jani1
Chief Minister (5k+ posts)
صبح کے اس پہر، ایسا کونسا پوسٹوں کا طوفان آرہا تھا کہ اس پوسٹ کا مرج کرنا ضروری ہوگیا۔ تھا۔۔
اب اگر اس موڈ کو بد دعا دوں کہ تو مری جائے اور تجھے وہاں بریانی کے نام پر سفید چاول ، روٹی کے نام پر ربڑ اور چائے کے نام پر کالا پانی نصیب ہو تو بری بات ہوگی۔۔
کیا شودہ گیر و نالاق قسم کا موڈ ہے جو مجھ سے اپنے دل میں چھپی بغض مٹاتا ہے اس گھنٹہ ڈیڑ کی خواری کے بعد لکھے گئے بے ضرر سے قصے پر۔۔
اب اگر اس موڈ کو بد دعا دوں کہ تو مری جائے اور تجھے وہاں بریانی کے نام پر سفید چاول ، روٹی کے نام پر ربڑ اور چائے کے نام پر کالا پانی نصیب ہو تو بری بات ہوگی۔۔
کیا شودہ گیر و نالاق قسم کا موڈ ہے جو مجھ سے اپنے دل میں چھپی بغض مٹاتا ہے اس گھنٹہ ڈیڑ کی خواری کے بعد لکھے گئے بے ضرر سے قصے پر۔۔
کیونکہ آپ مری مرنے نہیں بلکہ جینےکا مزہ لینے جاتے ہو، تو وہاں صرف تب جاو جب کسی جاننے والے کی اپنی جگہ ہو یا سرکاری مہمان بن کر۔ جیسے ہم گئے تھے۔
دوہزار انیس میں ہمارے ایک سرکاری افسر دوست کے ہمراہ جب کمراٹ جانے کا پروگرام بنایا، تو اس سے پہلے مری جانا ہوا،۔جہاں ہم نے ایک پُرآسائش سرکاری ریسٹ ہاوس میں دو دن گزارنے تھے۔۔گھر سے نکلے تو دوپہر سے پہلے تھے، مگر وہاں پہنچتے پہنچتے شام ہوگئی تھی۔۔ کیونکہ راستے بھر ہم نماز چائے و کھانے کے لیئے رکتے رہے۔ ۔ساتھ ہی ساتھ فوٹو گرافیاں بھی چلتی رہیں۔
وہاں پہنچ کر ریسٹ ہاوس کے خادم کو ڈنر کا آرڈر دیا، جسے یہ کہہ کر ہماری طرف موڑ دیا گیا کہ۔۔ چونکہ انہیں پیشگی اطلاع نہیں دی گئی تھی، اس لیئے کھانہ پہلے سے تیار نہیں کیا گیا، اور اب گیس کی تشریف آوری منقطع ہوگئی ہے، اس لیئے آپ کو باہر ہی کہیں چرنے جانا ہوگا۔۔ یا ہم باہر سے اٹھا کر لے آتے ہیں۔۔
اب یہ مری کی روایات کے مطابق اسکا بہانہ تھا یا سچ، اللہ ہی جانے۔۔ ہم نے اسکی پُرخلوص پیشکش کو ادب کے ساتھ مسترد کیا۔۔ بغیر اسے ڈانٹے۔۔۔۔اور باہر جانے کی خواہش ظاہر کی۔۔ یہ جگہ نواز شریف کے خوش نام یا بدنام زمانہ گھر کے پاس ہی تھی۔۔ جو جی پی او اور مری کے بازار سے اتنا دور بھی نہیں جب آپ گاڑی پر ہوں۔۔ دوسرا خود جانے کا یہ فائدہ بھی تھا کہ تھوڑا یا بہت مری کے رات کے بازار میں گھوم بھی لیں گے۔۔
وہاں پہنچ کر ایک کونے میں اپنی منی جیپ پھنسا کر کھڑی کی۔۔ اور پیدل ایک طرف کو نکل دیئے۔۔دوستوں نے تھوڑی سی شاپنگ بھی کی ، اور اسی شاپنگ کو وقت دینے کی وجہ سے جب ہماری توجہ ریسٹورنٹس کی جانب ہوئی تو ان میں اکثر بند ہوچکے تھے اور بعض بند ہونے کو تھے۔۔ خیر ۔۔ اللہ کا نام لے کر ایک ریسٹورنٹ میں گھس گئے۔۔ اور شاہانہ آرڈر کا خیال اگرچہ آیا تھا مگر ویٹر کی محدود قسم کی مینیو نے ہمیں محدود رہنے پر مجبور کیا۔۔ اور اس محدود آرڈر میں بھی جو بریانی اس نے لائی، اس نے ہمیں شرمندہ کردیا۔۔ کہ آج تک ہم جسے بریانی سمجھ رہے تھے وہ تو بس رنگین چاول تھے۔۔ انہوں نے بریانی کے نام پر سفید چاولوں کو چکن کے سالن میں مکس کرکے دیا ، اور کڑھائی کو دیکھ کر ہم سوچ میں پڑ گئے کہ اسے کھڑے ہوکر کھانا ہے یا بیٹھ کر۔ ۔ کہ کسی اینگل سے وہ کڑھائی نہیں لگ رہی تھی۔
جب کھانا کھا چکے اور جانے لگے تو ویٹر جو ٹیبل کی صفائی کی غرض سے آیا۔۔ ہمارے پیچھے رہ جانے والے دوست کو ہاتھ کے اشارے سے نکلنے کو کہا۔۔ جبکہ وہ اٹھنے ہی والا تھا۔۔ اس کی اس حرکت پر عام طور پر لوگ برا مناجاتے ہیں جبکہ ہم ہنس کر قیمت سے زیادہ بل دے کر باہر کو نکل گئے۔۔ کہ کس طرح کا جنگلی ہے۔۔ ۔۔واپس ریسٹ ہاوس پہنچے ۔۔ عشا کی نماز سے فارغ ہوئے تو تھوڑی دیر گپ شپ کو بیٹھ گئے۔۔ اور پھر الگ الگ شاہی انداز کے کمروں میں آرام کو چلے گئے۔۔
ہمارے پاس ابھی کل کا دن اور رات باقی تھے ، تو ہم نے اگلے روز نتھیا گلی اور ایوبیہ نکلنے کا پروگرام بنایا جو چند ہی گھنٹوں کے فاصلے پر تھا۔۔ اللہ بھلا کرے خادموں کا جنہوں نے اگلی صبح،اچھا سا ناشتہ تیار کر رکھا تھا۔۔ اور ہم نے جانے سے پہلے اس سے انصاف کیا۔۔ ایوبیہ و نتھیا گلی گھوم پھر کر جب شام کو واپس آئے تو خادم صاحب نے استقبال کیا بغیر بینڈ باجے کے۔۔ یعنی گیٹ کھولا۔ ۔ اور ہمیں نوید سنائی کہ کھانا تیار ہونے کو ہے۔۔
ہم کھانے و چائے وغیرہ سے فارغ ہوئے اور ایک اور دن خیریت سے نکلنے پر رب کا شکر کرکے سوگئے۔۔ ایک اور صبح آئی اچھا ناشتہ ہوا۔۔ ناشتے کے بعد ریسٹ ہاوس کی خوبصورت گھاس پر چہل قدمی ہوئی ۔۔ اور کافی دیر باہر بیٹھ کر ہلکی دھوپ لی۔۔ اور اوپر سے مری کے پہاڑوں کا نظارہ کرتے رہے۔۔۔ساتھ میں چائے کے دور بھی چلتے رہے۔
اس پرسکون دن کے ڈھلنے سے پہلے ہمیں نکلنا تھا۔۔ کیونکہ ہماری اگلی منزل تھی کمراٹ ۔ جو ہماری سپیڈ سے لگ بھگ پندرہ سے اٹھارہ گھنٹے کی دوری پر تھا۔۔ ریسٹ ہاوس سے نکلتے وقت خادم صاحب کو تھگڑا سا ٹپ دیا۔۔ جو اس نے آدھی مُسکُراہٹ کے ساتھ قبول کیا۔۔ شاید وہ اس سے زیادہ کا عادی تھا۔۔
جب جیب مری کی سڑکوں پر رواں دواں تھی تو ہمیں اور بہت سی چیزوں کے ساتھ ویٹر کے ہاتھ کا اشارہ اور اس خادم کی نیم مُسکُراہٹ مُسکُرانے پر مجبور کرتی رہی۔