اگر ہم دیوالیہ ہوجاتے

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
اس وقت پاکستان کے خزانے میں تقریبا ڈھائی ارب ڈالر کی ہاٹ منی ہے اور انٹرسٹ ریٹ یہی رہا تو مزید آئے گی، موجودہ گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر ہاٹ منی سپیشلسٹ ہے، اس نے مصر کو ہاٹ منی کے چکر میں بری طرح پھنسا دیا ہے اور اب یہی پاکستان کے ساتھ ہونے جارہا ہے۔ پاکستان کیلئے اشد ضروری ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح دولت پیدا کرنے کے اسباب مہیا کرے، جس کیلئے صنعتوں کا قیام و فروغ اور ایکسپورٹ از حد ضروری ہے، وگرنہ پاکستان میں ہاٹ منی آتی جائے گی اور ہاٹ منی جانے کے ڈر سے انٹرسٹ ریٹ کو کم نہیں کیا جائے گا، نتیجہ کیا ہوگا، ملک کی اندرونی صنعت بالکل بیٹھ جائے گی، کوئی کاروبار نہیں ہوگا یہاں۔ یہ درست ہے کہ ایکسپورٹ راتوں رات نہیں بڑھ سکتی، مگر مجھے لگتا ہے کہ حکومت کے پاس اس سلسلے میں کوئی پلان بھی نہیں ہے، حکومت کو شاید خود سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیا کرے۔ پاکستان کے پاس تیل کی طرح کا کوئی خام مال ایسا ہے نہیں جس کو بیچ کر اتنے ڈالر کماسکے، اگر فرنشڈ گوڈز ایکسپورٹ کی طرف آتا ہے تو وہ وہ ایکسپورٹ بھی امپورٹ بیسڈ ہوگی، پارٹس / سامان امپورٹ کرے گا تب ہی مال تیار کرے گا، امپورٹ پر پریشر پڑا تو کرنٹ اکاؤنٹ اور ٹریڈ خسارہ پھر بڑھے گا۔
اوپر سے حکومت سیاسی اعتبار سے کمزور ہے، کمزور حکومت کیلئے بیرونی سرماریہ کاری اٹریکٹ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اب یہ حکومت کی وزڈم پر منحصر ہے کہ وہ ملک کو کس طرح اس معاشی بحران سے نکالتی ہے, بہرحال جو بھی ہو حکومت کو معاشی میدان میں انقلابی اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔
آپکی بات صد فیصدی درست ہے کہ حکومت کے پاس کوئی پلان نہ تھا اور نہ ہی ہے۔
آپ کے مذکورہ مسائل کا ایک بہت ہی اچھا حل ہوتا ہے، وہ ہے بی۔او۔ ٹی پراجیکٹس۔

اسکا کمال یہ ہوتا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری جو آتی ہے وہ گورنمنٹ کے کھاتے کے قرضوں میں شمار نہیں ہوتی۔
جو انویسٹمنٹ کرتا ہے، وہ کرپشن سے پیسہ جتنا بچا سکتا ہے، بچاتا ہے۔
صرف منافع بخش کاروبار میں پیسہ لگاتا ہے اور خود اسے صحیح طور چلا کر پیسہ کماتا بھی ہے۔
انڈے بچے اور کٹّے نہیں بانٹتا پھرتا۔
 

Majid Sheikh

MPA (400+ posts)
آپکی بات صد فیصدی درست ہے کہ حکومت کے پاس کوئی پلان نہ تھا اور نہ ہی ہے۔
آپ کے مذکورہ مسائل کا ایک بہت ہی اچھا حل ہوتا ہے، وہ ہے بی۔او۔ ٹی پراجیکٹس۔

اسکا کمال یہ ہوتا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری جو آتی ہے وہ گورنمنٹ کے کھاتے کے قرضوں میں شمار نہیں ہوتی۔
جو انویسٹمنٹ کرتا ہے، وہ کرپشن سے پیسہ جتنا بچا سکتا ہے، بچاتا ہے۔
صرف منافع بخش کاروبار میں پیسہ لگاتا ہے اور خود اسے صحیح طور چلا کر پیسہ کماتا بھی ہے۔
انڈے بچے اور کٹّے نہیں بانٹتا پھرتا۔

بی او ٹی پراجیکٹس کے بارے میں تو مجھے کچھ آئیڈیا نہیں۔ یہ صاف محسوس ہورہا ہے کہ حکومت نے سارا معاملہ اللہ کے آسرے پر چھوڑ رکھا ہے۔ تبھی وزیراعظم نے ہر وقت ہاتھ میں تسبیح پکڑی ہوتی ہے۔ اس کو کوئی سمجھائے کہ یہ جتنے ممالک نے اب تک ترقی کی ہے، انہوں نے تسبیحوں اور وظیفوں کے ذریعے نہیں کی، بلکہ عملی اقدامات کرکے کی ہے۔ یہ نہ جانے کس خدائی مدد کا انتظار کررہے ہیں۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
بی او ٹی پراجیکٹس کے بارے میں تو مجھے کچھ آئیڈیا نہیں۔ یہ صاف محسوس ہورہا ہے کہ حکومت نے سارا معاملہ اللہ کے آسرے پر چھوڑ رکھا ہے۔ تبھی وزیراعظم نے ہر وقت ہاتھ میں تسبیح پکڑی ہوتی ہے۔ اس کو کوئی سمجھائے کہ یہ جتنے ممالک نے اب تک ترقی کی ہے، انہوں نے تسبیحوں اور وظیفوں کے ذریعے نہیں کی، بلکہ عملی اقدامات کرکے کی ہے۔ یہ نہ جانے کس خدائی مدد کا انتظار کررہے ہیں۔
Intro to BOT Projects

خیر، یہ بھی ایک گریٹر گیم کا حصّہ ہے۔ عمران خان کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ یہ کہاں استعمال ہوگیا ہے، اور ہوئے جا رہا ہے۔

ابھی تو بات شائد بگڑ کر مڈ ٹرم الیکشن تک چلی جائے۔ دراصل وزیر اعظم کوئی بادشاہ نہیں ہوتا، اس کے نیچے بیوروکریسی ہوتی ہے، پارلیمنٹ ہوتی ہے، اوپر سینیٹ ہوتی ہے، دائیں فوج اور بائیں عدلیہ ہوتی ہے۔ یہ سمجھتا تھا کہ وزیر اعظم بن کر یہ جو چاہے گا کر سکے گا۔

بات زیادہ بگڑے گی اور یہ جزویاتی طور جذباتی آدمی اسمبلیاں توڑ دیگا۔ اس کے بعد ایک کئیر ٹیکر حکومت کے قیام کا بہت ہی قوّی امکان ہے۔ مارشل لا کے تمام عناصر پورے ہونگے، لیکن عدلیہ کی چھتر چھایا کے نیچے اور ٹیکنوکریٹ کی پشت کے پیچھے۔ عوام بھی اس نظام سے اتنے تنگ آچکے ہیں کہ روٹی سستی ملنے پر یہ جمہوریت پر لعنت بھیجیں گے۔
 

Majid Sheikh

MPA (400+ posts)
Intro to BOT Projects

خیر، یہ بھی ایک گریٹر گیم کا حصّہ ہے۔ عمران خان کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ یہ کہاں استعمال ہوگیا ہے، اور ہوئے جا رہا ہے۔

ابھی تو بات شائد بگڑ کر مڈ ٹرم الیکشن تک چلی جائے۔ دراصل وزیر اعظم کوئی بادشاہ نہیں ہوتا، اس کے نیچے بیوروکریسی ہوتی ہے، پارلیمنٹ ہوتی ہے، اوپر سینیٹ ہوتی ہے، دائیں فوج اور بائیں عدلیہ ہوتی ہے۔ یہ سمجھتا تھا کہ وزیر اعظم بن کر یہ جو چاہے گا کر سکے گا۔

بات زیادہ بگڑے گی اور یہ جزویاتی طور جذباتی آدمی اسمبلیاں توڑ دیگا۔ اس کے بعد ایک کئیر ٹیکر حکومت کے قیام کا بہت ہی قوّی امکان ہے۔ مارشل لا کے تمام عناصر پورے ہونگے، لیکن عدلیہ کی چھتر چھایا کے نیچے اور ٹیکنوکریٹ کی پشت کے پیچھے۔ عوام بھی اس نظام سے اتنے تنگ آچکے ہیں کہ روٹی سستی ملنے پر یہ جمہوریت پر لعنت بھیجیں گے۔

میرے خیال میں اکانومی اس وقت جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس بلا کو کوئی بھی اپنے گلے میں ڈالنے کیلئے تیار نہیں ہوگا۔ پہلے ہی آئی ایم ایف نے ناک رگڑا رگڑوا کر صرف چھ ارب ڈالر کا پیکیج دیا ہے، دوست ممالک سے بھی جو تھوڑی بہت بھیک ملی وہ لے بیٹھے ہیں، اب اور تو کسی طرف سے کسی امداد کی امید نہیں، جو کرنا ہے خود ہی کرنا ہے۔ فوج بھی اسی لئے حکومت کا ساتھ دے رہی ہے کہ اس کو پتا ہے کہ معیشت نہ سنبھلی تو ان کا دانا پانی بھی بند ہوجائے گا۔ فوج کو ویسے بھی مارشل لاء لگانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اب بھی پورا کنٹرول انہی کے ہاتھ میں ہے۔۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
میرے خیال میں اکانومی اس وقت جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس بلا کو کوئی بھی اپنے گلے میں ڈالنے کیلئے تیار نہیں ہوگا۔ پہلے ہی آئی ایم ایف نے ناک رگڑا رگڑوا کر صرف چھ ارب ڈالر کا پیکیج دیا ہے، دوست ممالک سے بھی جو تھوڑی بہت بھیک ملی وہ لے بیٹھے ہیں، اب اور تو کسی طرف سے کسی امداد کی امید نہیں، جو کرنا ہے خود ہی کرنا ہے۔ فوج بھی اسی لئے حکومت کا ساتھ دے رہی ہے کہ اس کو پتا ہے کہ معیشت نہ سنبھلی تو ان کا دانا پانی بھی بند ہوجائے گا۔ فوج کو ویسے بھی مارشل لاء لگانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اب بھی پورا کنٹرول انہی کے ہاتھ میں ہے۔۔
ایسا کچھ نہیں کہ اکانومی میں جان نہیں۔ آج یہ اپنے صرف تانبے کے اور سونے کے کنٹریکٹ سیدھے کر لیں، بی او ٹی پر چند اور پراجیکٹس لگانے کی اجازت دے دیں، تو کسی کے آگے نہ تو بھیک مانگنی پڑے گی اور نہ ہی حکومت پر مزید قرض چڑھے گا۔
یہ آج سیوریج کے فضلا سے بائیوگیس بنانے کے پراجیکٹ لگوا لیں، ان کا انحصار تیل پر کم ہوجائے گا، بجلی سستی ہوجائے گی۔
اسی طرح امپورٹ کم کرنے کے لیئے اور جی ڈی پی بڑھانے کے لیئے بیرونی کمپنیوں کو رعایات دیں، تا کہ یہاں آکر انویسٹمنٹ کریں اور پاکستان میں پروڈکشن کریں۔

فارما کمپنیوں کی اجارہ داری توڑٰیں اور یہاں بھی انڈیا کی طرح ’’جینیرک ڈرگز‘‘ بنوائیں۔ علاج و معالجہ بھی سستا، لوگوں کی صحت بھی اچھی، سرمایہ کاری بھی ہوگی، ایکسپورٹ بھی ہوگی۔

پھر یہاں مغربی ممالک کی طرح ’’پری پیڈ‘‘ سسٹم کریں گیس اور بجلی کا۔ ڈسٹریبیوشن کو پرائیوٹائز کریں۔ وہ کمپنیاں خود بجلی اور گیس کی چوری کو ختم کریں گی اور لوگوں میں نہ تو زیادہ بلوں کی شکایت ہوگی اور نہ ہی لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ ان سہولیات کا استعمال کریں گے۔

لیکن یہاں ابھی تک حکومتی وزرا یا تو نون لیگ کو گالیاں دینے پر معمور ہیں یا پھر اب انکو مودی مل گیا ہے۔
ذرا چوہدری فواد سے پوچھیں کہ بھائی آپ نے میڈیا پر مودی کے خلاف بڑے بیان دے دیئے، لیکن یہ بھی تو بتائیں کہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے ابھی تک کتنے ایسے کام کیئے ہیں جن میں ہم اپنے آپکو انڈیا سے بہتر گردانیں؟
میں تو اس دن کے لیئے جی رہا ہوں جس دن بی بی سی یا سی این این فردوس عاشق اعوان کا انگریزی میں انٹرویو کریں۔

اور فوج حکومت کا ساتھ اس لیئے دے رہی ہے کہ یہ حکومت عوام کی آخری امید ہے۔ فوج کو پتہ ہے کہ جب ان سے بھی
مایوسی ہوجائے گی تب لوگ ایک دوسرے نظام کے لیئے تیّار ہونگے۔

دراصل فوج کو مسئلہ اس طرز حکومت سے ہے، جہاں انکو ہر جگہہ ان سیاسی بٹیروں سے کوئی نہ کوئی ڈیل کرنی پڑجاتی ہے۔ ابھی بھی دیکھ لیں، کہاں آرمی چیف کی ایکسٹنشن تک نواز شریف اور شہباز شریف دونوں ملک سے باہر۔ زرداری کے خلاف ثبوت ہوتے ہوئے بھی کچھ ثابت نہیں کیا جاسکا۔ ایم کیو ایم آج بھی اپنے دہشت گردانہ دانت منہہ کے اندر دبائے بیٹھی ہے اور سٹیل ملز جیسی صنعت پی پی پی اور ایم کیو ایم کی سیاست کی نظر ہوچکی ہے۔ اسی طرح کس ادارے کا حال نہیں بگاڑا گیا؟ فوج کو پتہ ہے کہ انکی رازی روٹی بھی یہ ادارے کھا پی جاتے ہیں۔ جب یہ درست ہونگے، تب ہی انکو بھی کھل کر کھانے کو ملے گا۔
 

Majid Sheikh

MPA (400+ posts)
ایسا کچھ نہیں کہ اکانومی میں جان نہیں۔ آج یہ اپنے صرف تانبے کے اور سونے کے کنٹریکٹ سیدھے کر لیں، بی او ٹی پر چند اور پراجیکٹس لگانے کی اجازت دے دیں، تو کسی کے آگے نہ تو بھیک مانگنی پڑے گی اور نہ ہی حکومت پر مزید قرض چڑھے گا۔
یہ آج سیوریج کے فضلا سے بائیوگیس بنانے کے پراجیکٹ لگوا لیں، ان کا انحصار تیل پر کم ہوجائے گا، بجلی سستی ہوجائے گی۔
اسی طرح امپورٹ کم کرنے کے لیئے اور جی ڈی پی بڑھانے کے لیئے بیرونی کمپنیوں کو رعایات دیں، تا کہ یہاں آکر انویسٹمنٹ کریں اور پاکستان میں پروڈکشن کریں۔

فارما کمپنیوں کی اجارہ داری توڑٰیں اور یہاں بھی انڈیا کی طرح ’’جینیرک ڈرگز‘‘ بنوائیں۔ علاج و معالجہ بھی سستا، لوگوں کی صحت بھی اچھی، سرمایہ کاری بھی ہوگی، ایکسپورٹ بھی ہوگی۔

پھر یہاں مغربی ممالک کی طرح ’’پری پیڈ‘‘ سسٹم کریں گیس اور بجلی کا۔ ڈسٹریبیوشن کو پرائیوٹائز کریں۔ وہ کمپنیاں خود بجلی اور گیس کی چوری کو ختم کریں گی اور لوگوں میں نہ تو زیادہ بلوں کی شکایت ہوگی اور نہ ہی لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ ان سہولیات کا استعمال کریں گے۔

لیکن یہاں ابھی تک حکومتی وزرا یا تو نون لیگ کو گالیاں دینے پر معمور ہیں یا پھر اب انکو مودی مل گیا ہے۔
ذرا چوہدری فواد سے پوچھیں کہ بھائی آپ نے میڈیا پر مودی کے خلاف بڑے بیان دے دیئے، لیکن یہ بھی تو بتائیں کہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے ابھی تک کتنے ایسے کام کیئے ہیں جن میں ہم اپنے آپکو انڈیا سے بہتر گردانیں؟
میں تو اس دن کے لیئے جی رہا ہوں جس دن بی بی سی یا سی این این فردوس عاشق اعوان کا انگریزی میں انٹرویو کریں۔

اور فوج حکومت کا ساتھ اس لیئے دے رہی ہے کہ یہ حکومت عوام کی آخری امید ہے۔ فوج کو پتہ ہے کہ جب ان سے بھی
مایوسی ہوجائے گی تب لوگ ایک دوسرے نظام کے لیئے تیّار ہونگے۔

دراصل فوج کو مسئلہ اس طرز حکومت سے ہے، جہاں انکو ہر جگہہ ان سیاسی بٹیروں سے کوئی نہ کوئی ڈیل کرنی پڑجاتی ہے۔ ابھی بھی دیکھ لیں، کہاں آرمی چیف کی ایکسٹنشن تک نواز شریف اور شہباز شریف دونوں ملک سے باہر۔ زرداری کے خلاف ثبوت ہوتے ہوئے بھی کچھ ثابت نہیں کیا جاسکا۔ ایم کیو ایم آج بھی اپنے دہشت گردانہ دانت منہہ کے اندر دبائے بیٹھی ہے اور سٹیل ملز جیسی صنعت پی پی پی اور ایم کیو ایم کی سیاست کی نظر ہوچکی ہے۔ اسی طرح کس ادارے کا حال نہیں بگاڑا گیا؟ فوج کو پتہ ہے کہ انکی رازی روٹی بھی یہ ادارے کھا پی جاتے ہیں۔ جب یہ درست ہونگے، تب ہی انکو بھی کھل کر کھانے کو ملے گا۔

آپ جو تجاویز دے رہے ہیں، یہ تو مستقبل کی باتیں ہیں، حکومت کوئی اقدام لے گی یا نہیں یہ الگ بحث ہے، میں تو اکانومی کی موجودہ حالت زار کی بات کررہا ہوں۔ پاکستان کو اس سال 3200 ارب روپیہ صرف قرضوں کے سود کی مد میں دینا ہے اور ٹیکس کولیکشن تقریبا چار ہزار ارب سے کچھ زیادہ ہوگی، سارا ریونیو تو قرضوں کی ادائیگی میں چلا جائے گا، پیچھے ملک چلانے کیلئے پھر قرضے کی ضرورت ہوگی۔اس حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کو پانچ سالوں میں بتدریج پندرہ فیصد تک لے جائیں گے، ابھی ڈیڑھ سال میں ان سے ایک فیصد بھی ہلا نہیں اور وہ ابھی تک دس سے گیارہ فیصد پر کھڑا ہے، اوپر سے انٹرسٹ ریٹ اتنا ہائی ہے جس کی وجہ سے ملک میں کاروباری صورت حال جمود کا شکار ہے۔

اور جہاں تک فوج کی بات ہے تو فوج کیلئے موجودہ نظام حکومت سب سے بہترین ہے کہ منہ پر کالک ملنےاور عوام کی گالیاں کھانے کیلئے تو سامنے سیاسی حکومت رکھی ہوئی ہے اور خود پیچھے بیٹھ کر اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
آپ جو تجاویز دے رہے ہیں، یہ تو مستقبل کی باتیں ہیں، حکومت کوئی اقدام لے گی یا نہیں یہ الگ بحث ہے، میں تو اکانومی کی موجودہ حالت زار کی بات کررہا ہوں۔ پاکستان کو اس سال 3200 ارب روپیہ صرف قرضوں کے سود کی مد میں دینا ہے اور ٹیکس کولیکشن تقریبا چار ہزار ارب سے کچھ زیادہ ہوگی، سارا ریونیو تو قرضوں کی ادائیگی میں چلا جائے گا، پیچھے ملک چلانے کیلئے پھر قرضے کی ضرورت ہوگی۔اس حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کو پانچ سالوں میں بتدریج پندرہ فیصد تک لے جائیں گے، ابھی ڈیڑھ سال میں ان سے ایک فیصد بھی ہلا نہیں اور وہ ابھی تک دس سے گیارہ فیصد پر کھڑا ہے، اوپر سے انٹرسٹ ریٹ اتنا ہائی ہے جس کی وجہ سے ملک میں کاروباری صورت حال جمود کا شکار ہے۔

اور جہاں تک فوج کی بات ہے تو فوج کیلئے موجودہ نظام حکومت سب سے بہترین ہے کہ منہ پر کالک ملنےاور عوام کی گالیاں کھانے کیلئے تو سامنے سیاسی حکومت رکھی ہوئی ہے اور خود پیچھے بیٹھ کر اقتدار کے مزے لے رہے ہیں۔
نہیں بھائی، یہ مستقبل نہیں، حال کی باتیں ہیں۔ تانبے کی کانیں چلنے نہیں دے رہے۔ انکو چلانے کے لیئے صرف ایک ہفتے کی مدّت درکار ہے۔ ۳۲۰۰ ارب میں سے ۵۰۰ ارب کی تو صرف ایک کان انکو دے سکتی ہے سال میں۔ اسی طرح سونے کی کانوں کی بات ہے اور بھی اس کے علاوہ بے تحاشہ معدنیات ہیں، جنکی لیز چند مہینوں میں دے کر حکومت پیسہ اکٹھا کر سکتی ہے۔

پھر جب بات آتی ہے بی او ٹی پراجیکٹس کی، تو ان میں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ بیرونی کمپنیاں اپنا سرمایہ فاریکس کی صورت آپکے بینک میں لاتی ہیں اور یہاں لوکل خریداری روپے یعنی لوکل کرنسی میں کرتی ہیں۔ آپ کے پاس فاریکس آجاتا ہے، استعمال کرنے کو۔ ساتھ ہی ساتھ یہ کنٹریکٹ دراصل کنسیشن کنٹریکٹ ہوتے ہیں۔ حکومت کوئی فائدہ کمپنی کو دیتی ہے تو کچھ فائدہ خود لیتی ہے۔ اکثر حکومتیں پراجیکٹ دینے سے پہلے پرفارمنس گارنٹی یا شیورٹی بانڈ کی صورت میں پیسے لے کر اپنے پاس رکھتی ہیں۔ ان میں سے بعض کمپنی پر شرط عائد کرتی ہیں کہ وہ ایک خاص رقم کے حکومتی ٹی بلز خریدیں۔ پراجیکٹ تو بعد میں شروع ہوتے ہیں، یہ پیسہ پہلے اکاوٗنٹ میں آجاتا ہے۔

پھر جب کام شروع ہوتا ہے تو انڈسٹری چلتی ہے اور حکومت کی ٹیکس کلیکشن میں اضافہ ہوتا ہے۔

خیر بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیئے ہمارے پاس اور کوئی قدم نہیں اٹھانے کو ماسوائے اس کے کہ دفاعی بجٹ کو کم کیا جائے۔ اور اسی طرف ہمیں آئی ایم ایف اب دھکّے مار کر لے جا رہا ہے۔ یا پھر یہ فضول کے ادارے جنکا ہمیں کوئی خاص فائدہ نہیں، انکو یا تو بند کر دیں یا فوری پرائیوٹائز کردیئے جائیں۔

فوج کو موجودہ نظام ضرور اچھا لگتا ہے، لیکن بہترین انکے لیئے وہی ہے جو پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ خیر اس میں آپ استدلال سے اختلاف کر سکتے ہیں۔