پاکستان تحریک انصاف کے آزادی لانگ مارچ کے دوران یاسمین راشد رکاوٹیں عبور کرکے آگے بڑھیں ان کی گاڑی کو توڑا گیا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری، جس پر انہیں بھرپور انداز میں سراہا گیا۔
لانگ مارچ کے دوران پولیس تشدد کا شکار ہونیوالی ڈاکٹر یاسمین راشد آج عدالت میں پیش ہوئیں،سیشن کورٹ میں لانگ مارچ میں ہنگامہ آرائی کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی،پی ٹی آئی رہنماؤں کی عبوری ضمانت میں18جون تک توسیع کردی گئی،یاسمین راشد،محمود الرشید،مراد راس،میاں اسلم اقبال شامل ہیں۔
یاسمین راشد کی عدالت پیشی پرصحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کا سخت ردعمل سامنے آگیا، ماریہ میمن نے لکھا کہ کینسر سے لڑنے والی خاتون کو عدالتوں کے دھکے لگوانے کا طرہ امتیاز بھی ن لیگ کو حاصل ہوگیا۔
عدنان ظہیر خواجہ کہتے ہیں کہ ظلم کی ایک اور داستان،72 سالہ ڈاکٹر یاسمین رشید،کینسر کی مریضہ، کورونا کی آفت میں پاکستانیوں کی زندگی بچانے کے لئے دن رات جدوجہد کی،صحت انصاف کارڈ پنجاب میں کامیابی سے لانچ کروایا،آج “دہشت گردی” کے مقدمات کا سامنا کر رہی ہیں۔
شازیہ نے لکھا کہ ڈاکٹر یاسمین کو آج دہشت گردی کے مقدمہ میں پیش ہونا پڑا، وہ قوم کی ماں جس نے کورونا میں خود کینسر سے لڑتے ہوئے لوگوں کے خدمت کے۔۔ شرم تو نہیں آئی ہو گی۔۔
شازیہ نے لکھا کہ کیا کوئی ظلم رہ گیا تھا کہ میٍڈم یاسمین راشد کو دہشت گرد ہی بنا دیا؟
فرحان منہاج نے لکھا کہ اس نظام سیاست اور عدل پر کیا بات کریں جس میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمے دار اور منشیات کیس میں نامزد ملزم وزیر داخلہ اور معزز اور کینسر سے لڑتی بزرگ سیاستدان یاسمین راشد دھشت گرد قرار پائے۔
آصف اقبال نے لکھا کہ اللہ تعالی حق کو بہت مشکل بنا دیتے ہیں اس بھٹی سے پھر انسان سونا بن کر نکلتے ہیں یہی قانون قدرت ہے جو بیان کیا ہے اللہ تعالی نے۔
مشرف زیدی نے لکھا کہ شرم آنی چاہئے اس حکومت کو، سیاسی معاملات کو دہشتگردی سے جوڑ کر اس ملک کی بدترین غیرجمہوری روایات اجاگر ہوتی ہیں،جب پی ایم ایل این اور پی پی کے سیاستدانوں کے خلاف کیا جا رہا تھا تب بھی غلط تھا، اب بھی غلط ہے۔
ایک صارف نے لکھا کہ 70 سالہ عورت کیخلاف دہشتگردی کے مقدمے پہ کسی صحافی، لبرل اور دانشور کو فاشزم نظر نہیں آیا۔