نواز شریف کی لندن سے وطن واپسی،ن لیگی قانونی ٹیم نے حکمت عملی بنالی

nawadas.png


نواز شریف کی واپسی، لیگی قانونی ٹیم کی حکمت عملی تیار

مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کی وطن واپسی پر انہیں جیل جانے سے بچانے کیلئے پارٹی کی قانونی ٹیم کی جانب سے حکمت عملی تیار کر لی گئی

ذرائع کے مطابق نوازشریف کی جانب سے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا جائیگا اور اس حوالے سے درخواستوں کا ابتدائی مسودہ بھی تیار کرلیا گیا ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ قائد ن لیگ کی جانب سے 48گھنٹے میں درخواست دائر کئے جانے کا امکان ہے اور دونوں ریفرنسز میں درخواستوں کا ابتدائی مسودہ تیار کرلیا گیا ہے تاہم، مختلف قانونی نکات پر غور کے بعد منگل تک درخواستوں کا مسودہ فائنل کیا جائیگا۔

دوسری جانب قانونی ماہرین کہتے ہیں تین مرتبہ وزیراعظم پاکستان رہنے والے نواز شریف وطن واپس لوٹیں گے تو ان کا سٹیٹس سزا یافتہ مجرم کا ہو گا کیونکہ انہیں دو نیب کیسز میں سزا معطل کرانی اور احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کے فیصلوں کے خلاف اپیل دوبارہ دائر کرنی پڑے گی۔

اس سے قبل عدالتی مفرور ہونے کے باعث اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی سزا کالعدم قرار دے کر باعزت بری کرنے کی اپیلیں عدم پیروی پر خارج کردی تھیں۔

نواز شریف کو دونوں کیسز میں سزا معطل کرانی پڑے گی اور اشتہاری ہونے کے باعث عدالت پہنچنے تک پروٹیکشن لینے کے لیے قانونی آپشن بھی استعمال کرنا ہوگی۔

نیاز اللہ نیازی اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل رہ چکے ہیں اور ان کا اس حوالے سے کہنا ہےکہ ‘نواز شریف کی سزا معطل کرکے ضمانت دی گئی تھی جو ختم ہوگئی، اشتہاری ہونے پر سزا بحال ہو چکی ہے اور اب عدالت اس وقت تک کوئی درخواست نہیں سن سکتی جب تک اشتہاری مجرم عدالت کے سامنے سرینڈر نہ کر دے، نواز شریف کو جیل جانے کے بعد ضمانت کے لیے رجوع کرنا پڑے گا اور پھر عدالت انہیں کوئی ریلیف دے سکتی ہے ۔

سابق ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہا کہ ’نواز شریف کے وطن واپس پہنچنے پر انہیں عدالت تک پہنچنے کی پروٹیکشن مل سکتی ہے، اشتہاری قرار دے کر وارنٹ جاری کرنے کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ ملزم یا مجرم کو پکڑ کر قانون کے سامنے سرینڈر کرایا جائے، اگر کوئی اشتہاری خود سرینڈر کرنا چاہتا ہے تو عدالت اس کو یہ موقع فراہم کرتی ہے، نواز شریف کو ہائیکورٹ میں سزا کے خلاف اپیل بحال کرانے کے ساتھ سزا معطلی کی درخواست دائر کرنا ہوگی تاکہ اس پر جلد فیصلہ ہو سکے، اگر عدالت کے سامنے سرینڈر کرنے کے بعد بھی سزا معطل نہیں ہوتی تو پھر انہیں جیل جانا پڑ سکتا ہے۔

احتساب عدالت نے نواز شریف کو ایون فیلڈ اور العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سزا سنائی تھی جسے ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا، ہائیکورٹ نے سزا معطل کر دی تھی اور سزا کے خلاف اپیل زیر سماعت تھی جب وہ علاج کے لیے بیرون ملک گئے مگر پھر اپیلوں کی پیروی کے لیے واپس نہ آئے۔
نواز شریف نے بیرون ملک روانگی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ کے بجائے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر انہیں چار ہفتوں کے لیے بیرون ملک روانہ ہونے کی اجازت دی گئی تھی جب کہ شہباز شریف نے بھی اپنے بھائی کی صحتیابی پر وطن واپس آنے کی انڈرٹیکنگ عدالت میں جمع کرائی تھی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی غیر موجودگی میں اپیلیں غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنے کے بجائے انہیں نان پراسیکیوشن یعنی عدم پیروی پر خارج کیا اور اس سے قبل نواز شریف کو عدالتی مفرور اور اشتہاری قرار دیتے ہوئے کہا کہ اپیلیں میرٹس پر دلائل سن کر نہیں بلکہ ٹیکنیکل گراؤنڈ یعنی عدم پیروی پر خارج کی جا رہی ہیں، اپیل کنندہ جب واپس آئے تو وہ سزا کے خلاف اپیلیں دوبارہ دائر کرنے کا حق رکھتا ہے۔