خبریں

اسلام آباد: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کی پالیسی پر عملدرآمد کا سلسلہ جاری ہے، جس کے تحت آئندہ ہفتے 8 پاکستانی شہریوں کو خصوصی امریکی طیارے کے ذریعے پاکستان واپس بھیجا جائے گا۔ ڈان نیوز کے مطابق، امریکا میں پاکستانی سفارتخانے کے ذرائع نے بتایا کہ ان 8 پاکستانیوں میں سے صرف 2 کا مجرمانہ ریکارڈ موجود ہے، جبکہ باقی 6 شہریوں کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔ غیر قانونی طور پر امریکا میں مقیم رہنے والے ان شہریوں میں رحمان، سلیم، نواز، سلمان، عظیم، خان، اور خالد مسیح شامل ہیں۔ ان میں سے دو افراد کے ریپ اور منشیات سے متعلق مجرمانہ ریکارڈز ہیں، جبکہ باقی شہریوں کے بارے میں کوئی ایسی اطلاعات نہیں ہیں۔ ان شہریوں کو نور خان ایئربیس پر خصوصی امریکی طیارے کے ذریعے پہنچایا جائے گا۔ یہ اقدام امریکا کی غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کی پالیسی کا حصہ ہے، جس کے تحت گزشتہ ہفتے بھی 56 سالہ سید رضوری نامی پاکستانی شہری کو امریکا سے ملک بدر کیا گیا تھا۔ سید رضوری 2017 میں امریکا میں داخل ہوئے تھے اور وہ ڈیلاس شہر میں رہائش پذیر تھے۔ انہیں 31 جنوری کو گرفتار کیا گیا تھا، اور 25 فروری کو انہیں پاکستان واپس بھیج دیا گیا۔ امریکی خفیہ ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے ملک بدر کیے گئے پاکستانی شہری کی تصویر بھی شیئر کی تھی۔ امریکا کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کی یہ پالیسی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں شروع کی گئی تھی، جس کا مقصد غیر قانونی طور پر امریکا میں مقیم افراد کو ان کے آبائی ممالک واپس بھیجنا ہے۔ پاکستانی شہریوں کی ملک بدری کا یہ سلسلہ جاری ہے، اور آئندہ ہفتے مزید 8 پاکستانی شہریوں کی واپسی متوقع ہے۔ حکومت پاکستان نے ان شہریوں کی واپسی کے لیے تمام ضروری انتظامات کر لیے ہیں، اور انہیں ملک واپس آنے پر قانونی اور انتظامی معاونت فراہم کی جائے گی۔ اس عمل کے تحت، غیر قانونی تارکین وطن کو ان کے آبائی ممالک واپس بھیجنے کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق اور تحفظ کو یقینی بنانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ تکنیکی مذاکرات کے اختتام پر پاکستانی حکومت نے اضافی ٹیکس اقدامات تجویز کرنے کے بجائے قانونی اور انتظامی ذرائع سے اضافی محصولات کی وصولی کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، حکومت نے بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے متضاد موقف اختیار کیا ہے، جس میں بجلی پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) میں کمی کے ساتھ ساتھ بجلی کے بلوں پر اضافی مالیاتی سرچارج کی منظوری کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ پالیسی سطح کے باضابطہ مذاکرات 10 مارچ سے شروع ہوں گے، جہاں آئی ایم ایف مشن، ناتھن پورٹر کی سربراہی میں، آمدنی بڑھانے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرے گا۔ ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف کے عملے نے بجلی پر جنرل سیلز ٹیکس ختم کرنے یا کم کرنے کی حکومتی تجویز کی یکسر مخالفت کی ہے۔ تاہم، حکومت نے بجلی کے شعبے کے گردشی قرضوں کے ایک حصے کی ادائیگی کے لیے اگلے 5 سالوں کے دوران بجلی کے بلوں پر 2 روپے 83 پیسے فی یونٹ اضافی مالیاتی سرچارج عائد کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ اس تجویز کا مقصد بجلی کے شعبے کے 12 کھرب روپے کے قرضے کی ادائیگی کے لیے فنڈز جمع کرنا ہے۔ آئی ایم ایف نے اس تجویز کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ یہ اقدام دراصل بجلی کی قیمتوں میں کمی کے وعدوں کے برعکس ہے، جس کے تحت حکومت اور بجلی کمپنیوں کی نااہلیوں سے پیدا ہونے والے خسارے کو پورا کرنے کے لیے صارفین پر اضافی مالی بوجھ ڈالا جائے گا۔ حکومت پہلے ہی گردشی قرضوں کی ایڈجسٹمنٹ کے لیے ماضی میں لیے گئے قرضوں پر تقریباً 1.47 روپے فی یونٹ فنانسنگ لاگت سرچارج وصول کر رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف نے سرمائی ٹیرف پیکج میں توسیع کی حکومتی درخواست بھی مسترد کر دی ہے، جس میں صنعتی اور کمرشل صارفین کو اضافی کھپت کے لیے سستی بجلی فراہم کی جانی تھی۔ اس کے علاوہ، حکومت نے آئی ایم ایف کو سولر نیٹ میٹرنگ ٹیرف کو 26 روپے فی یونٹ سے کم کر کے 10 روپے فی یونٹ کرنے کے منصوبے سے آگاہ کیا ہے۔ اس اقدام سے صارفین کے آف گرڈ حل کی طرف منتقل ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں، جس پر آئی ایم ایف نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، حکام کو فوری چیلنج کی توقع نہیں ہے، اور انہوں نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا ہے کہ اگر صورتحال تیزی سے تبدیل ہوئی تو وہ فعال طور پر جواب دیں گے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ جاری مذاکرات میں حکومت کا یہ فیصلہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے اور بجلی کے شعبے کے مسائل کو حل کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ تاہم، اس کے اثرات عام صارفین پر پڑنے کا خدشہ ہے، جو پہلے ہی مہنگائی اور بجلی کے بلوں کی بلند شرح سے پریشان ہیں۔
واشنگٹن: امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے شہریوں کو پاکستان کے سفر کے حوالے سے ایک نیا انتباہ جاری کیا ہے، جس میں انہیں بڑھتے ہوئے سلامتی کے خطرات کی وجہ سے پاکستان کا سفر کرنے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والی اس ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ امریکی شہری خاص طور پر بلوچستان، خیبر پختونخوا، اور سابق فاٹا کے علاقوں میں سفر کرنے سے پرہیز کریں، کیونکہ ان علاقوں میں دہشت گردی کا خطرہ موجود ہے۔ ایڈوائزری میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکی شہری آزاد کشمیر کے علاقے میں بھی سفر نہ کریں، کیونکہ وہاں دہشت گردی کے علاوہ مسلح جھڑپوں کا بھی خطرہ ہے۔ محکمہ خارجہ نے خبردار کیا ہے کہ پرتشدد انتہا پسند گروہ پاکستان، خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ انتباہ میں بتایا گیا ہے کہ دہشت گرد بغیر کسی انتباہ کے حملے کر سکتے ہیں، جن میں نقل و حمل کے مراکز، بازاروں، شاپنگ مالز، فوجی تنصیبات، ہوائی اڈوں، یونیورسٹیوں، سیاحتی مقامات، اسکولوں، اسپتالوں، عبادت گاہوں، اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ٹریول ایڈوائزری میں امریکی شہریوں کو مطلع کیا گیا ہے کہ 'پاکستان میں بغیر اجازت احتجاج یا مظاہرہ کرنا قانوناً منع ہے۔ اگر آپ کسی احتجاج کے قریب ہوں تو سیکیورٹی ادارے آپ پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ کچھ امریکی شہریوں کو احتجاج میں شامل ہونے یا سوشل میڈیا پر حکومت، فوج یا حکام پر تنقید کرنے والے مواد کی وجہ سے گرفتار کیا جا چکا ہے۔ احتجاج کے دوران انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند ہونا عام بات ہے۔ ملک کی سیکیورٹی صورتحال غیر یقینی ہے اور کسی بھی وقت بغیر اطلاع کے بدل سکتی ہے۔'۔ تاہم، ایڈوائزری میں یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ پاکستان کے بڑے شہروں، خاص طور پر اسلام آباد میں، سیکیورٹی وسائل اور انفراسٹرکچر زیادہ بہتر ہیں، اور ان علاقوں میں سیکیورٹی فورسز ایمرجنسی حالات میں دوسرے علاقوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ردعمل دے سکتی ہیں۔ پاکستان میں گرفتار یا زیر حراست لیے گئے دوہری شہریت رکھنے والے امریکی شہریوں کے لیے امریکی سفارت خانہ اور قونصل خانے محدود مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ پاکستانی قانون کے مطابق ایسے افراد کو صرف پاکستانی شہری ہی سمجھا جاتا ہے۔ یہ انتباہ اس وقت جاری کیا گیا ہے جب رپورٹس سامنے آئی ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ پاکستان اور افغانستان کے شہریوں کے لیے سفری پابندیوں کا ایک نیا منصوبہ زیر غور لائی ہے۔ اس منصوبے کے تحت، ان ممالک کے شہریوں کو امریکہ میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ یہ پابندی ملکوں کی سلامتی اور ممکنہ خطرات کا جائزہ لینے کے بعد لگائی جائے گی۔ اس ضمن میں، تقریباً 2 لاکھ افغان شہریوں کے معاملات زیر التواء ہیں، جنہیں امریکہ میں آبادکاری کے لیے منظور کیا گیا ہے یا جن کی پناہ گزینی اور خصوصی امیگرنٹ ویزا کی درخواستیں زیر التواء ہیں۔
کراچی: سٹی کورٹ کے معزز جج نے دعا زہرا اور ظہیر احمد کے نکاح نامہ کو جعلی قرار دینے کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر نکاح کو تنسیخ کرنا ہے تو اس کے لیے متعلقہ قانونی فورم استعمال کیا جائے۔ یہ فیصلہ دعا زہرا کے والد کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر سنایا گیا، جس میں نکاح نامہ کو جعلی قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ دعا زہرا کو کمسن ہونے کے باعث شیلٹر ہوم منتقل کیا گیا تھا، جہاں سے وہ بعد ازاں اپنے گھر واپس آ گئی تھیں۔ گزشتہ سال جولائی میں عدالت نے دعا زہرا کی عارضی تحویل (کسٹڈی) ان کے والدین کے حوالے کرتے ہوئے انہیں 2 لاکھ روپے کی ذاتی ضمانت جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ جب تک دعا زہرا بالغ نہیں ہو جاتیں، وہ اپنے والدین کے ساتھ رہیں گی، اور ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جائے گا۔ فیملی کورٹ نے والدین کو ہدایت کی تھی کہ وہ دعا زہرا کی تمام ضروریات، بشمول تعلیم اور خوراک، کا خیال رکھیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ جب بھی عدالت بچی کو طلب کرے، والدین کو اسے پیش کرنا ہوگا۔ عدالت کے مطابق، دعا زہرا نے خوشی سے اپنے والدین کے ساتھ رہنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ظہیر احمد یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ وہ دعا زہرا کے ساتھ اچھا سلوک کر رہے ہیں۔ ریکارڈ سے یہ بات واضح ہوئی کہ دعا زہرا کے والدین نے ہمیشہ بچی کو محفوظ رکھنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔ اس سے قبل سندھ ہائیکورٹ نے بھی دعا زہرا کی عارضی کسٹڈی والدین کے حوالے کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد دعا زہرا اور ظہیر احمد کا نکاح قانونی طور پر برقرار رہے گا، جب تک کہ اسے متعلقہ قانونی طریقہ کار کے تحت تنسیخ نہ کر دیا جائے۔ یہ کیس معاشرے میں کم عمری کی شادیوں اور ان کے قانونی پہلوؤں پر اہم سوالات اٹھاتا ہے، جس پر مزید بحث کی ضرورت ہے۔ دعا زہرا کا معاملہ گزشتہ کئی ماہ سے میڈیا اور عوامی حلقوں میں زیر بحث رہا ہے، اور عدالت کے اس فیصلے کے بعد اس کیس کے قانونی اور سماجی پہلوؤں پر مزید روشنی پڑنے کی توقع ہے۔
اسلام آباد: چین نے پاکستان کے ذمے واجب الادا 2 ارب ڈالر کے قرض کی ادائیگی کی مدت میں ایک سال کی توسیع کر دی ہے۔ وزارت خزانہ نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ چین کی جانب سے یہ فیصلہ پاک چین دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ یہ قرض، جس کی واپسی کی مدت 24 مارچ 2023 کو مکمل ہو رہی تھی، اب ایک سال کے لیے بڑھا دی گئی ہے۔ وزارت خزانہ کے ترجمان کے مطابق، چین کی یہ اقدام پاکستان کے مالیاتی دباؤ کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز چین کے سفیر جیانگ زیڈونگ نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک تعاون، خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت جاری منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان اور چین اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ چینی سفیر نے وزیراعظم کو پاک چین دوطرفہ تعاون کی تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ کیا اور کہا کہ چین پاکستان کی قومی ترقی کے لیے اپنی مکمل حمایت جاری رکھے گا۔ انہوں نے سی پیک کے تحت جاری منصوبوں کی اہمیت پر بھی زور دیا، جو دونوں ممالک کے درمیان معاشی اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے چین کی جانب سے قرض کی مدت میں توسیع پر تشکر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام پاک چین دوستی کی مضبوطی کی ایک اور مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے لیے پرعزم ہے، اور سی پیک کے تحت جاری منصوبوں کو تیز رفتار بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ چین کی جانب سے یہ فیصلہ پاکستان کے لیے ایک اہم ریلیف ہے، کیونکہ ملک اس وقت اقتصادی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ قرض کی مدت میں توسیع سے پاکستان کو اپنے مالیاتی امور کو بہتر طریقے سے منظم کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان باہمی اعتماد اور تعاون کو ظاہر کرتا ہے، جو کہ پاک چین دوستی کی ایک روشن مثال ہے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور، رانا ثناء اللّٰہ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی بار بار اسلام آباد پر چڑھائی کرتی ہے، اور پرویز خٹک اس چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ جیو نیوز کے پروگرام "آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ" میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ پرویز خٹک خیبرپختونخوا کی ایک اہم اور مؤثر شخصیت ہیں، اور ان کے کردار سے کے پی حکومت کی اسلام آباد کے حوالے سے چڑھائیوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سننے میں آ رہا ہے کہ عید کے بعد دوبارہ چڑھائی کی تیاری ہو رہی ہے، جس کے بجائے پی ٹی آئی کو اپنے کام پر دھیان دینا چاہیے۔ رانا ثناء اللّٰہ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ پرویز خٹک کا مشاورتی کردار خیبرپختونخوا کے حوالے سے مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے، اور ان کی تعیناتی میں وہ حکمت بھی ہو سکتی ہے جس کے باعث کچھ سوالات اٹھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیشہ کہا ہے کہ یہ اتحادی حکومت ہے اور کبھی بھی ن لیگ کی حکومت کا دعویٰ نہیں کیا گیا، جب کہ پیپلز پارٹی ہر مشاورت میں شامل رہتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے سو دن بعد کابینہ میں اضافے کا عندیہ بھی دیا تھا۔ امریکی صدر کے پاکستان کے بارے میں بیان پر رانا ثناء اللّٰہ نے کہا کہ ٹرمپ کے بارے میں جو باتیں کی جا رہی ہیں کہ یہ ہوگا وہ ہوگا، ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کا کچھ پتہ نہیں چلتا، وہ کل کچھ اور بھی کہہ سکتے ہیں۔ رانا ثناء اللّٰہ نے یہ بھی کہا کہ حکومت کا اعتماد معیشت کی بہتری کی وجہ سے ہے، اور اڈیالہ جیل میں موجود فرد کے ساتھ معاملات کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔ ایک اور شو میں رانا ثناء اللہ نے کہا کہ "جن سینیٹرز کو گرفتار کیا گیا ہے، انہیں سینٹ میں پیش کرنا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ اُس آفیسر کی ذمہ داری ہے جس کی تحویل میں وہ ہیں۔ جو پنجاب سے گرفتار ہوئے ہیں، وہ مریم نواز کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ پنجاب میں جس آفیسر نے انہیں گرفتار کر کے اپنی تحویل میں رکھا ہوا ہے، اُسکی ذمہ داری ہے" ۔ یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت کے وزیر دفاع پرویز خٹک کو وزیراعظم شہباز شریف نے مشیر داخلہ مقرر کر دیا ہے، اور نئے کابینہ ارکان کو وزارتوں کے قلمدان سونپے گئے ہیں۔ طارق فضل چوہدری کو پارلیمانی امور، حنیف عباسی کو ریلوے، علی وزیر ملک کو پیٹرولیم، اور مصطفیٰ کمال کو صحت کی وزارت دی گئی ہے۔ جبکہ چوہدری سالک حسین کی جگہ سردار محمد یوسف کو مذہبی امور کی وزارت سونپ دی گئی ہے۔
جیو کے پروگرام "رپورٹ کارڈ" میں میزبان علینہ فاروق شیخ کے سوال "سلمان اکرم راجہ یا سینیٹر کامران مرتضیٰ میں کس کا موقف درست ہے؟" کے جواب میں سیاسی تجزیہ کاروں نے مختلف زاویوں سے تجزیہ پیش کیا، جو ملکی سیاست کے موجودہ منظرنامے کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ارشاد بھٹی کا تجزیہ تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے پروگرام میں مولانا فضل الرحمٰن کے موقف پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کبھی بھی پی ٹی آئی کا سڑکوں پر ساتھ نہیں دیں گے۔ بھٹی نے مزید کہا کہ اگر عمران خان اقتدار میں واپس آتے ہیں تو مولانا فضل الرحمٰن ان کے ساتھ اقتدار شیئر کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مولانا کی سیاست میں اقتدار کے لئے لچک موجود ہے اور وہ اپنی جماعت کے مفاد میں کسی بھی حکومت کے ساتھ اتحاد بنانے سے گریز نہیں کریں گے۔ مظہر عباس کا تجزیہ تجزیہ کار مظہر عباس نے سیاسی اتحاد کی اہمیت پر بات کی اور کہا کہ اتحاد ہمیشہ کم از کم اختلافات پر ہوتا ہے۔ جب مختلف جماعتیں اتحاد بناتی ہیں تو وہ اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر مشترکہ مقصد کی طرف بڑھتی ہیں۔ مظہر عباس کے مطابق، یہ لگ رہا ہے کہ کچھ طاقتیں ایسے اتحاد بنوانا نہیں چاہتیں جو موجودہ سیاسی صورتحال کو تبدیل کرسکیں۔ اعزاز سید کا تجزیہ تجزیہ کار اعزاز سید نے موجودہ سیاسی اتحاد کو نئے انتخابات کی تیاری کے طور پر دیکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اتحاد دراصل موجودہ حکومت کو ختم کرنے اور نئے انتخابات کرانے کے لیے تشکیل دیا جا رہا ہے۔ اعزاز سید نے واضح کیا کہ اپوزیشن ایک مضبوط اتحاد بنا کر حکومت کے خلاف تحریک شروع کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ ملک میں سیاسی تبدیلی آ سکے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہر عورت کی آواز کو سنا جائے، اس کی قدر کی جائے اور اس کا احترام کیا جائے۔ یومِ خواتین کے موقع پر اپنے پیغام میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ صنفی مساوات انصاف اور جمہوریت کا بنیادی اصول ہے۔ مادرِ ملت فاطمہ جناح کی جدوجہد ایک روشن علامت ہے جو امید کی کرن ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بیگم نصرت بھٹو کی قربانیوں اور جرات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ بینظیر بھٹو شہید نے خواتین کے لیے قیادت کے نئے دروازے کھولے۔ انہوں نے مزید کہا کہ معاشرتی ترقی خواتین کے مساوی حقوق کے بغیر ممکن نہیں ہے، اور ہمیں ایک ایسا ماحول تشکیل دینا ہوگا جہاں خواتین خود کو محفوظ محسوس کریں۔
گزشتہ روز جنگ اخبار نے ایک خبر لگائی جس میں کہا گیا کہ اختیار ولی جو پرویز خٹک کو شکست دے کر قومی اسمبلی میں آئے ہیں۔ حالانکہ اس حلقے سے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ شاہ احد علی جیتے تھے۔ جنگ اخبار نے یہ دعویٰ ذرائع کے حوالے سے کیا کہ وزیراعظم سے ملاقات کے دوران اختیار ولی کا یہ بھی کہنا تھا کہ مجھے کابینہ میں شامل کیا جانا یا نہ کیا جانا تو الگ بات تھی لیکن جس امیدوار کو شکست دیکر میں ایوان میں آیا ہوں اس شکست خوردہ شخص کو کابینہ میں شامل کرنا صرف میری تضحیک کے مترادف نہیں بلکہ خود حکومت اور مسلم لیگ (ن) کیلئے بھی یہ فیصلہ قابل قبول نہیں ہونا چاہئے تھا۔ اختیار ولی کسی صورت الیکشن نہیں جیتے اور نہ ہی رنر اپ رہے ہیں۔ اختیار ولی نے اس حلقے سے الیکشن لڑا اور صرف 21 ہزار ووٹ لئے اور وہ چوتھے نمبر رہے ۔ تحریک انصاف کے سید احد ختک 93 ہزار ووٹ لیکر پہلے جبکہ پرویز خٹک 26 ہزار ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے، تیسرے نمبر پر اے این پی کے خان پرویز جبکہ چوتھے نمبر پر اختیار ولی رہے۔ یہ خبر ایک سینیر صحافی فاروق اقدس نے لگائی،اب یہ معلوم نہیں کہ یہ خبر انہوں نے اپنی طرف سے لگائی ہے یا اختیار ولی نے وزیراعظم شہبازشریف کو یہ کہہ کر گمراہ کیا ہے کہ وہ الیکشن جیتے ہیں۔
وفاقی اینٹی کرپشن عدالت نے چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کو ٹڈاپ کرپشن کیس میں تین مقدمات سے بری کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق، ٹڈاپ کرپشن کیس کی سماعت وفاقی اینٹی کرپشن کورٹ میں ہوئی، جہاں چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے ان کی جانب سے دائر کردہ بریت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں تین مقدمات میں الزامات سے بری کر دیا۔ یوسف رضا گیلانی کے وکیل، فاروق ایچ نائیک، نے اپنے دلائل عدالت میں جمع کروا دیے تھے۔ ان مقدمات میں ملزمان پر الزام تھا کہ انہوں نے فریٹ سبسڈی کے ذریعے قومی خزانے کو 6 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا۔ فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ جس شخص کو کیس میں وعدہ معاف گواہ بنایا گیا تھا، وہ اب خود ملزم ہے اور ملک سے فرار ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا، "میں ہمیشہ قانون کے مطابق چلا ہوں، اور مجھ پر مقدمات بنانے والے آج ہماری اتحادی حکومت کا حصہ ہیں۔ میں جو بھی کام کرتا ہوں، آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کرتا ہوں۔" مزید برآں، انہوں نے پارلیمانی حقوق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا، "میں نے ایک معزز رکن سینیٹ کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے تھے، کیونکہ یہ ان کا آئینی حق ہے کہ وہ سینیٹ اجلاس میں شرکت کریں۔ کل ایک اور معزز رکن سینیٹ کو گرفتار کیا گیا، لہٰذا انہیں بھی سینیٹ میں لایا جانا چاہیے۔" انہوں نے زور دیا کہ نہروں کے معاملات کو بھی میرٹ پر حل کیا جانا چاہیے۔
امریکی حکومت جلد ہی افغانستان اور پاکستان کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کر سکتی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے تین ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ نئی سفری پابندیاں امریکی حکومت کی جانب سے مختلف ممالک کے سلامتی اور جانچ کے خطرات کا جائزہ لینے کے بعد آئندہ ہفتے نافذ کی جا سکتی ہیں۔ روئٹرز کے مطابق، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک نئے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت افغانستان اور پاکستان کے شہریوں پر سفری پابندیاں عائد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جو اگلے ہفتے نافذ العمل ہو سکتی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دیگر ممالک بھی ممکنہ طور پر اس فہرست میں شامل کیے جا سکتے ہیں، تاہم ان ممالک کے نام فی الحال واضح نہیں ہیں۔ یہ اقدام ڈونلڈ ٹرمپ کی سابقہ حکومت کے دوران نافذ کی گئی اس پالیسی سے مشابہت رکھتا ہے جس کے تحت سات مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ یہ پالیسی 2018 میں امریکی سپریم کورٹ کی منظوری کے بعد نافذ العمل رہی، تاہم اس پر شدید تنقید بھی کی گئی تھی۔ یہ نیا فیصلہ صدر ٹرمپ کی پہلی مدت کی ان پالیسیوں کی یاد دلاتا ہے جن میں مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندیاں لگائی گئی تھیں۔ اس پالیسی کو مختلف مراحل میں قانونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر سپریم کورٹ نے اسے برقرار رکھا۔ تاہم، 2021 میں ڈیموکریٹ صدر جو بائیڈن نے اس حکم کو منسوخ کرتے ہوئے اسے امریکا کے قومی ضمیر پر ایک بدنما داغ قرار دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق، افغانستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے جن پر مکمل سفری پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح، پاکستان کا نام بھی ممکنہ طور پر اس فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ یہ فیصلہ خصوصی امیگرنٹ ویزا (SIV) ہولڈرز اور افغان مہاجرین کے لیے سنگین نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ ہزاروں افغان شہری، جو ماضی میں امریکا کے لیے خدمات انجام دے چکے ہیں اور طالبان کے انتقام کے خطرے سے دوچار ہیں، اس پابندی کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔
لاہور: پنجاب حکومت کی جانب سے فیروزپور روڈ پر بائیک لین کا تجرباتی منصوبہ ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس منصوبے کے تحت تین لین والی فیروزپور روڈ پر سبز نشانات کے ساتھ بائیک لین بنائی گئی تھی، لیکن سڑک پر تعمیر کردہ سخت ڈیوائیڈرز اور اینٹوں کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل اور حادثات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کی جانب سے سڑک کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے اینٹوں کا استعمال کیا گیا تھا، جس پر موٹرسائیکل سواروں اور دیگر ڈرائیوروں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایل ڈی اے کو سڑک کو تقسیم کرنے کے لیے اینٹوں کی بجائے "کیٹ آئیز" کا استعمال کرنا چاہیے تھا۔ شکایات اور رپورٹس کے مطابق، فیروزپور روڈ پر ٹریفک کا دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے، اور حادثات کی تعداد میں بھی 30 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ لاہور ٹریفک پولیس نے بھی ابتدا میں ہی اس منصوبے کے خلاف تحفظات کا اظہار کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ اینٹوں کے ڈیوائیڈرز ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ کا سبب بنیں گے۔ فیروزپور روڈ کے روزمرہ استعمال کرنے والے ڈرائیورز کا کہنا ہے کہ سڑک پہلے ہی تنگ ہے، اور رات کے وقت ٹرکوں اور دیگر بڑی گاڑیوں کی آمد کے باعث حادثات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک سرکاری ملازم ساجد نے بتایا کہ بائیک لین کے لیے بنائے گئے بلاکس نے باقی دو لینز کو ٹریفک کے لیے مزید تنگ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے گاڑیوں کی رفتار انتہائی کم ہو گئی ہے۔ ایک اور ڈرائیور ارشد نواز، جو اچھرہ میں کپڑوں کی دکان چلاتے ہیں، نے ایل ڈی اے کے انجینئرز کی صلاحیتوں پر سوال اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ روزانہ کہنہ سے اچھرہ تک سفر کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ڈیوائیڈرز کی وجہ سے حادثات کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اکثر پرانی گاڑیاں یا رکشے خراب ہو جاتے ہیں، اور انہیں سڑک کے کنارے کھڑا کر دیا جاتا ہے، جس سے ٹریفک کا بہاؤ مزید متاثر ہوتا ہے۔ ایک میڈیکل کالج کی طالبہ نے بتایا کہ فیروزپور روڈ پر گاڑیوں کے آپس میں ٹکرانے کے واقعات معمول بن گئے ہیں، جس کی وجہ سے ٹریفک کی بندش جیسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک رکشہ ڈرائیور نے بتایا کہ بائیک لین بننے کے بعد ارضا کریم ٹاور سے لاہور کینال تک جانے میں لگنے والا وقت 5-10 منٹ سے بڑھ کر 20-25 منٹ ہو گیا ہے۔ ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل طاہر فاروق نے تسلیم کیا کہ اینٹوں کے ڈیوائیڈرز کی وجہ سے ٹریفک میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ایک تجرباتی منصوبہ ہے، اور شکایات کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک تکنیکی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جو تجاویز پیش کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اینٹوں کے بلاکس کو ہٹایا جا سکتا ہے، اور ان کی جگہ "کیٹ آئیز" لگانے کا منصوبہ زیر غور ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ منصوبہ وزیراعلیٰ مریم نواز کا ویژن ہے، اور اسے کامیاب بنانے کے لیے تمام تر کوششیں کی جا رہی ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ اور معروف انسانی حقوق کی کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو 2025 کے امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کر دیا گیا ہے۔ وہ اس معزز ایوارڈ کے لیے 338 نامزد افراد میں شامل ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بلوچستان میں انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین کے حقوق اور سماجی انصاف کے لیے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ ان کی قیادت میں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے پسماندہ علاقوں میں تعلیم، صحت اور انصاف کے لیے بڑے پیمانے پر کام کیا ہے۔ ان کی کوششوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی توجہ حاصل کی ہے۔ سماجی حلقوں میں انہیں اس اعزاز کا مستحق قرار دیا جا رہا ہے۔ ان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے ملک میں انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے۔ نوبل انعام کی نامزدگی کے بعد ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ یہ اعزاز صرف ان کا نہیں، بلکہ ان تمام لوگوں کا ہے جو انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی کوششوں کو جاری رکھیں گی اور سماجی انصاف کے لیے اپنی جدوجہد کو مزید مضبوط کریں گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اس اعزاز کو جیتنے میں کامیاب ہوتی ہیں یا نہیں۔ تاہم، ان کی نامزدگی نے پاکستان کو عالمی سطح پر ایک مثبت پیغام دیا ہے کہ ملک میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کو سراہا جا رہا ہے۔ عوام کی توقع ہے کہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی کوششوں کو مزید تقویت ملے گی اور ان کی قیادت میں بلوچستان اور پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کو بھرپور حمایت حاصل ہوگی۔
انسٹیٹیوٹ آف اکنامکس اینڈ پیس (آئی ای پی) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 2024 میں دہشتگردی کے واقعات میں 45 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں دہشتگرد حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 1081 تک پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان عالمی دہشتگردی انڈیکس 2025 میں دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ملک میں تیزی سے بڑھنے والی سب سے خطرناک دہشتگرد تنظیم کے طور پر سامنے آئی ہے، جو 2024 میں پاکستان میں 52 فیصد ہلاکتوں کی ذمہ دار تھی۔ ٹی ٹی پی نے گزشتہ سال 482 حملے کیے، جن میں 558 افراد جاں بحق ہوئے، جو 2023 کے مقابلے میں 91 فیصد زیادہ ہے۔ 2023 میں پاکستان میں 517 دہشتگرد حملے رپورٹ ہوئے تھے، جو 2024 میں بڑھ کر 1099 تک جا پہنچے۔ دہشتگرد حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 1081 تک پہنچ گئی ہے، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد دہشتگردوں کو سرحد پار محفوظ پناہ گاہیں مل گئی ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشتگرد حملے تیزی سے بڑھے ہیں۔ بلوچ عسکریت پسند گروہوں کے حملے 2023 میں 116 تھے، جو 2024 میں بڑھ کر 504 ہو گئے۔ ان حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد بھی چار گنا بڑھ کر 388 ہو گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوچ عسکریت پسند گروہوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں، جس سے سیکیورٹی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف آپریشن عزمِ استحکام شروع کر رکھا ہے، جس کا مقصد شدت پسندوں کی سرگرمیوں کو روکنا اور سیکیورٹی کو مستحکم کرنا ہے۔ تاہم، دہشتگردی کے واقعات میں اضافے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس آپریشن کے باوجود صورتحال پر قابو پانے میں مشکلات درپیش ہیں۔ پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافے کی ایک بڑی وجہ افغان سرحد کے قریب دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد سے دہشتگردوں کو وہاں پناہ مل گئی ہے، جس سے پاکستان میں حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت پاکستان دہشتگردی کے خلاف اپنی کوششوں کو کس طرح تیز کرتی ہے اور کیا آپریشن عزمِ استحکام کے ذریعے صورتحال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ عوام کی توقع ہے کہ حکومت سیکیورٹی کے معاملات پر سنجیدگی سے کام کرے گی اور دہشتگردی کے خلاف موثر اقدامات کرے گی۔ اس صورتحال نے پاکستان کے لیے نئے چیلنجز کھڑے کر دیے ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے حکومت کو نہ صرف سیکیورٹی بلکہ معاشی اور سماجی سطح پر بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور سیکیورٹی ادارے مل کر اس بحران کو کس طرح کنٹرول کرتے ہیں۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے رواں مالی سال کے دوران پاکستان کے محصولات کی وصولی کے ہدف کو کم کرکے 12 ہزار 480 ارب روپے کرنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ یہ اصل ہدف 12 ہزار 970 ارب روپے سے 490 ارب روپے کم ہے۔ اس فیصلے کے پیچھے معاشی دباؤ اور محصولات کی وصولی میں مشکلات کو بنیادی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ تمباکو کی صنعت کے نمائندوں نے آئی ایم ایف کے جائزہ مشن پر زور دیا ہے کہ وہ سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) میں 25 فیصد کمی کرے اور تیسرا ٹیکس درجہ متعارف کرائے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ ایف ای ڈی میں تیزی سے اضافے سے ٹیکس ادا کرنے والے سگریٹ کی فروخت میں کمی آئی ہے، جس کے نتیجے میں غیر قانونی تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ تمباکو صنعت کے مطابق، ٹیکس وصولی 2021-22 میں 148 ارب روپے سے بڑھ کر 2023-24 میں 277 ارب روپے تک پہنچ گئی تھی۔ تاہم، جون 2025 تک یہ رقم کم ہو کر 243 ارب روپے اور 2026-27 تک مزید کم ہو کر 223 ارب روپے رہ جانے کا امکان ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے حکام نے خبردار کیا کہ اگر صنعت کی درخواست منظور کر لی گئی تو 50 ارب روپے کا ریونیو نقصان ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ٹیکس ادا کرنے والے سگریٹ کے حجم میں کمی کو اسموگ میں اضافے کی وجہ قرار دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے محصولات کے ہدف میں کمی کا فیصلہ پاکستان کی معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ ملک کو درپیش معاشی چیلنجز، جن میں مہنگائی، بیرونی قرضوں کا بوجھ، اور محصولات کی وصولی میں مشکلات شامل ہیں، نے حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں نرمی اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے۔ تمباکو صنعت کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ ایف ای ڈی میں اضافے کے باعث قانونی سگریٹ کی فروخت میں کمی آئی ہے، جس سے غیر قانونی تجارت کو فروغ ملا ہے۔ انہوں نے تیسرا ٹیکس درجہ متعارف کرانے کا مطالبہ کیا ہے، تاکہ مارکیٹ میں توازن بحال کیا جا سکے اور غیر قانونی تجارت کو کم کیا جا سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کی درخواستوں پر کس طرح ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ محصولات کی وصولی کو بہتر بنانے کے لیے موثر اقدامات کرے، تاکہ معاشی استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔ عوام کی توقع ہے کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے، اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔
کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن (کے ڈبلیو اینڈ ایس سی) نے دعویٰ کیا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی کی انتظامیہ پچھلے 6 سال سے پانی کا بل ادا نہیں کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں واجبات کی رقم 14 ارب 78 کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔ کے ڈبلیو اینڈ ایس سی کے مطابق، بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے سب سے بڑے نادہندہ ہیں۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے مطابق، بحریہ ٹاؤن انتظامیہ نے 2018 سے پانی کا بل ادا نہیں کیا ہے۔ اس کے علاوہ، بحریہ ٹاؤن سب سوائل لائسنس کے بغیر زیرزمین پانی نکال رہا ہے۔ 2018 میں بحریہ ٹاؤن کراچی میں کل 59 بورز کی نشاندہی کی گئی تھی، جن سے یومیہ تقریباً 1.77 ملین گیلن (7.43 ملین لیٹر) پانی نکالا جا رہا ہے۔ سندھ حکومت نے دسمبر 2018 میں منظور کردہ قانون اور نوٹیفکیشن کے تحت نکالے گئے پانی پر فی لیٹر ایک روپیہ فیس عائد کی تھی۔ تاہم، بحریہ ٹاؤن نے اس فیس کی ادائیگی نہیں کی، جس کے نتیجے میں واجبات کی رقم 14 ارب 78 کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن نے بل کی ادائیگی کے لیے بحریہ ٹاؤن کراچی کو نوٹس جاری کیا ہے۔ تاہم، ڈان نیوز کے متعدد بار رابطہ کرنے پر بھی بحریہ ٹاؤن انتظامیہ نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔ یہ معاملہ کراچی میں پانی کے بحران کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ زیرزمین پانی کے غیر قانونی استعمال اور بلوں کی عدم ادائیگی کے باعث شہر کے پانی کے وسائل پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن نے بحریہ ٹاؤن کے خلاف قانونی کارروائی کا بھی عندیہ دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن بحریہ ٹاؤن سے واجبات کی وصولی کے لیے کیا اقدامات کرتی ہے۔ عوام کی توقع ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں گے اور پانی کے وسائل کے تحفظ کے لیے موثر اقدامات کریں گے۔ اس معاملے نے کراچی کے رہائشیوں کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، کیونکہ زیرزمین پانی کے غیر قانونی استعمال سے شہر کے پانی کے ذخائر کم ہو رہے ہیں۔ اب حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو فوری طور پر حل کریں، تاکہ شہریوں کو پانی کی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلف نے انکشاف کیا ہے کہ 2021 میں کابل ایئرپورٹ حملے کے ماسٹر مائنڈ محمد شریف اللہ (جعفر) کو گرفتار کرنے کے لیے پاکستان سے مدد طلب کی گئی تھی۔ ریٹکلف نے فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے اپنے عہدے کا دوسرا دن ہی پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ سے رابطہ کیا تھا۔ ریٹکلف کے مطابق، انہوں نے پاکستانی حکام کو بتایا کہ اگر وہ امریکہ اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، تو انہیں کابل ایئرپورٹ حملے کے ماسٹر مائنڈ کو گرفتار کرنے کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے پاکستانی انٹیلیجنس کے ساتھ مل کر کام کیا، اور شریف اللہ کو جلد ہی گرفتار کر لیا گیا۔ ریٹکلف نے کہا کہ شریف اللہ کو اب امریکہ میں عدالت کا سامنا کرنا ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صدر ٹرمپ کی وجہ سے نہ صرف امریکہ کے اتحادی، بلکہ وہ ممالک جو مسائل پیدا کرتے رہے ہیں، وہ بھی امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادہ ہیں۔ واضح رہے کہ 26 اگست 2021 کو کابل ایئرپورٹ کے باہر ہونے والے خودکش حملے میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 170 سے زائد افغان شہری ہلاک ہوئے تھے۔ امریکی خبر رساں ادارے "ایگزیوس" کے مطابق، محمد شریف اللہ، جو "جعفر" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، داعش کے ایک اہم گروہ کا رہنما تھا اور اس پر الزام ہے کہ اس نے اس حملے کی منصوبہ بندی اور نگرانی کی تھی۔ امریکی خبر رساں ادارے نے دعویٰ کیا کہ پاکستان نے سی آئی اے کی فراہم کردہ معلومات پر کارروائی کرتے ہوئے شریف اللہ کو گرفتار کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے کانگریس سے خطاب میں پاکستان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ انکشافات اس وقت سامنے آئے ہیں جب پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اپنی کوششوں کو جاری رکھا ہے، اور اس معاملے میں امریکہ کے ساتھ تعاون کو بھی یقینی بنایا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ شریف اللہ کے خلاف امریکہ میں کیس کیسے آگے بڑھتا ہے، اور کیا پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں مزید بہتری آتی ہے۔ عوام کی توقع ہے کہ دونوں ممالک دہشتگردی کے خلاف مشترکہ کوششوں کو جاری رکھیں گے اور عالمی امن کو فروغ دیں گے۔
لاہور کے علاقے سبزہ زار میں ایک گھریلو ملازمہ نے اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ مل کر ایک کروڑ سے زائد مالیت کی چوری کی واردات کر ڈالی۔ یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا جب چوری کی گئی اشیا کی فوٹیج سامنے آئی، جس میں ملزمان کو جائے وقوعہ کے قریب لگے کیمروں میں سامان لے جاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ملازمہ اور اس کی دونوں بیٹیوں نے گھر سے 33 تولے سونا، 7 لاکھ نقدی، اور 15 ہزار سے زائد درہم چوری کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ پولیس نے واقعے کا مقدمہ درج کر لیا ہے اور تفتیش جاری ہے۔ پولیس حکام کے مطابق، ملزمان کی شناخت کے لیے فنگر پرنٹس اور دیگر شواہد کی مدد سے تفتیش کی جا رہی ہے۔ چوری کی گئی اشیا کی مالیت ایک کروڑ روپے سے زائد بتائی جا رہی ہے۔ فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ملازمہ اور اس کی بیٹیاں گھر سے سامان لے کر جا رہی ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان نے گھر کے اندرونی نظام کو استعمال کرتے ہوئے چوری کی واردات کی، اور انہیں ابتدائی طور پر پکڑنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ پولیس نے متاثرہ خاندان سے تفصیلی بیان لیا ہے اور چوری کی گئی اشیا کو بازیاب کرنے کے لیے سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کرنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ یہ واقعہ لاہور میں گھریلو ملازمین کے ذریعے چوری کے واقعات میں اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔ پولیس نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ گھریلو ملازمین کی مکمل بیک گراؤنڈ چیک کروائیں اور قیمتی اشیا کو محفوظ مقامات پر رکھیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پولیس ملزمان کو کب تک گرفتار کرتی ہے اور چوری کی گئی اشیا کو بازیاب کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ عوام کی توقع ہے کہ پولیس اس معاملے کو سنجیدگی سے لے گی اور ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی۔ اس واقعے نے لاہور کے رہائشیوں کو ہوشیار رہنے کی تلقین کی ہے، تاکہ وہ ایسے واقعات سے بچ سکیں۔ پولیس نے مزید کہا کہ وہ گھریلو ملازمین کے حوالے سے عوام کو آگاہی فراہم کرنے کے لیے مہم چلائے گی۔
سینیٹ کے اجلاس کے دوران سینیٹر عون عباس بپی کی گرفتاری پر اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے درمیان شدید تناؤ پیدا ہو گیا۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور سینیٹر منظور کاکڑ کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا، جس کے بعد پی ٹی آئی سینیٹرز نے احتجاجی واک آؤٹ کیا۔ اجلاس کا آغاز ہوتے ہی قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے عون عباس بپی کی گرفتاری پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ اس ایوان کے ایک اور رکن کو آج صبح ساڑھے 8 بجے اٹھا لیا گیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا عون عباس بپی کو اٹھانے سے قبل چیئرمین سینیٹ کو بتایا گیا تھا؟ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ عون عباس بپی کی گرفتاری ان کے لیے بھی ایک خبر تھی۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے عون عباس بپی کے خلاف چنکارہ ہرن کے شکار کا مقدمہ درج کیا ہے۔ شبلی فراز نے کہا کہ عون بپی کے گھر کے اندر سے گرفتاری کی ویڈیوز ہمارے پاس ہیں، اور ان کے گھر میں شدید توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد بھی انہیں نہیں لایا جا رہا۔ سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ عون عباس بپی ہمارے کولیگ ہیں، اور جب تک وہ ایوان میں نہیں آتے، کارروائی معطل کر دی جائے۔ ایوان کی کارروائی کے دوران ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر اور سینیٹر منظور کاکڑ کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ منظور کاکڑ نے کہا کہ ڈپٹی چیئرمین کو ہاتھ نیچے کر کے تمیز سے بات کرنی چاہیے، کیونکہ وہ بھی ایک سینیٹر ہیں۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے جواب دیا کہ منظور کاکڑ صاحب میٹھے آدمی ہیں، اور انہیں ٹھنڈے رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایوان کو کسی کے دباؤ میں آ کر نہیں چلایا جا سکتا۔ عون عباس بپی کی گرفتاری پر پی ٹی آئی سینیٹرز نے احتجاجی واک آؤٹ کیا اور ایوان سے چلے گئے۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر نے کہا کہ حکومتی اراکین جاکر اپوزیشن کو منائیں، اور کسی کے دباؤ میں آ کر اس ایوان کو نہیں چلایا جا سکتا۔ منظور کاکڑ نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ محسن عزیز کے بل پر اپوزیشن کے ووٹ زیادہ تھے، لیکن اس وقت قانون کی بات کیوں نہیں کی گئی؟ انہوں نے کہا کہ ہم خود حکومت میں ہیں، لیکن یہ مناسب نہیں کہ کسی بھی سینیٹر کو اٹھا لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ ہیں جن کے خلاف بڑے بڑے کیسز ہیں، لیکن وہ باہر گھوم رہے ہیں۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر نے کہا کہ ہم نے حلف اٹھایا ہے کہ اس ایوان کو قانون کے مطابق چلانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایوان کو کسی کے دباؤ کے تحت نہیں چلایا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بڑے بڑے نامی گرامی سیاستدان رہے ہیں، لیکن ماضی میں اپوزیشن کا رویہ اس طرح نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ عون عباس بپی کی طرح ہر سینیٹر کی عزت ہے۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے وزیر قانون سے کہا کہ وہ عون عباس بپی کی گرفتاری پر مفصل رپورٹ پیش کریں۔ اس واقعے نے سینیٹ میں شدید تناؤ پیدا کر دیا ہے، اور اب دونوں اطراف کے اراکین کی توجہ اس معاملے پر مرکوز ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن اس معاملے کو کس طرح نمٹاتی ہیں، اور کیا عون عباس بپی کی گرفتاری کے حوالے سے کوئی واضح وضاحت پیش کی جاتی ہے۔ اب تک کی صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ سینیٹ میں سیاسی کشیدگی جاری رہے گی، اور دونوں اطراف کے درمیان مزید بحث و مباحثے ہو سکتے ہیں۔
خضدار: نال ٹاؤن کے مرکزی بازار میں دھماکے سے پانچ افراد جاں بحق، دس زخمی خضدار: خضدار ضلع کے نال ٹاؤن کے مرکزی بازار میں بدھ کے روز ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں پانچ افراد جل کر جاں بحق ہوگئے جبکہ دس دیگر شدید زخمی ہوئے۔ پولیس کے مطابق دھماکا حکومتی حمایت یافتہ قبائلی سردار عبدالصمد سمالانی کی گاڑی کو نشانہ بنا کر کیا گیا۔ بازار میں نصب کیا گیا دھماکہ خیز مواد گاڑی کے گزرنے کے دوران ریموٹ کنٹرول سے فعال کیا گیا۔ سردار عبدالصمد سمالانی تو زخمی ہوئے لیکن ان کے تین ساتھی موقع پر ہی جل کر جاں بحق ہوگئے جب کہ دو بعد میں اسپتال میں زخمیوں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گئے۔ مقامی حکام کے مطابق دھماکا ایک ویلڈنگ کی دکان کے قریب ہوا تھا، جس کے بعد پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے فوراً جائے وقوعہ پر پہنچ کر علاقے کو گھیر لیا اور لاشوں اور زخمیوں کو خضدار ڈسٹرکٹ اسپتال منتقل کر دیا۔ "گاڑی میں سوار پانچ افراد جل کر زندہ دفن ہو گئے کیونکہ آگ تیزی سے پھیل گئی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ نال میونسپل کمیٹی میں فائر بریگیڈ یا ریسکیو ورکرز کی کوئی سہولت دستیاب نہیں تھی،" بہاول خان پولیس اسٹیشن کے ایک سینئر پولیس افسر نے کہا۔ خضدار کے ڈپٹی کمشنر یاسر دشتری نے تصدیق کی کہ اسپتال میں دو شدید زخمیوں کی موت ہو گئی جبکہ تین افراد گاڑی کی آگ میں موقع پر ہی جاں بحق ہوئے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دھماکے کی جگہ سے شواہد جمع کر لیے ہیں۔ "ہم دھماکے کی نوعیت کی تحقیقات کر رہے ہیں،" ایک سینئر پولیس افسر نے کہا۔ تاہم، ایک اور افسر نے تجویز کیا کہ یہ دھماکا ممکنہ طور پر ایک بم تھا، جس کا مقصد عبدالصمد سمالانی کو نشانہ بنانا تھا، جو اب زیر علاج ہیں۔ پانچ میں سے چار جاں بحق افراد کی شناخت منیر احمد سمالانی، عبد اللہ سرمستی، نادر خان گرگناری اور مسعود احمد کے طور پر ہوئی ہے۔ زخمیوں میں سالال، عرفان، عبدالصمد سمالانی، ارسلان، محمد اشرف، مہراللہ، عبدالرزاق قمبرانی، سعداللہ، ولید اور محمد رمضان شامل ہیں۔ سیکیورٹی فورسز مزید تحقیقات کر رہی ہیں اور ابھی تک کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

Back
Top