2 Chor (Rehman Malik and Babar Awan) Praising each other

maksyed

Siasat.pk - Blogger
جھوٹ پکڑنے والی مشین .-ڈاکٹر صفدر محمود

ہمارا یہ انگریز استاد بڑا ہی دلچسپ انسان تھا وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ ڈپلومیٹ (سفارتکار) اسے کہتے ہیں جسے بیرون ملک ایمانداری سے جھوٹ بولنے کیلئے بھیجا جائے اور لیڈر اسے کہتے ہیں جسے اندرون ملک جھوٹ بولنے کیلئے منتخب کیا جائے۔ یہ بات کہہ کر وہ ہمیشہ ہلکا سا قہقہہ لگاتا تھا۔ جس روز شدید سردی ہوتی تو وہ عام طور پر اپنے گنجے سر سے برف کے دانے جھاڑتا ہوا کلاس میں داخل ہوتا اور حسب معمول گڈ مارننگ کی بجائے ویری ویری کولڈ مارننگ کہتا اور پھر مسکرا دیتا۔ مغربی ممالک نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ سیاستدان اور لیڈرجھوٹ بولتے ہیں، جھوٹ پکڑنے کی مشین ایجاد کر لی۔ ویسے میرا ذاتی خیال ہے کہ وہ مشین صرف یورپی سیاستدانوں کا جھوٹ پکڑ سکتی ہے۔ آزما کر دیکھ لیں ہمارے سیاستدان اس مشین سے بھی نہاتے توتے یعنی پاک صاف گزر جائیں گے کیونکہ وہ مشین ایسے جھوٹ بولنے والے کو پکڑتی ہے جس کا ضمیر زندہ ہو یا کم از کم اس کے ضمیر میں تھوڑی بہت خلش کی گنجائش موجود ہو۔ ہمارے سیاستدان لیڈران تو ماشاء اللہ ان مسائل سے آزاد اور بے نیاز ہو چکے ہیں اور ایسی مشینوں کو نہایت ذہانت سے مات دے سکتے ہیں۔ دور کیا جائیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ آٹھ سو کے لگ بھگ اراکین صوبائی اسمبلیاں اور پارلیمنٹ میں سے کم از کم تین سو سوا تین سو کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ کیا مشین ان کا جھوٹ پکڑ سکتی ہے؟ ان کو مشین سے گزاریں تو وہ خاموش رہے گی البتہ جب ان کی ڈگریوں کی متعلقہ اداروں سے تصدیق کروائیں تو جھوٹ پکڑا جائے گا۔

اور ہاں۔ اب آپ بجٹ کی مثال ہی لیں۔ بجٹ تو ہوتا ہی سب جھوٹ ہے اسی لئے وقفے وقفے کے بعد منی بجٹ آتے رہتے ہیں۔ حکومت کی آمدنی اور خرچ کے درمیان اتنی وسیع و عریض خلیج حائل ہے کہ اسے مٹانے کیلئے حکومت یا مزید ٹیکس لگائے گی یا پھر قرض لے گی سارا سال وزیراعظم صاحب اور دیگر حکمران سادگی اپنانے کے دعوے کرتے رہے ہیں۔ دکھانے کیلئے وزیراعظم صاحب نے وزیراعظم ہاؤس میں کھانے کی ڈشیں کم کر دی تھیں اور قوم سے خرچ گھٹانے کا وعدہ کیا تھا جبکہ عملی طور پر وزیراعظم ہاؤس اور صدر ہاؤس کے بجٹوں یعنی اخراجات میں کمی کی بجائے بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ وزراء کی تنخواہوں میں دس فیصد کمی بھی نظر کا دھوکہ ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ رات ڈھلنے تک سرکاری ملازمین کی مانند وزراء کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کر دیا جائے۔ ہزار وعدوں کے باوجود حکومت وزراء کی فوج ظفر موج میں کمی کرنے کو تیار نہیں، نہ اپنی عیاشیاں اور شاہانہ اخراجات گھٹانے کو تیار ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا بوجھ ٹیکس دہندگان پر ہی پڑیگا۔ مجھے بجٹ کے حوالے سے سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہوا کہ حکومت نے تعلیم اور صحت کا بجٹ بڑھانے کی بجائے مزید کم کر دیا۔ یو نیسکو سے لے کر ماہرین تعلیم تک سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان میں جب تک جی ڈی پی کا پانچ فیصد تعلیم پر خرچ نہیں کیا جاتا ہم ناخواندگی پر قابو پا سکتے ہیں نہ معیار تعلیم بلند کر سکتے ہیں۔ گزشتہ سال ہم نے تعلیم پر دو فیصد سے بھی ذرا کم خرچ کیا اور اس بار قوم سے کئے گئے وعدوں کے باوجود تعلیم کا بجٹ مزید کم ہو گیا ہے ظاہر ہے کہ بجٹ مہنگائی کا سیلاب لائے گا۔ کل سے مارکیٹ میں روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ شروع ہو چکا ہے جبکہ ہمارے نو منتخب ہونہار بروا وزیر خزانہ کے چکنے پات کے مطابق مہنگائی میں معمولی اضافہ ہو گا۔ کیا خیال ہے کیا جھوٹ پکڑنے والی مشین ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہے حالانکہ محترم حفیظ شیخ صاحب امریکی شہری بھی ہیں، ڈالروں میں سوچتے اور ڈالروں میں بات کرتے ہیں لیکن چونکہ ان کو پاکستان میں آئے طویل عرصہ گزر چکا ہے اسلئے ان کے بیانات کی حد تک یہ مشین ناکارہ ہو چکی ہے۔

میں نے چند ہفتے قبل لکھا تھا کہ میرے پیارے صدر زرداری صاحب انشاء اللہ سوئس بینکوں میں پڑے چھ کروڑ ڈالر بچاتے بچاتے سب کچھ داؤ پہ لگا دیں گے۔ امید ہے آپ سب کچھ کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اب اس سفر کا آغاز ہو گیا ہے۔ نتیجہ کیا ہو گا رب بہترین جانتا ہے۔ ماشاء اللہ این آر او کے حوالے سے ہمارے حکمرانوں اور ان کے حواریوں نے کیا کیا جھوٹ بولے اور کیا کیا پینترے بدلے، اس پر کئی پی ایچ ڈی کی جا سکتی ہیں۔ ہمارے حکمران ایک دوسرے سے بڑھ کر آمر کے بہائے ہوئے اس بے ضمیر قانون پر تبرا اور لعنتیں بھیجتے رہے اور بار بار انکشاف کرتے رہے کہ محترمہ بی بی مرحوم این آر او سے تائب ہو کر مشرف سے سمجھوتے کو ترک کر چکی تھیں وغیرہ وغیرہ۔ حتیٰ کہ حکومت نے اس بدبودار قانون جس نے اربوں کی لوٹ مار اور کرپشن کو جائز قرار دے دیا تھا کا سپریم کورٹ میں بھی دفاع نہ کیا پھر جب سپریم کورٹ نے اسے قانونی شکل دینے کے لئے حکومت کو وقت دیا تو حکومت نے اسے پارلیمنٹ میں لے جانے کی بجائے اسے اگنور کرنا بہتر سمجھا لیکن پھر سپریم کورٹ کا فیصلہ کہ سوئس حکومت کو خط لکھا جائے ایک زہریلی پھانس بن کر حکومت کے حلق میں پھنس گیا۔ میرے مہربان ڈاکٹر بابر اعوان اس حوالے سے کیا کیا بیانات دیتے رہے اور کس طرح سپریم کورٹ میں تشریف لا کر دلائل کی دھول اڑاتے رہے اس کے بارے میں چند روز قبل نیب کے ایک سابق قانونی ماہر ایک پروگرام میں کہہ رہے تھے کہ اعوان صاحب اپنے بیانات کا دفاع نہیں کر سکیں گے کیونکہ حقائق ان سے مختلف ہیں۔ کیا خیال ہے کہ جھوٹ پکڑنے والی ایک مشین عدالتوں میں بھی نہ لگوا دیں۔ خیر عدالتیں تو خود جھوٹ پکڑنے والی مشینیں ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ ہمارے تربیت یافتہ ٹاؤٹ اور بیان دینے والے ان مشینوں سے صاف ستھرے نکل جائیں گے کیونکہ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ یہ مشین ان کا جھوٹ پکڑتی ہے جن کے ضمیر میں کچھ نہ کچھ خلش باقی ہو کہیں نہ کہیں کوئی چنگاری موجود ہو۔

کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اب حکومت نے این آر او کے حوالے سے پھر پینترا بدلا ہے کیونکہ ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے ہزار جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ اب حکومت نے اپنے گزشتہ تمام بیانات پر مٹی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ این آر او ایک ٹھیک قانون تھا اور ہم صدر زرداری کے ضمن میں سوئس حکومت کو خط نہیں لکھ سکتے۔ یہی بات کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر بابر اعوان نے ایک بیان میں کہی تھی کہ سوئس حکومت کو خط میری لاش پر ہی لکھا جائے گا۔ نتیجے کے طور پر کتنے ہی اٹارنی جنرل اور عہدے داران مستعفی ہوتے چلے گئے۔ اب جب حکومت این آر او کی شان میں قصیدے پڑھنے والی ہے تو یقینا ان سے پوچھا جائیگا کہ حضور آپ نے اسے پارلیمنٹ میں پیش کر کے قانون کیوں نہ بنوا دیا کیونکہ آرڈیننس کی مدت ختم ہو چکی تھی اور عدالت نے آپ کو تین ماہ دیئے تھے۔ دوم یہ کہ اگر یہ اتنا ہی اچھا قانون تھا تو آپ نے اس کا سپریم کورٹ میں دفاع کیوں نہ کیا؟ مغرب کی بنائی ہوئی جھوٹ پکڑنے والی مشین ہمارے کاری گروں، شعبدہ بازوں اور تربیت یافتہ حضرات کے جھوٹ نہیں پکڑ سکتی کیونکہ ان کے ضمیر بے حس ہو چکے لیکن اب انہیں عدالتیں پکڑیں گی۔ خطرہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ سوئس حکومت کو خط لکھنے اور چھ کروڑ ڈالر واپس منگوانے کا فیصلہ واپس نہیں لے گی نہ ہی اس پر نظر ثانی کریگی جبکہ حکومت کہہ چکی کہ یہ خط وزیر قانون کی لاش پر ہی لکھا جائیگا مطلب یہ کہ ہمارے حکمران کسی طور پر بھی چھ کروڑ ڈالروں سے دستبردار نہیں ہوں گے چاہے انہیں بچانے کیلئے ان کو سب کچھ داؤ پر ہی لگانا پڑے؟؟​
 

maksyed

Siasat.pk - Blogger
آج میر جعفر اور میر صادق جیسے غدار بھی یہ سوچ رہے ہونگے کہ یہ تو ہم سے بھی بڑے غدار۔ ملت اور بے غیرت نکلے۔ واہ رے خدا تیری قدرت