خبریں

چار ماہ گزرنے کے باوجود آئینی بینچ ابھی تک کسی اہم معاملے پر فیصلہ نہیں کر سکا ہے۔ 4 نومبر 2024 کو جوڈیشل کمیشن نے اکثریت کی رائے سے 8 ججوں کو آئینی بینچ کے لیے نامزد کیا تھا۔ توقع یہ تھی کہ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں یہ بینچ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات کا فیصلہ کرے گا۔ تاہم، بینچ نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کے مقدمات کو مشروط طور پر نمٹانے کی اجازت دی ہے۔ آئینی بینچ نے 46 سماعتوں کے باوجود فوجی عدالتوں کے مقدمے کی کارروائی مکمل نہیں کی ہے۔ اس معاملے کی سماعت اگلے ماہ دوبارہ شروع ہوگی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی تردید کے لیے کم از کم 8 سماعتوں کی ضرورت ہے۔ فوجی عدالتوں کے مقدمے کی طویل سماعت کی وجہ سے آئینی بینچ دو اہم مقدمات کی سماعت نہیں کر سکا۔ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں بینچ نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا جنوری میں قانون اور آئین کی تشریح سے متعلق معاملات کی سماعت سے باقاعدہ بینچ کو روکا جا سکتا ہے؟ اس پر آئینی بینچ کی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت 8 جنوری کو ہوگی، اور 8 رکنی بینچ صرف اسی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرے گا۔ مقدمے کی سماعت تین ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی ہے۔ آئینی بینچ نے 50 دن گزرنے کے بعد بھی 26 ویں آئینی ترمیم کا مقدمہ طے نہیں کیا ہے۔ اسی طرح، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کی سینئرٹی سے متعلق ایک اور اہم معاملہ زیر التوا ہے۔ 5 ججوں نے مختلف ہائی کورٹس سے تبادلہ ہونے والے 3 ججوں کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلے کو چیلنج کیا ہے۔ انہوں نے 3 نئے ججوں کے تبادلے کے بعد درجہ بندی میں تبدیلیوں کی روشنی میں اپنی سینئرٹی کا دعویٰ سپریم کورٹ میں کیا ہے، خاص طور پر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سرفراز ڈوگر، جو جسٹس محسن اختر کیانی کی جگہ سینئر جج بنے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ تبادلہ ہونے والے ججوں کی سینئرٹی کا تعین نئے سرے سے حلف لینے کے بعد کیا جائے گا۔ مختلف بار ایسوسی ایشنز نے بھی 3 ججوں کے تبادلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ یہاں تک کہ پی ٹی آئی نے بھی اسی موضوع پر آئینی درخواست دائر کی ہے۔ اگرچہ ان درخواستوں پر نمبر الاٹ ہو چکے ہیں، لیکن ابھی تک یہ معاملہ فیصلے کے لیے طے نہیں ہوا ہے۔ وکلاء کا خیال ہے کہ ان اہم مقدمات میں جمود انتظامیہ کے لیے موزوں ہے۔ فوجی عدالتیں ملزمان کو سزائیں سنا چکی ہیں، اور وہ اب قید میں ہیں۔ دوسرا یہ کہ 26 ویں آئینی ترمیم پر عملدرآمد بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہے، اس لیے حکومت اس معاملے پر فوری فیصلہ کرنے میں جلدی نہیں کر رہی۔ تیسرا، حکومت کا لاہور ہائی کورٹ کے حوالے سے منصوبہ بھی آسانی سے جاری ہے۔ جسٹس سرفراز ڈوگر قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ حکومت کو ماضی کے برعکس لاہور ہائی کورٹ میں کسی مشکل کا سامنا نہیں ہے، اس لیے اس معاملے میں جمود حکومت کے لیے بھی موزوں ہے۔ کراچی بار ایسوسی ایشن نے فیصل صدیقی کے ذریعے لاہور ہائی کورٹ میں 3 ججوں کے تبادلے کو بھی چیلنج کیا ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم آئینی بینچ کو قانون اور آئین کی تشریح کا خصوصی اختیار دیتی ہے۔ باقاعدہ بینچوں کو قانون اور آئین کی تشریح کے لیے دائرہ اختیار استعمال کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ تاہم، آئینی بینچ نے گزشتہ سال نومبر سے اب تک کسی بھی قانون کی تشریح نہیں کی ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے صوبے کو کیش لیس معیشت کی جانب گامزن کرنے کے لیے ایک انقلابی اقدام کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا کو کیش لیس خیبرپختونخوا اقدام کے فوری اور مؤثر نفاذ کی ہدایات جاری کی ہیں۔ اس اقدام کے تحت صوبے میں تمام کاروباروں کے لیے لازمی ڈیجیٹل ادائیگی کا نظام متعارف کرایا جائے گا، جس کا مقصد مالی شفافیت کو فروغ دینا، نقدی پر انحصار کم کرنا، اور کاروباری ماحول کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے۔ اس اقدام سے نہ صرف خیبرپختونخوا کی معیشت ڈیجیٹل دور میں داخل ہوگی، بلکہ اس سے معاشی ترقی، ٹیکس کمپلائنس، اور فِن ٹیک سرمایہ کاری کو بھی فروغ ملے گا۔ وزیراعلیٰ کے مطابق، یہ اقدام کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں کی روک تھام میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔ خیبرپختونخوا اس اقدام کے ذریعے پاکستان کا پہلا *کیش لیس* صوبہ بننے کی راہ پر گامزن ہوگا۔ کے تحت تمام سرکاری اور کاروباری لین دین میں QR کوڈز اور ڈیجیٹل والٹس کا استعمال لازمی کیا جائے گا۔ اس سے نہ صرف مالی لین دین میں شفافیت آئے گی، بلکہ عوامی خدمات کے معیار کو بھی بہتر بنایا جا سکے گا۔ وزیراعلیٰ نے زور دیا کہ ہر حکومتی پالیسی کا مرکز عوامی بہبود اور شفافیت ہونا چاہیے۔ یہ اقدام سابق وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق ہے، جنہوں نے ہمیشہ ڈیجیٹل معیشت اور شفافیت پر زور دیا ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت کا یہ قدم نہ صرف صوبے کی معیشت کو جدید بنیادوں پر استوار کرے گا، بلکہ پورے ملک کے لیے ایک مثال قائم کرے گا۔ اس اقدام کے ذریعے خیبرپختونخوا جدید ادائیگی کے نظاموں کی دوڑ میں شامل ہوگا، جس سے نہ صرف کاروباری سرگرمیوں کو فروغ ملے گا، بلکہ عام شہریوں کے لیے بھی لین دین کے عمل کو آسان اور محفوظ بنایا جا سکے گا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ یہ اقدام صوبے کے مستقبل کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے، جو خیبرپختونخوا کو ترقی کی نئی بلندیوں پر لے جائے گا۔ خیبرپختونخوا حکومت کا یہ قدم ڈیجیٹل پاکستان کے خواب کو عملی شکل دینے کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے، جس سے نہ صرف صوبے بلکہ پورے ملک کی معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔
صحافی مہوش خان نے سروس اسٹیشن ملازم سے پولیس اہلکار کی بدتمیزی کے معاملے پر اسلام آباد پولیس کے وضاحتی بیان پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "جھوٹ بولنا کوئی اسلام آباد پولیس سے سیکھے۔" انہوں نے ایک واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ایک پیٹرول پمپ پر پیش آنے والے واقعے میں پولیس نے ایک ملازم کو تھانے لے جایا، جس کے بعد کمپنی نے اس ملازم کو نوکری سے برطرف کر دیا۔ مہوش خان کے مطابق، پیٹرول پمپ کے ملازم اور پولیس اہلکار کے درمیان معمولی تلخ کلامی ہوئی، جس پر پولیس اہلکار نے ملازم کو تھانے لے جایا۔ اس دوران پیٹرول پمپ کے مینیجر کو بھی تھانے بلایا گیا۔ بعد ازاں، کمپنی نے ملازم کو نوکری سے ہٹا دیا، کیونکہ ان کی وجہ سے تھانے جانا پڑا تھا۔ مہوش خان نے بتایا کہ پولیس اہلکار نے بعد میں تھانے میں ہی 250 روپے جمع کرا دیے، لیکن اس کے باوجود اسلام آباد پولیس نے اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے جھوٹے بیانات جاری کیے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد پولیس نے نہ صرف غلط بیانی کی بلکہ ایک معصوم شخص کی نوکری بھی چھین لی۔ مہوش خان نے کہا کہ "اسلام آباد پولیس نے قسم کھا لی ہے کہ ہم نے ٹھیک ہونا ہی نہیں۔" قبل ازیں، اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ پولیس اہلکار اور پیٹرول پمپ کے ملازم کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، جس کی مکمل انکوائری کی گئی۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ معاملہ صرف غلط فہمی کی وجہ سے پیش آیا تھا، اور سروس اسٹیشن کی انتظامیہ نے معافی مانگ لی تھی۔ پولیس کے مطابق، دونوں فریقین کے درمیان موقع پر ہی صلح ہو گئی تھی۔ تاہم، مہوش خان نے پولیس کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان حقیقت سے دور ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ پولیس کو اپنی غلطی تسلیم کرنی چاہیے اور معصوم شہریوں کو بے جا پریشانی سے بچانا چاہیے۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز وفاقی پولیس کے ایک کانسٹیبل کی بدمعاشی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس میں وہ ایک سروس اسٹیشن کے ملازم کو دھمکیاں دیتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکار نے اپنی موٹرسائیکل دھلوائی، لیکن اجرت ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ جب سروس اسٹیشن کے ملازم نے اسے روکا اور اپنی محنت کی مزدوری مانگی تو کانسٹیبل نے دھمکیاں دینی شروع کر دیں
قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے شرکت کرتے ہوئے صوبے کے سیکیورٹی چیلنجز اور قومی یکجہتی کے موضوعات پر اہم بات چیت کی۔ اس اجلاس کا اپوزیشن جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تھا، لیکن وزیراعلیٰ گنڈاپور نے نہ صرف شرکت کی بلکہ خطاب بھی کیا۔ ذرائع کے مطابق، وزیراعلیٰ نے اجلاس میں خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کو درپیش چیلنجز کے باوجود پولیس اور دیگر سیکیورٹی فورسز کا مورال بلند کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے پولیس کی تنخواہوں میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے عزم ظاہر کیا کہ صوبے کی فورسز کو مزید مضبوط کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ نے ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کے مسائل پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان اضلاع کو تاحال مکمل وسائل فراہم نہیں کیے گئے، جس کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت مسلسل وفاقی حکومت سے اس معاملے پر بات چیت کر رہی ہے، تاکہ قبائلی اضلاع کو ان کا حق دیا جا سکے۔ علی امین گنڈاپور نے افواجِ پاکستان کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف فوج نے خیبرپختونخوا میں بے پناہ کام کیا ہے اور قیامِ امن کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ ملک میں موجود باہمی بداعتمادی کو ختم کرنا ہوگا اور ایک دوسرے پر بھروسہ بڑھانا ہوگا۔ ذرائع کے مطابق، وزیراعلیٰ نے کسی کا نام لیے بغیر سیاسی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قومی یکجہتی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تمام سیاسی قوتیں مل کر کام کریں، تاکہ ملک کی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔ وزیراعلیٰ کے اس خطاب نے اجلاس میں صوبائی اور قومی سطح پر سلامتی کے مسائل کو اجاگر کیا، جب کہ انہوں نے قومی یکجہتی اور باہمی اعتماد کو مضبوط بنانے کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت صوبے کے سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہے، جب کہ وہ وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت نے صوبائی پولیس کو دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائیوں کے لیے جدید ہتھیاروں اور آلات سے لیس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے فوری طور پر ساڑھے 5 ارب روپے کے فنڈز جاری کر دیے گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق، پولیس کی گاڑیوں کی بلٹ پروفنگ اور دیگر جدید آلات کی خریداری کے لیے 3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، تمام اضلاع کی سطح پر جدید آلات سے لیس اسپیشل ویپن اینڈ ٹیکنیکل ٹیمیں تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جبکہ تھانوں اور چیک پوسٹوں کو محفوظ بنانے کے لیے 1.3 ارب روپے فراہم کیے گئے ہیں۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت تھانوں اور چیک پوسٹوں کی تعمیر کے باقی ماندہ منصوبوں کے لیے 50 کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں۔ نیز، پولیس اہلکاروں کو نائٹ ویژن گوگلز، اسنائپرز اور دیگر جدید آلات فراہم کرنے کے لیے 72 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، خیبرپختونخوا حکومت نے پولیس افسران اور اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافے کا بھی اصولی فیصلہ کیا ہے۔ پولیس افسران کی تنخواہیں بلوچستان پولیس کے برابر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جبکہ پولیس اہلکاروں کی تنخواہیں پنجاب پولیس کے اہلکاروں کے مساوی کی جائیں گی۔ یہ اقدامات صوبے میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کو مزید مؤثر بنانے اور پولیس اہلکاروں کی کارکردگی کو بہتر کرنے کے لیے اٹھائے گئے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ جدید آلات اور بہتر تنخواہوں سے پولیس کی کارکردگی میں اضافہ ہوگا، جس سے صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے یہ فیصلے صوبائی پولیس کو جدید تقاضوں کے مطابق تیار کرنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے اہم ہیں۔
بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد جامعہ بلوچستان کی انتظامیہ نے یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رجسٹرار جامعہ بلوچستان کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق، یونیورسٹی کے تمام کیمپسز میں تعلیمی سرگرمیاں آن لائن منتقل کی جائیں گی۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ جامعہ بلوچستان کے ڈائریکٹوریٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کو تمام ڈیٹا آن لائن منتقل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، ڈین اور ڈائریکٹرز کو ہفتہ وار کارکردگی رپورٹس رجسٹرار آفس جمع کروانے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ تاہم، یونیورسٹی کے عملے کو معمول کے مطابق اپنے دفاتر میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں متعدد مسافروں کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ فورسز نے 36 گھنٹے تک جاری رہنے والے آپریشن کے بعد یرغمال مسافروں کو بازیاب کروایا اور تمام دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ تاہم، آپریشن شروع ہونے سے قبل دہشت گردوں نے کئی مسافروں اور ٹرین میں سوار سرکاری اہلکاروں کو شہید کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد وفاقی حکومت نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کوئٹہ کا دورہ کیا اور واضح کیا کہ بلوچستان سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے صوبوں سے وسائل نہیں لیے جائیں گے، بلکہ فورسز کو ہر قسم کے وسائل فراہم کیے جائیں گے۔ جامعہ بلوچستان کے بند ہونے کا فیصلہ ایک احتیاطی اقدام کے طور پر کیا گیا ہے، تاکہ طلبہ اور اساتذہ کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔ انتظامیہ کی جانب سے آن لائن تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے، جبکہ عملے کو دفاتر میں معمول کے مطابق کام جاری رکھنے کو کہا گیا ہے۔ اس واقعے کے بعد ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے، جبکہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے فوری اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ہونے والے ٹیکس، ڈیوٹیز اور دیگر اخراجات کا انکشاف ہوا ہے، جس کے مطابق شہریوں کو فی لیٹر پیٹرول پر 107 روپے 12 پیسے جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 104 روپے 59 پیسے کی ادائیگی کرنی پڑ رہی ہے۔ یہ معلومات سرکاری دستاویزات سے حاصل کی گئی ہیں، جن کے مطابق پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ٹیکس، ڈیوٹیز، ڈیلرز کا کمیشن اور کمپنیوں کے مارجن شامل ہیں۔ تفصیلات کے مطابق، پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 70 روپے فی لیٹر لیوی عائد کی گئی ہے، جو ملکی تاریخ میں پیٹرولیم مصنوعات پر سب سے زیادہ لیوی ہے۔ اس کے علاوہ، پیٹرول پر 15 روپے 28 پیسے فی لیٹر کسٹمز ڈیوٹی جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 15 روپے 78 پیسے فی لیٹر کسٹمز ڈیوٹی وصول کی جا رہی ہے۔ ڈیلرز کا کمیشن بھی قیمتوں میں شامل ہے، جس کے تحت پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 8 روپے 64 پیسے فی لیٹر وصول کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا مارجن پیٹرول اور ڈیزل پر 7 روپے 87 پیسے فی لیٹر مقرر کیا گیا ہے۔ پیٹرول پر 5 روپے 33 پیسے فی لیٹر ان لینڈ فریٹ ایکولائزیشن مارجن (ای ایف ای ایم) جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل پر 2 روپے 30 پیسے فی لیٹر ای ایف ای ایم شامل ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق، اس وقت پیٹرول اور ڈیزل پر سیلز ٹیکس نہیں لگایا جا رہا، لیکن دیگر اخراجات کی وجہ سے شہریوں کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ پیٹرول کی ایکس ریفائنری قیمت 148 روپے 51 پیسے فی لیٹر ہے، لیکن شہریوں کے لیے اس کی قیمت 255 روپے 63 پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے۔ اسی طرح، ہائی اسپیڈ ڈیزل کی ایکس ریفائنری قیمت 154 روپے 06 پیسے فی لیٹر ہے، جبکہ شہریوں کے لیے اس کی قیمت 258 روپے 64 پیسے فی لیٹر ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی قیمتیں شہریوں کے لیے مالی دباؤ کا باعث بن رہی ہیں، جس سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ عوام کی جانب سے حکومت پر ٹیکس اور ڈیوٹیز میں کمی کا مطالبہ بڑھتا جا رہا ہے، تاکہ عام آدمی کو ریلیف فراہم کیا جا سکے۔
سپریم کورٹ نے والد کی جگہ بیٹی کو نوکری کے لیے اہل قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ خواتین کی شادی کا ان کی معاشی خودمختاری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل، نے ایک سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد ان کی بیٹی کو نوکری سے محروم کرنے کے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے بیٹی کو نوکری کے لیے اہل قرار دیتے ہوئے درخواست گزار زاہدہ پروین کی درخواست منظور کر دی اور کیس کا تصفیہ کر دیا۔ سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کی شادی کا ان کی معاشی خودمختاری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر شادی کے بعد بیٹا اپنے والد کا جانشین بن سکتا ہے تو بیٹی کیوں نہیں بن سکتی؟ ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے عدالت کو بتایا کہ سابق چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے کے مطابق، سرکاری ملازم کے بچوں کو ترجیحی بنیادوں پر نوکریاں نہیں دی جا سکتیں۔ تاہم، جسٹس منصور علی شاہ نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ 2024 کا ہے، جب کہ موجودہ کیس اس سے پہلے کا ہے، لہٰذا اس فیصلے کا اطلاق ماضی کے معاملات پر نہیں ہوگا۔ انہوں نے سوال کیا کہ خاتون کو نوکری سے کیوں محروم کیا گیا؟ ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے کہا کہ درخواست گزار خاتون کی شادی ہو چکی ہے، اس لیے وہ والد کی جگہ نوکری کی اہل نہیں ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے پوچھا کہ کس قانون میں لکھا ہے کہ شادی شدہ بیٹی اپنے والد کی جگہ نوکری کی اہل نہیں ہو سکتی؟ انہوں نے کہا کہ خواتین کی معاشی خودمختاری اور اس معاملے سے متعلق تفصیلی فیصلہ بعد میں دیا جائے گا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ خواتین کی شادی ان کی معاشی خودمختاری کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے اور بیٹیوں کو بھی بیٹوں کی طرح والد کی جگہ نوکری کے لیے اہل سمجھا جانا چاہیے۔
رکن قومی اسمبلی اور ایم کیو ایم کے رہنما محمد اقبال خان کو پارٹی کی جانب سے اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔ یہ نوٹس انہیں گورنر سندھ کامران ٹیسوری پر تنقید کرنے پر دیا گیا ہے۔ نوٹس میں محمد اقبال خان کو 24 مارچ تک بہادرآباد میں پیش ہو کر جواب دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اگر وہ پیش نہ ہوئے تو پارٹی کے قوانین کے مطابق ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ محمد اقبال خان محسود ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی ہیں اور این اے 235 کراچی ایسٹ ون کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اقبال محسود 8 فروری کا الیکشن تحریک انصاف کے سیف الرحمان سے بری طرح ہار گئے تھے مگر اچانک انہیں بھی فارم 47 پر جتوادیا گیا۔ ہفتہ کی شب ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ اگر محمد اقبال خان اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے پیش نہ ہوئے تو پارٹی کے آئین اور قوانین کے تحت ان کے خلاف مناسب کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
اسلام آباد میں وفاقی پولیس کے ایک کانسٹیبل کی بدمعاشی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی ہے، جس میں وہ ایک سروس اسٹیشن کے ملازم کو دھمکیاں دیتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکار نے اپنی موٹرسائیکل دھلوائی، لیکن اجرت ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ جب سروس اسٹیشن کے ملازم نے اسے روکا اور اپنی محنت کی مزدوری مانگی تو کانسٹیبل نے دھمکیاں دینی شروع کر دیں۔ رپورٹ کے مطابق، پولیس کانسٹیبل نے اپنی موٹرسائیکل دھلوائی کے بعد سروس اسٹیشن کے ملازم کو اجرت ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ جب ملازم نے اپنی محنت کی مزدوری مانگی تو کانسٹیبل نے غصے میں آ کر ملازم کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ ویڈیو میں کانسٹیبل کا رویہ انتہائی جارحانہ اور غیر پیشہ ورانہ نظر آ رہا ہے۔ https://www.facebook.com/reel/1161064025155832 واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد عوام نے شدید غصے کا اظہار کیا ہے۔ صارفین نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس اہلکار کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس کا کام عوام کی خدمت اور حفاظت کرنا ہے، نہ کہ انہیں دھمکیاں دینا۔ ابھی تک پولیس حکام کی جانب سے اس واقعے پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔ عوام کی توقع ہے کہ پولیس انتظامیہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے گی اور ملوث کانسٹیبل کے خلاف مناسب کارروائی کرے گی۔ اسلام آباد میں وفاقی پولیس کے ایک کانسٹیبل کی بدمعاشی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ ویڈیو میں کانسٹیبل کو سروس اسٹیشن کے ملازم کو دھمکیاں دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ عوام کا مطالبہ ہے کہ پولیس انتظامیہ ملوث اہلکار کے خلاف فوری کارروائی کرے اور ایسے واقعات کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کرے۔
پاکستان کی افغانستان کو برآمدات میں فروری 2025 میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق، فروری میں افغانستان کے لیے پاکستانی برآمدات ماہانہ بنیاد پر 52 فیصد اور سالانہ بنیاد پر 30 فیصد گر گئیں۔ یہ کمی خاص طور پر چینی کی برآمدات میں رکاوٹوں، تجارتی مشکلات، اور افغانستان میں پاکستانی اشیا کی طلب میں کمی کی وجہ سے ہوئی ہے۔ - فروری 2025 میں افغانستان کے لیے پاکستانی برآمدات کا حجم 7 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز رہا۔ - یہ حجم جنوری 2025 کے 15 کروڑ 20 لاکھ ڈالرز اور فروری 2024 کے 10 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز کے مقابلے میں نمایاں کمی ہے۔ - فروری 2025 میں چینی کی برآمدات ایک لاکھ ڈالرز سے بھی کم رہیں، جو گزشتہ ماہ کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ - رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ (جولائی 2024 سے فروری 2025) میں افغانستان کے لیے پاکستانی برآمدات میں 45 فیصد کا اضافہ دیکھا گیا۔ - اس مدت میں افغانستان کے لیے برآمدات کا کل حجم 97 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز رہا، جو گزشتہ سال اسی مدت کے 67 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ - چینی کی برآمدات نے اس اضافے میں اہم کردار ادا کیا، جولائی 2024 سے فروری 2025 میں چینی کی برآمدات میں 4,333 فیصد اضافہ ہوا، اور اس کا حجم 26 کروڑ 28 لاکھ ڈالرز تک پہنچ گیا۔ برآمدات میں کمی کی وجوہات چینی کی برآمدات میں رکاوٹ: فروری میں چینی کی برآمدات میں شدید کمی آئی، جو افغانستان کے لیے پاکستانی برآمدات میں کمی کی اہم وجہ ہے۔ تجارتی رکاوٹیں: پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی رکاوٹوں نے بھی برآمدات کو متاثر کیا ہے۔ طلب میں کمی: افغانستان میں پاکستانی اشیا کی طلب میں کمی بھی برآمدات میں گراوٹ کا باعث بنی ہے۔ فروری 2025 میں افغانستان کے لیے پاکستانی برآمدات میں نمایاں کمی دیکھی گئی، جو چینی کی برآمدات میں رکاوٹوں، تجارتی مشکلات، اور طلب میں کمی کی وجہ سے ہوئی۔ تاہم، رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں مجموعی طور پر افغانستان کے لیے برآمدات میں 45 فیصد کا اضافہ ہوا، جس میں چینی کی برآمدات نے اہم کردار ادا کیا۔ مستقبل میں تجارتی رکاوٹوں کو دور کرنے اور برآمدات کو مستحکم بنانے کے لیے حکومتی اقدامات کی ضرورت ہے۔
بلوچستان میں لیویز فورس کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) عبدالغفار مگسی نے صوبے میں دہشت گرد حملوں کے دوران غفلت یا بزدلی کا مظاہرہ کرنے والے اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ اعلان حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے تناظر میں کیا گیا ہے، جس میں لیویز فورس کے اہلکاروں کو مزید مستعد اور بہادر بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ غفلت یا بزدلی پر سخت کارروائی: ڈی جی لیویز فورس نے کہا کہ اگر کوئی اہلکار دہشت گردوں کے سامنے بزدلی دکھاتا ہے، اپنی ذمہ داری میں غفلت برتتا ہے، یا ہتھیار دہشت گردوں کے حوالے کرتا ہے، تو اس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ ملازمت کی دوبارہ درخواست منظور نہیں: ایسے اہلکاروں کی دوبارہ ملازمت کی درخواست کسی صورت منظور نہیں کی جائے گی۔ دہشت گردوں کا بہادری سے مقابلہ: ڈی جی لیویز فورس نے اہلکاروں کو دہشت گرد حملوں کا فوری اور بہادری سے جواب دینے کی ہدایت کی ہے۔ عوام کی حفاظت کا عزم: انہوں نے کہا کہ لیویز فورس عوام کی حفاظت کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائے گی۔ بلوچستان میں حالیہ ہفتوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جس میں لیویز فورس کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان واقعات کے بعد لیویز فورس کی جانب سے اہلکاروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور دہشت گردی کے خلاف مزید موثر اقدامات کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ ڈی جی لیویز فورس نے اہلکاروں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف ہر ممکن اقدامات کریں اور عوام کی حفاظت کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ لیویز فورس کے اہلکاروں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہادری اور مستعدی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ڈی جی لیویز فورس عبدالغفار مگسی نے بلوچستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں غفلت یا بزدلی دکھانے والے اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے اہلکاروں کو دہشت گردوں کا بہادری سے مقابلہ کرنے اور عوام کی حفاظت کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ یہ اقدامات لیویز فورس کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید موثر کردار ادا کرنے کے لیے اٹھائے گئے ہیں۔
کراچی میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے انٹیلی جنس وِنگ نے صدر کے علاقے میں ایک کارروائی کرتے ہوئے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے اہم کارندے خلیل الرحمن کو گرفتار کر لیا۔ سی ٹی ڈی حکام کے مطابق، ملزم کا تعلق نور ولی اللہ گروپ سے ہے، جو ٹی ٹی پی کا ایک ذیلی گروپ ہے۔ سی ٹی ڈی حکام کے مطابق، خلیل الرحمن نے کراچی کی ویڈیوز بنا کر افغانستان ارسال کی تھیں اور سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہوئے دھمکی دی تھی کہ "ہم کراچی آگئے ہیں"۔ ملزم نے افغانستان میں دہشت گردی کی تربیت بھی حاصل کی تھی اور وہ کراچی میں کالعدم تنظیم کی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ ملزم کو انٹیلی جنس، ٹیکنیکل بنیادوں اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے گرفتار کیا گیا۔ سی ٹی ڈی کے مطابق، خلیل الرحمن ڈیفنس کے علاقے میں الخوارج کے نعرے لکھنے (وال چاکنگ) میں بھی ملوث تھا۔ حکام کے مطابق، خلیل الرحمن نے گزشتہ سال دسمبر 2024 میں کالعدم تنظیم کے کمانڈر مصباح کے حکم پر قائد اعظم کے مزار اور کراچی کے مختلف علاقوں کی ویڈیوز بنائی تھیں۔ یہ ویڈیوز دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے والی تھیں۔ ملزم افغانستان سے تربیت لے کر کراچی آیا تھا اور مختلف ہوٹلوں میں کام کرتا رہا۔ بعد ازاں، اس نے ایک پرائیوٹ سکیورٹی کمپنی میں ملازمت اختیار کر لی اور ڈیفنس کے علاقے میں ایک بنگلے پر ڈیوٹی کرتا تھا۔ رات کے اوقات میں وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے حوالے سے دیواروں پر نعرے لکھتا تھا۔ سی ٹی ڈی کا کہنا ہے کہ خلیل الرحمن کی گرفتاری سے کراچی میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کو روکنے میں مدد ملے گی۔ ملزم کے خلاف تفتیش جاری ہے، اور سی ٹی ڈی اس بات کی کوشش کر رہی ہے کہ اس کے نیٹ ورک کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکے۔ سی ٹی ڈی نے کراچی میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے اہم کارندے خلیل الرحمن کو گرفتار کر لیا ہے۔ ملزم افغانستان سے تربیت یافتہ تھا اور کراچی میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ اس کی گرفتاری سے شہر میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کو کمزور کرنے میں مدد ملے گی۔ سی ٹی ڈی کی جانب سے تفتیش جاری ہے، اور ملزم کے خلاف مزید کارروائی کی تیاری کی جا رہی ہے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض احمد اور دیگر افراد کے خلاف فراڈ کے زیر تفتیش مقدمات میں بڑی کارروائی کرتے ہوئے کراچی، لاہور، تخت پڑی، نیو مری گولف سٹی اور اسلام آباد میں کثیر المنزلہ رہائشی و کمرشل جائیدادوں کو سر بمہر کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ، سیکڑوں بینک اکاؤنٹس منجمد اور درجنوں گاڑیاں ضبط کر لی گئی ہیں۔ نیب کے اعلامیے کے مطابق، ملک ریاض احمد اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کراچی، تخت پڑی، راولپنڈی اور نیو مری میں بحریہ ٹاؤن کے نام پر سرکاری و نجی زمینوں پر غیر قانونی قبضہ، بغیر اجازت ہاؤسنگ سوسائٹیاں قائم کرنے، اور عوام سے اربوں روپے کا فراڈ کرنے کے الزامات کے ساتھ ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ نیب نے ان ملزمان کے خلاف اسلام آباد اور کراچی کی احتساب عدالتوں میں متعدد ریفرنسز دائر کیے ہیں، اور عدالتوں نے تمام ملزمان کو طلب کیا ہے۔ نیب کے مطابق، ملک ریاض احمد، جو عدالتی مفرور کی حیثیت سے دبئی میں مقیم ہیں، نے حال ہی میں وہاں لگژری اپارٹمنٹس کی تعمیر کا نیا منصوبہ شروع کیا ہے۔ نیب کے پاس شواہد ہیں کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد اس منصوبے میں سرمایہ کاری کے لیے اپنی رقم دبئی منتقل کر رہے ہیں، جو منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتا ہے۔ نیب نے واضح کیا کہ اس منصوبے کے لیے پاکستان سے منتقل ہونے والے کسی بھی فنڈ کو منی لانڈرنگ تصور کیا جائے گا، اور ملوث عناصر کے خلاف بلا امتیاز قانونی کارروائی کی جائے گی۔ نیب نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ وہ بحریہ ٹاؤن کی جانب سے کسی بھی پرکشش لالچ سے گریز کریں اور اپنی محنت سے کمائی گئی بچت کی حفاظت کریں۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ نیب بحریہ ٹاؤن پاکستان کے خلاف بغیر کسی تاخیر یا دباؤ کے اپنی قانونی کارروائیاں جاری رکھے گا، تاکہ پاکستان کے شہریوں کے حقوق کا مکمل تحفظ کیا جا سکے۔ نیب نے دیگر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر مفرور ملزمان کو پاکستان واپس لانے کے لیے بھرپور کوششیں شروع کر رکھی ہیں، تاکہ ایسے افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔ نیب کی یہ کارروائی ملک ریاض احمد اور ان کے ساتھیوں کے خلاف فراڈ، غیر قانونی قبضہ، اور منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت کی گئی ہے۔ جائیدادوں کو سر بمہر کرنے، اکاؤنٹس منجمد کرنے، اور گاڑیاں ضبط کرنے کے علاوہ، نیب نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ وہ بحریہ ٹاؤن کے پرکشش لالچ سے بچیں۔ نیب کا کہنا ہے کہ وہ مفرور ملزمان کو پاکستان واپس لانے اور انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پرعزم ہے۔
اوباڑو میں رکن سندھ اسمبلی جام مہتاب حسین ڈہر پر حملے کے واقعے کے بعد پولیس نے ملزمان کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ پولیس کے مطابق، حملے میں ملوث ملزمان اپنے گھروں کو خالی کر کے فرار ہو گئے ہیں، لیکن پولیس نے ان کے گھروں کو آگ لگا کر مسمار کر دیا ہے۔ پولیس نے حملے کے بعد ملزمان کی گرفتاری کے لیے بھاری نفری کے ساتھ کارروائی شروع کی۔ پولیس کے مطابق، ملزمان کے گھروں کو تباہ کر دیا گیا ہے تاکہ وہ واپس نہ آ سکیں۔ پولیس کی بڑی تعداد ملزمان کے گھروں اور علاقے میں تعینات ہے تاکہ مزید کسی ناخوشگوار واقعے کو روکا جا سکے۔ گزشتہ روز رکن سندھ اسمبلی جام مہتاب حسین ڈہر کی گاڑی پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کا حملہ کیا تھا۔ حملے میں ایم پی اے جام مہتاب محفوظ رہے، لیکن ان کا ایک محافظ اور ڈرائیور جاں بحق ہو گئے، جبکہ دو دیگر افراد زخمی ہوئے۔ حملے میں جاں بحق ہونے والے محافظ ظفر ڈہر کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی۔ نماز جنازہ میں ایم پی اے جام مہتاب حسین ڈہر سمیت مقامی لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ نماز جنازہ کے بعد محافظ کو ان کے آبائی گاؤں میں سپرد خاک کیا گیا۔ نماز جنازہ کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایم پی اے جام مہتاب حسین ڈہر نے کہا کہ وہ اپنی زمینوں سے واپس گھر جا رہے تھے کہ راستے میں مسلح افراد نے قاتلانہ حملہ کیا۔ انہوں نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ واقعے کے بعد پولیس نے علاقے میں حفاظتی اقدامات کو سخت کر دیا ہے۔ پولیس نے حملے کے ملزمان کی تلاش شروع کر دی ہے اور علاقے میں بھاری نفری تعینات کی گئی ہے تاکہ مزید کسی ناخوشگوار واقعے کو روکا جا سکے۔ اوباڑو میں ایم پی اے جام مہتاب حسین ڈہر پر حملے کے بعد پولیس نے ملزمان کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔ حملے میں ایک محافظ اور ڈرائیور جاں بحق ہوئے ہیں، جبکہ دو افراد زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس نے ملزمان کے گھروں کو تباہ کر دیا ہے اور علاقے میں سیکیورٹی کے اقدامات کو سخت کر دیا ہے۔ ایم پی اے جام مہتاب نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈے کے معاملے میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 16 ارکان کو دوبارہ طلب کر لیا ہے۔ ان افراد کو 18 مارچ بروز منگل کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈے کے معاملے میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ جے آئی ٹی نے پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں سمیت 16 افراد کو دوبارہ طلب کیا ہے۔ ان افراد میں سید فردوس شمیم نقوی، محمد خالد خورشید خان، میاں محمد اسلم اقبال، محمد حماد اظہر، عون عباس، محمد شہباز شبیر، وقاص اکرم، تیمور سلیم خان، صبغت اللہ ورک، اظہر مشوانی، محمد نعمان افضل، جبران الیاس، سلمان رضا، زلفی بخاری، موسیٰ ورک، اور علی ملک شامل ہیں۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، رؤف حسن، اور شاہ فرمان جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔ تاہم، پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی بہن علیمہ خان 14 مارچ کو طلبی کے باوجود پیش نہیں ہوئی تھیں۔ اب جے آئی ٹی نے علیمہ خان کو بھی 19 مارچ کو پیش ہونے کا نوٹس جاری کر دیا ہے۔ جے آئی ٹی ان تمام افراد سے ریاست مخالف پروپیگنڈے کے حوالے سے تحقیقات کر رہی ہے۔ نوٹسز میں ان افراد کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی پوزیشن کی وضاحت کریں۔ تحقیقاتی ٹیم الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ 2016 کے سیکشن 30 کے تحت تشکیل دی گئی ہے اور انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) اسلام آباد کی سربراہی میں کام کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈے کے معاملے میں پی ٹی آئی کے 16 ارکان سمیت دیگر افراد سے تحقیقات کر رہی ہے۔ ان افراد کو 18 مارچ کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ علیمہ خان کو بھی 19 مارچ کو پیش ہونے کا نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ تحقیقات کا مقصد ریاست مخالف پروپیگنڈے میں ملوث افراد کو قانون کے شکنجے میں لانا ہے۔ یہ اقدامات وفاقی حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنے اور ریاست کے خلاف منفی مہم چلانے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔
صدر مملکت اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے پنجاب میں پارٹی کو متحرک کرنے کے لیے نئی تنظیم سازی کا فیصلہ کیا ہے، صدر زرداری نے لاہور کے دورے کے دوران پنجاب میں پی پی پی کی مقبولیت بڑھانے کے لیے نئے اقدامات کی ہدایات جاری کی ہیں۔ ذرائع کے مطابق، نئے پلان کے تحت پنجاب میں پی پی پی کی تنظیم کو مضبوط بنانے کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جائیں گے۔ ضلعی کمیٹیوں کا خاتمہ: بڑے شہروں میں ضلعی کمیٹیوں کے نظام کو ختم کر کے ٹاؤن کی سطح پر تنظیم سازی کی جائے گی۔ اس پلان کا آغاز لاہور سے کیا جائے گا۔ لاہور میں 9 ٹاؤنز اور ایک کنٹونمنٹ: لاہور کو 9 ٹاؤنز اور ایک کنٹونمنٹ میں تقسیم کیا جائے گا، اور ہر ٹاؤن میں پارٹی کی تنظیم کو مضبوط بنایا جائے گا۔ زیادہ عہدیداران کی نامزدگی: نئے پلان کے تحت زیادہ سے زیادہ پارٹی کارکنوں کو تنظیمی عہدوں پر نامزد کیا جائے گا، تاکہ پارٹی کو زیادہ فعال اور متحرک بنایا جا سکے۔ دیگر شہروں میں توسیع: لاہور میں نئے پلان کے کامیاب اطلاق کے بعد، دیگر بڑے شہروں میں بھی اسی فارمولے کو اپنایا جائے گا۔ پی پی پی کے ذرائع کے مطابق، نئے تنظیم سازی پلان کا مقصد پارٹی کو پنجاب میں زیادہ فعال اور مقبول بنانا ہے۔ قیادت کا خیال ہے کہ زیادہ عہدیداران کی نامزدگی سے پارٹی کارکنان میں جوش و خروش پیدا ہوگا اور وہ زیادہ متحرک ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق، عید کے بعد پنجاب میں پی پی پی کی رکنیت سازی مہم میں بھی تیزی لائی جائے گی۔ اس کا مقصد نئے کارکنوں کو پارٹی میں شامل کرنا اور موجودہ کارکنان کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کی ہدایات کے تحت پی پی پی پنجاب میں اپنی تنظیم کو نئے سرے سے متحرک کرنے کے لیے نئے اقدامات کر رہی ہے۔ لاہور میں ٹاؤن کی سطح پر تنظیم سازی، زیادہ عہدیداران کی نامزدگی، اور رکنیت سازی مہم کے ذریعے پارٹی کو پنجاب میں مضبوط بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ اقدامات پی پی پی کی مقبولیت بڑھانے اور آنے والے انتخابات میں بہتر کارکردگی دکھانے کے لیے اہم ہیں۔
سرگودھا: بزرگ شہری سے اے ٹی ایم کارڈ چھین کر لاکھوں کی رقم نکلوالی گئی سرگودھا کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن میں ایک 73 سالہ بزرگ شہری کو دھوکہ دہی کا نشانہ بنایا گیا، جہاں ایک شخص نے ان کا اے ٹی ایم کارڈ چھین کر اکاؤنٹ سے بھاری رقم نکلوالی۔ پولیس کے مطابق، متاثرہ بزرگ شہری کا کہنا ہے کہ ملزم پولیس کی وردی میں تھا اور اے ٹی ایم کارڈ لے کر چلا گیا۔ انہیں اس واردات کا علم 10 روز بعد ہوا، جب انہیں پتہ چلا کہ ان کے اکاؤنٹ سے 6 لاکھ 21 ہزار روپے نکال لیے گئے ہیں۔ پولیس نے بزرگ شہری کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا ہے اور ملزم کی تلاش کے لیے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ جلد ہی ملزم کو گرفتار کر کے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ دوسری جانب سرگودھا میکن چکن سنٹر بلاک 13 میں قتل کی واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آگئی گزشتہ روز واردات کے دوران نامعلوم موٹر سائیکل سوار ایک شخص کو قتل کرکے فرار ہوگئے
لاہور ہائی کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ جاری کرتے ہوئے طے کیا ہے کہ ریپ یا شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کی کفالت بائیولوجیکل والد کی ذمہ داری ہوگی۔ یہ فیصلہ جسٹس احمد ندیم ارشد نے محمد افضل کی درخواست پر جاری کیا، جس میں 5 سالہ بچی کے خرچے سے متعلق کیس کو دوبارہ ٹرائل کورٹ کو بھیج دیا گیا۔ عدالت نے ٹرائل کورٹ کو ہدایت دی ہے کہ وہ شواہد کی روشنی میں کیس کا ازسرِ نو جائزہ لے اور اگر خاتون ثابت کر دے کہ درخواست گزار ہی بچی کا بائیولوجیکل والد ہے، تو اسے بچی کے اخراجات ادا کرنے کا پابند کیا جائے۔ فیصلے میں عدالت نے واضح کیا کہ اگر کوئی شخص بچے کی پیدائش کا سبب بنتا ہے، تو وہی اس کے اخراجات کا بھی ذمہ دار ہوگا۔ بائیولوجیکل والد پر اخلاقی اور قانونی طور پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچے کی کفالت کرے، چاہے وہ بچہ شادی کے بغیر پیدا ہوا ہو۔ ریکارڈ کے مطابق، 2020 میں درخواست گزار محمد افضل پر الزام تھا کہ اس نے مریم نامی خاتون کے ساتھ مبینہ زیادتی کی، جس کے نتیجے میں ایک بچی کی پیدائش ہوئی۔ خاتون نے بچی کے اخراجات کے لیے عدالت میں دعویٰ دائر کیا، جبکہ درخواست گزار نے ٹرائل کورٹ میں مؤقف اپنایا کہ وہ اس بچی کا والد نہیں ہے، لہٰذا خرچے کی ذمہ داری بھی اس پر نہیں بنتی۔ ٹرائل کورٹ نے خاتون کے دعوے کو تسلیم کرتے ہوئے بچی کے لیے ماہانہ 3 ہزار روپے خرچہ مقرر کر دیا تھا، جس کے خلاف محمد افضل نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالت نے نشاندہی کی کہ "جائز" اور "بائیولوجیکل" بچے میں فرق ہے۔ جائز بچہ وہ ہوتا ہے جو قانونی شادی کے نتیجے میں پیدا ہو، جبکہ بائیولوجیکل بچہ کسی بھی صورت میں پیدا ہوسکتا ہے، چاہے وہ شادی کے ذریعے ہو یا بغیر شادی کے۔ قانونی طور پر، اگر کسی جائز بچے کے خرچے کا دعویٰ دائر کیا جائے تو مسلم قوانین کے مطابق ٹرائل کورٹ کو عبوری خرچہ مقرر کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اگر والد بچے کو تسلیم نہ کرے، تو پہلے اس کی ولدیت کا تعین ضروری ہوگا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ بچے کی ولدیت ثابت کرنا خاتون کی ذمہ داری ہوگی، اور اسلام میں اس کے لیے مختلف طریقہ کار موجود ہیں۔ اگر بچے کی قانونی حیثیت پر سوالات ہوں، تو عدالت کو خرچے کا فیصلہ کرنے سے پہلے یہ معاملہ واضح کرنا چاہیے۔ عدالت نے درخواست گزار کے اس مؤقف کو مسترد کر دیا کہ وہ کسی ناجائز بچے کی پرورش کا ذمہ دار نہیں ہے۔ فیصلے میں قرآنی آیات، احادیث، شریعت کورٹ کے فیصلے، اور ویسٹ پاکستان فیملی ایکٹ 1964 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان میں فیملی قوانین میں "جائز" یا "ناجائز" بچے کا ذکر نہیں کیا گیا، بلکہ بچے کے حقوق کو یقینی بنایا گیا ہے۔ عدالت نے نشاندہی کی کہ بنگلہ دیش میں ایسے بچوں کو قانونی حقوق دیے گئے ہیں، اور پاکستان میں بھی قانون کے تحت کسی بچے کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ فیملی عدالت کے دائرہ اختیار پر اعتراض درست نہیں، کیونکہ فوجداری قوانین کے تحت بھی ایسے معاملات میں مجسٹریٹ کو اختیار حاصل ہے۔
صحافی انصار عباسی نے دعویٰ کیا ہے کہ مریم نواز کی میرٹ کی سخت پالیسی کی وجہ سے پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں اختلافات ختم ہوگئے ہیں اسلام آباد: پنجاب کی بیوروکریسی میں سیاسی تقرریوں کے معاملے پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان پایا جانے والا اختلاف ختم ہو گیا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز کی میرٹ پر مبنی پالیسی اب دونوں جماعتوں کے درمیان کسی تنازعے کا سبب نہیں رہی۔ لاہور میں ہفتہ کو ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں بھی یہ مسئلہ زیر بحث نہیں آیا، جس میں دونوں جماعتوں نے اختلافات ختم کرنے پر اتفاق کیا۔ پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے تصدیق کی کہ اجلاس خوشگوار ماحول میں ہوا اور بیوروکریسی میں میرٹ پر تقرریوں کے حوالے سے ہم آہنگی پیدا ہو چکی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ بیوروکریسی میں تقرریاں اب نون لیگ یا پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں رہیں۔ مریم نواز نے بطور وزیر اعلیٰ عہدہ سنبھالتے ہی اعلان کیا تھا کہ سول بیوروکریسی، بشمول انتظامی اور پولیس محکمے، میں تمام تقرریاں سختی سے میرٹ پر ہوں گی اور کسی بھی جماعت کا سیاسی دباؤ قابل قبول نہیں ہوگا۔ ابتدا میں کچھ حلقوں میں یہ شبہ موجود تھا کہ آیا مریم نواز سیاسی دباؤ کا سامنا کر پائیں گی یا نہیں، لیکن انہوں نے اہم تقرریوں کو سیاست سے الگ رکھنے کے عزم پر سختی سے عمل کیا۔ پیپلز پارٹی کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے بعض رہنماؤں نے مطالبہ کیا تھا کہ ان کے حلقوں میں انتظامی اور پولیس افسران کی تعیناتی میں ان کی رائے شامل کی جائے۔ تاہم، مریم نواز نے واضح کر دیا کہ نون لیگ کے اپنے ارکان اسمبلی کو بھی سول سروس میں تقرریوں پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق، ابتدا میں اس پالیسی پر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے بعض رہنما ناخوش تھے، لیکن بعد میں اسے ایک ضروری اصلاحات کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ صوبائی حکومت نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو یقین دہانی کرائی کہ اگرچہ انہیں سیاسی بنیادوں پر تقرریوں میں کوئی حصہ نہیں دیا گیا، تاہم تعیناتی کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا اور اہل افسران کو ہی عہدے دیے جائیں گے۔ گزشتہ سال پنجاب کے چیف سیکریٹری زاہد زمان نے بتایا تھا کہ صوبے میں بیوروکریٹک تقرریاں اب مکمل طور پر غیرسیاسی بنیادوں پر کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے تصدیق کی تھی کہ تبادلوں اور تقرریوں کے سلسلے میں کسی بھی بیرونی دباؤ یا سفارش کو قبول نہیں کیا جاتا، چاہے وہ دباؤ نون لیگ کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے ہی کیوں نہ ہو۔ وزیراعلیٰ پنجاب خود نجی طور پر افسران کے انٹرویوز لیتی ہیں اور اہم عہدوں کے لیے ان کا انتخاب کرتی ہیں، خواہ وہ فیلڈ ایڈمنسٹریشن ہو یا صوبائی سیکریٹریٹ۔ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ ہر عہدے کے لیے تین موزوں امیدواروں کا پینل پیش کرتا ہے، اور مریم نواز انٹرویو اور سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر کسی ایک کو منتخب کرتی ہیں۔ چیف سیکریٹری کے مطابق، وہ افسران جو سیاسی ذرائع کے ذریعے تقرری حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی فائل کو سرخ سیاہی سے نشان زد کر دیا جاتا ہے اور انہیں متعلقہ عہدے پر تعینات نہیں کیا جاتا۔

Back
Top