اسرائیل میں مقیم ساٹھ لاکھ یہودی سال بھر میں ایک کروڑ بیس لاکھ کتابیں خرید کر پڑھتےہیں۔ ۲۰۰۹ء میں نوبل انعام حاصل کرنے والا ادایوناتھ کہتا ہے کہ اس کا تعلق بہت ہی غریب گھرانے سے تھا۔ تاہم اس کے گھر میں کتابیں ہوتی تھیں۔ تعلیم ہی انسان کو آگہی دیتی ہے اور اسرائیلی بچے اپنے خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ وقت سکولوں میں گزارتے ہیں۔ اسرائیل میں خواندگی/تعلیم کی شرح خطے کے تمام ممالک سے زیادہ ہے۔ تین سے اٹھارہ سال کے بچوں کے لئے تعلیم لازمی ہے۔ اسرائیل اپنی آبادی کے حساب سے ایک سو دس ڈالر فی کس سائنسی تحقیق پر خرچ کرتا ہے۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے چھ اسرائیل میں ہیں۔ ہر دس ہزار اسرائیلیوں میں سے ایک سو پینتالیس انجنئیر یا سائنسدان ہیں۔
سرائیل، جس کا دنیاء میں امریکہ کے علاوہ کوئی دوست نہیں، 1984 تک اپنی آمدنی کا چوبیس فیصد دفاع پر خرچ کرتا تھا؛ آج وہ اپنی آمدنی کا صرف 7 فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ پچھلے سو سالوں میں دنیا کے نظام میں بڑی تبدیلیاں لانے والے چار بڑے انسانوں کا نام لیا جائے تو اُن میں سے تین یہودی تھے۔ چارلس ڈارون کو چھوڑ کر کارل مارکس (مارکسزم کی بنیاد رکھنے والا)، سگمنڈ فرائیڈ (نفسیات کو باقاعدہ سائنس کا درجہ دینے والا) اور آئن سٹائن (اضافیت کا نظریہ پیش کرنے والا) تینوں یہودی تھے۔
دنیائے سائنس میں نوبل انعام کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور جن کو یہ انعام مل جائے ان کو بہت خوش نصیب سمجھا جاتا ہے۔ یہ انعام فزکس، ادویات (علاج معالجہ)، کیمسٹری ، ادب، معاشیات اور امن کے شعبوں میں بڑے کام کرنے والوں کو ہر سال دیا جاتا ہے۔ پچھلے اک سو دس سالوں میں یہ انعام لگ بھگ پانچ سو پینتالیس افراد کو ملا ہوگا۔ آپ یہ سن کرحیران ہوں گے کہ ان میں سے ایک سو سڑسٹھ یہودی تھے۔ ایک یہودی ماں اپنے بچے کو ملک کا سربراہ بنانے سے زیادہ ایک سائنس دان بنانے کی خواہش مند ہوتی ہے۔ البرٹ آئن سٹائن کو اسرائیل کا سربراہ بنانے کی پیشکش کی گئی تو اس نے ٹھکرا دی۔
یہودیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی آبادی دنیاء کا چوبیس فیصد ہے.یعنی لگ بھگ ایک ارب چالیس کروڑ۔ اور گزشتہ ایک سو سال میں ان میں سے صرف چھ مسلمانوں نے کوئی ایسا کارنامہ کیا کہ نوبل انعام کے حقدار قرار پائیں۔ ان چھ مسلمانوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کو اُس کے اپنے ملک میں عزت ملی ہو۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو پاکستان میں غدار قرار دیا گیا۔ حال ہی میں، مَیں نے کسی کے سامنے ڈاکٹر صاحب کا ذکر کیا تو مجھ بتایا گیا کہ 147یہ وہی سائنسدان ہے نا جس نے ملک کے جوہری راز چوری کر کے یہودی لابی کے حوالے کر دئے تھے148 اور میں ششدر رہ گیا کہ ڈاکٹر سلام کا جوہری پروگرام سے کب کوئی تعلق واسطہ رہا تھا جو ایک عام پاکستانی کے اُن کی بارے میں ایسی رائے ہے۔ احمد زویل نے امریکی شہریت لے لی اور ساری زندگی امریکہ میں کام کیا۔ نجیب محفوظ کو اس کے اپنے ملک مصر میں ایک مذہبی جنونی نے قتل کر دیا تھا۔ شیریں عبادی ایران میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے کے لئے مشہور ہیں۔ انہیں ایران سے ملک بدر کر دیا گیا وہ آجکل کینیڈا میں رہائش پزیر ہیں۔ ترکی سے تعلق رکھنے والے آرہان پامک پر ملک سے غداری کا مقدمہ چلا۔ بنگلہ دیش کے محمد یونس (گرامین بینک کے لئے مشہور) پر اپنے ہی ملک میں بد عنوانی کے مقدمات قائم ہیں۔
اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں علم کی کتنی قدر ہے۔ بعض مسلمان ملکوں کے پاس بے تحاشا دولت ہے۔ تاہم وہ اس دولت کو علم کی ترویج پر خرچ کرنے کو تیار نہیں۔ عرب شیخ بہت دولت مند ہیں لیکن ان کی دولت عیاشیوں پر خرچ ہو رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل میں نے انٹرنیٹ پر ایک چاندی کی کار کی تصاویر دیکھیں تو حیران رہ گیا۔ پتہ چلا کہ یہ کسی عرب شیخ نے اپنے لئے خصوصی طور پر تیار کروائی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ چاندی کی کار عرب شیخ نے خود تیار نہیں کی تھی بلکہ مغربی ماہرین سے بنوائی تھی۔
ہمارے اپنے ملک پاکستان میں تعلیم پر سرکاری و ذاتی دونوں سطح پر کچھ نہیں خرچ کیا جاتا۔ ہمارے بجٹ کا کبھی ۲ فیصد تو کبھی اس سے بھی کم تعلیم کے لئے مختص کیا جاتا ہے جس میں سے کافی رقم تو خرچ ہی نہیں کی جاتی بلکہ محکمہ تعلیم اسے محکمہ خزانہ کو لوٹا دیتا ہے۔ پہلے تو اسکولوں کی کمی ہے، پھر جو سکول ہیں تو ان میں بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نصاب کی تیاری سے لے کر اساتذہ کی تربیت تک کسی بھی چیز پر حکمرانوں کی توجہ کبھی بھی نہیں رہی۔
ہمارے گھروں میں بھی کتابیں (خاص طور پر سائنسی اور تحقیقی نوعیت کی کتابیں) نہیں پڑھی جاتیں۔ ہمارےکئی شہروں میں ایک بھی لائبریری نہیں ہے۔ جو ہیں وہ بھی اکثر پاکستان کے قیام سے پہلے قائم ہوئی تھیں اور زیادہ تر غیر مسلموں نے قائم کی تھیں۔ مثال کے طور پر جہلم شہر کی واحد لائبریری جسے اقبال لائبریری کا نام دے دیا گیا تھا دراصل پاکستان بننے سے پہلے لالہ لجپت رائے نے قائم کی تھی۔ ہم سے نئی لائبریری تو نہ بن سکی تاہم ہم نے لالہ لجپت رائے کی بنائی لائبریری کو مسلمان کر کے اس کانام اقبال لائبریری رکھ دیا اور اس میں بھی کتابوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔ باقی شہروں کا بھی کم و بیش ایسا ہی حال ہے۔ دیہات میں تو خیر تعلیمی سہولیات کا ذکر ہی کیا کرنا۔
اس مضمون کے آغاز میں ہم نے ذکر کیا کہ ساٹھ لاکھ یہودی سال بھر میں ایک کروڑ بیس لاکھ کتابیں پڑھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اٹھارہ کروڑ لوگ کتنی کتابیں خریدتے ہیں اس کا اندازہ ہمارے شہروں میں بند ہوتی کتابوں کی دکانوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ بس زرا اپنے آپ سے اور اپنے اردگرد موجود تعلیم یافتہ لوگوں سے پوچھ لیجئے کے انہوں نے پچھلے ایک سال میں کتنی کتابیں خرید کر پڑھی ہیں۔ اکثر تعلیم یافتہ لوگ بھی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کتابوں کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ طلباء سے پوچھیں تو وہ اپنی نصابی کتابیں ٹھیک سے نہیں پڑھتے، غیر نصابی کتابوں کا کیا ذکر کریں۔
علم سے اس حد تک بے زار ہونے کے باوجود ہم ہروقت اسی خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ ساری دنیاء بالخصوص اسرائیل، ہندوستان اور امریکہ ہمارے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ کیا ہمیں تباہ کرنے کے لئے کسی کو کوئی سازش کرنے کی ضرورت ہے؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایک فورم پر یہ چشم کُشا تحریر پڑھنے کو ملی ، حسن نثار اکثر اپنے کالموں میں لکھتے ہیں کہ ذات دے کِرلی تے شہتیراں نال جپھے۔ کیا ہمارا حال بھی ایسا ہی نہیں؟؟ خُدا خُدا کر کے ابھی چند سال پہلےتقریبا" ایک صدی کی سرپھٹول کے بعد ہم نے تصاویر کو انکا جائز "شرعی " مقام دیا، رفع یدین اور مقلد غیر مقلد کی بحثیں تو ابھی مزید کئی سو سال چلنی ہیں اگر القائدہ اور داعش جیسی تنظیموں نے مسلمانوں کا وجود قائم رہنے دیا تب، مزار اور درگاہیں نئی نئی ہمارے ایمان کی دشمن بنی ہیں ابھی تو سینے پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے والوں اور ناف پر باندھنے والوں کے درمیان ایک معرکہ ہونے کی تیاری ہے تو کس برتے پر یہ تتا پانی؟؟ اسرائیل جس کی نہ ہمارے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں نہ بظاہر وہ ہمارے معاملات میں بھارت یا امریکہ کی طرح دخیل ہے تو ہر سازش ہر وبا میں ہمیں اسرائیل ہی کیوں نظر آتا ہے۔ جہاں تک فلسطین کا تعلق ہے تو ہمارے جہادیوں فسادیوں کو اُکسانے والے سعودی عرب، ایران اور خلیجی ممالک کے ہوتے ہوئے ہمیں کیوں فلسطین کا ماما بننے کا شوق چڑھا ہے؟؟ ہماری مذہبی جماعتیں جنہیں پاکستان میں پچاس ہزار سے زیادہ شہریوں کو شہید کرنے والے طالبان نظر نہیں آتے، کل افغانستان میں ہونے والے خود کُش دھماکے میں سو سے زیادہ بےگناہوں کی جانیں جانے پر کوئی افسوس نہیں لیکن انہیں غزہ کےدو سو پندہ مسلمانوں کا غم چاٹ رہا ہے؟؟ کیا یہ بات تسلیم کئے جانے کے قابل ہے؟؟
اسرائیل کے خلاف جذباتی عوام کو اُکسانے والی طاقتیں کیا وہی نہیں جو ضیا کے دور میں فلسطینیوں کو "قابو" کرنے کیلئے فوجی دستے بھیجنے پر خوشیاں مناتی تھیں مشرف کے دور میں مشرف کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات پر حکومت سے علیحدہ نہیں ہوتی تھیں؟؟
کن منافق رہنماوں کن مذہبی کذابوں کے درمیان پھنس گئےہیں ہم؟؟
میں اس فورم کے سنجیدہ دوستوں کو دعوت دیتا ہوں اس موضوع پر کہ کیا جہالت فرقہ پسندی، عدم تحمل ، اور جذباتیت کی موجودگی میں ہمارا محض نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغر کا خواب پورا کرنے کیلئے اسرائیل کے خلاف نعرے لگانا درست اقدام ہے یا غیرجذباتی ہو کر سوچا جائے تو کوئی بہتر صورت سامنے آسکتی ہے؟؟
واضح رہے سنجیدہ دوستوں کے علاوہ دیگر ممبران کےدلی جذبات کو ٹھنڈک پہنچانے کے لئے بھی خاکسار نے اہتمام کیا ہے، دیکھئیے اور جزاک اللہ پڑھ کر ثوابِ دارین حاصل کریں۔
سرائیل، جس کا دنیاء میں امریکہ کے علاوہ کوئی دوست نہیں، 1984 تک اپنی آمدنی کا چوبیس فیصد دفاع پر خرچ کرتا تھا؛ آج وہ اپنی آمدنی کا صرف 7 فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ پچھلے سو سالوں میں دنیا کے نظام میں بڑی تبدیلیاں لانے والے چار بڑے انسانوں کا نام لیا جائے تو اُن میں سے تین یہودی تھے۔ چارلس ڈارون کو چھوڑ کر کارل مارکس (مارکسزم کی بنیاد رکھنے والا)، سگمنڈ فرائیڈ (نفسیات کو باقاعدہ سائنس کا درجہ دینے والا) اور آئن سٹائن (اضافیت کا نظریہ پیش کرنے والا) تینوں یہودی تھے۔
دنیائے سائنس میں نوبل انعام کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور جن کو یہ انعام مل جائے ان کو بہت خوش نصیب سمجھا جاتا ہے۔ یہ انعام فزکس، ادویات (علاج معالجہ)، کیمسٹری ، ادب، معاشیات اور امن کے شعبوں میں بڑے کام کرنے والوں کو ہر سال دیا جاتا ہے۔ پچھلے اک سو دس سالوں میں یہ انعام لگ بھگ پانچ سو پینتالیس افراد کو ملا ہوگا۔ آپ یہ سن کرحیران ہوں گے کہ ان میں سے ایک سو سڑسٹھ یہودی تھے۔ ایک یہودی ماں اپنے بچے کو ملک کا سربراہ بنانے سے زیادہ ایک سائنس دان بنانے کی خواہش مند ہوتی ہے۔ البرٹ آئن سٹائن کو اسرائیل کا سربراہ بنانے کی پیشکش کی گئی تو اس نے ٹھکرا دی۔
یہودیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی آبادی دنیاء کا چوبیس فیصد ہے.یعنی لگ بھگ ایک ارب چالیس کروڑ۔ اور گزشتہ ایک سو سال میں ان میں سے صرف چھ مسلمانوں نے کوئی ایسا کارنامہ کیا کہ نوبل انعام کے حقدار قرار پائیں۔ ان چھ مسلمانوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کو اُس کے اپنے ملک میں عزت ملی ہو۔ ڈاکٹر عبدالسلام کو پاکستان میں غدار قرار دیا گیا۔ حال ہی میں، مَیں نے کسی کے سامنے ڈاکٹر صاحب کا ذکر کیا تو مجھ بتایا گیا کہ 147یہ وہی سائنسدان ہے نا جس نے ملک کے جوہری راز چوری کر کے یہودی لابی کے حوالے کر دئے تھے148 اور میں ششدر رہ گیا کہ ڈاکٹر سلام کا جوہری پروگرام سے کب کوئی تعلق واسطہ رہا تھا جو ایک عام پاکستانی کے اُن کی بارے میں ایسی رائے ہے۔ احمد زویل نے امریکی شہریت لے لی اور ساری زندگی امریکہ میں کام کیا۔ نجیب محفوظ کو اس کے اپنے ملک مصر میں ایک مذہبی جنونی نے قتل کر دیا تھا۔ شیریں عبادی ایران میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے کے لئے مشہور ہیں۔ انہیں ایران سے ملک بدر کر دیا گیا وہ آجکل کینیڈا میں رہائش پزیر ہیں۔ ترکی سے تعلق رکھنے والے آرہان پامک پر ملک سے غداری کا مقدمہ چلا۔ بنگلہ دیش کے محمد یونس (گرامین بینک کے لئے مشہور) پر اپنے ہی ملک میں بد عنوانی کے مقدمات قائم ہیں۔
اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں علم کی کتنی قدر ہے۔ بعض مسلمان ملکوں کے پاس بے تحاشا دولت ہے۔ تاہم وہ اس دولت کو علم کی ترویج پر خرچ کرنے کو تیار نہیں۔ عرب شیخ بہت دولت مند ہیں لیکن ان کی دولت عیاشیوں پر خرچ ہو رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل میں نے انٹرنیٹ پر ایک چاندی کی کار کی تصاویر دیکھیں تو حیران رہ گیا۔ پتہ چلا کہ یہ کسی عرب شیخ نے اپنے لئے خصوصی طور پر تیار کروائی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ وہ چاندی کی کار عرب شیخ نے خود تیار نہیں کی تھی بلکہ مغربی ماہرین سے بنوائی تھی۔
ہمارے اپنے ملک پاکستان میں تعلیم پر سرکاری و ذاتی دونوں سطح پر کچھ نہیں خرچ کیا جاتا۔ ہمارے بجٹ کا کبھی ۲ فیصد تو کبھی اس سے بھی کم تعلیم کے لئے مختص کیا جاتا ہے جس میں سے کافی رقم تو خرچ ہی نہیں کی جاتی بلکہ محکمہ تعلیم اسے محکمہ خزانہ کو لوٹا دیتا ہے۔ پہلے تو اسکولوں کی کمی ہے، پھر جو سکول ہیں تو ان میں بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نصاب کی تیاری سے لے کر اساتذہ کی تربیت تک کسی بھی چیز پر حکمرانوں کی توجہ کبھی بھی نہیں رہی۔
ہمارے گھروں میں بھی کتابیں (خاص طور پر سائنسی اور تحقیقی نوعیت کی کتابیں) نہیں پڑھی جاتیں۔ ہمارےکئی شہروں میں ایک بھی لائبریری نہیں ہے۔ جو ہیں وہ بھی اکثر پاکستان کے قیام سے پہلے قائم ہوئی تھیں اور زیادہ تر غیر مسلموں نے قائم کی تھیں۔ مثال کے طور پر جہلم شہر کی واحد لائبریری جسے اقبال لائبریری کا نام دے دیا گیا تھا دراصل پاکستان بننے سے پہلے لالہ لجپت رائے نے قائم کی تھی۔ ہم سے نئی لائبریری تو نہ بن سکی تاہم ہم نے لالہ لجپت رائے کی بنائی لائبریری کو مسلمان کر کے اس کانام اقبال لائبریری رکھ دیا اور اس میں بھی کتابوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جارہی ہے۔ باقی شہروں کا بھی کم و بیش ایسا ہی حال ہے۔ دیہات میں تو خیر تعلیمی سہولیات کا ذکر ہی کیا کرنا۔
اس مضمون کے آغاز میں ہم نے ذکر کیا کہ ساٹھ لاکھ یہودی سال بھر میں ایک کروڑ بیس لاکھ کتابیں پڑھتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اٹھارہ کروڑ لوگ کتنی کتابیں خریدتے ہیں اس کا اندازہ ہمارے شہروں میں بند ہوتی کتابوں کی دکانوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ بس زرا اپنے آپ سے اور اپنے اردگرد موجود تعلیم یافتہ لوگوں سے پوچھ لیجئے کے انہوں نے پچھلے ایک سال میں کتنی کتابیں خرید کر پڑھی ہیں۔ اکثر تعلیم یافتہ لوگ بھی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کتابوں کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔ طلباء سے پوچھیں تو وہ اپنی نصابی کتابیں ٹھیک سے نہیں پڑھتے، غیر نصابی کتابوں کا کیا ذکر کریں۔
علم سے اس حد تک بے زار ہونے کے باوجود ہم ہروقت اسی خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ ساری دنیاء بالخصوص اسرائیل، ہندوستان اور امریکہ ہمارے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ کیا ہمیں تباہ کرنے کے لئے کسی کو کوئی سازش کرنے کی ضرورت ہے؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایک فورم پر یہ چشم کُشا تحریر پڑھنے کو ملی ، حسن نثار اکثر اپنے کالموں میں لکھتے ہیں کہ ذات دے کِرلی تے شہتیراں نال جپھے۔ کیا ہمارا حال بھی ایسا ہی نہیں؟؟ خُدا خُدا کر کے ابھی چند سال پہلےتقریبا" ایک صدی کی سرپھٹول کے بعد ہم نے تصاویر کو انکا جائز "شرعی " مقام دیا، رفع یدین اور مقلد غیر مقلد کی بحثیں تو ابھی مزید کئی سو سال چلنی ہیں اگر القائدہ اور داعش جیسی تنظیموں نے مسلمانوں کا وجود قائم رہنے دیا تب، مزار اور درگاہیں نئی نئی ہمارے ایمان کی دشمن بنی ہیں ابھی تو سینے پر ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے والوں اور ناف پر باندھنے والوں کے درمیان ایک معرکہ ہونے کی تیاری ہے تو کس برتے پر یہ تتا پانی؟؟ اسرائیل جس کی نہ ہمارے ساتھ سرحدیں ملتی ہیں نہ بظاہر وہ ہمارے معاملات میں بھارت یا امریکہ کی طرح دخیل ہے تو ہر سازش ہر وبا میں ہمیں اسرائیل ہی کیوں نظر آتا ہے۔ جہاں تک فلسطین کا تعلق ہے تو ہمارے جہادیوں فسادیوں کو اُکسانے والے سعودی عرب، ایران اور خلیجی ممالک کے ہوتے ہوئے ہمیں کیوں فلسطین کا ماما بننے کا شوق چڑھا ہے؟؟ ہماری مذہبی جماعتیں جنہیں پاکستان میں پچاس ہزار سے زیادہ شہریوں کو شہید کرنے والے طالبان نظر نہیں آتے، کل افغانستان میں ہونے والے خود کُش دھماکے میں سو سے زیادہ بےگناہوں کی جانیں جانے پر کوئی افسوس نہیں لیکن انہیں غزہ کےدو سو پندہ مسلمانوں کا غم چاٹ رہا ہے؟؟ کیا یہ بات تسلیم کئے جانے کے قابل ہے؟؟
اسرائیل کے خلاف جذباتی عوام کو اُکسانے والی طاقتیں کیا وہی نہیں جو ضیا کے دور میں فلسطینیوں کو "قابو" کرنے کیلئے فوجی دستے بھیجنے پر خوشیاں مناتی تھیں مشرف کے دور میں مشرف کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات پر حکومت سے علیحدہ نہیں ہوتی تھیں؟؟
کن منافق رہنماوں کن مذہبی کذابوں کے درمیان پھنس گئےہیں ہم؟؟
میں اس فورم کے سنجیدہ دوستوں کو دعوت دیتا ہوں اس موضوع پر کہ کیا جہالت فرقہ پسندی، عدم تحمل ، اور جذباتیت کی موجودگی میں ہمارا محض نیل کے ساحل سے تابخاک کاشغر کا خواب پورا کرنے کیلئے اسرائیل کے خلاف نعرے لگانا درست اقدام ہے یا غیرجذباتی ہو کر سوچا جائے تو کوئی بہتر صورت سامنے آسکتی ہے؟؟
واضح رہے سنجیدہ دوستوں کے علاوہ دیگر ممبران کےدلی جذبات کو ٹھنڈک پہنچانے کے لئے بھی خاکسار نے اہتمام کیا ہے، دیکھئیے اور جزاک اللہ پڑھ کر ثوابِ دارین حاصل کریں۔
(bigsmile)