ایک زمانے میں وقت جاننے کے لیئے ہاتھ پر گھڑی باندھنی ضروری ہوتی تھی، ورنہ تو لوگوں سے وقت پوچھنا پڑتا، ۔فوٹو گرافی کے لیئے کیمرہ ساتھ گھمانا پڑتا، اگر سیاح ہوتے تو نقشہ ساتھ رکھتے، اور مقامی زبان کو سمجھنے میں آسانی کے لیئے،
ڈکشنری اور ترجمان وغیرہ، اپوزیشن کی طرح تاریخ پر تاریخ دینے یا دیکھنے کے لیئے کیلنڈر، تو خبریں دیکھنے کے لیئے سر اخبار کے اندر دینا ہوتا۔اس کے علاوہ تفریح کے لیئے ٹی وی وی سی آر رکھنا پڑتا۔ جس پر بعض نامراد ٹوٹا دل لیئےٹوٹے دیکھتے تو کوئی اس پر ہندووں کے قصے جھوٹے دیکھتے ۔
اور ناجانے کیا کچھ۔ یہ ساری چیزیں ایک جگہ اکھٹی بھی ہو پائیں گی، پچھلی صدی میں کوئی سوچھتا بھی نہیں تھا، مگر سائنس کی نظر میں یہ ممکن تھا اور پھر ان ساری آفات، خُرافات اور پریشانیوں سے ایک چیز نے جان چھڑائی، سمارٹ فون نے۔
جب عظیم سائینٹسٹ، عمران خان اپنی تھیوری میں کہتا تھا کہ ایک خاص ایوالیوشن کے پراسس سے گزر کر ، اپوزیشن کا سارہ کیمیکل، اور گند ایک جگہ ، ایک لیبارٹری میں بلکہ ایک برنی میں اکھٹا ہوجائےگا تو لوگ اسے دیوانے کا خواب سمجھتے تھے، کیونکہ لوگوں کا خیال تھا،۔
کہ کیسے ایک مزہب کی دکان ،(اگرچہ مزہب کے علاوہ اس دکان پر سب دستیاب تھا) اور ناچ گانے والا بلو کا مکان ایک ہوسکتے ہیں، کیسے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نواز شیطان اور دس پرسنٹیئہ حیوان ایک ہوسکتے ہیں، کیسے پرچی کنگ گنجن کی بیٹی اداکاری و جھوٹ کی ملکہ مریم، اور پرچی پر بنے مشترکہ یا پھر چال سے مشکوک چیئر مین ایک ہوسکتے ہیں۔
پر، اس سائنٹسٹ کی تھیوری نے آج ثابت کیا کہ واقعی اتنا سارہ گند ایک جگہ اکھٹا کیا جاسکتا ہے، بس آدمی کی نیت صاف ہونی چاہیئے۔۔ اس سے کمال یہ ہوتا ہے کہ گند کی صفائی آسان ہوجاتی ہے۔ اور اس گند کی صفائی بھی انشاٗاللہ اسی سائنٹسٹ کے ہاتھوں ہوگی۔