خبریں

اینکر پرسن ثمینہ پاشا اور صحافی امیر عباس نے بلوچستان کی موجودہ صورتحال پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک عوام کی نمائندہ حکومت کو مکمل اختیارات نہیں دیے جاتے، ملک کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ثمینہ پاشا نے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ پر امیر عباس کی ایک ٹویٹ کو شیئر کیا اور کہا کہ چاہے دہشت گردی ہو، معیشت ہو، یا قومی سالمیت اور وقار کا معاملہ ہو، ہر مسئلے کی جڑ ایک ہی ہے کہ عوام کی نمائندہ حکومت کو مکمل اختیارات نہیں دیے جاتے۔ انہوں نےمزید کہا کہ جب تک وسائل پر اختیارات کی جنگ ختم نہیں ہوگی، اور جب تک اپنی مرضی کی مسلط کردہ حکومتیں بنتی رہیں گی، ملک کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ حل صرف ایک ہی ہے: آئینی کردار تک محدود رہنا اور عوامی نمائندگی کو مکمل اختیارات دینا۔ ثمینہ پاشا نے امیر عباس کی جو ٹویٹ شیئر کی اس میں صحافی امیر عباس نے بلوچستان کے تناظر میں بات کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ریاست بلوچستان میں اپنی مرضی کی حکومتیں بنانا نہیں چھوڑے گی، اور جب تک بلوچستان پر وفاق میں بیٹھے لوگ اپنی مرضی کے فیصلے تھوپتے رہیں گے، تب تک بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک بلوچوں اور پشتونوں کے جائز مطالبات کو کھلے دل سے نہیں سنا جائے گا، اور جب تک انہیں دہشت گرد یا غدار کہہ کر ان کے شکوؤں کو نظرانداز کیا جاتا رہے گا، تب تک بلوچستان میں استحکام نہیں آسکتا۔ امیر عباس نے کہا کہ جب تک عوام کے ووٹوں کو روندا جاتا رہے گا، اور جب تک لوگوں کے جائز شکوؤں کو حب الوطنی کے پیمانے پر پرکھا جاتا رہے گا، تب تک لاکھوں آپریشنز کرنے، ہزاروں دہشت گردوں کو ختم کرنے، اور سینکڑوں لوگوں کو ماورائے قانون اٹھانے کے باوجود بلوچستان کے عوام کا دل نہیں جیتا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ایک نہ ایک دن ریاست کو یہ کرنا ہی پڑے گا کہ وہ بلوچستان کے عوام کے جائز مطالبات کو تسلیم کرے اور انہیں انصاف فراہم کرے۔ ثمینہ پاشا اور امیر عباس کے بیانات نے ملک کے سیاسی نظام اور عوامی نمائندگی کے فقدان پر ایک بار پھر سے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ دونوں نے زور دیا کہ جب تک عوام کی آواز کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا، اور جب تک آئینی کردار کو مکمل طور پر نافذ نہیں کیا جاتا، ملک کے مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ ان بیانات کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا حکومت اور ریاستی ادارے عوامی نمائندگی اور آئینی کردار کو مکمل طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بلوچستان اور دیگر صوبوں کے عوام کے جائز مطالبات کو تسلیم کرنے اور انہیں انصاف فراہم کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ ملک میں استحکام اور امن قائم ہو سکے۔
اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کے اجلاس میں یہ انکشاف ہوا کہ سڑک اور ٹول پلازہ کی تعمیر کے دوران ہی آنے جانے والی گاڑیوں سے ٹول ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ کمیٹی نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کو تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کی ہدایت کی ہے اور 15 دن کے اندر رپورٹ پیش کرنے کو کہا ہے۔ سینیٹر پرویز رشید کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں عمر کوٹ کی سڑک کی تعمیر میں تاخیر اور ٹول ٹیکس وصولی کے معاملات پر تفصیلی بحث ہوئی۔ سینیٹر پونجو مل بھیل نے کمیٹی کو بتایا کہ 17 کلومیٹر طویل سڑک کی تعمیر 4 سال سے جاری ہے، جبکہ یہ منصوبہ 6 ماہ میں مکمل ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سڑک تھر کول کی ٹریفک کے لیے بنائی جا رہی تھی، لیکن حکم امتناع کے بعد حکومت نے دوسرے راستے بنالئے۔ انہوں نے اس سڑک کو کرپشن کا گڑھ قرار دیتے ہوئے تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کا مطالبہ کیا۔ سینیٹر پونجو مل بھیل نے کہا کہ این ایچ اے نے پرانی پلیاں استعمال کرکے سڑک بنائی ہے، جبکہ اگر سڑک کی کشادگی کی جا رہی ہے تو پرانی پلیاں کیسے استعمال ہو سکتی ہیں؟ انہوں نے اس معاملے کی تفتیش کے لیے ایک ذیلی کمیٹی بنانے کا مطالبہ بھی کیا۔ این ایچ اے کے حکام نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ جہاں کرپشن ہوئی ہے، وہاں کارروائی کی جائے گی۔ سیکریٹری مواصلات نے بتایا کہ این ایچ اے کسی بھی سڑک کی تعمیر کا کام صوبائی حکومت کی منظوری کے بعد شروع کرتی ہے، اور اس کے لیے وفاقی کابینہ کی منظوری بھی درکار ہوتی ہے۔ چیئرمین این ایچ اے نے اجلاس میں بتایا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت ایم 6 موٹروے کا منصوبہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ (پی پی پی) کے تحت ہے۔ انہوں نے کہا کہ این ایچ اے کی خواہش ہے کہ ایم 6 کے لیے دونوں تجاویز پر غور کیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کراچی سے کوئٹہ اور چمن روڈ کا ٹینڈر جاری ہے، اور جاری منصوبوں کے لیے بجٹ جاری کیا گیا ہے۔ تاہم، گزشتہ بجٹ کی نئی اسکیموں کو شروع نہیں کیا گیا، اور این ایچ اے بجٹ کی کمی کے باعث کچھ اسکیمیں ڈراپ کرنے پر مجبور ہے۔ اجلاس میں پنجاب حکومت کے رمضان پیکیج کی تقسیم میں ناکامی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پنجاب حکومت نے یہ منصوبہ پاکستان پوسٹ کے ذریعے شروع کرنا چاہا تھا، لیکن پاکستان پوسٹ اسے شروع ہی نہ کر سکی۔ پاکستان پوسٹ کے حکام نے بتایا کہ 30 سے 35 لاکھ پے آرڈرز دینے تھے، لیکن فراہم کیے گئے زیادہ تر پتے درست نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ عملے نے 3 دن بارش میں ڈیوٹی کی اور ایک لاکھ 60 ہزار لفافے مستحقین تک پہنچائے، لیکن تیسرے دن بغیر کسی وجہ کے معاہدہ منسوخ کر دیا گیا۔ سیکریٹری مواصلات نے کہا کہ پاکستان پوسٹ نے آئی ٹی کمپنی کو کام آؤٹ سورس کیا ہوا ہے، جس کی وجہ سے رمضان پیکیج کی تقسیم میں ناکامی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اس اسکیم کو تقسیم نہ کرکے پاکستان پوسٹ نے 87 کروڑ روپے ضائع کر دیے، اور پاکستان پوسٹ کی قیادت میں پختہ ارادے کا فقدان ہے۔ قائمہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں پنجاب حکومت کے حکام کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا، تاکہ رمضان پیکیج کی تقسیم میں ناکامی کے معاملے پر تفصیلی بحث کی جا سکے۔
اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں آبادی کے تیزی سے بڑھنے، تعلیمی صورتحال اور ترقی کے چیلنجز پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آبادی بڑھنے کی شرح 2 فیصد سے بڑھ کر 9 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان جب بنا تو وسائل کم تھے، لیکن آج یہ ملک دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے اور ہمارے پاس 250 سے زائد یونیورسٹیاں ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ہر صوبے میں اعلیٰ تعلیم کے مراکز قائم کرنے کا ہدف ہے، تاکہ نوجوانوں کو بہتر مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ انہوں نے پاکستان اور دیگر ممالک کے درمیان فرق پر بات کرتے ہوئے کہا کہ چین کی فی کس آمدنی 16 ہزار ڈالر ہے، جبکہ پاکستان کی فی کس آمدنی صرف 1600 ڈالر ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیگر ممالک نے حالات کے مطابق اصلاحات کیں، جس کی وجہ سے وہ ترقی کر گئے، جبکہ پاکستان پیچھے رہ گیا۔ انہوں نے کہا کہ امن اور یکجہتی کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ 2017 تک پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور دہشتگردی کا خاتمہ ہو چکا تھا، اور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔ لیکن 2018 میں سیاسی تبدیلیوں کے بعد ملک ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ سبق سیکھنا ہوگا کہ ملک کی پالیسی کے ساتھ سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ احسن اقبال نے کہا کہ ہمارے ہمسایہ ملک کی سافٹ ویئر برآمدات 200 ارب ڈالرز تک پہنچ چکی ہیں، جبکہ پاکستان اس میدان میں بہت پیچھے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہمسایہ ملک 200 ارب ڈالرز کی برآمدات کر سکتا ہے، تو پاکستان 100 ارب ڈالرز کیوں نہیں کر سکتا؟ انہوں نے کہا کہ پنجاب اور مرکز میں حکومت آنے کے بعد طالب علموں کو لیپ ٹاپ دیے گئے، تاکہ نوجوانوں کا ہتھیار گالی گلوچ نہیں، بلکہ لیپ ٹاپ ہو۔ انہوں نے پاکستان کے 5 اہم چیلنجز پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انٹرپرینیورشپ اور برآمدات کے انتظام کو بہتر بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں عالمی مارکیٹ میں "میڈ ان پاکستان" کو اعلیٰ معیار کے ساتھ پیش کرنا ہوگا۔ احسن اقبال نے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پر بھی بات کی اور کہا کہ ہمیں خشک سالی اور سیلابوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی سے لے کر پشاور تک بجلی کی چوری ایک بڑا مسئلہ ہے، جس پر قابو پانے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت کے ساتھ مل کر تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اصلاحات لائی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، اور جب تک یہ بچے تعلیم حاصل نہیں کریں گے، ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ انہوں نے اختلاف رائے کو نفرت میں بدلنے کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے رنگ اور نسل الگ ہو سکتے ہیں، لیکن ہمارا ڈاک خانہ ایک ہے، اور وہ ہے پاکستان۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اختلافات کے باوجود مل کر کام کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی ہوگی، تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کی شرح خواندگی صرف 60 فیصد ہے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 90 فیصد سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سیاست کے میدان میں مقابلہ کرنے کے بجائے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں مقابلہ کرنا ہوگا، تاکہ ملک کو ترقی کی راہ پر لے جایا جا سکے۔
پشاور: خیبرپختونخوا میں ایک بڑا کرپشن اسکینڈل سامنے آیا ہے، جس میں اضاخیل نوشہرہ کے سرکاری گودام سے 1700 میٹرک ٹن گندم غائب ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس اسکینڈل کے باعث قومی خزانے کو 19 کروڑ 77 لاکھ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ گودام سے گندم کی خوردبرد کی گئی ہے، جس کے ساتھ ساتھ 3 ہزار 309 خالی بوریاں بھی غائب ہو گئی ہیں۔ اس معاملے کی انکوائری مکمل کرنے کے بعد اسٹوریج اینڈ انفورسمنٹ افسر این آر سی، اسسٹنٹ فوڈ کنٹرولر اور تین فوڈ انسپکٹرز کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ اینٹی کرپشن ایجنسی نے اس معاملے سے متعلق دو ملزمان کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق، گودام کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے گندم کی بڑی مقدار خوردبرد کی گئی، جس سے سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔ اینٹی کرپشن کے حکام نے اس معاملے کی تفتیش جاری رکھی ہوئی ہے اور مزید ملزمان کی گرفتاری کا امکان ہے۔ یہ اسکینڈل خیبرپختونخوا حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے، جس کے بعد سرکاری گوداموں کے انتظامی نظام پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ اس معاملے میں شامل تمام ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی جائے اور سرکاری وسائل کی حفاظت کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا حکومت اس اسکینڈل کی مکمل تحقیقات کرتی ہے اور اس میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لاتی ہے یا نہیں۔ اس معاملے نے سرکاری اداروں میں شفافیت اور احتساب کی اہمیت کو ایک بار پھر اجاگر کر دیا ہے۔
اسلام آباد: دبئی میں غیر قانونی سرمایہ کاری، ایف بی آر کا تشویش کا اظہار فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے انکشاف کیا ہے کہ درجنوں ریئل اسٹیٹ ایجنٹس مبینہ طور پر ہنڈی/حوالہ کے ذریعے بھاری مقدار میں ڈالر دبئی منتقل کر رہے ہیں تاکہ وہاں کی پراپرٹی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی جا سکے۔ اس رجحان کے نتیجے میں حالیہ دنوں میں روپے کی قدر پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ اعلیٰ سرکاری ذرائع کے مطابق ایک بڑی رقم کھلی مارکیٹ سے امریکی ڈالر میں تبدیل کرکے دبئی/متحدہ عرب امارات بھیجی گئی ہے، جسے ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایف بی آر نے اس معاملے کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے مشتبہ ریئل اسٹیٹ ایجنٹس کی فہرست مرتب کر لی ہے جو اس سرگرمی میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات مکمل کر لی گئی ہیں، لیکن مزید چھان بین کے لیے معاملہ ایف آئی اے اور دیگر متعلقہ اداروں کے سپرد کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری عہدیداروں کے مطابق 70 سے زائد ریئل اسٹیٹ ایجنٹس کی نشاندہی کی گئی ہے جو اپنے کلائنٹس سے نقد رقم وصول کر کے اسے غیر ملکی کرنسی میں تبدیل کرتے اور پھر دبئی میں پراپرٹی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لیے منتقل کر دیتے تھے۔ پاکستان کے معروف پراپرٹی ٹائیکونز نے حکومت کو متنبہ کیا تھا کہ اگر ٹیکس قوانین میں نرمی نہ کی گئی اور "نو سوالات" کی حد 10 ملین سے بڑھا کر 25 سے 50 ملین روپے نہ کی گئی تو سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری دبئی/متحدہ عرب امارات منتقل کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے تجویز ٹیکس قوانین ترمیمی بل 2024 میں شامل کی گئی، جو اس وقت قومی اسمبلی کی فنانس اینڈ ریونیو کمیٹی کے زیر غور ہے۔ مزید برآں، حکومت نے ایف بی آر کو دو ماہ کی مہلت دی ہے تاکہ وہ ایک ایسی ایپ تیار کرے جو فائل شدہ ٹیکس گوشواروں میں رضاکارانہ ترامیم کی سہولت فراہم کرے، تاکہ لوگ اپنی جائیداد کی مالیت کو ازخود درست کر سکیں۔
لاہور: پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں ادویات اور طبی آلات کی شدید قلت کا بحران سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے میو اسپتال لاہور کا دورہ کیا اور انہیں بتایا گیا کہ اسپتال میں غریب مریضوں کو مفت دینے کے لیے ادویات دستیاب نہیں ہیں۔ صورتحال کے پیش نظر حکومت نے فوری طور پر میو اسپتال کو 34 کروڑ روپے جاری کیے، لیکن دیگر ٹیچنگ اسپتالوں کو بھی فنڈز کی کمی کا سامنا ہے۔ جیو نیوز کی تحقیقات کے مطابق، پنجاب حکومت کو ادویات اور طبی آلات فراہم کرنے والی کمپنیوں کے ساڑھے 12 ارب روپے ادا کرنا باقی ہیں۔ یہ رقم موجودہ اور نگران حکومت کے دور میں کی گئی خریداریوں پر مشتمل ہے۔ تاہم، سیکرٹری پرائمری ہیلتھ نے نگران دور میں کی گئی خریداریوں کی ادائیگی روکنے کا حکم جاری کیا ہے۔ اس معاملے پر ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ نگران دور میں ادویات اور طبی آلات کی خریداری کے دوران گڑبڑ کی گئی تھی۔ صوبائی وزیر صحت خواجہ عمران نذیر نے ادائیگی روکنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں معاملہ زیر غور ہے اور رکے ہوئے فنڈز کی ادائیگی پر غور کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت نے ٹینڈرز کے تحت خریداری کی تھی، لیکن اگر گڑبڑ ہوئی ہے تو اس کی تحقیقات کی جانی چاہیے۔ سابق نگران صوبائی وزیر صحت جاوید اکرم نے اس معاملے پر کہا کہ پنجاب کے چیف سیکرٹری اور سیکرٹری خزانہ وہی ہیں جو نگران دور میں تھے۔ انہوں نے کہا کہ ادویہ ساز کمپنیوں کے پیسے روک کر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اگر نگران دور میں گڑبڑ ہوئی ہے تو مقدمہ درج کرایا جائے اور ذمہ داروں کو پکڑا جائے۔ ادھر، الیکٹرومیڈیکل ایسوسی ایشن کے چیئرمین بابر کیانی نے بتایا کہ حکومت نے ان کے ساڑھے 6 ارب روپے ادا کرنا ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پیسے ادا نہ کیے گئے تو وہ سپلائی روکنے پر مجبور ہوں گے۔ اسی طرح، فارما سیوٹیکل ایسوسی ایشن کے رہنما سعد جاوید نے بتایا کہ ادویہ ساز کمپنیوں کے 6 ارب روپے سے زائد پیسے رکے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے کمپنیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر فوری طور پر پیسے جاری نہ کیے گئے تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ یہ بحران پنجاب کے اسپتالوں میں مریضوں کی صحت کی دیکھ بھال کو شدید متاثر کر رہا ہے، اور حکومت کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو بہتر طبی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
نیویارک: اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے افغان حکام پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں سرگرم سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے، جو محفوظ سرحدی پناہ گاہوں سے پاکستان پر حملے کر رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شواہد موجود ہیں کہ افغان حکام ان حملوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ منیر اکرم نے واضح کیا کہ افغانستان میں 20 دہشت گرد تنظیمیں فعال ہیں، جو پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کالعدم بی ایل اے سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، اور افغان حکام ان کوششوں میں ملوث ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کے تقریباً 6 ہزار جنگجو افغانستان سے آپریٹ کر رہے ہیں اور انہیں پاک-افغان سرحد پر محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی نے پاکستانی سرزمین پر فوجیوں، عام شہریوں اور اداروں پر متعدد حملے کیے ہیں، جن میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ منیر اکرم نے مزید کہا کہ کابل حکام ٹی ٹی پی کے حملوں سے واقف ہیں اور سرحدی پار حملوں میں ان کی مدد کر رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسی دیگر دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے، جن کا بنیادی مقصد پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا اور پاک-چین اقتصادی تعاون کے منصوبے بی ایل اے سی پیک کو سبوتاژ کرنا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان اپنی سلامتی اور استحکام کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے، اور عالمی برادری کو افغانستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ منیر اکرم کا یہ بیان اقوام متحدہ میں پاکستان کی جانب سے افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف ایک واضح اور سخت موقف کی عکاسی کرتا ہے۔
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جسٹس شہزاد ملک کی بیٹی شانزے ملک کے خلاف ہٹ اینڈ رن کیس میں بریت کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر دی گئی ہے۔ مدعی مقدمہ نے جوڈیشل مجسٹریٹ عدنان یوسف کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے اسے کالعدم قرار دینے کی درخواست کی ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق، یہ مقدمہ 23 ستمبر 2022 کو پیش آنے والے ایک سڑک حادثے سے متعلق ہے، جس میں دو افراد شکیل تنولی اور حسنین علی ہلاک ہو گئے تھے۔ ملزمہ شانزے ملک پر الزام تھا کہ وہ حادثے کے بعد موقع سے فرار ہو گئی تھیں۔ تاہم، 25 فروری کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے شانزے ملک کو اس کیس سے بری کر دیا تھا۔ مدعی کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ ٹرائل کورٹ کو قانون کے مطابق شانزے ملک کے خلاف مقدمہ چلانے کی ہدایت دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملزمہ پر حادثے میں شہریوں کی ہلاکت کا سنگین الزام ہے، لیکن غیر منصفانہ طور پر انہیں بری کر دیا گیا ہے۔ جوڈیشل مجسٹریٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ حادثے کے 3 ماہ 15 دن بعد شکایت درج کرائی گئی تھی، جس کی وجہ سے ثبوت اکٹھا کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ باقاعدہ پوسٹ مارٹم رپورٹ پراسیکیوشن کے ریکارڈ میں موجود نہیں تھی، اور لاش کا صرف بیرونی معائنہ کیا گیا تھا۔ عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ میڈیکل افسر نے بیرونی معائنے کے دوران باقاعدہ پوسٹ مارٹم کی ضرورت پر زور دیا تھا، لیکن اس کے باوجود پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ جب پوسٹ مارٹم ہی نہیں ہوا تو ملزمہ کو سزا کیسے دی جا سکتی ہے؟ تاہم، مدعی کا موقف ہے کہ یہ فیصلہ قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا اور اسے کالعدم قرار دیا جانا چاہیے۔ اب اسلام آباد ہائی کورٹ اس اپیل پر سماعت کرے گی اور فیصلہ کرے گی کہ آیا جوڈیشل مجسٹریٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا یا اسے کالعدم قرار دیا جائے گا۔ یہ کیس عدالتی نظام میں شفافیت اور انصاف کے تقاضوں پر ایک اہم بحث کا باعث بنا ہوا ہے۔
اسلام آباد: خام اسٹیل مارکیٹ میں مبینہ کارٹل کا پردہ فاش ہوگیا ہے، جس کے بعد مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) نے انکوائری مکمل کرتے ہوئے گٹھ جوڑ کرنے والے سپلائرز کو شوکاز نوٹسز جاری کردیے ہیں۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق، خام اسٹیل کی قیمتوں میں 111 گنا تک اضافہ کیا گیا، جس میں انٹرنیشنل اسٹیل اور عائشہ اسٹیل ملز نے مبینہ طور پر گٹھ جوڑ کرکے قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ دونوں بڑے سپلائرز نے مل کر قیمتیں طے کیں، جس کے نتیجے میں گزشتہ 3 سال میں خام اسٹیل کی قیمت میں ایک لاکھ 46 ہزار روپے فی ٹن کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ مسابقتی کمیشن کی انکوائری رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ دونوں اسٹیل سپلائرز کے درمیان سکینڈری میٹریل کی فروخت پر بھی گٹھ جوڑ پایا گیا۔ اسٹیل ملز پر چھاپے کے دوران کارٹل بنانے کے واضح ثبوت بھی حاصل ہوئے ہیں، جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ دونوں کمپنیاں صارفین کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قیمتوں کو مصنوعی طور پر بڑھا رہی تھیں۔ مسابقتی کمیشن کا کہنا ہے کہ قیمتوں کو گٹھ جوڑ کے ذریعے فکس کرنا نہ صرف صارفین کے حقوق کی خلاف ورزی ہے، بلکہ یہ مارکیٹ میں آزادانہ مقابلے کے اصولوں کے بھی منافی ہے۔ کمیشن نے واضح کیا کہ وہ مارکیٹ میں ہر قسم کے گٹھ جوڑ کو ناکام بنانے اور آزادانہ مقابلے کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ اس معاملے میں مسابقتی کمیشن کی جانب سے جاری کردہ شوکاز نوٹسز کے بعد اب دونوں اسٹیل سپلائرز کو جواب دہ ہونا پڑے گا۔ اگر ان کے خلاف الزامات ثابت ہوتے ہیں تو انہیں بھاری جرمانے اور دیگر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ قدم مارکیٹ میں شفافیت اور صارفین کے حقوق کے تحفظ کی جانب ایک اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔
لاہور: انٹرنیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (آئی ٹی اے) نے پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کے سابق نائب صدر امجد امین بٹ اور کوچ وقاص اکبر پر 4 سال کی پابندی عائد کردی ہے۔ دونوں اہلکاروں نے اینٹی ڈوپنگ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی غلطی تسلیم کرلی ہے۔ تفصیلات کے مطابق امجد امین بٹ اور وقاص اکبر پر آرٹیکل 2.5 اور آرٹیکل 2.9 کی خلاف ورزی کا الزام ثابت ہوا ہے۔ آئی ٹی اے نے دونوں کو 24 فروری 2025 سے 23 فروری 2029 تک 4 سال کی معطلی کی سزا سنائی ہے۔ اس دوران وہ کسی بھی کھیلوں کے ایونٹ میں حصہ لینے یا کوچنگ کرنے کے اہل نہیں ہوں گے۔ دونوں افراد کو فیصلے کے خلاف کھیلوں کی ثالثی عدالت (کورٹ آف آربیٹریشن فار اسپورٹس) میں اپیل کرنے کا حق حاصل ہے۔ اگر وہ اپیل کریں گے تو عدالت کا فیصلہ ان کی پابندی کے معاملے پر حتمی ہوگا۔ آئی ٹی اے، جو کہ سوئٹزرلینڈ میں واقع ایک بین الاقوامی تنظیم ہے، کا بنیادی مقصد کھیلوں میں ڈوپنگ کے خلاف جنگ کرنا ہے۔ یہ غیر منافع بخش فاؤنڈیشن بین الاقوامی فیڈریشنز، بڑے ایونٹ آرگنائزرز اور دیگر کھیلوں کی تنظیموں کے لیے اینٹی ڈوپنگ پروگرامز کا انتظام کرتی ہے۔ یہ پابندی پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، جس کے بعد فیڈریشن کو اپنے اندرونی معاملات کی ازسرنو جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت ہے۔ کھیلوں کے حلقوں میں اس فیصلے کو اینٹی ڈوپنگ قوانین کے اطلاق میں ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
لاہور: پنجاب اسمبلی نے صوبے میں وفاقی طرز پر دو ایوانی پارلیمانی نظام متعارف کرانے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی ہے، جس کے تحت صوبائی اسمبلی کے ساتھ سینیٹ کی طرز پر ایک ایوان بالا یعنی پنجاب کونسل کے قیام کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ یہ قرارداد مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی امجد علی جاوید اور سمیع اللہ کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رکن علی حیدر اور دیگر اراکین کی جانب سے پیش کی گئی۔ قرارداد میں پنجاب اسمبلی کے ایوان زیریں کے ساتھ ساتھ ایوان بالا کے قیام پر زور دیا گیا ہے، جو کہ وفاقی سینیٹ کے مماثل ہوگا۔ قرارداد کے متن کے مطابق، صوبہ پنجاب کی آبادی 12 کروڑ 40 لاکھ ہے، جو کہ دنیا کے 171 ممالک کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ صوبہ انتہائی وسیع اور متنوع ہے، جس کے انتظامی امور کو بہتر بنانے کے لیے معاشرے کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور ماہرین کی نمائندگی ناگزیر ہے۔ قرارداد میں مزید کہا گیا کہ دنیا کے صرف 11 ممالک کی آبادی پنجاب سے زیادہ ہے، اور اتنی بڑی آبادی والے صوبے کے لیے دو ایوانی نظام انتظامی اور مشاورتی امور میں زیادہ موثر ثابت ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی قرارداد میں وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ آئین پاکستان میں ضروری ترمیم کرتے ہوئے صوبہ پنجاب میں دو ایوانی نظام کو رائج کیا جائے۔ قرارداد میں واضح کیا گیا کہ موجودہ آئینی ڈھانچے میں اس کی گنجائش موجود نہیں ہے، لہٰذا وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ آئین میں ترمیم کرکے پنجاب کو یہ نظام فراہم کرے۔ اس اقدام سے صوبے کے انتظامی معاملات میں شفافیت، مشاورت اور نمائندگی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ یہ قرارداد پنجاب اسمبلی میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھی جا رہی ہے، جس کے بعد اب وفاقی حکومت کی جانب سے اس پر عملی اقدامات کی توقع کی جا رہی ہے۔
اسلام آباد: میری ٹائم وزارت میں زمین کے گھپلے کے بعد اب چلتے جہاز فروخت کرنے کا اسکینڈل سامنے آیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن (پی این ایس سی) کی جانب سے دو آپریشنل جہاز فروخت کر دیے گئے ہیں، جو منافع بخش تھے اور انہیں اسکریپ کے بجائے شپنگ کمپنیوں نے خریدا ہے۔ ذرائع کے مطابق، فروخت کیے گئے جہازوں میں سے ایک 'لاہور' کیپ ون کٹیگری کا تھا، جو یومیہ 27 ہزار 500 ڈالرز پر عراقی بندرگاہ پر ٹھیکے پر آمدن کما رہا تھا۔ دوسرا جہاز 'کوئٹہ' پاکستانی ریفائنریز کے طویل مدتی ٹھیکے پر تقریباً 12 ہزار ڈالر یومیہ کما رہا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ پی این ایس سی نے ریفائنریز کے لیے باہر سے چارٹر جہاز 'سوین لیک' 8 لاکھ ڈالر ماہانہ پر لیا، جس سے تقریباً 2 لاکھ ڈالر کا نقصان ہوا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ جہاز آپریشنل اور منافع بخش تھے، اور انہیں اسکریپ کے بجائے شپنگ کمپنیوں نے خریدا ہے۔ دونوں جہازوں کی موجودہ فریٹ مارکیٹ میں کم از کم 40 ہزار ڈالرز یومیہ آمدن کی صلاحیت تھی۔ ذرائع کے مطابق، پی این ایس سی کے لیے 5 نئے جہازوں کی خریداری کا معاملہ پی پی آر اے (پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی) میں زیر التوا ہے۔ ترجمان پی این ایس سی کے مطابق، دو جہازوں کی فروخت کا عمل جاری ہے، اور بورڈ کی منظوری سے فروخت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاز فائدہ مند نہیں تھے، اور اجازت ملتے ہی نئے جہاز خریدیں گے۔ یہ اسکینڈل میری ٹائم وزارت میں زمین کے گھپلے کے بعد سامنے آیا ہے، جس سے وزارت کی شفافیت اور انتظامی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جہازوں کی فروخت سے پی این ایس سی کو مالی نقصان ہوا ہے، اور اس کے اثرات قومی خزانے پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، اس معاملے کی تفتیش کی جائے گی، اور ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔ عوام کی توقع ہے کہ حکومت اس معاملے میں شفافیت اور احتساب کو یقینی بنائے گی، تاکہ ایسے واقعات کو مستقبل میں روکا جا سکے۔ یہ اسکینڈل حکومتی اداروں میں شفافیت کی کمی اور انتظامی ناکامیوں کو اجاگر کرتا ہے۔ عوام کی توقع ہے کہ حکومت اس معاملے میں فوری اور موثر کارروائی کرے گی۔
اسلام آباد: چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) جنید اکبر خان نے کہا ہے کہ پاکستان پوسٹ میں خلاف قواعد بھرتی کیے گئے 381 افراد ابھی تک عہدوں پر بیٹھے ہیں۔ پی اے سی کے اجلاس میں پوسٹل سروسز میں غیر قانونی بھرتیوں پر رپورٹ طلب کی گئی، جس میں انکشاف ہوا کہ وزارت مواصلات نے ضرورت سے زیادہ بھرتیاں کی تھیں اور وزارت خزانہ سے قانونی معاونت نہیں لی گئی تھی۔ پی اے سی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر خان کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں سیکریٹری مواصلات نے بتایا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر اس معاملے کی تحقیقات جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھرتیوں میں چار خامیاں سامنے آئی ہیں، جن میں این او سی کا ایشو اور میرٹ کے برخلاف بھرتیاں شامل ہیں۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ جن کے خلاف انکوائریاں ہو رہی ہیں، ان کی ترقی اور پوسٹنگ پر پابندی عائد ہے۔ سیکریٹری مواصلات نے بتایا کہ فیکٹ فائنڈنگ اور محکمانہ انکوائری کے بعد شوکاز نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں، اور شوکاز نوٹس ملنے والوں کی ترقی نہیں ہوگی۔ پی اے سی نے شاہدہ اختر کی زیر صدارت پبلک اکاؤنٹس کی ذیلی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ یہ ذیلی کمیٹی 2010 سے 2014 کے درمیان کی آڈٹ رپورٹس کا جائزہ لے گی۔ دوسری جانب، پی اے سی کی عملدرآمد کمیٹی تشکیل دینے کا معاملہ موخر کر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کو عملدرآمد کمیٹی کے لیے نامزد کیا گیا تھا، لیکن انہیں وزارت ملنے کی وجہ سے ان سے مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔ این ڈی ایم اے کی جانب سے 304 ملین سیلاب ریلیف کی تھرڈ پارٹی آڈٹ نہ کرنے کے معاملے پر آڈٹ حکام نے بتایا کہ وزیراعظم نے تھرڈ پارٹی آڈٹ کی ہدایت کی تھی، لیکن این ڈی ایم اے نے اس پر عمل نہیں کیا۔ پی اے سی نے اس معاملے کو ایک مہینے کے اندر حل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ غیر قانونی بھرتیوں کے معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے گا، اور تمام مجرمانہ عناصر کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ شفافیت اور احتساب کو یقینی بنائے، تاکہ ایسے واقعات کو مستقبل میں روکا جا سکے۔ یہ اقدامات حکومت کی جانب سے شفافیت اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ عوام کی توقع ہے کہ حکومت اس معاملے میں فوری اور موثر کارروائی کرے گی۔
روزنامہ 92 نیوز کے صحافی طارق عزیز نے خبر دی ہے کہ نئے وزراء کے لیے منسٹر اینکلیو میں بنگلوں کی الاٹمنٹ کے بعد سرکاری گاڑیوں کی تقسیم مسئلہ بن گئی ہے اور وزراء نے لو ماڈل گاڑیاں لینے سے انکارکردیا ہے۔ اس پر وزیراعظم شہبازشریف نے نوٹس لیا ہے اور خواجہ سعد رفیق کی سربراہی میں کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔ صحافی طارق عزیز کےمطابق 30 نئی گاڑیوں کی خریداری کی اطلاعات ہیں جو نئے حلف اٹھانے والے وزراء کو دی جائیں گی۔ واضح رہے کہ ستمبر 2024 میں وفاقی حکومت نے کابینہ ارکان کیلئے 24 کروڑ کی 25نئی ہونڈا سٹی گاڑیاں خریدی تھیں۔۔ذرائع کابینہ ڈویژن کے مطابق حکومت نے 1500 سی سی ہونڈا سٹی گاڑیاں خریدی گئیں اور ان کی کل تعداد 25 تھی۔ یادرہے کہ کچھ روز قبل کابینہ میں توسیع کے بعد کابینہ اراکین کی تعداد 52 ہوگئی ہے۔
چارسدہ میں چارپائی کا تنازعہ 5 جانیں لے گیا، جاں بحق ہونیوالوں میں دو بھائی بھی شامل ہیں واقعہ چارسدہ تھانہ ترناب کی حدود میں پیش آیا، جہاں افطاری کے وقت ہمسایوں کے درمیان فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں 5 افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ دو افراد شدید زخمی ہوئے جاں بحق ہونے والوں میں فریق اول سے صفدر خان اور حضرت علی جبکہ فریق دوم سے زاہد ، رشین اور عاصم شامل ہیں ۔ خیبرپختونخوا کی مقامی صحافی فرزانہ علی کے مطابق ہمسایوں کے درمیان زبانی تکرار کے بعد فائرنگ کا تبادلہ ہوا جھگڑے کی وجہ دکان کے سامنے چارپائی رکھنا بتائی گئی۔ لاشوں اور زخمیوں کو ڈی ایچ کیو ہسپتال منتقل کردیا گیا
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایف نائن پارک کے قریب تشدد کا شکار خواتین اور ملزم کے درمیان راضی نامہ طے پا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق، راضی نامے کے بعد ملزم جمال کو 7 مارچ کو ضمانت مل گئی ہے۔ خواتین اور ملزم کے درمیان ہونے والا معاہدہ بھی منظر عام پر آچکا ہے۔ معاہدے میں تینوں خواتین نے واضح کیا کہ وہ مکمل طور پر مطمئن ہیں اور جمال بے قصور ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقدمہ غلط فہمی کی بنیاد پر درج کروایا گیا تھا۔ معاہدے پر تینوں خواتین کے دستخط موجود ہیں، جس میں یہ بیان شامل ہے کہ وہ پوری طرح تسلی کر چکی ہیں اور جمال کے ساتھ راضی نامہ کر لیا گیا ہے۔ خواتین نے یہ بھی کہا کہ اگر عدالت جمال کو رہا کرے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ مقدمے کی مزید پیروی نہیں کرنا چاہتیں اور اگر عدالت ملزم محمد جمال کو بری کر دے تو انہیں کوئی اختلاف نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ ایف نائن پارک میں خواتین پر تشدد کا واقعہ 23 فروری کو پیش آیا تھا۔ درج شدہ مقدمے میں ملزم جمال پر خواتین پر تشدد کرنے کے علاوہ 10 تولہ زیورات اور 20 لاکھ روپے نقدی چھیننے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
لاس اینجلس: ترکمانستان میں تعینات پاکستانی سفیر احسن وگن کو امریکا میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ انہیں لاس اینجلس ایئرپورٹ سے ڈی پورٹ کیا گیا، حالانکہ ان کے پاس امریکی ویزا اور تمام قانونی دستاویزات موجود تھیں۔ سفارتی ذرائع کے مطابق، احسن وگن نجی دورے پر لاس اینجلس ایئرپورٹ پہنچے تھے، لیکن امریکی امیگریشن حکام نے انہیں داخلے سے روک دیا۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستانی سفیر پر امریکا میں تعیناتی کے دوران انتظامی بدعنوانی کی شکایات تھیں، اور اسی بنیاد پر انہیں داخلے سے روکا گیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا ہے جب امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سفری پابندی کا حکم نامہ جاری ہونے کا امکان ہے۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق، امریکی سفری پابندی میں ممکنہ طور پر شامل ممالک میں پاکستان، افغانستان، عراق، ایران، لبنان، لیبیا، فلسطین، صومالیہ، سوڈان، شام، اور یمن شامل ہو سکتے ہیں۔ سفارتی ذرائع کے مطابق، احسن وگن پر امریکا میں تعیناتی کے دوران انتظامی بدعنوانی کی شکایات تھیں۔ ان شکایات کی بنیاد پر امریکی حکام نے انہیں داخلے سے روک دیا۔ واضح رہے کہ احسن وگن ترکمانستان میں پاکستان کے سفیر کے طور پر تعینات ہیں، اور ان کا یہ دورہ نجی نوعیت کا تھا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سفری پابندی کا حکم نامہ جاری ہونے کا امکان ہے، جس میں کئی ممالک کے شہریوں کو امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔ اس پابندی کا مقصد قومی سلامتی کے خطرات کو کم کرنا ہے۔ تاہم، اس پابندی کے تحت پاکستان جیسے اہم اتحادی ممالک کو شامل کرنے پر تنقید کی جا رہی ہے۔ احسن وگن کی ڈی پورٹیشن پاکستانی سفارت کاری کے لیے ایک اہم واقعہ ہے۔ یہ معاملہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ سفارتی ذرائع نے کہا کہ پاکستانی حکومت اس معاملے کی تفتیش کر رہی ہے اور امریکی حکام سے رابطہ کر کے صورتحال کو واضح کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستانی حکومت نے اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر دیا ہے۔ سفارتی ذرائع کے مطابق، امریکی حکام سے مزید معلومات حاصل کی جا رہی ہیں، اور اس معاملے کو سفارتی سطح پر حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ واقعہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں ایک نئی پیچیدگی کا باعث بنا ہے۔ عوام کی توقع ہے کہ دونوں ممالک اس معاملے کو سفارتی سطح پر حل کریں گے اور تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کریں گے۔
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے ملکی چینی کی برآمد کے بعد بیرون ملک سے شکر درآمد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وزارت صنعت و پیداوار کے ذرائع کے مطابق، یہ فیصلہ چینی کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے اور صارفین کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شکر کی درآمد سے مقامی سطح پر چینی کی قیمتوں میں کمی آئے گی، اور صارفین کو مناسب نرخوں پر چینی فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے بتایا کہ درآمد شدہ شکر کو مقامی سطح پر ریفائن کر کے چینی میں تبدیل کیا جائے گا، جس سے مستقبل میں چینی کی پیداوار بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔ دوسری جانب، شوگر انڈسٹری نے پچھلے سال حکومت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ چینی کی برآمد سے ملک میں چینی کی قیمتیں مہنگی نہیں ہوں گی۔ تاہم، یہ یقین دہانی بے کار ثابت ہوئی، اور اس سال بھی چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ رمضان المبارک کے دوران چینی کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ لاہور اور پشاور میں ایک کلو چینی کی قیمت 10 روپے اضافے کے بعد 170 روپے ہو گئی، جبکہ کراچی میں یہ قیمت 180 روپے اور کوئٹہ میں 165 روپے فی کلو ہو گئی۔ ذرائع کے مطابق، شکر کی درآمد کا فیصلہ صارفین کو مناسب نرخوں پر چینی فراہم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ درآمد شدہ شکر کو مقامی سطح پر ریفائن کر کے چینی میں تبدیل کیا جائے گا، جس سے نہ صرف چینی کی قیمتیں مستحکم رہیں گی بلکہ ملک میں چینی کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا۔ شوگر انڈسٹری کی جانب سے دی گئی یقین دہانی کے باوجود، چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، جس سے صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت کا یہ فیصلہ شوگر انڈسٹری کی ناکامی کے بعد چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہے۔ حکومت کا ہدف ہے کہ درآمد شدہ شکر کے ذریعے چینی کی قیمتوں کو کم کیا جائے اور صارفین کو ریلیف فراہم کیا جائے۔ اس کے علاوہ، مقامی سطح پر شکر کو ریفائن کر کے چینی میں تبدیل کرنے سے ملک میں چینی کی پیداوار میں اضافہ ہوگا، جس سے مستقبل میں چینی کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے میں مدد ملے گی۔ یہ اقدام حکومت کی جانب سے صارفین کو ریلیف فراہم کرنے اور چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ عوام کی توقع ہے کہ حکومت اس فیصلے کے ذریعے چینی کی قیمتوں میں کمی لانے میں کامیاب ہوگی۔
ڈیرہ اسماعیل خان: خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک شخص نے مبینہ طور پر زہریلی گولیاں کھا کر خودکشی کر لی، جب مقامی سطح پر منعقد ایک جرگے نے زبردستی ان کی 13 سالہ بیٹی کو ونی کرنے کا حکم دیا۔ واقعہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک دور افتادہ علاقے تھانہ پہاڑ پور کی حدود میں پیش آیا ہے۔ حادثے کے بعد ایک وائس پیغام سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، جس میں عادل نامی شخص نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔ پولیس کے مطابق، یہ پیغام عادل نے خودکشی سے پہلے ریکارڈ کیا تھا۔ وائس پیغام میں عادل نے بتایا کہ ان کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے، اور وہ پیشے کے لحاظ سے حجام ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے علاقے میں ایک جرگے نے ان کی 13 سالہ بیٹی کو ونی کرنے کا حکم دیا، جس کے سامنے وہ بے بس ہیں۔ عادل نے کہا کہ وہ اپنی زندگی بیٹی کے لیے قربان کر رہے ہیں۔ وائس پیغام میں عادل نے ملزمان کے نام بھی لیے اور اپیل کی کہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان کو بچنا نہیں چاہیے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں پہاڑ پور کے ایس پی گوہر خان نے عادل کی وائس پیغام کی تصدیق کی اور بتایا کہ سوشل میڈیا پر وائرل پیغام پر پولیس حرکت میں آ گئی۔ پولیس کے مطابق، چند دن پہلے شادی کی ایک تقریب کے دوران عادل کے بھانجے کو ایک لڑکی کے ساتھ نازیبا حرکات کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ اس معاملے پر جرگہ بٹھایا گیا، جس نے عادل کے بھانجے کو 6 لاکھ روپے جرمانہ کیا۔ تاہم، لڑکی کے باپ نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے جرگے سے عادل کی 13 سالہ بیٹی کو ونی کرنے کا حکم دلوایا۔ عادل سے زبردستی تحریری اقرار نامہ بھی لیا گیا۔ عادل نے بے بسی کی حالت میں ایک وائس پیغام میں ملزمان کے خلاف کارروائی کی اپیل کرتے ہوئے زہریلی گولیاں کھائیں اور مبینہ طور پر خودکشی کر لی۔ سوشل میڈیا پر خودکشی کرنے والے شخص کا آڈیو وائرل ہونے کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان پولیس حرکت میں آ گئی، اور ایف آئی آر درج کرکے کارروائی شروع کر دی۔ پولیس نے بتایا کہ ایف آئی آر میں ملزمان کو نامزد کرکے مرکزی ملزم سمیت دو ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں جرگے کے ذریعے ونی کرکے کمسن بچی کی شادی اپنے بیٹے کے ساتھ کرانے والا غلام فرید بھی شامل ہے۔ پولیس نے بتایا کہ ونی ہونے والی کمسن بچی کو بھی بازیاب کرا لیا گیا ہے، اور اسے اہل خانہ کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ پولیس نے کہا کہ کیس میں نامزد دیگر ملزمان کی گرفتاری بھی جلد کی جائے گی۔ یہ واقعہ سماجی میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پیدا کر گیا ہے۔ لوگوں نے غیر قانونی جرگوں اور ونی جیسی غیر انسانی رسومات کے خلاف سخت اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ کئی سماجی کارکنوں اور سیاسی رہنماؤں نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ونی کی رسم، جو پاکستان کے کچھ علاقوں میں اب بھی رائج ہے، کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے۔ اس رسم کے تحت لڑکیوں کو تنازعات کے حل کے لیے مجبور کیا جاتا ہے، جسے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ پولیس نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ وہ اس معاملے میں سخت قانونی کارروائی کرے گی اور باقی ماندہ ملزمان کو بھی جلد از جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غیر قانونی جرگوں اور ونی جیسی رسومات کے خلاف سخت قوانین بنائے اور ان کے خلاف موثر اقدامات کرے۔ یہ واقعہ سماجی ناانصافی اور غیر قانونی روایات کے خلاف جنگ کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ عوام کی توقع ہے کہ حکومت اس معاملے میں فوری اور شفاف کارروائی کرے گی تاکہ ایسے واقعات کو مستقبل میں روکا جا سکے۔
اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہنا ہے، کیونکہ ان کی بدترین کرپشن کی کہانیاں زبان زد عام تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل والٹ کے ذریعے مستحق افراد کی مالی مدد کی جا رہی ہے، اور اب غیر معیاری چیزوں اور کرپشن کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے نیشنل ٹیلی کام ہیڈکوارٹرز کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے رمضان 2025 کے مانیٹرنگ نظام کا جائزہ لیا۔ وفاقی وزیر شزا فاطمہ نے وزیراعظم کو بریفنگ دی، جس میں ڈیجیٹل والٹ کے ذریعے رمضان کے دوران فی خاندان 5 ہزار روپے کی ادائیگی کے منصوبے پر بھی تفصیلات پیش کی گئیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ڈیجیٹل والٹ کے ذریعے 40 لاکھ خاندانوں کی مالی مدد کی جائے گی، جبکہ 20 ارب روپے کی رقم سے 2 کروڑ افراد مستفید ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے عوام کے پیسے کو کرپشن کی نذر ہونے سے بچانا ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ ڈیجیٹل والٹ میں شفافیت کا پہلو سب کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل والٹ کا شاندار اور جامع پروگرام قابل تعریف ہے، اور عوام کی بہبود ہی حکومت کی ترجیح ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کی بدترین کرپشن کی کہانیاں زبان زد عام تھیں، لیکن اب ہم نے انہیں ہمیشہ کے لیے خیرباد کہنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غیر معیاری چیزوں اور کرپشن کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، اور اب عوام کو شفاف اور معیاری سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ شہباز شریف نے کہا کہ پہلی بار نہ لائنیں لگیں اور نہ ہی شکایات آئیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے والے کی مدد کرنا بڑا نیک کام ہے۔ وزیراعظم نے زور دے کر کہا کہ حکومت کا مقصد عوام کی بہبود اور انہیں معیاری سہولیات فراہم کرنا ہے۔ وزیراعظم نے ڈیجیٹل والٹ کے منصوبے کی کامیابی پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ منصوبہ شفافیت اور موثر مالی مدد کی ایک بہترین مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا ہدف ہے کہ عوام کے پیسے کو صحیح جگہ پر استعمال کیا جائے اور کرپشن کے خاتمے کے ذریعے قومی وسائل کو محفوظ بنایا جائے۔ یہ اقدامات حکومت کی جانب سے شفافیت، احتساب، اور عوامی بہبود کے لیے کی گئی کوششوں کا حصہ ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے عوام کو یقین دلایا کہ حکومت ان کی فلاح و بہبود کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔

Back
Top