ڈار شاہد خاقان کےجہاز میں گئے اورشہباز شریف کے جہاز میں واپس آئے،شبلی فراز

4shiblframzlngmarch.jpg

تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شبلی فراز نے کہا ہے کہ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ نواز شریف پاکستان آتے ہیں یا نہیں، ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ وہ پاکستان کے قانون سے فرار ہیں۔

ہم نیوز کے پروگرام بریکنگ پوائنٹ ود مالک میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ملک پر اشتہاری اور کرپٹ لوگ قابض ہوئے ہیں، یہاں بڑوں کیلئے الگ اور عام آدمی کیلئے الگ قانون ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ عمران خان کی آرمی چیف سے ملاقات ہوئی ہے یا نہیں۔ ہم ایک سیاسی جماعت ہیں اسٹیبلشمنٹ سمیت سب سے بات کرتے ہیں۔

لانگ مارچ کی کال سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس تاریخ کا تو مجھے بھی نہیں پتا لیکن میں عمران خان کے قریب رہتا ہوں تو اس لیے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں عوام کے لئے ان چوروں اور ڈاکوؤں اور لٹیروں سے ملک کو آزاد کرانا بہت ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار شاہد خاقان کے جہاز میں گئے اور شہباز شریف کے جہاز میں واپس آئے، الیکشن کی تاریخ کے اعلان کے بعد ہم ساری چیزوں پر ان کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں۔


انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام ہمارے پیچھے کھڑے ہیں، ہم ان کی طرح الیکشن سے نہیں بھاگیں گے، اس ملک میں دن کو رات اور رات کو دن بنایا جاتا ہے۔
 

samisam

Chief Minister (5k+ posts)
کیونکہ یہ گشتی کا بچہ حرام کا نطفہ فراڈیا سائکل کے پنکچر لگانے والا کنجر حرامی پکا حرام زادہ ہے اس لئے ایک حرام زادے کے جہاز میں بھاگا دوسرے حرام زادے کے جہاز میں واپس آیا
 

samisam

Chief Minister (5k+ posts)
ایک زمانہ تھا کہ بخشش ہوٹل کے بیروں اور چپڑاسیوں کے لئے مخصوص تھی۔نواز شریف سیاست میں آیا تو بخشش کا معیار بہت بلند ہو گیا۔سپریم کورٹ کے جسٹس ر رفیق تارڑ جو جسٹس سجاد علی شاہ کو نکلوانے کے ماسٹر مائنڈ تھے انہیں اس خدمت کے عوض صدارت بخشش میں ملی

جسٹس سعید الزماں صدیقی کی بخشش تو اس قدر بھاری تھی کہ بخشش میں ملی سندھ کی گورنری کا حلف اٹھاتے اٹھاتے گرے اور اللہ کو پیارے ہو گئے۔نواز شریف کو بحال کرنے والے جسٹس نسیم حسن شاہ کو فیصلے سے چند روز پہلے یونان کے بینک میں بیس کروڑ روپے کی بخشش منتقل ہوئی۔ بے نظیر نے اس بخشش کو چمک کا عنوان دیا۔بعد از ریٹائرمنٹ مزید بخشش میں کرکٹ بورڈ کی چئیرمینی ملی۔جسٹس ناصرآلملک کو ایک فیصلہ حق میں سنانے کی بخشش عبوری وزیر اعظم بنا کر دی گئی۔

جسٹس ملک قیوم کے بھائی پرویز ملک, بھابھی شائستہ ملک اور بیٹے علی پرویز ملک کو قومی اسمبلی کی نشستیں بخشش میں دی گئیں۔چیف جسٹس افتخار چودھری کے بیٹے ارسلان کو ریکوڈک کی چئیرمینی بخشش میں دی گئی, جسٹس خلیل الرحمن خان رمدے کے بیٹے کو بخشش میں ایڈوکیٹ جرنل کم عمری میں بنایا گیا۔جسٹس ریاض کیانی کو انتخابات 2013میں 35پنکچر لگانے کی خدمت پر مریم کیانی کو گریڈ اٹھارہ میں ہی ایڈیشنل ڈائیریکٹر جنرل بنا دیا گیا۔یہ چند جج حضرات کی بخشیش تھی۔

صحافیوں کی فہرست بہت لمبی ہے۔ عرفان صدیقی کو وفاداری پر مشیر کی سیٹ بخشش میں ملی, عطاالحق قاسمی کو قصیدے لکھنے پر سفارت کی بخشش ملی۔ بعد ازاں چیئرمین پی ٹی وی کی بخشش ملی, مشتاق منہاس کو آزاد کشمیر میں وزارت اطلاعات بخشش میں ملی, محمد مالک کو گریڈ بائیس کی پی ٹی وی چیئرمینی بخشش میں ملی, لاہور میں لبرٹی کے سامنے پٹرول پمپ 15ہزار سالانہ لیز پر مجیب الرحمن شامی کو بخشش میں ملا۔ عدالت نے 22 پٹرول پمپس کی لیز منسوخ کر کے نیلامی کا حکم دیا۔نیلامی میں صرف لبرٹی کا پٹرول پمپ چوبیس لاکھ روپے ماہانہ پر لیز ہوا۔باقی کے بھی سارے پٹرول پمپ میڈیا مالکان کے فرنٹ مینوں کے نام تھے۔

بے چارہ میڈیا بہت تنگدست ہوا۔ نجم سیٹھی کو عبوری وزارت اعلی اور بعد ازاں کرکٹ بورڈ کی چئیرمینی بخشش میں ملی۔ سلیم صافی, جاوید چوہدری, حامد میر, عارف نظامی, حبیب اکرم, امتیاز عالم وغیرہ وغیرہ کی بخشش پلاٹوں, لفافوں,بیرونی دوروں, حج و عمروں اور عزیز و اقارب کے لئے چمکدار نوکریوں کی شکل میں طویل فہرست ہے۔

ملک ریاض بھی بخشش کے معاملے میں بہت فراخ دل تھا۔خاص طور پر پلاٹ اور چیکوں کی فہرست تو پہلے بھی سوشل میڈیا پر لیک ہو چکی ہے, نواز شریف کو ایل ڈی اے سے جوہر ٹاون میں پانچ سو پلاٹ بیوہ کوٹے کے لئے دئے گئے۔ بعد ازاں پتہ لگا کہ منظوری پانچ سو پلاٹوں کی تھی۔بائیس سو پلاٹ الاٹ ہو گئے۔ ہر صحافی کے خاندان کی بیوہ اور کشمیری برداری کی ہر بیوہ پلاٹ کی نعمت سے مالا مال ہو گئیں۔یہ پانچ مرلے کا پلاٹ ایک کروڑ روپے کا ہے

جسٹس اطہر من اللہ کی بہن کے نام لندن میں نواز شریف کی ضمانت سے پہلے ایک فلیٹ منتقل ہوا تھا۔
مولانا فضل الرحمن کو بخشش میں کشمیر کمیٹی کی چئیرمینی اور ڈیزل کے پرمٹ ملے, باقی مولویوں کی فہرست بھی بڑی طویل ہے۔

ضروری نوٹ۔

نواز شریف نے یہ ساری بخشش اپنی جیب سے نہیں بلکہ سرکاری خزانے سے دی, بیت المال سے ہر سال کروڑوں روپے نکلوا کر عید بقرعید پر غریب صحافیوں اور گریڈ سترہ سے اوپر مستحق سرکاری افسران کو عیدی کی شکل میں دی جاتی تھی۔ بیت المال میں یہ رقم زکواۃ کٹوتی سے حاصل ہوتی تھی۔

امتیاز سبزواری