اسلامی علوم کی تدوین

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
میں نے کوئی دو سال پہلے یہ سوال اٹھایا تھا کہ جس بندے کی غلطیوں /گناہوں کا ذکر قرآن میں موجود ہو ، اس سے مروی احادیث کی کیا اہمیت ہے ؟ کیا وہ قابل قبول ہیں

امید ہے آپ شافی جواب مرحمت فرمائیں گے
 

Veila Mast

Senator (1k+ posts)
عقل سفاک است او سفاک تر
پاک تر، چالاک تر، بے باک تر

سوال تو یہ بھی ہوا ذلک الکتاب لا ریب فیہ سے مراد تورات و زبور و انجیل ہیں کہ صیغہ غائب ہے اور اگر اطلاق قرآن پر ہوتا تو صیغہ حاضر ہوتا، تدوین تو الگ موضوع ہے، سوال ہی قرآن کی حجیت پر تھا

وہ زبان جس کو سب کن کی کنجی کہیں
اس کی نافذ حکومت پر لاکھوں سلام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جنہوں نے فرما دیا کہ یہ قرآن ہے تو قرآن ہے، اب جنہیں حدیث کی حجیت پر سوال ہے تو قرآن کیونکر معتبر ہوا

رہی بات قرآن و حدیث کے مقدم و موخر ہونے پر تو جو حجیت قرآن کو حاصل ہے وہ حدیث کو نہیں، مگر ناسخ و منسوخ کا علم بھی ملحوظ خاطر رہے، ناسخ و منسوخ کا یہ قاعدہ احادیث میں بھی ہے جس کو نظر انداز کرنے سے ابہام پیدا ہوتے ہیں، منسوخ الحکم کے علاوہ منسوخ التلاوت کا بھی قاعدہ اہم ہے

یحییٰ بن معین یاد آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر کی حاضری کو آئے، واپس وطن کو جانے لگے تو ابھی کچھ کوس ہی گئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت سے سرفراز کیا، واپس مدینہ آئے اور فوت ہوئے، امام باقر رضی اللہ عنہ موجود تھے، فضل والے ہی فضل والوں کو جانتے ہیں، وہ سعادت ملی جو کسی صحابی تک کو نصیب نہ ہوئی، جس تختے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا گیا، امام باقر رضی اللہ عنہ نے اسی تختے کو غسل دینے کو منگوایا

سبیل المومنین بھی ایک قاعدہ ہے، اللہ ہمیں اللہ والوں کے نقش قدم پر رکھے

تیرے غلاموں کا نقش قدم ہے راہ خدا
وہ کیا بہک سکے جو یہ چراغ لے کے چلے
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
ویلا مست صاحب ! یہ سوال تو محترم ممبر روفل میاں نے اٹھایا تھا ، وہ بے چارہ جب بھی آ کر دانش مندانہ کمینٹ کرتا تھا تو میں اسے ایک ہی سوال کر کے بھگا دیتا تھا
:p :biggthumpup:
خیر بندہ اپنے جوابات دینے سے نہیں ، سوالات سے پہچانا جاتا ہے
 

انجام

MPA (400+ posts)
بلاشبہ اسلامی علوم کی تدوین تاریخ کا ایک روشن باب ہے، لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ پہلی تحقیق ہی کو آخری سمجھ لیا گیا اور انسانوں کی مرتب کردہ کتب کو ہر تنقید سے بالا قرار دے کر تحقیقِ مزید کے دروازے بند کر دئے گئے۔
امام ابو حنیفہ ؒ نے ،جو فقہ اسلامی کے مدّون او ّل ہیں ، اپنی فقہ کو دین اسلام کے مجموعی مزاج کو مدّ نظر رکھتے ہوئے جمہوری انداز میں مرتّب کیا اور ٓزادانہ تحقیق و جستجو پہ زور دیا تا کہ شخصی تقلید راہ نہ پا سکے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ان کی فقہ کو ایک مستقل مذہب کا درجہ دے کر اس کی تقلید کو ضروری قرار دے دیا جائے گا۔ اسی طرح امام مالکؒ اپنی کتاب مؤطا(جسے انہوں نے خلیفہ منصور کی فرمائش پہ لکھا تھا) کو سلطنتِ عباسیہ کا قانون بنانے پر رضامند نہ ہوئے کیونکہ اس سے تقلید کی راہ ہموار ہو جاتی۔ ان دونو ں جلیل القدر ائمہ نے عباسیوں کا آلۂ کار نہ بننے کی پاداش میں سخت تکلیفیں اٹھائیں ۔ امام ابو حنیفہ ؒ کی وفات کے بعدان کے شاگرد ابو یوسف نے سرکاری عہدہ قبول کر لیا اور ملوکیّت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ فقۂ حنفی کو سلطنتِ عباسیہ کی سرکاری فقہ قرار دے دیا گیا اور آزادانہ تفقّہ فی الدّین کی راہیں عملًا بند کر دی گئیں۔ یہ اسلام میں تقلیدِ شخصی کا آغاز تھا۔ مشہور حنفی امام، ابوالحسن عبید اللہ کرخی(متوفیٰ ۹۵۲) احناف کا موقف یوں بیان کرتے ہیں
قرآن کی جو آیت اس طریقے کے مخالف ہو جس پر ہمارے اصحاب ہیں، وہ یا تو موؤل ہے یا منسوخ۔ (تاریخ فقہ اسلامی، ترجمہ عبدالسلام ندوی ص۴۲۱)
یہ پڑھ کر آدمی تھرا جاتا ہے کہ انسانوں کی رائےپر قرآن کو یا تو منسوخ کیا جائے یا اس کی اپنے اصحاب کی رائے کے مطابق تاویل کی جائے گی۔

اس کے بعد تدوینِ حدیث کا دور آیا جس میں محدّثین نےروایات کے بحر بے کراں میں اپنی اپنی استعداد کے مطابق غوّاصی کر کے جوگوہر و خذف اپنی کتابوں میں جمع کیے اوران سب پر قال رسول اللہﷺ کی مہر تصدیق ثبت کی اوراسے حدیثِ رسولﷺ کے نام سے امّت کو کر پیش کر دیا ۔ قرآن کے چیلنج فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ(۲:۲۳،۱۰:۳۸) ( تو بنا لاؤ اس طرح کی ایک ہی سورت)۔ کا جواب تو کوئی نہ لا سکا اور نا ہی لا سکے گالیکن صحاح، مسانید، معاجم، جوامع اور سنن کے نام پر روایات کے دفاتر کے دفاتر قلمبند کر دئے گئے اور انہیں مثلہ معہ کے نام پر وحیٔ الٰہی کا مثل قرار دے دیا گیا۔ یوں روایات کے دفاتر نا صرف قرآن کے مقابل لا کر کھڑے کیے گئے بلکہ انہیں قرآن پہ فیصلہ کن حیثیت دے دی گئی، ابو عمرو عبدالرحمن بن محمد اوزاعی اور یحیٰ بن کثیر کےا قوال اس طرز عمل پر حجّت ہیں۔ ابو عمرو عبدالرحمن بن محمد اوزاعی کا قول ہے
الکتاب احوج الی السنة من السنة الی الکتاب
(قرآن حدیث کا محتاج ہے جبکہ حدیث قرآن کی محتاج نہیں)
اور یحیٰ بن کثیر کا قول:
السنة قاضیةعلی الکتاب ولیس الکتاب بقاض علی السنة
( حدیث کو قرآن پہ فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے جبکہ قرآن کو حدیث پہ فیصلہ کن حیثیت حاصل نہیں)

جس طرح مسندِ ابو حنیفہ کے نام سے جو مجموعہ حدیث مرتب کیا گیا اس کا امام ابو حنیفہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ بعد کے حنفی علما نے اپنے مذہب کے مطابق مرتب کیا، اسی طرح مسندِ احمد بن حنبل جو روایاتِ حدیث کی سب سے بڑی کتاب ہے امام المحدثین احمد بن حنبل متوفیٰ ۲۴۱ ھ سے منسوب ہے لیکن ان کی مرتب کردہ نہیں۔ امام احمد صحاح ستہ کے تمام مصنفین کے شیخ یا شیخ الشیوخ ہیں، مؤطا امام مالک کے علاوہ تقریباً تمام کتب احادیث کے مرتبین نے ان سے استفادہ کیا ہے، وہ علم حدیث میں ایسی مرکز ی حیثیت رکھتے ہیں کہ علم حدیث کا ان بغیر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
مسندِ احمد ایک ایسا مجموعہ ہے جو ہر فرقے کے حق یا مخالفت میں وافر حصہ رسدی فراہم کرتا ہے، فرقوں کی تشکیل و پشتیبانی میں جتنا حصہ اس کتاب نے ڈالا ہے کوئی اور اس کی شریک و سہیم نہیں ، صوفیا اور روافض نے اس مسند کو اپنے مقصد کے لئے جس طرح استعمال کیا ہے اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ گو کہ مکذوبہ روایات سے کلیتاً تو حدیث کی کوئی کتاب محفوظ نہیں رہی، لیکن مسند احمد کے علاوہ، المصنف ابن ابی شیبہ اور حاکم کی مستدرک ایسی کتابیں ہیں جن میں ایسی روایات کثرت سے جگہ پا گئی ہیں جنہوں نے فرقہ بندی میں اہم کردار اد کیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امام احمد نے اپنی زندگی میں مسند نام کی کوئی کتاب مرتب ہی نہیں کی، اگر کی ہوتی تو تیسری صدی کے دوارن جوصحاح ستہ کے مؤلفین کا دور ہے اس مسند کا تذکرہ ضرور ہوتا۔ امام بخاری متوفیٰ ۲۵۶ ھ نے اپنی تاریخ کبیر میں اپنے استاد امام احمد کا تذکرہ کیا لیکن مسند کا اشارتاً بھی کوئی ذکر نہیں کیا۔ دیگر تمام مؤلفین صحاح ستہ بھی مسند کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ مسند کسی غیر معروف مؤلف کی کوئی چھوٹی موٹی تالیف تو تھی نہیں کہ سب ہی اس سے بے خبر رہتے۔ مسند احمد کا بطور کتاب تذکرہ چھٹی صدی ہجری کے اوائل میں ملتا ہے۔
مسند احمد کی اسناد کو دیکھیں تو یہ امام احمد بن حنبل متوفیٰ ۲۴۱ھ سے عبداللہ بن احمد (۲۱۳ھ ۔ ۲۹۰ھ )سے ابو بکر احمد بن جعفر القطیعی(۲۷۳ھ ۔ ۳۶۸ھ ) سے الحسن بن علی ابن المذہب(۳۵۵ھ ۔ ۴۴۴ھ ) سے ابو القاسم ہبۃ اللہ (۴۳۲ھ ۔ ۵۲۵ھ ) تک آحاد در آحاد چلتی ہیں۔ عبداللہ بن احمدکے بعد راوی مجروح ہیں جبکہ ابن المذہب ضعیف الحدیث ہیں۔ سلسلہ اسناد کوسرسری دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عبداللہ بن احمد کی وفات کے وقت ابو بکرقطیعی کی عمر صرف سترہ برس تھی، جبکہ ابن المذہب ، ابو بکرقطیعی کی وفات کے وقت فقط تیرہ سال کے تھے اور ہبۃ اللہ محض بارہ سال کے تھے کہ ابن المذہب چل بسے۔ اور یہ کوئی دو چار روایتوں کا معاملہ نہیں پوری مسند یعنی تیس ہزار روایتوں کی سماعت ہے جو چار نسلوں تک کبار سے صغار تک چلتی رہی، اور ہمارے محدثین نے محض امام احمد کی نسبت کی لاج رکھتے ہوئے ان مکذوبہ و موضوعہ روایات کے انبوہ کو قبول کر لیا، اس معاملے میں ہمارے محدثین نے کیسی چشم پوشی سے کام لیا ہے کہ حیرت و حسرت ہے۔
ابن حجر لسان المیزان میں خطیب بغدادی سے نقل کرتے ہیں کہ ابن المذہب کا قطیعی سے مسند احمد کی سماعت صرف جزوی طور پر درست ہے ، مگر ابن المذہب نے غیر سماعت شدہ اجزا کو بھی سماعت شدہ کے ساتھ ملا لیا۔ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ابن المذہب روایتوں میں قابل اعتماد نہ تھے۔ ابن حجر خطیب بغدادی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ابن المذہب نےابو عمرو مہدی کے واسطے سےایک حدیث بیان کی تو میں نے کہا کہ ابن مہدی تو یہ حدیث روایت نہیں کرتے، تو ابن المذہب نے ابن مہدی کے نام پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ بہت سی احادیث میرے پاس آتی ہیں جو غیر منسوب ہوتی ہیں، تو میں ان کو اپنی طرف نسبت دے دیتا ہوں، اس طرح اصل روایت میں اس نسبت کا الحاق ہو جاتاہے، ابن حجر لکھتے ہیں کہ ابن المذہب کی یہ حرکتیں ان کے معاصرین کو ناپسند تھیں، مگر وہ پھر بھی ان حرکتوں سے باز نہ آئے، لیکن اس سے یہ ضرور ظاہر ہو گیا کہ ابن المذہب ایک متقی آدمی نہ تھے اور انہی کی طرح ان کے شیخ ابو بکر قطیعی بھی، اس وجہ سے مسند احمد میں ایسی ایسی روایتیں داخل ہو گئی ہیں جن کے نہ تو متن درست ہیں اور نہ ہی اسناد۔
اتنا کچھ جان لینے کے بعد کوئی ذی شعور صرف اسناد کی بنیاد پر مسند کی روایات کو قبول نہیں کر سکتا، بلکہ اس کی روایات کی اگر مستند کتابوں سے متابعات مل جائیں تو فبہا، ورنہ وہ مردود ہی ہیں۔

جناب شاید آپ تحقیق کا ذوق نہیں رکھتے یا صرف اپنے ہی خول سے تحقیق کو دیکھنے کے متمنی ہیں۔ نہ تو تحقیق و اجتہاد کے دروازے پہلے بند تھے نہ ہی اب بند ہوئے۔
انسانی کاوش سے مرتبہ جملہ کتب کو کسی نے بھی حرف آخر قطعی حتمی نہیں کہا۔ نہ ہی ایسا ہو سکتا ہے۔
تقلید شخصی کے بابت آپ نے لکھا تو عرض ہے کہ فقہاء نے مجتہدین کے 7 گروہ لکھے ہیں۔
جیسا کہ اس فورم پر اپنے تئیں ہم بھی مجتہد کی ذمہ داریوں پر فائز ہیں۔ جو جس سطح کا فرد ہوگا وہ اسی سطح کی بات کرے گا۔ یعنی یہاں جس نے صرف ایک عنوان پر صرف 4 احادیث پڑھ لیں وہ بھی مجتہد اعظم ہے۔
جس شخص نے اپنے استاد کی بات پر ہی انحصار کرنا ہے تو اس کا فقط تاویل سے ہی کام چلے گا۔
علم تحقیق و جستجو کے دروازے بند نہیں ہوئے۔ مگر تقلید کا جو مفہوم اپ سمجھے ہیں ایسا بالکل بھی نہیں۔ اور ہو بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اجتہاد قرآن و سنت پر فیصل نہیں ہو سکتا۔
تیسرے یا چوتھے درجے تک کےمجتہدین کے ہاں تقلید کا مفہوم ائمہ کے اصولون کی تقلید ہے۔ یعنی اجتہاد میں ائمہ کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر احکامات اخذ کئے جائیں گے۔ جبکہ اس کے بعد کے درجے والے تمام ناقلین ہیں۔ وہ امام صاحبان کی رائے تک بہت کم پہنچتے ہیں۔ بلکہ خود کو ہی مجتہد اعظم سمجھ کر اپنے استاد کی رائے پر فتوی جاری کرتے ہیں۔۔

جیسا کہ عرض کیا کہ کتب احادیث کی تدوین انسانی کاوش ہے۔ انہوں نے اپنے تئیں اسکو جہاں تک ہو سکا جمع ومدون کر کے پیش کر دیا۔
مگر یاد رکھیں تدوین قران کے بعد سب سے سخت اصول روایت حدیث کے ہیں۔آپ کا یہ کہنا کہ شاگردوں نے اساتذہ کی طرف کتب منسوب کر دیں تو جناب پہلے کتب مطبوعہ نہیں ہوتی تھیں بلکہ شاگرد استاد سے سنکر لکھتے تھے یاد کرتے تھے۔ اجازت پاتے تھے۔ صدیوں یہ سلسلہ مروج رہا۔ آج بھی جاری ہے مگر نسبتا کم ہوگیا۔
موضوع/ مکذوب روایات کو پرکھنے کے لئے ہی علم اصول الحدیث اور اس میں جرح و تعدیل کا اہم کردار ہے۔ ائمہ کے مرتب کردہ اصولوں کی روشنی میں ہی احادیث کی سند کے حسن وقبح کے اعتبار سے 70 کے قریب یا اس سے بھی زیادہ اقسام بیان کی گئی ہیں۔
جنمیں معروف صحیح ، حسن اور ضعیف ہیں۔ جبکہ موضوع کو ضعیف میں شامل نہیں کرتے۔
جب یہ واضح ہو گیا کہ یہ انسانی کاوش ہیں۔ تو ائمہ کےتمام تقوی، پرہیزگاری، خلوص اور للہیت کے باوجود ان ہی عظیم ہستیوں کے بیان کردہ اصولوں سے ہی احادیث کو پرکھا جائے گا۔

اب رہ گئی بات فرقہ واریت کی تو فرقہ واریت کی ابتدا بھی دور خلفاء راشدین سے ہوگئی تھی۔ حضرت عمر فاروق کے رعب دبدبہ کے سبب یہ فتنے دبے رہے۔ عہد عثمانی کے نصف کے بعد انمیں اضافہ شروع ہوا۔ بعد ازاں یہ پھیلتا ہی گیا۔ یہ بھی اپنی جگہ الگ طویل موضوع ہے۔
یعنی فرقہ واریت کا الزام احمد بن حنبل، ابن ابو شیبہ، یا حاکم وغیرہ کو دینا سرا سر ظلم ہے۔ کیونکہ یہ وبا تو انکی پیدائش سے بھی بہت پہلے پروان چڑھ چکی تھی۔

 

Veila Mast

Senator (1k+ posts)
ویلا مست صاحب ! یہ سوال تو محترم ممبر روفل میاں نے اٹھایا تھا ، وہ بے چارہ جب بھی آ کر دانش مندانہ کمینٹ کرتا تھا تو میں اسے ایک ہی سوال کر کے بھگا دیتا تھا
:p :biggthumpup:
خیر بندہ اپنے جوابات دینے سے نہیں ، سوالات سے پہچانا جاتا ہے


مجرم ہو خواہ کوئی، رہتا ہے ناصحوں میں
روئے سخن ہمیشہ سوئے جگر فگاراں

حکم تو آپ نے تیسری قسط کا فرمایا تھا جو خر مستیوں کی سبب ہو نہ پائی، اگر آپ اصرار فرماتے ہیں تو کوشش کی جا سکتی ہے
 

انجام

MPA (400+ posts)

کیا بات کرتے ہو بھئی؟
مرزائی کوئی ہندو تو نہیں تھے جنہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اگر ایسا ہوتا بھی تو ہمیں کیا لینا دینا وہ کسی کو بھگوان بنائیں یا اوتار۔
ذہن پر زور دیں، آفیشلی کافر بننے سے پہلے مرزائی بھی صدیوں سے سنی ہی تھے اور اپنی عبادات کے ظواہر سے آج بھی کامل سنی لگتے ہیں۔

جناب بے مقصد / لا حاصل بحث کا کوئی نتجہ نہیں۔ یہاں مرزئیت کی تاریخ پر بات نہیں ہو رہی۔ نیز مرزا قوم کی نہیں بلکہ مرزا غلام قادیانی کے ماننے والوں کی بات ہے۔ انکے مقتدی صدیوں سے نہیں اس کی پیدائش کے بعد بنے جس کو خود 2 صدیاں نہیں ہوئیں اسکا مذہب صدیوں سے کہاں سے اگیا۔

اپنی عبادات سے ظواہر سے جو مرضی نظر آئیں مگر انہوں نے ایک جھوٹے کاذب شخص کو نبی مانا۔ اس نے خود ہمارے نبی اور انکے اہلبیت و صحابہ کو گالیاں بکی ہیں۔ لہذا قرآن مجید کی نصوص اور فرامین رسول کی روشنی میں وہ کافر ہیں۔
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

مجرم ہو خواہ کوئی، رہتا ہے ناصحوں میں
روئے سخن ہمیشہ سوئے جگر فگاراں

حکم تو آپ نے تیسری قسط کا فرمایا تھا جو خر مستیوں کی سبب ہو نہ پائی، اگر آپ اصرار فرماتے ہیں تو کوشش کی جا سکتی ہے

جی بلکل ! میں نے کہا تھا کہ جواب دوسری قسط میں نہیں دیا جائے گا ، تیسری کا انتظار کرنا پڑے گا ، ہم اب بھی جوابات کے لئے ضیاع ھنری کے نام تیسری چٹھی بھگت جانے کو تیار ہیں ، پر لگ یہی رہا ہے کہ انفنیٹ مکتوب بھی آ گئے تو ہمارے سوالوں کے جواب نہیں آئیں گے
 
جناب بے مقصد / لا حاصل بحث کا کوئی نتجہ نہیں۔ یہاں مرزئیت کی تاریخ پر بات نہیں ہو رہی۔ نیز مرزا قوم کی نہیں بلکہ مرزا غلام قادیانی کے ماننے والوں کی بات ہے۔ انکے مقتدی صدیوں سے نہیں اس کی پیدائش کے بعد بنے جس کو خود 2 صدیاں نہیں ہوئیں اسکا مذہب صدیوں سے کہاں سے اگیا۔

اپنی عبادات سے ظواہر سے جو مرضی نظر آئیں مگر انہوں نے ایک جھوٹے کاذب شخص کو نبی مانا۔ اس نے خود ہمارے نبی اور انکے اہلبیت و صحابہ کو گالیاں بکی ہیں۔ لہذا قرآن مجید کی نصوص اور فرامین رسول کی روشنی میں وہ کافر ہیں۔

پیمانے اتنے کڑے سیٹ نہ کریں کیوں کہ اگر اس بنیاد پر کافر ٹہرایا جائے تو محمد و اہلبیت محمد کو گالیاں بکنے والوں کی فہرست کاتب وحی سے شروع ہو کر بڑے بڑے نامی گرامی محدثین سے ہوتی ہوئی مرزا پر آ کر بھی نہیں رکے گی۔
احتیاط کیا کریں "آپکے ایمان" کا معاملہ ہے۔


 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
جناب بے مقصد / لا حاصل بحث کا کوئی نتجہ نہیں۔ یہاں مرزئیت کی تاریخ پر بات نہیں ہو رہی۔ نیز مرزا قوم کی نہیں بلکہ مرزا غلام قادیانی کے ماننے والوں کی بات ہے۔ انکے مقتدی صدیوں سے نہیں اس کی پیدائش کے بعد بنے جس کو خود 2 صدیاں نہیں ہوئیں اسکا مذہب صدیوں سے کہاں سے اگیا۔

اپنی عبادات سے ظواہر سے جو مرضی نظر آئیں مگر انہوں نے ایک جھوٹے کاذب شخص کو نبی مانا۔ اس نے خود ہمارے نبی اور انکے اہلبیت و صحابہ کو گالیاں بکی ہیں۔ لہذا قرآن مجید کی نصوص اور فرامین رسول کی روشنی میں وہ کافر ہیں۔
اس فورم پر تو کبھی انہوں نے گالی گلوچ نہیں کیا ، اس لئے آپ کا یہ دعوا کچھ بے بنیاد لگتا ہے
دوسرا قادیانیوں میں غالبا لاہوری گروپ ایسا ہے جو مرزا کو آخری نبی نہیں بلکے مجتھد / امام وغیرہ مانتا ہے پھر بھی وہ آئیں پاکستان کے مطابق کافر ہیں ؟ آپ مانیں گے نہیں پر یہ سچ ہے کہ آپ نے انہیں جمہوریت کے حسن کے مطابق کافر قرار دیا ہے

پر خیر چھوڑیں یہ سب ! تھریڈ کے موضوع پر آتے ہیں
پوسٹ 21 میں میرے سوال کا جواب عنایت فرمایں نوازش ہو گی
 
Last edited:

انجام

MPA (400+ posts)
میں نے کوئی دو سال پہلے یہ سوال اٹھایا تھا کہ جس بندے کی غلطیوں /گناہوں کا ذکر قرآن میں موجود ہو ، اس سے مروی احادیث کی کیا اہمیت ہے ؟ کیا وہ قابل قبول ہیں

امید ہے آپ شافی جواب مرحمت فرمائیں گے


مجھے نہیں معلوم آپ نے کس کی غلطیوں کا ذکر کیا۔ کب سوال پوچھا۔ مگر کہا جاتا ہے ہر غلطی گناہ نہیں جبکہ ہر گناہ غلطی ہے۔
مردود یعنی جس کی گواہی نہ مانی جائے اس کے فقہی قواعد بھی ہیں اور اصول حدیث کے بھی۔ یہ بات واضح ہے کہ جس کا جھوٹا ہونا ثابت ہو چکے تو اسکی تو عام گواہی بھی نہیں مانی جائگی۔ چہ جائیکہ روایت حدیث میں۔ اس کے لئے اصول حدیث میں کاذب کا لفظ آتا ہے۔ اور اسکی روایت کو موضوع کہا جاتا ہے۔
اب آپ کا سوال کیا ہے اور کس کے بارے ہے یہ آپ خود ہی واضح کر سکتے ہیں۔ جنرل سوال کا جنرل جواب تو لکھ دیا۔

 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

مجھے نہیں معلوم آپ نے کس کی غلطیوں کا ذکر کیا۔ کب سوال پوچھا۔ مگر کہا جاتا ہے ہر غلطی گناہ نہیں جبکہ ہر گناہ غلطی ہے۔
مردود یعنی جس کی گواہی نہ مانی جائے اس کے فقہی قواعد بھی ہیں اور اصول حدیث کے بھی۔ یہ بات واضح ہے کہ جس کا جھوٹا ہونا ثابت ہو چکے تو اسکی تو عام گواہی بھی نہیں مانی جائگی۔ چہ جائیکہ روایت حدیث میں۔ اس کے لئے اصول حدیث میں کاذب کا لفظ آتا ہے۔ اور اسکی روایت کو موضوع کہا جاتا ہے۔
اب آپ کا سوال کیا ہے اور کس کے بارے ہے یہ آپ خود ہی واضح کر سکتے ہیں۔ جنرل سوال کا جنرل جواب تو لکھ دیا۔


جناب یہی تفصیل کیا نا کافی ہے کہ گناہوں کا ذکر قرآن میں آ گیا ؟ " کرو تمہارے دلوں میں کجی آ گئی "ہے . . . . . . اگر آپ اصرار کریں گے تو آیات بھی پیش کر دوں گا فلحال جنرل ہی پوچھتا ہوں
 

انجام

MPA (400+ posts)
اس فورم پر تو کبھی انہوں نے گالی گلوچ نہیں کیا ، اس لئے آپ کا یہ دعوا کچھ بے بنیاد لگتا ہے
دوسرا قادیانیوں میں غالبا لاہوری گروپ ایسا ہے جو مرزا کو آخری نبی نہیں بلکے مجتھد / امام وغیرہ مانتا ہے پھر بھی وہ آئیں پاکستان کے مطابق کافر ہیں ؟ آپ مانیں گے نہیں پر یہ سچ ہے کہ آپ نے انہیں جمہوریت کے حسن کے مطابق کافر قرار دیا ہے

اس فورم پر کسی عمل کا نہ کرنا اس کے غلط نہ کرنے کی دلیل نہیں۔ مجھے دلائل کی ضرورت نہیں۔ آپ خود مرزا کی اپنی پرانی شائع شدہ کتابوں کا مطالعہ کر لیں۔
لاہوری گروپ ایک جھوٹے شخص کو جو مسلمانوں کے نبی کو انکی ازواج ، اصحاب اور امتیوں کو بھی گالیاں تک دیتا ہے کو مسلمان ہی نہیں بلکہ مجتہد مانتے ہیں۔ لہذا جو شخص کسی قطعی الاعلان شخص کو کافر نہ مانے وہ بھی کافر ہی ہوتا ہے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا۔ یہ دھاگہ مرزئیوں کے کفر یا کسی دیگر فرقہ کو کافر یا مسلمان ثابت کرنے کے لئے نہیں۔

بلاوجہ خلط مبحث کی ضرورت نہیں۔ یہ بھی جواب آپ کے پوسٹ کرنے سبب کر دیا تاکہ کسی کو بد گمانی پیدا نہ ہو۔

 

انجام

MPA (400+ posts)
جناب یہی تفصیل کیا نا کافی ہے کہ گناہوں کا ذکر قرآن میں آ گیا ؟ " کرو تمہارے دلوں میں کجی آ گئی "ہے . . . . . . اگر آپ اصرار کریں گے تو آیات بھی پیش کر دوں گا فلحال جنرل ہی پوچھتا ہوں

آپ کیا کہنا چاہتے ہیں کھل کر بتائیں۔ آپ جب جس کے بارے میں بات کریں گے تو ہی کچھ کہا جاسکتا ہے۔ دلوں کی کجی بات کس مفہوم میں یہ بھی میں نے تو تعین نہیں کرنا۔
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

آپ کیا کہنا چاہتے ہیں کھل کر بتائیں۔ آپ جب جس کے بارے میں بات کریں گے تو ہی کچھ کہا جاسکتا ہے۔ دلوں کی کجی بات کس مفہوم میں یہ بھی میں نے تو تعین نہیں کرنا۔

میں نے اگر آیات بتا دیں تو شاید یہ تھریڈ ہی بند ہو جائے
فل حال آپ ہی کے ایک نقطے کو لے کر آگے چلتے ہیں
آپ نے فرمایا کہ جھوٹے شخص سے حدیث نہیں لی جا سکتی ، بجا فرمایا . . . . . .یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سچا ہے اس کا فیصلہ صاحب وحی کے علاوہ کون کر سکتا ہے ؟ یعنی کوئی بندہ اگر جھوٹا تھا پر پکڑا نہیں گیا تو کیا ؟
 

انجام

MPA (400+ posts)


پیمانے اتنے کڑے سیٹ نہ کریں کیوں کہ اگر اس بنیاد پر کافر ٹہرایا جائے تو محمد و اہلبیت محمد کو گالیاں بکنے والوں کی فہرست کاتب وحی سے شروع ہو کر بڑے بڑے نامی گرامی محدثین سے ہوتی ہوئی مرزا پر آ کر بھی نہیں رکے گی۔
احتیاط کیا کریں "آپکے ایمان" کا معاملہ ہے۔


قرآن مجید و اسلامی تعلیمات کی رو[FONT=&amp]شنی میں جوکچھ سمجھ پایا ہوں اس کے مطابق رسول اللہ ﷺ کو گالیاں تودور معمولی گستاخی والوں کا بھی ایمان غارت ہوجاتا ہے۔ صحابہ و اہل بیت پر تبرا کرنے والے بھی گمراہ ضرورٹھہرتے ہیں۔ گستاخی کرنا اور ملزم ٹھہرنا الگ باتیں ہیں۔
جیسا کہ پہلے عرض کر چکا بار بار کر رہا ہوں کہ بلا وجہ کی بحث فضول ہے۔ لہذا اس بحث کو الگ دھاگے میں لے جائیں۔
[/FONT]
 
Last edited:

انجام

MPA (400+ posts)
میں نے اگر آیات بتا دیں تو شاید یہ تھریڈ ہی بند ہو جائے
فل حال آپ ہی کے ایک نقطے کو لے کر آگے چلتے ہیں
آپ نے فرمایا کہ جھوٹے شخص سے حدیث نہیں لی جا سکتی ، بجا فرمایا . . . . . .یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سچا ہے اس کا فیصلہ صاحب وحی کے علاوہ کون کر سکتا ہے ؟ یعنی کوئی بندہ اگر جھوٹا تھا پر پکڑا نہیں گیا تو کیا ؟


سچے یا جھوٹا ہونے کا فیصلہ اس کے معاشرے میں موجود حالت اور چھان پھٹ ک سے ہی ممکن ہے۔ کسی کا دل چیرکر یا ماتھے پر کندہ الفاظ سے تعین نہیں ہوتا۔ اب صاحب وحی خود حیات ظاہری سےموجود نہیں ۔ تو انہوں نے اصول وضوابط بیان کر دیئے۔ ان کی روشنی میں ہی طے ہوگا۔

باقی آپ کا ضابطہ آپ خود ہی واضح کر سکتے ہیں۔

اگر کوئی پکڑا نہیں گیا تو اس کا جھوٹا ہونے کی تحقیق کریں۔ واضح ہو جائے گا۔ اس پر اللہ و رسول کی پھٹکار جلد پڑے گی۔ وہ ضرور ننگا ہو کر رہے گا۔نہیں تو معاملہ اللہ کے ہاتھ میں۔ ہمیں اتنا ہی حکم ہے کہ جب کوئی تمہارے پاس خبر لائے تو اسکی تحقیق کیا کرو۔ جبکہ خبر لانے والا فاسق/بد کردار ہو۔
اگر آپ کوئی اس سے عمدہ پیمانہ / معیار رکھتے ہیں تو ہمیں بھی آگاہ کیجئے۔ ہمارے پاس آخری پیمانہ اللہ کا کلام ہی ہے۔ اور کلام الہی ہمیں کسی کی بلا وجہ ٹوہ لگانے/ جاسوسی کرنے سے بھی منع کرتا ہے۔ یعنی ہمیں تحقیق کرنی ہے، جاسوسی نہیں کرنی۔بد گمانی بھی نہیں کرنی۔ اب اپ کچھ پیش کرنا چاہیں تو مہربانی۔

 
Last edited:

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)


سچے یا جھوٹا ہونے کا فیصلہ اس کے معاشرے میں موجود حالت اور چھان پھٹ ک سے ہی ممکن ہے۔ کسی کا دل چیرکر یا ماتھے پر کندہ الفاظ سے تعین نہیں ہوتا۔ اب صاحب وحی خود حیات ظاہری سےموجود نہیں ۔ تو انہوں نے اصول وضوابط بیان کر دیئے۔ ان کی روشنی میں ہی طے ہوگا۔

باقی آپ کا ضابطہ آپ خود ہی واضح کر سکتے ہیں۔

اگر کوئی پکڑا نہیں گیا تو اس کا جھوٹا ہونے کی تحقیق کریں۔ واضح ہو جائے گا۔ اس پر اللہ و رسول کی پھٹکار جلد پڑے گی۔ وہ ضرور ننگا ہو کر رہے گا۔نہیں تو معاملہ اللہ کے ہاتھ میں۔ ہمیں اتنا ہی حکم ہے کہ جب کوئی تمہارے پاس خبر لائے تو اسکی تحقیق کیا کرو۔ جبکہ خبر لانے والا فاسق/بد کردار ہو۔
اگر آپ کوئی اس سے عمدہ پیمانہ / معیار رکھتے ہیں تو ہمیں بھی آگاہ کیجئے۔ ہمارے پاس آخری پیمانہ اللہ کا کلام ہی ہے۔ اور کلام الہی ہمیں کسی کی بلا وجہ ٹوہ لگانے/ جاسوسی کرنے سے بھی منع کرتا ہے۔ یعنی ہمیں تحقیق کرنی ہے، جاسوسی نہیں کرنی۔بد گمانی بھی نہیں کرنی۔ اب اپ کچھ پیش کرنا چاہیں تو مہربانی۔


جی بہتر ، میں وضاحت کرتا ہوں
قرآن پاک میں بھی ایک مقام پر مباھلے کے واقعے کا ذکر ہے جس کے آخر میں جھوٹوں پر لعنت بھیجنے کا ذکر ہے کیا اس سے مباھلے میں شامل لوگوں کے سچے ہونے کا ثبوت نہیں ملتا ؟
یعنی ان لوگوں سے احادیث لینے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ؟

اس پر کوئی اعتراض ہو تو بتائیے پھر آگے چلتے ہیں
 

انجام

MPA (400+ posts)
جی بہتر ، میں وضاحت کرتا ہوں
قرآن پاک میں بھی ایک مقام پر مباھلے کے واقعے کا ذکر ہے جس کے آخر میں جھوٹوں پر لعنت بھیجنے کا ذکر ہے کیا اس سے مباھلے میں شامل لوگوں کے سچے ہونے کا ثبوت نہیں ملتا ؟
یعنی ان لوگوں سے احادیث لینے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ؟

اس پر کوئی اعتراض ہو تو بتائیے پھر آگے چلتے ہیں

اس بات پر کہیں کوئی جھگڑا ہماری پوری بحث میں گزرا ہو۔ بلکہ میں تو اوپر انکو علوم اسلامیہ کا منبع بتا آیا ہوں۔ چونکہ آپ نے بات کی تو یہ بھی واضح کر دوں کہ اہلسنت کی کتب احادیث میں سب سے زیادہ مروی احادیث حضرت باب العلم سے ہیں۔ صرف صحاح ستہ میں ہی 3000 سے زائد مرویات ہیں۔ یعنی یہ تعداد بھی سب سے کثیر الروایات والے 3 یا 4 اصحاب کی فہرست ظاہر کرتی ہے۔
تازہ تحقیق کے مطابق اہلسنت کے علمی ذخیرہ حدیث میں 10ہزار سے زائد احادیث صرف شیر خدا سے ہی مروی ہیں۔ اتنی کثیر تعداد کسی بھی دوسرے شخص سے مروی نہیں۔
یہ سب اس لئے لکھا تاکہ آپ اپنے متعصب غبارے سے نکل کر بات کریں۔

 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

اس بات پر کہیں کوئی جھگڑا ہماری پوری بحث میں گزرا ہو۔ بلکہ میں تو اوپر انکو علوم اسلامیہ کا منبع بتا آیا ہوں۔ چونکہ آپ نے بات کی تو یہ بھی واضح کر دوں کہ اہلسنت کی کتب احادیث میں سب سے زیادہ مروی احادیث حضرت باب العلم سے ہیں۔ صرف صحاح ستہ میں ہی 3000 سے زائد مرویات ہیں۔ یعنی یہ تعداد بھی سب سے کثیر الروایات والے 3 یا 4 اصحاب کی فہرست ظاہر کرتی ہے۔
تازہ تحقیق کے مطابق اہلسنت کے علمی ذخیرہ حدیث میں 10ہزار سے زائد احادیث صرف شیر خدا سے ہی مروی ہیں۔ اتنی کثیر تعداد کسی بھی دوسرے شخص سے مروی نہیں۔
یہ سب اس لئے لکھا تاکہ آپ اپنے متعصب غبارے سے نکل کر بات کریں۔

غصہ نا کریں جناب ! آرام سے بات کرتے ہیں

ویسے آج پہلی بار آپ سے سن رہا ہوں کہ اتنی زیادہ احادیث حضرت علی سے مروی ہیں ، اس سے پہلے مجھے یہی پڑھایا گیا تھا کہ اہل سنت کے پاس تقریبا دو ہزار کے لگ بھگ احادیث ہیں اور زیادہ تر احادیث بھی پنج تن پاک سے نہیں بلکے غیروں سے ہیں . . . . . اور اس فورم سمیت جہاں بھی میں نے آپ کی احادیث سنی وہاں حضرت علی کا نام شاز و ناظر ہی دیکھنے میں آیا . . . . . لیکن خیر میں ابھی تعداد پر بحث نہیں کرنا چاہتا

میرا نکتہ یہ ہے کہ پنج تن پاک سے مروی احادیث معتبر ترین ثابت ہوئیں کیوں کہ ان کی صداقت کی گواہی قرآن میں موجود ہے دوسرا امت کتنا ہی تردد کر لے ان جیسے سچے نہیں لا سکتی . . . . . . . اس پر کوئی اعتراض ہو تو بتائیں پھر آگے چلتے ہیں

آپ اچھی طرح سوچ لیں تب تک میں بھی ذرا کچھ کام نبٹا لوں
 

Veila Mast

Senator (1k+ posts)
جی بلکل ! میں نے کہا تھا کہ جواب دوسری قسط میں نہیں دیا جائے گا ، تیسری کا انتظار کرنا پڑے گا ، ہم اب بھی جوابات کے لئے ضیاع ھنری کے نام تیسری چٹھی بھگت جانے کو تیار ہیں ، پر لگ یہی رہا ہے کہ انفنیٹ مکتوب بھی آ گئے تو ہمارے سوالوں کے جواب نہیں آئیں گے

خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس لگے نہ ٹھیس آبگینوں کو

شاہ جی، طفل مکتب سے انفینٹ مکتوب ہی مطلوب ہوتے ہیں، اب شاہوں کا حکم کون رد کر سکتا ہے چاہے اس کے لیے پھر سے لائیکس اکٹھا کرنے کو لالچی گردانا جائے یا ڈرون خرمست اور اس کے اہل و عیال کے پرخچے اڑائیں

رہے گے ہم کب کسی سے دب کر آصف
وہ شاہ حسن سہی تو تاجدار ہم بھی ہیں
 

Back
Top