Sohail Shuja
Chief Minister (5k+ posts)
اب پوائنٹ یہ ہے سپیکر نے زبانی کلامی استعفے دیا تو اس کی کیا حیثیت ہے نا یہ استعفی کسی اتھارٹی کے پاس گیا نا کسی نے اسے منظور کیا اور نا ہی کوئی نوٹیفیکیشن جاری ہوا کے سپیکر مستعفی ہو چکا ہے۔۔۔ کیا ایسا نہی ہے کہ یہ زبانی کلامی والی بات کی اہمیت نہی اور اہمیت تو اس بات کی ہوتی ہے جو لکھی ہوئی ہو اور یہ آفیشل کام ہے اس میں پروسیجرز انوالوو ہیں
اگر آپ کے پاس کچھ وقت ہو تو راہنمائی کیجئے
اسمبلی میں کہی جانے والی ہر بات ’’آن ریکارڈ‘‘ ہوتی ہے۔ زبانی استعفیٰ، اتنے لوگوں کی موجودگی میں کافی ہے، ہاں لیکن صدر کے پاس اسکا تحریری استعفیٰ جانا لازمی ہے۔
اسپیکر کی غیر موجودگی میں چیئرپرسن، جسکو بھی اسپیکرصاحب اسمبلی کے اس سیشن کے لیئے نامزد کریں، وہ اجلاس کی صدارت کرسکتے ہیں۔
یہ یاد رہے کہ چئیرپرسن اسمبلی کے ہر سیشن کے لیئے نامزد کیئے جاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ چھ ممبران کا پینل اسپیکر کی جانب سے بطور چئیر پرسن نامزد ہوتا ہے ۔ جس دن اجلاس ختم، پینل ختم۔ اگلا پینل اگلے روز کی کاروائی میں دوبارہ چنا جاتا ہے۔
اب جب بارہ بج گئے، تو بارہ بج گئے۔۔۔۔ اس کے بعد ایاز صادق چئیرپرسن بھی نہیں رہا۔ لہٰذا بارہ بجے کے بعد کی کاروائی صرف وہی اسپیکر کرسکتا ہے جسے صدر کے دفتر سے نامزد کیا گیا ہو۔ اب وہی اسپیکر وہاں آکر اپنے نئے سیشن کے چئیرپرسن نامزد کرے گا۔
ایاز صادق کو اتنا ہی موقع ملا تھا کہ ووٹنگ شروع کرواسکا۔ لیکن اس کے درمیان میں ہی بارہ بج گئے اور اسے چار منٹ کے لیئے اجلاس ملتوی کرنا پڑا، کیونکہ اگلے دن کا نیا اجلاس شروع ہونا تھا۔ نئے اجلاس کا مطلب ہے کہ نیا چئیر پرسن۔ ورنہ رات گئی اور بات گئی، پچھلے سیشن کا چئیرپرسن اگلے دن کے سیشن کو نہیں چلاسکتا۔ اسکی زندگی ایک رات کے پروانے جیسی ہی ہوتی ہے۔
اب یہاں پر صرف وہ شخص اسپیکر کی کرسی پر براجمان ہوسکتا ہے جسے صدرِ پاکستان نوٹیفائی کرے گا۔ وہی شخص آئینی اور قانونی طور پر اسکا مجاز ہوگا کہ کون سے ووٹ شمار کرنے ہیں، کونسے نہیں؟ کب وزیر اعظم کو ڈی نوٹیفائی کرنا ہے اور کب اگلا سیشن بلوانا ہے نئے وزیر اعظم کی ووٹنگ کے لیئے اور ساتھ ہی اسے ہی اختیار حاصل ہوگا کاغذاتِ نامزدگی وغیرہ جمع کرنے کا۔
لہٰذا اب یہ انتظار کریں کہ بہ روز سوموار انکو دندان سازصدر پاکستان کے دفتر سے جب دندان شکن نوٹیفیکیشن موصول ہوگا، تو یہ ایاز صادق کہاں اور کس کو منہہ دکھانے کے قابل رہیں گے؟ جس طرح اچھل اچھل کر یہ ووٹوں کی گنتیاں کر رہے تھے، جیسے وزیر اعظم کو ڈی نوٹیفائی کر رہے تھے۔۔۔۔۔ انکو یہی بھول گیا تھا کہ ’’بارہ بج چکے ہیں‘‘۔ یہ خود ڈی نوٹیفائی ہوچکے ہیں۔
میرا تمام تکنیکی نقطہ یہی ہے۔ باقی ڈاکٹر صاحب بہتر جانتے ہیں۔ وہ علم و ہُنر، تجربے اور تجزیئے میں بہت افضل ہیں۔ بس بونگیاں مارنے میں میرے جونئیر ترین رفقاء میں شمار ہوتے ہیں۔ بونگی مارنے میں راجہ راول ہی سب سے اوّل ہے اس فورم پر۔ بیچارہ پوری محنت، دیانت، صداقت اور عظمت سے بونگی مارتا ہے۔ اگر اس معاملے کا ’’پُٹھا‘‘ تجزیہ کروانا ہو تو راجہ راول کو ٹیگ کردیتے ہیں یہاں پر۔
اسپیکر کی غیر موجودگی میں چیئرپرسن، جسکو بھی اسپیکرصاحب اسمبلی کے اس سیشن کے لیئے نامزد کریں، وہ اجلاس کی صدارت کرسکتے ہیں۔
یہ یاد رہے کہ چئیرپرسن اسمبلی کے ہر سیشن کے لیئے نامزد کیئے جاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ چھ ممبران کا پینل اسپیکر کی جانب سے بطور چئیر پرسن نامزد ہوتا ہے ۔ جس دن اجلاس ختم، پینل ختم۔ اگلا پینل اگلے روز کی کاروائی میں دوبارہ چنا جاتا ہے۔
اب جب بارہ بج گئے، تو بارہ بج گئے۔۔۔۔ اس کے بعد ایاز صادق چئیرپرسن بھی نہیں رہا۔ لہٰذا بارہ بجے کے بعد کی کاروائی صرف وہی اسپیکر کرسکتا ہے جسے صدر کے دفتر سے نامزد کیا گیا ہو۔ اب وہی اسپیکر وہاں آکر اپنے نئے سیشن کے چئیرپرسن نامزد کرے گا۔
ایاز صادق کو اتنا ہی موقع ملا تھا کہ ووٹنگ شروع کرواسکا۔ لیکن اس کے درمیان میں ہی بارہ بج گئے اور اسے چار منٹ کے لیئے اجلاس ملتوی کرنا پڑا، کیونکہ اگلے دن کا نیا اجلاس شروع ہونا تھا۔ نئے اجلاس کا مطلب ہے کہ نیا چئیر پرسن۔ ورنہ رات گئی اور بات گئی، پچھلے سیشن کا چئیرپرسن اگلے دن کے سیشن کو نہیں چلاسکتا۔ اسکی زندگی ایک رات کے پروانے جیسی ہی ہوتی ہے۔
اب یہاں پر صرف وہ شخص اسپیکر کی کرسی پر براجمان ہوسکتا ہے جسے صدرِ پاکستان نوٹیفائی کرے گا۔ وہی شخص آئینی اور قانونی طور پر اسکا مجاز ہوگا کہ کون سے ووٹ شمار کرنے ہیں، کونسے نہیں؟ کب وزیر اعظم کو ڈی نوٹیفائی کرنا ہے اور کب اگلا سیشن بلوانا ہے نئے وزیر اعظم کی ووٹنگ کے لیئے اور ساتھ ہی اسے ہی اختیار حاصل ہوگا کاغذاتِ نامزدگی وغیرہ جمع کرنے کا۔
لہٰذا اب یہ انتظار کریں کہ بہ روز سوموار انکو دندان سازصدر پاکستان کے دفتر سے جب دندان شکن نوٹیفیکیشن موصول ہوگا، تو یہ ایاز صادق کہاں اور کس کو منہہ دکھانے کے قابل رہیں گے؟ جس طرح اچھل اچھل کر یہ ووٹوں کی گنتیاں کر رہے تھے، جیسے وزیر اعظم کو ڈی نوٹیفائی کر رہے تھے۔۔۔۔۔ انکو یہی بھول گیا تھا کہ ’’بارہ بج چکے ہیں‘‘۔ یہ خود ڈی نوٹیفائی ہوچکے ہیں۔
میرا تمام تکنیکی نقطہ یہی ہے۔ باقی ڈاکٹر صاحب بہتر جانتے ہیں۔ وہ علم و ہُنر، تجربے اور تجزیئے میں بہت افضل ہیں۔ بس بونگیاں مارنے میں میرے جونئیر ترین رفقاء میں شمار ہوتے ہیں۔ بونگی مارنے میں راجہ راول ہی سب سے اوّل ہے اس فورم پر۔ بیچارہ پوری محنت، دیانت، صداقت اور عظمت سے بونگی مارتا ہے۔ اگر اس معاملے کا ’’پُٹھا‘‘ تجزیہ کروانا ہو تو راجہ راول کو ٹیگ کردیتے ہیں یہاں پر۔
میں اسوقت بہت رنجیدہ ہوں
تسی فیر کدھرے اناراں یا امباں دے بوٹے تھلے منجی ڈھائی ہونی اے۔۔۔۔ رنجیدہ جے ہوئے۔۔۔۔