افغان حکومت کی پسپائی پر مجھے بلی کا بکرا بنایا گیا،اشرف غنی

5ashrafghani%20interview.jpg

سابق افغان صدر اشرف غنی نے بی بی سی ریڈیو پر دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ افغانستان کی حکومت کا اس طرح اچانک سے ختم ہو جانا ہمارا نہیں بلکہ امریکا کا مسئلہ تھا لیکن اس میں مجھے بلی کا بکرا بنایا گیا۔ میری ساری زندگی کی محنت برباد ہو گئی۔

اشرف غنی نے کہا کہ میں نے اپنے اقتدار کی قربانی دی کیونکہ صدارتی محل پر تعینات سیکیورٹی میں میرے دفاع کی صلاحیت موجود نہیں تھی مگر مجھے اس حوالے سے اندھیرے میں رکھا گیا۔ تعینات اہلکار ہار مان گئے تھے اگر میں وہاں اسٹینڈ لے جاتا تو یہ سب مارے جاتے۔

انٹرویو کے دوران اشرف غنی نے کہا کہ 15 اگست کی صبح تک انہیں ایسا گمان بھی نہیں گزرا تھا کہ یہ افغانستان میں ان کا آخری دن ہو گا جب ان کا طیارہ کابل سے نکلا تو تب انہیں ادراک ہوا کہ اب وہ افغانستان چھوڑ چکے ہیں۔


انہوں نے میں سمجھ سکتا ہوں کہ لوگوں کو مجھ سے امید تھی اور وہاں سے نکلنے کے بعد مجھے بہت تنقید کا نشانہ بنایا گیا، یہاں تک کے میرے نائب صدر امراللہ صالح نے میرے افغانستان چھوڑنے کو شرمناک قرار دیا تھا۔

سابق افغان صدر نے کہا کہ جب ہم طیارے میں بیٹھے تو پتہ نہیں تھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں کیونکہ یہ سب بہت جلدی ہوا تھا۔ میں نے قومی سلامتی کے مشیر کو کہا تھا کہ وہ گاڑے لائے ہم وزارت دفاع جائیں گے مگر وہ چیف سیکیورٹی کے ساتھ منہ لٹکائے آیا اور کہا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے ڈر تھا کہ اس تصادم کے نتیجے میں 50 لاکھ لوگ مارے جائیں گے جس کے باعث میں نے افغانستان کو چھوڑنا مناسب سمجھا، اس سے پہلے مجھے لگتا تھا کہ طالبان کے ساتھ معاہدہ ہے اور وہ کابل میں داخل نہیں ہوں گے مگر وہ دو مختلف سمتوں سے آگے بڑھ رہے تھے جسے دیکھ کر سیکیورٹی کے لوگ خوفزدہ تھے۔

اشرف غنی نے کہا کہ بے شک مجھے بہت تنقید کا نشانہ بنایا گیا مگر میں اس لیے نکلا تاکہ یہ لوگ میری وجہ سے نہ مارے جائیں، انہوں نے بتایا کہ اس وقت وہ غیر معینہ مدت کیلئے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔
 

Typhoon

Senator (1k+ posts)
5ashrafghani%20interview.jpg

سابق افغان صدر اشرف غنی نے بی بی سی ریڈیو پر دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ افغانستان کی حکومت کا اس طرح اچانک سے ختم ہو جانا ہمارا نہیں بلکہ امریکا کا مسئلہ تھا لیکن اس میں مجھے بلی کا بکرا بنایا گیا۔ میری ساری زندگی کی محنت برباد ہو گئی۔

اشرف غنی نے کہا کہ میں نے اپنے اقتدار کی قربانی دی کیونکہ صدارتی محل پر تعینات سیکیورٹی میں میرے دفاع کی صلاحیت موجود نہیں تھی مگر مجھے اس حوالے سے اندھیرے میں رکھا گیا۔ تعینات اہلکار ہار مان گئے تھے اگر میں وہاں اسٹینڈ لے جاتا تو یہ سب مارے جاتے۔

انٹرویو کے دوران اشرف غنی نے کہا کہ 15 اگست کی صبح تک انہیں ایسا گمان بھی نہیں گزرا تھا کہ یہ افغانستان میں ان کا آخری دن ہو گا جب ان کا طیارہ کابل سے نکلا تو تب انہیں ادراک ہوا کہ اب وہ افغانستان چھوڑ چکے ہیں۔


انہوں نے میں سمجھ سکتا ہوں کہ لوگوں کو مجھ سے امید تھی اور وہاں سے نکلنے کے بعد مجھے بہت تنقید کا نشانہ بنایا گیا، یہاں تک کے میرے نائب صدر امراللہ صالح نے میرے افغانستان چھوڑنے کو شرمناک قرار دیا تھا۔

سابق افغان صدر نے کہا کہ جب ہم طیارے میں بیٹھے تو پتہ نہیں تھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں کیونکہ یہ سب بہت جلدی ہوا تھا۔ میں نے قومی سلامتی کے مشیر کو کہا تھا کہ وہ گاڑے لائے ہم وزارت دفاع جائیں گے مگر وہ چیف سیکیورٹی کے ساتھ منہ لٹکائے آیا اور کہا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے ڈر تھا کہ اس تصادم کے نتیجے میں 50 لاکھ لوگ مارے جائیں گے جس کے باعث میں نے افغانستان کو چھوڑنا مناسب سمجھا، اس سے پہلے مجھے لگتا تھا کہ طالبان کے ساتھ معاہدہ ہے اور وہ کابل میں داخل نہیں ہوں گے مگر وہ دو مختلف سمتوں سے آگے بڑھ رہے تھے جسے دیکھ کر سیکیورٹی کے لوگ خوفزدہ تھے۔

اشرف غنی نے کہا کہ بے شک مجھے بہت تنقید کا نشانہ بنایا گیا مگر میں اس لیے نکلا تاکہ یہ لوگ میری وجہ سے نہ مارے جائیں، انہوں نے بتایا کہ اس وقت وہ غیر معینہ مدت کیلئے متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔
Kutte ki tarha dum daba ke bhaga tha ab bhonk raha he.