کراچی میں گستاخی صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کی لائیو کوریج

Status
Not open for further replies.

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
عشرہ محرم میں سیاہ لباس پہننا ممنوع ہے

مذہب مہذب اہل سنت و جماعت میں علی العموم سیاہ لباس پہننا محض مباح ہے ۔ نہ تو اس پر کسی قسم کا ثواب مرتب ہوتا ہے ، نہ گناہ ۔ البتہ ماتم کی غرض سے سیاہ کپڑے پہننا شرعا ضرور ممنوع ہے ۔ شیعہ اثناء عشریہ کے مذہب میں ماتم کا موقع ہو یا نہ ، ہر حال میں سیاہ لباس سخت گناہ و ممنوع و حرام ہے ۔ پھر اسے ثواب جاننا بالکل الٹی گنگا بہانا اور شیعہ مذہب کے مطابق ڈبل گناہ کا مرتکب ہوتا ہے ۔ چنانچہ شیعہ لٹریچر کی انتہائی مستند کتب سے دلائل ملاحظہ ہوں ۔

حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : لا تلبسوا لباس اعدائی ۔
ترجمہ : میرے دشمنوں کا لباس مت پہنو اور میرے دشمنوں کے کھانے مت کھائو اور میرے دشمنوں کی راہوں پر مت چلو، کیونکہ پھر تم بھی میرے دشمن بن جاؤ گے جیسا کہ وہ میرے دشمن ہیں۔ اس کتاب کا مصنف (شیخ صدوق شیعی) کہتا ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دشمنوں کا لباس ، سیاہ لباس ہے ۔ (عیون اخبار الرضا، شیخ صدوق باب 30، الاخبار المنشور حدیث 51،چشتی)

شیعہ حضرات کے یہی صدوق رقم طراز ہیں : حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ : لا تلبسوا السواد فانہ لباس فرعون ۔
ترجمہ : سیاہ لباس نہ پہنا کرو کیونکہ سیاہ لباس فرعون کا لباس ہے ۔ (من لایحضرہ الفقیہ، شیخ صدوق باب یصلی فیہ من الثیلب حدیث 17)

مشہور شیعہ محدث جعفر محمد بن یعقوب کلینی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق نے فرمایا : انہ لباس اہل النار ۔
ترجمہ : بے شک وہ (سیاہ لباس) جہنمیوں کا لباس ہے ۔ (الکافی کلینی کتاب الزی والتجمیل باب لباس السواد)


شیعوں کے مشہور محدث شیخ صدوق لکھتے ہیں کہ : امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے سیاہ ٹوپی پہن کر نماز پڑھنے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا : لاتصل فیہا فانہا لباس اہل النار ۔
ترجمہ : سیاہ ٹوپی میں نماز مت پڑھو بے شک وہ (سیاہ لباس) جہنمیوں کا لباس ہے ۔ (من لایحضرہ الفقیہ باب ما یصلی فیہ حدیث 19765، حلیۃ المتقین ملا باقر مجلسی باب اول در لباس پوشیدن فصل چہارم در بیان رنگہائے)
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
کربلا جانے والے اہل بیت کی تعداد کیا تھی ؟

حضرت امام حسین کے تین صاحبزادے (۱) علی اوسط امام زین العابدین (۲) علی اکبر (۳) علی اصغر اور ایک بیٹی حصرت سکینہ جن کی عمر سات سال تھی ۔ دو بیویاں بھی ہمراہ تھیں حضرت شہربانو اور علی اصغر کی والدہ حضرت امام حسن کے چار صاحبزادے (۱) حضرت قاسم (۲) حضرت عبد ﷲ (۳) حضرت ابوبکر (۴) حضرت عمر کربلا میں شہید ہوئے ۔
حضرت علی کے پانچ (۱) حضرت عباس (۲) حضرت عثمان (۳) حضرت عبد ﷲ (۴) حضرت جعفر (۵) حضرت محمد اصغر (ابوبکر) رضی اﷲ عنہم
حضرت علی کی کل اولاد (۲۷) ہیں، ان میں سے پانچ کربلا میں شہید ہوئے ۔
(کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ 440/1،چشتی)
حضرت عقیل کے (۴) فرزندوں سے حضرت امام مسلم پہلے ہی شہید ہوچکے تھے اور تین کربلا میں شہید ہوئے (۲) حضرت عبد ﷲ (۳) حضرت عبدالرحمن (۴) حضرت جعفر رضی ﷲ عنہم ۔
حضرت زینب امام حسین کی بہن کے دو بیٹے عون اور محمد رضی ﷲ عنہم
ان کے والد کا نام حضرت عبد ﷲ بن جعفر رضی ﷲ عنہما کربلا میں شہید ہوئے ۔ اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم میں سے کل سترہ افراد آپ کی ساتھ کربلا میں شہید ہوئے ۔ (سوانح کربلا، طبری خطبات محرم جلال الدین امجدی، ص 378)

شیعہ نہ اہل بیت کو مانتے ہیں اور نہ شہداء کربلا کو ، حضرت امام حسن کے صرف ایک بیٹے حضرت قاسم کا نام لیتے ہیں ۔ حضرت عبد ﷲ ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہم تین کا نام نہیں لیتے ۔ اگر وہ شہداء کربلا کا نام لے لیں تو ان کا عقیدہ ختم ہوجاتا ہے کہ اہل بیت کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پیار تھا۔ اس لئے انہوں نے اپنی اولاد کے نام خلفائے راشدین کے نام پر رکھے ۔ اہل سنت چاروں کا نام لیتے تو حقیقت میں شہداء کربلا کو ماننے والے سنی ہیں ، شیعہ ان کے منکر ہیں ۔
شیعہ حضرت علی کی اولاد کے بھی منکر ہیں ۔ پانچ شہداء کربلا میں صرف ایک کا نام لیتے ہیں ۔ حضرت عباس کا ، ان کا علم بھی لگاتے ہیں ، باقی چار کا نام تک نہیں لیتے حالانکہ حضرت عباس کے حضرت عثمان ، حضرت عبد ﷲ اور حضرت جعفر کے سگے بھائی ہیں ۔ ان کی والدہ کا نام ام البنین بنت حرام ہے اور حضرت محمد اصغر (ابوبکر) بن علی کا نام بھی نہیں لیتے ان کی والدہ کا نام لیلی بنت مسعود تھا تو شہداء کربلا اور اہل بیت کا منکر کون اور محب کون ؟
شیعہ حضرت امام حسین کی اولاد کو امام مانتے ہیں جو کربلا میں شہید بھی نہیں ہوئے اور آپ کے سگے بھائی حضرت امام حسن کی اولاد کو امام نہیں مانتے جو کربلا میں شہید ہوئے ہیں ۔ کتنی ناانصافی ہے اور حضرت علی کی اولاد کو بھی امام نہیں مانتے جو کربلا میں شہید ہوئے ہیں ۔
اہل بیت کی تین قسمیں ہیں (۱) اہل بیت سکونت یعنی ازواج (۲) اہل بیت ولادت (۳) اہل بیت نسب پہلی قسم اہل بیت سکونت یعنی (۱۱) ازواج میں سے صرف ایک زوجہ حضرت خدیجہ کو مانتے ہیں ۔ باقی سب کا انکار کرتے ہیں بلکہ ان کو گالیاں دیتے ہیں حالانکہ قرآن نے ان کو اہل بیت اور مومنوں کی ماں فرمایا ہے ۔ اہل سنت سب کو مانتے ہیں ۔
دوسری قسم اہل بیت ولادت چار بیٹیوں میں سے صرف ایک بیٹی کو مانتے ہیں لہذا اہل بیت کے منکر ہوئے بلکہ یہ حضرت علی کی بیویوں کے بھی منکر ہیں ۔ حضرت علی کی ایک بیوی کا نام امامہ تھا ۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی نواسی تھیں ۔ حضرت زینب کی بیٹی اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی صرف ایک ہی بیٹی تھی ۔ حضرت فاطمہ تو پھر حضرت علی کی بیوی حضرت امامہ بنت زینب بنت رسول ﷲ کہاں سے آگئیں ۔ معلوم ہوا کہ اہل سنت ہی اہل بیت اور شہداء کربلا کے محب ہیں ۔ رضی اللہ عنہم)
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
69825290_2455525911204819_1758414968815878144_o.jpg
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
جب مجوسیوں کے پاس جواب دینے کو نہیں ہوتا تو وہ لایعنی شروع کر دیتے ہیں۔ اگر اس پر بھی جوتے پڑئیں تو گالم گلوچ پر آ جاتے ہیں تاکہ کسی طرح تھریڈ بند ہو جائے۔ یہ ہلدیرام پیدائیش پنجہ گھر یہاں بھی تین مختلف ناموں سے پوسٹیں کر رہا ہے اور موڈز بھی ببھری سگریٹ پی کر مدہوش۔ یونی دوسروں کو بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ کئی کئی آئی ڈیز بناؤ تاکہ اگر ایک کمینگی کی وجہ سے بند ہو تو دوسری سے شروع ہو جاؤ۔ یہی تو شیعت ہے۔ لگتا ہے چند موڈز بھی ہلدیرام کے ہم مذہب ہیں
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
شیعہ محقق نعمۃ اللہ جزائری لکھتا ہے کہ : (حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کو شاہ حبشہ نے ایک لونڈی ہبہ کی انہوں نے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہبہ کردی) ۔ ایک دن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سر مبارک اس لونڈی کی گود میں تھا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابو الحسن آپ نے اس سے جماع کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا خدا کی قسم اے بنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں نے اس سے کچھ نہیں کیا ۔ تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ ناراضگی کے عالم میں کہا کہ آپ مجھے رخصت دے دیں کہ میں اپنے والد گرامی کے گھر چلی جاؤں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں اس کی اجازت دے دی ۔ (شیعہ کتاب انوار نعمانیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 63،چشتی)

شیعوں کا کہنا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جس سے ناراض ہو جائیں وہ امت مسلمہ کا خلیفہ بننے کا مستحق نہیں ہے ۔ اگر واقعی تمہارا یہی قانون اور قاعدہ ہے تو پھر ہم شیعہ سے ہی کہتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے بھی کئی بار ناراض ہوئی ہیں ان دونوں کی آپس کی ناراضگی کے بارے میں شیعہ کیا کہیں گیں ۔ ایک واقعہ شیعہ کتاب سے ہی پیشِ خدمت ہے :

شیعہ محقق نعمۃ اللہ جزائری لکھتا ہے کہ : حدیث میں وارد ہوئا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سلمان فارسی رضہ کو بلایا اور فرمایا کہ وہ باغ جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے لگایا تھا ۔ بازار جاکر تجارحضرات کے پاس فروخت کردو ۔ چنانچہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے بارہ ہزار درہم پر اسے فروخت کردیا ۔ اور یہ رقم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیش کردی ۔ وہاں ایک اعرابی تھا اس نے آپ سے سوال کیا تو آپ نے اس رقم میں سے چار ہزار چالیس درہم اس کو عطا کیے ۔ تو یہ خبر مدینہ شریف میں پھیل گئی ۔ لہذا تمام لوگ جمع ہو گئے ۔ اور ایک آدمی انصار میں سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور اس نے آپ کو مذکورہ واقعہ کی خبر دی ۔ تو آپ نے اسے دعا دی ۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وہاں بیٹھے ہوئے بقایا تمام رقم لوگوں میں تقسیم کردی ۔ یہاں تک کہ ایک درہم بھی باقی نہ رکھا ۔ اس کے بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ نے میرے باپ کے باغ کو فروخت کردیا ہے ؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہاں میں نے فروخت کردیا ہے ۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ رقم کہاں ہے ؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ک میں نے اللہ کے راستہ میں تقسیم کردی ہے ۔ اس کے جواب میں پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بھوکی ہوں ہمارے بیٹے بھوکے ہیں اور آپ رضی اللہ عنہ بھی ہماری طرح بھوکے ہیں اور ہمارے پاس ایک درہم بھی نہیں ہے ۔ اور یہ کہہ کر حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دامن پکڑا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے فاطمہ رضی اللہ عنہا مجھے چھوڑدے ۔ تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ خدا کی قسم ہرگز نہیں چھوڑوں گی ۔ یہاں تک کہ میرے اور آپ کے درمیان میر ے ابا جان فیصلہ فرمائیں ۔ و آلہ پس حضرت جبرائیل علیہ السّلام حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کو اور علی کو اللہ تعالی سلام فرماتا ہے ۔ اور آپ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فرما دیجیے کہ تیرے لیے یہ جائز نہیں کہ تو علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر مارے اور اس کے دامن کو نہ چھوڑے ۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کے گھر آئے ۔ تو فاطمہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کادامن پکڑا ہوا تھا ۔ تو آپ نے فرمایا کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دامن کو کیوں پکڑ ا ہوا ہے ۔ پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مذکورہ واقعہ سنایا تو اس پر آپ نے فرمایا کہ اے بیٹی میرے پاس جبرائیل تشریف لائے تھے اور مجھے اور علی رضی اللہ عنہ کو اللہ کا سلام پہنچایا اور فرمایا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کو فرمادیجیے کہ تیرے لیے جائز نہیں ہے کہ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر مارے لہٰذا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو چھوڑدیا اور معافی مانگی ۔ (شیعہ کتاب انوارنعمانیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 4
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
ملعون دو روز پہلے تو غریب حدیث کو ضعییف لکھ کر بھاگا تھا پھر غائب رہا اور آج پھر آ گیا ہے اپنے فتنے کے ساتھ تیرے کو شرم نہیں آتی جھوٹ بولتے ہوے بیمار بڈھے
لعنتی زرا اوپر والی پوسٹوں کا جواب دے؟ سب تیرے مذہب کی کتابیں ہیں۔ نکال کوئی تقیہ کی شکل۔ اس وقت تو تجھ پر دورے پڑ رہے ہیں کہ کسی طرح تھریڈ بند ہو۔ جب تک کھلا ہے اور بہت کچھ آئے گا۔ اس محرم میں تو اپنے آُ کچھ زیادہ ہی پیٹے گا کیونکہ ذلت کی بڑی گہری وادیوں میں گرا ہے تو۔ خیر ذلالت تو ساتھ ہی ہے تیرے کونسی کوئی عزت تھی جو پریشانی ہو۔
 
Status
Not open for further replies.