اسلامی علوم کی تدوین

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
The first major problem with a huge majority of people who claim to be muslims is they have little or no knowledge about human language ie its origin and development. They have no idea at all about where did the words come from and how did they get their meanings.

The second major problem with muslims is they have little or no idea at all as to how to think rationally and methodically or systematically. Once ummah overcomes these two major problems all the rest of problems will be solved in no time.

In order to solve these two problems education and training of all people who claim to be muslims is absolutely necessary. The more muslims run away or are kept away from education and training by each other the more they will waste time on other things which will keep them the way they are for many centuries more to come.

So if anyone is true to one's declaration of commitment to deen of islam the most important thing for such a person to do today is to try to educate and train others. Living on basis of baseless beliefs and useless practices is only a road to self destruction not to unity, peace, progress and prosperity as a proper human community.

Muslims are fighting with each other over words and meanings in the quran and hadis books due to their lack of knowledge about human language. They are divided because they cannot think rationally so they cannot put information found in the quran and hadis etc books together as they should. Proper education and training about deen of islam will solve for muslims all their problems because then they will come to know the way to do that. One can find a lot of helpful information HERE, HERE and HERE.
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
محترم آپ کا سوال یہ بنتا تھا کے جناب آپ تین ہزار روایت مولاے کائنات کی صحاح ستہ سے ثابت کریں اور باقی دس ہزار مختلف کتب اہلسنت سے کیوں کے ان صاحب نے بہت بڑا دعوه کیا ہے جو کے باطل ہے پر میرے مطابق جذبات میں آ کر

جیسے کہ ایک بھائی نے پہلے پیج پر کمینٹ کیا کہ اس سب پر یقین رکھنے کے لئے بھوسہ بھرا دماغ ہونا چاہئے . . . . . . اس لئے جب انہوں نے ضرورت کے وقت ہی سہی ، حضرت علی کا نام لیا تو میں نے مزید بحث کرنا مناسب نا سمجھا

اب بھی میں مزید بحث بیکار سمجھتا ہوں کیوں کہ جن کی بنیاد ہی رسول پاک کو گناہ / غلطی /بشری کمزوری میں مبتلا سمجھنے پر قائم ہو ان سے بہتری کی کیا امید کی جا سکتی ہے

ایک طرف ختمی مرتبت پاک رسول اور ان کا سچا گروپ اور دوسری طرف ان گنت گناہان میں مبتلا لوگ . . . . . . . . . کیا اب بھی کسی کو شک ہے کہ حق کیا ہے
 

انجام

MPA (400+ posts)
پچھلے بارہ سو سال میں صحیح معنوں مں اجتہاد ہو ا ہی نہیں ، اگر ہوا ہوتا تو سب کو معلوم ہوتا، آپ جتنی سر توڑ کوشش کر لیں آپ کو کچھ نہیں ملے گا، ہاں ہمارے اس دور میں کچھ نئی آرا سامنے آئی ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ امت ان کو کس حد تک قبول کرتی ہے۔
عباسی خلافت کے قیام کے ۳۰ سال کے بعد سے لیکر ۱۹۲۲ میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے تک فقہ حنفی پرمسلم دنیا کا سوادِ اعظم جمع رہا، اور بڑی حد تک آج بھی ہے،اہل علم کی اکثریت تمام مسائل میں فقۂ حنفی ہی سے استنباط کرتی رہی، لیکن امام ابو حنیفہ ائمۂ حدیث کے نزدیک ضعیف اور جھوٹے ہیں، چند آرا ملاحظہ ہوں
امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کا قو ل ہے ۔
لا یکتب حدیثہ ۔ ''ابوحنیفہ کی حدیث نہیں لکھی جائے گی ۔''
قال الإمام العقیلیّ : حدّثنا محمّد بن عثمان (بن أبی شیبۃ) ، قال : سمعت یحییٰ بن معین وسئل عن أبی حنیفۃ ، قال : کان یضعّف فی الحدیث ۔
''محمد بن عثمان بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ میں نے امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے سنا ، ان سے امام ابوحنیفہ کے بارے میں سوال کیاگیا تو انہوں نے فرمایا ، وہ حدیث میں ضعیف قرار دئیے گئے ہیں ۔''
أحمد بن حنبل کہتے ہیں يكذب وہ جھوٹے تھے۔
ابو حفص عمر بن شاہین کہتے ہیں
كان يضع الأحاديث وہ حدیث گھڑتے تھے(یہ کذب سے بھی بڑھ کر ہے)۔


اگر تو ائمۂ رجال کی بات درست ہے تو پھر تو امت بارہ سو سال تک ایک ایسے شخص کی رائے پر جمع رہی جو نا صرف ضعیف الحدیث اور جھوٹا تھا بلکہ حدیثیں بھی گھڑتا تھا، اس شخص کی گمراہی میں کیا شک ہے جو جھوٹا اور واضع الحدیث ہو، تو امت کی اس کی رائے پر جمع ہونا کیا گمراہی پر جمع ہونے کے مترادف نہیں ۔ یعنی اہلِ حدیث کے نزدیک تو امت بارہ سو سال تک گمراہی پر جمع رہی۔

دوسری طرف اگر امام ابو حنیفہ کے علم اور تفقہ کو دیکھیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے، اسلامی فقہ کی تدوین جن اصولوں پر انہوں نے کی وہ حقیقتاً اسلام کی روح کے قریب ہیں۔ میں تو یہ سب جان کر ائمۂ رجال کی رائے کو کوئی اہمیت نہیں دوں گا، یا یہ سمجھوں گا کہ وہ ٹھیک طور پر ہم تک نہیں پہنچی۔ اور اگر امام صاحب کے بارے میں ان کی رائے درست نہیں یا درست طریقے سے ہم تک نہیں پہنچی تو باقی راویوں کے بارے میں کیا سمجھا جائے جائے؟

قرآن کی جمع و تدوین کو آپ باقی علوم کے ساتھ قیاس نہ کریں، کیونکہ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا ہے اور وہ رسول اللہ ﷺ کی زیرِ نگرانی اس حال میں مدون ہو چکا تھا جو ہمارے پاس موجود ہے۔

محترم آپ کی وجہ سے کئی چیزوں کو کھلنے کئی لوگوں کو سیکھنے اورکئی چیزیں سیکھنے کو بھی مل رہی ہیں۔
جہاں تک بات اجتہاد کی ہے اصولوں کی حد تک دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اصول فقہ تقریبا 70 سے 80 فیصد تک امام اعظم کے ہی اخذ کردہ ہیں۔ جبکہ دیگر فقہاء کا اصول میں حصۃ تقریبا 20سے 30 فی صد ہے۔ بغور جائزہ لیا جائے تو پہلی دو صدیاں وہ دور تھا جب اسلام پہلی دوسری نسل سے آگے منتقل ہورہا تھا۔ اس دور میں نہایت اہم ضرورت تھی کہ قواعد مرتب کر کے امت کو سہولیات مہیا کی جائیں۔
یہ سعادت سب سے زیادہ امام اعظم کے حصے میں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ اجتہاد سب سے زیادہ اور سب سے واضح اس دور میں ہوا۔ بعد کے زمانے میں زمینی حقائق میں کچھ واضح تبدیلی واقع نہ ہوئی۔ پچھلی صدی سے اچانک عالمی سطح پر نئی تحقیقات ہوئیں۔ انجن بجلی ، کیمرے وغیرہ ایجاد ہوئے۔ جہاز وراکٹ وغیرہ ایجاد ہوئے۔ اس وجہ سے فقہی احکام پر نظر ثانی کی ضرورت بھی پیش آئی۔ کئی لوگوں نے لاؤڈ سپیکر وغیرہ کی مخالفت کی۔مگر بعد ازاں لوگوں نے اسکو جائز کہا۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس دور میں بھی انہی اصولوں پر ہی کام ہو رہا ہے۔

جیسا کہ آپ نے ذکر کیا کہ تمام امت فقہ حنفہ سے مستفید ہوتی آرہی ہے اور ہو رہی ہے۔ تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ فقہ حنفی کے تمام فرائض و واجبات و مکروہات و محرمات شریعت مطہرہ کے واضح اور انہی کی سطح کے دلائل سے اخذ کئے گئے ہیں۔ کسی بھی واضح تعلیم کو دلائل سے رد نہیں کیا جا سکا۔ اختلاف رائے تو ہر دور میں رہتا ہی ہے۔ ان واضح حقائق کی روشنی میں یہ بیانات غیر حقیقی و وضعی لگتے ہیں۔
عموما یہ بات بھی ہے کہ جب بھی آپ کو اپنی بات منوانی ہو تو بڑوں کے نام سے منسوب کر دیں۔ جیسا کہ پیچھے ذکر کر چکا ہوں کہ اس دور میں میرے پاس کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ایک ہی استاد کے شاگرد اور ایک ہی مرشد کے فیض یافتہ اشخاص غیر معروف یا کم معروف زیادہ معروف فرد کے خلاف اپنے استاد کے نام سے کئی باتیں شائع
[FONT=&amp] کرتے ہیں۔
نیز یہ بات بھی زکر کر آیا کہ امام ابوحنیفہ پر تو انکی سب سے زیادہ خدمات کے عوض دل کھول کر مخالفت کی گئی۔ یہانتک کہ تاریخ بغداد کے 40 صفحات صرف امام اعظم کے خلاف اقوال سے پر ہے۔
رہ گئی بات یحیی بن معین، احمد بن حنبل ،اور ابن ابو شیبہ کی توانکے امام صاحب پر اعتراض پر بھی حیرت ہے۔ کینکہ یہ تینوں شخصیات اور امام شافعی امام ابویوسف اور امام محمد کی شاگرد ہیں۔ جبکہ یہ دونوں ہستیاں امام صاحب کی شاگرد ہیں۔ انکی تو اپنی تصنیفات بھی ہیں۔ نیز امام صاحب کے ہم زمانہ عبد اللہ بن مبارک اور امام مالک کے اقوال بھی دیکھے جائیں گے۔ ان اقوال کو قبول کرنے سے قبل انکی اپنی حیثیت کو بھی دیکھنا پڑے گا۔
[/FONT][FONT=&amp]
آپ تو احادیث گھڑنے کی بات کرتے ہیں انپر تواحادیث کو سرے سے جھٹلانے کے بھی الزامات ہیں۔ مگر ثبوت میں کچھ بھی نہیں۔ ان شخصیات کے حالات پر نظر دوڑانے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تو امام صاحب کے زمانے میں پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ تو انہوں نے کیسے یہ جان لیا کہ امام صاحب احادیث گھڑتے ہیں۔؟ اگر یہ انکے اپنے اقوال ہیں تو انہوں نے سالہا سال انکے ہاں تعلیم کیوں حاصل کی۔؟
یقینا آپ کے مذکور اقوال بھی ایسے ہی ہیں جنکومجھول راویوں کی طرف سے ان معروف لوگوں سے منسوب کر کے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ جبکہ ایسے ہی الزامات نہ صرف امام ابو حنیفہ پر بلکہ امام ابو یوسف اور امام محمد پر بھی لگے۔
حال ہی میں یعنی چند سال پہلےایک معروف اہل حدیث عالم احناف پر اتہام کی بارش کرتے ہوئے اپنی خوب نا
موری کا سامان کیا۔ انکو حدیث پر اتنی مہارت حاصل تھی کہ شاید ہی حدیث کی کوئی کتاب اور کسی کتاب کی کوئی حدیث انکے حکم لگانے سے محفوظ رہ سکی ہو۔ اس دور میں جہاں ہر علم کا وسیع علمی زخیرہ آسانی سے میسر ہے۔ اور دلائل میں تمیز کرنا بھی نہایت آسان ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود ابو حنیفہ و انکے اصحاب پر غیر ضروری و مبہم جرح کرکے انکو ضعیف و مردود قرار دیناعقل کو ہلا کے رکھ دیتا ہے۔

امت تو یقینا گمراہی پر نہیں رہی۔ البتہ امت کو گمراہ کرنے کی کوششیں ضرور ہوتی رہیں ۔ اگر آپ نے یہ آراء دور حاضر کے غیر مقلد اہل الحدیث کی کتب سے پڑھے ہیں تو خدا کی پناہ مانگیں۔ بنیادی مصادر سے پڑھے ہیں تو تحقیق مزید کرلیں۔ دراصل کسی بھی راوی پر تحقیق کرتے ہوئے مثبت و منفی دونوں آراء کو دیکھ کر فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ تب ہی درست فیصلہ ہوتا ہے۔
آپ کایہ جملہ بہت اہم ہے۔ کہ اگر امام صاحب کی درست رائے ہم تک نہیں پہنچی تو دیگر کا کیا حال ہوگا؟
مگر جیسا کہ عرض کیا۔ کہ جہاں آپ کے چاہنے والے ہوتے ہیں وہیں دشمن بھی ہوتے ہیں۔ جس کو جتنی زیادہ عزت ملتی ہے اس کے دشمن بھی اتنے ہی زیادہ ہیں۔ لہذا آپ کو یہ بھی مد نظر رکھنا پڑے گا۔
ہم اس علم کو قرآن پر قیاس نہیں کرتے۔ مگر معترضین کے اعتراضات کی بات کی کہ وہ تو وہاں تک جاتے ہیں۔ پھر وہ تو حضور نبی اکرم ﷺ کی رسالت کے ہی منکر بھی ہوجاتے ہیں۔اور کئی ہیں بھی۔
قرآن مجید کی موجودہ ترتیب تو حضؤر ﷺ نے لگوا دی تھی مگر تحریری شکل میں مکمل جمع کرا کے ایک جگہ جمع نہیں فرمایا تھا۔جب جب جس کسی نے لکھا لکھ لیا۔ اور سن کر یاد کرلیا۔ اس طرح متفرق طور پرمختلف جگہوں پر قرآن مجید جمع تھا۔جسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدنا فاروق اعظم علیہ الرضوان کے مشورہ سے جمع کراکر املا کرائی۔ جسے بعد ازاں خلافت عثمانی میں شائع کیا گیا ۔
نیز فرامین رسول ﷺ بھی جمع ہونا ضروری تھے۔ قرآن و حدیث میں واضح فرق بھی رکھنا تھا ۔اورا مت کو تعلیم دیئے گئے حکم کی تعلیم کو بھی برقرار رکھنا تھا۔ اسی لئے قرآن تو پہلے ہی دور میں جمع ہوکر کتابی شکل میں منظر عام پر آگیا۔ جبکہ احادیث کی حفاطت وترویج کا سلسلہ اسدور میں شروع
ہوا۔ [/FONT]​
 
Last edited:

انجام

MPA (400+ posts)
[FONT=&amp]
محترم آپ کی اور باقی حضرات کی گفتگو کو کل سے دیکھ رہا ہوں اور ایک سوال بھی آپ سے کیا پر آپ نے زیادہ زحمت نہیں فرمائی خیر آپ کے قوٹ میں شیعہ کے بارے حقیقت سے برعکس بات پڑھنے کو ملی میرا خیال تھا کے آپ نے اگر باقی تین آئمہ کے قول امام ابو حنیفہ کے بارے پڑھے ہوتے توباقی مذاہب پر بات کرنے سے پہلے خود یہ سوچتے کے آخر کیوں باقی آئمہ نے ان کو گمراہ قرار دیا ؟اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے کیا گمراہ کی تقلید جائز ہے ؟ میں بہت عرصۂ سوچتا رہا کے آخر کیوں باقی آئمہ نے ایسا موقف اختیار کیا پر جب میں نے ایک ہی امام کے ماننے والے دیو بندی اور بریلوی حضرات کو ایک دوسرے کی بلکل الٹ دیکھا تو واقعی ہی یقین آ گیا کے قیاس کرنے کی ہی وجہ ہو گی جو کے اتنے سخت الفاظ استمعال ہوے [/FONT]
دوسری بات یہ ہے کے آپ اس فورم پر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں کے مذھب شیعہ علوی دور میں شروع ہوا جب کے یہ کتب اہلسنت سے ثابت ہے کے رسول خدا کے دور میں ہی شیعیت کا آغاز ہوا اور شیعہ موجود تھے اور شعیان علی کو خوشخبری بھی سنائی گئی رسول خدا سے کے اے علی تم اور تمارے شیعہ کامیاب ہیں اور یہ متواتر احادیث سے ثابت برادران اہلسنت سے تو پھر آپ جیسا علم رکھنے والے شخص کی طرف سے اس طرح کا فرمان کچھ مناسب نہیں ہے

جناب تاخیر کی معذرت۔ شاید آپ نے یہ سوال پڑھتے ہوئے میرے مؤقف پر غور نہیں فرمایا۔ میری پوسٹوں میں حب علی نہیں بلکہ غلو محبت علی المر تضی میں افراط والے تشیع گروہ کا ذکر ہے۔ آپ جس کا ذکر کر رہے ہیں وہ بمقابل منافقت تھا۔ یعنی حب علی کی مخالفت میں ایک گروہ منافق تھا۔ جس کی پہچان بتائی کہ علی کا نام سن کر چہرہ مرجھا جائے منافق ہے۔ جس کا چہرہ کھل اٹھے وہ مومن ہے۔ یہی پیمانہ بن گیا صحابہ میں۔ یہی الزام ائمہ فقہ پر لگا۔
بات میری طرف سے غلط لکھی گئی یا آپ پڑھ کر غلط نتیجہ اخذ کرتے رہے ؟؟ حالانکہ میری بات نہایت ہی تفصیلی تھی۔
امام ابوحنیفہ بارے جو آپ نے لکھا اس بارے پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ مزید یہ ہے کہ اپنی بات کو پختہ کرنے کے لئے کمظرف لوگ بڑوں کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔ حالانکہ امام شافعی و احمد بن حنبل احناف کے شاگرد ہیں جبکہ امام محمد امام مالک کے شاگرد ہیں۔ ہمیں حقائق جاننے کے لئے اصل مصادر تک رسائی اختیار کرنی پڑے گی۔
نیز جیسا کہ ذکر کیاایک دور میں اصحاب الرائے اور اصحاب الحدیث کی اصطلاحات عام تھیں انمیں اختلافات علمی نہایت شدید تھے۔ اس دور میں کئی چیزیں شامل کی گئیں۔

آپ کا اگلا بیان ایک ہی امام کے ماننے والے دو گروہ آج دست و گریباں ہیں۔ اس دور کے اختلاف کی نوعیت پہلے ادوار سے مختلف ہے۔ ان 2 گروہوں کی لڑائی بھی مختلف نوعیت کی ہے۔ نیز بعد میں جنم دیئے جانے والے فتنے نے پہلے سے موجود امت کےسواد اعظم کو دیوار سے لگانے کے لئے نیا عنوان بنام بریلوی متعارف کرایا۔ حالانکہ حضور ﷺ کی ذات جمیع امت کے لئے محترم ہے نہ کہ صرف سواد اعظم کے لئے۔
انگریز کا یہ خود کاشتہ پودا 2حصوں میں امت کو تقسیم کر رہا ہے۔ ایک گروہ مقلد کہلواتا ہے ۔ دوسرا غیر مقلد۔ بہت گہرائی میں جائے بغیر ہی سرسری جائزے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ دونوںگروہوں کی بنیاد ایک ہی ہے۔ انکے امام و مقتدا ایک ہی ہیں۔ دونوں گروہوں کے عقائد و نظریات ایک ہیں۔ فرق صرف اعمال کا ہے۔ جیسے امت کا صدیوں سے 4 فقہاء پر اتفاق ہے۔ سارے امام ان فقہی اختلاف کے باوجود ان اعتقادی امور پرمتفق ہیں۔ جن امور کو ان لوگوں نے وجہ تنازع بنا رکھا ہے ۔ اس کی ایک مثال چند ایام پہلے آپ نے اسی فورم پر ملاحظہ کی۔


 

انجام

MPA (400+ posts)
محترم آپ کا سوال یہ بنتا تھا کے جناب آپ تین ہزار روایت مولاے کائنات کی صحاح ستہ سے ثابت کریں اور باقی دس ہزار مختلف کتب اہلسنت سے کیوں کے ان صاحب نے بہت بڑا دعوه کیا ہے جو کے باطل ہے پر میرے مطابق جذبات میں آ کر

جناب اس میں لڑائی کی کوئی بات ہی نہیں۔ اگر آپ تحقیق کا شوق رکھتے ہیں تو اس دور میں تو نہایت اعلی وسائل میسر ہیں۔ آپ مختصر وقت میں کثیر تعدادد میں چیزیں جلدی تلاش کر سکتے ہیں۔
یہ عنوان صرف علی المرتضی سے مروی احادیث کا نہیں۔ نہ ہی مجھے یا آپ کو یا کسی بھی ممبر کو اس پر اختلاف ہے۔ لہذا یہ بلا وجہ غیر ضروری بحث ہے ۔ مگر آپ تلاش کرنا چاہیں تو کچھ مشکل بھی نہیں۔ انٹر نیٹ اور سافٹ ویئر میسر ہیں۔ چند منٹس میں سب کچھ حاضر۔
کسی کے دماغ میں بھوسہ بھرا ہے یا گھاس یہ تو ڈاکٹر آپریشن کر کے ہی بتا سکتا ہے یا الٹرا ساؤنڈ وغیرہ سے ۔ اگر کو ئی نہ ماننا چاہے تو اس کا کوئی علاج بھی نہیں۔ اسے سب سامنے رکھ کر بھی نہیں منایا جا سکتا۔

 

SachGoee

Senator (1k+ posts)
For those kids between the age of 7 - 20 an introduction to Imam e Aazam rehmatullah aleh.


امامِ اعظم حضرت ابو حنیفہؒ

مسلمان حاکم ہارون الرشید عبّاسی کے دو بیٹے تھے۔ اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو ایک بزرگ استاد کے پاس پڑھنے کے لیے بٹھایا۔ ایک دن حاکم کے دل میں خیال آیا کہ مجھے استاد صاحب کے پاس جا کر اپنے بیٹوں کی پڑھائی کے بارے میں معلوم کرنا چاہیے۔ حاکم استاد صاحب کی ملاقات کے لیے گیا۔ جب استاد صاحب حاکم کے استقبال کے لیے اُٹھنے لگے تو دونوں شہزادے دَوڑکر اُٹھے اور اپنے استاد کی جوتی اس کے پاؤں کے آگے رکھنے میں پہل کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایک شہزادے کی خواہش تھی کہ پہلے مَیں جوتی رکھوں اور دوسرے شہزادے کی خواہش تھی کہ یہ کام پہلے مَیں کروں۔ حاکم نے جب استاد کے احترام کا یہ منظر دیکھا۔ تو اس نے استاد صاحب سے کہا کہ آپ جیساآدمی مر نہیں سکتا

پیارے بچو! اس چھوٹی سی کہانی سے تم نے کیا سبق سیکھا؟ یہی ناکہ ہمیں اپنے بزرگوں اور استادوں کا احترام اور ان کی عزت کرنی چاہیے۔

بچو! سچّی بات تو یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی قوم اس وقت ہی زندہ قوم کہلاسکتی ہے جب اس قوم کے بچوں اور نوجوانوں میں یہ خواہش پیدا ہو کہ جو بڑے بڑے اور اچھے اچھے کام ہمارے بزرگوں نے کیے ہیں وہی کام بلکہ ان سے بڑھ کر کام کرنے کی ہم کوشش کریں۔ جب تمہارے دل میں اپنے بزرگوں جیسا بننے کی خواہش پیدا ہوگی تو یقینا تم ان کی زندگی کے حالات اور ان کے کارناموں کے بارے میں بھی جاننا چاہو گے۔

آؤ! آج مَیں تمہیں اسلامی تاریخ کے ایک بہت بڑے بزرگ اور عالمِ دین امام اعظم ابو حنیفہؒ کی زندگی کے حالات اور ان کے کارناموں اور ان کی شخصیت کے بارے میں پیاری پیاری باتیں بتاتی ہوں:

بچو!کوفہ ایک بہت ہی پیارا شہر ہے۔ پتہ ہے!جب عرب کے مسلمان بہت زیادہ ترقی کرگئے اور یہاں کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا تو حضرت عمرفاروقؓ نے حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کو ایک خط لکھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک شہر بساؤ۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور کسریٰ کی زبردست حکومت کو بھی آپ ہی کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ آپ نے مسلمانوں کا شہر بسانے کے لیے کوفہ کی زمین کو پسند کیا۔ 17ھ میں اس شہر کی بنیاد رکھی گئی۔ بہت سادہ اور معمولی قسم کے مکانات بنائے گئے۔ عرب کے مختلف قبیلے اس شہر میں آکر آباد ہونے لگے۔ تھوڑے ہی دنوں میں اس شہر نے بہت مقبولیت حاصل کرلی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس شہر کو دارالخلافہ قرار دیا۔ اس شہر میں جن بزرگوں نے سکونت اختیار کی ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ بدر میں شامل ہونے والے صحابہؓ بھی تھے۔

بچو! ان بزرگوں کی وجہ سے کوفہ نے مکّہ معظمہ اور مدینہ منوّرہ کی طرح دار العلم یعنی علم کے گھر کی حیثیت اختیار کی۔

اسی علم کے گھر یعنی کوفہ میں ہمارے پیارے بزرگ حضرت امام ابو حنیفہؒ 80ھ میں پیدا ہوئے۔ 80ھ عبدالملک بن مروان کا عہدِ حکومت تھا۔ یہ زمانہ قرونِ اولیٰ (ابتدائی زمانہ) کہلاتاہے۔

بچو! یہ تو تم جانتے ہوکہ قرونِ اولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کا زمانہ تھا۔ ہمارے پیارے امام ابو حنیفہؒ کتنے خوش قسمت تھے کہ آپ نے اس مبارک زمانہ کو پایا جس میں کچھ صحابۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے۔

بچو! حضرت امام ابو حنیفہؒ کا اصل نام نعمان تھا۔ آپ کا قد درمیانہ اور چہرہ خوبصورت تھا۔ آپ کے دادا کا نام زوطی اور والد کا نام ثابت تھا۔ آپ کا خاندان ایران کا ایک مشہور اور باعزّت خاندان تھا۔ جب ایران میں اسلام پھیلنا شروع ہوا تو آپ کے دادا زوطی نے اسلام قبول کرلیا۔ گھر اور خاندان والوں نے ناراضگی کا اظہار کیا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر عرب تشریف لے آئے۔ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حکومت کا زمانہ تھا۔ آپ کے دادا کوفہ میں ٹھہر گئے۔ یہیں پر حضرت امام ابو حنیفہؒ کے والد ثابت پیدا ہوئے جنہیں حضرت امام ابو حنیفہؒ کے دادا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں پیار کیا اور ان کے لیے دعابھی کی۔ آپ کے والد تجارت کیا کرتے تھے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ کی پیدائش کے وقت ان کے والد کی عمر چالیس سال تھی۔

حضرت امام ابو حنیفہؒ کے بچپن کے زمانہ میں عرب کے سیاسی حالات بہت خراب تھے۔ عبدالملک بن مروان نے حجّاج بن یوسف کو عراق کا گورنر مقرر کیا۔ حجّاج بن یوسف بہت ظالم گورنر تھا۔ عبدالملک بن مروان کے بیٹے ولید کے عہدِ حکومت میں 95ھ میں اس کا انتقال ہوا۔ ایک سال کے بعد ولید کا بھی انتقال ہوگیا۔

ہمارے پیارے بزرگ امام ابو حنیفہؒ کاتمام بچپن ایسی حالت میں گذراکہ ملک کے سیاسی حالات بہت خراب تھے۔ امن وامان نہیں تھا۔ قرآن کریم حفظ کرلینے کے بعد ابھی دین کا علم سیکھ رہے تھے اور علمی بحثیں کرتے تھے۔ ایک دن کیا ہوا کہ حجّاج بن یوسف کا زمانہ تھا، امام صاحب بحث میں مصروف تھے کہ ایک شخص نے آپ سے خالص دینی فرائض کے بارے میں ایک مسئلہ پوچھا۔ اب بچو! آپ نے دینی علوم تو حاصل کیے ہی نہیں تھے اس لیے اس کو کوئی جواب نہیں دے سکے۔ وہ شخص کہنے لگا آپ بحثیں تو بہت لمبی لمبی کرتے ہیں مگر ایک دینی فریضہ تک کا آپ کو پتہ نہیں۔ امام صاحبؒ یہ سن کر بہت شرمندہ ہوئے اور ارادہ کر لیا کہ اب مَیں دین کا علم حاصل کروں گا۔

بچو! ولید کے انتقال کے بعد حکومت سلیمان بن عبدالملک کے حصّے میں آئی جو ولید کا سگا بھائی تھا۔ وہ بہت ہی نیک اور علم سے محبت رکھنے والا انسان تھا۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کو اپنا مشیر خاص بنایا۔ پھر باوجود اس کے کہ اس کے اپنے بھائی اور بیٹے موجود تھے اس نے حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کو ولی عہد منتخب کیا۔ سلیمان بن عبدالملک کی حکومت کے زمانہ میں لوگوں کی توجہ مذہبی اور علمی گفتگو کی جانب ہوئی۔ امام ابو حنیفہؒ کے دل میں بھی خالص دینی علم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوچکا تھا۔ بحث ومباحثہ سے آپ کی طبیعت بیزار ہوچکی تھی۔ اس وقت آپ کی عمر17سال تھی۔ آپ اپنے والد کی طرح تجارت کیا کرتے۔ اپنی دیانتداری کی وجہ سے آپ نے تجارت میں بہت ترقی حاصل کی۔

بچو! ایک دن کسی تجارتی کام کی غرض سے آپ بازار جانے کے لیے گھر سے نکلے۔ راستہ میں امام شعبیؒ کامکان تھا۔ آپ کوفہ کے ایک بہت بڑے امام تھے۔ امام شعبیؒ نے ابو حنیفہؒ کو دیکھا تو اپنے پاس بلایا اور پوچھا۔ کہاں جارہے ہو؟

آپ نے جواب دیا کہ میں تجارتی کام سے بازار ایک سوداگر کے پاس جارہا ہوں۔ امام شعبیؒ نے پھر پوچھا کہ میرا مطلب ہے کہ تم کس سے پڑھتے ہو؟ آپ نے جواب دیا۔ کسی سے بھی نہیں پڑھتا۔ اس پر امام شعبیؒ نے فرمایا تمہیں چاہیے کہ عالم لوگوں کے ساتھ بیٹھا کرو اور علم حاصل کیاکرو۔

بچو! اصل میں بات یہ تھی کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ شکل سے تاجر لگتے ہی نہ تھے۔ آپ فضول گفتگو بالکل نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی سوال کرتا تو نہایت ادب اور احترام کے ساتھ اسے جواب دیتے۔ یہی وجہ تھی کہ جو کوئی بھی آپ کو دیکھتا وہ تاجر کی بجائے آپ کو طالب علم سمجھتا تھا۔ امام شعبیؒ کی بات نے آپ کے دل پر بہت اثر کیا اور آپ نے دل میں پکّا فیصلہ کرلیا کہ اب مَیں عالم لوگوں کے ساتھ بیٹھوں گا اور دین کا علم حاصل کروں گا۔

بچو! تم نے یہ پیاری حدیث بھی سُنی ہوگی کہ طالب علم کے راستے میں فرشتے اپنے پَر بچھا دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جوشخص بھی علم حاصل کرناچاہتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے ذریعہ اس کی مدد کرتاہے۔ حضرت امام صاحب نے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی مدد کے ساتھ علم حاصل کرنا شروع کیا۔ اس زمانہ میں علم حاصل کرنے کا طریقہ یہ تھاکہ اساتذہ کسی خاص مسئلہ پر طالب علموں کے سامنے تقریر کیا کرتے پھر طالب علم کو جوبات سمجھ نہ آتی وہ ان سے پوچھ لیا کرتے اور ساتھ ہی اسے لکھ بھی لیتے تھے۔

کوفہ میں امام حمادؒ کی درس گاہ بہت بڑی اور مشہور تھی۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ نے بھی اسی درس گاہ کا انتخاب کیا اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ تم میں سے اکثربچوں کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ فقہ کا علم کسے کہتے ہیں؟ آؤ مَیں تمہیں سمجھاؤں کہ فقہ کا علم کیاہوتاہے؟

دیکھو بچو! ہمارے پیارے اللہ میاں نے تمام دنیا کی ہدایت کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید جیسی پیاری اور مکمل کتاب نازل فرمائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ دیکھو! قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے نام ایک بہت پیارا خط لکھا ہے اور مجھے اس کام پر مقرر کیاہے کہ مَیں یہ خط پڑھ کر تمہیں سناؤں اور تمہیں سمجھاؤں۔ اب جو بات بھی میں کہوں یا جو عمل بھی مَیں کروں تو سمجھ لینا کہ وہ بات اور وہ عمل مَیں نے خدا کے حکم کے مطابق کیاہے۔ دینی یا دنیاوی معاملہ میں اگر تمہیں کوئی مشکل پیش آئے تو قرآن کریم اور میری بات اور عمل کے ذریعہ اس مشکل سے نجات حاصل کرلینا۔

بچو! جب ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپؐ لوگوں کو زبانی بھی سمجھا دیا کرتے اور اس حکم پر عمل کرکے رہنمائی فرما دیتے تھے۔ آپؐ کی وفات کے بعد بھی جب کبھی کوئی مسئلہ پیش آجاتا تو صحابہ غور کرتے کہ اس بارے میں قرآن کا کیا حکم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے اورآپؐ کا اس بارے میں کیا عمل اور ارشاد تھا۔ اس طرح قرآن، سنّت اور حدیث کی روشنی میں وہ اپنے علم کے مطابق مسائل حل کیاکرتے تھے۔




To be Continued.........
 

انجام

MPA (400+ posts)
The first major problem with a huge majority of people who claim to be muslims is they have little or no knowledge about human language ie its origin and development. They have no idea at all about where did the words come from and how did they get their meanings.

The second major problem with muslims is they have little or no idea at all as to how to think rationally and methodically or systematically. Once ummah overcomes these two major problems all the rest of problems will be solved in no time.

In order to solve these two problems education and training of all people who claim to be muslims is absolutely necessary. The more muslims run away or are kept away from education and training by each other the more they will waste time on other things which will keep them the way they are for many centuries more to come.

So if anyone is true to one's declaration of commitment to deen of islam the most important thing for such a person to do today is to try to educate and train others. Living on basis of baseless beliefs and useless practices is only a road to self destruction not to unity, peace, progress and prosperity as a proper human community.

Muslims are fighting with each other over words and meanings in the quran and hadis books due to their lack of knowledge about human language. They are divided because they cannot think rationally so they cannot put information found in the quran and hadis etc books together as they should. Proper education and training about deen of islam will solve for muslims all their problems because then they will come to know the way to do that. One can find a lot of helpful information HERE, HERE and HERE.


جناب بہت اچھا ہوا جو آپ نے بتایا کہ 1400 سال تک امت مسلمہ گمراہ تھی اور اب بھی گمراہ ہے۔ انکا پہلا مسئلہ زبان کی بنیاد اور ترقی سے دوری ہے۔ بھلا ہو اپ کا کہ آپ نے ہمیں آگاہ کیا۔
آپ کی بات مان لی ۔ ہمیں یہ بات بتا دیں کہ ہمارے اور آپ کے درمیان یہ بات مشترک ہے کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے ۔ مسلمانوں کے لئے ہدایت ہے۔ یہ بات سمجھائیں کہ زبان کی ترقی کو پڑھنے کا حکم کس آیت میں ایا ہے؟

جناب نے دوسرا اہم مسئلہ بیان فرمایا کہ مسلمان عقلی و منظم عملی طریقوں سے سوچنے سے عاری ہیں۔ جناب نے جو مسائل بیان فرمائے انکی کوئی مثال ہی بیان فرما دیتے تاکہ جناب کا فلسفہ ہماری سمجھ میں آجاتا۔
نیز جناب نے بھی کوئی واضح عقلی، علمی و منظم طرز تحقیق بیان نہیں کیا جس سے ہم جیسے کم فہموں کو رہنمائی میسر آتی۔
آپ سے پہلے بھی سادہ سا سوال پوچھا تھا کہ قرآن فہمی کا آسان ساطریقہ بتا دیں۔ اسکےلئے لمبے چوڑے فلسفے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ مثال دیکر یہ بھی بتا دیا تھا کہ آپ ہمیں 1،2،3 کی شکل میں واضح کردیں۔ آپ بار بار اپنا بے تکا سا فلسفہ لیکر وہی پوستیں بار بار کرتے ہیں۔
نیز آپ سے سوال تھا کہ ہمیں زبان کے معانی کے انتخاب کے لئے کہاں سے رہنمائی لینا ہوگی۔ یہ جواب کہاں سے میسر ائے گا؟
آیا لغات کھنگالیں گے؟ فلسفہ پڑھیں گے ؟

 

انجام

MPA (400+ posts)
For those kids between the age of 7 - 20 an introduction to Imam e Aazam rehmatullah aleh.


امامِ اعظم حضرت ابو حنیفہؒ

مسلمان حاکم ہارون الرشید عبّاسی کے دو بیٹے تھے۔ اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو ایک بزرگ استاد کے پاس پڑھنے کے لیے بٹھایا۔ ایک دن حاکم کے دل میں خیال آیا کہ مجھے استاد صاحب کے پاس جا کر اپنے بیٹوں کی پڑھائی کے بارے میں معلوم کرنا چاہیے۔ حاکم استاد صاحب کی ملاقات کے لیے گیا۔ جب استاد صاحب حاکم کے استقبال کے لیے اُٹھنے لگے تو دونوں شہزادے دَوڑکر اُٹھے اور اپنے استاد کی جوتی اس کے پاؤں کے آگے رکھنے میں پہل کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایک شہزادے کی خواہش تھی کہ پہلے مَیں جوتی رکھوں اور دوسرے شہزادے کی خواہش تھی کہ یہ کام پہلے مَیں کروں۔ حاکم نے جب استاد کے احترام کا یہ منظر دیکھا۔ تو اس نے استاد صاحب سے کہا کہ آپ جیساآدمی مر نہیں سکتا

پیارے بچو! اس چھوٹی سی کہانی سے تم نے کیا سبق سیکھا؟ یہی ناکہ ہمیں اپنے بزرگوں اور استادوں کا احترام اور ان کی عزت کرنی چاہیے۔

بچو! سچّی بات تو یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی قوم اس وقت ہی زندہ قوم کہلاسکتی ہے جب اس قوم کے بچوں اور نوجوانوں میں یہ خواہش پیدا ہو کہ جو بڑے بڑے اور اچھے اچھے کام ہمارے بزرگوں نے کیے ہیں وہی کام بلکہ ان سے بڑھ کر کام کرنے کی ہم کوشش کریں۔ جب تمہارے دل میں اپنے بزرگوں جیسا بننے کی خواہش پیدا ہوگی تو یقینا تم ان کی زندگی کے حالات اور ان کے کارناموں کے بارے میں بھی جاننا چاہو گے۔

آؤ! آج مَیں تمہیں اسلامی تاریخ کے ایک بہت بڑے بزرگ اور عالمِ دین امام اعظم ابو حنیفہؒ کی زندگی کے حالات اور ان کے کارناموں اور ان کی شخصیت کے بارے میں پیاری پیاری باتیں بتاتی ہوں:

بچو!کوفہ ایک بہت ہی پیارا شہر ہے۔ پتہ ہے!جب عرب کے مسلمان بہت زیادہ ترقی کرگئے اور یہاں کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا تو حضرت عمرفاروقؓ نے حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کو ایک خط لکھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک شہر بساؤ۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور کسریٰ کی زبردست حکومت کو بھی آپ ہی کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ آپ نے مسلمانوں کا شہر بسانے کے لیے کوفہ کی زمین کو پسند کیا۔ 17ھ میں اس شہر کی بنیاد رکھی گئی۔ بہت سادہ اور معمولی قسم کے مکانات بنائے گئے۔ عرب کے مختلف قبیلے اس شہر میں آکر آباد ہونے لگے۔ تھوڑے ہی دنوں میں اس شہر نے بہت مقبولیت حاصل کرلی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس شہر کو دارالخلافہ قرار دیا۔ اس شہر میں جن بزرگوں نے سکونت اختیار کی ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ بدر میں شامل ہونے والے صحابہؓ بھی تھے۔

بچو! ان بزرگوں کی وجہ سے کوفہ نے مکّہ معظمہ اور مدینہ منوّرہ کی طرح دار العلم یعنی علم کے گھر کی حیثیت اختیار کی۔

اسی علم کے گھر یعنی کوفہ میں ہمارے پیارے بزرگ حضرت امام ابو حنیفہؒ 80ھ میں پیدا ہوئے۔ 80ھ عبدالملک بن مروان کا عہدِ حکومت تھا۔ یہ زمانہ قرونِ اولیٰ (ابتدائی زمانہ) کہلاتاہے۔

بچو! یہ تو تم جانتے ہوکہ قرونِ اولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کا زمانہ تھا۔ ہمارے پیارے امام ابو حنیفہؒ کتنے خوش قسمت تھے کہ آپ نے اس مبارک زمانہ کو پایا جس میں کچھ صحابۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے۔

بچو! حضرت امام ابو حنیفہؒ کا اصل نام نعمان تھا۔ آپ کا قد درمیانہ اور چہرہ خوبصورت تھا۔ آپ کے دادا کا نام زوطی اور والد کا نام ثابت تھا۔ آپ کا خاندان ایران کا ایک مشہور اور باعزّت خاندان تھا۔ جب ایران میں اسلام پھیلنا شروع ہوا تو آپ کے دادا زوطی نے اسلام قبول کرلیا۔ گھر اور خاندان والوں نے ناراضگی کا اظہار کیا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر عرب تشریف لے آئے۔ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حکومت کا زمانہ تھا۔ آپ کے دادا کوفہ میں ٹھہر گئے۔ یہیں پر حضرت امام ابو حنیفہؒ کے والد ثابت پیدا ہوئے جنہیں حضرت امام ابو حنیفہؒ کے دادا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں پیار کیا اور ان کے لیے دعابھی کی۔ آپ کے والد تجارت کیا کرتے تھے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ کی پیدائش کے وقت ان کے والد کی عمر چالیس سال تھی۔

حضرت امام ابو حنیفہؒ کے بچپن کے زمانہ میں عرب کے سیاسی حالات بہت خراب تھے۔ عبدالملک بن مروان نے حجّاج بن یوسف کو عراق کا گورنر مقرر کیا۔ حجّاج بن یوسف بہت ظالم گورنر تھا۔ عبدالملک بن مروان کے بیٹے ولید کے عہدِ حکومت میں 95ھ میں اس کا انتقال ہوا۔ ایک سال کے بعد ولید کا بھی انتقال ہوگیا۔

ہمارے پیارے بزرگ امام ابو حنیفہؒ کاتمام بچپن ایسی حالت میں گذراکہ ملک کے سیاسی حالات بہت خراب تھے۔ امن وامان نہیں تھا۔ قرآن کریم حفظ کرلینے کے بعد ابھی دین کا علم سیکھ رہے تھے اور علمی بحثیں کرتے تھے۔ ایک دن کیا ہوا کہ حجّاج بن یوسف کا زمانہ تھا، امام صاحب بحث میں مصروف تھے کہ ایک شخص نے آپ سے خالص دینی فرائض کے بارے میں ایک مسئلہ پوچھا۔ اب بچو! آپ نے دینی علوم تو حاصل کیے ہی نہیں تھے اس لیے اس کو کوئی جواب نہیں دے سکے۔ وہ شخص کہنے لگا آپ بحثیں تو بہت لمبی لمبی کرتے ہیں مگر ایک دینی فریضہ تک کا آپ کو پتہ نہیں۔ امام صاحبؒ یہ سن کر بہت شرمندہ ہوئے اور ارادہ کر لیا کہ اب مَیں دین کا علم حاصل کروں گا۔

بچو! ولید کے انتقال کے بعد حکومت سلیمان بن عبدالملک کے حصّے میں آئی جو ولید کا سگا بھائی تھا۔ وہ بہت ہی نیک اور علم سے محبت رکھنے والا انسان تھا۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کو اپنا مشیر خاص بنایا۔ پھر باوجود اس کے کہ اس کے اپنے بھائی اور بیٹے موجود تھے اس نے حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کو ولی عہد منتخب کیا۔ سلیمان بن عبدالملک کی حکومت کے زمانہ میں لوگوں کی توجہ مذہبی اور علمی گفتگو کی جانب ہوئی۔ امام ابو حنیفہؒ کے دل میں بھی خالص دینی علم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوچکا تھا۔ بحث ومباحثہ سے آپ کی طبیعت بیزار ہوچکی تھی۔ اس وقت آپ کی عمر17سال تھی۔ آپ اپنے والد کی طرح تجارت کیا کرتے۔ اپنی دیانتداری کی وجہ سے آپ نے تجارت میں بہت ترقی حاصل کی۔

بچو! ایک دن کسی تجارتی کام کی غرض سے آپ بازار جانے کے لیے گھر سے نکلے۔ راستہ میں امام شعبیؒ کامکان تھا۔ آپ کوفہ کے ایک بہت بڑے امام تھے۔ امام شعبیؒ نے ابو حنیفہؒ کو دیکھا تو اپنے پاس بلایا اور پوچھا۔ کہاں جارہے ہو؟

آپ نے جواب دیا کہ میں تجارتی کام سے بازار ایک سوداگر کے پاس جارہا ہوں۔ امام شعبیؒ نے پھر پوچھا کہ میرا مطلب ہے کہ تم کس سے پڑھتے ہو؟ آپ نے جواب دیا۔ کسی سے بھی نہیں پڑھتا۔ اس پر امام شعبیؒ نے فرمایا تمہیں چاہیے کہ عالم لوگوں کے ساتھ بیٹھا کرو اور علم حاصل کیاکرو۔

بچو! اصل میں بات یہ تھی کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ شکل سے تاجر لگتے ہی نہ تھے۔ آپ فضول گفتگو بالکل نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی سوال کرتا تو نہایت ادب اور احترام کے ساتھ اسے جواب دیتے۔ یہی وجہ تھی کہ جو کوئی بھی آپ کو دیکھتا وہ تاجر کی بجائے آپ کو طالب علم سمجھتا تھا۔ امام شعبیؒ کی بات نے آپ کے دل پر بہت اثر کیا اور آپ نے دل میں پکّا فیصلہ کرلیا کہ اب مَیں عالم لوگوں کے ساتھ بیٹھوں گا اور دین کا علم حاصل کروں گا۔

بچو! تم نے یہ پیاری حدیث بھی سُنی ہوگی کہ طالب علم کے راستے میں فرشتے اپنے پَر بچھا دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جوشخص بھی علم حاصل کرناچاہتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے ذریعہ اس کی مدد کرتاہے۔ حضرت امام صاحب نے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی مدد کے ساتھ علم حاصل کرنا شروع کیا۔ اس زمانہ میں علم حاصل کرنے کا طریقہ یہ تھاکہ اساتذہ کسی خاص مسئلہ پر طالب علموں کے سامنے تقریر کیا کرتے پھر طالب علم کو جوبات سمجھ نہ آتی وہ ان سے پوچھ لیا کرتے اور ساتھ ہی اسے لکھ بھی لیتے تھے۔

کوفہ میں امام حمادؒ کی درس گاہ بہت بڑی اور مشہور تھی۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ نے بھی اسی درس گاہ کا انتخاب کیا اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ تم میں سے اکثربچوں کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ فقہ کا علم کسے کہتے ہیں؟ آؤ مَیں تمہیں سمجھاؤں کہ فقہ کا علم کیاہوتاہے؟

دیکھو بچو! ہمارے پیارے اللہ میاں نے تمام دنیا کی ہدایت کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید جیسی پیاری اور مکمل کتاب نازل فرمائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ دیکھو! قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے نام ایک بہت پیارا خط لکھا ہے اور مجھے اس کام پر مقرر کیاہے کہ مَیں یہ خط پڑھ کر تمہیں سناؤں اور تمہیں سمجھاؤں۔ اب جو بات بھی میں کہوں یا جو عمل بھی مَیں کروں تو سمجھ لینا کہ وہ بات اور وہ عمل مَیں نے خدا کے حکم کے مطابق کیاہے۔ دینی یا دنیاوی معاملہ میں اگر تمہیں کوئی مشکل پیش آئے تو قرآن کریم اور میری بات اور عمل کے ذریعہ اس مشکل سے نجات حاصل کرلینا۔

بچو! جب ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپؐ لوگوں کو زبانی بھی سمجھا دیا کرتے اور اس حکم پر عمل کرکے رہنمائی فرما دیتے تھے۔ آپؐ کی وفات کے بعد بھی جب کبھی کوئی مسئلہ پیش آجاتا تو صحابہ غور کرتے کہ اس بارے میں قرآن کا کیا حکم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے اورآپؐ کا اس بارے میں کیا عمل اور ارشاد تھا۔ اس طرح قرآن، سنّت اور حدیث کی روشنی میں وہ اپنے علم کے مطابق مسائل حل کیاکرتے تھے۔




To be Continued.........

اچھی تحریر ہے مگر بہتر ہوتا آپ اسکو الگ دھاگے میں شروع کرتے۔ کیونکہ یہ عنوان امام ابوحنیفہ کا نہں ہے۔ ہر چیز اپنی جگہ اچھی لگتی ہے۔
 

SachGoee

Senator (1k+ posts)

اچھی تحریر ہے مگر بہتر ہوتا آپ اسکو الگ دھاگے میں شروع کرتے۔ کیونکہ یہ عنوان امام ابوحنیفہ کا نہں ہے۔ ہر چیز اپنی جگہ اچھی لگتی ہے۔


JazaakAllah. Imam e Aazam RT k khilaaf kuch baatein likhi gaeen. Hazum nai hueen so likh diya record ki durustagi k liye.

Abhi islami aloom ki tadween mein unka kirdaar bayaan kerna baaqi hai. Jo k zaruri hai. So to be continued hai. Aahista Aahista. Taaqay aesa na ho k tehreer lambi hojaey aor phir loug perh na paaein.
 

khan_sultan

Banned
جناب تاخیر کی معذرت۔ شاید آپ نے یہ سوال پڑھتے ہوئے میرے مؤقف پر غور نہیں فرمایا۔ میری پوسٹوں میں حب علی نہیں بلکہ غلو محبت علی المر تضی میں افراط والے تشیع گروہ کا ذکر ہے۔ آپ جس کا ذکر کر رہے ہیں وہ بمقابل منافقت تھا۔ یعنی حب علی کی مخالفت میں ایک گروہ منافق تھا۔ جس کی پہچان بتائی کہ علی کا نام سن کر چہرہ مرجھا جائے منافق ہے۔ جس کا چہرہ کھل اٹھے وہ مومن ہے۔ یہی پیمانہ بن گیا صحابہ میں۔ یہی الزام ائمہ فقہ پر لگا۔
بات میری طرف سے غلط لکھی گئی یا آپ پڑھ کر غلط نتیجہ اخذ کرتے رہے ؟؟ حالانکہ میری بات نہایت ہی تفصیلی تھی۔
امام ابوحنیفہ بارے جو آپ نے لکھا اس بارے پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ مزید یہ ہے کہ اپنی بات کو پختہ کرنے کے لئے کمظرف لوگ بڑوں کے نام سے منسوب کرتے ہیں۔ حالانکہ امام شافعی و احمد بن حنبل احناف کے شاگرد ہیں جبکہ امام محمد امام مالک کے شاگرد ہیں۔ ہمیں حقائق جاننے کے لئے اصل مصادر تک رسائی اختیار کرنی پڑے گی۔
نیز جیسا کہ ذکر کیاایک دور میں اصحاب الرائے اور اصحاب الحدیث کی اصطلاحات عام تھیں انمیں اختلافات علمی نہایت شدید تھے۔ اس دور میں کئی چیزیں شامل کی گئیں۔

آپ کا اگلا بیان ایک ہی امام کے ماننے والے دو گروہ آج دست و گریباں ہیں۔ اس دور کے اختلاف کی نوعیت پہلے ادوار سے مختلف ہے۔ ان 2 گروہوں کی لڑائی بھی مختلف نوعیت کی ہے۔ نیز بعد میں جنم دیئے جانے والے فتنے نے پہلے سے موجود امت کےسواد اعظم کو دیوار سے لگانے کے لئے نیا عنوان بنام بریلوی متعارف کرایا۔ حالانکہ حضور ﷺ کی ذات جمیع امت کے لئے محترم ہے نہ کہ صرف سواد اعظم کے لئے۔
انگریز کا یہ خود کاشتہ پودا 2حصوں میں امت کو تقسیم کر رہا ہے۔ ایک گروہ مقلد کہلواتا ہے ۔ دوسرا غیر مقلد۔ بہت گہرائی میں جائے بغیر ہی سرسری جائزے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ دونوںگروہوں کی بنیاد ایک ہی ہے۔ انکے امام و مقتدا ایک ہی ہیں۔ دونوں گروہوں کے عقائد و نظریات ایک ہیں۔ فرق صرف اعمال کا ہے۔ جیسے امت کا صدیوں سے 4 فقہاء پر اتفاق ہے۔ سارے امام ان فقہی اختلاف کے باوجود ان اعتقادی امور پرمتفق ہیں۔ جن امور کو ان لوگوں نے وجہ تنازع بنا رکھا ہے ۔ اس کی ایک مثال چند ایام پہلے آپ نے اسی فورم پر ملاحظہ کی۔


برادر عزیز بہت بہت شکریہ آپ کا جواب دینے کا دیر سویر کا کوئی بات نہیں ہم سب مشغول ہوتے ہیں دنیاوی کاموں میں بھی پر جب کوئی ٹاپک شروع ہو جاے تو مزا تبھی آتا ہے جب جواب در جواب بغیر کسی تاخیر کے ہوں
برادر عزیز اس وقت دنیا میں صرف شیعہ وہی کہلاتے ہیں جو کے اثناء عشری کہلاتے ہیں باقی جتنے بھی غالی تھے ان سے ہم نے ہمیشہ کے لیے برأت رکھی ہے یہی مولا کا فرمان بھی ہے پر افسوس ہے کے اہلسنت برادران نے نواصب کو ابھی تک اپنی صفوں میں شامل رکھا ہے جب کے اصل اہلسنت خوش العقیده ہوتے ہیں اور وہ اہلبیت پنجتن پاک سے محبت رکھتے ہیں
دوسری بات برادر عزیز اگر آپ سمجھتے ہیں کے دوسرے اماموں میں سے کچھ امام ابو حنیفہ کے شاگرد تھے اور ہمارے اہلسنت برادران اسی بنیاد پر ان کو امام اعظم تسلیم کرتے ہیں جو کے سرا سر نہ انصافی ہے کیوں کے امام ابو حنیفہ خود امام صادق اکہ سلام کے شاگرد تھے اور انہوں نے بھی سنت عمر کو جاری رکھتے ہوے فرمایا کے اگر میں یہ دو سال ابو جعفر کی شاگردی میںنہ گزارتا تو ہلاک ہو چکا ہوتا تو آخر کیوں آپ حضرت امام اعظم کی سنت پر عمل پیرا نہیں ہیں اور فقہ جعفریہ کو کیوں نہیں قبول کیا گیا یا یوں کہوں کے جو چار فقہ کو سواد اعظم کہا گیا تو پانچویں کیوں نہیں ؟ جب کے امام صادق علم فضل حسب نسب میں ان سب سے زیادہ افضل تھے ہونا تویہ چاہیے تھا کے سب ان کو مانتے اور یہ عین فرمان رسول ہے کے میرے اہلبیت سفینہ کشتی نوح ہیں جو ان پر سوار ہوا وہ کامیاب ہو گیا اور کیا پھر یہ نہیں فرمایا کے میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک قران اور دوسرے میرے اہلبیت تو پھر کیوں سواد اعظم نے رسول کے اس فرمان کو کیوں نہیں مانا ؟ فرمان رسول خدا جو کے خود کچھ نہیں اپنی طرف سے کہتا جو بھی کہتا ہے وہ میں حب آل محمد کی نہیں ان کی پیروی کی ہو رہی ہے

 

khan_sultan

Banned

جناب اس میں لڑائی کی کوئی بات ہی نہیں۔ اگر آپ تحقیق کا شوق رکھتے ہیں تو اس دور میں تو نہایت اعلی وسائل میسر ہیں۔ آپ مختصر وقت میں کثیر تعدادد میں چیزیں جلدی تلاش کر سکتے ہیں۔
یہ عنوان صرف علی المرتضی سے مروی احادیث کا نہیں۔ نہ ہی مجھے یا آپ کو یا کسی بھی ممبر کو اس پر اختلاف ہے۔ لہذا یہ بلا وجہ غیر ضروری بحث ہے ۔ مگر آپ تلاش کرنا چاہیں تو کچھ مشکل بھی نہیں۔ انٹر نیٹ اور سافٹ ویئر میسر ہیں۔ چند منٹس میں سب کچھ حاضر۔
کسی کے دماغ میں بھوسہ بھرا ہے یا گھاس یہ تو ڈاکٹر آپریشن کر کے ہی بتا سکتا ہے یا الٹرا ساؤنڈ وغیرہ سے ۔ اگر کو ئی نہ ماننا چاہے تو اس کا کوئی علاج بھی نہیں۔ اسے سب سامنے رکھ کر بھی نہیں منایا جا سکتا۔

بخاری کی نو جلدون میں کل روایات 7048 ہیں .


امی جان حضرت عایشہ سے روایات ١٢٥٠ یعنی کے 17 اشاریہ ٦٨ فیصد ہیں


ابو ہریرہ سے روایات ١١٠٠ جو کے ١٥اشاریہ ٥٦ بنتی ہیں


عبداللہ ابن عمر سے بھی [FONT=Calibri,Arial,Helvetica,sans-serif,Apple Color Emoji,Segoe UI Emoji,NotoColorEmoji,Segoe UI Symbol,Android Emoji,EmojiSymbols]١١٠٠ جو کے ١٥اشاریہ ٥٦ بنتی ہیں[/FONT]


انس بن مالک ٩٠٠ کے لگ بھگ جو کے ١٢ اشاریہ 73 فیصد بنتی ہیں


عبداللہ ابن عباس نے 700 کے قریب روایات کی ہیں جو کے ٩ اشاریہ ٩ فیصد کے قریب بنتی ہیں


جابر بن عبداللہ 275 کے قریب روایات کی ہیں جو کے ٣ [FONT=Calibri,sans-serif] اشاریہ ٨٩ بنتی ہیں [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]ابو موسیٰ عشری نے ١٦٥ جو کے ٢ اشاریہ ٣٣ فیصد بنتی ہیں [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]ابو سیعد الخدری ان سے ان سے ١٣٠ روایات لی ہیں جو کے ١ اشاریہ 84 فیصد بنتی ہیں [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]مولا علی ابن ابی طالب علیہ سے صرف اور صرف 79 روایات لی ہیں جو کے ١ اشاریہ ١١ فیصد بنتی ہیں [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]عمر ابن خطاب سے صرف اور صرف ٥٠ روایات لی ہیں جو کے صرف ١ فیصد بنتی ہیں لگ بھگ [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]امی جان حضرت ام سلمہ ام المومنین سے صرف اور صرف 48 روایات لی گئی ہیں جو کے ١ فیصد کے لگ بھگ بنتی ہیں [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]عبداللہ ابن مسعود سے صرف 45 روایات لی گئی ہیں جو کے ١ فیصد کے قریب بنتی ہیں [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]معاویہ ابن ابی ہندہ سے 10 روایات لی ہیں جو کے اشاریہ 14 فیصد بنتا ہے [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]امام حسن مجتبیٰ علیہ سلام سے صرف ٨ روایات ملی ہیں جو کے اشاریہ ١١ فیصد بنتی ہیں [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]امام حسین علیہ سلام سے صرف دو روایات مجھے ملی ہیں جو کے اشاریہ ٣ فیصد بنتا ہے [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]یہ کل ملا کر ان تمام راویان کی ٨٣ فیصد بنتی ہیں [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]حضرت عایشہ ابن عمر اور ابو ہریرہ سے 48 اشاریہ ٨ فیصد کے قرین بنتی ہیں یہ لمحہ فکریہ ہے [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif] اس سےیہ بات ثابت ہوتی ہے کے اصل میں یہ جتنے لوگ جنہوں نےبخاری جی سمیت کتب لکھیں ان کو روایات جن سے لینی تھیں ان سے لی گئی ہیں جو کے نہ تو خلفاء سلاسہ سے تھے نہ ہی اہلبیت خاص طور پر مولاے متقیان علی ابن ابی طالب سے یاد رہے کے یہی بخاری شریف ہے جس نے غدیر کی حدیث کو قوٹ نہیں کیا یا کم از کم مجھے نہیں ملی یہ روایت صحیح بخاری میں جب کے برادران اہلسنت کی تقریبن تمام کتب میں وہ حدیث سند کے ساتھ موجود ہے یہی بخاری شریف ہے جس نے نبی پاک کی گھریلو زندگی کے بارے ایسی ایسی گھمراه کن حدیثیں گھڑیں کے جن کو بنیاد بنا کے سلمان رشدی اور دوسرے ملعون نے توہین آمیز کتب لکھیں یاد رہے ان میں ابو ہریرہ سے اتنی کثیر تعداد میں جو احادیث لی گئی ہیں جب کے حضرت عمر ان کوروایات حدیث لکھنے سے منع کرتے تھے اور بھی بہت سخت الفاظ اور عمل ہے حضرت عمر کا ابو ہریرہ کے بارے جس کو بیان کرنے کی ابھی ضرورت نہیں ہے [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]اس ریسرچ میں کوئی کمی بیشی ہو سکتی ہے
اسی طرح اسی صحیح بخاری مین خارجی عمران بن ہتاننامخرجی کی روایت کو جب دیکھتا ہوں تو بہت افسوس ہی نہیں دکھ ہوتا ہے کے اسمٰعیل بخاری نے بغض علی کی حد کر دی پہلے تو غدیر کی حدیث کو اپنا ہاں جگہ نہیں دی اور پھر ایک ایسے خارجی جس نے مولاے متقیان کے قاتل ابن ملجم کی شان مین قصیدہ کہا اس کو اپنی کتاب میں ایک راوی کی حثیت سے جگہ دی آپ بھی دیکھیں اور فیصلہ کریں کے کیا یہ حب ہے علی علیہ سلام سے ؟



SfEQhfN.jpg


kMQcLFy.png


t4ROrqy.png
[FONT=Calibri,sans-serif]


[/FONT]
pmfL6FA.png


llnwpe0.png

lbap2NK.png


gkS72EL.jpg



[/FONT]
 

SachGoee

Senator (1k+ posts)
بخاری کی نو جلدون میں کل روایات 7048 ہیں .


امی جان حضرت عایشہ سے روایات ١٢٥٠ یعنی کے 17 اشاریہ ٦٨ فیصد ہیں


ابو ہریرہ سے روایات ١١٠٠ جو کے ١٥اشاریہ ٥٦ بنتی ہیں


عبداللہ ابن عمر سے بھی [FONT=Calibri,Arial,Helvetica,sans-serif,Apple Color Emoji,Segoe UI Emoji,NotoColorEmoji,Segoe UI Symbol,Android Emoji,EmojiSymbols]١١٠٠ جو کے ١٥اشاریہ ٥٦ بنتی ہیں[/FONT]


انس بن مالک ٩٠٠ کے لگ بھگ جو کے ١٢ اشاریہ 73 فیصد بنتی ہیں


عبداللہ ابن عباس نے 700 کے قریب روایات کی ہیں جو کے ٩ اشاریہ ٩ فیصد کے قریب بنتی ہیں


جابر بن عبداللہ 275 کے قریب روایات کی ہیں جو کے ٣ [FONT=Calibri,sans-serif] اشاریہ ٨٩ بنتی ہیں [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]ابو موسیٰ عشری نے ١٦٥ جو کے ٢ اشاریہ ٣٣ فیصد بنتی ہیں [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]ابو سیعد الخدری ان سے ان سے ١٣٠ روایات لی ہیں جو کے ١ اشاریہ 84 فیصد بنتی ہیں [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]مولا علی ابن ابی طالب علیہ سے صرف اور صرف 79 روایات لی ہیں جو کے ١ اشاریہ ١١ فیصد بنتی ہیں [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]عمر ابن خطاب سے صرف اور صرف ٥٠ روایات لی ہیں جو کے صرف ١ فیصد بنتی ہیں لگ بھگ [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]امی جان حضرت ام سلمہ ام المومنین سے صرف اور صرف 48 روایات لی گئی ہیں جو کے ١ فیصد کے لگ بھگ بنتی ہیں [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]عبداللہ ابن مسعود سے صرف 45 روایات لی گئی ہیں جو کے ١ فیصد کے قریب بنتی ہیں [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]معاویہ ابن ابی ہندہ سے 10 روایات لی ہیں جو کے اشاریہ 14 فیصد بنتا ہے [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]امام حسن مجتبیٰ علیہ سلام سے صرف ٨ روایات ملی ہیں جو کے اشاریہ ١١ فیصد بنتی ہیں [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]امام حسین علیہ سلام سے صرف دو روایات مجھے ملی ہیں جو کے اشاریہ ٣ فیصد بنتا ہے [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]یہ کل ملا کر ان تمام راویان کی ٨٣ فیصد بنتی ہیں [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]
[/FONT]

[FONT=Calibri,sans-serif]حضرت عایشہ ابن عمر اور ابو ہریرہ سے 48 اشاریہ ٨ فیصد کے قرین بنتی ہیں یہ لمحہ فکریہ ہے [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif] اس سےیہ بات ثابت ہوتی ہے کے اصل میں یہ جتنے لوگ جنہوں نےبخاری جی سمیت کتب لکھیں ان کو روایات جن سے لینی تھیں ان سے لی گئی ہیں جو کے نہ تو خلفاء سلاسہ سے تھے نہ ہی اہلبیت خاص طور پر مولاے متقیان علی ابن ابی طالب سے یاد رہے کے یہی بخاری شریف ہے جس نے غدیر کی حدیث کو قوٹ نہیں کیا یا کم از کم مجھے نہیں ملی یہ روایت صحیح بخاری میں جب کے برادران اہلسنت کی تقریبن تمام کتب میں وہ حدیث سند کے ساتھ موجود ہے یہی بخاری شریف ہے جس نے نبی پاک کی گھریلو زندگی کے بارے ایسی ایسی گھمراه کن حدیثیں گھڑیں کے جن کو بنیاد بنا کے سلمان رشدی اور دوسرے ملعون نے توہین آمیز کتب لکھیں یاد رہے ان میں ابو ہریرہ سے اتنی کثیر تعداد میں جو احادیث لی گئی ہیں جب کے حضرت عمر ان کوروایات حدیث لکھنے سے منع کرتے تھے اور بھی بہت سخت الفاظ اور عمل ہے حضرت عمر کا ابو ہریرہ کے بارے جس کو بیان کرنے کی ابھی ضرورت نہیں ہے [/FONT]
[FONT=Calibri,sans-serif]اس ریسرچ میں کوئی کمی بیشی ہو سکتی ہے
اسی طرح اسی صحیح بخاری مین خارجی عمران بن ہتاننامخرجی کی روایت کو جب دیکھتا ہوں تو بہت افسوس ہی نہیں دکھ ہوتا ہے کے اسمٰعیل بخاری نے بغض علی کی حد کر دی پہلے تو غدیر کی حدیث کو اپنا ہاں جگہ نہیں دی اور پھر ایک ایسے خارجی جس نے مولاے متقیان کے قاتل ابن ملجم کی شان مین قصیدہ کہا اس کو اپنی کتاب میں ایک راوی کی حثیت سے جگہ دی آپ بھی دیکھیں اور فیصلہ کریں کے کیا یہ حب ہے علی علیہ سلام سے ؟



SfEQhfN.jpg


kMQcLFy.png


t4ROrqy.png
[FONT=Calibri,sans-serif]


[/FONT]
pmfL6FA.png


llnwpe0.png

lbap2NK.png


gkS72EL.jpg



[/FONT]


Ye koi masla hai he nai.


Hazrat Ayesha RA se rawayaat zayada honay ki wajah ye k unhoun ne sub se zayada time guzaara Hazur Pbuh k saath aor unki pbuh wafaat k baad b kaafi saal hayaat raheen so unn ki wafaat aor bukhaari ki ashaat pe waqt kum tha banisbat dusroun k.


Dusri baat ye k hazrat ayesha RA ki baaqi Azwaaj e mutahraat ki nisbat zayada vocal personality thee. Iss mein b koi aetraaz ki baat nai hai.


Hazrat Abu Huraira RA had exquisite memory and he had a habbit of sticking with He Pbuh the maximum possible time. This is why max narrations are from him RA.


Quran directly adresses many issues which ahadees also address while incass of things Quran doesn't address it Addresses the basic principles directly.


So if you have objection to any hadith content narrated by Hazrat Ayesha RA or Hazrat Abu Huraira RA the health of that hadith has to weighed in the weighing balance (Quran).


If any Quranic verse directly or any quranic principle indirectly say something to which the hadith says totally contrary than whether that Hadith is narrated by Hazrat Ayesha RA, Hazrat Abu Huraira RA , Hazrat Ali or anyone else that Hadith has to be rejected as un Authentic or False narration or a misunderstanding or confision on part of narrator or the chain. So since Quran is in original state and superior so it will be given preference and it will over rule hadith.


While in case of hadith saying that in future these events will happen. If on earth those events happen in future than the truth and authencity of that hadith is verified by the event that took place on earth. Even if that hadith is mentioned in Shia literature with Hazrat Ali RA as narrator that hadith has to be accepted as authentic and true by all 73 sects of Islam because that's what honesty and dignity demands.


So one cannot reject ahadees which doesn't suit him or his beliefs or accept those which suits him or his beliefs. Rather judge hadith's health by the principles set by Islam.
 

SachGoee

Senator (1k+ posts)
Pass Mazhab e Aslam yehi hai k na tou iss zamana k Ehl e Hadith ki tarah hadeesoun ki nisbat ye aetqaad rakha jaey k Quran per wo muqaddam hein aor neez agar unn k qissay sareeh quran k bayanaat se mukhaalif parrein tou aesa na kerein k hadeesoun k qissoun ko quran per tarjeeh dee jaaway aor Quran ko diya jaaey aor na hadeesoun ko moulvi abdullah chakraalwee k aqeeda ki tarah mehuz laghww aor baatil thehraya jaaey balkay chaheeay k quran aor sunnat ko hadeesoun per qaazi samjha jaaey aor jo hadees Quran aor Sunnat k mukhaalif na ho uss ko ba-sir o chashm qabool kiya jaaway yehi siraat e mustaqeem hai. Mubaarik wo jo iss k paaband hotay hein. Nehayat budqismatt aor naadaab wo shakhs hai jo bagheir lehaaz iss qaida k hadeesoun ka inkaar kerta hai.

Hamara ye farz hona chaheeay k agar koi hadees moaarif aor mukhaalif quran o sunnat na ho tou khoa kesay je adma darja ki hadith ho uss per amal kerein aor insaan ki bnaee hui fiqaa per uss ko tarjeeh dein. Aor agar hadees mein koi masla na millay aor na sunnat mein aor na Quran mein mil sakay tou iss soorat mein fiqa e hanfi pe amal kerein kyun k iss fiqa ki kasrat khuda k iraada per dalalat kerti hai aor agar baaz mojooda taghaeeuraat ki wajah se fiqa e hanfi koi saheeh fatwa na de sakay tou iss surat mein ulema iss silsila k apne khudadaad ijtehaad se kaam lein.
 

انجام

MPA (400+ posts)
برادر عزیز بہت بہت شکریہ آپ کا جواب دینے کا دیر سویر کا کوئی بات نہیں ہم سب مشغول ہوتے ہیں دنیاوی کاموں میں بھی پر جب کوئی ٹاپک شروع ہو جاے تو مزا تبھی آتا ہے جب جواب در جواب بغیر کسی تاخیر کے ہوں
برادر عزیز اس وقت دنیا میں صرف شیعہ وہی کہلاتے ہیں جو کے اثناء عشری کہلاتے ہیں باقی جتنے بھی غالی تھے ان سے ہم نے ہمیشہ کے لیے برأت رکھی ہے یہی مولا کا فرمان بھی ہے پر افسوس ہے کے اہلسنت برادران نے نواصب کو ابھی تک اپنی صفوں میں شامل رکھا ہے جب کے اصل اہلسنت خوش العقیده ہوتے ہیں اور وہ اہلبیت پنجتن پاک سے محبت رکھتے ہیں
دوسری بات برادر عزیز اگر آپ سمجھتے ہیں کے دوسرے اماموں میں سے کچھ امام ابو حنیفہ کے شاگرد تھے اور ہمارے اہلسنت برادران اسی بنیاد پر ان کو امام اعظم تسلیم کرتے ہیں جو کے سرا سر نہ انصافی ہے کیوں کے امام ابو حنیفہ خود امام صادق اکہ سلام کے شاگرد تھے اور انہوں نے بھی سنت عمر کو جاری رکھتے ہوے فرمایا کے اگر میں یہ دو سال ابو جعفر کی شاگردی میں نہ گزارتا تو ہلاک ہو چکا ہوتا تو آخر کیوں آپ حضرت امام اعظم کی سنت پر عمل پیرا نہیں ہیں اور فقہ جعفریہ کو کیوں نہیں قبول کیا گیا یا یوں کہوں کے جو چار فقہ کو سواد اعظم کہا گیا تو پانچویں کیوں نہیں ؟ جب کے امام صادق علم فضل حسب نسب میں ان سب سے زیادہ افضل تھے ہونا تویہ چاہیے تھا کے سب ان کو مانتے اور یہ عین فرمان رسول ہے کے میرے اہلبیت سفینہ کشتی نوح ہیں جو ان پر سوار ہوا وہ کامیاب ہو گیا اور کیا پھر یہ نہیں فرمایا کے میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک قران اور دوسرے میرے اہلبیت تو پھر کیوں سواد اعظم نے رسول کے اس فرمان کو کیوں نہیں مانا ؟ فرمان رسول خدا جو کے خود کچھ نہیں اپنی طرف سے کہتا جو بھی کہتا ہے وہ میں حب آل محمد کی نہیں ان کی پیروی کی ہو رہی ہے


آپ کا یہ فرمانا کہ غالی سے آپ نے نجات پالی ہے یہ تو اسی فورم پر ہی دیکھا جا سکتا ہے۔جیسا کہ پیچھے گزر چکا۔
امام اعظم نے صرف امام جعفر صادق کی ہی شاگردی نہیں کی بلکہ امام محمد باقر اور انکے بھائی امام زید کے تلمیذ بھی رہے۔
کچھ عرصہ قبل امام زید سے مروی احادیث و آثار کا مجموعہ پاکستان میں ارود میں شائع ہوا۔ اس کی اکثرروایات فقہ حنفی کی تائید کرتی ہیں۔ انہی سے ایک فرقہ زیدیہ بھی منسوب ہے۔ یہ فرقہ اس دور میں بھی یمن میں موجود ہے۔ اہل تشیع میں یہ سب سے معتدل فرقہ ہے۔ اس کے اعمال بھی اہلسنت کے نہایت قریب تر ہیں۔ اور پھر اہلسنت میں فقہ حنفی کے۔
نیز تشیع کے بہت سارے گروہ ہیں۔ انمیں سے ایک اسماعیلی ہیں۔ جو پاکستان میں بھی ہیں۔ کتب میں 30 سے زائد شیعہ فرقوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔

اہلسنت تو ہوتے ہی وہ ہیں جو اہلبیت سے پہلے محبت رکھیں پھر انکے ساتھ صحابہ سے بھی محبت رکھیں ۔ جیسے شیعہ کے بہت سارے گروہ ہیں ویسے ہی بہت سارے گروہوں نے بھیس بدل کر اہلسنت کا لبادہ اوڑھ کر اپنا بچاؤ کر رکھا ہے۔ وہ اپنی حرکتوں ، کرتوتوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کو اہلسنت نے اپنے اندر شامل نہیں کیا بلکہ وہ خؤد گھس بیٹھئے ہیں۔
آپ کا یہ فرمانا کہ امام ابو حنیفہ کے نام کے ساتھ امام اعظم لگانا امام جعفر صادق کے ساتھ زیادتی ہے۔ جناب ایسا آپ کی سوچ ہو سکتی ہے۔ مری رائے یہ ہے کہ سخی اپنی سخاوت سے کسی کو محروم نہیں کرتا۔ یہ تو عام سخی کی بات ہے ۔ جبکہ وہ گھرانہ تو سردار سخاوت ہے۔ امامت ، تقوی ، طہارت ،علم و فضل وہاں سے تقسیم ہوتے ہیں۔
لہذا یہ گھرانہ نام کا ہی نہیں بلکہ حقیقتا دل کا بھی سخی ہے۔ انکو بڑے ناموں اور القابات کی حاجت نہیں۔
میرے نزدیک یہ بھی انکی عظمت ہے کہ امت کا سب سے بڑا امام کہلانے والا خود کو انکے در کا گدا کہتا ہے۔ یہی اسکی عظمت کی پہچان بھی ہے۔
یہاں تو ہر کسی کو خیرات ملتی ہے۔ تو ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کو امام اعظم کے نام کی خیرات ملی تو یہ انکی خدمت دین کا صلہ ہے۔ کیونکہ یہ کسی کا احسان بھی باقی نہیں رکھتے۔

آپ کے اگلے سوال کا جواب بھی در زہرا سے ہی ملتا ہے کہ جب فتنوں کا دور آجائے حق و باطل میں تمیز مشکل ہو جائے تو سچائی کہاں تلاش کی جائے۔
زہرا کے نور عین امام زین العابدین فرماتے ہیں فتنوں کے دور میں حق کی تلاش کے لئے امت کے سواد اعظم کے ساتھ جڑ جاؤ۔ انکی پہچان شریعت پر عمل کے ساتھ انکا شعار کثرت درودو سلام ہوگا۔

چار کی قبولیت میں پانچویں کا رد کیوں؟ تو جناب تحقیق کریں ۔ یہ جھگڑا امام جعفر صادق پر نہیں بلکہ انکے نام کے غلط استعمال پر ہوگا۔
یاد رکھیں سچائی تک پہنچنے کے لئے 2طرفہ آراء کو دیکھنا پڑتا ہے۔ یکطرفہ رائے کبھی بھی منزل مقصود نہیں دیتی۔

 

SachGoee

Senator (1k+ posts)
For those kids between the age of 7 - 20 an introduction to Imam e Aazam rehmatullah aleh.


امامِ اعظم حضرت ابو حنیفہؒ

مسلمان حاکم ہارون الرشید عبّاسی کے دو بیٹے تھے۔ اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو ایک بزرگ استاد کے پاس پڑھنے کے لیے بٹھایا۔ ایک دن حاکم کے دل میں خیال آیا کہ مجھے استاد صاحب کے پاس جا کر اپنے بیٹوں کی پڑھائی کے بارے میں معلوم کرنا چاہیے۔ حاکم استاد صاحب کی ملاقات کے لیے گیا۔ جب استاد صاحب حاکم کے استقبال کے لیے اُٹھنے لگے تو دونوں شہزادے دَوڑکر اُٹھے اور اپنے استاد کی جوتی اس کے پاؤں کے آگے رکھنے میں پہل کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایک شہزادے کی خواہش تھی کہ پہلے مَیں جوتی رکھوں اور دوسرے شہزادے کی خواہش تھی کہ یہ کام پہلے مَیں کروں۔ حاکم نے جب استاد کے احترام کا یہ منظر دیکھا۔ تو اس نے استاد صاحب سے کہا کہ “آپ جیساآدمی مر نہیں سکتا”

پیارے بچو! اس چھوٹی سی کہانی سے تم نے کیا سبق سیکھا؟ یہی ناکہ ہمیں اپنے بزرگوں اور استادوں کا احترام اور ان کی عزت کرنی چاہیے۔

بچو! سچّی بات تو یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی قوم اس وقت ہی زندہ قوم کہلاسکتی ہے جب اس قوم کے بچوں اور نوجوانوں میں یہ خواہش پیدا ہو کہ جو بڑے بڑے اور اچھے اچھے کام ہمارے بزرگوں نے کیے ہیں وہی کام بلکہ ان سے بڑھ کر کام کرنے کی ہم کوشش کریں۔ جب تمہارے دل میں اپنے بزرگوں جیسا بننے کی خواہش پیدا ہوگی تو یقینا تم ان کی زندگی کے حالات اور ان کے کارناموں کے بارے میں بھی جاننا چاہو گے۔

آؤ! آج مَیں تمہیں اسلامی تاریخ کے ایک بہت بڑے بزرگ اور عالمِ دین “امام اعظم ابو حنیفہؒ “ کی زندگی کے حالات اور ان کے کارناموں اور ان کی شخصیت کے بارے میں پیاری پیاری باتیں بتاتی ہوں:

بچو!کوفہ ایک بہت ہی پیارا شہر ہے۔ پتہ ہے!جب عرب کے مسلمان بہت زیادہ ترقی کرگئے اور یہاں کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا تو حضرت عمرفاروقؓ نے حضرت سعدبن ابی وقاصؓ کو ایک خط لکھا کہ مسلمانوں کے لیے ایک شہر بساؤ۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور کسریٰ کی زبردست حکومت کو بھی آپ ہی کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ آپ نے مسلمانوں کا شہر بسانے کے لیے کوفہ کی زمین کو پسند کیا۔ 17ھ میں اس شہر کی بنیاد رکھی گئی۔ بہت سادہ اور معمولی قسم کے مکانات بنائے گئے۔ عرب کے مختلف قبیلے اس شہر میں آکر آباد ہونے لگے۔ تھوڑے ہی دنوں میں اس شہر نے بہت مقبولیت حاصل کرلی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس شہر کو دارالخلافہ قرار دیا۔ اس شہر میں جن بزرگوں نے سکونت اختیار کی ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ بدر میں شامل ہونے والے صحابہؓ بھی تھے۔

بچو! ان بزرگوں کی وجہ سے کوفہ نے مکّہ معظمہ اور مدینہ منوّرہ کی طرح “دار العلم” یعنی علم کے گھر کی حیثیت اختیار کی۔

اسی علم کے گھر یعنی کوفہ میں ہمارے پیارے بزرگ حضرت امام ابو حنیفہؒ 80ھ میں پیدا ہوئے۔ 80ھ عبدالملک بن مروان کا عہدِ حکومت تھا۔ یہ زمانہ قرونِ اولیٰ (ابتدائی زمانہ) کہلاتاہے۔

بچو! یہ تو تم جانتے ہوکہ قرونِ اولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کا زمانہ تھا۔ ہمارے پیارے امام ابو حنیفہؒ کتنے خوش قسمت تھے کہ آپ نے اس مبارک زمانہ کو پایا جس میں کچھ صحابۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود تھے۔

بچو! حضرت امام ابو حنیفہؒ کا اصل نام نعمان تھا۔ آپ کا قد درمیانہ اور چہرہ خوبصورت تھا۔ آپ کے دادا کا نام زوطی اور والد کا نام ثابت تھا۔ آپ کا خاندان ایران کا ایک مشہور اور باعزّت خاندان تھا۔ جب ایران میں اسلام پھیلنا شروع ہوا تو آپ کے دادا زوطی نے اسلام قبول کرلیا۔ گھر اور خاندان والوں نے ناراضگی کا اظہار کیا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر عرب تشریف لے آئے۔ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حکومت کا زمانہ تھا۔ آپ کے دادا کوفہ میں ٹھہر گئے۔ یہیں پر حضرت امام ابو حنیفہؒ کے والد ثابت پیدا ہوئے جنہیں حضرت امام ابو حنیفہؒ کے دادا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں پیار کیا اور ان کے لیے دعابھی کی۔ آپ کے والد تجارت کیا کرتے تھے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ کی پیدائش کے وقت ان کے والد کی عمر چالیس سال تھی۔

حضرت امام ابو حنیفہؒ کے بچپن کے زمانہ میں عرب کے سیاسی حالات بہت خراب تھے۔ عبدالملک بن مروان نے حجّاج بن یوسف کو عراق کا گورنر مقرر کیا۔ حجّاج بن یوسف بہت ظالم گورنر تھا۔ عبدالملک بن مروان کے بیٹے ولید کے عہدِ حکومت میں 95ھ میں اس کا انتقال ہوا۔ ایک سال کے بعد ولید کا بھی انتقال ہوگیا۔

ہمارے پیارے بزرگ امام ابو حنیفہؒ کاتمام بچپن ایسی حالت میں گذراکہ ملک کے سیاسی حالات بہت خراب تھے۔ امن وامان نہیں تھا۔ قرآن کریم حفظ کرلینے کے بعد ابھی دین کا علم سیکھ رہے تھے اور علمی بحثیں کرتے تھے۔ ایک دن کیا ہوا کہ حجّاج بن یوسف کا زمانہ تھا، امام صاحب بحث میں مصروف تھے کہ ایک شخص نے آپ سے خالص دینی فرائض کے بارے میں ایک مسئلہ پوچھا۔ اب بچو! آپ نے دینی علوم تو حاصل کیے ہی نہیں تھے اس لیے اس کو کوئی جواب نہیں دے سکے۔ وہ شخص کہنے لگا آپ بحثیں تو بہت لمبی لمبی کرتے ہیں مگر ایک دینی فریضہ تک کا آپ کو پتہ نہیں۔ امام صاحبؒ یہ سن کر بہت شرمندہ ہوئے اور ارادہ کر لیا کہ اب مَیں دین کا علم حاصل کروں گا۔

بچو! ولید کے انتقال کے بعد حکومت سلیمان بن عبدالملک کے حصّے میں آئی جو ولید کا سگا بھائی تھا۔ وہ بہت ہی نیک اور علم سے محبت رکھنے والا انسان تھا۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کو اپنا مشیر خاص بنایا۔ پھر باوجود اس کے کہ اس کے اپنے بھائی اور بیٹے موجود تھے اس نے حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کو ولی عہد منتخب کیا۔ سلیمان بن عبدالملک کی حکومت کے زمانہ میں لوگوں کی توجہ مذہبی اور علمی گفتگو کی جانب ہوئی۔ امام ابو حنیفہؒ کے دل میں بھی خالص دینی علم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوچکا تھا۔ بحث ومباحثہ سے آپ کی طبیعت بیزار ہوچکی تھی۔ اس وقت آپ کی عمر17سال تھی۔ آپ اپنے والد کی طرح تجارت کیا کرتے۔ اپنی دیانتداری کی وجہ سے آپ نے تجارت میں بہت ترقی حاصل کی۔

بچو! ایک دن کسی تجارتی کام کی غرض سے آپ بازار جانے کے لیے گھر سے نکلے۔ راستہ میں امام شعبیؒ کامکان تھا۔ آپ کوفہ کے ایک بہت بڑے امام تھے۔ امام شعبیؒ نے ابو حنیفہؒ کو دیکھا تو اپنے پاس بلایا اور پوچھا۔ کہاں جارہے ہو؟

آپ نے جواب دیا کہ میں تجارتی کام سے بازار ایک سوداگر کے پاس جارہا ہوں۔ امام شعبیؒ نے پھر پوچھا کہ میرا مطلب ہے کہ تم کس سے پڑھتے ہو؟ آپ نے جواب دیا۔ کسی سے بھی نہیں پڑھتا۔ اس پر امام شعبیؒ نے فرمایا “تمہیں چاہیے کہ عالم لوگوں کے ساتھ بیٹھا کرو اور علم حاصل کیاکرو۔”

بچو! اصل میں بات یہ تھی کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ شکل سے تاجر لگتے ہی نہ تھے۔ آپ فضول گفتگو بالکل نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی سوال کرتا تو نہایت ادب اور احترام کے ساتھ اسے جواب دیتے۔ یہی وجہ تھی کہ جو کوئی بھی آپ کو دیکھتا وہ تاجر کی بجائے آپ کو طالب علم سمجھتا تھا۔ امام شعبیؒ کی بات نے آپ کے دل پر بہت اثر کیا اور آپ نے دل میں پکّا فیصلہ کرلیا کہ اب مَیں عالم لوگوں کے ساتھ بیٹھوں گا اور دین کا علم حاصل کروں گا۔

بچو! تم نے یہ پیاری حدیث بھی سُنی ہوگی کہ طالب علم کے راستے میں فرشتے اپنے پَر بچھا دیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جوشخص بھی علم حاصل کرناچاہتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے ذریعہ اس کی مدد کرتاہے۔ حضرت امام صاحب نے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی مدد کے ساتھ علم حاصل کرنا شروع کیا۔ اس زمانہ میں علم حاصل کرنے کا طریقہ یہ تھاکہ اساتذہ کسی خاص مسئلہ پر طالب علموں کے سامنے تقریر کیا کرتے پھر طالب علم کو جوبات سمجھ نہ آتی وہ ان سے پوچھ لیا کرتے اور ساتھ ہی اسے لکھ بھی لیتے تھے۔

کوفہ میں امام حمادؒ کی درس گاہ بہت بڑی اور مشہور تھی۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ نے بھی اسی درس گاہ کا انتخاب کیا اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ تم میں سے اکثربچوں کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ فقہ کا علم کسے کہتے ہیں؟ آؤ مَیں تمہیں سمجھاؤں کہ فقہ کا علم کیاہوتاہے؟

دیکھو بچو! ہمارے پیارے اللہ میاں نے تمام دنیا کی ہدایت کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید جیسی پیاری اور مکمل کتاب نازل فرمائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ دیکھو! قرآن کریم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے نام ایک بہت پیارا خط لکھا ہے اور مجھے اس کام پر مقرر کیاہے کہ مَیں یہ خط پڑھ کر تمہیں سناؤں اور تمہیں سمجھاؤں۔ اب جو بات بھی میں کہوں یا جو عمل بھی مَیں کروں تو سمجھ لینا کہ وہ بات اور وہ عمل مَیں نے خدا کے حکم کے مطابق کیاہے۔ دینی یا دنیاوی معاملہ میں اگر تمہیں کوئی مشکل پیش آئے تو قرآن کریم اور میری بات اور عمل کے ذریعہ اس مشکل سے نجات حاصل کرلینا۔

بچو! جب ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپؐ لوگوں کو زبانی بھی سمجھا دیا کرتے اور اس حکم پر عمل کرکے رہنمائی فرما دیتے تھے۔ آپؐ کی وفات کے بعد بھی جب کبھی کوئی مسئلہ پیش آجاتا تو صحابہ غور کرتے کہ اس بارے میں قرآن کا کیا حکم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے اورآپؐ کا اس بارے میں کیا عمل اور ارشاد تھا۔ اس طرح قرآن، سنّت اور حدیث کی روشنی میں وہ اپنے علم کے مطابق مسائل حل کیاکرتے تھے۔




To be Continued.........


پیارے بچو بھاءیو بہنو امام اعظم کی قست دوءم حاضر ہے


بچو! اب تو تمہاری سمجھ میں یہ بات آگئی ہوگی کہ “فقہ اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں مختلف قسم کے مسائل کے متعلق حل بیان کیے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ وضو اس طرح کرنا چاہیے، نماز اس طرح پڑھنی چاہیے۔ اسی طرح زکوٰۃ، روزہ، حج، نکاح کے علاوہ لین دین اور ورثہ اور روزمرہ کے مسائل۔ بچے کی ولادت سے لے کراس کی وفات تک کے مسائل کو علم فقہ کے ذریعہ بتایا گیاہے۔”

فقہ کا علم جاننے والا فقیہ کہلاتاہے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ فقہ کے علم کو جاننے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ حدیث اور قرآن کریم کا علم اچھی طرح آتا ہو۔ اس لیے آپ نے قرآن کریم اور حدیث کا علم بھی حاصل کیا۔ آپ نے کوفہ میں کوئی ایسا محدث یعنی حدیث بیان کرنے والا نہیں چھوڑا جس سے آپ نے حدیث کا علم حاصل نہ کیاہو۔ حدیث کے متعلق علم حاصل کرنے کے لیے آپ بصرہ اور شام بھی تشریف لے گئے۔ امام حمادؒ کے علاوہ آپ نے فقہ کا علم حضرت امام جعفرصادقؒ سے بھی سیکھا حضرت امام اعظم نے امام حمادؒ سے فقہ کا علم اتنا سیکھ لیا تھا کہ ایک بار امام حمادؒ نے فرمایا کہ:۔

“اے ابو حنیفہ! تو نے مجھ کو خالی کردیا۔”

یعنی جتنا علم میرے پاس تھا تو نے وہ سب حاصل کرلیا۔ آپ کے استاد امام حمادؒ آپ سے بہت محبت کرتے تھے ایک بار امام حمادؒ سفر پر گئے۔ کچھ دن بعد واپس آئے تو آپ کے صاحبزادے اسمٰعیل نے آپ سے پوچھا: ابّاجان! آپ کو سب سے زیادہ کس کو دیکھنے کا شوق تھا؟ انہوں نے فرمایا: ابو حنیفہ کو دیکھنے کا۔ اگر یہ ہوسکتا کہ مَیں کبھی نگاہ ان کے چہرے سے نہ ہٹاؤں تو یہی کرتا۔ امام ابو حنیفہ سے محبت اور ان کے علم و ذہانت کی وجہ سے ایک بار جب امام حمادؒ سفر پر روانہ ہوئے تو اپنی جگہ امام ابو حنیفہ کو بٹھا گئے۔

کوفہ میں حضرت امام ابو حنیفہؒ نے امام حمادؒ سے فقہ اور حدیث کا علم سیکھا۔ لیکن ان کاخیال تھا کہ اب مجھے مکّہ معظمہ جانا چاہیے اس لیے کہ وہ تمام مذہبی علوم کا اصل مرکز ہے۔ چنانچہ آپ مکّہ معظمہ پہنچے اور مزید علم حاصل کرنے کے لیے عطاء بن ابی رباحؒ کی درس گاہ کا انتخاب کیا۔ عطاء بن ابی رباحؒ مشہور تابعین میں سے تھے۔ تابعین سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے صحابہ کرامؓ کا زمانہ پایا ہو اور ان سے ملاقات کی ہو۔ یہاں پر بھی آپ نے اپنے علم اور ذہانت کی وجہ سے جلد ہی استاد محترم کے دل میں اپنے لیے محبت پیدا کرلی۔

یہ تو امام صاحبؒ کے بچپن اور ان کی تعلیمی زندگی کا مختصر حال تھا۔ چلو اب دیکھتے ہیں کہ امام اعظمؒ نے علم حاصل کرنے کے بعد عملی زندگی کس طرح بسر کی۔

امام صاحبؒ کو اپنے استاد امام حمادؒ سے بہت محبت تھی اس لیے ان کی زندگی میں آپ نے یہ گوارہ نہ کیا کہ اپنا الگ سکول قائم کریں۔ امام صاحبؒ کی اپنے استاد محترم کے ساتھ محبت کا اندازہ تم اس بات سے لگا سکتے ہو کہ جب تک امام حمادؒ زندہ رہے حضرت ابو حنیفہؒ نے ان کے مکان کی طرف کبھی پاؤں نہیں پھیلائے۔ 120ھ میں امام حمادؒ کا انتقال ہوگیا امام حمادؒ کے انتقال کے بعد لوگوں نے امام صاحبؒ سے درخواست کی کہ اب آپ درس دیا کریں۔ آپ نے شروع میں تو انکار کیا مگر جب لوگوں کا اصرار بڑھ گیا تو آپ اپنے استاد محترم امام حمادؒ کے سکول میں ہی درس دینے لگے۔

جب امام اعظمؒ نے درس دینا شروع کیا توایک دن خواب میں دیکھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کھود رہے ہیں اور آپؐ کی مبارک اور پاک ہڈیوں کو جمع کررہے ہیں۔ امام اعظمؒ اس خواب کو دیکھ کر ڈر گئے اورسمجھنے لگے کہ شایدمَیں درس دینے کے قابل نہیں ہوں۔ آپؒنے امام ابنِ سیرینؒ جو کہ خوابوں کی تعبیر کا علم جانتے تھے اور اس علم میں امام اور استاد تھے ان سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے فرمایاکہ “اس خواب کو دیکھنے والا شخص مردہ علم کو زندہ کرے گا۔”

جب آپ کو خواب کی تعبیر معلوم ہوگئی توآپ اطمینان کے ساتھ درس دینے میں مشغول ہوگئے۔ شروع شروع میں توصرف امام حمادؒ کے شاگرد درس میں شامل ہوتے تھے۔ لیکن چند دنوں میں ہی آپ کی شہرت اتنی زیادہ ہوگئی کہ کوفہ میں موجود اکثر دوسری درس گاہں بھی ٹوٹ کر آپ کے حلقۂ درس میں شامل ہوگئیں۔ دُور دراز کے مقامات سے لوگ علم حاصل کرنے کے لیے آپ کی درس گاہ میں آنے لگے۔ ان مقامات میں مکّہ، مدینہ، دمشق، بصرہ، رملہ، یمن، مصر، بحرین، بغداد، ہمدان، بخارا، سمرقند وغیرہ کے طالبعلم شامل تھے۔

امام ابو حنیفہؒ کے زمانہ میں بنواُمیّہ کی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور عباسی حکومت قائم ہوگئی۔ عباسی خاندان کا پہلا حاکم ابوالعباس عبداللہ تھا۔ وہ اس قدرظالم تھا کہ لوگ اسے سفّاح یعنی خونی کہنے لگے۔ اُس نے کُل چار سال حکومت کی۔ 132ھ میں اس کا بھائی ابوجعفر المنصور تختِ حکومت پر بیٹھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب اسلام کی تعلیم عرب سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل رہی تھی مگر جو لوگ اسلام کے دشمن تھے وہ تو اسلام کی ترقی دیکھ ہی نہیں سکتے تھے نا! اس لیے انہوں نے نئے نئے عقیدے بنانا شروع کردیے اور تو اور وہ حدیثیں بھی اپنی طرف سے ہی بنا لیتے تھے۔ حاکم منصور چاہتا تھا کہ جتنے بھی عالم لوگ ہیں وہ میرے دربار میں آئیں۔ انہیں سرکاری عہدے بھی دیے جائیں گے۔ مثلاً یہ کہ علمائے کرام کو قاضی کا عہدہ دیاجائے گا مگر فیصلہ وہی ہوگا جو وہ خودچاہے گا۔

یہ سب کچھ اس لیے ہورہا تھا کہ مُلک میں کوئی ایسا قانون نہیں تھا جس کے مطابق حکومت کے فیصلے کیے جاتے۔ امام اعظمؒ نے جب یہ تمام حالات دیکھے تو اس موقع پر اپنی سمجھ اور ذہانت سے کام لیا اور انسانی ضروریات کے متعلق ایک اسلامی قانون قرآن اور سنّت کی روشنی میں قائم کیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا کرم تھا کہ اس نے امام اعظمؒ کوا س عظیم دینی خدمت کی توفیق عطا فرمائی۔

ابوجعفر منصور کے دَورِ حکومت میں اس کے ظلم اور زیادتیوں کے خلاف مدینہ میں محمد بن عبداللہ نے حاکم ہونے کا دعویٰ کیا۔ محمدبن عبداللہ عالمِ دین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بہادر اور دلیر تھے۔ جب آپ نے حاکم ہونے کا دعویٰ کیا تو امام اعظمؒ نے ان کی حمایت کی۔ کوفہ کے لوگ بھی ان کے ساتھ ہوگئے۔ ابتداء میں محمدبن عبداللہ نے نہایت بہادری اور دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا۔ آخر کار شہید ہوگئے۔ اس کے بعد ان کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ نے ان کی جگہ لی۔ ابراہیمؒ بھی بہت بڑے عالم تھے۔ کوفہ کے تقریباً ایک لاکھ آدمی ان کے ساتھ جان دینے کو تیار ہوگئے۔ انہوں نے ڈٹ کر نہایت بہادری کے ساتھ منصور کا مقابلہ کیا۔ مگر حلق میں تیر لگ جانے کی وجہ سے شہید ہوگئے۔

امام ابو حنیفہؒ نے منصور کے خلاف محمدبن عبداللہ اور ابراہیم بن عبداللہ کا ساتھ اس لیے دیا کہ آپ نے سفّاح کی حکومت کا زمانہ دیکھا پھر ابوجعفر منصور کے ظلم اور اس کی زیادتیوں کو دیکھا۔ آپ سمجھتے تھے کہ یہ لوگ حکومت کے اہل نہیں ہیں۔

پھر ایسا ہوا کہ جب منصور نے محمدبن عبداللہ اور ابراہیم بن عبداللہ کو شکست دے دی تو پھر ان لوگوں کی طرف توجہ کی جنہوں نے ان کا ساتھ دیا تھا۔ منصور کو علم تھا کہ امام صاحبؒ نے نہ صرف ان لوگوں کی حمایت کی بلکہ پیسہ سے بھی ان کی مدد کی ہے۔ منصور کوفہ آیا لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ کوفہ میں امام صاحبؒ سے محبت اور عقیدت رکھنے والے لوگ ہزاروں کی تعدادمیں موجود ہیں۔ اس لیے اس نے یہ چال چلی کہ امام صاحبؒ کو کوفہ سے بغداد بلایا جائے۔ پھر آپ کو قاضی کا عہدہ پیش کیا جائے۔ جسے وہ ہرگز قبول نہیں کریں گے پھر حاکم کے حکم کا انکار کرنے کی صورت میں انہیں آسانی کے ساتھ قید وبند میں ڈالا جاسکے گا۔
 

khan_sultan

Banned
Ye koi masla hai he nai.


Hazrat Ayesha RA se rawayaat zayada honay ki wajah ye k unhoun ne sub se zayada time guzaara Hazur Pbuh k saath aor unki pbuh wafaat k baad b kaafi saal hayaat raheen so unn ki wafaat aor bukhaari ki ashaat pe waqt kum tha banisbat dusroun k.


Dusri baat ye k hazrat ayesha RA ki baaqi Azwaaj e mutahraat ki nisbat zayada vocal personality thee. Iss mein b koi aetraaz ki baat nai hai.


Hazrat Abu Huraira RA had exquisite memory and he had a habbit of sticking with He Pbuh the maximum possible time. This is why max narrations are from him RA.


Quran directly adresses many issues which ahadees also address while incass of things Quran doesn't address it Addresses the basic principles directly.


So if you have objection to any hadith content narrated by Hazrat Ayesha RA or Hazrat Abu Huraira RA the health of that hadith has to weighed in the weighing balance (Quran).


If any Quranic verse directly or any quranic principle indirectly say something to which the hadith says totally contrary than whether that Hadith is narrated by Hazrat Ayesha RA, Hazrat Abu Huraira RA , Hazrat Ali or anyone else that Hadith has to be rejected as un Authentic or False narration or a misunderstanding or confision on part of narrator or the chain. So since Quran is in original state and superior so it will be given preference and it will over rule hadith.


While in case of hadith saying that in future these events will happen. If on earth those events happen in future than the truth and authencity of that hadith is verified by the event that took place on earth. Even if that hadith is mentioned in Shia literature with Hazrat Ali RA as narrator that hadith has to be accepted as authentic and true by all 73 sects of Islam because that's what honesty and dignity demands.


So one cannot reject ahadees which doesn't suit him or his beliefs or accept those which suits him or his beliefs. Rather judge hadith's health by the principles set by Islam.

دیکھو میاں قادیانی جو بھی ہے میں اختلاف کی بنا پر انکیساتھ زیادتی کے حق میں نھی ہوں پر جو تم لوگون نے اپنا نبی بنایا پھر کہانی بدل کر امام مہدی اور حضرت عیسیٰ بھی بن گئے تو میں تم لوگوں کو اسلام کے دائرے میں شامل نہیں کرتا ہوں ادھر مجھے بہت سارے لوگ کافر بدعتی کہتے ہیں پر مجھے اس سے کوئی تکلیف نہیں ہےیہ ان کا حق ہے میں ان سے بات کرتا ہوں اور دلیل سے پوری امت مسلمہ کا عقیدہ ہے کے امام مہدی اہلبیت سے بی بی فاطمہ سلام الله علیہ کی نسل سے ہوں گے پر تمنے مرزا کو جو کے منگولوں کی نسل ہے امام بھی بنا دیا عیسیٰ بھی اور نبی بھی اس لیے اس پر توبہ کرو اور پھر مجھ سے بات کرو جو سوال پوچھا تھا اس کا جواب دے بغیر لمبی لمبی کہانیاں دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے تم اپنے اہلسنت بھائیوں سے بات کرو کیونکے مرزا بھی پہلے سنی ہی تھا
 

SachGoee

Senator (1k+ posts)
دیکھو میاں قادیانی جو بھی ہے میں اختلاف کی بنا پر انکیساتھ زیادتی کے حق میں نھی ہوں پر جو تم لوگون نے اپنا نبی بنایا پھر کہانی بدل کر امام مہدی اور حضرت عیسیٰ بھی بن گئے تو میں تم لوگوں کو اسلام کے دائرے میں شامل نہیں کرتا ہوں ادھر مجھے بہت سارے لوگ کافر بدعتی کہتے ہیں پر مجھے اس سے کوئی تکلیف نہیں ہےیہ ان کا حق ہے میں ان سے بات کرتا ہوں اور دلیل سے پوری امت مسلمہ کا عقیدہ ہے کے امام مہدی اہلبیت سے بی بی فاطمہ سلام الله علیہ کی نسل سے ہوں گے پر تمنے مرزا کو جو کے منگولوں کی نسل ہے امام بھی بنا دیا عیسیٰ بھی اور نبی بھی اس لیے اس پر توبہ کرو اور پھر مجھ سے بات کرو جو سوال پوچھا تھا اس کا جواب دے بغیر لمبی لمبی کہانیاں دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے تم اپنے اہلسنت بھائیوں سے بات کرو کیونکے مرزا بھی پہلے سنی ہی تھا


Meray paas jhootoun k jawaab denay ka time nai. Inn boseeda ilzamaat k jawaab 8 websites pe text, video, audio ki surat mein mojood hein..

Main website pe jao aor neechay click affiliated websites. Phir urdu, arabi ya angrezi jis zubaan mein bhee jawaab chaheeay websites pe click aor read listen or watch.
Ye manjann jo aap bechtay ho saeed fitrat musaaan issay thokar maar k he aatay hein haq ki tarah.


Aor aap tou dunya k uss mard e momin RA k he inkaari ho jo pehlay mard thay jinhoun ne He Pbuh ko maana. Aap tou He Pbuh ki aziz biwi Azwaaj e mutahraat Hazrat ayesha RA ki he shaan mein gustakhee kertay ho.

Aor imam mehdi As ne muttah ko zana kaha hai tou sahi kaha hai. Zana ko zana na kahein tou aor kya kahein.

Aor apne imam mehdi se kaho bahar niklay ghaar se. Ghaar mein 300 saal se konsay islam ki khidmat ker rahay hein. Bahar aaein hawa lagwaein khud ko aor persecution ka saamna kerein. Mukhalfat jhelein Allah Allah k rasool k liye aor daleelein dein apni sachaee ki. Pichli 20 nasloun ki qabrein khoudd k Dna tests se saabit kerein apni nasal. Dekhta hun kesay koi qabraein khodnay deta hai Dna testing k liye.
 

انجام

MPA (400+ posts)
بخاری کی نو جلدون میں کل روایات 7048 ہیں .


امی جان حضرت عایشہ سے روایات ١٢٥٠ یعنی کے 17 اشاریہ ٦٨ فیصد ہیں


ابو ہریرہ سے روایات ١١٠٠ جو کے ١٥اشاریہ ٥٦ بنتی ہیں


عبداللہ ابن عمر سے بھی ١١٠٠ جو کے ١٥اشاریہ ٥٦ بنتی ہیں


انس بن مالک ٩٠٠ کے لگ بھگ جو کے ١٢ اشاریہ 73 فیصد بنتی ہیں


عبداللہ ابن عباس نے 700 کے قریب روایات کی ہیں جو کے ٩ اشاریہ ٩ فیصد کے قریب بنتی ہیں


جابر بن عبداللہ 275 کے قریب روایات کی ہیں جو کے ٣ اشاریہ ٨٩ بنتی ہیں


ابو موسیٰ عشری نے ١٦٥ جو کے ٢ اشاریہ ٣٣ فیصد بنتی ہیں


ابو سیعد الخدری ان سے ان سے ١٣٠ روایات لی ہیں جو کے ١ اشاریہ 84 فیصد بنتی ہیں


مولا علی ابن ابی طالب علیہ سے صرف اور صرف 79 روایات لی ہیں جو کے ١ اشاریہ ١١ فیصد بنتی ہیں


عمر ابن خطاب سے صرف اور صرف ٥٠ روایات لی ہیں جو کے صرف ١ فیصد بنتی ہیں لگ بھگ


امی جان حضرت ام سلمہ ام المومنین سے صرف اور صرف 48 روایات لی گئی ہیں جو کے ١ فیصد کے لگ بھگ بنتی ہیں


عبداللہ ابن مسعود سے صرف 45 روایات لی گئی ہیں جو کے ١ فیصد کے قریب بنتی ہیں


معاویہ ابن ابی ہندہ سے 10 روایات لی ہیں جو کے اشاریہ 14 فیصد بنتا ہے


امام حسن مجتبیٰ علیہ سلام سے صرف ٨ روایات ملی ہیں جو کے اشاریہ ١١ فیصد بنتی ہیں


امام حسین علیہ سلام سے صرف دو روایات مجھے ملی ہیں جو کے اشاریہ ٣ فیصد بنتا ہے


یہ کل ملا کر ان تمام راویان کی ٨٣ فیصد بنتی ہیں


حضرت عایشہ ابن عمر اور ابو ہریرہ سے 48 اشاریہ ٨ فیصد کے قرین بنتی ہیں یہ لمحہ فکریہ ہے
اس سےیہ بات ثابت ہوتی ہے کے اصل میں یہ جتنے لوگ جنہوں نےبخاری جی سمیت کتب لکھیں ان کو روایات جن سے لینی تھیں ان سے لی گئی ہیں جو کے نہ تو خلفاء سلاسہ سے تھے نہ ہی اہلبیت خاص طور پر مولاے متقیان علی ابن ابی طالب سے یاد رہے کے یہی بخاری شریف ہے جس نے غدیر کی حدیث کو قوٹ نہیں کیا یا کم از کم مجھے نہیں ملی یہ روایت صحیح بخاری میں جب کے برادران اہلسنت کی تقریبن تمام کتب میں وہ حدیث سند کے ساتھ موجود ہے یہی بخاری شریف ہے جس نے نبی پاک کی گھریلو زندگی کے بارے ایسی ایسی گھمراه کن حدیثیں گھڑیں کے جن کو بنیاد بنا کے سلمان رشدی اور دوسرے ملعون نے توہین آمیز کتب لکھیں یاد رہے ان میں ابو ہریرہ سے اتنی کثیر تعداد میں جو احادیث لی گئی ہیں جب کے حضرت عمر ان کوروایات حدیث لکھنے سے منع کرتے تھے اور بھی بہت سخت الفاظ اور عمل ہے حضرت عمر کا ابو ہریرہ کے بارے جس کو بیان کرنے کی ابھی ضرورت نہیں ہے
اس ریسرچ میں کوئی کمی بیشی ہو سکتی ہے
اسی طرح اسی صحیح بخاری مین خارجی عمران بن ہتاننامخرجی کی روایت کو جب دیکھتا ہوں تو بہت افسوس ہی نہیں دکھ ہوتا ہے کے اسمٰعیل بخاری نے بغض علی کی حد کر دی پہلے تو غدیر کی حدیث کو اپنا ہاں جگہ نہیں دی اور پھر ایک ایسے خارجی جس نے مولاے متقیان کے قاتل ابن ملجم کی شان مین قصیدہ کہا اس کو اپنی کتاب میں ایک راوی کی حثیت سے جگہ دی آپ بھی دیکھیں اور فیصلہ کریں کے کیا یہ حب ہے علی علیہ سلام سے ؟






آپ نے بہت محنت کی۔ اللہ تعالی آپ کو اس کا صلہ عطا فرمائے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ کسی بھی حدیث کے قبول یا رد کرنے کے کئی اسباب ہیں۔ روایات حدیث میں جرح صرف صحابی کے بعد ہوتی ہے۔ نیز یہ بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ کسی بھی فرد سے کم روایات کی تعداد کے بھی کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔
انمیں سے چند یہ ہیں۔
سند کے راوی تابعی یا تبع تابعی پر اعتراض یا سند میں شکوک۔
متعلقہ موضوع سے احادیث کی مطابقت نہ ہونا۔
مصنف کا کثرت روایات میں سےدیگر روایات پر اظہار اعتماد۔
تصنیف ترتیب کے وقت متعلقہ روایت موجود نہ ہونا۔ یا انہوں نے خود روایت نہ کی ہو۔
مخصوص مذہبی /سیاسی حالات کا اثر
اس موضوع پر زیادہ بحث نہ ہونا/ زیادہ معروف نہ ہونا۔ وغیرہ
پہلے بھی عرضکیا جا چکا کہ امام بخاری کی کتاب انکی مرتب کردہ ہے۔ اس میں سارا علم حدیث مجتمع نہیں۔ نہ تو انکا اپنا یہ دعوی ہے ۔ نہ کسی اورصاحب علم کا یہ دعوی ہے۔ بقول امام بخاری انہوں نے کم ازکم 1لاکھ احادیث صحیحہ میں سے یہ ذخیرہ مرتب فرمایا۔ یعنی ان کی اسناد انکے اصول کے مطابق درجہ صحت پر تھیں۔ آپ کی پیش کردہ روایات تو کئی کئی مرتبہ دہرائی گئ ہیں۔یعنی ایک حدیث کئی مرتبہ مختلف جگہ بیان ہوئی۔ کہیں سند ایک ہی ہے۔ کہیں سند الگ ہے۔
آپ نے ایک کتاب کا تذکرہ کر کے سبھی کو رگڑا لگا دیا۔ یہ بھی انتہائی ناانصافی ہے۔ جناب یہ بھی پہلے زکر کیا تھا کہ کسی کے کم روایات کرنے سے نہ تو شان علم کم ہوتی نہ مقام تقوی ، فضل و طہارت میں فرق واقع ہوتا ہے۔ نیز کسی کی کم روایات ملنے کے بھی کئی اسبا ب ہوتے ہیں۔ آپ کا زیادہ اعتراض ابو ہریرہ پر تھا۔ پھر آپ بھی اپنے سبھی کچھ چھپا نہیں پائے۔
جناب عرض ہے کہ کسی نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ سے فیض علم حاصل کیا ۔ مگر تعلیم وتدریس سے وابستہ نہ ہوئے ۔ اسی وجہ سے انکی روایات کم ملتی ہیں۔ کچھ مخصوص سیاسی حالات نے بھی اثرات مرتب کئے۔
اگر کسیعنوان پر ایک روایت نہ ملے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب آپ اس ساری کتاب کو ہی رد کردیں۔ یا کسی راوی پر اعتراض کے سبب سبھی روایات کو حرف غلط کہ دیا جائے۔ ہر حدیث کے متن و سند کو الگ پرکھا جاتا ہے۔
علم حدیث میں اگرچہ امام بخاری کی بہت خدمات ہیں مگر اس سب کے باوجود وہ مقام نبوت پر نہیں۔ انسے غلطی کا صدور ممکن ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کچھ باتیں بعد کے راویون نے شامل کی ہوں۔ مگراصول ہمیشہ مقدم رہیں گے۔
اگر ایک طرف خارج سے روایات ہیں تو دوسری طرف تشیع کی روایات بھی موجود ہیں۔ یعنی صرف اختلاف مسلک کی بنیاد پر تقریبا آدھا ذخیرہ احادیث مسترد کر دیں؟؟
یہ بھی متفقہ امر ہے کہ کسی کا کفر انکار رسالت سے یا رسول اللہ کی مخالفت سے یا طعنہ زنی سے لازم آتا ہے۔ اگرچہ اہلبیت و صحابہ کی تعظیم لازم ہے مگر اس میں کمی و تنقیص گمراہی تک لیجاتی ہے۔ کفر تک نہیں۔

 

khan_sultan

Banned

آپ کا یہ فرمانا کہ غالی سے آپ نے نجات پالی ہے یہ تو اسی فورم پر ہی دیکھا جا سکتا ہے۔جیسا کہ پیچھے گزر چکا۔
امام اعظم نے صرف امام جعفر صادق کی ہی شاگردی نہیں کی بلکہ امام محمد باقر اور انکے بھائی امام زید کے تلمیذ بھی رہے۔
کچھ عرصہ قبل امام زید سے مروی احادیث و آثار کا مجموعہ پاکستان میں ارود میں شائع ہوا۔ اس کی اکثرروایات فقہ حنفی کی تائید کرتی ہیں۔ انہی سے ایک فرقہ زیدیہ بھی منسوب ہے۔ یہ فرقہ اس دور میں بھی یمن میں موجود ہے۔ اہل تشیع میں یہ سب سے معتدل فرقہ ہے۔ اس کے اعمال بھی اہلسنت کے نہایت قریب تر ہیں۔ اور پھر اہلسنت میں فقہ حنفی کے۔
نیز تشیع کے بہت سارے گروہ ہیں۔ انمیں سے ایک اسماعیلی ہیں۔ جو پاکستان میں بھی ہیں۔ کتب میں 30 سے زائد شیعہ فرقوں کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔

اہلسنت تو ہوتے ہی وہ ہیں جو اہلبیت سے پہلے محبت رکھیں پھر انکے ساتھ صحابہ سے بھی محبت رکھیں ۔ جیسے شیعہ کے بہت سارے گروہ ہیں ویسے ہی بہت سارے گروہوں نے بھیس بدل کر اہلسنت کا لبادہ اوڑھ کر اپنا بچاؤ کر رکھا ہے۔ وہ اپنی حرکتوں ، کرتوتوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کو اہلسنت نے اپنے اندر شامل نہیں کیا بلکہ وہ خؤد گھس بیٹھئے ہیں۔
آپ کا یہ فرمانا کہ امام ابو حنیفہ کے نام کے ساتھ امام اعظم لگانا امام جعفر صادق کے ساتھ زیادتی ہے۔ جناب ایسا آپ کی سوچ ہو سکتی ہے۔ مری رائے یہ ہے کہ سخی اپنی سخاوت سے کسی کو محروم نہیں کرتا۔ یہ تو عام سخی کی بات ہے ۔ جبکہ وہ گھرانہ تو سردار سخاوت ہے۔ امامت ، تقوی ، طہارت ،علم و فضل وہاں سے تقسیم ہوتے ہیں۔
لہذا یہ گھرانہ نام کا ہی نہیں بلکہ حقیقتا دل کا بھی سخی ہے۔ انکو بڑے ناموں اور القابات کی حاجت نہیں۔
میرے نزدیک یہ بھی انکی عظمت ہے کہ امت کا سب سے بڑا امام کہلانے والا خود کو انکے در کا گدا کہتا ہے۔ یہی اسکی عظمت کی پہچان بھی ہے۔
یہاں تو ہر کسی کو خیرات ملتی ہے۔ تو ابو حنیفہ نعمان بن ثابت کو امام اعظم کے نام کی خیرات ملی تو یہ انکی خدمت دین کا صلہ ہے۔ کیونکہ یہ کسی کا احسان بھی باقی نہیں رکھتے۔

آپ کے اگلے سوال کا جواب بھی در زہرا سے ہی ملتا ہے کہ جب فتنوں کا دور آجائے حق و باطل میں تمیز مشکل ہو جائے تو سچائی کہاں تلاش کی جائے۔
زہرا کے نور عین امام زین العابدین فرماتے ہیں فتنوں کے دور میں حق کی تلاش کے لئے امت کے سواد اعظم کے ساتھ جڑ جاؤ۔ انکی پہچان شریعت پر عمل کے ساتھ انکا شعار کثرت درودو سلام ہوگا۔

چار کی قبولیت میں پانچویں کا رد کیوں؟ تو جناب تحقیق کریں ۔ یہ جھگڑا امام جعفر صادق پر نہیں بلکہ انکے نام کے غلط استعمال پر ہوگا۔
یاد رکھیں سچائی تک پہنچنے کے لئے 2طرفہ آراء کو دیکھنا پڑتا ہے۔ یکطرفہ رائے کبھی بھی منزل مقصود نہیں دیتی۔

محتر ہمارے ہاں غالی کی یا مقسریں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ہم مولا کے فرمان کے مطابق نہ تو ان کو خدا مانتے ہیں نہہی ان کو بعد رسول کسی سے کم فضیلت والا شیعہ صرف وہ ہے جو کے بارہ اماموں کو مانتا ہے اور ہمارے امام اپنی حیات میں اپنے زمانہ حیات میں افضل ترین لوگ تھے علمی اور ہسب نصبی کی بنا پر کوئی بھی انکا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا ناہھے اس کا اعتراف اہلسنت علماء حق بھی کرتے ہیں

آپ کے ہاں کس طرح کے لوگ موجود ہیں یہ آپ بخوبی جانتے ہیں لفظ اہلسنت والجماعت بھی معاویہ کے دور کی ہی پہچان ہے اس سے پہلے کوئی بھی خود کو اہلسنت والجماعت نہیں کہلاتا تھا معتزلہ ہوں یا کوئی ناصبی ہو یا دوسرے درجنوں فرقے یہ سب مختلف نام بدل بدل کر تاریخ میں آتے رہے پر انمیں سے سب کا مقصد اہلبیت کو چھوڑ کر دوسروں کی پیروی کرنا ہی تھا رسول خدا کے اس فرمان کو آپ بھول جاتے ہیں یہ بہت عجب کی بات ہے امام باقر علیہ سلام ہوں یا امام صادق ہمارے تمام امام جو ہیں ان کی ایک ہی بات ہو گی اور ہمارے ہاں یہ آئمہ کا فرمان ہے کے جو بھی ہماری روایت قران سے متصادم نظر اے اس کو دیوار پر کھینچ مارو کم از کم اس قول پر ہی عمل کرتے ہوے امام کی ہی فقہ کو قبول کرتے آپ لوگ زید ہوں باقی تین ان سب کی تعلیمات میں نقص ہے کیوں کے یہ خود نہیں جانتے کے انکے ساتھ آخر میں کیا ہونا ہے جب کے آئمہ اہلبیت وہ ہیں جو کے سفینہ نجات ہیں ابو حنیفہ ساری زندگی قیاس پر رہا جو کے حرام ہے اور باقی آئمہ نے انکی تذلیل بھی کی اور ان کو گمراہ اور کافر تک قرار دیا پر آپ کی جانب داری دیکھ کر مجھے افسوس اس بات پر ہوا کے وہ سب کچھ آپ کو قبول ہے آپ کو بخاری جی کے اندر رسول خدا کا خود کشی کرنے کی کوشش کرنا حالت حیض میں ہم بستری کرنا نعوذ باللہ روزے کی حالت میں یہ کام کرنا بھول جانا آیات کو یہ سب کچھ تو قبول ہے پر آئمہ کی تعلیمات جو کے پلے ہیں آغوش رسالت کے اور اس کے بعد باب العلم سے ہوتا ہوا ہے یہ علم آخری امام تک پہنچے گا اس کو چھوڑ دوسروں کو امام اعظم کا خطاب دینا یه کوئی مناسب نہیں ہے جب کے یہ آخرت کا بھی مسلہ ہے پر جب میں دیکھتا ہوں کے مولا کے خطاب کس طرح مسلمانوں نے دوسروں میں بانٹ دے تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں لگی آپ کا یہ فرمانا کے وہ امام باقر صادق کے ساتھ بھی رہے پر جب تاریخ دیکھتا ہوں اور روایت پڑھتا ہوں کے کس طرح اصحاب نے کام کیے جس پر سوره منافقوں تک نازل ہوئی تو آپ کا یہ دعوه بلکل بے جا لگتا ہے
 

SachGoee

Senator (1k+ posts)

کیا بات کرتے ہو بھئی؟
مرزائی کوئی ہندو تو نہیں تھے جنہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اگر ایسا ہوتا بھی تو ہمیں کیا لینا دینا وہ کسی کو بھگوان بنائیں یا اوتار۔
ذہن پر زور دیں، آفیشلی کافر بننے سے پہلے مرزائی بھی صدیوں سے سنی ہی تھے اور اپنی عبادات کے ظواہر سے آج بھی کامل سنی لگتے ہیں۔



Hazrat Abu Bakr RA ka, Bilal RA, ka, Umar RA ka Hazur Pbuh pe eemaan laanay se pehlay kya mazhab tha ?


Hazur Pbuh ka 40 saal ki umar se pehlay kya mazhab tha ?


Wo aetraaz na kero jo Yahoodi Eesaee Aethiest etc Rasool e Pak aor Sahaba pe kiya kertay thay aor kiya kertay hein. Khud he mushaabehat na saabit kero.
 

Back
Top