بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اتنا زیادہ "علم" پر دسترس کے باوجود آج یہودی جس طرح انسانیت کا قتل عام کر رہے ہیں تو اس سے تو ویلے جیسا "جاہل " ہونا بہتر ہے
اس علم کا کیا فائدہ جو انسان کو درندہ بنادے
خیر اس موضوع کو طوالت ویلا کا منشا نہیں، صرف توجہ اس طرف مبذول کرانا ہے کہ بارہا اس فارم پر ایک بات ویلے نے کہی کہ ہمارے دوستوں کی یہی حکمت عملی رہی ہے کہ کوئی نہ کوئی زاویہ ڈھونڈ کر ہمیں نیچا دکھا سکیں، تجزیوں کا تجزیہ کیا جائے تو بڑی معذرت کے ساتھ یہ تجزئے کسی بھی صورت تجزیہ کہلانا کا حق ادا نہیں کر سکتے
پہلی بات چھیڑی گئی کہ علم وہ سبب ہے جس کی بدولت اسرائیلی معاشرہ آج بھاری ہے
کیا کسی نے کبھی غور کیا صدام حسین کے دور میں وہاں کتنی یونیورسٹیاں تھیں، کتنے پی ایچ ڈی ہولڈرز تھے اور ان کے نظام صحت کو یونیسکو نے مشرق وسطیٰ کا بہترین نظام قراد دیا
کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ لیبیا میں نظام تعلیم اور صحت پر کتنا خرچ کیا جاتا تھا
مگر انجام سبھو کو معلوم
ہاں ایک بات اسرائیل کی وزیر اعظم نے خوب کی تھی کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زندگی کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ چاہے ان کا تخت سونے کا نہ تھا مگر تلواریں ضرور لٹکی ہوتی تھیں، اسی کو وجہ بنا کر اس نے ایک کڑے وقت میں بھی آرمز ڈیل کی تھی
دوسرا کبھی میرے دوست اس بات پر بھی غور کریں کہ آخر کیا وجہ ہے اس وقت مشرق و مغرب میں "اعلیٰ" تعلیم کا دور دورہ ہے مگر ہماری کسمپرسی ختم ہی نہیں ہوتی، جنابہ ملکہ برطانیہ نے لندن سکول آف اکنامکس کی ایک بلڈنگ کا افتتاح کیا تو تعجب سے پوچھا کہ یہاں کے پڑھنے والے اتنے ہی قابل ہیں تو فنانشل کرائس کو روک کیوں نہ پائے
اب موصوفہ کو کیا معلوم کہ ان کرائسس کو انجینرڈ کرنے والے یہی صاحبان ہوتے ہیں
خیر اس پر دلائل بھی کافی ہیں مگر صرف توجہ اس طرف دلانی ہے کہ اندھے، بہرے لوگوں کی طرح کسی بات کی تائید نہیں کرتے، کبھی عقل بھی استعمال کر لیتے ہیں
ڈارون نے جو سرواویل آف فٹسٹ پیش کیا وہ نظریہ بھی اب دفن ہو گیا، ہاں تھیوری آف ایولوشن کا چیتھڑے ابھی باقی ہیں، جبکہ ایٹم بم کے بانی کا ایک احسان تو ویلا بھی مانتا ہے کہ ایک بڑی بحث کو ختم کیا کہ مادہ سے انرجی کا ظہور کیونکر ہو
قضیہ یہ تھا کہ اس وقت کے سیکولر طعنہ دیتے تھے اگر خدا مادہ ہے تو اس سے انرجی کیونکر ممکن ہو سکتی ہے کہ فزکس تب تک اسے نہیں مانتی تھی، وہ سلسلہ وہاں تو ختم ہوا مگر یار دوستوں نے مسلمانوں میں یہ تھیوری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر منتطبق کر دی
خیر یہ اضافی بات ویلے نے یہاں کہہ دی مگر مدعا پھر وہی ہے کہ خدارا ہوش کے ناخن لو، جب ہلاکو خان نے بغداد کو تہہ تییغ کیا تھا تو تب "کتابوں" کی کمی نہیں تھی، یہ کہاں سے نظریہ لے آئے
ہمارا مسئلہ ہی یہی کتابیں ہیں ، خدارا ان سے جان چھڑاو اور لوٹو اپنے رب کی ایک کتاب کی طرف، وہی ہماری رہبر ہے وہی ہماری نجات کنندہ
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں
آدمی آدمی بناتے ہیں
جستجو ہمیں ان کتابوں کی ہے
وہ کتابیں عبث منگاتے ہیں
میرے اقبال نے خوب کہا تھا
ان غلاموں کا مسلک ہے کہ باقص ہے کتاب
کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق