خبریں

وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ را دہشت گردوں کو اکٹھا کرنے، فنڈنگ فراہم کرنے اور کارروائیوں میں مدد فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دہشت گردی پر بھارت کی جانب سے کیا جانے والا پروپیگنڈا ایک مخصوص سیاسی جماعت بھی کر رہی ہے۔ فیصل آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ را تمام دہشت گردوں کی "ماں" کا کردار ادا کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ را دہشت گردوں کو اکٹھا کرتی ہے، انہیں فنڈنگ فراہم کرتی ہے، اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں براہ راست ملوث ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ دہشت گردوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی اور انہیں سختی سے نمٹا جائے گا۔ رانا ثنا اللہ نے گرینڈ آپریشن کی ضرورت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جب انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز سے دہشت گردوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، تو بڑے آپریشن کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں کامیابی حاصل کر رہی ہیں اور انہیں "جہنم واصل" کیا جا رہا ہے۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کا استعمال ایک افسوس ناک امر ہے۔ انہوں نے افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرے اور انہیں پاکستان کے خلاف کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔ انہوں نے کہ
تجزیہ کار شہباز رانا اور کامران یوسف نے آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاہدے اور چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کے منصوبوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے کی عدم موجودگی اور سی پیک کے تحت ریلوے کے نظام کی اپ گریڈیشن میں تاخیر جیسے اہم مسائل پر روشنی ڈالی۔ شہباز رانا نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام "دی ریویو" میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں جب بھی کسی ملک کا آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی پروگرام ہوتا ہے، تو اس کا دارومدار اسٹاف لیول معاہدے پر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا حالیہ بیان مثبت ہے، لیکن اس میں سب سے اہم سوال کا جواب موجود نہیں ہے، یعنی کیا پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ ہو گیا ہے؟ شہباز رانا نے کہا کہ آئی ایم ایف کی ٹیم بغیر کسی معاہدے کے واپس واشنگٹن چلی گئی ہے، جو ایک تشویشناک بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا بیان وزارت خزانہ کو "فیس سیونگ" دے رہا ہے، کیونکہ اس میں کہا گیا ہے کہ تمام معاملات اچھے ہیں، لیکن حقیقت میں اسٹاف لیول معاہدہ طے نہیں ہو سکا ہے۔ تجزیہ کار کامران یوسف نے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کے تحت ریلوے کے نظام کی اپ گریڈیشن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کئی منصوبوں پر کام ہوا ہے، لیکن کئی اہم پراجیکٹس پر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ انہوں نے خاص طور پر کراچی سے پشاور تک مین لائن-1 (ایم ایل 1) کی اپ گریڈیشن کا ذکر کیا، جس کے تحت نئی پٹڑیاں بچھانی تھیں اور ریل گاڑیوں کی رفتار بڑھانی تھی۔ کامران یوسف نے کہا کہ چین اور پاکستان کی طرف سے مثبت بیانات کے باوجود، زمینی سطح پر اس منصوبے پر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ انہوں نے وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی کے حالیہ بیان کو "حیران کن" قرار دیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اپنے وسائل سے ML-1 منصوبے کو مکمل کرے گا۔
خیبر پختونخوا کے اضلاع کرک اور پشاور میں رات گئے دہشت گردوں کے مختلف حملوں میں دو پولیس اہلکار اور ایک نجی سیکیورٹی گارڈ شہید ہو گئے۔ یہ پیش رفت ایک روز قبل صوبے کے دیگر اضلاع لکی مروت، بنوں، ضلع مہمند اور باجوڑ میں ہونے والے حملوں کے بعد سامنے آئی ہے، جس سے صوبے میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ کرک کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) شہباز الٰہی کے مطابق، دہشت گردوں نے رات گئے دو پولیس تھانوں اور سوئی گیس کی ایک تنصیب پر بھاری اسلحے سے حملہ کیا۔ فائرنگ کے شدید تبادلے کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار اور ایک نجی سیکیورٹی گارڈ شہید ہو گئے۔ ڈی پی او شہباز الٰہی نے بتایا کہ دہشت گردوں نے خرم اور تخت نصرتی تھانوں پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں پولیس سب انسپکٹر اسلام نور خان شہید ہو گئے۔ سوئی گیس تنصیب پر حملے کے دوران پولیس نے حملہ آوروں کا تعاقب کیا، لیکن وہ اندھیرے میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ تاہم، ان میں سے ایک دہشت گرد ہلاک ہو گیا۔ پولیس نے فائرنگ کے تبادلے کے بعد مسلح عسکریت پسندوں کی جانب سے اغوا کیے گئے ایک سیکیورٹی گارڈ کو بھی بازیاب کرا لیا۔ ڈی پی او نے کہا کہ پولیس نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑے حملوں کا مقابلہ کیا اور انہیں ناکام بنا دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ صورتحال اب قابو میں ہے اور حملہ آور پہاڑوں کی طرف فرار ہو گئے ہیں۔ دریں اثنا، پشاور کے تھانہ مچی گیٹ کی پجگی چوکی پر نامعلوم دہشت گردوں کی فائرنگ سے پولیس اہلکار نذر علی شہید ہو گیا۔ پولیس نے فوری طور پر جوابی کارروائی کی، جس کے نتیجے میں حملہ آور فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔ علاوہ ازیں، جنوبی وزیرستان کی تحصیل وانا کے گاؤں ڈبکوٹ میں نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ سے جوہر نامی ایک سابق پولیس افسر ہلاک ہو گیا۔ متوفی کا تعلق خجل خیل قبیلے سے تھا اور وہ وانا پولیس میں خدمات انجام دے چکے تھے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ایک بیان میں کرک میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ حملہ آور کاشف عرف جرار علاقے میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں پولیس کو مطلوب تھا۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے صوبے میں دہشت گردی کے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا پولیس اور سیکیورٹی فورسز بہادری سے دہشت گردی کا مقابلہ کر رہی ہیں، اور شہیدوں کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی۔
شہر قائد کے علاقے شاہراہ نور جہاں پر گزشتہ روز پولیس اہلکاروں نے ایک پھل فروش پر اس کی ننھی بیٹی کے سامنے تشدد کیا تھا، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے پھل فروش کو مارا پیٹا اور گالیاں دیں، جبکہ اس کی ننھی بیٹی سہمی ہوئی نظروں سے یہ منظر دیکھتی رہی۔ رپورٹ کے مطابق، پھل فروش نے پولیس اہلکاروں کو خربوزہ بغیر پوچھے اٹھانے پر ٹوک دیا تھا۔ اس پر اہلکاروں نے بدتمیزی کی اور پھل فروش کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔ پھل فروش نے کہا کہ "پوچھ کر تو اٹھاؤ"، جس پر اہلکار نے جواب دیا کہ "تیرے سامنے ہی تو اٹھایا ہے، کون سا اپنے گھر لے جا رہا ہوں"۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ایس ایس پی سینٹرل نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے فوری کارروائی کی۔ پھل فروش کو مارنے اور گالیاں دینے والے پولیس اہلکار کانسٹیبل ظفر کو نوکری سے برطرف کر دیا گیا ہے، جبکہ دیگر تین اہلکاروں ذوالفقار، نسیم، اور ڈرائیور عبداللہ کو معطل کر دیا گیا ہے۔ یہ واقعہ کراچی میں پولیس کی بدتمیزی اور تشدد کی ایک اور مثال ہے، جس نے عوامی غم و غصے کو جنم دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد صارفین نے پولیس کے رویے کی سخت مذمت کی ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس کا کام عوام کی خدمت اور حفاظت کرنا ہے، نہ کہ ان پر تشدد کرنا۔ یہ واقعہ ایک بار پھر پولیس محکمے میں اصلاحات کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ پولیس اہلکاروں کو پیشہ ورانہ تربیت دی جائے اور ان کے رویے کو بہتر بنایا جائے، تاکہ ایسے واقعات کو مستقبل میں روکا جا سکے۔ کراچی کے علاقے شاہراہ نور جہاں پر پیش آیا یہ واقعہ پولیس کے رویے پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ اگرچہ متاثرہ پولیس اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کی گئی ہے، لیکن اس واقعے نے پولیس محکمے میں اصلاحات کی اہمیت کو واضح کر دیا ہے۔ عوام کی توقع ہے کہ حکومت اور پولیس انتظامیہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گی۔
وفاقی حکومت نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے ایک جامع قومی پالیسی بنانے اور نیشنل ایکشن پلان (NAP) کو مزید مربوط بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کا مقصد دہشت گردی کے خلاف موثر حکمت عملی تیار کرنا اور سیکیورٹی فورسز کو مزید مضبوط بنانا ہے۔ وفاقی حکومت کے حکام کے مطابق، وزیراعظم نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر قریبی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تفصیلی مشاورت کی ہے۔ اس مشاورت میں یہ طے کیا گیا کہ قومی سلامتی کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کا ان کیمرا اجلاس آئندہ دنوں میں بلایا جائے گا، جس میں موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بنائے گئے قومی ایکشن پلان (NAP) میں اصلاحات کے لیے تجاویز مرتب کی جائیں گی۔ ان تجاویز کی روشنی میں قومی سلامتی کمیٹی (NSC) کے اجلاس میں حتمی پالیسی طے کی جائے گی۔ وفاقی حکومت دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی کی تشکیل پر پارلیمان کو بھی اعتماد میں لے گی، اور حتمی پالیسی طے کرنے سے قبل تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے گی۔ وفاقی حکومت نے دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں ریاست کے خلاف گروہوں کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کا اہم فیصلہ کیا ہے۔ حکام کے مطابق، جو گروہ ریاست کی رٹ کو تسلیم کرتے ہوئے سرینڈر کرنے کے لیے تیار ہوں گے، ان کے ساتھ ریاستی پالیسی کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔ تاہم، مذاکرات کا آپشن استعمال کرنا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ ریاستی اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے طے کیا جائے گا۔ وفاقی حکومت نے حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے اور افغان سرزمین کے استعمال کے معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورمز پر وفاقی حکومت یہ معاملہ اٹھائے گی اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ بھارت اور افغانستان سے دہشت گردی کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کو کہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قلیل، درمیانی اور طویل مدتی حکمت عملی تیار کی جائے گی۔ فورسز کو جدید آلات اور اسلحہ کی فراہمی کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ، دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں رہائشی افراد کے لیے ترقیاتی اور روزگار پیکجز بھی دیے جا سکتے ہیں، تاکہ ان علاقوں میں معاشی استحکام پیدا کیا جا سکے۔ وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ دہشت گردی کے خلاف ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کی طرف اہم قدم ہے۔ اس پالیسی کے تحت نہ صرف سیکیورٹی فورسز کو مضبوط بنایا جائے گا، بلکہ دہشت گردی کی جڑوں کو ختم کرنے کے لیے معاشی اور سماجی اقدامات بھی کیے جائیں گے۔ وفاقی حکومت کا یہ اقدام دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔
اوباڑو کے علاقے کینجھو میں رکن سندھ اسمبلی جام مہتاب حسین ڈہر کی گاڑی پر نامعلوم افراد کی فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے۔ پولیس کے مطابق، اس حملے میں ایم پی اے جام مہتاب محفوظ رہے، تاہم ان کا ایک محافظ اور ڈرائیور جاں بحق ہو گئے، جبکہ 2 دیگر افراد زخمی ہوئے ہیں۔ واقعے کے بعد لاشوں اور زخمیوں کو قریبی اسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر تحقیقات شروع کر دی ہیں اور حملہ آوروں کی تلاش کے لیے علاقے میں سرچ آپریشن جاری ہے۔ پولیس کے مطابق، نامعلوم افراد نے جام مہتاب حسین ڈہر کی گاڑی پر اچانک فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں ان کا محافظ اور ڈرائیور موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ حملے کے بعد حملہ آور فرار ہو گئے۔ پولیس نے حملے کی نوعیت اور مقاصد کا تعین کرنے کے لیے تفتیش شروع کر دی ہے۔ حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کے لیے علاقے میں سرچ آپریشن جاری ہے۔ پولیس نے علاقے میں چیک پوسٹس قائم کی ہیں اور مشتبہ افراد کی تلاش کی جا رہی ہے۔ پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ حملے کے پیچھے محرکات کا پتہ لگانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ واقعے کے بعد متعدد سیاسی رہنماؤں نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ ایک المیہ ہے اور حکومت کو ایسے واقعات کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کرنے چاہئیں۔ انہوں نے زخمیوں کی جلد صحت یابی اور مرحومین کے اہل خانہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ حکومت کی طرف سے اس واقعے پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ حکام نے کہا کہ حملہ آوروں کو جلد از جلد گرفتار کرنے کے لیے تمام وسائل استعمال کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے سکیورٹی کے اقدامات کو مزید بڑھایا جائے گا۔ پولیس نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ کسی بھی مشتبہ حرکت یا افراد کی فوری اطلاع دیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی مدد سے ہی ایسے واقعات کو روکا جا سکتا ہے۔ واقعے کی تفصیلات ابھی تک واضح نہیں ہیں، لیکن پولیس کی جانب سے تحقیقات تیز کر دی گئی ہیں۔ حملے کے پیچھے محرکات کا پتہ لگانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑا آپریشن کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی موجودہ صورتحال پر جلد ہی تمام پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بھی بلائی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ افغان حکومت سے رابطے میں ہیں اور ناظم الامور کو بھی طلب کیا ہے۔ مرید کے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا تنویر حسین نے کہا کہ افغانستان کو واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ ان کے ہاں بیٹھے ہوئے دہشت گرد گروہ پاکستان میں کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ انہوں نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گرد گروہوں کی حوصلہ شکنی کرے اور ان کے خلاف کارروائی کرے۔ رانا تنویر حسین نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف بلوچستان میں ایک بڑا آپریشن کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت دہشت گردی کے حوالے سے جلد ہی اے پی سی اجلاس بلا رہی ہے، جس میں تمام سیاسی جماعتوں کو شامل کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ افغان حکومت سے رابطے میں ہیں اور انہیں پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے تمام معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغان حکومت کو یہ بات سمجھانی ہوگی کہ دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی کرنا یا انہیں پناہ دینا دونوں ممالک کے تعلقات کے لیے نقصان دہ ہے۔ رانا تنویر حسین نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ وفاقی اور پنجاب سطح پر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ہماری مضبوط اتحادی ہے اور مستقبل میں بھی رہے گی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں تمام جماعتوں کو مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹا جا سکے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف اے پی سی اجلاس بلانے کا مقصد تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ہے تاکہ ملک میں امن و استحکام کے لیے ایک متفقہ حکمت عملی تیار کی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی ایک قومی مسئلہ ہے، اور اس کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج اور دیگر سکیورٹی ادارے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مکمل طور پر سرگرم ہیں، اور حکومت ان کی ہر ممکن مدد کر رہی ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہہ وہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون کریں اور کسی بھی مشتبہ حرکت کی فوری اطلاع دیں۔
خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی کے ایم ایل ون ٹرین خود بنانے کے بیان کو "خدا حافظ چین" کا سرکاری اعلان قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کی ہدایت پر وفاقی وزیر ریلوے نے چین کو لال جھنڈی دکھا دی ہے۔ بیرسٹر سیف نے کہا کہ حنیف عباسی کا یہ بیان چین کو ایک واضح پیغام دیتا ہے کہ پاکستان اب چین کے بجائے خود ایم ایل ون ٹرین بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بیان چین کی طرف سے 2 ارب ڈالر کے قرضے کی مدت میں ایک سال کی توسیع کے باوجود دیا گیا ہے، جو پاک چین تعلقات کے لیے ایک تشویشناک اشارہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لگتا ہے کہ وفاقی وزیر ریلوے نے ایفی ڈرین (EFDRIEN) کے زیر اثر یہ بیان دیا ہے۔ بیرسٹر سیف نے کہا کہ اسحاق ڈار کے منفی بیان کے بعد حنیف عباسی کا یہ بیان پاک چین تعلقات پر ایک اور خودکش حملہ ہے۔ مشیر اطلاعات نے کہا کہ شہباز شریف کی حکومت افغانستان کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کے بعد اب چین کے ساتھ بھی تعلقات کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر ریلوے کا ایم ایل ون خود بنانے کا اعلان درحقیقت پالیسی میں تبدیلی کا اعلان ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر فارن آفس اس بیان کی وضاحت نہیں کرتا، تو اسے سرکاری پالیسی سمجھا جائے گا۔ بیرسٹر سیف نے سوال اٹھایا کہ کیا پی ٹی وی ملازمین کو پندھوریں روزے اور 16 تاریخ تک تنخواہیں نہ دے سکنے والی حکومت ایم ایل ون ایفی ڈرین کی آمدن سے بنائے گی؟ انہوں نے کہا کہ یہ بیان نہ صرف غیر حقیقی ہے، بلکہ یہ پاک چین تعلقات کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ بیرسٹر سیف نے کہا کہ چین پاکستان کا ایک اہم اور قابل اعتماد دوست ہے، اور سی پیک جیسے منصوبوں کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان گہرے اقتصادی تعلقات قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے بیانات سے چین کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں، جو پاکستان کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بیان کی فوری وضاحت کرے اور چین کے ساتھ تعلقات کو مستحکم رکھنے کے لیے مثبت اقدامات کرے۔ بیرسٹر سیف نے کہا کہ پاکستان کو چین جیسے اہم اتحادی کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے، نہ کہ ایسے بیانات دے کر انہیں نقصان پہنچانا چاہیے۔ ان کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حنیف عباسی کے بیان نے پاک چین تعلقات پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے، اور حکومت کو اس معاملے پر فوری طور پر واضح موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
نصرت جاوید کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس 24 یا 25 اگست کو انہوں نے جعفرایکسپریس کا ایک ٹریک اڑادیا تھا اس ٹریک کو بحال کرنے میں 4 مہینے لگے تو ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جس ٹریک کو اڑایا گیا تھا انہوں نےمزید کہا کہ اس کے پیچھے آئیڈیا یہ تھا کہ ان 4 مہینوں میں ایکسرسائز کی جائے گی کہ ایک دن ہم اس پوری ٹرین پر قبضہ کرلیں گے اس دوران انہوں نے اپنے لوگ اردگردپہنچائے ، انہوں نے مزید کہا کہ 450 مسافروں سے بھری ہوئی ٹرین کو اغوا کیا جانا اور تمام مسافروں کو یرغمال بنا لینا یہ چھوٹی بات نہیں اس طرح کے واقعات کم ہوتے ہیں ، آخری واقعہ 1977 میں ہالینڈ میں ہوا تھا ، اس موقع پر نصرت جاوید نے تحریک انصاف کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ سوچنے کی بات ہے کہ یہ واقعہ پیش آیا کیوں ،اس کے بارے سوالات اٹھانے چاہیے تھے اور سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمارے ہاں سوال اٹھانے کی گنجائش باقی رہ گئی ہے ، میں دیانتداری سے کہتا ہوں کہ نہیں اس کی بنیادی وجہ وہی جماعت ہے جو چند سال پہلے سیم پیج پر رقص فرما رہی تھی اور جو کہتی تھی آرمی چیف باپ ہوتا ہے ۔ نصرت جاوید نے مزید کہا کہ بلوچستان کے احساس محرومی کے بارے میں جن لوگوں نے غیر بلوچ ہوتے ہوئے سب سے زیادہ شور مچایا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ میں ان چند صحافیوں میں سے ایک ہو لیکن کیا یہ حقوق کی جنگ ہے آپ بس اغوا کریں اور کہیں کہ اس اس نسل کے لوگ ایک طرف ہوجائیں اور غیر بلوچوں کو آپ گولیوں سے بھون دیں ،یہ حقوق کی جنگ تو نہ رہی یہ تو آپ نسلی منافرت کررہے ہیں آپ
اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی) کی کمیٹیوں کے درمیان پنجاب سے متعلق ہونے والی ملاقات کے تفصیلی احوال سامنے آ گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، مسلم لیگ (ن) نے ایک بار پھر پیپلز پارٹی کے مطالبات پر عمل درآمد کا وعدہ کیا ہے۔ تاہم، ن لیگ کی جانب سے یہ شکوہ بھی سامنے آیا کہ پی پی کو وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز پر زیادہ تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ ملاقات کے دوران، مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کے صرف منتخب رہنماؤں کے کاموں کو ترجیح دینے پر زور دیا۔ دوسری جانب، پی پی نے کچھ غیر منتخب رہنماؤں کے حلقوں کے لیے بھی فنڈز اور دیگر ترقیاتی کاموں پر اصرار کیا۔ ن لیگ نے گورنر پنجاب کی جانب سے وزیراعلیٰ مریم نواز پر تنقید پر بھی اعتراض کیا۔ ایک ن لیگ رہنما نے کہا کہ گورنر صاحب کو وزیراعلیٰ پنجاب پر زیادہ تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ اس پر پی پی کے رہنما نے جواب دیا کہ ’’ہم ہاتھ ہلکا کر لیتے ہیں، لیکن پنجاب حکومت کو بھی پیپلز پارٹی کا خیال رکھنا چاہیے۔‘‘ ذرائع کے مطابق، پی پی نے چند روز قبل صدر مملکت کی لاہور آمد پر وزیراعلیٰ مریم نواز کی جانب سے استقبال نہ کیے جانے پر بھی اعتراض کیا۔ اس معاملے پر دونوں جماعتوں کے درمیان تبادلہ خیال ہوا، لیکن کوئی واضح حل سامنے نہیں آ
اختر مینگل کا کھلا خط: بلوچستان کی محرومیوں پر ایک کڑوا سچ بلوچستان ناصرف پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے بلکہ قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہے، مگر ریاستی بیانیہ اکثر اس حقیقت سے نظریں چراتا رہا ہے۔ سردار اختر مینگل نے ایک کھلے خط میں بلوچستان کی محرومیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو سب کچھ دینے کے باوجود بلوچستان کے عوام آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریکوڈک اور سینڈک جیسے سونے اور تانبے کے ذخائر بلوچستان میں موجود ہیں، جن کی مالیت کھربوں ڈالرز میں ہے، مگر ان وسائل سے مقامی آبادی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ اسی طرح قدرتی گیس، جس سے پورے ملک کے چولہے جلتے ہیں، اسی بلوچستان کے کئی علاقے آج بھی اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اختر مینگل نے گوادر کے حوالے سے بھی بات کی، جہاں کے ماہی گیر اپنی روزی روٹی کے لیے اجازت ناموں کے محتاج ہیں، جبکہ گوادر پورٹ اور سی پیک جیسے منصوبے ملک بھر کے تاجروں کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آخر کیوں بلوچستان کی عوام کو ان کے اپنے وسائل سے محروم رکھا جا رہا ہے؟ انہوں نے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد لاپتہ ہے، حتیٰ کہ ان کے اپنے والد، جو بلوچستان کے پہلے وزیر اعلیٰ تھے، ان کے بیٹے کو بھی لاپتہ کر دیا گیا۔ اس کے باوجود، بلوچ عوام سے حب الوطنی کا ثبوت مانگا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ عوام کی چیخوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا، ان کی مشکلات پر ہمدردی کے بجائے شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ پاکستان، بلوچستان کے بغیر کچھ نہیں، اور اگر بلوچستان کے نوجوان آج ناراض ہیں تو اس کی بڑی وجہ وہ رویہ ہے جس کے تحت انہیں ان کا جائز مقام دینے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ اختر مینگل کا یہ خط بلوچستان کی عوام کے دلوں کی آواز بن چکا ہے اور سوشل میڈیا پر بھی اس پر بھرپور ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے۔
پیٹرول اس لیے سستا نہیں کر رہے بجلی سستی کرنی ہے، وزیراعظم۔۔ 15 دن کیلئے پیٹرول مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا اعلان وزیراعظم شہباز شریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں بتایا گیا کہ حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں نمایاں کمی کرکے عوام کو بڑی ریلیف فراہم کرنے کی تیاری کر لی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں موجودہ سطح پر برقرار رکھتے ہوئے اس کے مالی فوائد کو بجلی کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں عوام تک منتقل کیا جائے گا۔ انہوں نے اس اقدام کو بجلی کے نرخوں میں بامعنی کمی لانے کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بجلی کے نرخوں میں کمی کے حوالے سے ایک جامع اور مؤثر حکمت عملی کے تحت پیکج تیار کیا جا رہا ہے، جس کی تفصیلات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ وزیراعظم نے بتایا کہ اس پیکج کا اعلان آنے والے چند ہفتوں میں کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی عوامی ریلیف کو ترجیح دینے کا عہد کیا تھا، اور یہ اقدام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حکومت نے اگلے 15 دنوں کے لیے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارت خزانہ نے اس سلسلے میں نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 258 روپے 64 پیسے فی لیٹر، پیٹرول کی قیمت 255 روپے 63 پیسے فی لیٹر، مٹی کے تیل کی قیمت 168 روپے 12 پیسے فی لیٹر، اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت 153 روپے 34 پیسے فی لیٹر برقرار رکھی گئی ہے۔
تحریک انصاف کے کارکن اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ حیدر سعید کو سحری سے ایک گھنٹہ قبل نامعلوم لوگ اٹھا کر لے گئے۔۔ نقاب پوشوں کے گھر میں گھسنے کے مناظر سامنے آگئے اطلاعات کے مطابق سحری سے قبل ساٹھ نقاب پوش بھیج کر حیدر سعید کو اس کی والدہ کے سامنے تشدد کرکے اغوا کرکے لے گئے۔ نامعلوم نقاب پوشوں نے گھر میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور پھر حیدر سعید کو ساتھ لے گئے جبکہ والدہ اور والد مزاحمت کرتے رہے حیدر سعید کی والدہ نے روتے ہوئے گفتگو میں کہا کہ میں نے کہا مجھے گولی مارنی ہے تو مارے لیکن حیدر سعید کو نہ لیکر جائیں، میں آپ سب سے درخواست کرتی ہوں حیدر سعید کے لئے آواز اٹھائیں حیدر سعید کے والد نے نامعلوم افراد کے ہاتھوں اپنے بیٹے کے اغوا پر بیان کہا کہ وہ لوگ گھر میں گھسے اور توڑ پھوڑ کی ۔ تیس چالیس لوگ بغیر وردی کے آئے، جس میں زیادہ تر نقاب پوش تھے اور حیدر سعید کو گھر سے اٹھا کر لے گئے
وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے جعفر ایکسپریس سانحے میں شہید ہونے والوں کے لواحقین کو 52 لاکھ روپے معاوضہ اور ان کے بچوں کو ریلوے میں نوکریاں دینے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کو چاہے وہ پاکستان میں چھپے ہوں یا افغانستان بھاگ جائیں، انہیں نہیں چھوڑا جائے گا۔ وزارت ریلوے کا قلمدان سنبھالنے کے بعد ریلوے ہیڈکوارٹرز میں پہلی پریس کانفرنس کرتے ہوئے حنیف عباسی نے کہا کہ جعفر ایکسپریس پر حملے سے بھارت کی دشمنی کھل کر سامنے آ گئی ہے، جس میں افغانستان بھی ملوث ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ قومی قیادت اب کسی دہشت گرد کو نہیں چھوڑے گی۔ حنیف عباسی نے کہا کہ جعفر ایکسپریس سانحے سے ایک طرف قوم افسردہ ہے، تو دوسری طرف ایک مخصوص سیاسی جماعت نے وہی بات کی جو بھارت نے زبان سے کہی۔ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ٹرین حادثے پر پی ٹی آئی بریگیڈ اور بھارتیوں نے فوج کو ٹارگٹ کیا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا کروڑوں اربوں روپے پی ٹی آئی بریگیڈ کو فوج کو ٹارگٹ کرنے کے لیے نہیں ملے؟ حنیف عباسی نے کہا کہ ایم ایل ون ٹرین کو دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ان کے کان پک گئے ہیں، لیکن وہ اسے اپنے فنڈز سے شروع کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ ریلوے میں بروقت ٹرینیں چلانے، صفائی اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر ریلوے نے کہا کہ وہ ریلوے پولیس میں مداخلت نہیں کریں گے، بلکہ ان کی معاونت کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ریلوے پولیس کا اسکیل پنجاب پولیس کے برابر کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریلوے اسٹیشنز کی اپ گریڈیشن، اسٹیشنز پر کیمرے لگانے اور کارگو سروس کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح مسافر ٹرینوں سے ریونیو بڑھا ہے، اسی طرح سستا کارگو سروس بھی متعارف کرائی جائے گی۔ واضح رہے کہ کالعدم تنظیم کی جانب سے کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کرنے پر قومی اسمبلی میں بھی مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی۔ یہ قرارداد وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے پیش کی تھی، جس پر اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان کے دستخط موجود تھے۔ قرارداد کے متن میں جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کرنے اور شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کی مذمت کی گئی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ قوم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانے کا عزم رکھتی ہے۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ کسی بھی گروہ یا فرد کو ملک کے امن، خوشحالی اور خودمختاری کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ملک کی علاقائی حدود میں خوف، نفرت یا تشدد پھیلانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ حنیف عباسی نے کہا کہ ریلوے کے شعبے کو جدید بنانے اور شفافیت لانے کے لیے تمام تر کوششیں کی جائیں گی۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ریلوے کی خدمات کو بہتر بنانے کے لیے اپنے تجاویز اور مشورے دیں۔ ان کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کرنے اور ریلوے کے شعبے کو جدید بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما خرم دستگیر نے کہا ہے کہ جعفر ایکسپریس سانحے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بلوچستان میں تشدد کرنے والے گروہ پاکستان اور بلوچستان کے خیرخواہ نہیں ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ جو پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ یہ گروہ صرف حقوق کی جدوجہد کر رہے ہیں، ان کے ذہنوں سے یہ غلط فہمی دور ہو جانا چاہیے۔ خرم دستگیر نے کہا کہ بیک وقت انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانا، اغوا اور قتل جیسے اقدامات پوری دنیا میں تشویشناک سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی تنظیموں کے خلاف ریاست کو اپنے تمام وسائل استعمال کرنے چاہئیں تاکہ انہیں ختم کیا جا سکے۔ انہوں نے بیرون ملک بیٹھے بلوچ نام نہاد رہنماؤں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی پوزیشن واضح کریں اور ہر قسم کی دہشتگردی اور تشدد سے اپنا تعلق توڑنے کا اعلان کریں۔ خرم دستگیر نے کہا کہ خاص طور پر وہ لوگ جو حال ہی میں بلوچ قوم کے نام نہاد رہنما بن کر سامنے آئے ہیں، ان کی خاموشی معنی خیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ رہنما واقعی بلوچ عوام کے خیرخواہ ہیں، تو انہیں تشدد کی مذمت کرنی چاہیے اور اپنے آپ کو دہشتگردی سے مکمل طور پر الگ کرنا چاہیے۔ خرم دستگیر نے کہا کہ جینیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر کے قریب رہنے والے بلوچ رہنماوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ رہنما خاموش رہتے ہیں، تو یہ ان کی خاموشی ان کے تشدد پسند رویے کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کو ایسے گروہوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے چاہئیں، کیونکہ یہ گروہ نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے امن و استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ خرم دستگیر نے زور دے کر کہا کہ بلوچستان کے عوام کو ان گروہوں کی حقیقت کا ادراک ہو جانا چاہیے، کیونکہ یہ گروہ نہ تو بلوچ عوام کے حقوق کے لیے کام کر رہے ہیں اور نہ ہی وہ بلوچستان کے مفاد میں ہیں۔ خرم دستگیر کی یہ باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان میں تشدد کی کارروائیوں کے خلاف ریاستی اقدامات کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی بیرون ملک بیٹھے بلوچ رہنماؤں کو بھی اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ رہنما واقعی بلوچ عوام کے خیرخواہ ہیں، تو انہیں تشدد کی مذمت کرتے ہوئے امن کے عمل میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔
خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں تھانہ ارمڑ کی حدود میں واقع ایک مسجد کی دیوار کے قریب آئی ای ڈی دھماکا ہوا، جس کے نتیجے میں مفتی منیر شاکر جاں بحق ہو گئے۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان نے تصدیق کی کہ دھماکے میں شدید زخمی ہونے والے مفتی منیر شاکر نے ہسپتال میں علاج کے دوران دم توڑ دیا۔ ترجمان کے مطابق، دھماکے میں زخمی ہونے والے 3 دیگر افراد فی الحال ہسپتال میں زیر علاج ہیں اور ان کی حالت تشویش ناک ہے۔ پولیس کے مطابق، دھماکے میں کل 4 افراد زخمی ہوئے تھے۔ واقعے کے بعد پولیس، بم ڈسپوزل اسکواڈ (بی ڈی یو)، اور محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکار فوری طور پر موقع پر پہنچ گئے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق، دھماکا دیسی ساختہ بم سے کیا گیا تھا۔ مفتی منیر شاکر کی شہادت سے چند روز قبل کا بیان سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں اور انہوں نے حکومت کو اس بارے میں آگاہ بھی کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ حکومت، سیکیورٹی ادارے اور ملک کی ایجنسیز اپنے شہریوں کے تحفظ میں مکمل ناکام ہو چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ادارے نہ صرف اپنی ناکامی پر نادم نہیں ہیں، بلکہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ وزیر اعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے اس واقعے پر سخت مذمت کرتے ہوئے پولیس حکام سے واقعے کی تفصیلی رپورٹ طلب کر لی۔ انہوں نے ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کرنے کے لیے ضروری اقدامات کی ہدایت بھی جاری کی۔ وزیر اعلی نے زخمیوں کی جلد صحت یابی کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے ہسپتال انتظامیہ کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ مشیر صحت خیبر پختونخوا احتشام علی نے مفتی منیر شاکر کی شہادت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ مفتی منیر شاکر کو ابتدائی علاج کے لیے لیڈی ریڈنگ ہسپتال لایا گیا تھا، لیکن وہ شدید زخموں کی وجہ سے شہادت کے درجے پر فائز ہو گئے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل آج ہی خیبر پختونخوا کے دو اضلاع لکی مروت اور بنوں میں 4 مختلف پولیس اسٹیشنز پر دہشت گردوں کے حملے ناکام بنا دیے گئے تھے۔ ان حملوں میں کسی جانی نقصان کی اطلاعات نہیں ہیں، تاہم 2 پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔ پشاور میں ہونے والے اس دھماکے نے ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہلکاروں اور عوام کی قربانیوں کو اجاگر کر دیا ہے۔ پولیس اور سکیورٹی فورسز نے ملزمان کو گرفتار کرنے کے لیے تحقیقات تیز کر دی ہیں، جبکہ علاقے میں سکیورٹی کے اقدامات کو مزید بڑھا دیا گیا ہے۔ مفتی منیر شاکر کی شہادت نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ کیا حکومت اور سیکیورٹی ادارے عوام کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کر رہے ہیں؟ ان کے بیان کے مطابق، انہیں دھمکیوں کے باوجود کوئی مناسب تحفظ فراہم نہیں کیا گیا، جو ان کی شہادت کے بعد ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ صحافی عمران ریاض کے مطابق اسٹیبلشمنٹ مخالف عالم دین مفتی منیر شاکر کا قتل کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں یہ تیسری ایسی شہادت ہے۔
کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں آج تین زوردار دھماکے رونما ہوئے، جن میں ایک دھماکا شالکوٹ تھانے کے علاقے کرانی روڈ پر اے ٹی ایف کی گاڑی کے قریب ہوا۔ اس دھماکے کے نتیجے میں سات اہلکار زخمی ہوئے، جن میں سے ایک اہلکار دلبر خان موقع پر ہی شہید ہو گیا۔ زخمیوں کو فوری طور پر طبی امداد کے لیے بی ایم سی ہسپتال منتقل کیا گیا۔ پولیس کے مطابق، دھماکا خیز مواد سڑک کنارے نصب کیا گیا تھا، جس کے بعد سے علاقے میں سکیورٹی کے اقدامات مزید سخت کر دیے گئے ہیں۔ دوسرا واقعہ قمبرانی روڈ پر پیش آیا، جہاں نامعلوم افراد نے ایک موبائل فون کی دکان پر دستی بم سے حملہ کیا۔ خوش قسمتی سے اس حملے میں کسی جانی یا مالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ تاہم، پولیس نے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں اور ملزمان کی تلاش جاری ہے۔ تیسرا دھماکا ایئرپورٹ روڈ کے قریب کلی شابو کے علاقے میں سنا گیا۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ابھی تک اس دھماکے کی نوعیت اور ممکنہ نقصانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ابتدائی رپورٹس کے مطابق، دھماکے کی شدت کم تھی، لیکن اس کے باوجود پولیس اور امدادی ٹیمیں فوری طور پر جائے وقوعہ پر پہنچ گئی ہیں۔ ان واقعات کے بعد شہر میں سکیورٹی کے اقدامات کو مزید بڑھا دیا گیا ہے۔ پولیس کے ترجمان نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ کسی بھی مشتبہ حرکت یا اشیاء کی فوری اطلاع دیں تاکہ ایسے واقعات کو روکا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کرنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ شہید اہلکار دلبر خان کی شہادت پر پولیس اور مقامی عوام نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ان کی شہادت نے ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہلکاروں کی قربانیوں کو اجاگر کر دیا ہے۔
لاہور: پنجاب کے محکمہ صحت نے تمام ڈاکٹرز، نرسز اور طبی عملے کے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس حوالے سے باضابطہ ہدایات جاری کی گئی ہیں، جن میں تمام میڈیکل عملے کو سوشل میڈیا کے استعمال کو محدود رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ محکمہ صحت کی جانب سے جاری مراسلے میں واضح کیا گیا ہے کہ ڈاکٹرز اور طبی عملہ کسی بھی نوعیت کی معلومات سوشل میڈیا پر شیئر نہ کریں۔ اس فیصلے کا اطلاق پنجاب بھر کے تمام میڈیکل انسٹی ٹیوشنز اور ٹیچنگ ہسپتالوں پر ہوگا۔ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ تمام متعلقہ اداروں کے سربراہان کو اس حوالے سے ہدایات جاری کر دی گئی ہیں، تاکہ اس فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔ محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام مریضوں کی رازداری اور طبی معلومات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ اس فیصلے کے پیچھے محکمہ صحت کا مقصد یہ ہے کہ طبی عملہ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو ترجیح دے اور سوشل میڈیا پر غیر ضروری معلومات شیئر کرنے سے گریز کرے۔ اس کے علاوہ، یہ اقدام مریضوں کی نجی معلومات کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے بھی اٹھایا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا ڈاکٹرز اور طبی عملہ اس پابندی پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔ محکمہ صحت کی جانب سے جاری ہدایات کے مطابق، اس فیصلے کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ یہ اقدام طبی شعبے میں پیشہ ورانہ اخلاقیات اور مریضوں کی رازداری کے تحفظ کے لیے اہم ہے، لیکن اس پر طبی عملے کے ردعمل اور اس کے اثرات کا جائزہ لینا بھی ضروری ہوگا۔
اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف الیون میں ایک کال سینٹر پر چھاپہ مارا، جس کے دوران کال سینٹر کے عملے نے ایف آئی اے ٹیم پر فائرنگ کر دی۔ ذرائع کے مطابق، ایف آئی اے ٹیم نے غیر قانونی کال سینٹر چلائے جانے کی اطلاع پر کارروائی کی۔ چھاپے کے دوران کال سینٹر کے عملے نے شدید فائرنگ کی، جس کے جواب میں ایف آئی اے اہلکاروں نے بھی جوابی فائرنگ کی۔ اس کے بعد کال سینٹر کے عملے کو گرفتار کر لیا گیا۔ کال سینٹر کے عملے نے الزام لگایا ہے کہ ایف آئی اے ٹیم نے مبینہ طور پر رشوت کا تقاضہ کیا تھا، اور رشوت نہ دینے پر چھاپہ مارا گیا۔ تاہم، ایف آئی اے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر قانونی کال سینٹر چلائے جانے کی اطلاع پر کارروائی کی گئی تھی، اور چھاپے کے دوران کال سینٹر کے عملے نے فائرنگ کی۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق، کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے، اور ملزمان کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ایف آئی اے نے مزید تفتیش کا عمل جاری رکھا ہوا ہے، اور کال سینٹر کے غیر قانونی سرگرمیوں کے بارے میں مزید معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں۔ یہ واقعہ اسلام آباد میں غیر قانونی کال سینٹرز کے خلاف جاری کارروائیوں کا حصہ ہے۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ وہ سائبر کرائمز اور غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف سخت اقدامات کر رہی ہے، تاکہ عوام کو اس طرح کے جرائم سے تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا کال سینٹر کے عملے کے الزامات کی تصدیق ہوتی ہے یا نہیں، اور ایف آئی اے کی کارروائی کے نتائج کیا ہوں گے۔ یہ معاملہ سائبر کرائمز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تعلقات پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔
اسلام آباد: پیپلز پارٹی کی مرکزی ترجمان شازیہ مری نے وفاقی حکومت کی نئی متبادل انرجی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے اسے "ظالمانہ" اور "عوام کے خلاف معاشی جنگ" قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کو 27 روپے کے بجائے 10 روپے فی یونٹ پر بجلی فروخت کرنے پر مجبور کرنا ان کے ساتھ کھلی جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ شازیہ مری نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے نیٹ میٹرنگ کے قوانین میں کی گئی تبدیلیاں قابل مذمت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شمسی توانائی کے صارفین کو 27 روپے فی یونٹ کے بجائے صرف 10 روپے فی یونٹ پر بجلی فروخت کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، جو متبادل انرجی صارفین پر براہ راست حملہ ہے۔ انہوں نے اس اقدام کو پاکستان کے قابل تجدید توانائی کے مستقبل سے غداری قرار دیا۔ شازیہ مری نے کہا کہ صارفین کو قومی گرڈ سے 65 روپے یا اس سے زائد فی یونٹ کے نرخوں پر بجلی خریدنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، جبکہ وفاقی حکومت گرین انرجی اپنانے والے صارفین کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کے خلاف کھلی جنگ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قیمتوں میں 550 فیصد کا یہ فرق ظالمانہ ہے اور عام عوام کا معاشی استحصال ہے۔ انہوں نے وفاقی حکومت پر پاور سیکٹر میں مافیا، کرپشن اور نااہل افراد کی سرپرستی کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا کہ "نیٹ میٹرنگ سے عام صارفین پر 90 پیسے فی یونٹ کا بوجھ پڑتا ہے" ایک کھلا دھوکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ 18 روپے فی یونٹ "آئیڈل کپیسٹی پیمنٹس" اور 600 ارب روپے سالانہ بجلی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی میں ضائع ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان سنگین مسائل کو حل کرنے کے بجائے، وفاقی حکومت ملک کو توانائی میں خود کفیل بنانے والوں کو سزا دے رہی ہے۔ شازیہ مری نے کہا کہ یہ پالیسی پاکستان کی شمسی توانائی کی صنعت کو تباہ کر دے گی، جس سے گھریلو اور تجارتی صارفین کے لیے شمسی توانائی ناقابل عمل ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام قابل تجدید توانائی میں مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو روکے گا اور فرسودہ اور ناکام گرڈ پر انحصار بڑھا دے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ عمل عوام کو ناقابل برداشت نرخوں پر بجلی خریدنے پر مجبور کرے گا، جبکہ گرین انرجی کے مواقع ختم ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بند کمروں میں بیٹھ کر بغیر مشاورت کے کیے گئے فیصلے عوام کے بجائے طاقتور لابیوں اور فوسل فیول انڈسٹری کے مفادات کے تحفظ کا عندیہ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کا یہ اقدام پاکستان کی توانائی کی خودمختاری اور معاشی آزادی پر براہ راست حملہ ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت اس ظالمانہ پالیسی کو فوری طور پر واپس لے اور ذمہ دار افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔ شازیہ مری نے کہا کہ حکومتی فیصلہ قابل تجدید توانائی کے مستقبل کو تباہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت نے اپنی عوام دشمن پالیسی واپس نہ لی تو وہ اس کے خلاف عدالتی، سیاسی اور عوامی سطح پر سخت مزاحمت کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف ایک توانائی پالیسی نہیں، بلکہ عوام کے خلاف معاشی جنگ ہے، جس پر وہ خاموش نہیں رہیں گی۔

Back
Top