خبریں

این ایچ ایم پی نے سوزوکی آلٹو کو موٹر ویز پر پابندی سے متعلق افواہوں کی تردید کر دی موٹر وے پولیس (این ایچ ایم پی) نے ان افواہوں کی تردید کی ہے جن میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ سوزوکی آلٹو کو موٹر ویز پر سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ پاک وہیلز سے بات کرتے ہوئے، این ایچ ایم پی کے ترجمان نے اس صورتحال کی وضاحت کی اور کہا، "اب تک اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔" یہ وضاحت سوشل میڈیا پر گردش کرتی ان افواہوں کے بعد سامنے آئی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) نے سوزوکی آلٹو کو موٹر ویز پر سفر کرنے سے منع کر دیا ہے۔ یہ افواہیں ایک حالیہ افسوسناک حادثے کے بعد مزید پھیل گئیں تھیں جس میں ایک آلٹو گاڑی ایک مکمل طور پر لوڈ شدہ 12 پہیوں والے ٹرک کے نیچے کچلی گئی، جس سے گاڑی شدید طور پر تباہ ہو گئی۔ اس واقعے نے سوشل میڈیا پر چھوٹے گاڑیوں کی ہائی اسپیڈ ہائی ویز پر حفاظت کے حوالے سے مباحثے کو جنم دیا۔ بعض صارفین نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ حکام نے سوزوکی آلٹو کو حفاظتی خدشات کی وجہ سے موٹر ویز پر پابندی لگا دی ہے۔ ایک اور پھیلنے والی افواہ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاک سوزوکی موٹر کمپنی (پی ایس ایم سی) نے اپنی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی سوزوکی آلٹو کی پیداوار کو بند کر دیا ہے۔ تاہم، پاک وہیلز کے مطابق، پی ایس ایم سی کے حکام نے اس دعوے کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ جہاں آلٹو کی پیداوار بند نہیں ہو رہی، وہاں کمپنی آلٹو وی ایکس ویریئنٹ کو مرحلہ وار ختم کر سکتی ہے، کیونکہ اس ویریئنٹ میں ایئربیگ اور اے بی ایس جیسے اہم حفاظتی فیچرز نہیں ہیں۔ گاہکوں کو اب بھی آلٹو کے اپ گریڈڈ ویریئنٹس خریدنے کا موقع ملے گا، جو ڈوئل ایئربیگ، اے بی ایس، اور آئی ایس او فکس چائلڈ سیٹ اینکرز سے لیس ہیں۔ اس سے پہلے، 11 مارچ کو پاک سوزوکی موٹر کمپنی نے اپنے ویگن آر ہیچ بیک کے تمام ویریئنٹس کی بکنگ کو مستقل طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا۔ کمپنی نے اپنے ڈیلرز کو ایک رسمی پیغام میں بتایا کہ یہ فیصلہ تمام ویریئنٹس پر لاگو ہو گا۔ کمپنی نے سیلز ٹیموں کو ہدایت کی کہ وہ ممکنہ گاہکوں کو اس بارے میں آگاہ کریں۔
لاہور: کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مبینہ خودکش بمبار کو گرفتار کر لیا گیا، جس کے بعد لاہور کو بڑی تباہی سے بچا لیا گیا۔ سی ٹی ڈی پولیس نے مقدمہ درج کر کے مزید تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق، لاہور کے علاقے برکی روڈ کے قریب سی ٹی ڈی پولیس نے خفیہ معلومات کی بنیاد پر کارروائی کرتے ہوئے کالعدم تحریک طالبان کے مبینہ خودکش بمبار کو گرفتار کر لیا، جبکہ اس کا ایک ساتھی زخمی حالت میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ سی ٹی ڈی کے ترجمان کے مطابق، گرفتاری کے دوران دہشت گردوں اور پولیس کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ گرفتار خودکش بمبار کی شناخت حافظ شمس کے نام سے ہوئی ہے، جو بلوچستان کا رہائشی ہے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے منسلک بتایا جاتا ہے۔ گرفتاری کے دوران خودکش جیکٹ، سیفٹی فیوز وائر، اور بارودی مواد برآمد ہوا ہے۔ سی ٹی ڈی کے ترجمان نے بتایا کہ دہشت گردوں کی معلومات ملتے ہی اعلیٰ پولیس افسران موقع پر پہنچ گئے، جبکہ سی ٹی ڈی کی ٹیموں نے برکی اور اس کے نواحی علاقوں کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ ترجمان کے مطابق، دہشت گرد لاہور پر بڑے پیمانے پر حملے کی منصوبہ بندی مکمل کر چکے تھے، لیکن بروقت کارروائی کے باعث شہر کو بڑی تباہی سے بچا لیا گیا۔ سی ٹی ڈی نے واقعے کے بعد مقدمہ درج کر لیا ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔ یہ کارروائی لاہور میں سیکیورٹی فورسز کی چوکسی اور پیشگی اقدامات کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے، جس کے ذریعے بڑے نقصان کو روکا جا سکا۔
اسلام آباد: انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق، پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے پارٹی کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے غیر ذمہ دارانہ استعمال اور فوج اور ملکی مفادات کے خلاف مواد پھیلانے کے معاملے کو پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پارٹی ذرائع کے مطابق، حال ہی میں کے پی ہاؤس اسلام آباد میں ہونے والے سیاسی کمیٹی کے اجلاس میں اس معاملے پر تفصیل سے بات کی گئی، جس میں پارٹی کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے جارحانہ اور بے ضابطہ مواد پھیلانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ کمیٹی نے اس بات پر اتفاق کیا کہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کرنے والے پارٹی کے سینئر رہنما ان کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جن میں ان کے ذاتی اکاؤنٹس بھی شامل ہیں، کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے نگرانی کا طریقہ کار نافذ کرنے پر قائل کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان کو مشورہ دیا جائے گا کہ وہ پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دیں جو پارٹی کے آفیشل اکاؤنٹس، بشمول ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور فیس بک پر پوسٹ ہونے والے تمام مواد کی جانچ کرے۔ اس تجویز کا مقصد بیرون ملک مقیم افراد کے اثر و رسوخ کو روکنا ہے، جو کہ مبینہ طور پر ان اکاؤنٹس کا استعمال فوج مخالف مہمات اور پوسٹس کے لیے کرتے ہیں، جس سے ملکی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگرچہ عمران خان پہلے ان اکاؤنٹس کا دفاع کرتے رہے ہیں، مگر پارٹی میں ان کے استعمال کے حوالے سے بے چینی بڑھ رہی ہے۔ متعدد سینئر رہنماؤں نے ان اکاؤنٹس کے ذریعے پھیلائے جانے والے مواد پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ پارٹی کی سیاسی کمیٹی نے اس معاملے کو باضابطہ طور پر اٹھایا ہے۔ ماضی میں، انفرادی سطح پر پارٹی رہنماؤں نے عمران خان سے پارٹی کی سوشل میڈیا پالیسیوں کا جائزہ لینے کا کہا تھا، لیکن انہوں نے کبھی ان افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جو بیرون ملک سے ان پلیٹ فارمز کے غلط استعمال میں ملوث تھے۔ پی ٹی آئی کے ایک سینئر ذریعے نے بتایا کہ پارٹی کے بیشتر اہم رہنماؤں، بشمول بیرسٹر گوہر، علی امین گنڈا پور، سلمان اکرم راجہ، شبلی فراز، جنید اکبر، رئوف حسن، عامر ڈوگر، حافظ فرحت اور اسد قیصر نے کے پی کے ہاؤس اسلام آباد کے اجلاس میں شرکت کی اور اس بات پر اتفاق کیا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سخت کنٹرول ضروری ہے۔ یہ معاملہ بلوچستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے سے قبل زیر غور آیا تھا، جس میں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے مبینہ طور پر حمایت کی تھی۔ پارٹی کے کچھ اکاؤنٹس پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے ٹرین ہائی جیکنگ میں ملوث عسکریت پسندوں کے بیانات سے ہم آہنگ پروپیگنڈا شیئر کیا۔ پی ٹی آئی کی سینئر قیادت کا پارٹی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر کوئی کنٹرول نہیں، اور یہ اکاؤنٹس بیرون ملک سے چلائے جا رہے ہیں۔ پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ اور سیکرٹری اطلاعات وقاص اکرم شیخ کا بھی پوسٹ کیے جانے والے مواد پر کوئی اثر رسوخ نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے امریکا چیپٹر سے بات چیت کے معاملے کو ماضی میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے تاکہ متنازع بیانیہ پھیلانے کا عمل روکا جا سکے۔ پارٹی رہنماؤں کی شکایت ہے کہ پارٹی کے آفیشل اکاؤنٹس پر ان کے بیانات اور پریس کانفرنسز کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے، مگر بیرون ملک بیٹھے یوٹیوبرز کی پوسٹس اور بیانات پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اور بیرون ملک مقیم (ڈائسپورا) گروپوں کا دباؤ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ پارٹی رہنما جھوٹے یا مبالغہ آرائی پر مبنی بیانات اور پروپیگنڈے کی تردید سے گریز کرتے ہیں۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ صرف عمران خان ہی پارٹی کے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو ضابطے میں لا سکتے ہیں، تاہم اس سے پہلے کی کوششیں ناکام رہی ہیں کیونکہ وہ پی ٹی آئی کے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے پھیلائے جانے والے مواد کی مسلسل تعریف کرتے رہے ہیں۔
واشنگٹن: ٹرمپ انتظامیہ 43 ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیوں کی تجاویز پر غور کر رہی ہے۔ امریکی اخبار کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ ایک نئی سفری پابندیوں کی فہرست تیار کر رہی ہے، جس میں مختلف ممالک کو تین زمروں (کیٹیگریز) میں تقسیم کیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق، 10 ممالک کو "اورنج لسٹ" میں شامل کرنے کی تجویز ہے، جن میں پاکستان، بیلاروس، ہیٹی، میانمار، روس، اور ترکمانستان شامل ہیں۔ اورنج لسٹ میں شامل ممالک کے شہریوں کے امیگرنٹ اور سیاحتی ویزے محدود کیے جائیں گے، تاہم کاروباری مسافروں کو کچھ شرائط کے ساتھ امریکا میں داخلے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ 11 ممالک کے شہریوں پر مکمل سفری پابندی عائد کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔ ان ممالک کو "ریڈ لسٹ" میں شامل کیا جا سکتا ہے، جن میں افغانستان، بھوٹان، کیوبا، ایران، لیبیا، شمالی کوریا، شام، سوڈان، سومالیہ، وینزویلا، اور یمن شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، ٹرمپ انتظامیہ چاڈ، ڈومینیکا، اور لائبیریا سمیت 22 ممالک کو "یلو لسٹ" میں شامل کرنے پر غور کر رہی ہے۔ یلو لسٹ میں شامل ممالک کے شہریوں کو ویزا درخواست کے حوالے سے کسی قسم کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے 60 دن کا وقت دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکا سفر پر پابندی کے تین ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے تھے، جنہیں "مسلم بین" کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس پابندی کے تحت ایران، عراق، لیبیا، سوڈان، سومالیہ، اور یمن کے شہریوں پر سفری پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ تاہم، سابق صدر جو بائیڈن نے جنوری 2021 میں حلف اٹھاتے ہی ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کو ختم کر دیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے سفری پابندیوں کی یہ نئی تجاویز امریکی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔
پاکستان کرپٹو کونسل (پی سی سی) کا باضابطہ قیام ملک میں بلاک چین ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل اثاثوں کے فروغ اور ضابطہ کاری کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق، یہ کونسل کرپٹو کرنسی کے استعمال کو فروغ دینے، جدیدیت کو اپنانے اور محفوظ مالیاتی نظام کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے گی۔ وزارت خزانہ نے اعلان کیا کہ وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب پاکستان کرپٹو کونسل کے سربراہ ہوں گے، جو حکومت کی ڈیجیٹل معیشت کے فروغ کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ وزیر خزانہ کے چیف ایڈوائزر بلال بن ثاقب کو کونسل کا سی ای او مقرر کیا گیا ہے، جو بلاک چین ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری کی حکمت عملی، اور ڈیجیٹل جدت میں اپنی مہارت کے ذریعے اس اقدام کی قیادت کریں گے۔ کونسل کے ابتدائی بورڈ ممبران میں گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان، چیئرمین سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (SECP)، وفاقی سیکریٹری قانون، اور وفاقی سیکریٹری آئی ٹی شامل ہیں۔ یہ متنوع قیادت مالی استحکام، قانونی ڈھانچے اور تکنیکی ترقی کے امتزاج کو یقینی بنائے گی تاکہ پاکستان میں کرپٹو ایکو سسٹم کو فروغ مل سکے۔ پاکستان کرپٹو کونسل کا قیام اس بات کا عکاس ہے کہ حکومت بلاک چین ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل اثاثوں کے عالمی رجحانات کو اپنانے کے لیے تیار ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق، پاکستان ایک واضح ضابطہ جاتی حکمت عملی کے تحت سرمایہ کاروں، کاروباری اداروں اور جدید ٹیکنالوجی کے خواہشمند افراد کے لیے محفوظ اور مربوط ماحول فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ دنیا تیزی سے ڈیجیٹل فنانس کی طرف بڑھ رہی ہے اور پاکستان اس شعبے میں قیادت کے خواہاں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کرپٹو کونسل کا قیام ایک ایسا ضابطہ جاتی فریم ورک تشکیل دینے کی جانب قدم ہے جو سرمایہ کاروں اور مالیاتی نظام کے تحفظ کو یقینی بنائے گا۔ پاکستان کرپٹو کونسل کے سی ای او بلال بن ثاقب نے اس اقدام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کونسل کا مقصد نہ صرف ضوابط تیار کرنا ہے بلکہ ایک ایسا ماحول قائم کرنا ہے جہاں بلاک چین اور ڈیجیٹل فنانس کو فروغ دیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو عالمی ڈیجیٹل معیشت میں ایک مؤثر کھلاڑی بنانا ہماری ترجیح ہے، جہاں سیکیورٹی، شفافیت اور جدیدیت کو اہمیت دی جائے۔ پاکستان کرپٹو کونسل کے ابتدائی اقدامات میں کرپٹو کرنسی کے لیے واضح ضابطہ جاتی ہدایات تیار کرنا، عالمی کرپٹو اور بلاک چین تنظیموں سے روابط قائم کرنا، اور مالیاتی ٹیکنالوجی (Fintech) اسٹارٹ اپس، سرمایہ کاروں اور بلاک چین ڈویلپرز کے ساتھ مل کر جدت کو فروغ دینا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، صارفین کے تحفظ اور مالی سلامتی کے لیے مضبوط قانونی اور تعمیلی فریم ورک تیار کرنا بھی کونسل کا مقصد ہے۔ پاکستان کرپٹو کونسل کا قیام اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ملک مالیاتی اور تکنیکی ترقی کے ایک نئے دور میں قدم رکھ رہا ہے اور ڈیجیٹل فنانس کے شعبے میں ایک نمایاں مقام حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق بلال بن ثاقب نے کہا کہ پاکستان کی ڈیجیٹل اثاثوں کی مارکیٹ، جس میں 10 لاکھ سے زائد پاکستانی شامل ہیں، تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک بہترین ریگولیٹری فریم ورک پاکستان کو عالمی کرپٹو مارکیٹ میں غیر ملکی سرمایہ کاری لانے میں مدد دے سکتا ہے۔ بلال بن ثاقب نے یہ بھی کہا کہ متحدہ عرب امارات میں 2023 کے دوران کرپٹو کرنسی کے شعبے میں 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی ہے، جس سے پاکستان کو بھی ریونیو حاصل ہو گا اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ، ایک قانونی فریم ورک کے قیام سے نوجوانوں کے لیے ملازمت کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا کاروبار غیر رسمی طور پر جاری ہے، اور ایک اندازے کے مطابق تقریباً دو کروڑ پاکستانی اس کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کے پاس کرپٹو کرنسی موجود ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بلوچستان میں جعفرایکسپریس پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ سلامتی کونسل نے کہا کہ تمام ریاستوں کو دہشت گردی کے خلاف اپنی عالمی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں۔ سلامتی کونسل نے اس بات کا ذکر بھی کیا کہ بی ایل اے کے مجید بریگیڈ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس نے دہشت گردی کو عالمی امن و سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیا اور پاکستان کے ساتھ فعال تعاون پر زور دیا۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھی جعفرایکسپریس پر حملے کی مذمت کی ہے۔ او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ نے دہشت گردی کی ہر قسم کو مسترد کرتے ہوئے حکومت پاکستان اور عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور حملے میں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کیا۔
ملک بھر کے شہروں اور دیہات میں پینے کے صاف پانی کے نام پر فروخت ہونے والے منرل واٹر (بوتل بند) کے 27 برانڈز کا پانی مضرِ صحت پایا گیا ہے۔ ان میں سے بعض برانڈز میں سوڈیم، آرسینک اور پوٹاشیم کی مقدار مقررہ حد سے زیادہ پائی گئی، جبکہ بعض برانڈز کا پانی جراثیم سے آلودہ پایا گیا۔ ان غیر معیاری پانیوں کے استعمال سے جلد کے امراض، کینسر، گردوں، دل، بلڈ پریشر اور پیٹ کی بیماریاں جنم لے سکتی ہیں۔ ہیضہ اور نروس سسٹم متاثر ہونے کا خدشہ بھی ہے۔ اس کے باوجود متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، اور انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کے خلاف سخت کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ذرائع کے مطابق، اگر کسی کمپنی کو بند کر دیا جائے تو وہ دوسرے نام سے دوبارہ کھل جاتی ہے۔ اکتوبر تا دسمبر 2024ء کی سہ ماہی میں ملک کے 20 شہروں سے بوتل بند منرل پانی کے 176 برانڈز کے نمونے حاصل کیے گئے۔ ان نمونوں کا پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے) کے تجویز کردہ معیار کے مطابق لیبارٹری تجزیہ کیا گیا۔ تجزیے کے مطابق 176 میں سے 27 برانڈز پینے کے لیے غیر معیاری پائے گئے۔ پی سی آر ڈبلیو آر کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غیر معیاری پائے گئے 27 برانڈز میں سے 10 برانڈز (میرن ڈرنکنگ واٹر، پاک ایکوا، جیل بوتل واٹر، نیو، آبِ دبئی، ایلٹسن، پیور واٹر، ایکوا ہیلتھ، اوسلو، مور پلس) کے نمونوں میں سوڈیم کی مقدار مقررہ حد سے زیادہ پائی گئی۔ پانچ برانڈز (ون پیور ڈرنکنگ واٹر، انڈس، پریمیم صفاء پیوریفائیڈ واٹر، اورویل، نیچرل پیور لائف) کے نمونوں میں آرسینک (سنکھیا) کی مقدار زیادہ تھی، جبکہ ایک برانڈ (ہنزہ اوتر واٹر) میں پوٹاشیم کی مقدار مقررہ حد سے زیادہ پائی گئی۔ 16 برانڈز (ایس ایس واٹر، سپ سپ پریمیم ڈرنکنگ واٹر، میرن ڈرنکنگ واٹر، ڈی -نووا، سکائی رین، نیو، پیور واٹر، ڈریم پیور، ایکوا شرو پیور ڈرنکنگ واٹر، ماروی، آئس ویل، عقب سکائی، قراقرم سپرنگ واٹر، مور پلس، اسنشیا، لائف ان) جراثیم سے آلودہ پائے گئے، جو پینے کے لیے مضرِ صحت ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 81 برانڈ مارکیٹ میں موجود ہی نہیں پائے گئے۔ ڈائریکٹر جنرل پی سی آر ڈبلیو آر ڈاکٹر حفظہ رشید نے بتایا کہ کابینہ کی ہدایت پر بوتل بند منرل واٹر کی ملک بھر کے 24 شہروں سے سہ ماہی سمپلنگ کی جاتی ہے اور اس کی ٹیسٹنگ کی جاتی ہے۔ اس کی رپورٹ لیگل ایکشن کے لیے پی ایس کیو سی اے اور چاروں صوبائی چیف سیکرٹریز کو بھجوائی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی کمپنی کو مختلف قسم کی ریکوائرمنٹ پوری کرنے پر ہی منرل واٹر کی فروخت کے لیے لائسنس جاری کیا جاتا ہے۔ پی سی آر ڈبلیو آر کا کام صرف ہر تین ماہ بعد نمونوں کی ٹیسٹنگ کر کے رپورٹ متعلقہ اداروں اور ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنا ہے۔ غیر معیاری پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کے خلاف کارروائی دیگر اداروں کا کام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر معیاری پانی کے استعمال سے گردے متاثر ہو سکتے ہیں، بلڈ پریشر کی بیماری ہو سکتی ہے، جلد کے امراض جن میں کینسر بھی شامل ہے، ہیضہ، ٹائیفائیڈ اور نروس سسٹم بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ مضرِ صحت پائے گئے پانی کی کمپنیوں کے مالکان سے رابطے کی کوشش کی گئی تو ان میں سے بعض کا کہنا تھا کہ کمپنی فروخت کر دی گئی ہے، بعض کا کہنا تھا کہ مالک موجود نہیں ہے، اور کسی نے فون ہی نہیں اٹھایا۔ کئی کمپنیاں سوالات کا تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ وہ معیارات کی پیروی کرتے ہیں۔ بعض کمپنیوں کے ترجمانوں نے غیر معیاری پانی کے الزامات کی تردید کی اور کہا کہ پانی معیاری ہے اور رپورٹس جھوٹ پر مبنی ہیں۔ لائسنسنگ اتھارٹی پی ایس کیو سی اے کے ڈائریکٹر سی اے اشرف پلیر نے بتایا کہ منرل واٹر پلانٹ کا لائسنس ایک سخت پراسس کے بعد جاری کیا جاتا ہے۔ جب کوئی لائسنس کے لیے اپلائی کرتا ہے تو منرل واٹر کے پلانٹ کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ فیلڈ آفیسر کی سفارش پر تھرڈ پارٹی چیکنگ کی جاتی ہے، اور اسکروٹنی کمیٹی کی منظوری کے بعد ڈائریکٹر جنرل لائسنس جاری کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جن کمپنیوں کا پانی حفظانِ صحت کے اصولوں کے خلاف پایا جاتا ہے، ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ ان کے نمونوں کی تین دفعہ رینڈم چیکنگ کی جاتی ہے، اور اگر پانی پھر بھی غیر معیاری ہو تو کمپنی کا لائسنس منسوخ کر کے اس کی پروڈکشن کی جگہ کو سربمہر کر دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارے کے پاس اسٹاف کی کمی ہے، جس کی وجہ سے پورے ملک میں معیار کو برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔
کراچی: مصطفیٰ عامر قتل کیس میں نامزد ملزم ارمغان نے اپنے خلاف درج مقدمات میں پیش ہونے والے وکیل کو دھمکیاں دینے کے معاملے میں اعتراف جرم کر لیا ہے۔ جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں کیس کے تفتیشی افسر نے ملزم ارمغان کے خلاف ضمنی چالان جمع کروا دیا، جس میں بتایا گیا کہ ملزم نے جیل میں تفتیش کے دوران اعتراف جرم کیا ہے۔ چالان کے مطابق، ایڈووکیٹ سیف جتوئی ان مقدمات میں مدعی کی طرف سے پیش ہوتے تھے جو ارمغان پر تھانہ گزری اور تھانہ درخشاں میں درج تھے۔ ملزم ارمغان نے اپریل 2024 میں وکیل اور اس کی فیملی کو واٹس ایپ پر گالیاں دینے سمیت دھمکی آمیز پیغامات بھیجے تھے۔ وکیل سیف جتوئی نے ملزم ارمغان کے خلاف تھانہ بوٹ بیسن میں مقدمہ درج کروایا تھا۔ ابتدائی طور پر ملزم کی عدم گرفتاری کی وجہ سے چالان داخل دفتر کر دیا گیا تھا، لیکن 17 فروری کو پولیس نے ارمغان سے تفتیش کے لیے اے ٹی سی کلفٹن سے اجازت حاصل کی۔ تفتیش کے دوران ملزم ارمغان نے وکیل کو دھمکیاں دینے کا اعتراف کیا، جس کے بعد اس کے خلاف چالان تیار کیا گیا۔ اب عدالت میں ملزم کے خلاف کارروائی جاری ہے، اور اس معاملے کی سماعت کے بعد فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ یہ معاملہ مصطفیٰ عامر قتل کیس سے منسلک ہے، جس میں ارمغان کو بطور ملزم نامزد کیا گیا تھا۔ وکیل کو دھمکیاں دینے کا یہ واقعہ اس کیس میں ایک نئی موڑ ہے، جس نے عدالتی نظام میں قانونی پیشہ ور افراد کی حفاظت کے سوالات کو ایک بار پھر سے اجاگر کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا عدالت ملزم ارمغان کے خلاف سخت کارروائی کرتی ہے یا نہیں۔ اس معاملے کا فیصلہ نہ صرف مصطفیٰ عامر قتل کیس پر اثر انداز ہوگا، بلکہ وکلاء کی حفاظت اور عدالتی نظام کے تحفظ کے لیے بھی اہم ہوگا۔
لندن: برطانوی عدالت نے سارہ شریف کے والدین اور چچا کی سزاؤں میں کمی کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ رائل کورٹ آف جسٹس میں تین ججوں کی بنچ نے اس اپیل کی سماعت کی تھی، جسے بدھ کے روز رد کر دیا گیا۔ خیال رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں لندن کی کریمنل کورٹ اولڈ بیلی کی عدالت نے 10 سالہ سارہ شریف کے قتل کے معاملے میں اس کے والد عرفان شریف کو 40 سال، سوتیلی والدہ بینش بتول کو 33 سال، اور چچا فیصل ملک کو 16 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ تینوں مجرموں نے اپنی سزاؤں میں کمی کے لیے اپیل کی تھی، جسے اب عدالت نے مسترد کر دیا ہے۔ سارہ شریف اگست 2023 میں اپنے والدین کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنی تھی، جس کے بعد اس کی لاش ووکنگ میں واقع اس کے گھر سے برآمد ہوئی تھی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق، سارہ کے جسم پر 71 زخم تھے، اور اس کی ہڈیاں 25 مقامات سے ٹوٹی ہوئی تھیں۔ اس کے جسم پر استری سے جلانے اور انسانی دانتوں سے کاٹنے کے نشانات بھی موجود تھے۔ سارہ کی موت کے چند گھنٹوں بعد، عرفان شریف اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان فرار ہو گیا تھا۔ تاہم، 13 ستمبر 2023 کو برطانیہ واپسی پر ان کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ سارہ شریف کا معاملہ برطانیہ میں بڑے پیمانے پر زیر بحث آیا تھا، جس نے بچوں کے تحفظ اور گھریلو تشدد کے خلاف اقدامات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ عدالت کے فیصلے نے اس معاملے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے، اور اب سزا یافتہ افراد کو اپنی سزائیں پوری کرنی ہوں گی۔ یہ فیصلہ سارہ شریف کے خاندان اور معاشرے کے لیے ایک اہم پیغام ہے کہ تشدد اور ظلم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا اس معاملے سے متعلق مزید کوئی قانونی کارروائی ہوتی ہے یا نہیں۔
اسلام آباد: اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے نیٹ میٹرنگ کے تحت سولر صارفین سے خریدی جانے والی بجلی کی قیمت میں کمی کر دی ہے۔ اب نئے سولر صارفین سے بجلی 27 روپے کے بجائے 10 روپے فی یونٹ خریدی جائے گی۔ تاہم، یہ فیصلہ پہلے سے موجود سولر صارفین پر لاگو نہیں ہوگا۔ وزارت خزانہ کے اعلامیے کے مطابق، سولر صارفین سے بجلی 10 روپے فی یونٹ میں خریدنے کا فیصلہ مارکیٹ کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ ای سی سی کے مطابق، نئے سولر پینل لگانے والے صارفین کو نیشنل گرڈ سے بجلی آف پیک ریٹ پر فراہم کی جائے گی۔ ای سی سی کا کہنا ہے کہ سولر بجلی کی وجہ سے گرڈ کی بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے بجلی سستی کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔ کمیٹی کے مطابق، سولر پینل استعمال کرنے والے صارفین میں سے 80 فیصد کا تعلق 9 بڑے شہروں سے ہے۔ ای سی سی کو دی جانے والی بریفنگ کے مطابق، دسمبر 2024 تک سولر صارفین نے گرڈ صارفین پر 159 ارب روپے کا بوجھ منتقل کیا ہے۔ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو دسمبر 2034 تک یہ بوجھ 4 ہزار 240 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔ بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ دسمبر 2024 میں سولر صارفین کی تعداد 2 لاکھ 83 ہزار تک پہنچ گئی ہے، جو اکتوبر 2023 میں 2 لاکھ 26 ہزار 440 تھی۔ اسی طرح، دسمبر 2024 میں سولر سے پیدا ہونے والی بجلی کی مقدار 4 ہزار 321 میگاواٹ ہو گئی ہے، جو 2021 میں صرف 321 میگاواٹ تھی۔ یہ فیصلہ حکومت کی جانب سے توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور بجلی کے شعبے میں پائیدار حل تلاش کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ تاہم، اس فیصلے کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ اقدام سولر انرجی کو فروغ دینے کے لیے کافی ہوگا، یا اس سے سولر صارفین کی حوصلہ شکنی ہوگی؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ فیصلہ بجلی کے شعبے میں توازن قائم کرنے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔ سولر انرجی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ، حکومت کو یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ عام صارفین پر بجلی کے بوجھ میں غیر منصفانہ اضافہ نہ ہو۔
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک شدید بیان دیتے ہوئے فوجی قیادت کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ 7 لاکھ فوج 10 ہزار طالبان کے خلاف کامیاب کیوں نہیں ہو رہی؟ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو جیل میں ڈالنے کا مطالبہ کیا۔ شیر افضل مروت نے کہا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات کے بعد یہاں تقاریر سنی گئیں، لیکن حل پیش نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ فوجی آپریشن بلوچستان کے مسئلے کا حل نہیں ہے۔ انہوں نے سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بھی تقاریر ہوئی تھیں، لیکن کوئی عملی اقدام نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بلوچستان کے واقعے کی مذمت کرتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ علی وزیر آج بھی سکھر جیل میں کیوں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ اگر حالات ایسے ہی ٹھیک ہونے ہوتے تو اب تک ٹھیک ہو چکے ہوتے۔ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مشینری لگی ہوئی ہے کہ پی ٹی آئی نے دہشت گردوں کے حق میں ٹوئٹ کیے ہیں۔ شیر افضل مروت نے کہا کہ قمر جاوید باجوہ خوشی سے آزاد گھوم رہے ہیں، جبکہ انہوں نے کشمیر کا سودا کیا اور فیض حمید کے ذریعے لوگوں کو جیلوں میں ڈلوایا۔ انہوں نے کہا کہ فیض حمید کو جیل میں ڈالنا اچھا اقدام تھا، لیکن باجوہ کو بھی جیل میں ڈالا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہے کیونکہ وہ سابق آرمی چیف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کب تک صرف مذمتیں اور قراردادیں پیش کرتے رہیں گے؟ انہوں نے سروسز چیفس کو بلانے اور ان سے سوالات کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ دو ماہ کے لیے پالیسیاں بنائی جاتی ہیں، اور تمام ایجنسیاں سیاستدانوں کو ڈراتی دھمکاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کا سودا کرنے پر قمر جاوید باجوہ کو انصاف کے کٹہرے میں کیوں نہیں لایا جاتا؟ جرنیلوں کے اثاثوں کی چھان بین کیوں نہیں کی جاتی؟ شیر افضل مروت نے کہا کہ طالبان کو واپس بسانے کی ذمہ داری تمام سیاسی جماعتوں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیض حمید کے ساتھ قمر جاوید باجوہ کو بھی جیل میں ڈالا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک صوبوں کو ان کے حقوق نہیں دیے جائیں گے، دہشت گردی ہوتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طویل مدتی پالیسی بنانی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کو اداروں کی ناکامی کی وجہ سے ان اداروں سے نفرت ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کو ان کے عزیزوں کی لاشیں بھی نہیں دی جاتیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک عوام فوج کے پیچھے کھڑی نہیں ہوگی، فوج جنگ نہیں جیت سکتی۔ انہوں نے کہا کہ تمام اداروں کو آئین اور قانون کا احترام کرنا چاہیے۔ شیر افضل مروت نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف پالیسی فوج نہیں، بلکہ اس ایوان کو بنانا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی فوج نہیں، بلکہ اس ایوان کو بنانا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ضرب عضب اور ردالفساد سے ہم نے کچھ حاصل نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوئی دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیتے۔ انہوں نے کہا کہ ہر اسٹیبلشمنٹ نئی پالیسی لاتی ہے، کبھی گڈ طالبان بن جاتے ہیں اور کبھی بیڈ طالبان۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ہتھیار اٹھانے والے کہہ رہے ہیں کہ اپنے پیاروں کی ہڈیاں تو دیں۔ شیر افضل مروت نے کہا کہ سروسز چیفس کو بلایا جائے اور انہیں کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ لوگ تنگ آ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر جنگ فوج نے جیتنی ہوتی تو اب تک جیت چکے ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ اس بار پالیسی اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر نہ چھوڑی جائے، بلکہ اس ملک کی پالیسی اس ایوان پر چھوڑی جائے۔ انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی، داخلہ پالیسی اور افغانستان سے متعلق پالیسیاں وہ بناتے ہیں، اور آپ کو کہہ دیتے ہیں کہ آپ وزیر ہو اور آپ پھدکتے رہتے ہو۔ بعد ازاں، پارلیمنٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیر افضل مروت نے کہا کہ انہوں نے اسمبلی میں دل کی باتیں کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 24 سال ہو گئے ہیں، پاکستانی مر رہے ہیں، بے گناہ لوگ مر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ کو ختم کرنا ہے، بڑھانا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی یہ جنگ افواجِ پاکستان کی جنگ نہیں ہے، بلکہ پورے پاکستان کی جنگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے لوگ اتنے پریشان نہیں ہوں گے، کیونکہ اس وقت کے پی اور بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب انسان اتنا گر جائے کہ اے پی ایس کے بچوں کو مارنا جذبہ ہو تو یہ سفاکیت کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے اس وقت قلعہ قمع کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اختر مینگل اس ایوان سے مستعفی ہو گئے، اور علی وزیر کا خاندان طالبان نے مار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی سوچ رہے ہیں کہ فوجی شہید ہو گئے ہیں، ہمارا کیا؟ انہوں نے کہا کہ یہ جنگ آپ کے گھر تک پہنچنے والی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیسی جیت ہے جس میں لوگ مر رہے ہیں۔ شیر افضل مروت نے کہا کہ انہوں نے آج تجویز دی ہے کہ پاکستانی قوم جنگ میں فوج کے ساتھ کھڑے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ایک پالیسی بنائی جائے جس میں واپسی کا راستہ نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہفتہ وار پالیسی ملک کی سلامتی کے لیے مثبت ثابت نہیں ہوگی۔
لاہور: کراچی سے لاہور جانے والی پرواز 306 کے طیارے نے رات 10 بجے ایک ٹائر کے بغیر کامیاب لینڈنگ کی، جس کے بعد اس غیر معمولی واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، طیارے کی لینڈنگ کے بعد پچھلے ٹائروں میں سے ایک ٹائر کی عدم موجودگی کا انکشاف ہوا۔ ذرائع کے مطابق، لاہور ایئر ٹریفک کنٹرول (اے ٹی سی) نے کراچی ایئرپورٹ کو مطلع کیا، جہاں ٹائر شافٹ کا حصہ ملا گیا۔ تاہم، 14 گھنٹوں سے زائد وقت گزرنے کے باوجود کراچی یا لاہور ایئرپورٹ پر گمشدہ ٹائر نہیں ملا۔ رپورٹس کے مطابق، طیارے نے کراچی سے ٹیک آف کے وقت تمام ٹائرز کے ساتھ پرواز کی تھی۔ طیارے نے لاہور ایئرپورٹ پر نارمل لینڈنگ کی اور ٹیکسی کی، جس کے بعد ایک ٹائر کی کمی کا پتہ چلا۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ترجمان نے جاری بیان میں کہا کہ ابتدائی مشاہدے کے مطابق، کراچی رن وے پر کسی بیرونی چیز کے ٹکرانے سے یہ واقعہ پیش آیا ہو سکتا ہے۔ پی آئی اے کے ترجمان نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ پرواز پی کے 306 نے لاہور میں لینڈنگ کے بعد ایک پہیے کی کمی کا انکشاف ہوا۔ پی آئی اے کے بیان میں کہا گیا کہ فضائی ضوابط کے مطابق، پی آئی اے کے فلائٹ سیفٹی ڈیپارٹمنٹ اور سول ایوی ایشن اتھارٹی نے معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ حتمی رپورٹ آنے پر واقعے کی اصل وجہ سامنے آئے گی، لیکن ابتدائی مشاہدے کے مطابق، کراچی رن وے پر کسی فالٹ یا بیرونی عمل کی وجہ سے پہیہ متاثر ہوا ہو سکتا ہے۔ پی آئی اے کے ترجمان نے کہا کہ طیارے نے لاہور ایئرپورٹ پر انتہائی ہموار اور محفوظ لینڈنگ کی۔ انہوں نے بتایا کہ جہاز کے ڈیزائن میں ایسے حالات کے لیے گنجائش رکھی جاتی ہے، جس سے فضائی حفاظت کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ یہ واقعہ فضائی حفاظت کے معیارات اور طیاروں کی دیکھ بھال کے عمل پر سوالات اٹھاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ تحقیقات کے بعد واقعے کی اصل وجہ کیا سامنے آتی ہے اور اس سلسلے میں کیا اقدامات کیے جاتے ہیں۔ پی آئی اے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی نے مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اب حتمی رپورٹ کا انتظار ہے، جو واقعے کی مکمل تفصیلات اور اصل وجہ کو واضح کرے گی۔
اسلام آباد: بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور وزارت خزانہ کے درمیان جاری مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف نے وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی کمزور کارکردگی پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف نے ایف بی آر کے ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کے دعوؤں کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں پاکستانی وفد نے آئی ایم ایف مشن کے ساتھ ملاقات کی، جس میں نئے ٹیکس اہداف اور معاشی اصلاحات پر بات چیت ہوئی۔ ملاقات کے دوران سرکاری اداروں کے انضمام اور اخراجات میں کمی کے اقدامات پر آئی ایم ایف کو بریفنگ دی گئی۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ سرکاری اداروں کے انضمام اور اسامیاں ختم کرنے سے 17 ارب روپے کی بچت ہوئی ہے۔ تاہم، آئی ایم ایف نے ایف بی آر کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ادارے نے ریونیو کے اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے نے ایف بی آر کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ریونیو شارٹ فال کو پورا کرنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ ذرائع کے مطابق، اجلاس میں سرکاری ملازمین کی رائٹ سائزنگ (حقوق کی تنظیم نو) اور گولڈن ہینڈشیک (رضاکارانہ سبکدوشی) کے منصوبوں پر بھی غور کیا گیا۔ اس سلسلے میں گریڈ 17 سے 22 تک کے 700 ملازمین اور نچلے درجے کی ہزاروں اسامیوں کو ختم کرنے کا امکان ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر ضروری سرکاری ملازمین کو فارغ کرنے کے لیے سول سرونٹ ایکٹ میں ترمیم کی تجویز زیر غور ہے۔ وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کو بتایا ہے کہ اخراجات میں کمی کر کے ریونیو شارٹ فال کو پورا کرنے کی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات میں پاکستان کی معاشی اصلاحات، ٹیکس نظام کی بہتری، اور سرکاری اخراجات میں کمی جیسے اہم معاملات زیر بحث ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ایف بی آر کی کارکردگی پر سوالات اٹھانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادارے کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا پاکستانی حکومت آئی ایم ایف کے مطالبات پر عملدرآمد کرتی ہے اور معاشی اصلاحات کے ذریعے ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے نتائج پاکستان کی معاشی پالیسیوں اور عوامی شعبے پر دوررس اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے ضلع ٹانک میں سیکیورٹی فورسز نے ایک دہشت گرد حملہ ناکام بناتے ہوئے 10 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ ڈان نیوز کے مطابق، سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ ٹانک کے علاقے جنڈولہ میں پاک فوج کے قلعہ پر دہشت گردوں کے حملے کو ناکام بنا دیا گیا۔ سیکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے حملہ آوروں کو جوابی کارروائی میں ہلاک کر دیا۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، حملہ آوروں میں سے ایک خودکش بمبار نے خود کو قلعہ کے قریب اڑا لیا۔ یہ حملہ بنوں طرز پر تھا، جو دہشت گردوں کی جانب سے ایک مخصوص طریقہ کار ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ٹانک میں چیک پوسٹ پر خارجی دہشت گردوں کے حملے کو ناکام بنانے پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ بہادر سیکیورٹی فورسز نے 10 خارجی دہشت گردوں کو ہلاک کیا اور حملے کو ناکام بنانے پر فورسز کو سلام پیش کرتے ہیں۔ وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا کہ قوم کو سیکیورٹی فورسز کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں پر فخر ہے۔ واضح رہے کہ ملک بھر میں حالیہ برسوں میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ حکومت اور سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کو تیز کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔ یہ کارروائی دہشت گردوں کے خلاف جاری جدوجہد میں ایک اہم کامیابی ہے اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف عزم کا مظہر ہے
اسلام آباد: نیشنل پارٹی کے رکن قومی اسمبلی پولین بلوچ نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کے سنگین مسائل پر سوالات اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ آج بلوچستان کا کوئی رکن قومی اسمبلی اپنے حلقے میں نہیں جا سکتا، اور جب تک بلوچستان میں حقیقی انتخابات کراکے عوامی نمائندوں کو نمائندگی نہیں دی جائے گی، مسائل حل نہیں ہوں گے۔ پولین بلوچ نے کہا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی اگرچہ ان کے مخالف ہیں، لیکن کیا امن و امان کی ذمہ داری صرف ان کی ہے؟ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی جنگ سرداروں کے ہاتھوں سے نکل کر اب بلوچ نوجوان نسل کے ہاتھوں میں منتقل ہو چکی ہے، اور آج بلوچ سردار بے بس ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج بلوچستان میں مزاحمت کرنے والوں میں ڈاکٹرز، پروفیسرز، اور پڑھے لکھے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک سال سے بلوچستان کے ارکان کو بلا کر نہیں پوچھا کہ مسئلے کا حل کیا ہے؟ پولین بلوچ نے کہا کہ سردار اختر مینگل استعفیٰ دے چکے ہیں، اور اگر ان کی پارٹی اجازت دے تو وہ بھی آج کے بعد اس ایوان میں نہیں بیٹھیں گے۔ انہوں نے بلوچستان کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج بلوچستان میں تھانے اور نوکریاں فروخت ہو رہی ہیں، اور لاپتا افراد کا مسئلہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کوئی محلہ ایسا نہیں جہاں لاپتا افراد نہ ہوں۔ انہوں نے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک ایسے گھر کو جانتے ہیں جس کا ایک نوجوان 11 سال سے لاپتا ہے، اور اسی گھر سے تین خودکش حملہ آور نکلے ہیں۔ پولین بلوچ کے اس خطاب نے بلوچستان کے مسائل کو ایک بار پھر سے قومی سطح پر اجاگر کر دیا ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ بلوچستان کے مسائل کو سنجیدگی سے لیا جائے اور عوامی نمائندوں کو حقیقی نمائندگی دی جائے، تاکہ مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔
لاہور: عام انتخابات 2024 کے نامزدگی فارمز میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، پاکستانی سیاستدانوں کی جانب سے سال 2023 میں ادا کردہ انکم ٹیکس کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق، سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 2023 میں صرف 82 ہزار روپے انکم ٹیکس ادا کیا، جبکہ سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے 32 لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا تھا۔ اہم سیاستدانوں کے ادا کردہ انکم ٹیکس کی تفصیلات - نواز شریف (سابق وزیر اعظم): 2023 میں کل 82 ہزار روپے انکم ٹیکس اور ساڑھے 3 لاکھ روپے زرعی انکم ٹیکس ادا کیا۔ عمران خان (سابق وزیر اعظم): 32 لاکھ روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ مریم نواز (وزیر اعلیٰ پنجاب): ایک لاکھ 17 ہزار روپے سے زائد انکم ٹیکس ادا کیا۔ بلاول بھٹو (چیئرمین پیپلز پارٹی): 58 لاکھ روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ حمزہ شہباز (مسلم لیگ ن رہنما): ایک لاکھ 39 ہزار روپے سے زائد انکم ٹیکس ادا کیا۔ عمر ایوب (اپوزیشن لیڈر): 37 لاکھ 9 ہزار روپے سے زائد انکم ٹیکس ادا کیا۔ اسد قیصر (سابق اسپیکر قومی اسمبلی): 15 لاکھ 70 ہزار روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ ایاز صادق (اسپیکر قومی اسمبلی): 15 لاکھ روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ عطاء اللہ تارڑ (وفاقی وزیر): 3 لاکھ 56 ہزار روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ علیم خان (وفاقی وزیر): 2 کروڑ 10 لاکھ روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ حنیف عباسی (وزیر ریلوے): 44 لاکھ روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ لطیف کھوسہ (پی ٹی آئی رکن قومی اسمبلی): 15 لاکھ روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ نواز شریف نے 2023 میں کل 2 لاکھ 29 ہزار روپے زرعی انکم ٹیکس اور 1 لاکھ 36 ہزار روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ اس کے علاوہ، 2022 میں انہوں نے صرف 2 ہزار 121 روپے اور 2021 میں 23 ہزار 956 روپے انکم ٹیکس ادا کیا تھا۔ یہ اعداد و شمار عام انتخابات 2024 کے نامزدگی فارمز میں پیش کیے گئے ہیں، جو سیاستدانوں کی جانب سے اپنی آمدنی اور ٹیکس کی ادائیگی کے بارے میں فراہم کیے گئے ہیں۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختلف سیاستدانوں نے اپنی آمدنی کے لحاظ سے ٹیکس ادا کیا ہے، جس میں کچھ نے لاکھوں روپے جبکہ کچھ نے کروڑوں روپے کی ادائیگی کی ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے مرکزی رہنما، ثنا اللہ بلوچ نے کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس کی طرح ہمارا ملک بھی یرغمال بنا ہوا ہے۔ جب حکمران طبقہ اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتا ہے اور تمام فیصلے طاقت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو ایسی صورتِ حال میں ایسے واقعات جنم لیتے ہیں۔ طاقتور طبقہ ملک کے بنیادی مسائل کو نہیں سمجھتا، جس کا فائدہ غیر ریاستی عناصر اٹھاتے ہیں، جب عدلیہ اور آئین تک یرغمال بن جائیں۔ آج ٹی وی کے پروگرام ’نیوز انسائٹ ودعامرضیا‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ثنا اللہ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل ہمیشہ آپریشن کی صورت میں نکالا گیا۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی تقریر بلوچستان کے مسئلے پر پیٹرول چھڑکنے کے مترادف ہے۔ بدقسمتی سے اس کا نقصان ہمیشہ نچلے طبقے کو ہی اٹھانا پڑتا ہے، اور یہ وہ حقیقت ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کے مسائل پر مختلف کمیٹیاں بنائی گئیں، مگر کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ ہم نے 18ویں ترمیم کے بعد توقع کی تھی کہ بلوچستان کے لوگوں کی زندگی بدل جائے گی اور انہیں سیاسی حقوق ملیں گے، لیکن اس ترمیم کے نام پر یہاں لوٹ مار جاری ہے۔ بی این پی کے سینئر رہنما نے کہا کہ بلوچستان کا تنازعہ دنیا بھر میں ہونے والے دیگر تنازعات سے مختلف نہیں ہے، کیونکہ بغاوتوں اور شورشوں کے بعد مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے ہی نکلتا ہے۔ یہ بات ہماری مقتدرہ اور باغی نوجوانوں دونوں کو سمجھنی چاہیے۔ ثنا اللہ بلوچ نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان کا ایک مخصوص طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ اسلام آباد یا وفاق بلوچستان کو نوآبادیاتی طرز پر چلاتا ہے اور ہمیں اپنے حقوق نہیں دیے جاتے۔ یہ سوچ غلط نہیں ہے، اور یہی احساس محرومی لوگوں میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
لاہور: معروف پاکستانی ماڈل اور اداکارہ نادیہ حسین نے اپنے شوہر عاطف احمد خان کی گرفتاری کے معاملے پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایک افسر پر رشوت طلبی کا الزام عائد کر دیا ہے۔ نادیہ حسین نے اپنے انسٹا گرام اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو پیغام شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے کے ایک افسر نے ان سے بھاری رشوت طلب کی۔ اداکارہ نے سوشل میڈیا پر ایف آئی اے افسر سے ہونے والی مبینہ آڈیو بات چیت بھی شیئر کی، جس میں رشوت طلبی کا اشارہ دیا گیا تھا۔ نادیہ حسین نے الزام لگایا کہ ایف آئی اے افسر نے ان سے کہا کہ اگر وہ رشوت ادا کریں تو ان کے شوہر کو رہا کیا جا سکتا ہے۔ DHGRmvaorWP ایف آئی اے کے ایک افسر نے اس معاملے پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نادیہ حسین سے کل شام بات ہوئی تھی، جس میں انہوں نے آڈیو اور رشوت طلبی کے معاملے سے آگاہ کیا تھا۔ ایف آئی اے افسر کا کہنا تھا کہ ہم نے نادیہ کو بتا دیا تھا کہ رشوت طلبی کی کال کرنے والا شخص ایک فراڈیہ ہے، جس کا تعلق پنجاب کے شہر وہاڑی سے ہے۔ ایف آئی اے افسر نے بتایا کہ اس جعل ساز نے اپنے موبائل نمبر پر ایف آئی اے افسر کی ڈی پی (پروفائل پکچر) لگا رکھی تھی، اور اس کا نمبر بھی ٹریس کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فراڈیہ شخص صرف نادیہ حسین کو ہی نہیں بلکہ بینک اسٹاف کو بھی متعدد بار فون کر چکا ہے۔ ایف آئی اے افسر نے مزید کہا کہ اس ویڈیو کو پوسٹ کرنے کے بعد نادیہ حسین کے خلاف سائبر ایکٹ کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے، کیونکہ انہوں نے بغیر کسی تصدیق کے ایف آئی اے پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ واضح رہے کہ رواں ماہ 8 مارچ کو ایف آئی اے کے کارپوریٹ کرائم سرکل نے نادیہ حسین کے گھر پر چھاپہ مار کر ان کے شوہر عاطف احمد خان کو بینک فراڈ کیس میں گرفتار کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق، عاطف خان پر 2016 سے دسمبر 2023 تک کے دوران بینکنگ گروپ کو 1 ارب 20 کروڑ روپے کے نقصان کا الزام ہے۔ ایف آئی اے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات ناقابل یقین ہے کہ بینک بورڈ اس فراڈ سے بے خبر تھا۔ ادارہ اس معاملے کی تفتیش کر رہا ہے تاکہ یہ پتہ چلایا جا سکے کہ فراڈ میں عاطف خان کے علاوہ اور کون لوگ ملوث ہیں۔ یہ معاملہ ابھی زیر تفتیش ہے، اور دونوں فریقین کے بیانات نے اس کیس کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا نادیہ حسین کے خلاف ایف آئی اے کوئی قانونی کارروائی کرتی ہے یا نہیں، اور شوہر عاطف احمد خان کے فراڈ کیس میں کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔
بلوچستان: بلوچستان کے علاقے بولان پاک میں جعفر ایکسپریس ٹرین پر دہشت گرد حملے کے بعد دنیا بھر سے مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکا، چین، ایران، ترکیہ، روس اور یورپی یونین سمیت متعدد ممالک نے اس وحشیانہ حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق، امریکا نے ٹرین پر دہشت گرد حملے اور مسافروں کو یرغمال بنانے کی مذمت کرتے ہوئے اپنی ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ امریکی سفارتخانے کے ترجمان نے کہا کہ ہم اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں، جس کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بی ایل اے کو امریکا نے عالمی دہشت گرد گروپ قرار دیا ہوا ہے، اور ہم متاثرہ افراد کے ساتھ گہری ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔ چین نے بھی اس دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ چین کسی بھی شکل میں دہشت گردی کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین پاکستان کے ساتھ انسداد دہشت گردی اور سیکیورٹی تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے تیار ہے۔ روس نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اپنے بیان میں کہا کہ ہم اس وحشیانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان میں روسی سفارت خانے نے اپنے بیان میں متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ یورپی یونین کی سفیر رینا کونیکا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم بلوچستان میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی مذمت کرتے ہیں اور پاکستانی عوام اور متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہیں۔ فرانسیسی سفارتخانے نے بھی اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم دہشت گردی کے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ فرانسیسی سفارتخانے نے متاثرین اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم پاکستانی عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز (11 مارچ) دہشت گردوں نے بولان پاک کے علاقے میں ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑایا اور جعفر ایکسپریس ٹرین پر حملہ کر کے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنا لیا۔ اس حملے کے بعد پاکستانی فورسز نے فوری کارروائی کرتے ہوئے مسافروں کو محفوظ نکالا اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ حملہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ایک اور سنگین واقعہ ہے، جس نے ایک بار پھر سے ملک کی سیکیورٹی چیلنجز کو اجاگر کیا ہے۔ دنیا بھر سے اس حملے کی مذمت اور پاکستان کے ساتھ یکجہتی کے اظہار نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ دہشت گردی کسی بھی شکل میں قابل قبول نہیں ہے۔
اسلام آباد: سوشل میڈیا پر ملکی اداروں اور اہم شخصیات کے خلاف توہین آمیز پوسٹس لگانے کے معاملے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے پی ٹی آئی رہنما شہباز گل سمیت 7 افراد کے خلاف 2 مقدمات درج کر لیے ہیں۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق، ان مقدمات میں پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کے علاوہ احمد نورانی، وقار ملک، عادل راجہ، تحسین پنسوتہ (شیخوپورہ)، شفیق الرحمن (لاہور)، اور سینئر صحافی صابر شاکر کو نامزد کیا گیا ہے۔ ایف آئی اے نے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت یہ مقدمات درج کیے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا اور توہین آمیز مواد پھیلانے کے معاملات کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ ایف آئی اے کے مطابق، یہ اقدام ملکی اداروں اور شخصیات کے خلاف سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے منفی پروپیگنڈے کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ مقدمات درج کرنے کا فیصلہ اس وقت سامنے آیا ہے جب سوشل میڈیا پر ملکی اداروں اور اہم شخصیات کے خلاف توہین آمیز اور متنازعہ مواد کی تشہیر میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ وہ سائبر کرائمز کے خلاف سخت اقدامات کر رہی ہے، تاکہ سوشل میڈیا کا غلط استعمال روکا جا سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا ان مقدمات کی تحقیقات کے بعد نامزد افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے یا نہیں۔ یہ معاملہ سوشل میڈیا کے استعمال اور اظہار رائے کی حدود پر ایک بار پھر سے بحث کا باعث بنا ہے۔

Back
Top