سندھ میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے کوئی تیاری نظر نہیں آتی،فاطمہ بھٹو

15fatimabhuttoarttionfloods.jpg

شہید ذولفقار علی بھٹو کی پوتی اور کالم نگار فاطمہ بھٹو نے حالیہ سیلاب کی وجہ سے پاکستانی معیشت پر مرتب ہونےوالے اثرات کے حوالے سے امریکی جریدے نیویارک ٹائمز میں ایک خصوصی مضمون لکھا ہے۔

نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں فاطمہ بھٹو کا کہنا ہے کہ اس بدترین سیلاب سے سات میں سے ایک پاکستانی متاثر ہوا ہے، بہت سے لوگ بغیر کسی پناہ کے کھلے آسمان تلے سو رہے ہیں۔ تقریباً 900,000 مویشی ضائع ہو چکے ہیں، اور 20 لاکھ ایکڑ سے زیادہ کھیتی باڑی اور 90 فیصد فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔

فاطمہ بھٹو کے مطابق کچھ صوبوں میں، کپاس ، گنےاور چاول کی فصلیں، کھجور کے درخت تقریباً ختم ہو چکے ہیں، پیاز، مرچ اور ٹماٹر کی نصف فصلوں سمیت تمام اہم غذائیں ختم ہو چکی ہیں۔ 1,350 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور تقریباً 33 ملین لوگ (غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 50 ملین) بے گھر ہو چکے ہیں۔

2010 میں جب ہم سیلاب کا شکار تھے، پاکستان کے محکمہ موسمیات نے ملک بھر میں معمول کی سطح سے 70 سے 102 فیصد زیادہ بارشیں ریکارڈ کیں،دریا بھپر گئے تھے، ندیوں کےکنارے ٹوٹ گئے تھے، ڈیم بھرجانے کی وجہ سے سیلابی پانی کی جھیلیں بن گئیں۔ USAID کا تخمینہ ہے کہ 1.7 ملین گھروں کو نقصان پہنچا تھااور 20 ملین سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے۔ اس وقت

معاشی نقصان تقریباً 11 بلین ڈالر تھا اور ملک کا پانچواں حصہ متاثر ہوا تھا۔

آج کا سپر فلڈ 2010 کے سیلاب سے بھی بدتر ثابت ہو سکتا ہے،اس سیزن میں ایک موقع پر صوبہ سندھ میں بارش اوسط سے 508 فیصد زیادہ تھی۔

انہوں نے لکھا جنوب میں سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ سندھ ہے۔ سندھ میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے کوئی تیاری نظر نہیں آتی، نہ ہی پانی کے بنیادی ڈھانچے یا سیوریج کاکوئی نظام موجود ہے، یہاں زندہ بچ جانے والوں کو جن کی اکثریت غریب ہے، اب بھوک اور سیلاب کےبڑھتے ہوئے پانی میں چھپی بیماریوں کا سامنا کرناہوگا، یہاں مزید بارش کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔ سندھ کا زیادہ تر حصہ سطح سمندر کے قریب ہے، جس کا مطلب ہے کہ شمال سے آنے والے سیلابی پانی کا بہاؤ بھی یہاں جاری رہے گا۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کو 1.17 بلین ڈالر کے فنڈز جاری کیے ہیں جو اس سے قبل 2019 میں حکومتی بیل آؤٹ کے لیے مختص کیے گئے تھے۔ لیکن آئی ایم ایف کا پیسہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے تکلیف دہ شرائط کے ساتھ آتا ہے، اور یہ نہ تو تعمیر نو کے لیے کافی ہوگا اور نہ ہی مستقبل میں ہونے والی آفات کو روکنے کے لیے۔

فاطمہ بھٹو نے کہا کہ انتہائی شدید بارشوں میں موسمیاتی تبدیلی کا بہت زیادہ کردار ہے، اور اسی وجہ سے گلیشئر پگھل رہے ہیں۔ تو آپ سیلاب سے متاثر ان لوگوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے در بدر ہونے والے پناہ گزین کہہ سکتے ہیں۔ انہوں نے دنیا کو خبر دار کرتے ہوئے کہا کہ وہ جملہ یاد رکھیں۔ آپ کے ملک کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ سیلاب سے متاثر پاکستان کیلئے دنیا کی عدم توجہ تکلیف دہ ہے، بحران کے اس لمحے میں بہت کم بڑی بین الاقوامی ثقافتی شخصیات ہمارے لیے آواز اٹھا رہی ہیں۔ یہ یا تو نسل پرستی کی ایک گھناؤنی شکل ہے کہ پاکستان جیسی جگہوں پر خوفناک چیزیں ہوتی رہتی ہیں یا پھر ہمدردی کی سراسر ناکامی ہے۔ اور اس طرف دولت مند دنیا کو توجہ دینا بہتر ہوگا۔ کیونکہ پاکستان آج موسمیاتی تبدیلیوں کی جن ہولناکیوں سے نبرد آزما ہے وہ جلد ہی کسی اور کے سامنے بھی آسکتی ہیں۔
 

Imjutt

MPA (400+ posts)
15fatimabhuttoarttionfloods.jpg

شہید ذولفقار علی بھٹو کی پوتی اور کالم نگار فاطمہ بھٹو نے حالیہ سیلاب کی وجہ سے پاکستانی معیشت پر مرتب ہونےوالے اثرات کے حوالے سے امریکی جریدے نیویارک ٹائمز میں ایک خصوصی مضمون لکھا ہے۔

نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں فاطمہ بھٹو کا کہنا ہے کہ اس بدترین سیلاب سے سات میں سے ایک پاکستانی متاثر ہوا ہے، بہت سے لوگ بغیر کسی پناہ کے کھلے آسمان تلے سو رہے ہیں۔ تقریباً 900,000 مویشی ضائع ہو چکے ہیں، اور 20 لاکھ ایکڑ سے زیادہ کھیتی باڑی اور 90 فیصد فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔

فاطمہ بھٹو کے مطابق کچھ صوبوں میں، کپاس ، گنےاور چاول کی فصلیں، کھجور کے درخت تقریباً ختم ہو چکے ہیں، پیاز، مرچ اور ٹماٹر کی نصف فصلوں سمیت تمام اہم غذائیں ختم ہو چکی ہیں۔ 1,350 سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور تقریباً 33 ملین لوگ (غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 50 ملین) بے گھر ہو چکے ہیں۔

2010 میں جب ہم سیلاب کا شکار تھے، پاکستان کے محکمہ موسمیات نے ملک بھر میں معمول کی سطح سے 70 سے 102 فیصد زیادہ بارشیں ریکارڈ کیں،دریا بھپر گئے تھے، ندیوں کےکنارے ٹوٹ گئے تھے، ڈیم بھرجانے کی وجہ سے سیلابی پانی کی جھیلیں بن گئیں۔ USAID کا تخمینہ ہے کہ 1.7 ملین گھروں کو نقصان پہنچا تھااور 20 ملین سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے۔ اس وقت

معاشی نقصان تقریباً 11 بلین ڈالر تھا اور ملک کا پانچواں حصہ متاثر ہوا تھا۔

آج کا سپر فلڈ 2010 کے سیلاب سے بھی بدتر ثابت ہو سکتا ہے،اس سیزن میں ایک موقع پر صوبہ سندھ میں بارش اوسط سے 508 فیصد زیادہ تھی۔

انہوں نے لکھا جنوب میں سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ سندھ ہے۔ سندھ میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے کوئی تیاری نظر نہیں آتی، نہ ہی پانی کے بنیادی ڈھانچے یا سیوریج کاکوئی نظام موجود ہے، یہاں زندہ بچ جانے والوں کو جن کی اکثریت غریب ہے، اب بھوک اور سیلاب کےبڑھتے ہوئے پانی میں چھپی بیماریوں کا سامنا کرناہوگا، یہاں مزید بارش کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔ سندھ کا زیادہ تر حصہ سطح سمندر کے قریب ہے، جس کا مطلب ہے کہ شمال سے آنے والے سیلابی پانی کا بہاؤ بھی یہاں جاری رہے گا۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے پاکستان کو 1.17 بلین ڈالر کے فنڈز جاری کیے ہیں جو اس سے قبل 2019 میں حکومتی بیل آؤٹ کے لیے مختص کیے گئے تھے۔ لیکن آئی ایم ایف کا پیسہ پاکستان جیسے ممالک کے لیے تکلیف دہ شرائط کے ساتھ آتا ہے، اور یہ نہ تو تعمیر نو کے لیے کافی ہوگا اور نہ ہی مستقبل میں ہونے والی آفات کو روکنے کے لیے۔

فاطمہ بھٹو نے کہا کہ انتہائی شدید بارشوں میں موسمیاتی تبدیلی کا بہت زیادہ کردار ہے، اور اسی وجہ سے گلیشئر پگھل رہے ہیں۔ تو آپ سیلاب سے متاثر ان لوگوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے در بدر ہونے والے پناہ گزین کہہ سکتے ہیں۔ انہوں نے دنیا کو خبر دار کرتے ہوئے کہا کہ وہ جملہ یاد رکھیں۔ آپ کے ملک کو بھی اس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ سیلاب سے متاثر پاکستان کیلئے دنیا کی عدم توجہ تکلیف دہ ہے، بحران کے اس لمحے میں بہت کم بڑی بین الاقوامی ثقافتی شخصیات ہمارے لیے آواز اٹھا رہی ہیں۔ یہ یا تو نسل پرستی کی ایک گھناؤنی شکل ہے کہ پاکستان جیسی جگہوں پر خوفناک چیزیں ہوتی رہتی ہیں یا پھر ہمدردی کی سراسر ناکامی ہے۔ اور اس طرف دولت مند دنیا کو توجہ دینا بہتر ہوگا۔ کیونکہ پاکستان آج موسمیاتی تبدیلیوں کی جن ہولناکیوں سے نبرد آزما ہے وہ جلد ہی کسی اور کے سامنے بھی آسکتی ہیں۔
Pti ko is lkhatoon per haath rakhna chahiyey .. yeh bohat kaam aa sakti hey sindh mein aur yeh wesey bhi bohat different hey baqi sab kanjaron sey....
 

ranaji

President (40k+ posts)
کھسرے بلو رانی زرداری والی کا مجرا کراکے آفت ٹال دیں گے
آفت کا مقابلہ آفت سے کریں گے
بلاول کھسرے سے بڑی آفت اور کیا ہوگی