پاکستان میں بچوں سے زیادتی اور ریپ میں اضافے کی اصل وجہ

Majid Sheikh

MPA (400+ posts)
ہمارے ہاں سوچنے سمجھنے کا زیادہ رجحان نہیں ہے، اس لئے جب بھی کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے اس کے فوری تدارک کے کیلئے ماردو، کاٹ دو، لٹکا دو جیسی صدائیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور کوئی بھی مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اب بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات زیادہ ہائی لائٹ ہونا شروع ہوئے ہیں تو سب نے مسئلے کا ایک ہی حل ڈھونڈا ہے کہ مجرم کو سرعام پھانسی پر لٹکادو، بس یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ کسی نے یہ غور کرنے کی کوشش نہیں کی کہ ہمارے ہاں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کیوں زیادہ ہیں، کیا وجہ ہے کہ زیادہ تر واقعات میں مولوی ہی ملوث ہوتے ہیں یا پھر زیادہ تر واقعات مدرسوں کے اندر پیش آتے ہیں۔

اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی جنسی گھٹن ہے۔ بھوک پیاس کی طرح جنسی فعل بھی انسان کی ضرورت ہے اور جب اسے اس ضرورت کو پورا کرنے سے روکا جاتا ہے، اسکے راستے میں بند باندھے جاتے ہیں، تو لامحالہ طور پر اس کے وہی نتائج نکلتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں نظر آرہے ہیں۔ ہمارے یہاں جنسی ضرورت کو شادی کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے، اور شادی کے بغیر جنسی تعلق کو گناہ اور بہت ہی برا کام سمجھا جاتا ہے۔ جنسی ضرورت کو شادی کے ساتھ منسلک کرنے کی وجہ سے بے شمار مسائل پیدا ہوئے ہیں، جن میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب تک کسی کی شادی نہیں ہوجاتی تب تک وہ کھل کر اپنی جنسی ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ مدرسوں میں یہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات اس لئے زیادہ ہیں کیونکہ مولوی کو سب سے زیادہ جنسی گھٹن کے ماحول میں رکھا جاتا ہے، کالجز اور یونیورسٹیز میں تو پھر لڑکے لڑکیاں آپس میں بات چیت کرلیتے ہیں، ایک ساتھ بیٹھ لیتے ہیں، مگر مدرسوں میں تو مولوی کو عورت کی جھلک تک نہیں دکھتی، اس لئے مدرسوں میں لڑکے آپس میں ہی لگے رہتے ہیں اور چھوٹے بچے اکثر بڑے بچوں کے مفعول کے طور پر استعمال ہوتے رہتے ہیں، میڈیا پر آنے والے کیسز تو بہت ہی کم ہیں، مدرسوں میں بچوں کے ساتھ زیادتی تو ایک روٹین کی چیز ہے۔۔

تیرہ چودہ سال کی عمر میں بالغ ہونے والے لڑکے اور لڑکی کو جب شادی کیلئے دس پندرہ سال انتظار کرنا پڑتا ہے تو اس دوران وہ اپنی جنسی ضرورت کیسے پوری کریں؟ اور قبل از وقت شادی ہوجائے تو اس سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں، کیونکہ شادی محض جنسی ضرورت پوری کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ بھرپور ذمے داری کا نام ہے۔ اگر پندرہ سولہ سال کی عمر میں لڑکے یا لڑکی کی شادی کردی جائے تو وہ اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دے پاتے، اپنا کیرئیر نہیں بناپاتے اور شادی کے مسائل میں الجھ کر اپنی زندگی تباہ کرلیتے ہیں اور نوعمری کی بیشتر شادیوں میں نوبت جلد ہی طلاق تک پہنچ جاتی ہے اور بسا اوقات ان کا ایک آدھ بچہ ہوچکا ہوتا ہے جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچے کی زندگی بھی تباہ ہوجاتی ہے۔۔

مغرب نے اس مسئلے کو سمجھ کر اس کا بہترین حل نکالا ہے کہ جنسی ضرورت کو شادی سے الگ کردیا ہے۔ شادی انسان تب کرے جب وہ پوری طرح معاشی، سماجی اور ذہنی طور پر خود کو اس پر تیار پائے۔ صرف جنسی ضرورت کیلئے شادی نہ کرے۔ اور جنسی ضرورت کیلئے شادی کو لازم و ملزوم سمجھنا ایک دقیانوسی اور فرسودہ سوچ ہے، ہمیں قدیم زمانوں کی اس بوسیدہ سوچ سے باہر آنا ہوگا۔ مغربی معاشروں کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ جنسی فرسٹریشن سے باہر آچکے ہیں، اور ذہنی طور پر ریلیکس ہیں، جب انسان کا ذہن ریلیکس ہوتا ہے تب ہی وہ کوئی تخلیقی کام کرسکتا ہے، ہمارے یہاں جنسی حدودوقیود اس قدر زیادہ ہیں کہ ہر کسی کے ذہن پر عورت اور سیکس کا خیال ہی سوار رہتا ہے اور نتیجے میں پورا معاشرہ سڑاند کا شکار ہوچکا ہے۔
 

TruthWillOut

Senator (1k+ posts)
to bhai ziada ter molvi jo ziadti ka shikaar bana rahe hen bachon ko wo shadi shuda kiun hen? Shadi shuda ho ker bhi jinsi ghutan ka shikar hen to inki bivion ko latkana chahiye.
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
می ٹو تحریک کھلے ڈلے مغرب ہی کی کہانی ہے. ریپ ہوتے ہیں
 

BrotherKantu

Chief Minister (5k+ posts)
ہمارے ہاں سوچنے سمجھنے کا زیادہ رجحان نہیں ہے، اس لئے جب بھی کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے اس کے فوری تدارک کے کیلئے ماردو، کاٹ دو، لٹکا دو جیسی صدائیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور کوئی بھی مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اب بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات زیادہ ہائی لائٹ ہونا شروع ہوئے ہیں تو سب نے مسئلے کا ایک ہی حل ڈھونڈا ہے کہ مجرم کو سرعام پھانسی پر لٹکادو، بس یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ کسی نے یہ غور کرنے کی کوشش نہیں کی کہ ہمارے ہاں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کیوں زیادہ ہیں، کیا وجہ ہے کہ زیادہ تر واقعات میں مولوی ہی ملوث ہوتے ہیں یا پھر زیادہ تر واقعات مدرسوں کے اندر پیش آتے ہیں۔

اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی جنسی گھٹن ہے۔ بھوک پیاس کی طرح جنسی فعل بھی انسان کی ضرورت ہے اور جب اسے اس ضرورت کو پورا کرنے سے روکا جاتا ہے، اسکے راستے میں بند باندھے جاتے ہیں، تو لامحالہ طور پر اس کے وہی نتائج نکلتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں نظر آرہے ہیں۔ ہمارے یہاں جنسی ضرورت کو شادی کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے، اور شادی کے بغیر جنسی تعلق کو گناہ اور بہت ہی برا کام سمجھا جاتا ہے۔ جنسی ضرورت کو شادی کے ساتھ منسلک کرنے کی وجہ سے بے شمار مسائل پیدا ہوئے ہیں، جن میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب تک کسی کی شادی نہیں ہوجاتی تب تک وہ کھل کر اپنی جنسی ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ مدرسوں میں یہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات اس لئے زیادہ ہیں کیونکہ مولوی کو سب سے زیادہ جنسی گھٹن کے ماحول میں رکھا جاتا ہے، کالجز اور یونیورسٹیز میں تو پھر لڑکے لڑکیاں آپس میں بات چیت کرلیتے ہیں، ایک ساتھ بیٹھ لیتے ہیں، مگر مدرسوں میں تو مولوی کو عورت کی جھلک تک نہیں دکھتی، اس لئے مدرسوں میں لڑکے آپس میں ہی لگے رہتے ہیں اور چھوٹے بچے اکثر بڑے بچوں کے مفعول کے طور پر استعمال ہوتے رہتے ہیں، میڈیا پر آنے والے کیسز تو بہت ہی کم ہیں، مدرسوں میں بچوں کے ساتھ زیادتی تو ایک روٹین کی چیز ہے۔۔

تیرہ چودہ سال کی عمر میں بالغ ہونے والے لڑکے اور لڑکی کو جب شادی کیلئے دس پندرہ سال انتظار کرنا پڑتا ہے تو اس دوران وہ اپنی جنسی ضرورت کیسے پوری کریں؟ اور قبل از وقت شادی ہوجائے تو اس سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں، کیونکہ شادی محض جنسی ضرورت پوری کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ بھرپور ذمے داری کا نام ہے۔ اگر پندرہ سولہ سال کی عمر میں لڑکے یا لڑکی کی شادی کردی جائے تو وہ اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دے پاتے، اپنا کیرئیر نہیں بناپاتے اور شادی کے مسائل میں الجھ کر اپنی زندگی تباہ کرلیتے ہیں اور نوعمری کی بیشتر شادیوں میں نوبت جلد ہی طلاق تک پہنچ جاتی ہے اور بسا اوقات ان کا ایک آدھ بچہ ہوچکا ہوتا ہے جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچے کی زندگی بھی تباہ ہوجاتی ہے۔۔

مغرب نے اس مسئلے کو سمجھ کر اس کا بہترین حل نکالا ہے کہ جنسی ضرورت کو شادی سے الگ کردیا ہے۔ شادی انسان تب کرے جب وہ پوری طرح معاشی، سماجی اور ذہنی طور پر خود کو اس پر تیار پائے۔ صرف جنسی ضرورت کیلئے شادی نہ کرے۔ اور جنسی ضرورت کیلئے شادی کو لازم و ملزوم سمجھنا ایک دقیانوسی اور فرسودہ سوچ ہے، ہمیں قدیم زمانوں کی اس بوسیدہ سوچ سے باہر آنا ہوگا۔ مغربی معاشروں کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ جنسی فرسٹریشن سے باہر آچکے ہیں، اور ذہنی طور پر ریلیکس ہیں، جب انسان کا ذہن ریلیکس ہوتا ہے تب ہی وہ کوئی تخلیقی کام کرسکتا ہے، ہمارے یہاں جنسی حدودوقیود اس قدر زیادہ ہیں کہ ہر کسی کے ذہن پر عورت اور سیکس کا خیال ہی سوار رہتا ہے اور نتیجے میں پورا معاشرہ سڑاند کا شکار ہوچکا ہے۔


آپ نے بہت مہنت سے لکھا ہے پر میری سمجھ کے مطابق قوم ویلی ہے۔
قوم کو کسی کام میں لگانا چاہیے تاکہ فضول سوچنے کا وقت نہ ہو۔
لوگوں کے پاس کوئی مشغلہ ہونا چاہیے تاکہ فالتو وقت صحت مند کام پر لگایا جاے۔
 

Tit4Tat

Minister (2k+ posts)
ہمارے ہاں سوچنے سمجھنے کا زیادہ رجحان نہیں ہے، اس لئے جب بھی کوئی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے اس کے فوری تدارک کے کیلئے ماردو، کاٹ دو، لٹکا دو جیسی صدائیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور کوئی بھی مسئلے کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اب بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات زیادہ ہائی لائٹ ہونا شروع ہوئے ہیں تو سب نے مسئلے کا ایک ہی حل ڈھونڈا ہے کہ مجرم کو سرعام پھانسی پر لٹکادو، بس یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ کسی نے یہ غور کرنے کی کوشش نہیں کی کہ ہمارے ہاں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کیوں زیادہ ہیں، کیا وجہ ہے کہ زیادہ تر واقعات میں مولوی ہی ملوث ہوتے ہیں یا پھر زیادہ تر واقعات مدرسوں کے اندر پیش آتے ہیں۔

اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی جنسی گھٹن ہے۔ بھوک پیاس کی طرح جنسی فعل بھی انسان کی ضرورت ہے اور جب اسے اس ضرورت کو پورا کرنے سے روکا جاتا ہے، اسکے راستے میں بند باندھے جاتے ہیں، تو لامحالہ طور پر اس کے وہی نتائج نکلتے ہیں جو ہمارے معاشرے میں نظر آرہے ہیں۔ ہمارے یہاں جنسی ضرورت کو شادی کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے، اور شادی کے بغیر جنسی تعلق کو گناہ اور بہت ہی برا کام سمجھا جاتا ہے۔ جنسی ضرورت کو شادی کے ساتھ منسلک کرنے کی وجہ سے بے شمار مسائل پیدا ہوئے ہیں، جن میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب تک کسی کی شادی نہیں ہوجاتی تب تک وہ کھل کر اپنی جنسی ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ مدرسوں میں یہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات اس لئے زیادہ ہیں کیونکہ مولوی کو سب سے زیادہ جنسی گھٹن کے ماحول میں رکھا جاتا ہے، کالجز اور یونیورسٹیز میں تو پھر لڑکے لڑکیاں آپس میں بات چیت کرلیتے ہیں، ایک ساتھ بیٹھ لیتے ہیں، مگر مدرسوں میں تو مولوی کو عورت کی جھلک تک نہیں دکھتی، اس لئے مدرسوں میں لڑکے آپس میں ہی لگے رہتے ہیں اور چھوٹے بچے اکثر بڑے بچوں کے مفعول کے طور پر استعمال ہوتے رہتے ہیں، میڈیا پر آنے والے کیسز تو بہت ہی کم ہیں، مدرسوں میں بچوں کے ساتھ زیادتی تو ایک روٹین کی چیز ہے۔۔

تیرہ چودہ سال کی عمر میں بالغ ہونے والے لڑکے اور لڑکی کو جب شادی کیلئے دس پندرہ سال انتظار کرنا پڑتا ہے تو اس دوران وہ اپنی جنسی ضرورت کیسے پوری کریں؟ اور قبل از وقت شادی ہوجائے تو اس سے مزید مسائل جنم لیتے ہیں، کیونکہ شادی محض جنسی ضرورت پوری کرنے کا نام نہیں بلکہ یہ بھرپور ذمے داری کا نام ہے۔ اگر پندرہ سولہ سال کی عمر میں لڑکے یا لڑکی کی شادی کردی جائے تو وہ اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دے پاتے، اپنا کیرئیر نہیں بناپاتے اور شادی کے مسائل میں الجھ کر اپنی زندگی تباہ کرلیتے ہیں اور نوعمری کی بیشتر شادیوں میں نوبت جلد ہی طلاق تک پہنچ جاتی ہے اور بسا اوقات ان کا ایک آدھ بچہ ہوچکا ہوتا ہے جس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بچے کی زندگی بھی تباہ ہوجاتی ہے۔۔

مغرب نے اس مسئلے کو سمجھ کر اس کا بہترین حل نکالا ہے کہ جنسی ضرورت کو شادی سے الگ کردیا ہے۔ شادی انسان تب کرے جب وہ پوری طرح معاشی، سماجی اور ذہنی طور پر خود کو اس پر تیار پائے۔ صرف جنسی ضرورت کیلئے شادی نہ کرے۔ اور جنسی ضرورت کیلئے شادی کو لازم و ملزوم سمجھنا ایک دقیانوسی اور فرسودہ سوچ ہے، ہمیں قدیم زمانوں کی اس بوسیدہ سوچ سے باہر آنا ہوگا۔ مغربی معاشروں کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ جنسی فرسٹریشن سے باہر آچکے ہیں، اور ذہنی طور پر ریلیکس ہیں، جب انسان کا ذہن ریلیکس ہوتا ہے تب ہی وہ کوئی تخلیقی کام کرسکتا ہے، ہمارے یہاں جنسی حدودوقیود اس قدر زیادہ ہیں کہ ہر کسی کے ذہن پر عورت اور سیکس کا خیال ہی سوار رہتا ہے اور نتیجے میں پورا معاشرہ سڑاند کا شکار ہوچکا ہے۔
You have raised a valid point, let’s see if we get to see any logical counter points
 

Tit4Tat

Minister (2k+ posts)


آپ نے بہت مہنت سے لکھا ہے پر میری سمجھ کے مطابق قوم ویلی ہے۔
قوم کو کسی کام میں لگانا چاہیے تاکہ فضول سوچنے کا وقت نہ ہو۔
لوگوں کے پاس کوئی مشغلہ ہونا چاہیے تاکہ فالتو وقت صحت مند کام پر لگایا جاے۔
meray bhae laikin thread starter nain ju point raise kiya hay wuh valid hay, due to modern world materialistic needs, marriages are difficult in early ages. How should one satisfy the natural needs ?
 

knowledge88

Chief Minister (5k+ posts)
Nobody cared to notice that the countries where public hanging is a practice (like Iran) crime rates are still very high. A murderer would not stop killing someone because he could be hanged in public instead of being hanged inside a prison.

Also your point for child abuse is totally an assumption. I have lived most of my life in the west and child abuse cases are still very high in the west.
Can you imagine a Cardinal in Australia George Pell was found guilty of child abuse is in the prison in his very old age. This person was in competition to become a pope. What Imam Kaba is for Muslims, he was for Christians.
How hard was for him to find a chick to quench his thrust in Australia?
I dont deny your point of sex as a primary need of humans.
In Maslow's hierarchy of needs , food and sex are the very first needs.
It does not mean people start raping when they don't get sex.
 
Last edited:

Islamabadiya

Chief Minister (5k+ posts)
Nobody cared to notice that the countries where public hanging is a practice (like Iran) crime rates are still very high. A murderer would not stop killing someone because he could be hanged in public instead of being hanged inside a prison.

Also your point for child abuse is totally an assumption. I have lived most of my life in the west and child abuse cases are still very high in the west.
Can you imagine a Cardinal in Australia George Pell was found guilty of child abuse is in the prison in his very old age. This person was in competition to become a pope. What Imam Kaba is for Muslims, he was for Christians.
How hard was for him to find a chick to quench is thrust in Australia?
I dont deny your point of sex as a primary need of humans.
In Maslow's hierarchy of needs , food and sex are the very first needs.
It does not mean people start raping when they don't get sex.

So should our society open up and accept sex as a private matter between individuals, should Hadood laws be changed ?
 

Humi

Prime Minister (20k+ posts)
yeah because married men never commit sexual violence. no need to make excuses for these barbarians.
 

knowledge88

Chief Minister (5k+ posts)
yeah because married men never commit sexual violence. no need to make excuses for these barbarians.
Oh my God!
Married man never commit sexual violence? Prisons around the world are full of such married people. Watch Netflix documentary on such crimes. Most of the people involved in such crimes would be white collar workers married with children.
 

Majid Sheikh

MPA (400+ posts)
می ٹو تحریک کھلے ڈلے مغرب ہی کی کہانی ہے. ریپ ہوتے ہیں
مغرب میں کوئی کسی کو اسکی مرضی کے بغیر ٹچ بھی کرے تو یہ می ٹو میں آجاتا ہے، جبکہ پاکستان میں جب تک کوئی ریپ ہوکر قتل نہ ہوجائے کسی شمار قطار میں نہیں آتا، دونوں معاشروں کے می ٹو کا فرق ملحوظ خاطر رکھیں۔۔
 
Last edited:

Humi

Prime Minister (20k+ posts)
Oh my God!
Married man never commit sexual violence? Prisons around the world are full of such married people. Watch Netflix documentary on such crimes. Most of the people involved in such crimes would be white collar workers married with children.
I was being sarcastic.........
 

Majid Sheikh

MPA (400+ posts)


آپ نے بہت مہنت سے لکھا ہے پر میری سمجھ کے مطابق قوم ویلی ہے۔
قوم کو کسی کام میں لگانا چاہیے تاکہ فضول سوچنے کا وقت نہ ہو۔
لوگوں کے پاس کوئی مشغلہ ہونا چاہیے تاکہ فالتو وقت صحت مند کام پر لگایا جاے۔

قوم تو واقعی ویلی ہے اور اس کو مصروف کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے، مگر جنسی ضرورت تو اسکے باوجود اپنی جگہ برقرار رہے گی۔۔
 

Majid Sheikh

MPA (400+ posts)
It does not mean people start raping when they don't get sex.

مسئلہ یہ ہے کہ آپ کروڑوں میں سے کتنے لوگوں کو یہ بات سمجھا سکتے ہیں کہ اگر تمہاری جنسی ضرورت پوری نہیں ہورہی تو کسی کا ریپ مت کرو۔۔
 

knowledge88

Chief Minister (5k+ posts)
مسئلہ یہ ہے کہ آپ کروڑوں میں سے کتنے لوگوں کو یہ بات سمجھا سکتے ہیں کہ اگر تمہاری جنسی ضرورت پوری نہیں ہورہی تو کسی کا ریپ مت کرو۔۔
Thats what makes us humans. A powerful lion would rape a lioness when he is aroused but we humans can think.
Having said that, it took animals thousands of years to become human from animals. But there are some humans who just take few seconds to turn into an animal from human and commit rape. Such animals should be punished like an animal .
 

Majid Sheikh

MPA (400+ posts)
Thats what makes us humans. A powerful lion would rape a lioness when he is aroused but we humans can think.
Having said that, it took animals thousands of years to become human from animals. But there are some humans who just take few seconds to turn into an animal from human and commit rape. Such animals should be punished like an animal .

آپ نے اپنے پچھلے کمنٹ میں ابراہم میسلو کی ضروریات کی درجہ بندی کا حوالہ دیا، جس کے مطابق خوراک اور سیکس انسان کی بنیادی ضرورت میں شمار ہوتے ہیں، ایک بھوکے آدمی کو آپ کب تک ڈنڈے کے زور پر دوسروں کو لوٹنے سے یا چوری کرنے سے باز رکھ سکوگے، ہر صورت میں بہتر حل یہی ہوگا کہ پہلے اس کی ضرورت کا سامان کیا جائے، اس کے بعد اگر وہ جرم پر مائل ہوتا ہے تو سزا دی جائے، ابراہم میسلو کی ضروریات کی درجہ بندی کی تکون دیکھیں تو انسان کے فہم و شعور کا درجہ انسان کی بنیادی ضروریات کے بعد میں آتا ہے، یعنی انسان کی بنیادی ضروریات پوری ہوں گی تبھی وہ کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوگا۔۔
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
انتہائی بیوقوفانہ بات کی آپ نے
.
ایسے لگتا ہے کہ آپ مغرب میں ہونے والے ریپ وغیرہ سے لاعلم ہیں یا جان بوجھ کر کنے بنے ہوئے ہیں ، سب جانتے ہیں کہ مغرب میں وہ جنسی آزادی موجود ہے جس کے آپ اس تھریڈ میں داعی بنے ہوئے ہیں
اور یہی قانون آپ اپنے آپ پر لاگو ہرگز نہیں کرنا چاہیں گے ہے نا؟
تیسری بات یہ کہ شادی صرف ایجاب و قبول کا نام ہے جو کہ جنسی عمل کے لئے لازم ہے