kasoti شخصیت بوجھیں

کی جاناں میں کون

Chief Minister (5k+ posts)
google per bhi itni information nahin hey.


Time lagey tou ye article parh lena.



بانی درس نظامیہ

آج تمام ہندوستان میں عربی تعلیم کا جو نصاب ہے، وہ نظامیہ کے نام سے مشہور ہے، لیکن یہ سخت تعجب ہے کہ اکثر لوگوں کو معلوم نہیں کہ یہ نصاب کب بنا؟ اور کس نے بنایا؟ حال کی ایک تصنیف میں اس کو نظام الملک وزیر دولت سلجوقیہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے، پرانے تعلیم یافتہ اس قدر جانتے ہیں کہ اس کے بانی ملا نظام الدین صاحب لکھنوی ہیں، لیکن اس سے زیادہ ان کو بھی واقفیت نہیں۔
ملانظام الدین صاحب جس رتبہ کے شخص تھے اور خصوصاً اس نصاب کے قائم کرنے سے ان کو جو شہرت حاصل ہوئی، اس کے لحاظ سے میں ایک مدت سے اس بات کا آرزومند تھا کہ ان کے مفصل حالات دریافت کروں، لیکن چونکہ ہمارے ملک میں بیوگرفی (سوانح عمری) لکھنے کا طریقہ بہت کم تھا، اس لیے اس آرزو کے پوری ہونے کی بہت کم امید ہو سکتی تھی۔ میر غلام علی آزاد نے ’’سجۃ المرجان‘‘ میں مختصر طور پر ان کا تذکرہ کیا ہے جو بالکل ناکافی ہے۔ بڑے تلاش سے ایک رسالہ ہاتھ آیا جو مولانا ولی اللہ صاحب فرنگی محلی (محشی صدرا) کی تصنیف ہے اور خاص ملا صاحب مرحوم کے حالات میں ہے، لیکن اس میں اصلی حالات نہایت کم ہیں، البتہ ان کی کرامتوں اور خرق عادات کا ایک بڑا دفتر ہے، وہ اس زمانہ کے کام کا نہیں۔
تاہم بمصداق ’مالا یدرک کلّہ لا یترک کلّہ‘ میں ایک مختصر سا خاکہ ان کی سوانح عمری کا ناظرین کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
خاندان کا حال

لکھنؤ کے اطراف میں جو مردم خیز بستیاں ہیں، ایک مشہور قصبہ سہالی ہے جو لکھنؤ سے اٹھائیس میل ہے۔ یہاں مسلمانوں کے دو مشہور خاندان آباد تھے۔ انصاری جو حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی اولاد سے تھے، عثمانی یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اولاد سے۔ ملا صاحب اسی قصبہ کے رہنے والے تھے اور انصاری خاندان سے تھے۔ ان کے والد ملا قطب الدین بہت بڑے مستند عالم تھے اور ان کا حلقۂ درس تمام مشرق ممالک کا قبلہ گاہ تھا۔ عثمانیوں اور انصاریوں میں قدیم سے عداوت چلی آتی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دن عثمانی، ملا صاحب کے گھر پر چڑھ آئے اور ان کو قتل کر کے گھر میں آگ لگا دی۔ یہ واقعہ ۱۱۰۳ھ میں پیش آیا۔ چونکہ وہ بے گناہ قتل کیے گئے تھے، قوم نے ان کو شہید کا لقب دیا۔ چنانچہ کتب علمیہ میں جہاں ان کا نام آتا ہے، اسی لقب کے ساتھ آتا ہے۔ ملاقطب الدین صاحب کے چار فرزند تھے۔ بڑے صاحب زادے اس وقت دلی میں عالمگیر بادشاہ کے دربار سے تعلق رکھتے تھے۔ شیخ محمد سعید اور ملانظام الدین مکان پر تھے۔ ملا قطب الدین صاحب کی شہادت کے بعد یہ لوگ بے کسی کی وجہ سے سہالی سے نکل کر لکھنؤ چلے گئے، لیکن یہاں رہنے کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ سلطنت تیموریہ کے زمانہ میں چونکہ واقعہ نگاری کا صیغہ نہایت وسعت کے ساتھ قائم تھا اور ملک کا ایک ایک جزئی واقعہ دربار شاہی تک پہنچتا رہتا تھا، لکھنؤ کے واقعہ نگار نے فوراً دربار کو اطلاع دی اور وہاں سے فرمان صادر ہوا کہ ملا صاحب کے صاحب زادوں کو فرنگی محل کے محلہ میں ایک قطعہ مکان مع عمارات متعلقہ عنایت کیا جائے۔ اطلاع کی تاریخ ۱۴ شعبان ۳۷ جلوس والا مطابق ۱۱۰۵ھ اور فرمان صادر ہونے کی تاریخ ۱۱شوال ۳۸ جلوس والا ہے۔ اس فرمان کی کچھ عبارت ہم آگے نقل کریں گے۔
لکھنؤ میں آباد ہونے کا سبب

ملانظام الدین صاحب جن کا ہم تذکرہ لکھ رہے ہیں۔ اس وقت پانژدہ (۱۵) سالہ تھے، اس لیے فرمان میں ان کا نام نہیں ہے، بلکہ ان کے دونوں بڑے بھائیوں کا ہے یہ فرمان اب تک اس خاندان میں موجود ہے اور میں نے ایک دفعہ لکھنؤ میں اس کی زیارت کی تھی چنانچہ اس کے ضروری الفاظ اس موقع پر درج کرتے ہیں پیشانی پر عالمگیر کی مہر ہے۔
عالمگیر کا فرمان

دامن میں یہ عبارت ہے:
’’دریں وقت میمنت اقتران فرمان والا شان واجب الاذعان صادر شد کہ یکمنزل حویلی فرنگی محل بامتعلقہ آن واقع بلدۂ لکھنؤ، مضاف بہ صوبہ اودھ کہ ازا مکنۂ نزولی است برائے بودن شیخ محمد اسعد و محمد سعید پسران ملا قطب الدین شہید حسب الضمن مقرر فرمودیم باید کہ حکام و عمال و مصدیان مہمات حال و استقبال و جاگیر داران و کرد ریان آنرا بنام مشار الیہا معاف و مرفوع القلم دانستہ بوجہ الوجوہ مزاحم و معترض نہ شوند و اندرین باب سند مجددنہ طلبند۔‘‘ (مرقوم غرہ ذیقعد سال سی و ہفتم جلوس والا نوشتہ شد)۱؂
فرمان کی پشت پر جو عبارت ہے اس کا پہلا فقرہ یہ ہے۔
’’شرح یادداشت واقع بتاریخ روز پنج شنبہ ۱۴ شعبان المعظم ۳۷ جلوس والا موافق ۱۱۰۵ھ بمطابق مرد اد ماہ برسالہ صدارت و مشیخت پناہ فضیلت و کمالات دست گاہ سزاوار مرحمت و احسان صدر منیع القدر فاضل خان و نوبت واقعہ نویسی کمترین بندگان درگاہ خلائق پناہ حسام الدین حسین قلمی میگر دو کہ بعرض مقدس و معلّی رسید کہ شیخ محمد اسعد و محمد سعید پسران ملا قطب الدین شہید ساکن قصبہ سہالی بسبب شہادت پدر خود قصبۂ مذکور را گذاشتہ جلاوطن گردیدند ندوکدام مکانہا سکونت ندارند الخ۔‘‘۲؂
طالب علمی

جس وقت ملا قطب الدین کا خاندان لکھنؤ میں آباد ہوا ملا نظام الدین صاحب کی عمر پندرہ برس کی تھی اور شرح جامی پڑھتے تھے۔ اگرچہ اس وقت تک اطمینان کی معقول صورت نہیں پیدا ہوئی تھی، تاہم ملا صاحب نے فراغ خاطر کا انتظار نہ کیا اور علوم کی تحصیل جاری رکھی۔ غلام علی آزاد نے ’’سجۃ المرجان‘‘ میں لکھا ہے کہ:
’’ملا صاحب نے یورپ کا سفر کیا اور مختلف شہروں میں تحصیل کی۔ اخیر میں لکھنؤ واپس آ کر شیخ غلام نقش بند لکھنوی سے بقیہ کتابیں پڑھیں اور انھی سے سند فضیلت حاصل کی۔ لیکن مولوی ولی اللہ صاحب نے جو مستقل رسالہ ان کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ابتدائی کتابیں دیوا ۳؂ میں اور قصبات میں جا کر پڑھیں، لیکن انتہائی کتابیں بنارس میں جا کر حافظ امان اللہ بنارسی سے ختم کیں۔‘‘
فرنگی محل میں آج جو روایت مشہور ہے وہ بھی اس کی موید ہے۔
فراغ تحصیل کے ساتھ ہی ملا صاحب اپنے والد بزرگوار کے مسند درس پر متمکن ہوئے اور تھوڑے ہی دنوں میں ان کا آستانہ تمام مشرقی ہندوستان کا مرجع بن گیا۔
تصوف

علوم ظاہری کی تکمیل سے فارغ ہو کر ملا صاحب نے علوم باطنی کی طرف توجہ کی۔ اس وقت حضرت شاہ عبدالرزاق صاحب بانسوی کے فیوض و برکات کا تمام ہندوستان میں غلغلہ تھا۔ ملا صاحب ان کے آستانے پر حاضر ہوئے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ شاہ صاحب موصوف علوم اسلامیہ سے ناآشنا تھے اس لیے تمام لوگوں کو تعجب ہوا۔ یہاں تک کہ علمائے فرنگی محل نے علانیہ ملاصاحب سے شکایت کی۔ ملاصاحب کے تلامذہ میں سے ملاکمال علوم عقلیہ میں بڑی دستگاہ رکھتے تھے اور چونکہ بے انتہا ذہین اور طباع تھے کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے، ملاصاحب کی بیعت پر دو بدو گستاخانہ عرض کیا کہ آپ نے ایک جاہل کے ہاتھ پر کیوں بیعت کی۔ اس پر بھی قناعت نہ کر کے شاہ صاحب کی خدمت میں پہنچے اور فلسفہ کے چند مشکل مسئلے سوچ کر گئے کہ شاہ صاحب سے پوچھیں گے، اور ان کو الزام دیں گے۔ مشہور ہے کہ شاہ صاحب نے خود ان مسائل کو چھیڑا اور ملاکمال کی خاطر خواہ تسکین کر دی، چنانچہ اسی وقت ملا کمال اور ان کے ساتھ بہت سے علما شاہ صاحب کے قدموں پر گر پڑے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔
شاہ صاحب نے ۱۱۳۶ھ میں رحلت فرمائی۔ ان کی وفات کے بعد ملانظام الدین نے ان کے خلیفہ سید اسمٰعیل بلگرامی سے باطنی فیوض حاصل کیے۔
بیماری اور وفات

ملاصاحب کو ابتدا سے قرحہ کا مرض تھا، لیکن کبھی معالجہ کی طرف توجہ نہ کی۔ اور اخیر عمر میں جب کہ سن شریف ۷۵ برس کو پہنچ گیا نہایت ضعیف ہو کر صاحب فراش ہو گئے اور زنان خانہ میں رہنے لگے، لیکن چونکہ نہایت کثرت سے لوگ بیمار پرسی کو جاتے تھے اور باربار پردہ کرانے میں گھر والوں کو تکلیف ہوتی تھی، ملا احمد عبدالحق صاحب نے عرض کیا کہ حضور اگر دیوان خانہ میں تشریف رکھتے تو بہتر ہوتا، ملا صاحب نے کچھ جواب نہ دیا، دوسرے دن شاہ عبدالغنی صاحب عیادت کو آئے تو ملاصاحب نے یہ مصرعہ ’’ہر روز بینم تنگ تر سوراخ این غربالہا‘‘ پڑھ کر فرمایا کہ اچھا میاں عبدالحق ہی کی مرضی پر عمل کرو۔ چنانچہ دیوان خانہ میں اٹھ کر تشریف لائے اور وہیں وفات کی۔
ملاصاحب کی دو بیویاں تھیں۔ دوسری شادی غالباً اس غرض سے کی تھی کہ پہلی سے اولاد نہیں ہوئی تھی۔ بیماری کو جب اشتداد ہوا تو زوجۂ اولیٰ ملاصاحب کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ مجھ سے جو تقصیر ہوئی معاف فرمائیے۔ فرمایا تم نے کوئی تقصیر نہیں کی، البتہ مجھ سے یہ گناہ ہوا کہ تمھارے ہوتے ہوئے دوسری شادی کی، اس جرم کو معاف کر دو۔ تھوڑی دیر کے بعد زوجہ ثانیہ آئیں اور کہا کہ آپ تو تشریف لیے جاتے ہیں اولاد کو کس پر چھوڑے جاتے ہیں؟ ملاصاحب کو سخت رنج ہوا۔ حاضرین سے کہا کہ مجھ کو اٹھا کر بٹھا دو پھر فرمایا کہ نظام الدین تو جاتا ہے، لیکن خدا ہمیشہ رہے گا۔
تاریخ وفات

آخر نویں تاریخ جمادی الاولیٰ روز چہار شنبہ ۱۱۶۱ھ دوپہر دن چڑھے انتقال فرمایا۔ تاریخ وفات یہ ہے:
ملک بودو بیک حرکت ملک گشت
۴؂عربی مادہ یہ ہے:
مال العاشق الی المعشوق
۵؂
اخلاق و عادات

ملاصاحب ابتدا ہی سے نہایت غنی النفس اور متوکل تھے۔ ان کی علمی شہرت ان کی زندگی میں ہی اس درجہ تک پہنچ گئی تھی کہ وہ ذرا سی خواہش کرتے تو ہر قسم کا جاہ و منصب حاصل ہو سکتا تھا، لیکن اس طرف توجہ نہ کی۔ تین تین دن کے فاقے ہوتے تھے اور نہایت استقلال کے ساتھ برداشت کرتے تھے۔ امرا اور اہل دول سے بالکل نہیں ملتے تھے، بلکہ اس قسم کے لوگ خدمت میں حاضر ہوتے تو بے التفاتی ظاہر فرماتے۔ شیخ غلام مخدوم کا بیان ہے کہ میں ایک دفعہ ملا صاحب کی خدمت میں حاضر تھا اور بیماری کی وجہ سے پلنگ پر لیٹا ہوا تھا۔ اتفاقاً امراء میں سے ایک صاحب ملنے کے لیے آئے۔ میں نے ان کے لحاظ سے پلنگ پر سے اتر آنا چاہا۔ ملا صاحب نے فرمایا کہ سفید پوشوں کو دیکھ کر بدحواس کیوں ہوتے ہو، آرام سے لیٹے رہو۔
امراء شاہی میں سے ایک رئیس جو ہفت ہزاری کا منصب رکھتا تھا، ملاصاحب کی خدمت میں اکثر حاضر ہوا کرتا تھا۔ ایک دفعہ جمعہ کے دن عین نماز کے وقت کہلا بھیجا کہ اگر آپ ذرا انتظار فرمائیں تو میں بھی حاضر ہو کر حضور کی اقتدا کا شرف حاصل کر سکوں۔ ملاصاحب نے ذرا دیر انتظار فرمایا پھر کہا کہ ’’نماز خدا کے لیے ہے، اہل دنیا کے لیے نہیں ہے۔‘‘ یہ کہہ کر نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔
بے نفسی

لیکن یہ بے نیازی اور بددماغی امراء اور جاہ پرستوں کے لیے مخصوص تھی ورنہ مزاج میں مسکینی اور تواضع تھی۔ ایک دن ایک ایرانی ابوالمعالی نام ملاصاحب کا شہرہ سن کر ملاقات کے لیے آیا۔ ملاصاحب درس گاہ میں چٹائی پر بیٹھے ہوئے درس دے رہے تھے۔ اس نے ایرانی علما کا جاہ و جلال دیکھا تھا، ملاصاحب کی طرف اس کا خیال نہ جا سکا۔ لوگوں سے پوچھا ملانظام الدین کہاں تشریف رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا مولانا کا حال تو میں نہیں جانتا، لیکن نظام الدین میرا ہی نام ہے۔ اس نے چند فقہی مسائل پیش کیے کہ اہل حق (یعنی شیعہ مذہب والوں) کے نزدیک اس کا کیا جواب ہے؟ ملاصاحب نے اس کا منشا سمجھ کر شیعوں کی روایت کے مطابق جواب دیا۔ نہایت پسند کیا اور کہا کہ ان ہی مسئلوں کو اہل ضلالت (سنیوں) کے مذہب کے موافق بیان فرمائیے۔ ملاصاحب نے سنیوں کی روایتیں بیان کیں۔ وہ عش عش کر گیا اور کہا کہ جس قدر سنا تھا، اس سے زیادہ پایا۔
علما کی نسبت عام شکایت ہے کہ علمی مباحثات سے ہمیشہ ان کو فخر اور امتیاز مقصود ہوتا ہے اور اس لیے وہ کبھی حریف کے مقابلہ میں سکوت اختیار نہیں کرتے، لیکن ملاصاحب اس عیب سے بالکل پاک تھے۔ ایک دفعہ ایک صاحب ان سے بحث کرنے کے لیے تشریف لائے۔ ملاصاحب نے مسئلہ کی تحقیق بیان فرمائی۔ انھوں نے اعتراض کیا۔ ملاصاحب چپ ہو گئے۔ انھوں نے مشہور کرنا شروع کیا کہ میں نے ملانظام الدین کو بند کر دیا۔ ملاصاحب کے تلامذہ کو ناگوار گزرا اور ایک شاگرد نے جا کر ان صاحب کو زور تقریر سے بالکل ساکت کر دیا۔ ملاصاحب کو خبر ہوئی تو اس قدر برہم ہوئے کہ اس شاگرد کو حلقۂ درس سے الگ کر دیا اور کہا کہ میں ہرگز یہ نہیں پسند کرتا کہ میری وجہ سے کسی شخص کی شہرت اور عزت میں فرق آئے۔
تصنیفات

ملاصاحب کی تصنیفات کثرت سے ہیں، مثلاً ’’شرح مسلم الثبوت شرح منار مسمی بہ صبح صادق‘‘، ’’حاشیہ صدرا‘‘، ’’حاشیہ شمس بازغہ‘‘، ’’حاشیہ بر حاشیہ قدیمہ‘‘۔ یہ تمام کتابیں بڑے پایہ کی ہیں اور نہایت دقیق تحقیقات پر مشتمل ہیں، لیکن درحقیقت ملاصاحب کی شہرت ان تصنیفات کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان کے طریقۂ درس کے بدولت ہے۔ ملاصاحب کے زمانہ میں ہندوستان کے تمام اطراف میں بڑے بڑے علما موجود تھے اور ہر ایک کی الگ الگ درس گاہ قائم تھی۔ مثلاً ملا محب اللہ بہاری مصنف ’’سلّم و مسلّم‘‘ متوفی ۱۱۱۹ھ، ملاجیون مصنف نورالانوار المتوفی ۱۱۳۰ھ، سید عبدالجلیل بلگرامی استاذ غلام علی آزاد المتوفی ۱۱۲۲ھ، میر غلام علی آزاد، بلگرامی، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی المتوفی ۱۱۷۴ھ، لیکن ملاصاحب کے حلقۂ درس سے جس رتبہ کے فضلا پیدا ہوئے، وہ خود ان بزرگوں کی ہم سری کا دعویٰ کر سکتے تھے۔ ملاصاحب کے فرزند مولانا عبدالعلی کو تمام ملک نے بحرالعلوم کا لقب دیا، جو آج تک مشہور ہے اور درحقیقت ہندوستان کی خاک سے کوئی شخص اس جامعیت کا شروع اسلام سے آج تک نہیں پیدا ہوا۔ ملا صاحب کے دوسرے شاگرد ملاکمال اس پایہ کے شخص تھے کہ مولوی حمد اللہ جن کی شرح سلم آج نصاب تعلیم میں داخل ہے، ان ہی کے دامن فیض میں پلے تھے ملاحسن کو بھی ملاصاحب کی شاگردی کا فخر حاصل تھا۔
ملاصاحب کے درس نے اس قدر قبولیت حاصل کی کہ ہندوستان میں ہر جگہ سلسلہ بہ سلسلہ انھی کے شاگرد نظر آتے تھے اور لکھنؤ کا فرنگی محل تو علم و فن کا معدن بن گیا جہاں آج تک علمی سلسلہ منقطع نہیں ہوا اور سینکڑوں اہل کمال پیدا ہو کر پیوند خاک ہو گئے۔ ملامبین، مولانا ظہور اللہ، مولانا ولی اللہ، مفتی محمد یوسف، مولانا عبدالحکیم، مولانا عبدالحئی صاحب مرحوم جو ہمارے زمانہ میں موجود تھے، ان کی تصنیفیں تمام ملک میں پھیلی ہوئی ہیں۔ آج جہاں جہاں علوم عربیہ کا نام و نشان باقی ہے اسی خاندان کا پرتو فیض ہے۔ ہندوستان کے کسی گوشہ میں جو شخص تحصیل علم کا احرام باندھتا ہے، اس کا رخ فرنگی محل کی طرف ہوتا ہے۔ میں نے ۱۸۹۶ھ میں جب ملانظام الدین کے آستانہ کی زیارت کی اور ان کی درس گاہ کو جو ایک مختصر سا بالاخانہ تھا دیکھا تو عجب حیرت ہوئی۔ اللہ اکبر ہمارے ہندوستان کا کیمبرج یہی ہے۔ یہی خاک ہے جس سے عبدالعلی بحرالعلوم اور ملاکمال پیدا ہوئے۔ افسوس اب یہ کعبہ ویران ہوتا جاتا ہے۔ یاد رفتگان صرف ایک مقدس بزرگ مولانا نعیم صاحب باقی ہیں جو عبدالعلی بحرالعلوم کے پرپوتے ہیں اور جن کو ہماری سرکار نے شمس العلما کا خطاب دیا ہے۔
درس نظامیہ کے خصوصیات

ملاصاحب کے حالات میں سب سے زیادہ قابل توجہ ان کا مقرر کردہ نصاب ہے جو نظامیہ کے نام سے مشہور ہے اس نصاب کے خصوصیات یہ ہیں:
۱۔ نصاب میں ہندوستان کے علما کی متعدد کتابیں داخل ہیں، مثلاً ’’نور الانوار سلم‘‘، ’’مسلم رشیدیہ‘‘، ’’شمس بازغہ‘‘، حالانکہ اس سے پہلے یہاں کی ایک تصنیف بھی درس میں داخل نہ تھی۔
۲۔ ہر فن کی وہ کتابیں لی ہیں جن سے زیادہ مشکل اس فن میں کوئی کتاب نہ تھی۔
۳۔ منطق و فلسفہ کی کتابیں تمام علوم کی نسبت زیادہ ہیں۔
۴۔ حدیث کی صرف ایک کتاب ہے یعنی مشکوٰۃ۔
۵۔ ادب کا حصہ بہت کم ہے۔
اس نصاب میں سب سے زیادہ مقدم خصوصیت جو ملا صاحب کو پیش نظر تھی، یہ تھی کہ قوت مطالعہ اس قدر قوی ہو جائے کہ نصاب کے ختم کرنے کے بعد طالب العلم جس فن کی جو کتاب چاہے سمجھ سکے۔ اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ درس نظامیہ کی کتابیں اگر اچھی طرح سمجھ کر پڑھ لی جائیں تو عربی زبان کی کوئی کتاب لاینحل نہیں رہ سکتی بخلاف درس قدیم کے کہ اس سے یہ بات حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔
اختصار کے لحاظ سے بھی اس نصاب کو نصاب قدیم پر ترجیح ہے۔ ایک متوسط الذہن طالب العلم سولہ سترہ برس کی عمر میں تمام کتب درسیہ سے فارغ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ علمائے فرنگی محل میں اکثر اتنی ہی عمر میں فارغ ہو جاتے تھے۔
اس نصاب کی بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ چونکہ اس میں فقہ کی کتابیں بہت کم ہیں اور جو ہیں ان میں معقولی استدلال سے کام لیا گیا ہے، اس لیے اس نصاب سے وہ تقشف اور ظاہر پرستی اور مذہب کا بے جا تعصب نہیں پیدا ہوتا تھا جو سطحی فقہا کا خاصا ہے۔ اسی کا اثر ہے کہ فرنگی محل میں جو بڑے بڑے علما پیدا ہوئے ہیں، ان میں کسی نے مذہبی مناظرات کی کوئی کتاب نہیں لکھی۔ شیعہ و سنی کا جھگڑا سب سے زیادہ لکھنؤ میں پیدا ہو سکتا تھا، لیکن یہ صدا دلی سے بلند ہوئی اور گو تمام ملک اس ہنگامہ میں مبتلا ہو گیا اور تحفہ اثناء عشریہ کے فقرے رجز کی طرح مذہبی پہلوانوں کی زبانوں پر چڑھ گئے، تاہم علمائے فرنگی محل اخیر تک اس شورش سے الگ رہے۔ اس نصاب سے اور باتوں کے ساتھ ملانظام الدین صاحب کی انصاف پرستی اور فراخ حوصلگی کا بڑا ثبوت ملتا ہے۔ علما میں یہ خصلت بہت کم پائی جاتی ہے کہ ان کو معاصرین کے فضل کا اقرار ہو، لیکن ملاصاحب نے اپنے معاصر علما کی اس وقت عزت کی کہ ان کی کتابیں درس میں داخل کر دیں۔ ’’نورالانوار‘‘، ’’سلّم و مسلّم‘‘ سب ان کے معاصرین کی تصنیفات ہیں اور درس نظامیہ میں داخل ہیں۔ ملاصاحب کی کسر نفسی اس سے بڑھ کر کیا ہو گی کہ اپنی کوئی تصنیف نصاب میں داخل نہیں کی، حالانکہ ان کا کوئی معاصر ان کی ہم سری نہیں کر سکتا۔
اس موقع پر یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ موجودہ درس جو نظامیہ کے نام سے مشہور ہے، دراصل درس نظامیہ نہیں ہے۔ اس میں بہت سی کتابیں ایسی اضافہ ہو گئی ہیں جو ملانظام الدین صاحب کے عہد میں موجود بھی نہ تھیں مثلاً ’’ملاحسن‘‘، ’’حمداللہ‘‘، ’’حاشیہ‘‘، ’’غلام یحییٰ‘‘، ’’قاضی مبارک‘‘۔ اگرچہ ہمارے نزدیک ضروریات زمانہ کے لحاظ سے درس نظامیہ میں بہت کچھ ترمیم و اضافہ کی ضرورت ہے، لیکن اس مضمون میں ہم اس بحث کو نہیں چھیڑتے اور اسی تحریر پر بس کرتے ہیں۔
(معارف علی گڑھ فروری۱۹۰۰ء)
____________
۱؂ اس وقت میں جس میں سعادت اور نیک بختی جمع ہو گئی ہے یہ عظیم الشان فرمان، جس کی اطاعت لازم ہے، صاد ہو رہا ہے۔ (اور وہ یہ ہے) کہ فرنگی محل کی حویلی، جو شہر لکھنؤ میں واقع ہے، اور صوبہ اودھ سے ملحق ہے اور نیچے والے علاقوں میں واقع ہے، اس سے متعلقہ ایک منزل ملا قطب الدین شہید کے بیٹوں شیخ محمد اسعد و محمد سعید کی رہایش کے لیے مندرجہ ذیل طریقے سے مقرر فرماتے ہیں لازم ہے کہ حکام و عمال اور حال و مستقبل کے اہم امور کا ریکارڈ رکھنے والے اور جاگیردار اس کے احاطے کو مذکور ان کے نام معاف اور مرفوع القلم سمجھیں، اور کسی بھی وجہ سے اس میں مزاحمت نہ کریں۔ اور اس بارے میں کوئی نئی سند طلب نہ کریں۔ (تخت نشینی کے ۳۷ ویں سال ذی القعد لکھا گیا)۔
۲؂ اس یادداشت (مذکورہ بالا) کی تشریح جمعرات کے دن بتاریخ چودہ شعبان المعظم والا شان تخت نشینی کے سینتیسویں سال ۱۱۰۵ ہجری میں بمطابق ماہ مُردار (دیسی مہینوں کے لحاظ سے بھادوں کا مہینا) صدارت و مشیخت پناہ، فضیلت و کمالات دست گاہ، سزاوار مرحمت احسان، صدر منیع القدر، فاضل خان عمل میں آئی۔ اور اس واقعہ کی تحریر کی نوبت درگاہِ خلائق پناہ (بادشاہ سلامت) کے حقیر ترین بندے حسام الدین کے ہاتھوں لکھی جا رہی ہے تاکہ مقدس و معلی بارگاہ میں پیشی کے لیے پہنچے کہ شیخ محمد اسعد و محمد سعید، پسران (فرزندان) ملا قطب الدین شہید ساکن قصبہ سہالی جو اپنے باپ کی شہادت کی وجہ سے مذکورہ قصبہ کو چھوڑ کر جلا وطن ہو گئے اور کسی جگہ سکونت پذیر نہیں ہیں...۔
۳؂ دیوا جموں میں دریاے توی کے ساتھ ایک قصبے کا نام بھی ہے جو چھمب اور جوڑیاں کے مغرب میں واقع ہے۔
۴؂ مَلِک (بادشاہ) تھا اور ایک زیر زبر کی حرکت سے مَلَک (فرشتہ) بن گیا۔
۵؂ عاشق معشوق کی طرف مائل ہو گیا۔

never heard his name

all credit goes to google
 

ImRaaN

Chief Minister (5k+ posts)
ab syllabus key baad bhi kuch reh giya tha kiya bataney ko?


chup ker bethey rahey aur jub sub kuch bata diya . tou aa gaye halwa khany.

By the way he was not one of the top alim of Hind, and neither Doubandi follow him accept some individual
 

ustadjejanab

Chief Minister (5k+ posts)



بہت اچھا سوال
یہ پتا ہونا چاہیے تھا کہ درس نظامی کا نام کہاں سے آیا
معلومات میں اضافے کا شکریہ