قرآن کی حفاظت کے لیےاللہ کا حیرت انگیز انتظام

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
قرآنِ کریم مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں انسانی زندگی کے ہر شعبہ کے بارے میں رہنمائی موجود ہے مگر اسے سمجھنا آسان نہیں جب تک کہ احادیثِ معلِّمِ کائنات سے مدد حاصل نہ کی جائے مثال کے طور پر اسلام کے ایک اہم ترین رکن نمازہی کو لیجئے، قرآن کریم میں کم وبیش سات سو(۷۰۰)مقامات پر اس کا تذکرہ ہے اور کئی مقامات پر ا س کے قائم کرنے کا حکم دیاگیاہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
(اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ) (نماز قائم کرو)۔
چنانچہ اب یہ سمجھنا کہ ''صلاۃ ''ہے کیا، اسے کس طرح قائم کیا جائے یہ صرف عقل پرموقوف نہیں اور اگر اس کا معنی سمجھنے کیلئے لغت کی طرف رجوع کیا جائے تو وہاں صرف لغوی معنی ملیں گے اور اس کے لغوی و اصطلاحی معنی کے مابین بہت فرق ہے۔
الغرض اس کے اصطلاحی معنی ہمیں صرف احادیث یعنی سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے اقوال وافعال واحوال سے ہی سمجھ میں آسکتے ہیں اسی طرح قرآن کریم کے دیگر احکامات کو سمجھنے کیلئے نیز زندگی کے ہرشعبے میں ہمیں ہادی برحق صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی رہنمائی کی ضرورت ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے بندوں کو قرآن کریم سکھانے اور انہیں ستھرا کرنے کیلئے نبی ِآخرالزماں صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو مبعوث فرمایا، چنانچہ ربّ عزوجل فرماتاہے:
یَتْلُوۡا عَلَیۡہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیۡہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ۚ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبْلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِینٍ ﴿164﴾
ترجمہ: ''ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں اورا نہیں پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتے ہیں اور بے شک وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے۔''(آل عمران: 164)
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کو سمجھنے کیلئے سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے اسی لئے تو اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو دنیا میں بھیجا۔اگرقرآن کریم مطلقاًآسان ہوتااور اسے بغیر رہنمائی کے سمجھا جاسکتاتواللہ تعالی اس کے سمجھانے کیلئے خصوصی طور پر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کوبطورِ معلِّمِ کائنات مبعوث کیوں فرماتا؟ نیز قرآن کریم کے آسان ہونے کے باوجود کسی سکھانے والے کو بھیجنا عبث قرار پاتاحالانکہ اللہ تبارک وتعالی کی یہ شان نہیں کہ اس کی طرف کوئی عبث وفضول راہ پائے۔

حُجِّیتِ حدیث
یاد رہے کہ جس طرح قرآن احکامِ شرع میں حجت ہے اسی طرح حدیث بھی۔اور اس سے بہت سے احکامِ شریعت ثابت ہوتے ہیں۔چنانچہ رب عزّوجلّ فرماتاہے
وَمَاۤ اٰتٰکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ۚ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ
ترجمہ: ''اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو''۔
یہاں سے معلوم ہوتاہے کہ رحمتِ عالم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم جو کچھ عطافرمادیں وہ لے لیا جائے چاہے وہ قول کی صورت میں ہویاکسی اور صورت میں ۔''خُذُوْہُ'' اس بات پر دلالت کرتاہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے فرمان پر عمل ضروری ہے۔ایک جگہ فرمایا:
وَمَا یَنۡطِقُ عَنِ الْہَوٰی ؕ﴿3﴾ اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿4﴾
ترجمہ:''اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو انہیں کی جاتی ہے''۔(النجم: 3 - 4)
لہذا معلوم ہواکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا احکامِ شریعت کے بارے میں فرمان وحیِ الہی ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسے رب کا کوئی حکم جاری فرمانا۔ ایک جگہ یوں فرمایا:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ ۚ
ترجمہ:جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ کا حکم مانا۔(النساء 80)
سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی اطاعت کو رب نے اپنی اطاعت فرمایا اور ہر عاقل جانتا ہے کہ اطاعت حکم (قول)کی ہواکرتی ہے تومعلوم ہواکہ سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا فرمان (حدیث) حجتِ شرعی ہے کہ جس کی اطاعت کو رب نے اپنی اطاعت فرمایا۔حاصل یہ کہ حدیث حجت شرعی ہے اور اس کا حجت ہونا قرآن سے ثابت ہے۔
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
تَدْوِینِ حدیث
تدوین حدیث(حدیث کو جمع کرنے)کا سلسلہ عہدِ رسالت صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے لے کر تبع تابعین تک مسلسل جاری رہا۔اگرچہ ابتدائی دور میں سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو احادیث لکھنے سے منع فرمادیاتھا کیونکہ ابتدائی دور آیاتِ قرآنیہ کے نزول کا دور تھا لہذا اس دور میں صرف قرآن کریم کوہی ضبطِ تحریر میں لانا اہم ترین کام تھا، اور سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم احادیث لکھنے سے منع فرماتے تھے تاکہ قرآن اور احادیث میں التباس نہ ہوجائے چنانچہ ابتداء آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
'' لاَ تَکْتُبُوْا عَنِّيْ وَمَنْ کَتَبَ عَنِّيْ غَیْرَ الْقُرْآنِ فَلْیَمْحُہُ ''
میرا کلام نہ لکھو اور جس نے قرآن کے علاوہ مجھ سے سن کر لکھا وہ اسے مٹادے۔(صحیح مسلم شریف ، کتاب الزہد، جلد۲، ص۴۱۴)
لیکن جوں ہی نزول قرآن کا سلسلہ ختم ہوااور التباس کے خطرات باقی نہ رہے توآپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے کتابتِ حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی۔چنانچہ امام ترمذی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
''کَانَ رَجُلٌ مِّنَ الْاَنْصَارِ یَجْلِسُ اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَسْمَعُ مِنْہُ الْحَدِیْثَ فَیُعْجِبُہ، وَلَا یَحْفَظُہُ فَشَکَا ذٰلِکَ اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ''اِسْتَعِنْ بِیَمِیْنِکَ وَأَوْمَأَ بِیَدِہٖ اِلَی الْخَطِّ''
ترجمہ : ''انصار میں سے ایک آدمی حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضرہوتاپھرآپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے ارشادات سنتااور خوش ہوتااور انہیں یاد نہ رکھ سکتا تو اس نے سرکار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگاہ میں اس بات کی شکایت کی توآپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اپنے دائیں ہاتھ سے مددلواور ساتھ ہی اپنے دست مبارک سے لکھنے کا اشارہ فرمایا''۔
ایک اور حدیث نقل کرتے ہوئے امام ترمذی فرماتے ہیں،صحابہ کرام حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے پاس بیٹھ کر احادیث لکھا کرتے تھے،ان میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
''مَا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَکْثَرُ حَدِیْثاً مِنِّیْ اِلاَّ مَا کَانَ مِنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَاِنَّہُ کَانَ یَکْتُبُ وَلَا أَکْتُبُ''
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کے سواء صحابہ کرام میں سے کوئی بھی مجھ سے زیادہ احادیث محفوظ کرنے والا نہیں کیونکہ وہ احادیث لکھاکرتے تھے اورمیں نہیں لکھتاتھا۔ (جامع ترمذی)
لہذا معلوم ہوا کہ تدوین حدیث کا سلسلہ سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے عہد مبارک ہی سے جاری ہوااور سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے بذات خود اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔ صحابہ
کرام علیہم الرضوان کی طرح تدوین حدیث کا یہ سلسلہ تابعین کہ دور میں بھی جاری رہا، ان تابعین میں حضرت سعید بن مسیب، حضرت سعید بن جبیر، حضرت مجاہد بن جبیرمکی، حضرت قتادہ اور حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے جلیل القدر تابعین بھی شامل ہیں۔(رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین)
تابعین کے بعد تیسری صدی ہجری میں ان مشاہیر علما ء نے تدوین حدیث کا کام انجام دیا۔علی بن المدینی، یحیی بن معین، ابوبکرابن ابی شیبہ، ابوزرعہ رازی،ابوحاتم رازی، محمد بن جریر طبری، ابن خزیمہ، اور اسحاق بن راہویہ۔
ان کے بعد امام بخاری ومسلم اور دیگر کئی محدثین نے تدوین حدیث کا کام کیا۔امام بخاری ومسلم، علی بن المدینی ، یحیی بن معین اور اسحاق بن راہویہ کے شاگردوں میں ہیں۔(اللہ تعالی کی ان پر رحمت ہواوران کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔اٰمین)۔
یاد رہے کہ ہر بات جو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی طرف منسوب کر دی جائے حدیث نہیں ہو سکتی بلکہ اس بات کے ثبوت کے لئے کہ یہ حدیث ہے یا نہیں اس کی سند دیکھی جاتی ہے یعنی اس حدیث کے راویوں(بیان کرنے والوں) کے حالات و صفات و دیگر لوازمات دیکھے جاتے ہیں ،مثلاان کا ایک دوسرے سے سماع(حدیث سننا) ثابت ہے بھی یا نہیں اور آیا یہ سلسلہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم تک متصل ہے یا نہیں ۔راویوں کے اسی سلسلے کو سند یا اسناد کہتے ہیں چونکہ اس سے حدیث کی صحت و سقم یعنی اس کے صحیح و غیر صحیح ہونے کا پتا چلتا ہے اسی لئے علماء و محدثین نے اس اہم ترین موضوع کے لئے باقاعدہ ایک مستقل فن ''علم اصول حدیث ''مدون فرمایا جس کے ذریعے انھوں نے احادیثِ صحیحہ و غیرِ صحیحہ کوالگ الگ کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دکھایا۔
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
I think both of you are preaching to the choir here*, no believing person on the forum here doubts the authenticity of the Quran.

*https://www.merriam-webster.com/dictionary/preach to the choir#:~:text=Definition of preach to the choir&text=: to speak for or against,just preaching to the choir.
کیا تم نے کلپ دیکھی ؟۔۔ نہیں۔۔ یقینا اپنی عادت کے مطابق کمنٹ کیا ہے۔ بغیر دیکھے ہی۔

ویسے تمہیں اب قرآن سے بھی مسٗلہ پیدا ہوگیا ہے۔۔؟
بھئی تم عالم فاضل ہو اگرچہ پھر بھی کنفیوژ۔۔ مگر یہ تھریڈ جن کے لیئے ہے انہوں نے دیکھا بھی اور دیکھ بھی رہے ہیں۔

تم جاو کہیں اور اپنی لاعلمی جھاڑو۔۔
 

Citizen X

President (40k+ posts)
ویسے تمہیں اب قرآن سے بھی مسٗلہ پیدا ہوگیا ہے۔۔؟
You really have comprehension issues, or maybe it's a language barrier thing. How did you ever come to this conclusion?

Nahi samaj aai to bolo urdu mein samjah deta houn. Koi sharm ki baat nahi hai is may.

کیا تم نے کلپ دیکھی ؟۔۔ نہیں۔۔ یقینا اپنی عادت کے مطابق کمنٹ کیا ہے۔ بغیر دیکھے ہی۔
Clip kyun dekhoun jub mein is baat se mutafiq houn. Mainay to Quran ki haqeeqat per kabhi ithraaz hi nahi kiya?
Aur for future reference is afghani bhaand ke clips mujhe dekhe ker apna time ziyah kerne ka koi shouk nahi hai,
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
حجیت حدیث کے دلائل
.
پہلی دلیل :
.
«حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ، فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالا أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ» (2/البقرۃ : 239 ۔ 238)
.
نمازوں کی حفاطت کرو بطور خاص درمیانی نماز کی اور اللہ کے لیے ادب سے کھڑے ہوجاؤ لیکن جب امن ہوجائے تو پھر اللہ کو اسی طرح یاد کرو جس طرح اللہ نے تمھیں سکھا یا ہے جسے تم نہیں جانتے تھے “
.
آیت مذکورہ سے معلوم ہوا کہ کوئی درمیانی نماز ہے مگر قرآن سے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ درمیانی نماز کون سی ہے ؟حدیث درج ذیل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عصر کی نماز ہے :
.
عن علی رضی اللہ عنہ قال : لما کان یوم الاحزاب قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ”مَلَأَ اللّٰہُ قُبُوْرَہُمْ وَبُیُوْتَھُمْ نَارًا ، کَمَا حَبَسُوْنَا وَ شَغَلُوْنَا عَنِ الصَّلَاۃِ الْوُسْطٰی حَتّٰی غَابَتِ الشَّمْسُ“
(مسلم ، المساجد ، الد ليل لمن قال : الصلاة الوسطي ھي صلاة العصر ، ح 627)
.
” سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ ان کی قبروں کو اور ان کے گھروں کو آگ سے بھر دے کیونکہ ان کی وجہ سے ہم درمیانی نماز نہ پڑھ سکے ۔ یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا ۔“
.
نیز آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حالت امن میں نماز کو کوئی خاص طریقہ ہے اور وہ طریقہ اللہ تعالیٰ نے سکھایا ہے مگر قرآن پڑھ جائیے نماز کا طریقہ آپ کو کہیں نہیں ملے گا ۔ معلوم یہ ہوا کہ نماز کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے کسی اور زریعے سے سکھایا ہے اور بلا تامل کہا: جاسکتا ہے کہ وہ یہی ذریعہ ہے جسے حدیث کہا: جاتا ہے ۔
.
دوسری دلیل :
.
«يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ ۚ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ»(النساء : 11)
.
” اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو وصیت کرتا ہے کہ لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ ملے گا اگر صرف لڑکیاں ہوں اور دو سے زیادہ ہوں تو ان سب کو کل ترکہ میں سے دو تہائی ملے گا اور اگر صرف ایک لڑکی ہوتو اسے نصف حصہ ملے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
.
آیت بالا سے معلوم ہوا کہ اگر لڑکے نہ ہوں اور دو سے زیادہ لڑکیاں ہوں تو انہیں دو تہائی ملے گا اور ایک تہائی باقی بچ جائے گا اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اسے نصف ملے گا اور نصف باقی رہے گا ۔ آیت سے معلوم نہیں ہوتا کہ یہ باقی بچا ہوا حصہ (یعنی صورت میں ایک تہائی اور دوسری صورت میں نصف) کہاں تقسیم ہوگا؟ اس کا کیا مصرف ہے ؟اس مصرف کا ذکر قرآن میں نہیں ہے لہذا ثابت ہوا کہ قرآن مجید کے علاوہ ایک اور وحی آتی تھی ۔
.
تیسری دلیل : «وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ» ( 42 /الشوریٰ : 51)
.
” اور کسی انسان کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے سوائے (1) وحی کے ذریعے (2) پردے کے پیچھے سے یا(3) وہ اللہ کسی فرشتے کو بھیجے پھر وہ اپنے حکم سے اس چیز کی جو وہ چاہے اس پر وحی کرے بے شک اللہ بے حد بلند اور کمال حکمت والا ہے ۔ “
.
اس آیت میں کسی نبی اور رسول تک احکام الہیٰ کے پہنچنے کے تین طریقے بیان کئے گئے ہیں : 1- براہ راست وحی کے زریعے ۔ 2-پردے کے پیچھے سے براہ راست کلام-3- اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتہ نبی اور رسول پر اترے اور اسے احکام الہٰی پہنچائے ۔
.
اب دیکھنا یہ ہے کہ قرآن مجید ان تین قسموں میں سے کون سی وحی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ :
.
«وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ»(26/الشعراء : 194 – 192)
.
” اور بے شک یہ رب العالمین کا نازل کردہ ہے اسے روح الامین لے کر نبی کے دل اترا ہے تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہوں ۔ “
.
مذکورہ بالا آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن وحی کی تیسری قسم ہے اب وحی کی دو قسمیں باقی رہ جاتی ہیں ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ان کا استعمال ہوا ہے اور وہ حدیث ہی کے نزول کے بارے میں ہوسکتا ہے ۔
.
منکرین حدیث کی طرف سے یہ مغالطہ دیا جاتا ہے کہ قرآن کے ساتھ اگر حدیث کو بھی حجت شرعیہ مان کیا جائے تو اس سے شرک فی الحکم لازم آئے گا یہ لوگ عام طور ہر اپنے مؤقف کی تائید میں یہ آیتیں پیش کرتے ہیں :
.
1- «إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ» (46/الاحقاف : 9)
.
”میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی بھیجی جاتی ہے “
.
2- «اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ» (7/الاعراف : 3)
.
” اس چیز کی اتباع کرو تمھارے رب کی طرف سے تمہارے طرف نازل کی گئی ہے اور اسے چھوڑ کر دیگر سر پرستوں کی پیروی نہ کرو ۔ “
.
3 ۔ «وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا» (18/الکھف : 26)
.
” اور وہ اپنے فیصلے میں کسی کو شریک نہیں کرتا ۔ “
.
اعتراض کی وضاحت یہ ہے کہ نبی وحی کی ہی اتباع کرتا ہے اور تمام انسانوں کو بھی بشمول نبی کے یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ بھی صرف وحی کی اتباع کریں دوسروں کی اتباع نہ کریں نیز اگر یہ مان لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی بات کے علاوہ کسی اور کی بات بھی حجت شرعیہ ہے تو لازم آئے گا کہ حکم یعنی قانون سازی اور دستور سازی میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی اور کو شریک کرلیا گیا اور یہی تو شرک فی الحکم ہے ۔
.
یہ اعتراض اس وقت قابل قبول ہوسکتا تھا جب حدیث کو حجت شرعیہ مانتے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے کسی چیز کو حلال کرتے ہیں اور اپنی طرف سے کسی چیز کو حرام کرتے ہیں ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے :
.
«وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ» (69/الحاقة : 46 – 44)
.
”اور اگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر کوئی بھی بات بنا لیتے تو ضرور ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے پھر ضرور ان کی شہ رگ کاٹ دیتے ۔ “
.
نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : «وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ» ( 53/النجم 4 ۔ 3)
.
” اور نہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں وہ تو صرف وحی ہے جو نازل کی جاتی ہے “
.
نطق (رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات) تو وحی ہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجی جاتی ہے ۔
.
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حجت شرعیہ ماننے والے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ”حکم“ یعنی قانون اللہ تعالیٰ بناتا ہے کیونکہ اس نے فرمایا :
.
«شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ» (42/الشوریٰ؛13)
.
”یعنی دستور حیات اسی نے بنایا ہے “
.
«إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ» (/12یوسف 40)
.
”حکم صرف اللہ کا ہے “
.
نبی اس قانون الہٰی کی تبلیغ پر مامور ہوتا ہے کبھی اس قانون کی تبلیغ اللہ تعالیٰ کی زبان میں کرتا ہے وہ قرآن ہے اور کبھی اپنی زبان میں کرتا ہے وہ حدیث ہے اس سے شرک فی الحکم کہاں لازم آیا ؟ شرک فی الحکم تو اس وقت لازم آتا جب قانون سازی کا حق اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو بھی دے دیا جاتا اور یہ عقیدہ رکھا جاتا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ قانون بناتا ہے اسی طرح نبی بھی قانون بناتا ہے جبکہ نبی جو کچھ کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق کرتا ہے ۔
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
تبیین رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی مثالیں :
.
حقیقت یہ ہے کہ قرآن اصل کلی ہے اور حدیث اس کا بیان ہے اس بیان کے بغیر قرآن کے مضمرات اور اس کی مراد کا انکشاف دشوار ہے قرآن کے الفاظ و معانی دونوں من جانب اللہ ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں میں مدعی نہیں بلکہ ناقل اور امین ہیں ۔ یعنی نزول الفاظ جمع الفاظ حتیٰ کہ اقراء الفاظ اور شرح مطالب اور بیان معانی سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے فرمایا گیا :
.
«إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ» ( 75 القيامة 17-19)
.
”بے شک اس ( قرآن ) کا جمع کرنا(سینوں میں اور سفینوں میں) اور اس کا پڑھنا ہمارے ذمہ ہے پس ہم اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں پھر اس کا واضح کرنا بھی ہمارے ذمہ ہے “ ۔
.
ایک مقام پر یوں فرمایا گیا : «وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ» (16-النحل : 44)
.
” اور ہم نے آپ کی طرف اس ذکر (قرآن)کو نازل کیا تاکہ لوگوں کی طرف جو نازل کیا گیا ہے آپ اسے کھول کر بیان کردیں تاکہ وہ لوگ غور و فکر کریں ۔ “
.
مذکورہ بالا آیت پر غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس میں کتاب نازل کرنے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور اس کی تبیین کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہے اور بیان کے ذریعے متعین شدہ مراد اور مفاہیم ومعانی کے دائرہ میں محدود رہ کر قرآن کے مخاطبین اپنی فکر سے کام لیں یہ قید در حقیقت قرآن مجید کو بازیچہ اطفال بنانے سے باز رکتھی ہے اور کسی کج فکر کو یہ موقع نہیں دیتی کہ قرآن کی آیتوں کو جو معنی چایئے پہنائے ۔
.
مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا : «وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُواْ أَيْدِيَهُمَا» ( 5/المائدة : 38)
.
”چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ۔ “
.
آیت مذکور پڑھنے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ چوری کا مال کتنی مقدار میں ہو تو ہاتھ کاٹا جائے ؟ نیز ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے ؟ اس کا جواب مندرجہ ذیل حدیث میں ہے :
.
عن عائشة رضي الله عنها عن النبى صلى الله عليه وسلم قال : ”تقطع يد السارق فى ربع دينار“ بخاری ، الحدود ، قول اللہ تعالیٰ :«وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ» ۔ ۔ ۔ ۔ ح 6790 ) ” سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”چور کا ہاتھ چوتھائی دینار میں کاٹا جائے گا“
.
مطلق کی یہ تقیید الگ سے کوئی چیز نہیں بلکہ بیان قرآن ہی ہے ۔
.
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
.
«لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ» ( 9/التوبة : 108)
.
” البتہ جس مسجد کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے “
.
یہ کونسی مسجد ہے ؟ حدیث ذیل میں موجود ہے :
.
عن ابي سعيد الخدري ان رجلا من بني عمرو بن عوف ورجلا من بني خدرة امتر يافي المسجد الذى اُسس على التقوٰي فقال العوفي : ھو مسجد قباء وقال الخدري : ھو مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فاتيا رسول الله صلى الله عليه وسلم فسالاه عن ذلك فقال : ”ھُوَ مَسْجِدِيْ ھٰذَا وَفِيْ ذٰلِكَ خَيْرٌ كَثِيْرٌ“
.
(مسند احمد 91/3)
.
” سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ مسجد کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے اس مسجد کے بارے میں بنو خدرہ اور بنی عمر بن عوف کے دو آدمیوں نے اختلاف کیا عوفی نے کہا: اس مسجد سے مراد مسجد نبوی ہے دونوں نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”یہ میری مسجد یعنی مسجد نبوی ہے اور اس میں خیر کثیر ہے ۔“
.
یہاں مجمل کا بیان اصل میں بیان قرآن ہے الگ سے کوئی چیز نہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : «يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ» (4/انساء : 11)
.
”اللہ تعالٰی تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے “
.
اب سوال یہ ہے کہ لڑکا کافر اور باپ مسلم ہو یا اس کے برعکس تو کیا انھیں وراثت ملے گی؟
.
قرآن اس بارے میں خاموش ہے حدیث مندرجہ ذیل میں اس کا جواب ہے :
.
عن اسامة بن زيد رضي الله عنها ان النبى صلى الله عليه وسلم قال ”لَایَرِثُ الْمُسْلِمُ الْکَافِرَ وَلَا الْکَافِرُ الْمُسْلِمَ“ (بخاري الفرائض لا يرث المسلم الكافر ۔ ۔ ۔ ح 6764)
.
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مسلم کافر کا اور کافر مسلم کا وارث نہیں ہوتا ہے ۔“
.
یہاں عام کی تخصیص الگ سے کوئی چیز نہیں بلکہ بیان قرآن ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا : «إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا »(17/بنی اسرائیل : 78)
.
”یقیناً فجر کے اندر قرآن پڑھنا مشہود ہے “ ۔ آیت سے معلوم نہیں ہوتا کہ مشہود سے کیا مراد ہے ؟
.
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ”فَضْلُ صَلَاةِ الْجَمِيعِ عَلَى صَلَاةِ الْوَاحِدِ خَمْسٌ وَعِشْرُونَ دَرَجَةً وَتَجْتَمِعُ مَلَائِكَةُ اللَّيْلِ وَمَلَائِكَةُ النَّهَارِ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ ﴿وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا﴾“
.
(بخاري تفسير القرآن قوله ﴿إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ ۔ ۔ ۔﴾ ح 4717)
.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تنہا نماز پڑھنے کے مقابلے میں جماعت سے نماز پڑھنے کی فضیلت پچیس گنا زیادہ ہے اور صبح کی نماز میں رات کے اور دن کے فرشتے اکٹھے ہو جاتے ہیں ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھو «﴿وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا﴾» (17/بنی اسرائیل : 78)
.
” اور صبح کی نماز بھی (قائم کیجئے) بیشک صبح کی نماز فرشتوں کے حاضر ہونے کا وقت ہے ۔ “
.
یہاں مبہم تعیین کی گئی کہ مشہود سے مراد یہ ہے کہ فجر کی نماز میں دن کے فرشتے اور رات کے فرشتے اکھٹے ہوتے ہیں ۔
.
یہاں مبہم کی یہ تعیین الگ سے کوئی چیز نہیں بلکہ بیان قرآن ہے جب سورۃ البقرۃ کی آیت (187) «وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّـٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ» ” (سحری) کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ تمہارے لیے سفید دھاگا کالے دھاگے سے ممتاز ہوجائے ۔ “ اتری تو عدن بن حاتم رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا :
.
یا رسول اللہ ما الخیط الابیض من الخیط الاسود؟اھما الخیطان قال: ”اِنَّکَ لَعَرِیْضُ الْقَفَا اِنْ اَبْصَرْتَ الْخَیْطَیْنِ“ ثم قال: ”لَا بَلْ ھُوَ سَوَادُ اللَّیْلِ وَ بَیَاضُ النَّہَارِ“ (بخاری ، تفسیر القرآن ﴿وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا ۔ ۔ ۔﴾ ح 4510 )
.
اللہ کے رسول ! اس سے دو دھاگے ( کالے اور سفید ) مراد ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تمہاری گدی بہت لمبی چوڑی ہوگی اگر تم نے ان دونوں دھاگوں کو دیکھ لیا ۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اس سے مراد صبح کا ذب اور صبح صادق ہیں ۔ “
.
پتا چلا کہ اہل زبان ہوتے ہوئے بھی صحابہ کو مراد ربانی سمجھنے میں غلطی ہوجاتی تھی اور انہیں اس کے صحیح مفہوم کو جاننے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا تو ہم رو بد رجہ اولٰی مراد دبانی کو سمجھنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے محتاج ہیں
 

Citizen X

President (40k+ posts)
اسے سمجھنا آسان نہیں جب تک کہ احادیثِ معلِّمِ کائنات سے مدد حاصل نہ کی جائے
So you go against the Quran and in turn against Allah when it says it's a clear book in clear Arabic, easy to understand and contains whatever you need to know in it.

Rest of long drawn out post is just trying to support this point, and badly I must say then its really not worth discussing, specially since your premise here is wrong to begin with.
 

Citizen X

President (40k+ posts)
تَدْوِینِ حدیث
تدوین حدیث(حدیث کو جمع کرنے)کا سلسلہ عہدِ رسالت صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے لے کر تبع تابعین تک مسلسل جاری رہا۔اگرچہ ابتدائی دور میں سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو احادیث لکھنے سے منع فرمادیاتھا کیونکہ ابتدائی دور آیاتِ قرآنیہ کے نزول کا دور تھا لہذا اس دور میں صرف قرآن کریم کوہی ضبطِ تحریر میں لانا اہم ترین کام تھا، اور سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم احادیث لکھنے سے منع فرماتے تھے تاکہ قرآن اور احادیث میں التباس نہ ہوجائے چنانچہ ابتداء آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
'' لاَ تَکْتُبُوْا عَنِّيْ وَمَنْ کَتَبَ عَنِّيْ غَیْرَ الْقُرْآنِ فَلْیَمْحُہُ ''
میرا کلام نہ لکھو اور جس نے قرآن کے علاوہ مجھ سے سن کر لکھا وہ اسے مٹادے۔(صحیح مسلم شریف ، کتاب الزہد، جلد۲، ص۴۱۴)
لیکن جوں ہی نزول قرآن کا سلسلہ ختم ہوااور التباس کے خطرات باقی نہ رہے توآپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے کتابتِ حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی۔چنانچہ امام ترمذی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
''کَانَ رَجُلٌ مِّنَ الْاَنْصَارِ یَجْلِسُ اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَسْمَعُ مِنْہُ الْحَدِیْثَ فَیُعْجِبُہ، وَلَا یَحْفَظُہُ فَشَکَا ذٰلِکَ اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ''اِسْتَعِنْ بِیَمِیْنِکَ وَأَوْمَأَ بِیَدِہٖ اِلَی الْخَطِّ''
ترجمہ : ''انصار میں سے ایک آدمی حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضرہوتاپھرآپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے ارشادات سنتااور خوش ہوتااور انہیں یاد نہ رکھ سکتا تو اس نے سرکار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگاہ میں اس بات کی شکایت کی توآپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اپنے دائیں ہاتھ سے مددلواور ساتھ ہی اپنے دست مبارک سے لکھنے کا اشارہ فرمایا''۔
ایک اور حدیث نقل کرتے ہوئے امام ترمذی فرماتے ہیں،صحابہ کرام حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے پاس بیٹھ کر احادیث لکھا کرتے تھے،ان میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
''مَا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَکْثَرُ حَدِیْثاً مِنِّیْ اِلاَّ مَا کَانَ مِنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَاِنَّہُ کَانَ یَکْتُبُ وَلَا أَکْتُبُ''
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کے سواء صحابہ کرام میں سے کوئی بھی مجھ سے زیادہ احادیث محفوظ کرنے والا نہیں کیونکہ وہ احادیث لکھاکرتے تھے اورمیں نہیں لکھتاتھا۔ (جامع ترمذی)
لہذا معلوم ہوا کہ تدوین حدیث کا سلسلہ سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے عہد مبارک ہی سے جاری ہوااور سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے بذات خود اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔ صحابہ
کرام علیہم الرضوان کی طرح تدوین حدیث کا یہ سلسلہ تابعین کہ دور میں بھی جاری رہا، ان تابعین میں حضرت سعید بن مسیب، حضرت سعید بن جبیر، حضرت مجاہد بن جبیرمکی، حضرت قتادہ اور حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے جلیل القدر تابعین بھی شامل ہیں۔(رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین)
تابعین کے بعد تیسری صدی ہجری میں ان مشاہیر علما ء نے تدوین حدیث کا کام انجام دیا۔علی بن المدینی، یحیی بن معین، ابوبکرابن ابی شیبہ، ابوزرعہ رازی،ابوحاتم رازی، محمد بن جریر طبری، ابن خزیمہ، اور اسحاق بن راہویہ۔
ان کے بعد امام بخاری ومسلم اور دیگر کئی محدثین نے تدوین حدیث کا کام کیا۔امام بخاری ومسلم، علی بن المدینی ، یحیی بن معین اور اسحاق بن راہویہ کے شاگردوں میں ہیں۔(اللہ تعالی کی ان پر رحمت ہواوران کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔اٰمین)۔
یاد رہے کہ ہر بات جو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی طرف منسوب کر دی جائے حدیث نہیں ہو سکتی بلکہ اس بات کے ثبوت کے لئے کہ یہ حدیث ہے یا نہیں اس کی سند دیکھی جاتی ہے یعنی اس حدیث کے راویوں(بیان کرنے والوں) کے حالات و صفات و دیگر لوازمات دیکھے جاتے ہیں ،مثلاان کا ایک دوسرے سے سماع(حدیث سننا) ثابت ہے بھی یا نہیں اور آیا یہ سلسلہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم تک متصل ہے یا نہیں ۔راویوں کے اسی سلسلے کو سند یا اسناد کہتے ہیں چونکہ اس سے حدیث کی صحت و سقم یعنی اس کے صحیح و غیر صحیح ہونے کا پتا چلتا ہے اسی لئے علماء و محدثین نے اس اہم ترین موضوع کے لئے باقاعدہ ایک مستقل فن ''علم اصول حدیث ''مدون فرمایا جس کے ذریعے انھوں نے احادیثِ صحیحہ و غیرِ صحیحہ کوالگ الگ کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دکھایا۔
Trying to prove hadith from hadith is circular logic which holds no water.
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
this is the same scholar that you usually post
 

Citizen X

President (40k+ posts)
this is the same scholar that you usually post
There is nothing I disagree with in this post and neither anything I have said disagrees with is said here. Like he says at 1:08 this is work of man and as work of man there cannot be any deen in it ( he says that too ) and also they are always open to critique ( he says that too and even about any of his own work, in fact he encourages it )
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
اوئے کھوتے بھانڈ۔۔۔
ایک طرف تم اس سے متفق ہو تو دوسری طرف اسے بھانڈ کہتے ہو۔
اب سمجھا تم منافق ہی نہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بنجر بھی ہو۔۔
معاف کرو ہمیں۔۔
اور اپنی دنیا میں رہو۔۔ جو مرضی کرو۔۔
جاہل
تم اگنور ہی ٹھیک ہو۔۔​
You really have comprehension issues, or maybe it's a language barrier thing. How did you ever come to this conclusion?

Nahi samaj aai to bolo urdu mein samjah deta houn. Koi sharm ki baat nahi hai is may.


Clip kyun dekhoun jub mein is baat se mutafiq houn. Mainay to Quran ki haqeeqat per kabhi ithraaz hi nahi kiya?
Aur for future reference is afghani bhaand ke clips mujhe dekhe ker apna time ziyah kerne ka koi shouk nahi hai,​
 

Citizen X

President (40k+ posts)
اوئے کھوتے بھانڈ۔۔۔
ایک طرف تم اس سے متفق ہو تو دوسری طرف اسے بھانڈ کہتے ہو۔
اب سمجھا تم منافق ہی نہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بنجر بھی ہو۔۔
معاف کرو ہمیں۔۔
اور اپنی دنیا میں رہو۔۔ جو مرضی کرو۔۔
جاہل
تم اگنور ہی ٹھیک ہو۔۔​
You can't let more than 2 posts go before abandoning you fake façade of civility returning to your original khoti jahalat, You are an absolute moron who has nothing to offer other than clips of that moron afghani bhaand, you fail to hold a reasonable discussion neither have the intellect to come up with your own opinion on any matter.

I usually reserve this treatment for patwaris but you have time and time again shown to be nothing more than a religious patwari and I'm trough wasting any more time on you. So just like regular patwaris off to the ignore bin you go.

Seeya, don't wanna be ya.

Enjoy you wahabi afghani bhaand
 

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
well we can only try hidayat is in the Hands of Allah Subhanahu wa Ta'la

azeezam karachiwala sb, what you are sharing here is not in its proper context therefore it makes no sense. Is it only the hadis that helps understand the quran or are there many other factors as well, as I have clearly explained them HERE?

When a human being is born he does not know a thing however he is born capable of figuring out things but it takes him time to become experienced in decoding information about things by interacting with each and everything within his reach. No one starts his life with quran and hadis in their hands.

So the idea that the quran cannot be understood without hadis is not true. Hadis is only one of the many factors. People write books upon books but they have zero proper understanding of things in their proper context due to lack of understanding of the purpose of something. It is because purpose gives anything and everything its proper context. Understanding of things needs a lot of thinking and a lot going back and forth because we humans learn by way of trial and error method ie we try something one way and if it does not work then we try it another way and we keep doing that till we get something right as it ought to be.

I remember explaining for you this point on this forum years back. Discussion was regarding what is basis for deen of islam aqal or wahee etc. So whenever you want to put forth some point about deen of islam always go back to basics or foundation then you can make your point much more strongly otherwise you can keep going back and forth forever withou an end in sight.

The other point I want to help you understand is your saying that hidayat comes from God. You are right in one sense and that is, revelation for guidance of humanity comes from God. But it is people who need to get the hidayat by working out or figuring out the God given information. God does not give people understanding of things that people need to get by themselves with help and support of each other. If anyone says God gives hidayat in this sense then that means one is accusing God of giving hidayat to some and not to the others.

So one should never attribute anything wrong to God or in a wrong way. This is a very serious things to do because it is offensive and a crime against God as well as very damaging for humanity. It is because ignorant people will think it is God's own fault that he has not given them hidayat so they will move away from God and his guidance.

This is my fight against all mullaans and their unthinking followers. They think they are doing God's work but in actual fact they end up doing the opposite. Hopefully, you will try and understand the points I am making here.

regards and all the best.
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
well we can only try hidayat is in the Hands of Allah Subhanahu wa Ta'la
azeezam karachiwala sb, what you are sharing here is not in its proper context therefore it makes no sense. Is it only the hadis that helps understand the quran or are there many other factors as well, as I have clearly explained them HERE?

When a human being is born he does not know a thing however he is born capable of figuring out things but it takes him time to become experienced in decoding information about things by interacting with each and everything within his reach. No one starts his life with quran and hadis in their hands.

So the idea that the quran cannot be understood without hadis is not true. Hadis is only one of the many factors. People write books upon books but they have zero proper understanding of things in their proper context due to lack of understanding of the purpose of something. It is because purpose gives anything and everything its proper context. Understanding of things needs a lot of thinking and a lot going back and forth because we humans learn by way of trial and error method ie we try something one way and if it does not work then we try it another way and we keep doing that till we get something right as it ought to be.

I remember explaining for you this point on this forum years back. Discussion was regarding what is basis for deen of islam aqal or wahee etc. So whenever you want to put forth some point about deen of islam always go back to basics or foundation then you can make your point much more strongly otherwise you can keep going back and forth forever withou an end in sight.

The other point I want to help you understand is your saying that hidayat comes from God. You are right in one sense and that is, revelation for guidance of humanity comes from God. But it is people who need to get the hidayat by working out or figuring out the God given information. God does not give people understanding of things that people need to get by themselves with help and support of each other. If anyone says God gives hidayat in this sense then that means one is accusing God of giving hidayat to some and not to the others.

So one should never attribute anything wrong to God or in a wrong way. This is a very serious things to do because it is offensive and a crime against God as well as very damaging for humanity. It is because ignorant people will think it is God's own fault that he has not given them hidayat so they will move away from God and his guidance.

This is my fight against all mullaans and their unthinking followers. They think they are doing God's work but in actual fact they end up doing the opposite. Hopefully, you will try and understand the points I am making here.

regards and all the best.

راہ کو پانا، راہ کی قیمت پر۔؟۔