فوج نے عملاً بلوچستان کا انتظام سنبھال رک&amp

redaxe

Politcal Worker (100+ posts)
پاکستان میں حقوقِ انسانی کے کمیشن نے کہا ہے کہ بلوچستان میں فوج نے عملاً صوبے کا انتظام سنھبال رکھا ہے اور سیاسی قوتیں اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹ گئی ہیں۔

110629121500_hrcp-report.jpg


اسلام آباد میں بلوچستان کی صورتحال پر انسانی حقوق کے کمیشن کی رپورٹ کے اجراء کے موقع پر کمیشن کے اراکین نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت سب سے زیادہ نوجوانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔’صوبے کی فیصلہ سازی اب فوج یا اس کے ذیلی ادارے کر رہے ہیں۔ سیاسی مسئلہ ہو یا ترقیاتی یا سیکیورٹی کا ہر بات میں فوجی اسٹیبلشمنٹ مداخلت کر رہی ہے۔‘

حقوقِ انسانی کمیشن نے اپنی رپورٹ کی تفصیلات اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتائیں جس میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر عاصمہ جہانگیر، کمیشن کی سربراہ زہرہ یوسف، رکن حنا جیلانی اور سیکریٹری جنرل آئی اے رحمان بھی شریک تھے۔

اسلام آباد میں ہماری نامہ نگار نخبت ملک نے بتایا کہ ’بلنکرڈ سلائیڈ ان ٹو کیاس‘ نامی اس رپورٹ میں ان تمام پہلوؤں کا ذکر کیا گیا ہے جو ادارے کی تحقیقاتی ٹیم کے بلوچستان کے حالیہ دورے میں سامنے آئے۔

کمیشن کا کہنا تھا کہ کہ سیاسی قوتیں اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹ گئے ہیں ۔’لہذا ہماری نظر میں وہ بھی اس عمل میں قصوروار ہیں۔‘ کمیشن کی سربراہ زہرہ یوسف نے کہا ’ہم سے جو لاپتہ افراد کے رشتہ دار ملنے آئے ان کے فراہم کردہ شواہد کے مطابق ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر مستقل کمیشن آف انکوائری بن جائے جو گواہوں کو مکمل تحفظ اور رسائی فراہم کرے‘۔

حنا جیلانی نے کہا کہ ایف سی کے اہلکار وہاں اس طرح بیٹھے ہیں جیسے فوج کسی علاقے پر قبضہ کر کے بیٹھ جاتی ہے اور پھر وہ علاقے کے مکینوں سے کسی قسم کی بات نہیں کرتیں۔ انھوں نے بتایا کہ صوبے میں خوف و ہراس کی صورتحال اس قدر بڑھ گئی ہے کہ لوگ بات نہیں کر سکتے کیونکہ ہر وہ شخص جس نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے کسی معاملے میں سیکورٹی اداروں کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی ہے اسے مار دیا گیا ہے۔

کمیشن کے سیکرٹری جنرل آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانی ہو تو وہ رات کے اندھیرے کا سہارا لیتے ہیں ۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں صورتحال مکمل طور پر خراب ہو چکی ہے اور اب یہ نہ سمجھا جائے کے یہ امن و امان کا مسئلہ ہے۔ ’یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اگر اس کا سیاسی حل نہ نکلا تو ہم سب ذمہ دار ہوں گے۔‘

عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ جب کسی واقعہ کی ایف آئی آر درج ہوتی ہے تو اس میں ایف سی کے اہلکاروں کا نام لیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا اگر یہ نام بار بار سامنے آ رہے ہیں تو حکومت ان سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کرتی۔

بلوچستان کو اب صرف لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ نہ سمجھا جائے۔ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اگر اس کا سیاسی حل نہ نکلا تو ہم سب ذمہ دار ہوں گے۔ آئی اے رحمان

تاہم اس رپورٹ میں محض ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے معاملات کی تصدیق ایچ آر سی پی کر سکی ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ تصدیق شدہ معلومات کے مطابق محض خضدار ڈسٹرکٹ میں ایک سال سے کم عرصے کے دوران تینتیس ایسی لاشیں ملی ہیں جن کی شناخت نہیں ہو سکی۔ اس کے علاوہ گزشتہ ایک سال میں اب تک ایک سو چالیس مزید لوگ لاپتہ ہو چکے ہیں ۔

تصدیق شدہ معلومات کے مطابق صرف خضدار ڈسٹرکٹ میں ایک سال سے کم عرصے کے دوران تینتیس ایسی لاشیں ملی ہیں جن کی شناخت نہیں ہو سکی۔ اس کے علاوہ گزشتہ ایک سال میں اب تک ایک سو چالیس مزید لوگ لاپتہ ہو چکے ہیں۔

رپورٹ میں جو تجاویز دی گئی ہیں ان کے حوالے سے زہرہ یوسف نے بتایا کہ کچھ توگزشتہ رپورٹس میں سے ہی دوبارہ شامل کی گئی ہیں کیونکہ ان کی شنوائی نہیں ہوئی لیکن ٹارگٹ کلنگ اور اقلیتوں کی ابتر حالت کے بارے میں کچھ نئی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔

کمیشن نے بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ اور لوگوں کے لاپتہ ہونے کے ساتھ ساتھ جس اہم پہلو کی نشاندہی کی ہے اس میں بلوچستان میں مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو درپیش خطرات بھی شامل ہیں۔ آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ یہ تمام اقلیتیں نشانے پر ہیں۔

زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ جب تک نواب اکبر بگٹی زندہ تھے اس وقت تک ان کے لیے کبھی بھی غیر محفوظ حالات پیدا نہیں ہوئے۔
source: http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/06/110629_baloch_hr_report_ra.shtml
 

gazoomartian

Prime Minister (20k+ posts)
Re: فوج نے عملاً بلوچستان کا انتظام سنبھال رک

پاکستان میں حقوقِ انسانی کے کمیشن نے کہا ہے کہ بلوچستان میں فوج نے عملاً صوبے کا انتظام سنھبال رکھا ہے اور سیاسی قوتیں اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹ گئی ہیں۔

110629121500_hrcp-report.jpg


اسلام آباد میں بلوچستان کی صورتحال پر انسانی حقوق کے کمیشن کی رپورٹ کے اجراء کے موقع پر کمیشن کے اراکین نے کہا کہ بلوچستان میں اس وقت سب سے زیادہ نوجوانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔صوبے کی فیصلہ سازی اب فوج یا اس کے ذیلی ادارے کر رہے ہیں۔ سیاسی مسئلہ ہو یا ترقیاتی یا سیکیورٹی کا ہر بات میں فوجی اسٹیبلشمنٹ مداخلت کر رہی ہے۔

حقوقِ انسانی کمیشن نے اپنی رپورٹ کی تفصیلات اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بتائیں جس میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی صدر عاصمہ جہانگیر، کمیشن کی سربراہ زہرہ یوسف، رکن حنا جیلانی اور سیکریٹری جنرل آئی اے رحمان بھی شریک تھے۔

اسلام آباد میں ہماری نامہ نگار نخبت ملک نے بتایا کہ بلنکرڈ سلائیڈ ان ٹو کیاس نامی اس رپورٹ میں ان تمام پہلوؤں کا ذکر کیا گیا ہے جو ادارے کی تحقیقاتی ٹیم کے بلوچستان کے حالیہ دورے میں سامنے آئے۔

کمیشن کا کہنا تھا کہ کہ سیاسی قوتیں اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹ گئے ہیں ۔لہذا ہماری نظر میں وہ بھی اس عمل میں قصوروار ہیں۔ کمیشن کی سربراہ زہرہ یوسف نے کہا ہم سے جو لاپتہ افراد کے رشتہ دار ملنے آئے ان کے فراہم کردہ شواہد کے مطابق ہمارا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر مستقل کمیشن آف انکوائری بن جائے جو گواہوں کو مکمل تحفظ اور رسائی فراہم کرے۔

حنا جیلانی نے کہا کہ ایف سی کے اہلکار وہاں اس طرح بیٹھے ہیں جیسے فوج کسی علاقے پر قبضہ کر کے بیٹھ جاتی ہے اور پھر وہ علاقے کے مکینوں سے کسی قسم کی بات نہیں کرتیں۔ انھوں نے بتایا کہ صوبے میں خوف و ہراس کی صورتحال اس قدر بڑھ گئی ہے کہ لوگ بات نہیں کر سکتے کیونکہ ہر وہ شخص جس نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے کسی معاملے میں سیکورٹی اداروں کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی ہے اسے مار دیا گیا ہے۔

کمیشن کے سیکرٹری جنرل آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانی ہو تو وہ رات کے اندھیرے کا سہارا لیتے ہیں ۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں صورتحال مکمل طور پر خراب ہو چکی ہے اور اب یہ نہ سمجھا جائے کے یہ امن و امان کا مسئلہ ہے۔ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اگر اس کا سیاسی حل نہ نکلا تو ہم سب ذمہ دار ہوں گے۔

عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ جب کسی واقعہ کی ایف آئی آر درج ہوتی ہے تو اس میں ایف سی کے اہلکاروں کا نام لیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا اگر یہ نام بار بار سامنے آ رہے ہیں تو حکومت ان سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کرتی۔



تاہم اس رپورٹ میں محض ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے معاملات کی تصدیق ایچ آر سی پی کر سکی ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ تصدیق شدہ معلومات کے مطابق محض خضدار ڈسٹرکٹ میں ایک سال سے کم عرصے کے دوران تینتیس ایسی لاشیں ملی ہیں جن کی شناخت نہیں ہو سکی۔ اس کے علاوہ گزشتہ ایک سال میں اب تک ایک سو چالیس مزید لوگ لاپتہ ہو چکے ہیں ۔



رپورٹ میں جو تجاویز دی گئی ہیں ان کے حوالے سے زہرہ یوسف نے بتایا کہ کچھ توگزشتہ رپورٹس میں سے ہی دوبارہ شامل کی گئی ہیں کیونکہ ان کی شنوائی نہیں ہوئی لیکن ٹارگٹ کلنگ اور اقلیتوں کی ابتر حالت کے بارے میں کچھ نئی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔

کمیشن نے بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ اور لوگوں کے لاپتہ ہونے کے ساتھ ساتھ جس اہم پہلو کی نشاندہی کی ہے اس میں بلوچستان میں مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو درپیش خطرات بھی شامل ہیں۔ آئی اے رحمان کا کہنا ہے کہ یہ تمام اقلیتیں نشانے پر ہیں۔

زہرہ یوسف کا کہنا تھا کہ ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ جب تک نواب اکبر بگٹی زندہ تھے اس وقت تک ان کے لیے کبھی بھی غیر محفوظ حالات پیدا نہیں ہوئے۔
source: http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/06/110629_baloch_hr_report_ra.shtml

and of course Human Wrong commission got the dictation from their dada and dadi jaan in US, UK, India.

Why dont they ever say anything about genocide of innocent Kashmiris, Palestinians, or about pathetic standard of life of lower caste in India?? but they WONT

Human rights should be banned. they have been formed to serve the white nations and to exert controls over other countries.

If they are really concerned about Blochis, then they should order India to sto meddling there. Also tell US to pack up quick.