fahid_asif

Senator (1k+ posts)
Image_Haroon_ur_Rasheed_78.jpg
نواز شریف کبھی ایک نظریاتی آدمی نہیں تھے اور نہ ائیر مارشل اصغر خان۔ فرق یہ ہے کہ اصغر خان مالی معاملات میں ایک صاف ستھرے آدمی تھے اور خطرہ مول لینے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے تھے۔ پاک فضائیہ کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی شہرت اچھی تھی بلکہ بہت ہی اچھی لیکن سیاست دان وہ ڈھنگ کے نہیں تھے۔ سیاست دان وہ شخص وہ ہوتا ہے جو قوم کو کنفیوژن سے روشنی کی طرف لے جائے۔ معاشرے میں اٹھتے سوالوں کا واضح جواب فراہم کرے اور جہاں چوٹ لگانے کی ضرورت ہو وہاں بروقت چوٹ لگائے۔ خلقِ خدا کے اندر گھل مل جانے میں اسے رتّی برابر تامل نہ ہو اور دبائو میں اپنے حواس وہ برقرار رکھ سکے۔ اصغر خان دیانت دار تو ضرور سمجھے جاتے تھے مگر یہ کبھی معلوم نہ ہو سکا کہ ان کا قبلہ کیا ہے ۔ دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت بھی ان میں بہت کم تھی اور سیاستدان سے زیادہ وہ ایک افسر کا مزاج رکھتے تھے۔ مغرب کا اثر ان پر بہت گہرا تھا اور ایبٹ آباد میں جہاں وہ رہائش پذیر تھے وہاں پڑوسیوں تک سے وہ راہ و رسم کم ہی رکھتے تھے۔ خفیہ ایجنسیوں والی بات تو خیر بالکل ہی بکواس ہے لیکن ایک زمانے میں انہوں نے شہنشاہِ ایران کے توسط سے امریکی سرپرستی کی آرزو ضرور کی ۔
یہ اکتوبر 1977ئ کی ایک سویر تھی ، جب وہ شہنشاہِ ایران آریہ مہر رضا شاہ سے ملاقات کے بعد ابھی ابھی پاکستان آئے تھے۔ صبح سویرے ، پہلی پرواز سے میں راولپنڈی پہنچا اور ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ناشتے کی میز پر وہ سوٹ پہنے اور نکٹائی لگائے ہوئے تھے۔ وہ بہت وجیہہ اور شاندار لگ رہے تھے لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ دس بارہ برس سے وہ ﴿عمران خان کی طرح ﴾ عوامی لباس پہنتے تھے اور کندھے پر شیخ مجیب الرحمٰن کی طرح سفید رومال رکھتے تھے ۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ پی این اے ﴿پاکستان قومی اتحاد ﴾ سے انہوں نے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے ۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے ، اس رو ز ہفتہ روزہ ﴿زندگی﴾ کی آخری کاپی پریس بھیجنا تھی ، جس میں ان کا انٹرویو شامل ہوتا۔ خاں صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ قطعی فیصلہ کر چکے۔ مودبانہ میں نے ان سے گزارش کی کہ نو جماعتی اتحاد کا شیرازہ اگر بکھر گیا تو وہ باہم برسرِ پیکار ہو جائے گا اور اس کا فائدہ حریف پیپلز پارٹی کو پہنچے گا ، جو اگرچہ پینتیس فیصد سے زیادہ حمایت نہ رکھتی تھی لیکن ملک کی سب سے بڑی پارٹی تھی ۔ پھر یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو خطابت کا سحر جگانے اور سیاست کے کرتب سمجھنے والے ایک کارگر سیاستدان تھے۔ ائیر مارشل مسکرائے اور کہا "دیکھتے رہئیے ، چند ہفتوں میں ہوتا کیا ہے " عرض کیا "علامہ احسان الٰہی ظہیر ناخوش ہیں " جواب ملا"ان کے مقتدیوں نے انہیں پریشان کیا ہوگا۔"یہ بھی فرمایا کہ شہنشاہِ ایران سے جب ان کی بات ہوئی تو پاکستانی سفیر موجود نہ تھا ۔ پوچھا : اس کا مطلب کیا ہے۔ ارشاد کیا : آپ خود ہی سمجھ لیجئے۔ عام طور پر سفیر موجود ہوتاہے ۔ ظاہر ہے شہنشاہِ ایران نے انہیں تھپکی دی تھی ، جو اس خطہ ارض میں امریکی چاکر تھے اور تب کوئی نہ جانتا تھا کہ ٹھیک سترہ مہینے بعد ان پر اس طرح تنگ ہو جائے گی ، جیسے بعد میں حسنی مبارک، صدام حسین اور کرنل قذافی پر ہوئی۔
اصغر خاں وہ تھے کہ 1977ئ کی عوامی تحریک میں کراچی پہنچے تو کسی پروگرام کے بغیر آٹھ لاکھ انسانوں نے ان کا استقبال کیا تھا ۔ پھر ایسا جم ِ غفیر صرف 1986میں دیکھا گیا، پورے ملک کی پیپلز پارٹی ، تین سالہ جلاوطنی کے بعد بے نظیر بھٹو کا استقبال کرنے کے لیے لاہور کی مال روڈ پر امنڈ آئی۔ اصغر خاں خوش قسمت بہت تھے ۔ بے حد وجاہت، بے پناہ نیک نامی لیکن بد قسمت بھی بہت، بے پناہ خود پسندی۔ اصغر خاں کی تباہی میں نواب زادہ نصراللہ خاں مرحوم کا حصہ بہت تھا ۔ 1970ئ میں پاکستان جمہوری پارٹی کے عہدیدار چنے جانے لگے تو ہر شخص کو امید تھی کہ ائیر مارشل اصغر خاں پارٹی کے صدر یا جنرل سیکرٹری ضرور ہوںگے لیکن نواب زادہ نے انہیں دھوبی پٹڑا دیا اور ایک گمنا م شخص کو سیکرٹری جنرل بنا ڈالا ، جس کا نام بھی آج حافظے میں روشن نہیں ہوتا۔ ناراض ہو کر اصغر خاں سیاست ہی سے دستبردار ہو گئے اگرچہ بعد ازاں جسٹس پارٹی اور پھر تحریکِ استقلال بنا کر لوٹ آئے۔ 1977ئ میں نواب زادہ نصر اللہ خاں نے کمال ہنر مندی سے مفتی محمود کو پی این اے کا سربراہ بنا دیا۔ اپنی سازش میں وہ اس لیے کامیاب رہے کہ اصغر خان کم ہی کسی کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ۔ اس میں ہرگز کوئی شبہہ نہیں کہ پی این اے کے لیڈروں میں وہی سب سے زیادہ مقبول تھے۔ کارکنوں اور ووٹروں سے اگر پوچھا جاتا تو اکثریت انہی کو وزیر اعظم دیکھنا پسند کرتی۔ سیاست میں مگر مقبولیت کے علاوہ بھی بعض چیزوں پر توجہ دینا ہوتی ۔ یہ بات اصغر خاں سمجھ نہ سکے ، جس طرح کہ اب عمران خان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ ذاتی مقبولیت کو پارٹی کی پذیرائی میں تبدیل کرنا سہل نہیں ۔
جنرل محمد ضیا ئ الحق مرحوم نے جب 1977ئ کے الیکشن ملتوی کرنے اور مکمل مارشل لا نافذ کرنے کا فیصلہ کیا تو اصغر خاں کو دھچکا لگا۔ وقت مگر ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا اور کئی سال انہیں نظر بندی میں گزارنا پڑے۔ اب بھی وہ ایک مقبول رہنما تھے لیکن بتدریج کھیل ان کے ہاتھ سے نکل کر جنرل محمد ضیا ئ الحق کی سب سے بڑی مخالف بے نظیر بھٹو کے ہاتھ میں چلا گیا ، جن کے باپ کو پھانسی دے دی گئی تھی ۔ جلا وطنی کی وجہ سے جن کے لیے عوامی ہمدردیاں بڑھ گئی تھیں اور جو ایک ملک گیر اور نسبتاً زیادہ منظم پارٹی تھی ۔ ایک احمقانہ فیصلہ وہ تھا وہ 1985ئ میں ایبٹ آباد میں اصغر خاں کی رہائش گاہ پر کیا گیا۔ جس میں اپوزیشن جماعتوں نے غیر انتخابی بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ اس سے بھی زیادہ سنگین غلطی کے خان صاحب تب مرتکب ہوئے جب انہوں نے سویت یونین کے خلاف افغان عوام کے مقبول جہاد کی مخالفت کا فیصلہ کیا ۔کار میں سوار ، سڑک کے راستے وہ جلال آباد پہنچے اور وہاں سے ہیلی کاپٹر میں دارالحکومت کابل۔ یہ غالباً 1987ئ تھا ۔سویت یونین کی سفاک سرخ افواج نے کم از کم دس لاکھ افغانوں کو قتل کر ڈالا تھا اور ہزاروں برس سے آباد چلے آتے ہزاروں دیہات صفحہ ہستی سے مٹا دئیے تھے لیکن ائیر مارشل نے اعلان کیا کہ انہیں گولی چلنے کی آواز تک سنائی نہ دی۔ لاشوں کے اتنے بڑے انبار پر کھڑے ہو کر ایسا مضحکہ خیز بیان کم ہی کسی رہنما نے دیا ہوگا۔ آج صورتِ حال بالکل دوسری ہے لیکن تب سروے کرنے والے قابلِ اعتماد ادارے گیلپ کے جائزوں سے آشکار تھا کہ افغان جہاد کی حمایت 70فیصد سے زیادہ ہے جو بعد میں گر کر 63فیصد رہ گئی۔ میں تب ایک اخبار کا اداریہ لکھا کر تاتھا۔ بہت رنج کے ساتھ خان صاحب سے میں نے سوال کیا :
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسو تیرے صحرائوں کو گلنا رکریں
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خاں صاحب کی مقبولیت کم ہوتی گئی ؛اگرچہ ذاتی دیانت اور شجاعت کی وجہ سے ان کا احترام باقی رہا لیکن بے لچک رویے کی وجہ سے ایک ایک کر کے سارے پارٹی لیڈر انہیں چھوڑ گئے۔ پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو دوسروں کے علاوہ اصغر خاں کی ساکھ سے فائدہ اٹھانے کی انہوں نے کوشش کی اور ان کے صاحبزادے کو وزیر بنا دیا ۔ بدقسمتی سے یہ بے حد وجیہہ و شکیل نوجوان پراسرار حالات میں قتل کر دیا گیا وگرنہ ممکن ہے کہ باپ کا نام وہ زندہ رکھتا۔ زیادہ نہ سہی تو اتنا ہی کر دکھاتا کہ ایک دیا سا جلتا رہتا۔ ہر آدمی ایک ہی اننگ کھیلتا ہے ۔ پاک فضائیہ میں اصغر خاں کی اننگ خیرہ کن تھی۔ دنیا کی بہترین فضائیہ انہوں نے تعمیر کی اور اس حال میں سبکدوش ہوئے کہ چاروں طرف ان کا ڈنکا بجتا تھا ۔ پھر انہوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور 45برس سے سیاست میں ہیں ۔ بے پناہ مقبولیت کے بعد جب زوال آیا تو خود ہی انہیں سکبدوش ہو جانا چاہئیے تھا مگر وہ ایسا نہ کر سکے۔ اب وہ ایک کہانی ہیں ۔ ان کی زندگی سے کچھ سبق سیکھے جا سکتے ہیں اور یہ سیکھنے والوں پر ہے کہ کس طرح وہ تجزیہ کرتے اور کس طرح عبرت حاصل کرتے ہیں ۔
عبدالقادر حسن راوی ہیں کہ میاں محمد نواز شریف نے مبلغ پانچ لاکھ روپے کے عوض ، جو آج کے پانچ کروڑ روپے کے برابر تو ضرو ر ہوں گے ، پنجاب کی وزارتِ خزانہ حاصل کی تھی۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ بات انہیں خود میاں صاحب کے والدِ گرامی مرحوم کے ایک قریبی اور قابلِ اعتماد دوست نے بتائی تھی۔ شریف خاندان کو سیاست سے کوئی سروکار نہ تھا۔ اس میدان میں تو وہ اس لیے کودے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اتفاق فائونڈری کو سرکاری تحویل میں لے کر برباد کر ڈالا۔ انتقام کا جذبہ نواز شریف اور اس کے بعد شہباز شریف کو سیاست میں لایا۔ توانائی نواز شریف میں بہت ہے لیکن تعلیم او راخلاق برائے نام ۔ وہ لوگوں میں گھل مل جانے والے آدمی ہیں اور مدّاح یہ کہتے ہیں کہ ان کی آنکھوں میں حیا بھی پائی جاتی ہے ۔ کچھ نہ کچھ کشش توبہرحال ہے کہ اتنے بہت سے لوگ ان کے گرویدہ ہوئے اور کوئی نہ کوئی کمال تو ہو گا کہ اتنی کامیابیاں حاصل کیں لیکن نظریاتی آدمی وہ کبھی نہ تھے۔ جنرل غلام جیلانی کی سرپرستی میں وہ پروان چڑھے حتیٰ کہ جنرل محمد ضیا ئ الحق کو بھی عزیز ہو گئے ۔ 1986ئ میں پیر پگاڑا نے یوسف رضا گیلانی اور کچھ دوسرے لوگوں کی مدد سے ان کا دھڑن تختہ کر دیا ہوگا لیکن ضیا ئ الحق بے چین ہو کر لاہور پہنچے اور پنجاب اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کی کہ نواز شریف کا کلّا﴿کھونٹا﴾ بہت مضبوط ہے۔ 1988ئ میں جنرل محمد ضیا ئ الحق نے نیک نام جونیجو کو برطرف کیا تو نواز شریف ان کے سب سے بڑے آلہئ کار تھے۔ کم ہی ادراک کیا جا تاہے کہ جنرل ضیا ئ الحق محمد خاں جونیجو کو کبھی برطرف نہ کرتے لیکن افغان مسئلے پر جونیجو ضیا ئ الحق کے مقابل آگئے تھے۔ جنرل کی خواہش تھی کہ کابل میں ایک نگراں عبوری حکومت قائم ہو ۔ وہ گلبدین حکمت یار کو افغانستان کا صدر اور برہان الدین ربانی کو وزیر اعظم بنا کر باقی پارٹیوں کو اس میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ یہ دونوں آدمی امریکیوں کے لیے قابلِ قبول نہ تھے۔ خاص طور پر حکمت یار جو سویت یونین کی طرح انکل سام کے بھی مخالف تھے۔ کابل میں امریکی اپنے کسی کارندے کو براجمان کرنا چاہتے تھے۔ اللہ کے آخری رسول(ص) نے ارشاد کیا تھا کہ آنے والے کسی دور میں مسلمان اور نصرانی مل کر ایک جنگ لڑیں گے ۔ جب فتح حاصل ہو چکے گی تو نصرانیوں کا لیڈر اپنا علم بلند کرے گا یعنی وہ یہ دعویٰ کرے گا کہ کامیابی بنیادی طور پر اسی کے طفیل ہوئی ہے ۔ میرا خیال ہے کہ یہ افغان جنگ ہی تھی کیونکہ اس کے سوا عیسائی اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ معرکے میں شریک نہ تھے۔ یہ بھی ارشاد کیا تھا کہ اس پر ایک مسلمان کو غصہ آئے گا اور وہ ان کے نشان کو تباہ کر دے گا۔ اہلِ علم کہتے ہیں کہ یہ نشان نیو یارک کے جڑواں مینا رتھے اور وہ شخص اسامہ بن لادن ۔ امریکیوں نے ضیا ئ الحق کو قتل کروادیا کہ وہ ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہو چکے تھے۔ ضیا ئ الحق کے لیے ہمدردی کی ایک بڑی لہر اٹھی لیکن پارٹی بٹ چکی تھی ۔ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے اسلامی جمہوری اتحاد نے وجود پایا اور میاں محمد نواز شریف کو اس کا لیڈر بنادیا گیا ۔ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی مدد ہی سے اوّل وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور پھر پاکستان کے وزیر اعظم بنے ۔ جس قدر جلد ممکن ہوا ، انہوں نے اپنے دونوں محسنوںجنرل حمید گل اور جنرل اسلم بیگ سے نجات حاصل کی ۔ جس طرح کہ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد جنرل غلام جیلانی خاں نے پنڈ چھڑایا تھا ۔ یہ کہانی بہت دلچسپ ہے ۔ میرے خالہ زاد بھائی سینیٹر طارق چوہدری سے نواز شریف نے کہا کہ بے شک جنرل جیلانی میرے محسن ہیں لیکن ان کی موجودگی میں آزادی سے میں کام نہیں کر سکوں گا۔ جنرل محمد ضیا ئ الحق، طارق چوہدری اور ان سے زیادہ ان کے بڑے بھائی محمد یٰسین کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ لاگ لپٹ کے بغیر وہ کھری بات کہتے ہیں ۔ اس وقت جب جنرل جیلانی ضیائ الحق کے پہلو میں تشریف رکھتے تھے، طارق چوہدری نے جیلانی کی طرف انگلی اٹھائی اوریہ کہا : جب تک یہ صاحب پنجاب میں براجمان ہیں ، کرپشن ختم نہیں ہو سکتی۔ یہ بات درست نہیں تھی۔ طارق چوہدری خوب جانتے تھے کہ جیلانی تو بسکٹ پر اکتفا کرتے ہیں اور نواز شریف پوری بیکری نگل جاتے ہیں لیکن تب ان پر جذبات کا غلبہ تھا ۔ غالباً اس لیے کہ وہ جیلانی کو ناپسند کرتے تھے اور پیپلز پارٹی سے نفرت کی بنا پر نواز شریف انہیں گوارا تھے۔ ظاہر ہے کہ نواز شریف نے دوسرے ذرائع بھی برتے ہوں گے ۔ جنرل محمد ضیا ئ الحق کی موت کے بعد ہر سال نوا ز شریف مرحوم کی برسی کے موقع پر ان کی قبر پر جاتے اور اعلان کرتے کہ وہ ان کا مشن پورا کر کے رہیں گے ۔ دوسرے اسباب کے علاوہ ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اعجاز الحق کو ساتھ رکھنا چاہتے تھے اگرچہ وہ اپنے باپ کے نہایت ہی نالائق جانشین ثابت ہوئے اور کبھی ان چیزوں پر بھی اپنے باپ کا دفاع نہ کر سکے جس پر وہ دفاع کے مستحق تھے۔ بارہ اکتوبر 1999ئ کو پرویز مشرف کے ہاتھوں برطرفی ، اسیری اور پھر جلاوطنی کے بعد نواز شریف کو معلوم ہوا کہ فوجی حکمرانی اچھی نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے فوجی سربراہوں کے ساتھ ان کے اختلافات تو بہت ہوئے اور اس کی وجہ آشکار ہے کہ اقتدار کے مزاج میں ارتکاز ہوتاہے۔ نواز شریف ویسے بھی بے حد غاصبانہ مزاج رکھتے ہیں ۔ اقتدار میں اگر وہ شریک کر سکتے ہیں تو اپنے خاندان کے کسی شخص یا خوشامدی کو۔ فوج کے کبھی وہ مخالف نہ تھے ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پہلے وہ اللہ رسول(ص) کا نام لیا کرتے تھے تو اس کی وجہ بالکل آشکارہے کہ تاجر اس چیز کانام لیتا ہے جو اسے سازگار ہو اور اقتدار کے حریص نواز شریف بنیادی طور پر ایک تاجر ہیں ۔ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کی حیثیت سے بے پناہ دولت انہوں نے کمائی ہے ۔ اپنی دولت سے اس قدر انہیں عشق ہے کہ جلا وطنی کے برسوں میں سب کی سب بیرون ملک لے گئے ۔ ایک ذرا سا زخطرہ مول لینے کو وہ تیار نہیں تھے کہ ممکن ہے کہ ان کے غیاب میں کاروبار کو نقصان پہنچے حالانکہ حمزہ شریف پاکستان میں موجود تھے اور چوہدریوں نے اس نوجوان کے کاروبار میں کبھی مداخلت نہ کی۔ جدّہ میں نواز شریف کو امریکہ کے صدر کلنٹن اور شاہ عبداللہ کی وجہ سے پناہ ملی ۔ اپنے تلخ تجربے کی وجہ سے پاکستانی فوج سے وہ نفرت کرنے لگے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ قصوروار صرف پرویز مشرف تھے لیکن نواز شریف جب غصے کی آگ میں جلتے ہیں تو اس کی کوئی حد نہیں رہتی ۔ اس لیے وہ جنرل کیانی کے بھی اتنے ہی مخالف ہیں حالانکہ کم از کم دو مواقع پر جنرل کیانی نے ان کی بہت مدد کی۔اوّل اس وقت جب دھاندلی کا ہدف نون لیگ تھی اور پرویز مشرف پیپلز پارٹی اور قاف لیگ کی مشترکہ حکومت قائم کرنے پر تلے تھے۔ ثانیا ً مارچ 2009ئ کی عدالتی تحریک میں ، جب انہوں نے نواز شریف کو ججوں کی بحالی کا کریڈٹ لینے کا موقع دیا۔ کسی بھی منتقم مزاج شخص کی طرح ، نواز شریف کی خواہش یہ ہے کہ وہ پاکستانی فوج کی ناک رگڑیں ۔ اس کے لیے انہیں امریکہ اور پاکستان میں بائیں بازو کے ان لوگوں کا تعاون درکار ہے جو کل سویت یونین کے کارندہ تھے اور اب امریکہ بہادر کے ۔ اسی لیے نواز شریف نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے گذشتہ انتخاب میں محترمہ عاصمہ جہانگیر کی حمایت کی ، جن کی امریکہ اور بھارت نوازی میں کسی کو کوئی شبہہ نہیں۔ اسی لیے سیفما کے پلیٹ فارم سے انہوں نے پاکستانی جنرلوں کو بھارت سے زیادہ بڑا مجرم ٹہرایا۔ اسی لیے آزاد کشمیر کے الیکشن میں انہوں نے ایک لاکھ کشمیریوں کو قتل کرنے والی بھارتی فوج کے خلاف ایک لفظ بھی نہ کہااور پاکستانی آدمی کی مذمت کرتے رہے۔ دو باتیں نواز شریف سمجھ نہیں سکتے کہ ان پر نفرت کا غلبہ ہے ۔ اوّل یہ کہ جو شخص انتقام لینا چاہتاہے وہ زندگی نہیں جیتا ،زندگی اسے جیتی ہے اور ثانیاً یہ کہ پاکستانی فوج کی اصلاح ضرور ہونی چاہئیے لیکن قوم اس سے نفرت نہیںکرتی ۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ رفتہ رفتہ ، بتدریج وہ ائیر مارشل اصغر خاں کی طرح کہانی بن جائیں گے ۔ غیب کا علم تو اللہ جانتاہے ۔ انسانوں کے اندازے غلط بھی ہوتے ہیں اور درست بھی کہ انسانی ذہن تعصبات سے کبھی رہائی نہیں پاتا لیکن اپنی اس پیش گوئی پر مجھے اتنا ہی یقین ہے جتنا 1990ئ میں اس بات پر تھا کہ سویت یونین کا شیرازہ بکھر کر رہے گا کہ ادھوری آزادی اپنی تکمیل کیا کرتی ہے ۔ رہے نام اللہ کا۔

 

lotaa

Minister (2k+ posts)
fahid Beta itna ziya copy past k kitnay paisay ho ge aap k:P ya burger aur pepsi hi kafi hay.Q k pti ki yehi khorak hay,burger aur pepsi,
Image_Haroon_ur_Rasheed_78.jpg
نواز شریف کبھی ایک نظریاتی آدمی نہیں تھے اور نہ ائیر مارشل اصغر خان۔ فرق یہ ہے کہ اصغر خان مالی معاملات میں ایک صاف ستھرے آدمی تھے اور خطرہ مول لینے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے تھے۔ پاک فضائیہ کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی شہرت اچھی تھی بلکہ بہت ہی اچھی لیکن سیاست دان وہ ڈھنگ کے نہیں تھے۔ سیاست دان وہ شخص وہ ہوتا ہے جو قوم کو کنفیوژن سے روشنی کی طرف لے جائے۔ معاشرے میں اٹھتے سوالوں کا واضح جواب فراہم کرے اور جہاں چوٹ لگانے کی ضرورت ہو وہاں بروقت چوٹ لگائے۔ خلقِ خدا کے اندر گھل مل جانے میں اسے رتّی برابر تامل نہ ہو اور دبائو میں اپنے حواس وہ برقرار رکھ سکے۔ اصغر خان دیانت دار تو ضرور سمجھے جاتے تھے مگر یہ کبھی معلوم نہ ہو سکا کہ ان کا قبلہ کیا ہے ۔ دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت بھی ان میں بہت کم تھی اور سیاستدان سے زیادہ وہ ایک افسر کا مزاج رکھتے تھے۔ مغرب کا اثر ان پر بہت گہرا تھا اور ایبٹ آباد میں جہاں وہ رہائش پذیر تھے وہاں پڑوسیوں تک سے وہ راہ و رسم کم ہی رکھتے تھے۔ خفیہ ایجنسیوں والی بات تو خیر بالکل ہی بکواس ہے لیکن ایک زمانے میں انہوں نے شہنشاہِ ایران کے توسط سے امریکی سرپرستی کی آرزو ضرور کی ۔
یہ اکتوبر 1977ئ کی ایک سویر تھی ، جب وہ شہنشاہِ ایران آریہ مہر رضا شاہ سے ملاقات کے بعد ابھی ابھی پاکستان آئے تھے۔ صبح سویرے ، پہلی پرواز سے میں راولپنڈی پہنچا اور ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ناشتے کی میز پر وہ سوٹ پہنے اور نکٹائی لگائے ہوئے تھے۔ وہ بہت وجیہہ اور شاندار لگ رہے تھے لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ دس بارہ برس سے وہ ﴿عمران خان کی طرح ﴾ عوامی لباس پہنتے تھے اور کندھے پر شیخ مجیب الرحمٰن کی طرح سفید رومال رکھتے تھے ۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ پی این اے ﴿پاکستان قومی اتحاد ﴾ سے انہوں نے الگ ہونے کا فیصلہ کیا ہے ۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے ، اس رو ز ہفتہ روزہ ﴿زندگی﴾ کی آخری کاپی پریس بھیجنا تھی ، جس میں ان کا انٹرویو شامل ہوتا۔ خاں صاحب نے مجھے بتایا کہ وہ قطعی فیصلہ کر چکے۔ مودبانہ میں نے ان سے گزارش کی کہ نو جماعتی اتحاد کا شیرازہ اگر بکھر گیا تو وہ باہم برسرِ پیکار ہو جائے گا اور اس کا فائدہ حریف پیپلز پارٹی کو پہنچے گا ، جو اگرچہ پینتیس فیصد سے زیادہ حمایت نہ رکھتی تھی لیکن ملک کی سب سے بڑی پارٹی تھی ۔ پھر یہ کہ ذوالفقار علی بھٹو خطابت کا سحر جگانے اور سیاست کے کرتب سمجھنے والے ایک کارگر سیاستدان تھے۔ ائیر مارشل مسکرائے اور کہا "دیکھتے رہئیے ، چند ہفتوں میں ہوتا کیا ہے " عرض کیا "علامہ احسان الٰہی ظہیر ناخوش ہیں " جواب ملا"ان کے مقتدیوں نے انہیں پریشان کیا ہوگا۔"یہ بھی فرمایا کہ شہنشاہِ ایران سے جب ان کی بات ہوئی تو پاکستانی سفیر موجود نہ تھا ۔ پوچھا : اس کا مطلب کیا ہے۔ ارشاد کیا : آپ خود ہی سمجھ لیجئے۔ عام طور پر سفیر موجود ہوتاہے ۔ ظاہر ہے شہنشاہِ ایران نے انہیں تھپکی دی تھی ، جو اس خطہ ارض میں امریکی چاکر تھے اور تب کوئی نہ جانتا تھا کہ ٹھیک سترہ مہینے بعد ان پر اس طرح تنگ ہو جائے گی ، جیسے بعد میں حسنی مبارک، صدام حسین اور کرنل قذافی پر ہوئی۔
اصغر خاں وہ تھے کہ 1977ئ کی عوامی تحریک میں کراچی پہنچے تو کسی پروگرام کے بغیر آٹھ لاکھ انسانوں نے ان کا استقبال کیا تھا ۔ پھر ایسا جم ِ غفیر صرف 1986میں دیکھا گیا، پورے ملک کی پیپلز پارٹی ، تین سالہ جلاوطنی کے بعد بے نظیر بھٹو کا استقبال کرنے کے لیے لاہور کی مال روڈ پر امنڈ آئی۔ اصغر خاں خوش قسمت بہت تھے ۔ بے حد وجاہت، بے پناہ نیک نامی لیکن بد قسمت بھی بہت، بے پناہ خود پسندی۔ اصغر خاں کی تباہی میں نواب زادہ نصراللہ خاں مرحوم کا حصہ بہت تھا ۔ 1970ئ میں پاکستان جمہوری پارٹی کے عہدیدار چنے جانے لگے تو ہر شخص کو امید تھی کہ ائیر مارشل اصغر خاں پارٹی کے صدر یا جنرل سیکرٹری ضرور ہوںگے لیکن نواب زادہ نے انہیں دھوبی پٹڑا دیا اور ایک گمنا م شخص کو سیکرٹری جنرل بنا ڈالا ، جس کا نام بھی آج حافظے میں روشن نہیں ہوتا۔ ناراض ہو کر اصغر خاں سیاست ہی سے دستبردار ہو گئے اگرچہ بعد ازاں جسٹس پارٹی اور پھر تحریکِ استقلال بنا کر لوٹ آئے۔ 1977ئ میں نواب زادہ نصر اللہ خاں نے کمال ہنر مندی سے مفتی محمود کو پی این اے کا سربراہ بنا دیا۔ اپنی سازش میں وہ اس لیے کامیاب رہے کہ اصغر خان کم ہی کسی کے ساتھ حسنِ سلوک کرتے ۔ اس میں ہرگز کوئی شبہہ نہیں کہ پی این اے کے لیڈروں میں وہی سب سے زیادہ مقبول تھے۔ کارکنوں اور ووٹروں سے اگر پوچھا جاتا تو اکثریت انہی کو وزیر اعظم دیکھنا پسند کرتی۔ سیاست میں مگر مقبولیت کے علاوہ بھی بعض چیزوں پر توجہ دینا ہوتی ۔ یہ بات اصغر خاں سمجھ نہ سکے ، جس طرح کہ اب عمران خان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ ذاتی مقبولیت کو پارٹی کی پذیرائی میں تبدیل کرنا سہل نہیں ۔
جنرل محمد ضیا ئ الحق مرحوم نے جب 1977ئ کے الیکشن ملتوی کرنے اور مکمل مارشل لا نافذ کرنے کا فیصلہ کیا تو اصغر خاں کو دھچکا لگا۔ وقت مگر ان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا اور کئی سال انہیں نظر بندی میں گزارنا پڑے۔ اب بھی وہ ایک مقبول رہنما تھے لیکن بتدریج کھیل ان کے ہاتھ سے نکل کر جنرل محمد ضیا ئ الحق کی سب سے بڑی مخالف بے نظیر بھٹو کے ہاتھ میں چلا گیا ، جن کے باپ کو پھانسی دے دی گئی تھی ۔ جلا وطنی کی وجہ سے جن کے لیے عوامی ہمدردیاں بڑھ گئی تھیں اور جو ایک ملک گیر اور نسبتاً زیادہ منظم پارٹی تھی ۔ ایک احمقانہ فیصلہ وہ تھا وہ 1985ئ میں ایبٹ آباد میں اصغر خاں کی رہائش گاہ پر کیا گیا۔ جس میں اپوزیشن جماعتوں نے غیر انتخابی بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ اس سے بھی زیادہ سنگین غلطی کے خان صاحب تب مرتکب ہوئے جب انہوں نے سویت یونین کے خلاف افغان عوام کے مقبول جہاد کی مخالفت کا فیصلہ کیا ۔کار میں سوار ، سڑک کے راستے وہ جلال آباد پہنچے اور وہاں سے ہیلی کاپٹر میں دارالحکومت کابل۔ یہ غالباً 1987ئ تھا ۔سویت یونین کی سفاک سرخ افواج نے کم از کم دس لاکھ افغانوں کو قتل کر ڈالا تھا اور ہزاروں برس سے آباد چلے آتے ہزاروں دیہات صفحہ ہستی سے مٹا دئیے تھے لیکن ائیر مارشل نے اعلان کیا کہ انہیں گولی چلنے کی آواز تک سنائی نہ دی۔ لاشوں کے اتنے بڑے انبار پر کھڑے ہو کر ایسا مضحکہ خیز بیان کم ہی کسی رہنما نے دیا ہوگا۔ آج صورتِ حال بالکل دوسری ہے لیکن تب سروے کرنے والے قابلِ اعتماد ادارے گیلپ کے جائزوں سے آشکار تھا کہ افغان جہاد کی حمایت 70فیصد سے زیادہ ہے جو بعد میں گر کر 63فیصد رہ گئی۔ میں تب ایک اخبار کا اداریہ لکھا کر تاتھا۔ بہت رنج کے ساتھ خان صاحب سے میں نے سوال کیا :
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسو تیرے صحرائوں کو گلنا رکریں
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خاں صاحب کی مقبولیت کم ہوتی گئی ؛اگرچہ ذاتی دیانت اور شجاعت کی وجہ سے ان کا احترام باقی رہا لیکن بے لچک رویے کی وجہ سے ایک ایک کر کے سارے پارٹی لیڈر انہیں چھوڑ گئے۔ پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو دوسروں کے علاوہ اصغر خاں کی ساکھ سے فائدہ اٹھانے کی انہوں نے کوشش کی اور ان کے صاحبزادے کو وزیر بنا دیا ۔ بدقسمتی سے یہ بے حد وجیہہ و شکیل نوجوان پراسرار حالات میں قتل کر دیا گیا وگرنہ ممکن ہے کہ باپ کا نام وہ زندہ رکھتا۔ زیادہ نہ سہی تو اتنا ہی کر دکھاتا کہ ایک دیا سا جلتا رہتا۔ ہر آدمی ایک ہی اننگ کھیلتا ہے ۔ پاک فضائیہ میں اصغر خاں کی اننگ خیرہ کن تھی۔ دنیا کی بہترین فضائیہ انہوں نے تعمیر کی اور اس حال میں سبکدوش ہوئے کہ چاروں طرف ان کا ڈنکا بجتا تھا ۔ پھر انہوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا اور 45برس سے سیاست میں ہیں ۔ بے پناہ مقبولیت کے بعد جب زوال آیا تو خود ہی انہیں سکبدوش ہو جانا چاہئیے تھا مگر وہ ایسا نہ کر سکے۔ اب وہ ایک کہانی ہیں ۔ ان کی زندگی سے کچھ سبق سیکھے جا سکتے ہیں اور یہ سیکھنے والوں پر ہے کہ کس طرح وہ تجزیہ کرتے اور کس طرح عبرت حاصل کرتے ہیں ۔
عبدالقادر حسن راوی ہیں کہ میاں محمد نواز شریف نے مبلغ پانچ لاکھ روپے کے عوض ، جو آج کے پانچ کروڑ روپے کے برابر تو ضرو ر ہوں گے ، پنجاب کی وزارتِ خزانہ حاصل کی تھی۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ بات انہیں خود میاں صاحب کے والدِ گرامی مرحوم کے ایک قریبی اور قابلِ اعتماد دوست نے بتائی تھی۔ شریف خاندان کو سیاست سے کوئی سروکار نہ تھا۔ اس میدان میں تو وہ اس لیے کودے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے اتفاق فائونڈری کو سرکاری تحویل میں لے کر برباد کر ڈالا۔ انتقام کا جذبہ نواز شریف اور اس کے بعد شہباز شریف کو سیاست میں لایا۔ توانائی نواز شریف میں بہت ہے لیکن تعلیم او راخلاق برائے نام ۔ وہ لوگوں میں گھل مل جانے والے آدمی ہیں اور مدّاح یہ کہتے ہیں کہ ان کی آنکھوں میں حیا بھی پائی جاتی ہے ۔ کچھ نہ کچھ کشش توبہرحال ہے کہ اتنے بہت سے لوگ ان کے گرویدہ ہوئے اور کوئی نہ کوئی کمال تو ہو گا کہ اتنی کامیابیاں حاصل کیں لیکن نظریاتی آدمی وہ کبھی نہ تھے۔ جنرل غلام جیلانی کی سرپرستی میں وہ پروان چڑھے حتیٰ کہ جنرل محمد ضیا ئ الحق کو بھی عزیز ہو گئے ۔ 1986ئ میں پیر پگاڑا نے یوسف رضا گیلانی اور کچھ دوسرے لوگوں کی مدد سے ان کا دھڑن تختہ کر دیا ہوگا لیکن ضیا ئ الحق بے چین ہو کر لاہور پہنچے اور پنجاب اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کی کہ نواز شریف کا کلّا﴿کھونٹا﴾ بہت مضبوط ہے۔ 1988ئ میں جنرل محمد ضیا ئ الحق نے نیک نام جونیجو کو برطرف کیا تو نواز شریف ان کے سب سے بڑے آلہئ کار تھے۔ کم ہی ادراک کیا جا تاہے کہ جنرل ضیا ئ الحق محمد خاں جونیجو کو کبھی برطرف نہ کرتے لیکن افغان مسئلے پر جونیجو ضیا ئ الحق کے مقابل آگئے تھے۔ جنرل کی خواہش تھی کہ کابل میں ایک نگراں عبوری حکومت قائم ہو ۔ وہ گلبدین حکمت یار کو افغانستان کا صدر اور برہان الدین ربانی کو وزیر اعظم بنا کر باقی پارٹیوں کو اس میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ یہ دونوں آدمی امریکیوں کے لیے قابلِ قبول نہ تھے۔ خاص طور پر حکمت یار جو سویت یونین کی طرح انکل سام کے بھی مخالف تھے۔ کابل میں امریکی اپنے کسی کارندے کو براجمان کرنا چاہتے تھے۔ اللہ کے آخری رسول(ص) نے ارشاد کیا تھا کہ آنے والے کسی دور میں مسلمان اور نصرانی مل کر ایک جنگ لڑیں گے ۔ جب فتح حاصل ہو چکے گی تو نصرانیوں کا لیڈر اپنا علم بلند کرے گا یعنی وہ یہ دعویٰ کرے گا کہ کامیابی بنیادی طور پر اسی کے طفیل ہوئی ہے ۔ میرا خیال ہے کہ یہ افغان جنگ ہی تھی کیونکہ اس کے سوا عیسائی اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ معرکے میں شریک نہ تھے۔ یہ بھی ارشاد کیا تھا کہ اس پر ایک مسلمان کو غصہ آئے گا اور وہ ان کے نشان کو تباہ کر دے گا۔ اہلِ علم کہتے ہیں کہ یہ نشان نیو یارک کے جڑواں مینا رتھے اور وہ شخص اسامہ بن لادن ۔ امریکیوں نے ضیا ئ الحق کو قتل کروادیا کہ وہ ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہو چکے تھے۔ ضیا ئ الحق کے لیے ہمدردی کی ایک بڑی لہر اٹھی لیکن پارٹی بٹ چکی تھی ۔ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے اسلامی جمہوری اتحاد نے وجود پایا اور میاں محمد نواز شریف کو اس کا لیڈر بنادیا گیا ۔ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی مدد ہی سے اوّل وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور پھر پاکستان کے وزیر اعظم بنے ۔ جس قدر جلد ممکن ہوا ، انہوں نے اپنے دونوں محسنوںجنرل حمید گل اور جنرل اسلم بیگ سے نجات حاصل کی ۔ جس طرح کہ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد جنرل غلام جیلانی خاں نے پنڈ چھڑایا تھا ۔ یہ کہانی بہت دلچسپ ہے ۔ میرے خالہ زاد بھائی سینیٹر طارق چوہدری سے نواز شریف نے کہا کہ بے شک جنرل جیلانی میرے محسن ہیں لیکن ان کی موجودگی میں آزادی سے میں کام نہیں کر سکوں گا۔ جنرل محمد ضیا ئ الحق، طارق چوہدری اور ان سے زیادہ ان کے بڑے بھائی محمد یٰسین کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ لاگ لپٹ کے بغیر وہ کھری بات کہتے ہیں ۔ اس وقت جب جنرل جیلانی ضیائ الحق کے پہلو میں تشریف رکھتے تھے، طارق چوہدری نے جیلانی کی طرف انگلی اٹھائی اوریہ کہا : جب تک یہ صاحب پنجاب میں براجمان ہیں ، کرپشن ختم نہیں ہو سکتی۔ یہ بات درست نہیں تھی۔ طارق چوہدری خوب جانتے تھے کہ جیلانی تو بسکٹ پر اکتفا کرتے ہیں اور نواز شریف پوری بیکری نگل جاتے ہیں لیکن تب ان پر جذبات کا غلبہ تھا ۔ غالباً اس لیے کہ وہ جیلانی کو ناپسند کرتے تھے اور پیپلز پارٹی سے نفرت کی بنا پر نواز شریف انہیں گوارا تھے۔ ظاہر ہے کہ نواز شریف نے دوسرے ذرائع بھی برتے ہوں گے ۔ جنرل محمد ضیا ئ الحق کی موت کے بعد ہر سال نوا ز شریف مرحوم کی برسی کے موقع پر ان کی قبر پر جاتے اور اعلان کرتے کہ وہ ان کا مشن پورا کر کے رہیں گے ۔ دوسرے اسباب کے علاوہ ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اعجاز الحق کو ساتھ رکھنا چاہتے تھے اگرچہ وہ اپنے باپ کے نہایت ہی نالائق جانشین ثابت ہوئے اور کبھی ان چیزوں پر بھی اپنے باپ کا دفاع نہ کر سکے جس پر وہ دفاع کے مستحق تھے۔ بارہ اکتوبر 1999ئ کو پرویز مشرف کے ہاتھوں برطرفی ، اسیری اور پھر جلاوطنی کے بعد نواز شریف کو معلوم ہوا کہ فوجی حکمرانی اچھی نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے فوجی سربراہوں کے ساتھ ان کے اختلافات تو بہت ہوئے اور اس کی وجہ آشکار ہے کہ اقتدار کے مزاج میں ارتکاز ہوتاہے۔ نواز شریف ویسے بھی بے حد غاصبانہ مزاج رکھتے ہیں ۔ اقتدار میں اگر وہ شریک کر سکتے ہیں تو اپنے خاندان کے کسی شخص یا خوشامدی کو۔ فوج کے کبھی وہ مخالف نہ تھے ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پہلے وہ اللہ رسول(ص) کا نام لیا کرتے تھے تو اس کی وجہ بالکل آشکارہے کہ تاجر اس چیز کانام لیتا ہے جو اسے سازگار ہو اور اقتدار کے حریص نواز شریف بنیادی طور پر ایک تاجر ہیں ۔ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کی حیثیت سے بے پناہ دولت انہوں نے کمائی ہے ۔ اپنی دولت سے اس قدر انہیں عشق ہے کہ جلا وطنی کے برسوں میں سب کی سب بیرون ملک لے گئے ۔ ایک ذرا سا زخطرہ مول لینے کو وہ تیار نہیں تھے کہ ممکن ہے کہ ان کے غیاب میں کاروبار کو نقصان پہنچے حالانکہ حمزہ شریف پاکستان میں موجود تھے اور چوہدریوں نے اس نوجوان کے کاروبار میں کبھی مداخلت نہ کی۔ جدّہ میں نواز شریف کو امریکہ کے صدر کلنٹن اور شاہ عبداللہ کی وجہ سے پناہ ملی ۔ اپنے تلخ تجربے کی وجہ سے پاکستانی فوج سے وہ نفرت کرنے لگے ہیں ۔ یہ درست ہے کہ قصوروار صرف پرویز مشرف تھے لیکن نواز شریف جب غصے کی آگ میں جلتے ہیں تو اس کی کوئی حد نہیں رہتی ۔ اس لیے وہ جنرل کیانی کے بھی اتنے ہی مخالف ہیں حالانکہ کم از کم دو مواقع پر جنرل کیانی نے ان کی بہت مدد کی۔اوّل اس وقت جب دھاندلی کا ہدف نون لیگ تھی اور پرویز مشرف پیپلز پارٹی اور قاف لیگ کی مشترکہ حکومت قائم کرنے پر تلے تھے۔ ثانیا ً مارچ 2009ئ کی عدالتی تحریک میں ، جب انہوں نے نواز شریف کو ججوں کی بحالی کا کریڈٹ لینے کا موقع دیا۔ کسی بھی منتقم مزاج شخص کی طرح ، نواز شریف کی خواہش یہ ہے کہ وہ پاکستانی فوج کی ناک رگڑیں ۔ اس کے لیے انہیں امریکہ اور پاکستان میں بائیں بازو کے ان لوگوں کا تعاون درکار ہے جو کل سویت یونین کے کارندہ تھے اور اب امریکہ بہادر کے ۔ اسی لیے نواز شریف نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے گذشتہ انتخاب میں محترمہ عاصمہ جہانگیر کی حمایت کی ، جن کی امریکہ اور بھارت نوازی میں کسی کو کوئی شبہہ نہیں۔ اسی لیے سیفما کے پلیٹ فارم سے انہوں نے پاکستانی جنرلوں کو بھارت سے زیادہ بڑا مجرم ٹہرایا۔ اسی لیے آزاد کشمیر کے الیکشن میں انہوں نے ایک لاکھ کشمیریوں کو قتل کرنے والی بھارتی فوج کے خلاف ایک لفظ بھی نہ کہااور پاکستانی آدمی کی مذمت کرتے رہے۔ دو باتیں نواز شریف سمجھ نہیں سکتے کہ ان پر نفرت کا غلبہ ہے ۔ اوّل یہ کہ جو شخص انتقام لینا چاہتاہے وہ زندگی نہیں جیتا ،زندگی اسے جیتی ہے اور ثانیاً یہ کہ پاکستانی فوج کی اصلاح ضرور ہونی چاہئیے لیکن قوم اس سے نفرت نہیںکرتی ۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ رفتہ رفتہ ، بتدریج وہ ائیر مارشل اصغر خاں کی طرح کہانی بن جائیں گے ۔ غیب کا علم تو اللہ جانتاہے ۔ انسانوں کے اندازے غلط بھی ہوتے ہیں اور درست بھی کہ انسانی ذہن تعصبات سے کبھی رہائی نہیں پاتا لیکن اپنی اس پیش گوئی پر مجھے اتنا ہی یقین ہے جتنا 1990ئ میں اس بات پر تھا کہ سویت یونین کا شیرازہ بکھر کر رہے گا کہ ادھوری آزادی اپنی تکمیل کیا کرتی ہے ۔ رہے نام اللہ کا۔

 

chegado

MPA (400+ posts)
Yeh dari wala bhalo bara fazool shaks hey, PTI ka worker bana howa hey- ISI key payroll per hey, yh NS ka kuch nahe bigar sakta. NS zinda baad, PMLn zinadbaad. Mental dari wala madari murdabaad
 
Last edited by a moderator:

jennyrock42

MPA (400+ posts)
Yeh dari wala bhalo bara fazool shaks hey, PTI ka worker bana howa hey- ISI key payroll per hey, yh NS ka kuch nahe bigar sakta. NS zinda baad, PMLn zinadbaad. Mental dari wala madari murdabaad


I think HR has quite precisely sketched the personality of mr. "Allu gosht wali sarkar".

Regards
 

Tips1

Citizen
I dont want to comment on the article but one thing is a fact that mian Nawaz sharif and co. is infact a businesss entity, they came into politcs with a moto to gain business benefits for thier own industry. eventually they applied bussiness tactics in politics and eventually turned pak politcs into business very unfortunate for the nation .