مذہب، دین، نظام، سیاست، طاقت

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
یہ دیکھیں جی، نئی بات سامنے آرہی ہے

محمد (ﷺ) 933 سکندری سال میں یثرب میں آتے ہیں

جب بھی وہ فلسطین آتے تھے، تو یہودیوں اور عیسائیوں میں اٹھتے بیٹھتے تھے، اور ان سے صحیفوں سے متعلق مسائل کے بارے میں مشورہ کرتے تھے

اب انہوں نے عربیوں کو ایک خدا کو ماننے کا کہنا شروع کر دیا ہے

آہستہ آہستہ انہوں نے سب عربیوں کو قائل کر لیا

ان کے پیروکاروں نے عرب سے باہر محاز کھول لیے، جبکہ وہ خود یثرب میں ہی مقیم رہے

(وہ اپنے پیروکاروں کو)
جنت کے بارے میں فلاں فلاں
(باتیں بیان کرتے ہیں)

سکندری 933 سال تقریباً 621ء بنتا ہے، میں ایک سورس کا ترجمہ کر رہا ہوں، ایک آدھ لفظ آگے پیچھے بھی ہو سکتا ہے، بریکٹ کے اندر اضافہ میرا اپنا ہے، فلاں فلاں میں نے جنت کی تفصیل کیلئے استعمال کیا ہے کیونکہ اصل الفاظ میں یہاں پر بیان نہیں کر سکتا

او بھائی میں تو سمجھتا تھا کہ تجارتی سفر شام کی طرف ہوتا تھا،
یہ فلسطین، یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ گھلنا ملنا، صحیفوں کی تفصیل معلوم کرنا،
یہ کیا ہو رہا ہے؟​
 
Last edited:

abuomarsheikh

Councller (250+ posts)
بردار آپکی تھریڈ فالو کر رہا ہوں کچھ معاملات کی توضیح عرض ہے

جب بھی وہ فلسطین آتے تھے، تو یہودیوں اور عیسائیوں میں اٹھتے بیٹھتے تھے، اور ان سے صحیفوں کے متعلق مسائل کے بارے میں مشورہ کرتے تھے

اب انہوں نے عربیوں کو ایک خدا کو ماننے کا کہنا شروع کر دیا ہے

آہستہ آہستہ انہوں نے سب عربیوں کو قائل کر لیا


بھائی دروغ نہ باندائیں پروفیٹ صل الله وسلم کب یہودیوں اور عیسائیوںسے صحیفوں کے متعلق مسائل کے بارے میں مشورہ کرتے تھے قطی طور پر غلط ہے اور اپ نے یہ کہاں سے کونفرم کیا ؟
دوسری بات یہ ہے کے پروفیٹ صل الله وسلم نے عربوں کو ایسے قائل نہیں کیا اس کے پہچے ایک طویل جدوجہد کی ہے قریش کے ظلم سہ اور وہ قربانیاں دی جو اپ تصور بی نہیں کر سکتے پلیز اپ کسیسی سہی منھج سے مطالعہ کریں اور پھر بحث کریں

قرآن شریف کا مطالع کریں قرآن تو زندہ معجزہ ہے
 

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
بردار آپکی تھریڈ فالو کر رہا ہوں کچھ معاملات کی توضیح عرض ہے

جب بھی وہ فلسطین آتے تھے، تو یہودیوں اور عیسائیوں میں اٹھتے بیٹھتے تھے، اور ان سے صحیفوں کے متعلق مسائل کے بارے میں مشورہ کرتے تھے

اب انہوں نے عربیوں کو ایک خدا کو ماننے کا کہنا شروع کر دیا ہے

آہستہ آہستہ انہوں نے سب عربیوں کو قائل کر لیا


بھائی دروغ نہ باندائیں پروفیٹ صل الله وسلم کب یہودیوں اور عیسائیوںسے صحیفوں کے متعلق مسائل کے بارے میں مشورہ کرتے تھے قطی طور پر غلط ہے اور اپ نے یہ کہاں سے کونفرم کیا ؟
دوسری بات یہ ہے کے پروفیٹ صل الله وسلم نے عربوں کو ایسے قائل نہیں کیا اس کے پہچے ایک طویل جدوجہد کی ہے قریش کے ظلم سہ اور وہ قربانیاں دی جو اپ تصور بی نہیں کر سکتے پلیز اپ کسیسی سہی منھج سے مطالعہ کریں اور پھر بحث کریں

قرآن شریف کا مطالع کریں قرآن تو زندہ معجزہ ہے
جی بہت شکریہ

میں نے اس اقتباس کے بارے میں مزید سوچ بچار کی ہے اور میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ عین ممکن ہے کہ فلسطین کا سفر ایک گھڑی ہوئی کہانی ہے، میں مزید اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہودیوں اور عیسائیوں میں اٹھنا بیٹھنا اور ان کے صحیفوں اور عقائد سے قریش مکہ یا نبی ﷺ کا آگاہ ہونا ایک نئی بات نہیں، بلکہ روایات کے مطابق یہ ایک واضح حقیقت نظر آتی ہے

نبی ﷺ کی پہلی زوجہ کے کزن ورقہ بن نوفل عیسائی بتاۓ جاتے ہیں، مکہ میں وہ اکیلے عیسائی تو ہوں گے نہیں، یثرب میں یہودیوں کے پورے کے پورے قبیلے آباد تھے، لہذا ایسا لگتا ہے صحیفوں کے مسائل سے متعلق دریافت کرنے کیلئے فلسطین جانے کی کوئی تک نہیں بنتی، سب کچھ مکہ اور یثرب میں ہی دستیاب تھا

مطالعہ اور تحقیق جاری ہے​
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
سیرت نبی ﷺ کی تالیف و تصنیف

البتہ یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ نبی ﷺ کی لگ بھگ 62 سالہ زندگی کے آخری 22 سال کی نسبت آپ ﷺ کی زندگی کے مرکزی حصے میں اوائل کے سیرت کے راویوں کی دلچسپی میں آسمان اور زمین کا فرق ہے

آپ ﷺ کا شام کا سفر اور بحیرا سے ملاقات نو یا بارہ سال کی عمر میں بتایا جاتا ہے، جبکہ پہلی وحی آپ ﷺ پر چالیس سال کی عمر میں نازل ہوئی، ان تیس سالوں کی سیرت کے واقعات کو آپ ایک ہاتھ پر گن سکتے ہیں، جس میں آپ ﷺ کا پچیس سال کی عمر میں شام کا ایک اور تجارتی سفر اور پھر شادی کرنا، پینتیس سال کی عمر میں خانہ کعبہ کی تعمیر میں ثالثی کرنا، وغیرہ وغیرہ شامل ہے

کیا آپ ﷺ کی 12 سے 40 سال کی زندگی آپ ﷺ کی سیرت نہیں تھی؟ ابن اسحاق کی تصنیف سيرة رسول الله ﷺ کا ترجمہ 690 صفحوں پر مشتمل ہے، لیکن بحیرا کی ملاقات اور پہلی وحی کے بیچ کے واقعات صرف 10 کے قریب صفحوں پر مشتمل میں

یعنی آدھی زندگی پر 600 صفحے اور آدھی زندگی پر 10 صفحے

کیا میں پہلا شخص ہوں جس نے یہ 600 اور 10 صفحوں کا آسمان اور زمین کا فرق نوٹس کیا ہے؟ کیا آپ ﷺ کے چاہنے والوں کو اس سے کوئی تشویش نہیں؟ سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے؟ محض حسن اتفاق ہے؟


ترمیم: بحیرا کی ملاقات اور پہلی وحی کے بیچ کے واقعات کے کل 22 صفحات ہیں لیکن ان صفحوں میں سے 16 کے قریب صفحوں میں حمس، سلمان کا اسلام لانا، یہودی اور عیسائی کاہنوں کی پیش گوئیاں، یہودیوں کی تنبیہہ، چار لوگوں کی توحید کی تلاش، وغیرہ وغیرہ درج ہے، ان کو نکال دیں تو باقی 6 سے بھی کم صفحے رہ جاتے ہیں
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
ابن اسحاق سیرت کے پہلے مصنف بتاۓ جاتے ہیں، اور شاید اسلامی دور کی پہلی کتاب بھی یہی تھی، ان کی پیدائش 704ء میں ہوئی، اور کم و بیش 50 سال کی عمر میں خلافت عباسیہ کے اوائل میں یہ کام شروع کیا،

یہاں بھی وہی مسئلہ ہے کہ دور نبوت ﷺ کے بعد پہلے سو سال تک کوئی مکمل تصنیف یا اشاعت کا سراغ نہیں ملتا، اور نہ ہی اس دور کا مکمل قرآن کا کوئی نسخہ کسی کے پاس ہے، سواۓ برمنگھم کے دو صفحات، اور صنعا کے اسی صفحات کے جو آدھا قرآن بتایا جاتا ہے

ابن اسحاق کی سيرة رسول الله ﷺ کے بارے میں دو مزید مسائل ہیں، ایک یہ کہ یہ ان کی اپنی تصنیف نہیں بلکہ ان کے شاگردوں کے قلمبند کیۓ گۓ مبینہ ابن اسحاق کی طرف سے دیے گۓ خطبات و فرمودات ہیں، اور دوسرا، اس کتاب کی اصل کہیں ہے ہی نہیں، ضائع ہو چکی ہے، ہمارے پاس جو ابن اسحاق کی کتاب کے حصّے پہنچتے ہیں وہ ابن ہشام یا طبری کے ذریعے پہنچتے ہیں اور ان دونوں کا تعلق نویں صدی عیسوی ہے
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)

میں نے ابھی ورقہ بن نوفل والی لمبی حدیث پڑھی ہے اور میرے خیال میں یہ حدیث بڑے بڑے رازوں سے پردہ اٹھاتی ہوئی نظر آتی ہے

ورقہ بن نوفل خدیجہؓ کے کزن تھے، خدیجہ نبی ﷺ کی زوجہ تھیں، تینوں بنی قریش میں سے تھے لیکن، ورقہ اور خدیجہؓ نبی ﷺ کے دور کے کزن نہیں بلکہ نبی ﷺ کے والد عبدالله کے دور کے کزن تھے، یعنی، دونوں نبی ﷺ سے ایک جنریشن بڑے تھے، اسی لیے خدیجہؓ نبی ﷺ سے پندرہ سال بڑی تھیں، ورقہ خدیجہؓ سے بھی زیادہ عمر رسیدہ تھے یہاں تک کہ "پہلی وحی" کے وقت ورقہ تقریباً نابینا ہو چکے تھے اور اس کے کچھ دیر بعد ہی انکی وفات ہو جاتی ہے،

حدیث میں اماں عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ورقہ نے عیسائیت قبول کر لی تھی، عربی کے مصنف تھے اور جتنا ہو سکتا تھا اپنا وقت انجیل کا عربی ترجمہ کرنے میں گزار دیتے تھے

تو جناب کہانی یہ بنتی ہے کہ نبی ﷺ پچیس سال کی عمر میں چالیس سالہ خدیجہؓ سے شادی کرتے ہیں، اور اس دوران، یا اس سے کچھ پہلے، یا اس سے کچھ بعد نبی ﷺ کے علم میں یہ بات آتی ہے کہ آپ کی نئی زوجہ کے عمر رسیدہ کزن کے پاس عربی زبان میں لکھا ہوا ایک خزانہ ہے، اور اس خزانے میں شب و روز اضافہ ہی ہو رہا ہے، کمی نہیں ہو رہی

پچیس سال سے چالیس سال کی عمر تک کچھ ہوتا ہے، جس کا کوئی تاریخ میں ذکر نہیں، یہاں پر آپ اپنی عقل کا تھوڑا سا استعمال کر لیں

پھر چالیس سال کی عمر میں ایک دن نبی ﷺ کسی غار سے واپس آتے ہیں اور اپنی کچھ کیفیت پچپن سالہ خدیجہؓ کو بیان کرتے ہیں، اب دونوں ورقہ، جو کہ کافی عمر رسیدہ اور تقریباً نابینا ہیں، کے پاس جاتے ہیں اور ورقہ کو سب کچھ بتایا جاتا ہے، اور ورقہ وہ سب کچھ پہچان جاتے ہیں، اور اپنے انجیل کے علم کے مطابق پیش گوئی کرتے ہیں، کہ مشکل وقت آۓ گا

خدیجہؓ، ابوبکرؓ، علیؓ، اور کچھ اور قریبی، اسی وقت نبی ﷺ پر "ایمان" لے آتے ہیں

پھر کچھ سال نبی ﷺ کی کیفیت کے بارے میں خاموشی ہو جاتی ہے، اسی دوران ورقہ بھائی چل بستے ہیں

اب نبی ﷺ کی کیفیت واپس آجاتی ہے اور آپ ﷺ مکہ کے لوگوں کو ایک خاص قسم کی عربی سناتے ہیں، اور مکہ کے لوگ عش عش کر اٹھتے ہیں، انہوں نے ایسی عربی اس سے پہلے نہیں سنی، لہٰذا ثابت ہوا کہ خدا کا کلام ہے

اور پھر باقی سب آپ کے سامنے ہے، جس میں یہ بھی شامل ہے کہ سینکڑوں سال گواہیاں دی جاتی ہیں، کہ نبی ﷺ پڑھے ہوۓ نہیں تھے، لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، اور اس دین خدا میں تہمت کو بہت بڑا گناہ قرار دے دیا جاتا ہے

 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
پہلی وحی کا متن بھی یہاں بڑی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس کا بابے ورقے پر "فرسٹ امپریشن" سے براہ راست تعلق ہے

بابے ورقے "پڑھائی لکھائی والے" تک پہلی بات جو پہنچتی ہے وہ یہ ہے کہ غار میں کوئی بھتیجے ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ "پڑھ"، اور بھتیجے ﷺ نے جواب دیا کہ "میں پڑھا ہوا نہیں ہوں"، اور یہ بار بار دہرایا جاتا ہے، مطلب، کچھ اور بتاۓ جانے سے پہلے بابے ورقے کی مبینہ تسلی کرائی جاتی ہے کہ جو آگے آنے لگا ہے وہ کہیں سے پڑھا نہیں گیا، کسی غلط فہمی میں رہنے کی ضرورت نہیں کہ بابے ورقے کے لکھے ہوۓ عربی خزانے سے کوئی بات نقل کی گئی ہے

اب اس کے بعد جو کچھ بتایا جاتا ہے، بابا ورقہ تڑپ اٹھتا ہے کہ بھائی یہ تو بھتیجے ﷺ کے پاس جبرائیل فرشتہ آیا ہے، فلاں فلاں انجیل، فلاں فلاں پیش گوئی، فلاں فلاں، آگے بابا ورقہ خود ہی سب سنبھال لیتا ہے

اور پھر کچھ دنوں بعد بابے ورقے کی وفات ہو جاتی ہے

اور یہ وفات بھتیجے ﷺ کو کچھ عرصے کیلئے رنج کی شدت سے بے حال کر دیتی ہے
 
Last edited:

abuomarsheikh

Councller (250+ posts)
تو جناب کہانی یہ بنتی ہے کہ نبی ﷺ پچیس سال کی عمر میں چالیس سالہ خدیجہؓ سے شادی کرتے ہیں، اور اس دوران، یا اس سے کچھ پہلے، یا اس سے کچھ بعد نبی ﷺ کے علم میں یہ بات آتی ہے کہ آپ کی نئی زوجہ کے عمر رسیدہ کزن کے پاس عربی زبان میں لکھا ہوا ایک خزانہ ہے، اور اس خزانے میں شب و روز اضافہ ہی ہو رہا ہے، کمی نہیں ہو رہی
خوب محنت کی ہے بھائی آپ نے
یہ نتیجہ کہاں سے نکالا بلاوجہ لوگوں کو گمراہ کرنے سے گریز کریں
ورقہ بن نوفل والی والی حدیث بھی بیان کریںجس نے آپکو راتوں رات ارسطو بنا دیا
 

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
ورقہ بن نوفل والی والی حدیث بھی بیان کریںجس نے آپکو راتوں رات ارسطو بنا دیا
بھائی حدیث کا لنک اسی کمنٹ کے نیچے دو دن سے پڑا ہوا ہے، اسے کلک کر لیں
 

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
آغاز اسلام کے آس پاس، خاص طور پر اس سے پہلے، دنیا کی معاشی حالت کیسی تھی؟

معاشی حالت کا تخمینہ لگانے کا ایک طریقہ جی ڈی پی ہے، جس سے آپ بتا سکتے ہیں کہ معاشی سرگرمیوں کا لیول کیا ہے، لیکن اس زمانے کا روم، ایران، وغیرہ کا جی ڈی پی تو شاید ہمیں کہیں سے بھی نہیں ملے گا، البتہ ایک متبادل کسی دھات کی پیداوار ہے، اور سیسے کی عالمی پیداوار کا تخمینہ کچھ محققین نے گرینلینڈ کی برف کے معائنے سے لگایا ہے

اس گراف میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آغاز اسلام سے کوئی 600 سال پہلے، یعنی پہلی صدی عیسوی کے آس پاس روم اپنے عروج پر تھا، اور ایک تہائی حجاز حتیٰ کہ مدائن صالح، جو کہ مدینہ سے چار گھنٹے کی ڈرائیو یا اونٹ کی بارہ دن کی مسافت پر ہے، بھی روم کے انڈر ایک وقت میں آیا تھا، تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ روم اور اسکے مضافات میں رہنے والے عرب خوش اور معاشی طور پر بہتر ہوں گے

اس کے بعد روم کا زوال شروع ہو جاتا ہے، حجاز میں بھی معاشی سرگرمیاں تباہ ہو جاتی ہیں، یہاں تک کہ 395ء میں، قصی بن کلاب کی پیدائش کے قریب، روم دو ٹکڑے ہو جاتا ہے، زوال جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ ہم 600ء تک آ پہنچتے ہیں

آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت عربوں کو سیاسی طور پر اسکی اشد ضرورت تھی کہ وہ متحد ہو کر اپنے معاشی مسائل کا مقابلہ کریں

اور کیا حسن اتفاق ہوتا ہے کہ اسلام کے جھنڈے کے تحت ان کو یہ موقع مل جاتا ہے

2Sw3L1P.jpg


Source: https://en.wikipedia.org/wiki/Roman_economy
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
ایک اور سورس کے مطابق کچھ اور باتیں سامنے آرہی ہیں

مشرقی روم کی قومی زبانیں لاطینی اور یونانی تھیں لیکن، مشرقی روم کے مشرقی حصّے میں، جو کہ دمشق کے آس پاس کا علاقہ ہے، سب سے زیادہ رائج زبان سریانی تھی

مطلب حجاز کے عربی زبان والے جب روم کی جانب بڑھے تو انہیں سریانی بولنے والوں سے پالا پڑا

سریانی میں خبر و اخبار کی اشاعت کا سلسلہ موجود تھا

لیکن اس زمانے میں عربی زبان کا ایسا کوئی سلسلہ پتا نہیں چلتا

او بھائی کیوں؟ اگر قرآن کی پہلی کاپی نبی ﷺ کے دور میں لکھی گئی، اور عثمان کے دور میں کم از کم پانچ سات کاپیاں بنی، تو وہ لکھاری کہاں گۓ؟ وہ لکھنے پڑھنے کا سارا کام چھوڑ کر میدان جنگ میں چلے گۓ؟ اور اگلے سو سال تک عربی اشاعت کا سراغ نہیں ملتا؟

اس سے بھی بڑی بات، سریانی خبروں کے مطابق حجازی اپنے آپ کو نہ مسلمان کہتے تھے، نہ مومنین، بلکہ وہ اپنے آپ کو مھاجرین کہتے تھے

کیا؟ او بھائی ساری عمر اسلامیات پڑھنے کے بات آج میں پہلی بار یہ کیوں سن رہا ہوں؟

اور شروع کی سریانی خبروں میں نبی ﷺ کو مھاجر کا بادشاہ، یا استاد، یا رہنما کہا جاتا تھا، اور اس بات کا کہیں ذکر نہیں کہ مھاجر کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک خدا کا نبی آیا ہے
اور اس زمانے میں قرآن کا بھی کوئی ذکر نہیں ملتا

اس سورس کے مطابق سب سے پہلا رسالت کا ذکر ملتا ہے جب خلیفہ عبد المالک کے رائج سکوں پر یہ تحریر لکھی گئی


بسم الله محمد رسول الله

اور یہ سکے 66 ہجری یا 685ء سے ہیں
یاد رہے کہ کربلا کا واقعہ 680ء میں بتایا جاتا ہے
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
مختلف سکوں، کتبوں، وغیرہ پر الفاظ

بسم الله
ھ22, 642ء

بسم الله الرحمن الرحیم
ھ31, 651ء

رحمت الله و برکاته
ھ40, 660ء

عبدالله معاویہ امیر المومنین
ھ42, 662ء

بسم الله المالک
ھ45, 665ء

بسم الله ربی
ھ46, 666ء

اللھم اغفر لی
ھ46, 666ء

الله رب الحکم
ھ56, 676ء

عبد الله مروان امیر المومنین
ھ65, 684ء

بسم الله العزیز
ھ66, 685ء

بسم الله محمد رسول الله
ھ66, 685ء
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
یہ دیکھیں کربلا کے چند سالوں بعد کسی نے کربلا ہی میں کسی پتھرپہ اتنی لمبی تحریر کی اور نبی ﷺ کا کوئی ذکر نہیں

اسے حفنة الأبيض کی تحریر کہا جاتا ہے اور سال 64ھ یعنی 683ء ہے، آپ چاہے گوگل کرلیں

hafnat al-abyad

امیج پڑھنا مشکل ہے لہذا میں نے اسکی عربی بھی درج ذیل میں لکھ دی ہے


بسم الله الرحمن الرحم
الله و كبر كبيرا
والحمد لله كثيرا
و سبحان الله بكرة و أصيلا و ليلا طويلا
اللهم رب جبريل و ميكل و اسرافيل
اغفر لثبت بن يزيد الأشعري
ما تقدم من ذنبه و ما تاخر و لمن قال
أمين أمين رب العلمين

و كتبت هذا الكتب في
شوال من سنة أربع و ستين


8UDA0P9.png[IMG]
 
Last edited:

abuomarsheikh

Councller (250+ posts)
بھائی حدیث کا لنک اسی کمنٹ کے نیچے دو دن سے پڑا ہوا ہے، اسے کلک کر لیں
بھائی آپکو توحید سے مسلہ ہے یا رسالت سے میں سمجھ نہیں پا رہا اپ نشر و اشاعت کو ھی لے کر نتائج نکال رہے ہو قرآن کی حقانیت تو اب سائنس سے پروف ہو چکی ہے یہ کسی انسان کا کلام هو ہی نہیں سکتا اور آپکی جنرل ریسرچ آپکو کہیں نہیں پہونچا سکتی سوائے گمراہی کی جہاں تک بات ہے ہے ورقہ بن نوفل والی والی حدیث کی تو عرض ہے کے اسکو علم رجال اور فلسفہ پر پرکھ کر دیکھیں یہ درست مروی نہیں اور آپکو شیعہ منھج کو بی زیرے مطالحہ کرنا چا ہئے
 

abuomarsheikh

Councller (250+ posts)
بھائی حدیث کا لنک اسی کمنٹ کے نیچے دو دن سے پڑا ہوا ہے، اسے کلک کر لیں
بھائی آپکو توحید سے مسلہ ہے یا رسالت سے میں سمجھ نہیں پا رہا اپ نشر و اشاعت کو ھی لے کر نتائج نکال رہے ہو قرآن کی حقانیت تو اب سائنس سے پروف ہو چکی ہے یہ کسی انسان کا کلام هو ہی نہیں سکتا اور آپکی جنرل ریسرچ آپکو کہیں نہیں پہونچا سکتی سوائے گمراہی کی جہاں تک بات ہے ہے ورقہ بن نوفل والی والی حدیث کی تو عرض ہے کے اسکو علم رجال اور فلسفہ پر پرکھ کر دیکھیں یہ درست مروی نہیں اور آپکو شیعہ منھج کو بی زیرے مطالحہ کرنا چا ہئے
 

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
لیں جی، ایک اور نئی بات

مھاجر لفظ نکلا ہے "ھاجرہ" سے، اور شناخت کے طور پر اس کا مطلب ہے "ھاجرہ والے"، نہ کہ وہ جنہوں نے ہجرت کی

وہ روم، ایران اور مصر جا کر یہ کیوں کہیں گے کہ ہم لوگ ہجرت کرنے والے ہیں، وہ تو جنگیں جیت رہے تھے، اس مطلب کی تک نہیں بنتی

اور ایسا ہو نہیں سکتا، تقریباً نا ممکن، کہ وہ لوگ ایک ہی لفظ ایک ہی زمانے میں بولتے ہوں اپنی شناخت کیلئے اور مطلب دو لیتے ہوں

اس کا مطلب جو لوگ مکہ سے یثرب آۓ وہ بھی لفظ مھاجر کا مطلب "ھاجرہ والے" ہی لے رہے تھے؟

کیونکہ یثرب میں یا تو "سارہ والے" یہودی تھے، یا پھر اوس اور خزرج جو عیسائی ارب تھے

اور جب یثرب کنٹرول میں آ گیا تو وہ لوگ انصار کہلاۓ، جس کا مطلب
"وہ لوگ جنہوں نے ھاجرہ والوں کی مدد کی"
یا
"ھاجرہ والوں کے اتحادی"

مہاجرین والانصار کا مطلب ھاجرہ والے اور اتحادی؟


ترمیم: اوس اور خزرج عرب ہی تھے لیکن انکے مذہب کی مجھے زیادہ تفصیل نہیں مل سکی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مہاجرین و الانصار سے مراد عرب اور اتحادی ہے، اور اوس اور خزرج چونکہ عرب تھے لہذا وہ بھی مھاجر تھے، جبکہ یہودی قبیلے نضیر اور قينقاع اسلام لانے کے بعد انصار کہلاۓ
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
تنبیہہ: یہ کمنٹ کچھ لوگوں سے شاید پڑھا نہ جاۓ

مکہ کی معاشی حالت کا مزید اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ 605ء میں جب کعبه کی سیلابی تباہی کے بعد تعمیر کی ضرورت پڑی تو لکڑی کہاں سے آئی؟ ساحل پر ایک تباہ شدہ یونانی بحری جہاز سے

یار آپ اپنے شہر کا فخر، سارے عرب کا مرکز، سب سے مقدس عبادت گاہ تعمیر کرنے جا رہے ہو اور مٹیریل آپ رومیوں کے ضائع شدہ بحری جہاز سے سکریپ کر کے استعمال میں لارہے ہو؟ مطلب آپ کے پاس نئی لکڑی خریدنے کے پیسے نہیں ہیں

اس سے یہ بھی نظر آتا ہے کہ تجارتی قافلوں کی آمد و رفت حجاز کے زمینی راستے کے ذریعے کم ہو گئی تھی اور متبادل رستہ سمندر کے ذریعے استعمال کیا جارہا تھا، جس سے پیسے کمانا حجاز والوں کیلئے مشکل یا نا ممکن تھا

دوسرا، اور یہ سریانی ذرائع نہیں بلکہ ابن اسحاق سے نقل کی گئی ابن ہشام کی تصنیف کے ترجمے میں درج ہے،حمس ایک شرمناک رسم تھی جو اس زمانے میں کعبه کے متولیوں نے حج میں ڈالنے کی کوشش کی، یاد رہے کہ حج اسلام سے شروع نہیں ہوا، بلکہ حج مکہ والوں کا شاید سب سے بڑا ذریعہ آمدن تھا، حمس کے مطابق انہوں نے اصول طَے کئے کہ مکہ کے باسی، خواتین اور مرد دونوں، اگر حج کریں تو ایک خاص قسم کا کپڑا پہنیں اور صرف وہی کپڑا پہنیں چاہے اس کپڑے کی قلت ہی کیوں نہ ہو، اور اس کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے آپ کو حج کرتے وقت ڈھانپ نہ سکتے تھے

میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہ یہ رسم اسی وقت رائج کی گئی ہو گی جب کعبه کے متولیوں نے غیر مکیوں سے حج کا کرایہ، یا معاوضہ بڑھانے کی کوشش کی ہو گی​
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
سریانی ذرائع کے مطابق پہلا ذکر کہ ھاجرہ والوں کے رہنما کے پاس خدا کی کتاب یا خدا کے احکامات ہیں، ملتا ہے 687ء میں

اور اسی کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ھاجرہ والوں کا ایک ہی مطالبہ ہے، اور وہ ہے بھتہ

یعنی سریانی ذرائع کے مطابق پہلے پچاس سال تبلیغ تو دور کی بات، خدا کے بھیجے گۓ نبی یا خدا کی کتاب کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے

اور پچاس سال بعد ذکر آتا بھی ہے تو اس وقت بھی مقصد بھتہ ہی ہے، نہ کہ دین مھاجر کی دعوت

لفظ اسلام کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے، البتہ لفظ قانون کا کافی ذکر آتا ہے، اور قانون کو عبرانی میں اور شاید سریانی میں بھی دین کہا جاتا ہے، لہذا دین کا لفظ ھاجرہ والے کافی استعمال کرتے رہے ہیں​
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
تنبیہہ: یہ کمنٹ کچھ لوگوں سے شاید پڑھا نہ جاۓ

ان تحاریر کے تحت تو مندرجہ ذیل بیانہ ابھرتا ہوا نظر آ رہا ہے، جو ضروری نہیں کہ صحیح ہو

جب ھاجرہ والے عرب سے باہر نکلنا شروع ہوۓ، انہیں اپنی جنگی کامیابیوں کا یقین نہیں تھا

جب ایک ہی سال میں روم کو یرموک میں بڑی شکست ہوئی، اور قادسیہ میں ایرانیوں کے پرخچے اڑ گۓ اور انکی سلطنت کا تو سرے سے وجود ہی ختم ہو گیا، تو یہ ھاجرہ والوں کیلئے ایک بڑا شاک تھا

کہ بھائی یہ کیا ہو رہا ہے ہم تو اپنے آپ کو ایک عام سی نسل سمجھتے، ہم نے دنیا کی سب سے بڑی دو قوتوں کو ڈھیر کر دیا ہے

خلیفہ عمر جب یروشلم سے فلسطین اور شام کی کنجیاں لے کر واپس آیا، اور یہاں میں کہتا چلوں کہ اس کا تاریخ میں کوئی ذکر نہیں ملتا کہ اس نے فلسطینیوں کو رتی برابر بھی دین مھاجر کی تبلیغ کی ہو، تو وہ اور اسکے ساتھی شش و پنج میں پڑ گۓ ہوں گے، کہ بھائی اب ان فتوحات کا کیا کرنا ہے

پھر وہ کافی فلسفیانہ سوچ بچار اور بحث مباحثے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہوں گے کہ ہم لوگ اپنے آپ کو اتنا کمتر اسلئے سمجھتے رہے کیونکہ ہمیں رومی اور ایرانی کمتر سمجھتے رہے، بلکہ وہ ابھی بھی ہمیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہم بت پرست ہیں، نہ ہمارے پاس خدا کا نبی ہے، نہ خدا کی کتاب ہے

یاد رہے کہ اس زمانے میں ایک نسل یا سلطنت کے پاس خدا کا نبی اور خدا کی کتاب ہونا ایک بہت بڑا سٹیٹس سمبل سمجھا جاتا تھا، اسکے بغیر آپ کی کوئی زیادہ عزت نہیں کرتا تھا

لہذا انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب ہم کچھ کریں گے کہ ہم کہہ سکیں کہ ہمارے پاس بھی خدا کی کتاب ہے

لہذا یہ کام شروع ہوا، کہ سارے عرب کے زبانی شاعروں کی حمیتی، توحیدی اور حنیفی شاعری اکھٹی کرو اور اسے کتابی شکل میں لاؤ، یہ کام کئی دہائیوں تک جاری رہا، یہاں تک کہ ہم خلیفہ عمر کے چالیس سال بعد خلیفہ عبدالمالک کے دور میں پہنچ جاتے ہیں، جس وقت یہ دعوے شروع ہو جاتے ہیں کہ مھاجر کا گزرا ہوا سردار محمد ﷺ تو اصل میں خدا کا رسول تھا اور خدا کا نبی تھا، اور قرآن، جو کہ شاید اب مرتب ہو چکا ہے، ہماری کتاب ہے

اور اسکے مزید کچھ دہائیوں کے بعد حدیث کا کام شروع ہو تا ہے، جب تمام صحابی اور زیادہ تر تابعین کی وفات ہو چکی ہوتی ہے، لہذا کھل ڈل کے ہر طرح کی احادیث بیان کی جاتی ہیں

یاد رہے کہ لفظ حدیث کوئی مذہبی لفظ نہیں ہے، حدیث کا مطلب بیان ہے، یعنی فلاں نے بیان دیا، اسکا مطلب آپ کہانی بھی لے سکتے ہیں، کہ فلاں نے کہانی سنائی، اور صحیح حدیث کا مطلب آپ لے سکتے ہیں سچی کہانی​
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
لیں جی نئی بات سامنے آئی ہے

یوحنا دمشقی خلیفہ عبدالمالک کے انڈر انتظامیہ میں کام کرتا رہا اور بعد میں اس نے رہبانیت اختیار کر لی

اپنی ایک تحریر میں لکھتا ہے کہ محمد (ﷺ) نے کئی کہانیاں ترتیب دیں اور ہر کہانی کا نام رکھا، وہ خاص طور پر چار کہانیوں کے نام لے کر ذکر کرتا ہے، اور وہ چار نام ہیں النساء، الناقة الله، المائدہ، اور البقرہ

او بھائی یہ الناقة الله یا الجمل الله کون سی سورہ ہے جو 695ء میں وجود رکھتی تھی لیکن آج اس کا کوئی وجود نہیں ہے، ذرا ہمیں بھی بتائیں؟

مزید

لیون سوم عمر بن عبد العزیز کو خط میں کہتا ہے کہ حجاج بن یوسف نے مھاجر کی کہانیوں کی کچھ کتابوں کو ملا کر اپنی مرضی کا ایک صحیفہ بنا لیا ہے، اور باقی سب کتابیں جلا دیں، لیکن ابو تراب کی چند تصانیف ضائع ہونے سے بچ گئیں

اس خط و کتابت کا زمانہ 720ء کے آس پاس کا بنتا ہے
 
Last edited: