mehwish_ali
Chief Minister (5k+ posts)
یہ لوگ جو بات بات پر شرک کے فتوے لگاتے پھرتے ہیں، انکا بنیادی مسئلہ ہے "ظاہر پرستی کی بیماری"۔ انہوں نے پورے قرآن کو ظاہری معنی پر محمول کر لیا ہے اور اس وجہ سے قرآن انکے گلے میں آ کر اٹک جاتا ہے اور نیچے نہیں اتر پاتا۔
جو کچھ مزاروں پر ہوتا ہے، اُس میں سے بہت کچھ غلط ہے، مگر ردِ عمل کے طور پر جو کچھ یہ کر رہے ہیں، وہ انتہا بھی غلط ہے۔ کوئی مسلمان رسول ﷺ کو اللہ کا شریک نہیں کرتا ہے، بلکہ تمام چیزوں کا اصل اور مطلق مالک صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے۔
تو پھر آپ اللہ اور قرآن پر شرک کا فتوی کیوں نہیں لگاتے؟
انکی ظاہر پرستی کی بیماری پر چلا جائے تو سب سے پہلے ہمیں معاذ اللہ بذات خود اللہ اور قرآن پر شرک کا فتوی لگانا پڑے گا، کیونکہ اسی قرآن میں اللہ فرما رہا ہے کہ وہ (اللہ) اور اسکا رسول اپنے فضل سے غنی کرتے ہیں۔
وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ
(القران 9:59) اور اگر وہ اس پر راضی ہو جاتے کی جو کچہ اللہ نے اور اس کے رسول نے انہیں دیا ہے، اور یہ کہتے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے۔ اور اللہ جلد ہمیں مزید عطا کرے گا اپنے فضل سے اور اس کا رسول بھی۔
تو کیا یہاں اللہ خود شرک کر رہا ہے یہ کہہ کر کہ رسول بھی ہمیں عطا کرتا ہے؟
يَحْلِفُونَ بِاللّهِ مَا قَالُواْ وَلَقَدْ قَالُواْ كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُواْ بَعْدَ إِسْلاَمِهِمْ وَهَمُّواْ بِمَا لَمْ يَنَالُواْ وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ فَإِن يَتُوبُواْ يَكُ خَيْرًا
(القران 9:74) یہ قسم کہاتے ہیں کہ انہوں نے ایسا نہیں کہا ہے حالانکہ انہوں نے کلمہِ کفر کہا ہے اور ایمان لانے کے بعد کافر ہو گثے ہیں اور وہ ارادہ کیا تھا جو حاصل نہیں کر سکے اور انہیں صرف اس بات کا غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے انہیں (مسلمانوں) کو غنی کر دیا ہے۔ بہرحال یہ اب بھی توبہ کر لیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ھے۔۔۔
فضل سے غنی کرنا تو صرف اللہ کا کام ہے، مگر اللہ اسی قران میں گواہی دے رہا ہے کہ اللہ کا رسول ﷺ بھی اپنے فضل سے مسلمانوں کو غنی کرتا ہے۔ ہمارے لیے تو بات بہت صاف ہے کیونکہ ہم ظاہر پرستی کی بیماری میں مبتلا نہیں اور یہ فرق کر سکتے ہیں کہ "فضل سے غنی کرنا" مطلق معنوں میں صرف اور صرف اللہ کا کام ہے، مگر مجازی معنوں میں اللہ کے ساتھ ساتھ رسول ﷺ کے متعلق بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں۔
تو ان لوگوں سے سوال یہ ہے کہ اگر اللہ قرآن میں فقط یہ فرما دیتا کہ "میں (اللہ) نے غنی کر دیا ہے" تو کیا یہ بات کافی نہ ہوتی؟ تو پھر اللہ اپنے ساتھ ساتھ رسول ﷺ کے فضل سے غنی کرنے کا ذکر کیوں کر رہا ہے؟
اگر ان لوگوں کی ظاہر پرستی کی بیماری ختم نہیں ہوتی تو پھر کوئی انہیں ڈوبنے سے نہیں بچا سکتا۔
جو کچھ مزاروں پر ہوتا ہے، اُس میں سے بہت کچھ غلط ہے، مگر ردِ عمل کے طور پر جو کچھ یہ کر رہے ہیں، وہ انتہا بھی غلط ہے۔ کوئی مسلمان رسول ﷺ کو اللہ کا شریک نہیں کرتا ہے، بلکہ تمام چیزوں کا اصل اور مطلق مالک صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے۔
تو پھر آپ اللہ اور قرآن پر شرک کا فتوی کیوں نہیں لگاتے؟
انکی ظاہر پرستی کی بیماری پر چلا جائے تو سب سے پہلے ہمیں معاذ اللہ بذات خود اللہ اور قرآن پر شرک کا فتوی لگانا پڑے گا، کیونکہ اسی قرآن میں اللہ فرما رہا ہے کہ وہ (اللہ) اور اسکا رسول اپنے فضل سے غنی کرتے ہیں۔
وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَا آتَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا اللّهُ سَيُؤْتِينَا اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللّهِ رَاغِبُونَ
(القران 9:59) اور اگر وہ اس پر راضی ہو جاتے کی جو کچہ اللہ نے اور اس کے رسول نے انہیں دیا ہے، اور یہ کہتے کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے۔ اور اللہ جلد ہمیں مزید عطا کرے گا اپنے فضل سے اور اس کا رسول بھی۔
تو کیا یہاں اللہ خود شرک کر رہا ہے یہ کہہ کر کہ رسول بھی ہمیں عطا کرتا ہے؟
يَحْلِفُونَ بِاللّهِ مَا قَالُواْ وَلَقَدْ قَالُواْ كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُواْ بَعْدَ إِسْلاَمِهِمْ وَهَمُّواْ بِمَا لَمْ يَنَالُواْ وَمَا نَقَمُواْ إِلاَّ أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ فَإِن يَتُوبُواْ يَكُ خَيْرًا
(القران 9:74) یہ قسم کہاتے ہیں کہ انہوں نے ایسا نہیں کہا ہے حالانکہ انہوں نے کلمہِ کفر کہا ہے اور ایمان لانے کے بعد کافر ہو گثے ہیں اور وہ ارادہ کیا تھا جو حاصل نہیں کر سکے اور انہیں صرف اس بات کا غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے انہیں (مسلمانوں) کو غنی کر دیا ہے۔ بہرحال یہ اب بھی توبہ کر لیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ھے۔۔۔
فضل سے غنی کرنا تو صرف اللہ کا کام ہے، مگر اللہ اسی قران میں گواہی دے رہا ہے کہ اللہ کا رسول ﷺ بھی اپنے فضل سے مسلمانوں کو غنی کرتا ہے۔ ہمارے لیے تو بات بہت صاف ہے کیونکہ ہم ظاہر پرستی کی بیماری میں مبتلا نہیں اور یہ فرق کر سکتے ہیں کہ "فضل سے غنی کرنا" مطلق معنوں میں صرف اور صرف اللہ کا کام ہے، مگر مجازی معنوں میں اللہ کے ساتھ ساتھ رسول ﷺ کے متعلق بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں۔
تو ان لوگوں سے سوال یہ ہے کہ اگر اللہ قرآن میں فقط یہ فرما دیتا کہ "میں (اللہ) نے غنی کر دیا ہے" تو کیا یہ بات کافی نہ ہوتی؟ تو پھر اللہ اپنے ساتھ ساتھ رسول ﷺ کے فضل سے غنی کرنے کا ذکر کیوں کر رہا ہے؟
اگر ان لوگوں کی ظاہر پرستی کی بیماری ختم نہیں ہوتی تو پھر کوئی انہیں ڈوبنے سے نہیں بچا سکتا۔