بے نظیر کے قتل کے بعد بابر اعوان یوسف رضا گیلانی کی کابینہ کے اہم وزیر بنا دئیے گئے مگر کچھ ہی دنوں میں ان کی کرپشن کے قصے زبان زد عام ہونے لگے ایک کمپنی حارث اسٹیل نے دعوی کیا کہ اس کے خلاف ایف بی آر کے کیسز ختم کروانے کیلئے بابر اعوان نے تین کروڑ وصول کئے اور کیس ختم کرنے کی گارنٹی دی، کمپنی کے استفسار پر بابر اعوان نے انہیں بتایا کہ فیس میں سے ڈیڑھ کروڑ ان کا ہے اور باقی کا ڈیڑھ کروڑ جج کو جاے گا، دوسرے لفظوں میں وکیل کی بجاے جج کرلو والی بات تھی
کرپشن کے کے مزید الزامات سامنے آنے لگے تو بابر اعوان نے ایک انتہای گھٹیا مذہبی کارڈ کھیلا اور اپنی کرپشن کا ذمہ دار احمدیوں کو قرار دیتے ہوے پریس بریفنگ دے ڈالی، اس کے بقول چونکہ وہ قادیانیوں کے خلاف عدالتوں میں تمام کیسز کی پیروی کرتا ہے۔لہذا وہ اس کے خلاف کرپشن کا پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔ حب رسول کے اس دعویدار نے جعلی ڈگری بھی خریدی جس کے بعد یہ جعلی ڈاکٹر انصار عباسی کے ہاتھوں بے نقاب ہونے کے بعد اپنے ساتھ ڈاکٹر لکھوانا چھوڑ چکا تھا۔ اب کچھ خوشامدی اینکر اسے پھر ڈاکٹر کہہ کر مخاطب کرنے لگے ہیں
آج بابراعوان عمران حکومت کا حصہ ہے اور کرپشن پر بھاری بھرکم بھاشن دیتا دکھای دیتا ہے۔ منافقت اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کی اس سے بدتر مثال شائد کوی نہ ملے
بابراعوان کے قدموں پر چلتے ہوے کل نذیر چوہان نامی رکن اسمبلی نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس کا کوی سر اور پیر نہیں کیونکہ اگر شہزاد اکبر احمدی بھی ہے تو اس کا نذیرچوہان اور جہانگیر ترین کی کرپشن سے کیا تعلق ؟ اور ان دونوں پر کیسز کروانے سے احمدیوں کو کیا فائدہ پنہچے گا؟ کیا ترین کو چینی مہنگی کرنے کا مشورہ احمدیوں نے دیا تھا؟ کیا پانچ ارب کی سبسڈی زبردستی لینے کا مشورہ بھی احمدیوں نے دیا تھا؟ شہزاد اکبر جس پر احمدی ہونے کا الزام لگایا گیا ہے وہ اس کا اقرار نہیں کررہا مگر حکومت کی سہمی سہمی پالیسی کی وجہ سے یہ معاملہ تقویت پکڑتا جا رہا ہے۔ اگر نزیر چوہان والا معاملہ زور پکڑتا گیا تو احمدیوں سمیت تمام اقلیتی مسالک کے لئے خطرہ پیدا ہوجاے گا، انہی حالات میں لبیک جیسی تنظیموں کو بھی موقع مل جاے گا کہ وہ اپنا پرتشدد احتجاج دوبارہ شروع کردیں، میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جہانگیر ترین کا اتحاد شہباز شریف سے ہونے جارہا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ شہباز شریف کے دور میں عیسائیوں اور احمدیوں کے خلاف چند ہولناک قسم کے انسانیت سوز جرائم ہوے تھے۔ جن میں لاہور کے اندر احمدیوں کے جمعہ کے اجتماعات پر دھشت گرد حملوں میں ستاسی بندوں کی موت اور ڈیڑھ سو زخمی ہوے تھے ، اسی طرح ٹوبہ میں عیسائیوں کی بستی میں آگ لگا کر آٹھ عیسای مار دئیے گئے تھے، اور کوٹ رادھا کشن میں دو عیسای میاں بیوی کو انکے بچوں کے سامنے زندہ آگ کی بھٹی میں پھینک دیا گیا تھا۔ شہباز شریف وہی روایتی مذہبی کارڈ کی وجہ سے مجرمان کو سزا نہیں دلوا سکا تھا۔ اسی طرح بزدار بھی ساہیوال والے سانحہ میں مجرموں کو کیفر کردار تک پنہچانے میں ناکام رہا تھا۔
مجھے نہیں معلوم کہ اسرائیل کو للکارے مارنے والی ریاست اتنی کمزور کیوں پڑ جاتی ہے کہ معمولی سے مجرم بھی اپنی الگ ریاست اور اپنے الگ قوانین بنا کر علاقے کے حاکم بن جاتے ہیں؟
ہم تبھی ایک طاقتور ریاست کہلوائیں گے جب یہاں کوی بھی مجرم علاقے میں اپنی مرضی نہ مسلط کرتا پھرے اور کوی مذہبی رہنما بھی مذہبی کارڈ کھیل کر کسی کی جان کیلئے خطرہ نہ بن سکے، کل پرسوں سے بزدار یا کوی وفاقی وزیر نذیر چوہان کے جواب میں بیان کیوں نہیں دے رہا؟
اتنے کمزور اور ڈراکل قسم کے حکمران نہیں ہونے چاہیئں جو خود اقلیتوں کا تحفظ کرتے ہوے سہمے سہمے دکھای دیں وہ عوام کی کیا حفاظت کرسکیں گے؟
کرپشن کے کے مزید الزامات سامنے آنے لگے تو بابر اعوان نے ایک انتہای گھٹیا مذہبی کارڈ کھیلا اور اپنی کرپشن کا ذمہ دار احمدیوں کو قرار دیتے ہوے پریس بریفنگ دے ڈالی، اس کے بقول چونکہ وہ قادیانیوں کے خلاف عدالتوں میں تمام کیسز کی پیروی کرتا ہے۔لہذا وہ اس کے خلاف کرپشن کا پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔ حب رسول کے اس دعویدار نے جعلی ڈگری بھی خریدی جس کے بعد یہ جعلی ڈاکٹر انصار عباسی کے ہاتھوں بے نقاب ہونے کے بعد اپنے ساتھ ڈاکٹر لکھوانا چھوڑ چکا تھا۔ اب کچھ خوشامدی اینکر اسے پھر ڈاکٹر کہہ کر مخاطب کرنے لگے ہیں
آج بابراعوان عمران حکومت کا حصہ ہے اور کرپشن پر بھاری بھرکم بھاشن دیتا دکھای دیتا ہے۔ منافقت اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کی اس سے بدتر مثال شائد کوی نہ ملے
بابراعوان کے قدموں پر چلتے ہوے کل نذیر چوہان نامی رکن اسمبلی نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس کا کوی سر اور پیر نہیں کیونکہ اگر شہزاد اکبر احمدی بھی ہے تو اس کا نذیرچوہان اور جہانگیر ترین کی کرپشن سے کیا تعلق ؟ اور ان دونوں پر کیسز کروانے سے احمدیوں کو کیا فائدہ پنہچے گا؟ کیا ترین کو چینی مہنگی کرنے کا مشورہ احمدیوں نے دیا تھا؟ کیا پانچ ارب کی سبسڈی زبردستی لینے کا مشورہ بھی احمدیوں نے دیا تھا؟ شہزاد اکبر جس پر احمدی ہونے کا الزام لگایا گیا ہے وہ اس کا اقرار نہیں کررہا مگر حکومت کی سہمی سہمی پالیسی کی وجہ سے یہ معاملہ تقویت پکڑتا جا رہا ہے۔ اگر نزیر چوہان والا معاملہ زور پکڑتا گیا تو احمدیوں سمیت تمام اقلیتی مسالک کے لئے خطرہ پیدا ہوجاے گا، انہی حالات میں لبیک جیسی تنظیموں کو بھی موقع مل جاے گا کہ وہ اپنا پرتشدد احتجاج دوبارہ شروع کردیں، میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جہانگیر ترین کا اتحاد شہباز شریف سے ہونے جارہا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ شہباز شریف کے دور میں عیسائیوں اور احمدیوں کے خلاف چند ہولناک قسم کے انسانیت سوز جرائم ہوے تھے۔ جن میں لاہور کے اندر احمدیوں کے جمعہ کے اجتماعات پر دھشت گرد حملوں میں ستاسی بندوں کی موت اور ڈیڑھ سو زخمی ہوے تھے ، اسی طرح ٹوبہ میں عیسائیوں کی بستی میں آگ لگا کر آٹھ عیسای مار دئیے گئے تھے، اور کوٹ رادھا کشن میں دو عیسای میاں بیوی کو انکے بچوں کے سامنے زندہ آگ کی بھٹی میں پھینک دیا گیا تھا۔ شہباز شریف وہی روایتی مذہبی کارڈ کی وجہ سے مجرمان کو سزا نہیں دلوا سکا تھا۔ اسی طرح بزدار بھی ساہیوال والے سانحہ میں مجرموں کو کیفر کردار تک پنہچانے میں ناکام رہا تھا۔
مجھے نہیں معلوم کہ اسرائیل کو للکارے مارنے والی ریاست اتنی کمزور کیوں پڑ جاتی ہے کہ معمولی سے مجرم بھی اپنی الگ ریاست اور اپنے الگ قوانین بنا کر علاقے کے حاکم بن جاتے ہیں؟
ہم تبھی ایک طاقتور ریاست کہلوائیں گے جب یہاں کوی بھی مجرم علاقے میں اپنی مرضی نہ مسلط کرتا پھرے اور کوی مذہبی رہنما بھی مذہبی کارڈ کھیل کر کسی کی جان کیلئے خطرہ نہ بن سکے، کل پرسوں سے بزدار یا کوی وفاقی وزیر نذیر چوہان کے جواب میں بیان کیوں نہیں دے رہا؟
اتنے کمزور اور ڈراکل قسم کے حکمران نہیں ہونے چاہیئں جو خود اقلیتوں کا تحفظ کرتے ہوے سہمے سہمے دکھای دیں وہ عوام کی کیا حفاظت کرسکیں گے؟