آئی ایم ایف کی جانب سے حالیہ ورچوئل مذاکرات میں یہ مطالبہ بھی سامنے آیا ہے کہ پاکستان انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور ریگولیٹری ڈیوٹی کے حوالے سے مزید ٹیکس اقدامات کرے تاکہ سالانہ محصولات کا ہدف 58 کھرب روپے سے بڑھ کر 63 کھرب روپے ہوجائے۔
آئی ایم ایف نے تجویز دی ہے کہ بجلی ٹیرف کی بنیادی قیمت میں 1.40 روپے فی یونٹ اضافہ کیا جائے تاکہ بڑے گردشی قرضے کو قابو کیا جاسکے۔ پاکستانی حکام بجلی ٹیرف میں سہ ماہی تبدیلیاں کرچکے ہیں لیکن اگر بنیادی ٹیرف میں اضافہ نہیں ہوا تو خوف ہے کہ گردشی قرضہ مینجمنٹ پلان کو حتمی شکل نہیں دی جاسکے گی۔
آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ چونکہ رواں مالی سال کے دوران 600 ارب روپے پیٹرولیم لیوی جمع نہیں کی جاسکی ہے۔ اس لیے حکومت کو ایف بی آر کے حوالے سے اضافی ریونیو اقدامات کرنا ہوں گے۔ مذاکرات جاری ہیں اور طرفین اسٹاف سطح مذاکرات پر اتفاق رائے کرلیں گے جس میں ایف بی آر کا ہدف 58 کھرب روپے سے بڑھ کر 63 کھرب روپے کیا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب آئی ایم ایف نے ذاتی انکم ٹیکس کی شرح میں اضافے کی بھی تجویز دی ہے، اس حوالے سے مختلف تجاویز زیر غور ہیں جس کے ذریعے اضافی 100 ارب روپے سے 150 ارب روپے ٹیکس حاصل کیا جاسکے گا۔ کچھ مزید اشیا پر جنرل سیلز ٹیکس سے استثنیٰ کی چھوٹ کو واپس لیے جانے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
نیشنل ٹیرف کمیشن نے اضافی کسٹمز ڈیوٹی واپس لینے کی تجویز دی تھی، جس میں تاخیر ہوسکتی ہے اور حتمی فیصلہ آئندہ بجٹ میں متوقع ہے۔آئی ایم ایف نیپرا قانون میں بھی ترمیم کا خواہاں ہے، جہاں خودکار توازن سہ ماہی بنیاد پر کیا جائے گا اور جس میں حکومت کی مداخلت نہیں ہوگی۔ آئی ایم ایف سمجھتا ہے کہ ایف بی آر کی موجودہ ریونیو جمع کرنے کی رفتار غیرمستحکم ہے اس لیے اضافی اقدامات کی ضرورت ہے۔
اگر سب کچھ آئی ایم ایف کی مرضی سے چلتا رہا تو آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ نومبر 2021 کے اختتام تک مزید ایک ارب ڈالرز کی منظوری دے دیگا۔ دوسری جانب عالمی بینک نےکہاہےکہ رواں مالی سال پاکستان کی ممکنہ شرح ترقی 3.4فیصد، مہنگائی9، قرضےGDPکا 90.6 فیصد رہنے کا امکان ہے، اشیا خوردو نوش کی قیمتیں بڑھنے سے غریب طبقے کے مزید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔