میرے پیارے چودھری نثار صاحب

ustadjejanab

Chief Minister (5k+ posts)
تاریخ سے بس یہی سیکھا ہے کہ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھنا .........اس دور میں شاید حسد اور خوشامد نامی امراض دریافت نہیں ھوے تھے ورنہ یقناً حکیم لقمان صاحب وہم کے ساتھ ساتھ ان کے نا قابل علاج ہونے کا فتویٰ بھی جاری فرما دیتے ....دربار عالیہ راے ونڈ شریف کے ملنگ پچھلے کچھ دنوں سے عجیب اضطراب و بے چینی کا شکار ہیں ،،،،،،،،،،،،،لنگر کی فراوانی میں نہ کوئی رکاوٹ ،،سردائی کی سپلائی میں نہ کوئی تساہل....گوجرانوالہ سے چڑوں کی دستیابی میں بھی کوئی تعطل نہ آیا لیکن نا معلوم کیا وجہ کہ ملنگوں کی بے قراری کو قرار نہیں ....خود سمجھ لیں تو تجھ کو سمجھائیں،،،کیوں طبیعت اداس رہتی ھے ،،،،،نہ ان کی اداؤں میں وہ پہلے سا جمال ،،،،نہ دھمالوں میں وہ پہلے سا کمال ،،،پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی ....مرشد کے بڑے خلیفہ کی حالت بلکل اس آخری مرغی جیسی ھے جو پنجرے میں اکیلی رہ گئی ہو اور اسے یقین هو کہ چھری اب آئی کہ تب آئی ......دربار میں موجود عینی شاہدین کے مطابق خلیفہ صاحب هیر وارث شاہ گاتے گاتے بیچ میں تو میرا امپلی فائر گنگنانا شروع کر دیتے ہیں ...منہ سے رکشا سٹارٹ کرنے کی آواز نکالتے ہیں اور پھر سب سے پوچھنا شروع هو جاتے ہیں " کس کس نے سمن آباد جانا ھے ، چلو میں چھوڑ آتا ھوں"................................................اس حواس باختی کی وجوہات کوئی اتنی بھی مبہم نہیں ،،،غور کرنے والوں کے لئے نشانیاں بہت،،،،پنجاب اور سرحد کے مضبوط قلعوں میں پڑے شگاف میلوں دور سے نظر آ رھے ہیں ،،،کچھ اپنی نادانیاں ،،،کچھ شھر کے لوگ،،،،،،،،، ،،گلہ کریں تو کریں کس سے ،،،،،،جاننے والے جانتے ہیں کہ اس گھر میں آگ اپنے ھی چراغ لگاتے رھے ہیں ،،کبھی سیف الرحمن کی شکل میں اور ابھی چکری کے شہزادے کی عقل مندی کے طفیل ،،،،سیانے کہتے ہیں کہ جوش میں هوش نہ گنواؤ لیکن وہ شہزادہ اور گھوڑا ھی کیا جو منہ زور نہ هو ،،،،یہ دوسری بات ھے کے آخری دولّتی یہ پیر صاحب کے منہ پر مارے گا ،،،،پیر صاحب کے شوق بھی نوابوں والے ہیں نہ ،،کیا کیا جاے،،،خوشامد کے بغیر گفتگو بد مزہ سی لگتی ھے جیسے بغیر نمک کے چاول کھا رھے ھوں،,،ورنہ وفاداری میں جو کمال ہاشمی صاحب نے دکھایا وہ کتابوں میں ھی پڑھا تھا ،،،لیکن ہاشمی صاحب ٹھہرے اصولوں کےقائل لہذا کافی عرصہ سے وہ پچھلی بنچوں پر بیٹھے ھوے ہیں ،،انھیں کیا معلوم خوشامد نامی پھکی کتنی زود اثر ھے ،،،سائڈ افیکٹس کی پیر صاحب کو قطعی فکر نہیں .....ان پھکیوں کے زیر اثر مرشد نے خلیفے کو تھپکی دی اور موصوف نے اپنے علم و دانش اور فہم و فراست کی پوٹلیاں کھولی تو اہلیان دربار عش عش کر اٹھے ،،،،،،اتنی ذہانت کسی ایک شخص میں اکٹھی نہیں دیکھی ،،هو ھی نہیں سکتا ،،لگتا ھے کسی نے کوٹ کوٹ کر بھری ھے ،،،پتہ نہیں کس نے ..................ایجنسیوں کے حوالے دینے سے پہلے سہیل وڑائچ کی کتاب غدّار کون کا صفحہ نمبر 64 اور 65 پڑھ لیتے تو انھیں پتہ چل جاتا کہ ان کے مرشد کا اس سلسلہ میں حساب کتاب کیا کہتا ھے....راتوں کی تنہائی میں ملاقاتیں کرنے والے اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکتے ،،،،اپنی اداؤں پر ذرا سی توجہ کی درخواست ورنہ بتانے کو باتیں بہت ،،،،سنانے کو فسانے بے شمار ،،،،کہاں تک سنو گے ،،،،،خواتین کا ذکر کرنے کی تہذیب اجازت نہیں دیتی ورنہ میاں صاحب کے شوق تو محلے کے نائی سے لے کر تندور کی مائی تک کے علم میں ہیں ،،،،ہمارے ہاں مسلہ یہ ھے کے ساری رات مجرا دیکھنے والے لوگ صبح اس مجرے کے خلاف نکلنے والے جلوس میں سب سے آگے شامل ہوتے ہیں اور با آواز بلند نعرے لگا رھے ہوتے ہیں کہ " کنجر خانہ بند کرو "،،،،،،،،،میرا تو ان موصوف کو مشورہ یہی ھے کہ کسی انتہائی ضروری کام کے بہانے چٹھی کی درخواست دیں اور کسی پر فضا مقام پر جا کر کچھ ہوا شوا لگوائیں تا کہ ذہنی بے کلی سے چھٹکارا ملے ،، اس طرح کی کیفیت میں 110 سالہ سنیاسی باوا عرف سائیں کوڈے شاہ کے نسخے بھی کافی تیر بہدف ثابت ہوتے ہیں ،،،آزمائش شرط ھے ،،،،مزید ورائٹی کے لئے اوپر کی منزل پر تشریف لے جائیں ،،،طریقے بھت اور ترکیبیں بے شمار لیکن کیا هو اس کمبخت حسد کا جس کا علاج ناممکن ،،،،،،بات پھر وہیں آ کہ ٹھہرتی ھے ھے تاریخ سے بس یہی سیکھا کہ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھنا .......................................................................
 
Last edited by a moderator:

lotaa

Minister (2k+ posts)
is dafa pori salary milay gi aap ko ustad jee don,t vorry,
تاریخ سے بس یہی سیکھا ہے کہ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھنا .........اس دور میں شاید حسد اور خوشامد نامی امراض دریافت نہیں ھوے تھے ورنہ یقناً حکیم لقمان صاحب وہم کے ساتھ ساتھ ان کے نا قابل علاج ہونے کا فتویٰ بھی جاری فرما دیتے ....دربار عالیہ راے ونڈ شریف کے ملنگ پچھلے کچھ دنوں سے عجیب اضطراب و بے چینی کا شکار ہیں ،،،،،،،،،،،،،لنگر کی فراوانی میں نہ کوئی رکاوٹ ،،سردائی کی سپلائی میں نہ کوئی تساہل....گوجرانوالہ سے چڑوں کی دستیابی میں بھی کوئی تعطل نہ آیا لیکن نا معلوم کیا وجہ کہ ملنگوں کی بے قراری کو قرار نہیں ....خود سمجھ لیں تو تجھ کو سمجھائیں،،،کیوں طبیعت اداس رہتی ھے ،،،،،نہ ان کی اداؤں میں وہ پہلے سا جمال ،،،،نہ دھمالوں میں وہ پہلے سا کمال ،،،پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی ....مرشد کے بڑے خلیفہ کی حالت بلکل اس آخری مرغی جیسی ھے جو پنجرے میں اکیلی رہ گئی ہو اور اسے یقین هو کہ چھری اب آئی کہ تب آئی ......دربار میں موجود عینی شاہدین کے مطابق خلیفہ صاحب هیر وارث شاہ گاتے گاتے بیچ میں تو میرا امپلی فائر گنگنانا شروع کر دیتے ہیں ...منہ سے رکشا سٹارٹ کرنے کی آواز نکالتے ہیں اور پھر سب سے پوچھنا شروع هو جاتے ہیں " کس کس نے سمن آباد جانا ھے ، چلو میں چھوڑ آتا ھوں"................................................اس حواس باختی کی وجوہات کوئی اتنی بھی مبہم نہیں ،،،غور کرنے والوں کے لئے نشانیاں بہت،،،،پنجاب اور سرحد کے مضبوط قلعوں میں پڑے شگاف میلوں دور سے نظر آ رھے ہیں ،،،کچھ اپنی نادانیاں ،،،کچھ شھر کے لوگ،،،،،،،،، ،،گلہ کریں تو کریں کس سے ،،،،،،جاننے والے جانتے ہیں کہ اس گھر میں آگ اپنے ھی چراغ لگاتے رھے ہیں ،،کبھی سیف الرحمن کی شکل میں اور ابھی چکری کے شہزادے کی عقل مندی کے طفیل ،،،،سیانے کہتے ہیں کہ جوش میں هوش نہ گنواؤ لیکن وہ شہزادہ اور گھوڑا ھی کیا جو منہ زور نہ هو ،،،،یہ دوسری بات ھے کے آخری دولّتی یہ پیر صاحب کے منہ پر مارے گا ،،،،پیر صاحب کے شوق بھی نوابوں والے ہیں نہ ،،کیا کیا جاے،،،خوشامد کے بغیر گفتگو بد مزہ سی لگتی ھے جیسے بغیر نمک کے چاول کھا رھے ھوں،,،ورنہ وفاداری میں جو کمال ہاشمی صاحب نے دکھایا وہ کتابوں میں ھی پڑھا تھا ،،،لیکن ہاشمی صاحب ٹھہرے اصولوں کےقائل لہذا کافی عرصہ سے وہ پچھلی بنچوں پر بیٹھے ھوے ہیں ،،انھیں کیا معلوم خوشامد نامی پھکی کتنی زود اثر ھے ،،،سائڈ افیکٹس کی پیر صاحب کو قطعی فکر نہیں .....ان پھکیوں کے زیر اثر مرشد نے خلیفے کو تھپکی دی اور موصوف نے اپنے علم و دانش اور فہم و فراست کی پوٹلیاں کھولی تو اہلیان دربار عش عش کر اٹھے ،،،،،،اتنی ذہانت کسی ایک شخص میں اکٹھی نہیں دیکھی ،،هو ھی نہیں سکتا ،،لگتا ھے کسی نے کوٹ کوٹ کر بھری ھے ،،،پتہ نہیں کس نے ..................ایجنسیوں کے حوالے دینے سے پہلے سہیل وڑائچ کی کتاب غدّار کون کا صفحہ نمبر 64 اور 65 پڑھ لیتے تو انھیں پتہ چل جاتا کہ ان کے مرشد کا اس سلسلہ میں حساب کتاب کیا کہتا ھے....راتوں کی تنہائی میں ملاقاتیں کرنے والے اپنے گریبان میں کیوں نہیں جھانکتے ،،،،اپنی اداؤں پر ذرا سی توجہ کی درخواست ورنہ بتانے کو باتیں بہت ،،،،سنانے کو فسانے بے شمار ،،،،کہاں تک سنو گے ،،،،،خواتین کا ذکر کرنے کی تہذیب اجازت نہیں دیتی ورنہ میاں صاحب کے شوق تو محلے کے نائی سے لے کر تندور کی مائی تک کے علم میں ہیں ،،،،ہمارے ہاں مسلہ یہ ھے کے ساری رات مجرا دیکھنے والے لوگ صبح اس مجرے کے خلاف نکلنے والے جلوس میں سب سے آگے شامل ہوتے ہیں اور با آواز بلند نعرے لگا رھے ہوتے ہیں کہ " کنجر خانہ بند کرو "،،،،،،،،،میرا تو ان موصوف کو مشورہ یہی ھے کہ کسی انتہائی ضروری کام کے بہانے چٹھی کی درخواست دیں اور کسی پر فضا مقام پر جا کر کچھ ہوا شوا لگوائیں تا کہ ذہنی بے کلی سے چھٹکارا ملے ،، اس طرح کی کیفیت میں 110 سالہ سنیاسی باوا عرف سائیں کوڈے شاہ کے نسخے بھی کافی تیر بہدف ثابت ہوتے ہیں ،،،آزمائش شرط ھے ،،،،مزید ورائٹی کے لئے اوپر کی منزل پر تشریف لے جائیں ،،،طریقے بھت اور ترکیبیں بے شمار لیکن کیا هو اس کمبخت حسد کا جس کا علاج ناممکن ،،،،،،بات پھر وہیں آ کہ ٹھہرتی ھے ھے تاریخ سے بس یہی سیکھا کہ تاریخ سے کچھ نہیں سیکھنا .......................................................................