شاگرد و خلیفہ سید التابعین امام حسن بصری کے شاگرد نے فرقہ معتزلہ شروع کیا۔ شان علی میں غلو کی روایات بھی دور علوی سے ہی ملتی ہیں کہ آپ نے کچھ لوگوں کو آگ میں جلانے کی سزا دی۔ اس سے ایک نیا فرقہ کھڑا ہوا۔ یہ تو مختلف گروہوں کی بالکل ابتدا بیان کی ہے۔ جبکہ ابھی امام احمد و حاکم و ابن شیبہ پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔​



[FONT=&amp]
محترم آپ کی اور باقی حضرات کی گفتگو کو کل سے دیکھ رہا ہوں اور ایک سوال بھی آپ سے کیا پر آپ نے زیادہ زحمت نہیں فرمائی خیر آپ کے قوٹ میں شیعہ کے بارے حقیقت سے برعکس بات پڑھنے کو ملی میرا خیال تھا کے آپ نے اگر باقی تین آئمہ کے قول امام ابو حنیفہ کے بارے پڑھے ہوتے توباقی مذاہب پر بات کرنے سے پہلے خود یہ سوچتے کے آخر کیوں باقی آئمہ نے ان کو گمراہ قرار دیا ؟اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے کیا گمراہ کی تقلید جائز ہے ؟ میں بہت عرصۂ سوچتا رہا کے آخر کیوں باقی آئمہ نے ایسا موقف اختیار کیا پر جب میں نے ایک ہی امام کے ماننے والے دیو بندی اور بریلوی حضرات کو ایک دوسرے کی بلکل الٹ دیکھا تو واقعی ہی یقین آ گیا کے قیاس کرنے کی ہی وجہ ہو گی جو کے اتنے سخت الفاظ استمعال ہوے [/FONT]
دوسری بات یہ ہے کے آپ اس فورم پر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں کے مذھب شیعہ علوی دور میں شروع ہوا جب کے یہ کتب اہلسنت سے ثابت ہے کے رسول خدا کے دور میں ہی شیعیت کا آغاز ہوا اور شیعہ موجود تھے اور شعیان علی کو خوشخبری بھی سنائی گئی رسول خدا سے کے اے علی تم اور تمارے شیعہ کامیاب ہیں اور یہ متواتر احادیث سے ثابت برادران اہلسنت سے تو پھر آپ جیسا علم رکھنے والے شخص کی طرف سے اس طرح کا فرمان کچھ مناسب نہیں ہے

 
Last edited:

انجام

MPA (400+ posts)

تو آپ کو پوری اسلامی تاریخ میں یہی مجتہدین میسر آئے، تقلید جن کا مذہب ہے ، ان کے اجتہاد کو تو برِصغیر کے ایک قلیل گروہ کے علاوہ کوئی نہیں مانتا

علم اسماء الرجال اور جرح وتعدیل بھی تو انسانوں ہی کا بنایا ہوا ہے، غلطی سے مبرا تو نہیں، لیکن بہت سی روایات اسی پیمانے پر ہی پوری نہیں اترتیں، اور جن لوگوں نے جھوٹی روایات گھڑیں ان کو اسناد گھڑنے سے کون روک سکتا ہے​
مجھے قلت مطالعہ کا عتراف ہے۔ ہردور میں کئے گئے اجتہاد کو بعد میں آنے والے ہی مانتے ہیں۔ ہم زمانہ تو طعنہ زنی سے ہی فارغ نہیں ہوتے۔ جیسا کہ عرض کیا کہ زمانہ حاضر میں زیادہ تر امام صآحبان کے بھی نہیں بلکہ سرف اپنے استاد صاحبان کے مقلدین ہیں۔ جواپنے استاد کی رائے پر ہی فتوی دیتے ہیں۔ ایسے مجتہدین کی موجودگی میں خاک اجتہاد ہونگے۔ یہاں تو کفر و شرک کے فتووں سے فرصت نہیں۔

جناب مجھے اس بات کا اعتراف ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ موضؤعات یعنی گھڑی گئی حدیثوں پر بھی الگ کتب لکھی گئی ہیں۔ وضاع راویوں کی بھی تحقیق کی گئی۔انکی مقبول و مردود روایات بھی واضح کی گئیں۔
آپ کی پوست میں اور ایک اور پوسٹ میں ائمہ پر الزامات کا تذکرہ کیا گیا۔
جناب یہ ایک تاریخی تسلسل ہے جن کے پاس علم اور تحقیق کے لئے وقت میسر نہیں ہوتا وہ دوسروں پر فتوی بازی اور الزام تراشی کرنا خوب جانتے ہیں۔
ہمارے پاکستان کے ہی ایک صاحب فوت ہوگئے۔ انکے زور قلم سے کوئی صاحب علم محفوظ نہیں رہا۔ باقی تو وہ مانتے ہی نہ تھے اپنے ہم مسلک ہی انکے نوک قلم سے کفر تک پہنچے۔ اس طرح کئی لوگ صرف سطحی نوعیت کے مسائل پر کئی کئی کتابیں ایک دوسرے کے خلاف ہی لکھتے رہے۔
کئی لوگ ایسے ہیں ایک ہی استاد کے شاگرد تمام مسائل پر متفق۔ چند فروعی اختلاف ۔ مگراپنے استاد سے بیانات منسوب کر کے کتابوں پر کتابیں چھاپتے چلے گئے۔ کچھ ایسا ہی ہر امام کے ساتھ انکے ہم زمانہ نے کیا۔
امام ابوحنیفہ کے خلاف اقوال پر تو تاریخ بغداد میں 40 کے قریب صفحات بھرے ہوئے ہیں۔
امام مالک ہوں یا شافعی، یا احمد بن حنبل ،بخاری ہوں غزالی ہوں، غوث اعظم جیلانی ہوں جس جس کو اٹھا کر دیکھیں گے ہر کسی کے ساتھ یہی ہوا۔ اپ مجدد الف ثانی کو دیکھ لیں۔

بشری تقاضوں کے تحت ہم سارے علم حدیث کے ذخیرے کو غلطیوں سے مبرا قرار نہیں دیتے۔ مگر یہ بھی انسانی تاریخ کی ایسی حقیقت ہے کہ حفاظت حدیث کے لئے جتنا تحقیقی کام کیا گیا اور اصول اپنائے اتنےس خت معیار قرآن مجید کے بعد کسی اور علم کے لئے نہیں۔

 

اللہ کا بندہ

MPA (400+ posts)
مجھے قلت مطالعہ کا عتراف ہے۔ ہردور میں کئے گئے اجتہاد کو بعد میں آنے والے ہی مانتے ہیں۔ ہم زمانہ تو طعنہ زنی سے ہی فارغ نہیں ہوتے۔ جیسا کہ عرض کیا کہ زمانہ حاضر میں زیادہ تر امام صآحبان کے بھی نہیں بلکہ سرف اپنے استاد صاحبان کے مقلدین ہیں۔ جواپنے استاد کی رائے پر ہی فتوی دیتے ہیں۔ ایسے مجتہدین کی موجودگی میں خاک اجتہاد ہونگے۔ یہاں تو کفر و شرک کے فتووں سے فرصت نہیں۔

جناب مجھے اس بات کا اعتراف ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ موضؤعات یعنی گھڑی گئی حدیثوں پر بھی الگ کتب لکھی گئی ہیں۔ وضاع راویوں کی بھی تحقیق کی گئی۔انکی مقبول و مردود روایات بھی واضح کی گئیں۔
آپ کی پوست میں اور ایک اور پوسٹ میں ائمہ پر الزامات کا تذکرہ کیا گیا۔
جناب یہ ایک تاریخی تسلسل ہے جن کے پاس علم اور تحقیق کے لئے وقت میسر نہیں ہوتا وہ دوسروں پر فتوی بازی اور الزام تراشی کرنا خوب جانتے ہیں۔
ہمارے پاکستان کے ہی ایک صاحب فوت ہوگئے۔ انکے زور قلم سے کوئی صاحب علم محفوظ نہیں رہا۔ باقی تو وہ مانتے ہی نہ تھے اپنے ہم مسلک ہی انکے نوک قلم سے کفر تک پہنچے۔ اس طرح کئی لوگ صرف سطحی نوعیت کے مسائل پر کئی کئی کتابیں ایک دوسرے کے خلاف ہی لکھتے رہے۔
کئی لوگ ایسے ہیں ایک ہی استاد کے شاگرد تمام مسائل پر متفق۔ چند فروعی اختلاف ۔ مگراپنے استاد سے بیانات منسوب کر کے کتابوں پر کتابیں چھاپتے چلے گئے۔ کچھ ایسا ہی ہر امام کے ساتھ انکے ہم زمانہ نے کیا۔
امام ابوحنیفہ کے خلاف اقوال پر تو تاریخ بغداد میں 40 کے قریب صفحات بھرے ہوئے ہیں۔
امام مالک ہوں یا شافعی، یا احمد بن حنبل ،بخاری ہوں غزالی ہوں، غوث اعظم جیلانی ہوں جس جس کو اٹھا کر دیکھیں گے ہر کسی کے ساتھ یہی ہوا۔ اپ مجدد الف ثانی کو دیکھ لیں۔

بشری تقاضوں کے تحت ہم سارے علم حدیث کے ذخیرے کو غلطیوں سے مبرا قرار نہیں دیتے۔ مگر یہ بھی انسانی تاریخ کی ایسی حقیقت ہے کہ حفاظت حدیث کے لئے جتنا تحقیقی کام کیا گیا اور اصول اپنائے اتنےس خت معیار
قرآن مجید کے بعد کسی اور علم کے لئے نہیں۔



پچھلے بارہ سو سال میں صحیح معنوں مں اجتہاد ہو ا ہی نہیں ، اگر ہوا ہوتا تو سب کو معلوم ہوتا، آپ جتنی سر توڑ کوشش کر لیں آپ کو کچھ نہیں ملے گا، ہاں ہمارے اس دور میں کچھ نئی آرا سامنے آئی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ امت ان کو کس حد تک قبول کرتی ہے۔
عباسی خلافت کے قیام کے ۳۰ سال کے بعد سے لیکر ۱۹۲۲ میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے تک فقہ حنفی پرمسلم دنیا کا سوادِ اعظم جمع رہا، اور بڑی حد تک آج بھی ہے،اہل علم کی اکثریت تمام مسائل میں فقۂ حنفی ہی سے استنباط کرتی رہی، لیکن امام ابو حنیفہ ائمۂ حدیث کے نزدیک ضعیف اور جھوٹے ہیں، چند آرا ملاحظہ ہوں
امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کا قو ل ہے ۔
لا یکتب حدیثہ ۔ ''ابوحنیفہ کی حدیث نہیں لکھی جائے گی ۔''
قال الإمام العقیلیّ : حدّثنا محمّد بن عثمان (بن أبی شیبۃ) ، قال : سمعت یحییٰ بن معین وسئل عن أبی حنیفۃ ، قال : کان یضعّف فی الحدیث ۔
''محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ میں نے امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے سنا ، ان سے امام ابوحنیفہ کے بارے میں سوال کیاگیا تو انہوں نے فرمایا ، وہ حدیث میں ضعیف قرار دئیے گئے ہیں ۔''
أحمد بن حنبل کہتے ہیں يكذب وہ جھوٹے تھے۔
ابو حفص عمر بن شاہین کہتے ہیں
كان يضع الأحاديث وہ حدیث گھڑتے تھے(یہ کذب سے بھی بڑھ کر ہے)۔


اگر تو ائمۂ رجال کی بات درست ہے تو پھر تو امت بارہ سو سال تک ایک ایسے شخص کی رائے پر جمع رہی جو نا صرف ضعیف الحدیث اور جھوٹا تھا بلکہ حدیثیں بھی گھڑتا تھا، اس شخص کی گمراہی میں کیا شک ہے جو جھوٹا اور واضع الحدیث ہو، تو امت کی اس کی رائے پر جمع ہونا کیا گمراہی پر جمع ہونے کے مترادف نہیں ۔ یعنی اہلِ حدیث کے نزدیک تو امت بارہ سو سال تک گمراہی پر جمع رہی۔

دوسری طرف اگر امام ابو حنیفہ کے علم اور تفقہ کو دیکھیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے، اسلامی فقہ کی تدوین جن اصولوں پر انہوں نے کی وہ حقیقتاً اسلام کی روح کے قریب ہیں۔ میں تو یہ سب جان کر ائمۂ رجال کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دوں گا، یا یہ سمجھوں گا کہ وہ ٹھیک طور پر ہم تک نہیں پہنچی۔ اور اگر امام صاحب کے بارے میں ان کی رائے درست نہیں یا درست طریقے سے ہم تک نہیں پہنچی تو باقی راویوں کے بارے میں کیا سمجھا جائے جائے؟

قرآن کی جمع و تدوین کو آپ باقی علوم کے ساتھ قیاس نہ کریں، کیونکہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا ہے اور وہ رسول اللہ ﷺ کی زیرِ نگرانی اس حال میں مدون ہو چکا تھا جو ہمارے پاس موجود ہے۔

 
Last edited:

khan_sultan

Banned

تصحیح: میرے نزدیک ہر شیعہ یا ہر سنی کافر نہیں۔ کیوں کہ شیعہ یا سنی میں سے یا کسی بھی مسلک سے کوئی شخص اسی صورت میں کافر ہوگا جب ضروریات دین میں سے سب یا کسی کا بھی انکار
کرے۔


---------------------------------

یہ وضاحت اس لیے بھی ضروری ہے کہ مسلکاً مرزائی بھی سنی ہیں۔ آپ صدیوں سے رشتہ اخوت ایمانی میں بندھے بھائی تھے لیکن پچھلی صدی میں دونوں بھائیوں کی ختم نبوت کے معاملے میں ایک معمولی سے اختلاف کو بنیاد بنا کر کوئی شکر رنجی ہو گئی تھی جس کی بنا پر وہ ریاستی سطح پر کافر ہو گئے اور آپ جمہوریت کے طفیل مسلمان بچ گئے۔
محترم یہ فرمان رسول ہے کے میں تم میں دوگرانقدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک قران اور دوسرے میرے اہلبیت ان سے تمسک رکھو اسی طرح فرمایا کے میرے اہلبیت مثل کشتی نوح ہیں جو ان پر سوار ہوا وہ کامیاب ہو گیا پھر فرمایا کے علی حق ہے اور حق علی ہے ان سب احادیث کی روشنی میں اگر پار لگنا ہے تو اس رستے پر چلو جس کی طرف علی اور ان کے اہلبیت لے کے چلیں نہ کے ان کے جو خود گمراہ رہے اور پل صراط پر بھی ولایت علی کا سوال پوچھا جاے گا آگے آپ کی مرضی ہے جس طرف آپ نکلتے ہو ؟
 
Last edited:

khan_sultan

Banned
اگر آپ کو لفظ غیر پر اعتراض ہے تو یقین دلاتا ہوں کہ اس سے تضحیک مقصود نہیں تھی صرف پنج تن پاک سے علحیدہ بتانا مقصود تھا
چلیں یہ تو آپ نے مان لیا کہ پنج تن پاک سے احادیث لینے میں کوئی شک نہیں

اب دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں عرض ہے کہ دوسرے لوگ جنہیں آپ صحابی کہہ رہے ہیں ، غلطیوں سے پاک نہیں تھے آپ یہ بھی فرما چکے ہیں کہ ان کا معشرتی راویہ دیکھا جائے گا کہ یہ سچے تھے کہ نہیں . . . . . اس بارے میں مزید وضاحت فرما دیں کہ کس قدر برائی کی اجازت ہے ؟ کبھی بڑا جھوٹ نا بولا ہو ؟ کبھی کبیرہ گناہ نا کیا ہو ؟ یا کچھ اور پیمانہ ؟
محترم آپ کا سوال یہ بنتا تھا کے جناب آپ تین ہزار روایت مولاے کائنات کی صحاح ستہ سے ثابت کریں اور باقی دس ہزار مختلف کتب اہلسنت سے کیوں کے ان صاحب نے بہت بڑا دعوه کیا ہے جو کے باطل ہے پر میرے مطابق جذبات میں آ کر
 
Last edited:

Back
Top