جوڈیشل کمیشن اجلاس کا معاملہ سلجھ نہ سکا،ایک اور رکن کا چیف جسٹس کو خط

9scspjcaaikaurhat.jpg

ججز تقرری سے متعلق سپریم کورٹ میں جوڈیشل کمیشن اجلاس کے معاملے پر ممبر جوڈیشل کمیشن اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین ایڈووکیٹ نے بھی چیف جسٹس کو خط لکھا دیا ہے۔ جوڈیشل کمیشن اجلاس کے معاملےپر جسٹس سردار طارق مسعود ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سجاد علی شاہ بھی خط لکھ چکے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق ججز تقرری سے متعلق سپریم کورٹ میں جوڈیشل کمیشن اجلاس کے معاملے پر ممبر جوڈیشل کمیشن اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین ایڈووکیٹ نے بھی چیف جسٹس کو خط لکھا دیا ہے۔ جوڈیشل کمیشن اجلاس کے معاملےپر جسٹس سردار طارق مسعود ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سجاد علی شاہ بھی خط لکھ چکے ہیں۔اختر حسین ایڈووکیٹ نے خط میں لکھا کہ 4 ہفتے میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کی سربراہی میں کمیٹی جوڈیشل کمیشن رولز میں ترمیم کرے، رولز میں ترمیم ہونا لازمی ہیں۔

ممبر جوڈیشل کمیشن اختر حسین ایڈووکیٹ نے چیف جسٹس کو خط میں لکھا کہ اٹارنی جنرل نے بھی جوڈیشل کمیشن کو خط لکھا تھا اور سپریم کورٹ کی پریس ریلیزجاری کی گئی تھی، 28 جولائی کو ہونے والے اجلاس کی آڈیو ریکارڈنگ اور منٹس کو پبلک نہیں کرنا چاہیے تھا، کمیشن ممبران میں ذاتی اختلافات کی خبریں انتہائی تشویشناک ہیں، انہوں نے لکھا کہ تمام ممبران کے تحفظات کو دور کرنا چیف جسٹس کی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے لکھا کہ سندھ ہائیکورٹ کے ججز کے حوالے سے جسٹس سجاد علی شاہ کا مؤقف سنا گیا، میٹنگ منٹس میں فارمل ووٹ اور حتمی فیصلہ اجلاس کے آخر میں لکھوا دیا جاتا۔ جوڈیشل کمیشن اجلاس اقلیتی ممبران کے کہنے پر ختم نہیں ہونا چاہیے تھا۔

جوڈیشل کمیشن اجلاس کی آڈیو پبلک کرنے کا فیصلہ اور اجلاس کے دیگر فیصلے جوڈیشل کمیشن کے تمام ممبران کی مشاورت سے ہونے چاہئیں جبکہ اجلاس کے منٹس اجلاس کے منٹس اتفاق رائے سے بھی جاری کیے جا سکتے تھے۔ آڈیو لیک ہونے سے سندھ ہائیکورٹ کے ججز کی ساکھ کو نقصان پہنچا، جسٹس قیصر رشید کے علاوہ باقی نامزدگیوں کی مخالفت کی تھی۔

ممبر جوڈیشل کمیشن نے مزید لکھا کہ گروہ بندی سے بچنے کے لیے ججز تقرری کا شفاف طریقہ کار آئندہ اجلاس سے پہلے طے کیا جائے، جوڈیشل کمیشن کو تفریق پیدا کرنے کے بجائے ایک باڈی کے طور پر کام کرنا چاہیے، عدالتی ادارے میں پیدا واضح تقسیم قومی مفاد میں نہیں، پاکستان کی قانونی برادری کے سربراہ کی حیثیت سے اس کا حل چیف جسٹس کے پاس موجود ہے۔