بچھو اور درویش
عمران خان کی مثال اس درویش جیسی ہے جو پانی میں گرتے ہوے ایک بچھو کو بچانے کی کوشش کرتا ہے تو بچھو اسے ڈنگ مارتا ہے ، بچھو پھر گرنے لگتا ہے تو درویش پھر اسے بچاتا ہے. کسی عقلمند نے درویش سے کہا کہ اگر بچھو مرتا ہے تو مرنے دو ، یہ کہاں کی عقل مندی ہے کہ وہ ڈنگ مارتا ہے اور آپ اسے پھر بھی بچاتے ہیں . درویش نے جواب دیا کہ دنگ مارنا بچھو کی فطرت ہے ، نیکی کرنا میری فطرت ہے ، جب بچھو اپنی فطرت سے باز نہیں اتا تو میں کیوں اپنی فطرت بدلوں.
پاکستان کے سارے ادارے تنزلی کے گڑھے میں گرنا چاہتے ہیں ، عمران خان ان کو بچانے کی کوشش کرتا ہے تو الٹا اس کے خلاف محتلف حربے استعمال ہوتے ہیں . پاکستانی ووٹر کا حال بھی یہی ہے، وہ اپنی غلامانہ فطرت سے مجبور اپنے بچوں کے قاتلوں کو منتخب کرنا چاہتے ہیں. علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال کو لاہور میں ستر ہزار ووٹوں سے شکست دے کر ایک چور شیخ روحیل اصغر کو منتخب کرتے ہیں.
جس نے بھی عوام کی اس غلامانہ فطرت کو بدلنا چاہا ، اس کا مزاق اڑایا گیا، اس کو برا بھلا کہا گیا. علامہ اقبال نے رینگتے هوئے کیڑوں کی زندگی گزارتے ہوں کو شاہین بنانا چاہا تو لوگوں نے انہیں شرابی اور نہ جانے کیا کہا . الیکشن میں بھی قائدا عظم اور علامہ اقبال کی مسلم لیگ کو پنجاب سے صرف دو نشتیں مل سکیں. قائدا عظم جیسا لیڈر ایک موقعہ پر اس قوم سے مایوس ہو کر لندن چلے گیے تھے . سر سید احمد خان کو اس قوم کو تعلیم دینے پر کافر کہا گیا. لیکن پھر بھی یہ تمام لوگ درویش کی طرح اپنی فطرت پر قائم رہے، عمران خان بھی یہی کر رہا ہے. انتہائی جانفشانی سے اس قوم کو غلامی کی ذلت سے نکالنا چاہتا ہے.
کرپشن کے خلاف اللہ نے پانامہ کی صورت میں لوگوں کے سامنے ظالموں کے راز کھول دیے ، عمران خان نے تحریک چلا کر عوام کو پلیٹ فارم مہیا کر دیا . اگے عوام کی مرضی