پاکستان میں صنفی بنیاد پر تشدد کی بڑھتی ہوئی شرح ایک خطرناک صورت حال کی عکاسی کرتی ہے۔ ساحل تنظیم، جو کہ خواتین اور بچوں کی حفاظت کے لیے کام کر رہی ہے، نے حالیہ رپورٹ پیش کی ہے جس میں 2024 کے دوران جنوری سے نومبر کا احاطہ کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ پاکستان بھر میں 4,112 کیسز مرتب کیے گئے، جن میں شامل ہیں: قتل، ریپ، خودکشی، اغوا، غیرت کے نام پر قتل اور دیگر تشدد کے واقعات۔ خاص طور پر، یہ تشویش کی بات ہے کہ خواتین ہر عمر میں ان مظالم کا شکار ہو رہی ہیں۔
یہ رپورٹ 81 مختلف اخباروں سے اکٹھا کردہ معلومات کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے اور اس میں ملک کے تمام صوبوں، اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ان کیسز میں 1,273 قتل، 799 اغوا، 579 تشدد، 533 ریپ اور 380 خودکشی کے واقعات شامل ہیں۔
متاثرہ افراد کی اکثریت نوجوان خواتین پر مشتمل ہے۔ اگرچہ 5 فی صد متاثرہ افراد کی عمر 18 سال سے کم تھی، مگر یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ نوجوان لڑکیاں مختلف اقسام کے استحصال کا شکار ہو رہی ہیں۔ سب سے زیادہ متاثرہ عمر کا گروپ 21 سے 30 سال کی خواتین ہیں جن کے 459 کیسز رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ نے مزید انکشاف کیا ہے کہ زیادتی کرنے والے افراد میں سے 33 فیصد جاننے والے تھے، 14 فیصد شوہر اور 10 فیصد اجنبی تھے۔ تاہم، کئی کیسز میں ملزم کی شناخت یا تو معلوم نہیں ہوسکی یا اسے رپورٹ نہیں کیا گیا، جس کی شرح 22 فیصد ہے۔
صوبوں کی بنیاد پر رپورٹ کردہ کیسز کی تقسیم بھی غیر متوازن ہے۔ سب سے زیادہ کیسز پنجاب میں 73 فیصد، سندھ میں 15 فیصد، خیبر پختونخوا میں 8 فیصد اور اسلام آباد، بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں 2 فیصد رپورٹ ہوئے۔
کچھ اضلاع میں صنفی بنیاد پر تشدد کے زیادہ کیسز بھی سامنے آئے ہیں۔ فیصل آباد پہلی پوزیشن پر ہے جہاں 766 کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ راولپنڈی میں 367، لاہور اور سیالکوٹ میں 269 کیسز سامنے آئے ہیں۔
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ سول سوسائٹی کی تنظیموں، حکومتی اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ خواتین کو تشدد سے محفوظ ماحول فراہم کیا جا سکے۔
رپورٹ کی سفارشات میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ خواتین کی حفاظت کے لیے مؤثر اقدامات کرے، نئے قوانین پاس کرے اور موجودہ قوانین کے نفاذ کو یقینی بنائے۔ دیہی علاقوں میں بھی تشدد کے کیسز کم نہیں، جہاں وسائل کی کمی اور قانونی مدد کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایسے معاملات اکثر نظر انداز رہتے ہیں۔
جبکہ دسمبر کے اعداد و شمار اس رپورٹ میں شامل نہیں کیے گئے، ابتدائی معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ دسمبر میں 554 مزید کیسز رپورٹ ہوئے، جو کہ صورتحال کی نازکی کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ اعداد و شمار نہ صرف حکومت بلکہ معاشرے کے ہر فرد کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے فوری طور پر صنفی بنیاد پر تشدد کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ ایک محفوظ اور معیاری زندگی گزارنے کا حق ہر خاتون کو حاصل ہو۔