مذہب، دین، نظام، سیاست، طاقت

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
سورہ آل عمران آیت 96 اور 97

بكه مبارك کون سی جگہ ہے جہاں مقام ابراہیم ہے، اور جس کا حج فرض ہے؟

کہا جاتا ہے کہ بكه سے مراد مکہ ہے

مکہ کو بكه کہنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ کیونکہ یہ آیت اسی طرح ساتویں صدی عیسوی سے سینکڑوں سال پہلے دین مھاجر کی حنیفی شاعری کا حصہ تھی؟

یا پھر یہ یروشلم کا بكه ہے جس کا ذکر یہودی اور عیسائی صحیفے میں ہے جس کا عربی میں ترجمہ بابے ورقے نے کیا؟​
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
او بھائی سورہ فتح آیت 24 میں مکہ کو مکہ ہی کہا گیا ہے

او بھائی یہ کیا مذاق ہے؟​
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
اچھا یہ لفظ دین کی بھی اب مجھے سمجھ آ گئی ہے

آپ نے بحری قزاقوں کی انگریزی فلم تو دیکھی ہو گی؟ بحری قذاق، یعنی پائریٹ، کسی قانون کا پابند اپنے آپ کو نہیں سمجھتے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جب آپ ایک بحری قزاق کے طور پر ایک بحری جہاز میں موجود ہوں تو جو جی میں آۓ کر لیں، چوری، چکاری، قتل، وغیرہ وغیرہ، لہذا بحری قزاقوں کا ٹولہ اپنے درمیان ایک ایک کم از کم لیول کا نظم و ضبط قائم رکھنے کیلئے، کہ بالکل ہی طوائف الملوکی نہ ہو جاۓ، کچھ اصولوں کی پابندی کرتا ہے، انگریزی میں اسے کوڈ کہا جاتا ہے، یعنی بحری قزاق کوڈ کے تحت چلتے ہیں، یہ کوڈ کہیں لکھا نہیں ہوتا، لیکن زبانی یاد دلایا جاتا ہے یا کبھی بغیر کہے بھی بحری قزاق اس کے پابند رہتے ہیں، مثال کے طور پر اگر دو بحری قزاقوں میں اختلاف ہو جاۓ تو وہ جہاز پر آپس میں نہیں لڑ سکتے، انھیں ساحل کا انتظار کرنا ہو گا جہاں اتر کر وہ یا تو صلح کا معاہدہ کرلیں یا چاہیں تو لڑائی کرلیں، اور جو زندہ بچ جاۓ وہ واپس جہاز پر آ جاۓ، اگر کوڈ کی خلاف ورزی ہو جاۓ تو اس کی سزا بھی ہوتی ہے، چنانچہ کسی بحری قزاق کو کسی غیر آباد جزیرے پر اکیلا چھوڑ دیا جاتا ہے، جہاں وہ یا فاقے سے مر جاتا ہے یا پاگل ہو جاتا ہے

جزیرہ نما عرب کے مهاجر کسی انسانی تہذیب کا حصہ نہیں تھے، نہ وہ رومی قانون کو مانتے، نہ ایرانی، نہ عیسائی مذہب کو، نہ یہودی، نہ کوئی غیر عرب اس علاقے کا کوئی خاص رخ کرتے تھے، بس ایک وسیع پتھریلا صحرا تھا، اور اوپر آسمان تھا، کسی ظلم و ناانصافی پر کسی کا کوئی پرسان حال نہ تھا، تو اس حالت میں ان کو ایک کم از کم لیول کے اصول و ضوابط کی ضرورت تھی، اور اس کوڈ کو وہ دین کہتے تھے

انکے کوڈ کا بہت بڑا حصہ ایک نہ نظر آنے والے خدا کو ماننے کا تھا، اس خدا کو وہ الله کہتے تھے، اور یاد رہے کہ مشرکین مکہ، ابو جہل، ابو لہب، ابو سفیان، وغیرہ وغیرہ، یہ سب الله کو ماننے والے تھے، لیکن کچھ لوگ کعبه میں بتوں کی موجودگی کو اچھا سمجھتے تھے اور کچھ لوگ حجر اسود جیسے پتھر کی موجودگی کو، تو حجر اسود والے اپنے آپ کو حنیفی کہتے تھے، اور بتوں والوں کو مشرک

اس سے یہ بھی نظر آتا ہے کہ اسلام میں بت پرستی جائز نہیں لیکن پتھر پرستی جائز ہے، آپ ایک پتھر پکڑ کر اپنی مسجد میں منبر کے قریب رکھ لیں اور جب بھی نماز پڑھنے جایئں، اس پتھر کے آگے سجدہ کریں اور اس پتھر کو چوم لیا کریں، شرط یہ ہے کہ وہ پتھر تراشا نہ گیا ہو، اور اسے کسی بت کی شکل نہ دی گئی ہو، تو میرے خیال میں آپ کو اس کا ثواب ہی ثواب ملے گا

تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ جنگ بدر، جنگ احد، اور عرب کی تمام جنگیں اس بات پر لڑی گئیں کہ جو پوجنے والے پتھر مسجد میں رکھیں جائیں انہیں تراشے بغیر رکھا جاۓ یا تراشنا بھی جائز ہے
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
حجر اسود جنت سے آیا ہے

شہاب ثاقب شیطان کو ماری جانے والی کنکریاں ہیں


بھائی ایک اجاڑ بیابان پتھریلے صحرا میں جہاں نہ بندہ نہ بندے کی ذات پہنچتی ہو، جہاں انسانی تہذیب کا دور دور تک نام و نشان نہ ہو، وہاں آسمان پر ٹوٹتے ستاروں، یعنی میٹیور، جو کافی نظر آتے ہوں گے کیونکہ صحرائی علاقوں میں نہ بارش، نہ بادل، اور مطلع صاف رہتا ہے، کے بارے میں آپ بطور زمانہ قدیم کے مھاجر اس سے زیادہ کیا توجیح دے سکتے ہیں

میرا اندازہ ہے کہ انہوں نے یہ میٹیور شاید رات کے وقت زمین پر آتا دیکھا ہو، اور پھر اگلے دن دریافت کرنے پہنچے ہوں تو یہ پتھر انہیں نظر آیا ہو، تو انہوں نے نتیجہ نکال لیا ہو کہ یہ پتھر جنت سے آیا ہے، اور مھاجروں نے اسے اب اپنے کوڈ کا حصہ بنا لیا ہے، کہ

جو اس کالے پتھر کے جنت سے آنے کا انکار کرے، اس کا سر تن سے جدا



 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
تو بھائی معاویہ نے فقط طاقت کے نشے میں تو عبدالله بن عمر کی طرف اشارہ کر کے نہیں کہا تھا کہ جو بھی نمازیوں میں اپنے آپ کو خلافت کا حقدار سمجھتا ہے وہ کھڑا ہو، میں اسکے باپ سے بھی زیادہ خلافت کا حقدار ہوں

کالے پتھر اور تراشے پتھر والے مھاجروں کے درمیان جنگ بدر میں مکہ کے ادھیڑ عمر سرداروں کی، جو خود بھی بمشکل مکہ کی معاشی حالت کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہوں گے، خوں ریزی کروائی گئی، اور کس بات پر؟ کہ مان جاؤ کہ شہاب ثاقب شیطان کو ماری گئی کنکریاں ہیں، اور مان جاؤ کہ موت کے فرشتے کو موسیٰ سے
چپیڑ پڑی تھی، اور مان جاؤ کہ نوح 950 سال زندہ رہا




 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
سورہ الرحمن آیات 46 تا 60 باغات اور حوروں وغیرہ کا بیان آتا ہے، لیکن اسکے فوراً بعد آیات 62 اور اس سے آگے، وہی باغات اور حوروں کا بیان دوبارہ آتا ہے، لیکن اب الفاظ تھوڑے سے مختلف استعمال کئے جاتے ہے

او بھائی یہ کیا ہے؟ یہ قرآن نہ ہو تو آپ اس کے مصنف کو پکڑ کر اسکا ذہنی معاینہ کروائیں

ہمارے لیے تو بات نظر انداز ہوجاتی ہے کیونکہ ہمیں عربی نہیں آتی اور ہمارا مقصد صرف قران کی تلاوت ہوتا ہے، لیکن اوائل کے عربوں نے یہ بات نوٹس نہ کی، ایسا ہو نہیں سکتا

بکّہ مکّہ کے بعد اب یہ، میرے شکوک و شبہات ختم ہوتے جارہے ہیں کہ یہ ھاجرہ والوں کی شاعری کی کتاب ہے، جسے جلدبازی میں ترتیب دیا گیا ہے، یعنی کاپی پیسٹ، اور جس کے مرتب کرنے میں کافی غلطیاں کی گئی ہیں​
 

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
متشابہات کا چورن

جنہوں نے قرآن ترتیب دیا انہیں پتا تھا کہ اعتراضات اٹھیں گے، لہذا انہوں نے یہ آیات بھی ڈال دیں کہ بھائی بس زیادہ سوالات مت کرو، جس آیت کی تک بنے سو بنے، اور جس کی نہ بنے وہ اسلئے کہ وہ متشابہات میں سے ہے، جن کا مطلب صرف خدا جانتا ہے​

 

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
ابو سفیان نے معاویہ کو کاتب وحی کیوں لگوایا؟ کوئی بتا سکتا ہے؟ کیا اسلئے کہ "بیٹا جاؤ پتا تو کرو، یہ وحی کا کیا چکر ہے، پھر مجھے آ کر بتانا"؟

معاویہ نے وحی کی کتابت کے بعد ابو سفیان کو کیا کہا؟ کیا یہ کہ "بس ابا جی، میں کیا کہوں، آپ خود سمجھدار ہیں"؟ یا کچھ اور؟

سنا ہے معاویہ نے صرف ایک ہی وحی کی کتابت کی تھی؟ ایک ہی کافی ہے؟

نبی ﷺ علی کو گلے لگ کر معاویہ کی کتابت وحی سے پہلے روتے تھے یا بعد میں؟

او ہاں یاد آیا، دو ڈھائی سو سال بعد لکھی گئی غیر عربوں کی احادیث میں تاریخ، دن، مہینے، سال کا کوئی ذکر نہیں ہوتا، ایک اور حسن اتفاق


ترمیم: معاویہ کا نبی ﷺ کا کاتب ہونا دو ڈھائی سو سال بعد لکھی گئی صحیح مسلم سے ثابت ہے لیکن کاتب وحی ہونا ثابت نہیں، بہت دلچسپ صورتحال، یعنی ابو سفیان نے کوشش کی کہ معاویہ سے چیک کروایا جاۓ، لیکن پتا نہیں چلتا کہ نبی ﷺ نے معاویہ کو وحی کے معاملے میں گھاس ڈالی یا نہیں، اگر دوسری چیزوں کی کتابت ہوئی تو وہ سب کہاں ہے؟ کیا بات ہے، باقاعدہ کاتب کی نوکری کی حدیث موجود ہے لیکن سو سال تک سواۓ آدھے قران کے کسی ایک خط کا بھی سراغ نہیں ملتا، زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا، حکام وقت کو لکھے گۓ خطوط کسی عجائب گھر میں ہیں، لیکن ان کی کاربن ڈیٹنگ شاید نہیں کروائی گئی، اور سریانی ذرائع میں کوئی ذکر نہیں دین کے دعوت نامے کا
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
مزید ممکنہ بیانیہ

سنہ 610ء سے پہلے کی چند دیائیوں میں مکہ کی معاشی حالت جتنی بری ہو چکی تھی اسکا شاید آپ، میں، اور کوئی بھی اندازہ نہیں لگا سکتا، لیکن بہت سے حالت و واقعات اسکی طرف اشارہ دیتے ہیں

انسانوں کو غلام بنانا اور انسانوں کا استحصال عام ہو چکا تھا، پیدا ہوئی بیٹی کو زندہ یا مار کر دفنانا سفید پوشی یا کسی اور وجہ سے لوگوں کی مجبوری بن چکا تھا، آپ اندرون سندھ کے کسی دور دراز دادو کے گاؤں کا ایک چکر ماریں آپ کے ہوش شاید ٹھکانے آ جایئں گے کہ ایسا چودہ سو سال پہلے عرب "جاہلیہ" میں نہیں، آج اکیسویں صدی میں عظیم مملکت خداداد پاکستان میں بھی ہورہا ہو

مدائن صالح، اور دیگر مضافاتی شہر، چند دہائیوں پہلے، یا شاید کچھ صدیوں پہلے، اسی معاشی تباہی کی وجہ سے فنا ہوے، وہاں کی کہانیاں مکہ والوں تک پہنچتی رہی ہوں گی، شاعری اور دیگر شکلوں میں

اگر چند اور دہائیاں یہی حالت رہتی تو شاید نوبت آدم خوری تک پہنچ جاتی، اور ہوسکتا ہے کہ مدائن صالح میں بھی یہی ہوا ہو

پہلے انسانی جنسی استحصال، پھر، انسانوں کی خریدوفروخت، یعنی غلامی، پھر انسانوں کو ذبح کرکے کھانا، یعنی آدم خوری، اور پھر آخری مرحلہ، انسانوں کی ناپیدی، یعنی شہر کا کھنڈر بن جانا

ان کہانیوں کو سنتے ہوۓ، اور اپنے شہر میں وہی حالات پیدا ہوتے دیکھتے ہوۓ، بہت سے سوچ سمجھ رکھنے والے مکہ کے باسی "آوٹ" ہو چکے تھے، یعنی ذہنی طور پر ماؤف، جن میں عبیدہ بن جحش، عثمان بن الحوارث، ورقه بن نوفل، اور زید بن عمرو کا نام ابن حشامی ابن اسحاق میں آتا ہے، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا تھا کہ جو بھی ہورہا ہے وہ بت پرستی کی وجہ سے ہو رہا ہے، ان میں سے پہلے تین نے عیسائیت اختیار کر لی

اور آخری، زید بن عمرو، نے حنیفی دین اختیار کیا، جس پر اسے مکہ سے نکال دیا گیا اور اس نے آخری چند سال غار حرا کے اس پاس رہ کر گزارے، تو یہاں بھی سوال اٹھتا ہے کہ نبی ﷺ جب غار حرا پر جاتے تھے تو تنہائی میں عبادت کیلئے یا پھر زید بن عمرو کی صحبت سے استفادہ کیلئے؟ اور پھر اسکی وفات کے بعد عادت پڑ گئی غار حرا جانے کی

زید بن عمرو کی وفات بعثت سے چند سال پہلے ہی ہو گئی اور سنا ہے کہ اس کی قبر بھی غار حرا کے باہر ہے

ان چار میں دو نام آپ اور ڈال دیں، اور وہ عبدالمطلب بن ہاشم، اور محمد ﷺ بن عبدالله، ان حالات و واقعات کے پس منظر میں نبی ﷺ کی زندگی میں مزید سختیاں آئیں، یعنی انکے ایک سے زیادہ بیٹوں کا وصال ہوا، یہاں پر بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس وصال میں مکہ کی معاشی حالت اور غذائی قلت کا کوئی عمل دخل تھا یا نہیں؟

بھائی ان حالات و واقعات کے تحت آپ اپنے ذہن پر تھوڑا زور دینے کی کوشش کریں کہ ایک سوچنے والے انسان کی کیا حالت ہو جاتی ہے

انگریزی میں اسے ایگزسٹینشل حالت کہا جاتا ہے، یعنی وجودی بحران، کیا ایسا انسان یا تو ہار مان لیتا ہے یا پھر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اب کچھ بھی ہو اس وجودی بحران کا مقابلہ جسے تیسے کرنا ہے؟

مزید اشارہ یہاں سے ملتا ہے کہ اپنی باقی زندگی نبی ﷺ کہتے رہے کہ قیامت قریب ہے، قیامت قریب ہے، یہاں تک کہ قیامت اور اس دور میں اتنا ہی فرق ہے جتنا دو جڑی ہوئی انگلیوں میں

اگر نبی ﷺ نبوت کا دعویٰ کیے بغیر آگے بڑھتے تو شاید وہی ہوتا جو زید بن عمرو کے ساتھ ہوا، جس کا کسی نے ساتھ نہ دیا اور جو مکہ بدر کر دیا گیا اور جس کی پھر وفات ہو گئی

وہ جو آزمایا جا چکا ہو اسے دہرانے کا فائدہ؟

زید بن عمرو ان چند لوگوں میں سر فہرست ہے جنہوں نے ایک خدا کے پیغمبر کے آنے کی پیش گوئی کی، آپ کہہ سکتے ہیں کہ زید بن عمرو نے اپنی آدھی عمر یا اس سے زیادہ خدا کے پیغمبر کے انتظار میں گزار دی، اپنے آخری ایام میں زید بن عمرو اور نبی ﷺ، اور شاید مزید حنیفی غار حرا میں بیٹھ کر اس بندے کا انتظار کرتے رہے، اور حنیفی شاعری کی ترتیب بھی دیتے رہے

جب زید بن عمرو کی وفات ہو گئی تو نبی ﷺ نے کئی سال کی سوچ بچار کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ

خدا کا پیغمبر آۓ گا نہیں

خدا کا پیغمبر لانا پڑے گا

اسکے بعد کیا ہوتا ہے، آپ سب خود سمجھدار ہیں​
 
Last edited:

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
mera pehla sawaal aap se ye hai keh aap bataayen aap ki nazar main kaainaat ki ibtadaa kaise hui ya kaise ho sakti thi? kia aap aik aisi hasti ke wajood ko tasleem kerte hen jo hamesha se mojood hai aur hamesha mojood rahe gi? agar nahin to phir kaainaat ki ibtadaa mumkin hi kaise hai? is liye keh agar kuchh bhi mojood hi nahin tha to phir absolute nothing se her shai ka wajood mumkin kaise hai? agar kuchh bhi na ho to phir kuchh bhi mojood kaise ho sakta hai? lihaaza first cause ka nahin balkeh aik hasti ka wajood laazim hai jo apni zaato sifat main kaamil ho.

mere nazdeek sab scientists aur philosophers jahil hen jo wajibalwajood hasti ka inkaar kerte hen.
 

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
مندرجہ بالا بیانیہ انتہا درجے کے حسن ظن کے مطابق ہے، جس میں دو سو سال بعد غیر عربوں کی لکھی ہوئی نوے فیصد کہانیاں، یعنی احادیث اور سیرہ، سچ مان لی جایئں، اور صرف وہ کہانیاں رد کی جائیں جن میں غیر مرئیت کی بو آتی ہو، یعنی جن، فرشتے، اور انکے ساتھ ہونے والے کسن مکے، وغیرہ وغیرہ

اصل نقطہ یہ ہے کہ بیانیوں کا احاطہ مندرجہ ذیل ممکنات پر پھیلا ہوا ہے، اور ان میں سے کوئی بھی بیانیہ اصل حقیقت ہو سکتا ہے، وہ اصل حقیقت جو کہ مبینہ طور پر دیگر تاریخ دانی کی کوتاہیوں جیسی وجوہات کی بنا پر "مس" ہو گئی

ترمیم: جو اس بات کی مزید تصدیق ہے کہ، او بھائی جزیرہ نما عرب کو کوئی لفٹ ہی نہیں کراتا تھا، اگر وہاں کی معروضی تاریخ لکھی جاتی تو شاید آج اسلام کا وجود ہی نہ ہوتا، اسلام پیدا ہی تہذیب و تاریخ کی گمنامی کی تاریک اوٹ میں ہوا ہے

اول، قرآن کی تمام نظمیں، یعنی سورتیں، اسی بائیس سالہ دور میں منظر عام پر آئیں جس کا ذکر دو سو سال بعد لکھی غیر عربوں کی کہانیوں میں آتا ہے

دوم، ایسا نہیں ہے بلکہ کچھ نظمیں بائیس سال اور کچھ اس سے پہلے مھاجروں میں عام تھیں

سوم، نہیں بلکہ یہ نظمیں مبینہ بعثت کے وقت شروع ہوئیں، اور محمد ﷺ کے وصال کے بعد کئی دہائیوں تک بنائی جاتی رہیں، یہاں تک کہ خلیفہ عبد المالک یا خلیفہ ولید کے دور میں قرآن آج والی حتمی شکل میں آیا

چہارم، کچھ نظمیں بائیس سال سے پہلے بھی موجود تھیں، پھر بائیس سالہ دور محمدی ﷺ میں ان میں اضافہ ہوا، اور وصال کے بعد بھی اس میں عبد المالک یا ولید کے دور تک اضافہ ہوتا گیا، میرے خیال میں یہ سب سے مضبوط بیانیہ ہے

پنجم، مکمل قرآن مبینہ بعثت کے وقت سے پہلے ہی مھاجروں کو حفظ تھا، میرے خیال میں یہ ایک ضعیف بیانیہ ہے

ششم، قرآن کی کوئی نظم دور محمدی ﷺ میں تھی ہی نہیں، قرآن کی تصنیف کی شروعات ہی وصال کے بعد ہوئی، یہ بھی میرے خیال میں ایک اور ضعیف بیانیہ ہے

اسی طرح نبوت کے دعوے کے متعلق ممکنات مندرجہ ذیل ہیں

اول، نبوت کا دعویٰ محمد ﷺ نے بالکل اسی طرح کیا جیسا کہ دو سو سال بعد لکھی گئی غیر عربوں کی کہانیوں میں ہے

دوم، محمد ﷺ نے نبوت کا کوئی دعویٰ نہیں کیا، صرف حنیفی دین کی تلقین کی، اور نبوت کا دعویٰ معاویہ، یا عبد المالک کے دور میں محمد ﷺ سے منسوب کیا گیا

سوم، محمد ﷺ نے نہ نبوت کا دعویٰ کیا، نہ حنیفی دین کی تلقین کی بلکہ صرف بنی ہاشم کے سردار کی حیثیت سے مکہ کے دیگر قبائل سے جھگڑا ہوا، اور آخری فتح بنی ہاشم کی ہوئی، پھر وصال کے بعد بنی امیہ غالب آ گۓ، اور نبوت کا دعویٰ اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا

چہارم، بعثت لفظ کا مطلب ہے بھیجا جانا، اور محمد ﷺ کو مکہ سے باہر کے کسی علاقے، مثلاً غسانی عرب یا بنی لخم یا یمامہ میں عسائیت یا یہودیت کی ٹریننگ کروا کر بھیجا گیا، لیکن بعد میں مھاجروں نے اسے توڑ مروڑ کر حنیفی دین بنا دیا، یا محمد ﷺ نے خود ہی اسے نۓ مذہب کا رنگ دے دیا

پنجم، چونکہ محمد ﷺ کا اس وقت کی معروضی تاریخ کی کتابوں میں بہت کم ذکر ہے، محمد ﷺ یا تو کوئی تاریخی شخص نہیں تھا، یا پھر ایک شخص نہیں تھا بلکہ مھاجروں نے روم اور ایران فتح کرنے کے بعد اس شخصیت کو چند حقیقی شخصیات کی صفات، واقعات، اور اذکار کو ملا کر، اپنی کہانیوں میں پیدا کیا یا پھر اپنے محمد ﷺ نامی عرب سردار سے منسوب کر دیا، اور اس سے ان گنت سیاسی مقاصد کی تکمیل کی جو آج تک چلی آرہی ہے

ششم، محمد ﷺ کے دور میں نبوت کے دعوے دار بہت سے لوگ تھے، مثلاً مسلمہ بن حبیب، اسی طرح کاہن بھی بہت تھے، پیش گوئی کرنے والے عیسائی اور یہودی پادری بھی تھے، ان سب میں ایک قدر مشترک تھی اور وہ یہ دعویٰ کہ انکا کسی غیر مرئی قوت سے رابطہ ہے، ان میں سے ہر کوئی حمیتی اور توحیدی شاعری سے لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتا تھا، اور جب اسکے گروہ کا سائز بڑا ہو جاتا تھا تو دھونس دھمکی، یہاں تک کہ قتل و غارت اور جنگ و جدل کا استعمال بھی کیا جاتا تھا، جو گروہ ہار جاتا وہ اپنی ساری حمیتی اور توحیدی شاعری جیتنے والے کے حوالے کر دیتا، جس سے جیتنے والے کی حمیتی اور توحیدی شاعری کا حجم بڑھ جاتا، اس نبوت کے دعوے داروں، کاہنوں، پیش گو پادریوں کے جم غفیر میں محمد ﷺ، کچھ قابلیت، کچھ محنت، اور کچھ خوش قسمتی کی بنا پر، باقیوں سے آگے نکلنے میں، اور کافی زیادہ آگے نکلنے میں، کامیاب ہو گۓ
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
بت پرستی کی مخالفت کا معمہ بھی حل ہو گیا

او بھائی، مکہ، طائف، اور دیگر شہروں میں، بتوں کی عبادت گاہیں اصل میں سونے، چاندی، اور مال و دولت سے بھری تجوریاں تھیں، جہاں شہر کے تمام لوگوں کا پیسا دہائیوں نہیں، صدیوں سے اکٹھا کیا جارہا تھا

سنہ 630ء کے اوائل میں فتح مکہ ہوتی ہے، اور کعبہ کے سارے بت توڑ دیے جاتے ہیں، تا کہ؟ .... آئی سمجھ؟

اور سال ختم ہونے سے پہلے ہی ابو سفیان کو طائف فتح کرنے کیلئے سپہ سالار بنا دیا جاتا ہے، جہاں
اللّٰت کے بت خانے کو فارغ کر دیا جاتا ہے، اور ساتھ ہی طبری میں مزید کچھ ہدایت کا ذکر ہے کہ وہاں سے ملنے والے خزانے سے فلاں فلاں کا قرض اتار دینا

آئی سمجھ؟ ... کہ ابھی بھی نہیں؟


ترمیم: یہ پیسا اتنا تو نہیں تھا کہ عرب کے سارے معاشی مسائل ہو جاتے، اس کیلئے روم اور ایران پر چڑھائی کرنے کی ضرورت تھی، لیکن اتنا ضرور تھا کہ چند نوازے گۓ لوگ، یعنی کعبه کے متولی، امیر سے امیر تر ہو جاتے، اور اسی وجہ سے عام شہری غریب سے غریب تر ہوتا گیا، جس کا ذکر میں نے دو یا تین کمنٹ پہلے کیا ہے

ترمیم: تو بھائی محمد ﷺ نے احادیث کے بقول مبینہ سوشلزم یا کمیونزم کی طرز کا انقلاب لانے کی کوشش کی، اور یہ نیا نظام وصال کے بعد صرف تیس سال چل سکا

ترمیم: سواۓ اسکے کہ اپنی آل یعنی اہل بیت کو ایک خاص درجہ دے دیا، جس سے سمجھ آتی ہے کہ بنی ہاشم اور خاص طور پر بنی علی میں ہی خلافت و امامت رکھنے کی خواہش کی گئی ہو گی، اور پھر یہ بھی سمجھ آتی ہے کہ بنی امیہ کو اس سے اتنی تکلیف کیوں تھی، اور وہ اسلئے کہ یہ خالص سوشلزم نہیں بلکہ اقربا پروری کی ملاوٹ والا سوشلزم تھا، اگر خالص سوشلزم ہوتا تو شاید بنی امیہ کو اس سے اتنا زیادہ مسلہ نہ ہوتا

ترمیم: بنی ہاشم اور بنی علی اصل میں اقتدار چاہتے تھے کیونکہ یہ محمد ﷺ کی اگر وصیت نہیں تو خواہش ضرور تھی، بھائی اپنے سب پیروکاروں کو اہل بیت پر نچھاور ہو جانے کی بار بار بار بار تلقین کرنے کا کیا مطلب بنتا ہیں مجھے سمجھا دیں ذرا بڑی مہربانی ہو گی، بنی امیہ اسکو طاقت کی سیاست سمجھتے، اور وہ خود بھی طاقت کی سیاست کرنے کے ماہر تھے، اور کیپٹلزم کی سوچ کے لوگ تھے، ان دونوں گروہوں کے بیچ میں ابو بکر، عمر، اور کچھ حد تک عثمان، نے ایک بیچ کی راہ نکالنے کی کوشش کی، لیکن یہ حکمت عملی زیادہ دیر چل نہ سکی

ترمیم: اگر بنی امیہ اس اقربا پروری کی مخالفت نہ کرتے، تو آپ کے خیال میں بنی ہاشم نے اہل بیت کے درجے کا کوئی دنیاوی فائدہ نہیں اٹھانا تھا؟ اور سوشلزم کی طرز پر چلتے رہنا تھا جس میں بیت المال سے غریبوں اور ناداروں کی مدد کی جاتی؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ آج بنی ہاشم کون ہیں؟ شاہ اردن کا نام سنا ہے کبھی؟

ترمیم: ذرا اس بات کو ہضم کرنے کی کوشش کریں، آپ جب بھی درود پڑھتے ہیں تو آپ اس بندے پر درود بھیجتے ہیں، آپ نماز کے اندر اس بندے کو یاد کرتے ہیں، اور ایویں ہی یاد نہیں کرتے، آپ مسلمان ہی نہیں ہیں اگر اس کو نماز کے دوران یاد نہ کریں اور اس پر درود نہ بھیجیں، اس کی اپنی دولت بقول گوگل اس وقت 750 ملین ڈالر ہے، پورے خاندان کی دولت کتنی ہے، اور پوشیدہ دولت کتنی ہے، اسکا کوئی پتا نہیں

Obb9hwx.jpg
 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
محمد ﷺ کے صرف چار بچوں سے آگے نسل چلی، اور وہ بھی چاروں بیٹیاں، اور وہ بھی چاروں بعثت سے پہلے پیدا ہوئیں، وہ زمانہ جس کا مورخ اور محدث نہ ہونے کے برابر ذکر کرتا ہے، اس زمانے سے جس زمانے میں لوگ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفنا دیتے تھے، یعنی وہ زمانہ جس میں چھوٹی بچیوں کو مرنے سے بچانے کیلئے رازداری میں لےپالک لینا بہت آسان

نو یا گیارہ بیویاں اور مدینہ کے دس سال میں کوئی اولاد نہیں ہوئی، صرف ابراہیم کا ذکر آتا ہے بغیر زیادہ تفصیل کے جو ماریہ سے ہوا، جو کہ غلام تھیں

 
Last edited:

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
اللّٰت اور الله کی مماثلت

اللّٰت کعبہ کے بہت سے بتوں میں سے ایک بڑا بت تھا جسے خدا کی بیٹی سمجھا جاتا تھا

آپ نوٹ کریں کہ اس لفظ اور
الله کے لفظ میں کتنی مماثلت ہے، یہ مماثلت اور بڑھ جاتی ہے جب آپ ان دو الفاظ کا لکھائی کی بجاۓ بولی میں استعمال کرتے ہیں، اور ہم سب جانتے ہیں کہ جزیرہ نما عرب بنیادی طور پر ایک بولی کی زبان کا علاقہ تھا جہاں لکھائی کو زیادہ استعمال نہیں کیا جاتا تھا، اور نظمیں سننا سنانا، اور باتیں حفظ کرنا عربوں کا مشغلہ تھا

تو اپ
اللّٰت کا لفظ بولی میں لیں اور اس کو ایک انسان سے دوسرے انسان تک زبانی منتقل کرنا شروع کریں، اور میرے خیال میں یہی ہوا کہ اس لفظ کا آخری حرف ت بولی میں حذف ہو گیا اور الله بن گیا

اسی طرح قرآن میں جس جگہ پر
الله کا لفظ آیا ہے، یہ عین ممکن ہے کہ وہ نظمیں اصل میں اللّٰت کیلئے لکھی گئی ہوں اور پھر بعد میں نادانستہ یا دانستہ بت کے نام کو الله میں تبدیل کر دیا گیا ہو

xW7cSKt.png
 
Last edited:

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
اللّٰت اور الله کی مماثلت

اللّٰت کعبہ کے بہت سے بتوں میں سے ایک بڑا بت تھا جسے خدا کی بیٹی سمجھا جاتا تھا

آپ نوٹ کریں کہ اس لفظ اور
الله کے لفظ میں کتنی مماثلت ہے، یہ مماثلت اور بڑھ جاتی ہے جب آپ ان دو الفاظ کا لکھائی کی بجاۓ بولی میں استعمال کرتے ہیں، اور ہم سب جانتے ہیں کہ جزیرہ نما عرب بنیادی طور پر ایک بولی کی زبان کا علاقہ تھا جہاں لکھائی کو زیادہ استعمال نہیں کیا جاتا تھا، اور نظمیں سننا سنانا، اور باتیں حفظ کرنا عربوں کا مشغلہ تھا

تو اپ
اللّٰت کا لفظ بولی میں لیں اور اس کو ایک انسان سے دوسرے انسان تک زبانی منتقل کرنا شروع کریں، اور میرے خیال میں یہی ہوا کہ اس لفظ کا آخری حرف ت بولی میں حذف ہو گیا اور الله بن گیا

اسی طرح قرآن میں جس جگہ پر
الله کا لفظ آیا ہے، یہ عین ممکن ہے کہ وہ نظمیں اصل میں اللّٰت کیلئے لکھی گئی ہوں اور پھر بعد میں نادانستہ یا دانستہ بت کے نام کو الله میں تبدیل کر دیا گیا ہو


I did not have the time to read your thread but, what exactly are you trying to portray here?
 

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
I did not have the time to read your thread but, what exactly are you trying to portray here?

بھائی میں نے آپ سے پہلے بھی عرض کیا، کہ آپ کو کسی بات کی سمجھ نہیں آئی تو آپ پوچھ سکتے ہیں، آپ کیلئے تھریڈ کے کمنٹ پڑھنا فائدہ مند ہو گا

میں ایک طالب علم کی حیثیت سے معروضی تاریخ اور چودہ سو سال پہلے کے زمینی حقائق کی روشنی میں آغاز اسلام کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہا ہوں
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
بھائی میں نے آپ سے پہلے بھی عرض کیا، کہ آپ کو کسی بات کی سمجھ نہیں آئی تو آپ پوچھ سکتے ہیں، آپ کیلئے تھریڈ کے کمنٹ پڑھنا فائدہ مند ہو گا

میں ایک طالب علم کی حیثیت سے معروضی تاریخ اور چودہ سو سال پہلے کے زمینی حقائق کی روشنی میں آغاز اسلام کے بارے میں جاننے کی کوشش کر رہا ہوں

Tareekh sahih bhi ho sakti hay aur ghalt bhi.
Jo hamari Islam key history aur ahadith hain iss say tu bilkul aghaz Islam nahi samjh saktay.
May Quran ka aik talib ilm hoon. Quran may ayat hain jis say yeah sabat hota hay kay Nabi Kareem ka talluq around Dead sea aur Jordan kay ilaqaay say tha. Jab bhi may Quran key ayat post karta hoon phir bhi loogon ko samjh nahi aati kiyonkay majority preconceived notion aur blind following may doobay huay hain.
 

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
Tareekh sahih bhi ho sakti hay aur ghalt bhi.
Jo hamari Islam key history aur ahadith hain iss say tu bilkul aghaz Islam nahi samjh saktay.
May Quran ka aik talib ilm hoon. Quran may ayat hain jis say yeah sabat hota hay kay Nabi Kareem ka talluq around Dead sea aur Jordan kay ilaqaay say tha. Jab bhi may Quran key ayat post karta hoon phir bhi loogon ko samjh nahi aati kiyonkay majority preconceived notion aur blind following may doobay huay hain.
بھائی میں نے اس بترا والے بیانیے کے بارے میں بھی سرسری طور پر سنا ہے لیکن مجھے قرآن کی ان آیات کا نہیں پتا جن میں اس بات کا سراغ ملتا ہے، اگر آپ شیر کرنا چاہیں تو ضرور کریں، میرے علم میں اضافہ ہی ہوگا، شکریہ
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
بھائی میں نے اس بترا والے بیانیے کے بارے میں بھی سرسری طور پر سنا ہے لیکن مجھے قرآن کی ان آیات کا نہیں پتا جن میں اس بات کا سراغ ملتا ہے، اگر آپ شیر کرنا چاہیں تو ضرور کریں، میرے علم میں اضافہ ہی ہوگا، شکریہ
37:133-138 And certainly, Lot was one of the messengers; when We saved him and all his people, except the incapable ones among those lagging behind (some of Lot’s people tarried); then, We “destroyed” the rest (who didn’t depart); and you (Oh! Prophet), pass by their ruins in the morning; and in the night. Do you not understand?

11:89 “And, O my people, let not your dispute with me drive you into what befell the people of Noah, or the people of Hud or the people of Saleh: and (note that) the people of Lot lived not very far from you!”
A verse from the Quran does give room for a lot of thought.
 

mpyevkiq

Voter (50+ posts)
37:133-138 And certainly, Lot was one of the messengers; when We saved him and all his people, except the incapable ones among those lagging behind (some of Lot’s people tarried); then, We “destroyed” the rest (who didn’t depart); and you (Oh! Prophet), pass by their ruins in the morning; and in the night. Do you not understand?

11:89 “And, O my people, let not your dispute with me drive you into what befell the people of Noah, or the people of Hud or the people of Saleh: and (note that) the people of Lot lived not very far from you!”
A verse from the Quran does give room for a lot of thought.
بھائی یہ ایک دلچسپ زاویہ ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس ممکنات سے آغاز اسلام کی تصویر کی وضاحت میں اضافہ ہوتا ہے یا الٹا زیادہ سوال اٹھنے شروع ہو جاتے ہیں

مختصر سی گوگل سرچ سے لگتا ہے کہ قوم لوط کے اصل تاریخی مقام کے بارے میں اندازے ہی ہیں نہ کہ ٹھوس شواہد، اور قوم لوط کا واقعہ بذات خود ایک مذہبی قصہ زیادہ ہے اور تاریخی واقعہ کم، اس کا ذکر قرآن سے پہلے بائبل میں ملے گا نہ کہ تاریخ کی کتابوں میں

البتہ ان آیات سے میرے اس بیانیے کو مزید تقویت ملتی ہے کہ قرآن مختلف عرب علاقوں کی شاعری کا مجموعہ ہے، تو یہ آیات پھر ان نظموں کا حصّہ ہیں جو مغربی اردن اور جنوبی فلسطین میں ساتویں صدی عیسوی کے آغاز میں زبان زد عام تھیں، نوٹ کریں کہ اس بیانیے کے صحیح ہونے کیلئے یہ شرط نہیں ہے کہ ہمیں قوم لوط کے اصل مقام کا علم ہو، صرف اتنا کافی ہے کہ یہ نظمیں بائبل کے واقعات کی روشنی میں بنائی گئیں
 
Last edited: