پیارے بچو بھاءیو بہنو امام اعظم کی قست دوءم حاضر ہے
بچو! اب تو تمہاری سمجھ میں یہ بات آگئی ہوگی کہ فقہ اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں مختلف قسم کے مسائل کے متعلق حل بیان کیے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ وضو اس طرح کرنا چاہیے، نماز اس طرح پڑھنی چاہیے۔ اسی طرح زکوٰۃ، روزہ، حج، نکاح کے علاوہ لین دین اور ورثہ اور روزمرہ کے مسائل۔ بچے کی ولادت سے لے کراس کی وفات تک کے مسائل کو علم فقہ کے ذریعہ بتایا گیاہے۔
فقہ کا علم جاننے والا فقیہ کہلاتاہے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ فقہ کے علم کو جاننے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ حدیث اور قرآن کریم کا علم اچھی طرح آتا ہو۔ اس لیے آپ نے قرآن کریم اور حدیث کا علم بھی حاصل کیا۔ آپ نے کوفہ میں کوئی ایسا محدث یعنی حدیث بیان کرنے والا نہیں چھوڑا جس سے آپ نے حدیث کا علم حاصل نہ کیاہو۔ حدیث کے متعلق علم حاصل کرنے کے لیے آپ بصرہ اور شام بھی تشریف لے گئے۔ امام حمادؒ کے علاوہ آپ نے فقہ کا علم حضرت امام جعفرصادقؒ سے بھی سیکھا حضرت امام اعظم نے امام حمادؒ سے فقہ کا علم اتنا سیکھ لیا تھا کہ ایک بار امام حمادؒ نے فرمایا کہ:۔
اے ابو حنیفہ! تو نے مجھ کو خالی کردیا۔
یعنی جتنا علم میرے پاس تھا تو نے وہ سب حاصل کرلیا۔ آپ کے استاد امام حمادؒ آپ سے بہت محبت کرتے تھے ایک بار امام حمادؒ سفر پر گئے۔ کچھ دن بعد واپس آئے تو آپ کے صاحبزادے اسمٰعیل نے آپ سے پوچھا: ابّاجان! آپ کو سب سے زیادہ کس کو دیکھنے کا شوق تھا؟ انہوں نے فرمایا: ابو حنیفہ کو دیکھنے کا۔ اگر یہ ہوسکتا کہ مَیں کبھی نگاہ ان کے چہرے سے نہ ہٹاؤں تو یہی کرتا۔ امام ابو حنیفہ سے محبت اور ان کے علم و ذہانت کی وجہ سے ایک بار جب امام حمادؒ سفر پر روانہ ہوئے تو اپنی جگہ امام ابو حنیفہ کو بٹھا گئے۔
کوفہ میں حضرت امام ابو حنیفہؒ نے امام حمادؒ سے فقہ اور حدیث کا علم سیکھا۔ لیکن ان کاخیال تھا کہ اب مجھے مکّہ معظمہ جانا چاہیے اس لیے کہ وہ تمام مذہبی علوم کا اصل مرکز ہے۔ چنانچہ آپ مکّہ معظمہ پہنچے اور مزید علم حاصل کرنے کے لیے عطاء بن ابی رباحؒ کی درس گاہ کا انتخاب کیا۔ عطاء بن ابی رباحؒ مشہور تابعین میں سے تھے۔ تابعین سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے صحابہ کرامؓ کا زمانہ پایا ہو اور ان سے ملاقات کی ہو۔ یہاں پر بھی آپ نے اپنے علم اور ذہانت کی وجہ سے جلد ہی استاد محترم کے دل میں اپنے لیے محبت پیدا کرلی۔
یہ تو امام صاحبؒ کے بچپن اور ان کی تعلیمی زندگی کا مختصر حال تھا۔ چلو اب دیکھتے ہیں کہ امام اعظمؒ نے علم حاصل کرنے کے بعد عملی زندگی کس طرح بسر کی۔
امام صاحبؒ کو اپنے استاد امام حمادؒ سے بہت محبت تھی اس لیے ان کی زندگی میں آپ نے یہ گوارہ نہ کیا کہ اپنا الگ سکول قائم کریں۔ امام صاحبؒ کی اپنے استاد محترم کے ساتھ محبت کا اندازہ تم اس بات سے لگا سکتے ہو کہ جب تک امام حمادؒ زندہ رہے حضرت ابو حنیفہؒ نے ان کے مکان کی طرف کبھی پاؤں نہیں پھیلائے۔ 120ھ میں امام حمادؒ کا انتقال ہوگیا امام حمادؒ کے انتقال کے بعد لوگوں نے امام صاحبؒ سے درخواست کی کہ اب آپ درس دیا کریں۔ آپ نے شروع میں تو انکار کیا مگر جب لوگوں کا اصرار بڑھ گیا تو آپ اپنے استاد محترم امام حمادؒ کے سکول میں ہی درس دینے لگے۔
جب امام اعظمؒ نے درس دینا شروع کیا توایک دن خواب میں دیکھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کھود رہے ہیں اور آپؐ کی مبارک اور پاک ہڈیوں کو جمع کررہے ہیں۔ امام اعظمؒ اس خواب کو دیکھ کر ڈر گئے اورسمجھنے لگے کہ شایدمَیں درس دینے کے قابل نہیں ہوں۔ آپؒنے امام ابنِ سیرینؒ جو کہ خوابوں کی تعبیر کا علم جانتے تھے اور اس علم میں امام اور استاد تھے ان سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے فرمایاکہ اس خواب کو دیکھنے والا شخص مردہ علم کو زندہ کرے گا۔
جب آپ کو خواب کی تعبیر معلوم ہوگئی توآپ اطمینان کے ساتھ درس دینے میں مشغول ہوگئے۔ شروع شروع میں توصرف امام حمادؒ کے شاگرد درس میں شامل ہوتے تھے۔ لیکن چند دنوں میں ہی آپ کی شہرت اتنی زیادہ ہوگئی کہ کوفہ میں موجود اکثر دوسری درس گاہں بھی ٹوٹ کر آپ کے حلقۂ درس میں شامل ہوگئیں۔ دُور دراز کے مقامات سے لوگ علم حاصل کرنے کے لیے آپ کی درس گاہ میں آنے لگے۔ ان مقامات میں مکّہ، مدینہ، دمشق، بصرہ، رملہ، یمن، مصر، بحرین، بغداد، ہمدان، بخارا، سمرقند وغیرہ کے طالبعلم شامل تھے۔
امام ابو حنیفہؒ کے زمانہ میں بنواُمیّہ کی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور عباسی حکومت قائم ہوگئی۔ عباسی خاندان کا پہلا حاکم ابوالعباس عبداللہ تھا۔ وہ اس قدرظالم تھا کہ لوگ اسے سفّاح یعنی خونی کہنے لگے۔ اُس نے کُل چار سال حکومت کی۔ 132ھ میں اس کا بھائی ابوجعفر المنصور تختِ حکومت پر بیٹھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب اسلام کی تعلیم عرب سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل رہی تھی مگر جو لوگ اسلام کے دشمن تھے وہ تو اسلام کی ترقی دیکھ ہی نہیں سکتے تھے نا! اس لیے انہوں نے نئے نئے عقیدے بنانا شروع کردیے اور تو اور وہ حدیثیں بھی اپنی طرف سے ہی بنا لیتے تھے۔ حاکم منصور چاہتا تھا کہ جتنے بھی عالم لوگ ہیں وہ میرے دربار میں آئیں۔ انہیں سرکاری عہدے بھی دیے جائیں گے۔ مثلاً یہ کہ علمائے کرام کو قاضی کا عہدہ دیاجائے گا مگر فیصلہ وہی ہوگا جو وہ خودچاہے گا۔
یہ سب کچھ اس لیے ہورہا تھا کہ مُلک میں کوئی ایسا قانون نہیں تھا جس کے مطابق حکومت کے فیصلے کیے جاتے۔ امام اعظمؒ نے جب یہ تمام حالات دیکھے تو اس موقع پر اپنی سمجھ اور ذہانت سے کام لیا اور انسانی ضروریات کے متعلق ایک اسلامی قانون قرآن اور سنّت کی روشنی میں قائم کیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا کرم تھا کہ اس نے امام اعظمؒ کوا س عظیم دینی خدمت کی توفیق عطا فرمائی۔
ابوجعفر منصور کے دَورِ حکومت میں اس کے ظلم اور زیادتیوں کے خلاف مدینہ میں محمد بن عبداللہ نے حاکم ہونے کا دعویٰ کیا۔ محمدبن عبداللہ عالمِ دین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بہادر اور دلیر تھے۔ جب آپ نے حاکم ہونے کا دعویٰ کیا تو امام اعظمؒ نے ان کی حمایت کی۔ کوفہ کے لوگ بھی ان کے ساتھ ہوگئے۔ ابتداء میں محمدبن عبداللہ نے نہایت بہادری اور دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا۔ آخر کار شہید ہوگئے۔ اس کے بعد ان کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ نے ان کی جگہ لی۔ ابراہیمؒ بھی بہت بڑے عالم تھے۔ کوفہ کے تقریباً ایک لاکھ آدمی ان کے ساتھ جان دینے کو تیار ہوگئے۔ انہوں نے ڈٹ کر نہایت بہادری کے ساتھ منصور کا مقابلہ کیا۔ مگر حلق میں تیر لگ جانے کی وجہ سے شہید ہوگئے۔
امام ابو حنیفہؒ نے منصور کے خلاف محمدبن عبداللہ اور ابراہیم بن عبداللہ کا ساتھ اس لیے دیا کہ آپ نے سفّاح کی حکومت کا زمانہ دیکھا پھر ابوجعفر منصور کے ظلم اور اس کی زیادتیوں کو دیکھا۔ آپ سمجھتے تھے کہ یہ لوگ حکومت کے اہل نہیں ہیں۔
پھر ایسا ہوا کہ جب منصور نے محمدبن عبداللہ اور ابراہیم بن عبداللہ کو شکست دے دی تو پھر ان لوگوں کی طرف توجہ کی جنہوں نے ان کا ساتھ دیا تھا۔ منصور کو علم تھا کہ امام صاحبؒ نے نہ صرف ان لوگوں کی حمایت کی بلکہ پیسہ سے بھی ان کی مدد کی ہے۔ منصور کوفہ آیا لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ کوفہ میں امام صاحبؒ سے محبت اور عقیدت رکھنے والے لوگ ہزاروں کی تعدادمیں موجود ہیں۔ اس لیے اس نے یہ چال چلی کہ امام صاحبؒ کو کوفہ سے بغداد بلایا جائے۔ پھر آپ کو قاضی کا عہدہ پیش کیا جائے۔ جسے وہ ہرگز قبول نہیں کریں گے پھر حاکم کے حکم کا انکار کرنے کی صورت میں انہیں آسانی کے ساتھ قید وبند میں ڈالا جاسکے گا۔
پیارے بچو بھائیو بہنو امام اعظم کی قست ثوئم حاضر ہے۔
جب منصور نے اپنے منصوبہ کے تحت امام صاحبؒ کو بغداد بلوایا تو آپ ساری بات سمجھ گئے۔ آپ سمجھ گئے تھے کہ اب آزمائش کا وقت آگیا ہے۔ آپ نے لوگوں کی امانںید ان کے حوالے کیں اور بغداد تشریف لے گئے۔ منصور نے انہیں قاضی کا عہدہ پیش کیا۔ آپ نے انکار کردیااور اس کی یہ وجوہات بیان کیں۔
1۔ مَیں عربی النسل نہیں ہوں۔ اس لیے اہلِ عرب کو میری حکومت پسند نہیں آئے گی۔
2۔ درباریوں کی تعظیم کرنا پڑے گی اور یہ مجھ سے نہ ہوسکے گا۔
جب آپ کسی بھی صورت میں نہیں مانے تو منصور نے آپ کو جیل میں ڈلوا کر کوڑوں کی سزا کا حکم دیا۔
دیکھو بچو! خدا تعالیٰ کے ہر فعل میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے۔ منصور یہ چاہتا تھا کہ مَیں امام صاحب کو قید میں ڈال کر اتنی تکالیف دوں کہ وہ حق وصداقت کا راستہ چھوڑ کر میری مرضی پر چلنے لگیں لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ امام صاحب کو قید و بند میں ڈالنے سے ان کی شہرت میں اَور اضافہ ہوجائے گا اورلوگ پہلے سے بھی زیادہ ان کی عزت کرنے لگیں گے۔ امام صاحب کی شہرت صرف کوفہ میں ہی نہیں تھی بلکہ بغداد میں بھی ایک علمی جماعت ایسی تھی جو آپ سے عقیدت رکھتی تھی۔ قیدوبند کی حالت نے آپ کے اثر کو کم کرنے کی بجائے اور زیادہ کردیا۔ لوگ قید خانہ میں امام صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔
بچو! اب تو منصور بہت پریشان ہوا کہ یہ تو سب کام غلط ہوتاجارہا ہے۔ مَیں تو انہیں اپنے راستے سے ہٹا رہا تھا اور یہ لوگوں کے دلوں میں اپنے لیے راستہ بناتے جارہے ہیں۔ چنانچہ آخری تدبیر اس نے یہ کی کہ امام صاحبؒ کو شربت میں زہر ملا کر دے دیا۔ آپ کو پتہ چل گیا تھا کہ اس میں زہر ہے۔ آپ نے پینے سے انکار کردیا توزبردستی وہ زہر کا پیالہ آپ کو پلایا گیا۔ جب آپ نے محسوس کیا کہ زہر نے اپنا اثر کرنا شروع کردیا ہے تو آپ سجدہ میں گِر گئے اور اسی حالت میں اپنی جان اپنے پیارے مولیٰ کے سپرد کردی۔
اِنَّاللہ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
جسم مرسکتا ہے لیکن اعلیٰ مقصد کو لے کر اٹھنے والی روح نہیں مرسکتی۔
تم نے دیکھا کہ منصور نے اپنے ناپاک منصوبہ سے امام اعظمؒ کو زہر کا پیالہ پلوا دیا مگر بعد میں اس نے خود دیکھا کہ امام اعظمؒ زہر کا پیالہ پی کر اگرچہ جسمانی طور پر وفات پاگئے تھے مگر اپنے عمل، نیک مقاصد اور حق وصداقت کی وجہ سے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ آج بھی لوگ ان کانام بہت عزت اور احترام سے لیتے ہیں۔ قرآن وسنّت کی روشنی میں آپ نے جواسلامی فقہی قانون ترتیب دیا وہ آج بھی حنفی فقہ کے نام سے موجود ہے۔ تم مسلمان حاکم ہارون الرشید کے نام سے تو ضرور واقف ہوگے۔ اس کی سلطنت جو سندھ سے لے کر ایشیائے کوچک تک پھیلی ہوئی تھی، حنفی فقہ کے اصولوں پر ہی قائم تھی۔ اس کے زمانے کے تمام مقدمات اور فیصلے اسی قانون کی بنیاد پر ہی کیے جاتے تھے۔
بچو! تم سوچتے ہوگے کہ حضرت ابو حنیفہؒ اتنے بڑے آدمی کیسے بن گئے؟
دیکھو بچو! یہ بات ٹھیک ہے کہ بڑا آدمی بننے کے لیے ضروری ہے کہ بہت بڑے بڑے کام کیے جائیں۔ مگر ایسا بھی تو ہوتاہے ناکہ بہت سی چھوٹی چھوٹی پیاری پیاری باتیں جن کا ہم اپنی عام زندگی میں بالکل خیال نہیں کرتے وہی چھوٹی چھوٹی اور پیاری پیاری باتیں انسان کو بڑا آدمی بنا دیتی ہیں۔ مثلاً والدین کی خدمت، ہمیشہ سچ بولنا، دشمن کو معاف کر دینا، راستہ میں سے کانٹا ہٹا دینا، غریبوں کی مدد کرنا، پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا وغیرہ۔ تو جناب ہمارے پیارے امام ابو حنیفہؒ اتنے اچھے، اتنے پیارے انسان تھے کہ باوجود اس کے کہ آپ علم بھی حاصل کرتے تھے، تجارت بھی کرتے تھے مگر بچپن ہی سے یہ ساری پیاری پیاری عادتیں آپ میں موجود تھیں۔ آپ کو اپنی والدہ محترمہ سے بہت محبت تھی۔ آپ نے تمام زندگی ان کی بہت زیادہ خدمت کی۔ امام صاحبؒ کی والدہ مزاج کی بہت شکّی تھیں۔ اس زمانے میں کوفہ۔ میں ایک عالم عمرو بن ذرؒ تھے۔ وہ لوگوں کو وعظ ونصیحت کیا کرتے تھے۔ امام ابو حنیفہؒ کی والدہ ان سے بہت عقیدت رکھتی تھیں۔ انہیں جب کوئی مسئلہ پیش آتا تو وہ امام صاحبؒ سے کہیتں جاؤ اُن سے اس مسئلہ کا حل پوچھ کر آؤ۔ اکثر ایساہوتاتھا کہ عمرو بن ذرؒ امام صاحبؒ سے اس مسئلہ کا حل پوچھ کر بتایا کرتے تھے۔ اب دیکھو کہ امام صاحبؒ اتنے بڑے عالمِ دین تھے۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ان کے عقیدت مند تھے لیکن جب ان کی والدہ ان سے کہتیں کہ مجھے عمروبن ذرؒ کے پاس لے جاؤ مَیں خود ان سے اس مسئلہ کا حل پوچھوں گی۔ تو آپ انہیں خچّر پر سوار کرا کے ساتھ لے جاتے۔ خود پیدل چلتے تھے۔
یہ تو تمہیں معلوم ہے کہ امام صاحبؒ نے کبھی بھی حکومت کی طرف سے کوئی عہدہ قبول نہیں کیا۔ ابن ہبیرہ نے امام صاحب کو میرمنشی مقرر کرنا چاہا۔ آپ نے انکار کردیا تو اُس نے سزا کے طور پر آپ کو کوڑے لگوائے۔
بچو! اس وقت آپ کی والدہ زندہ تھیں۔ امام صاحبؒ فرماتے ہیں کہ مجھے اپنی تکلیف کا ذرا بھی احساس نہیں تھا۔ مگر اس بات سے تکلیف ہوتی تھی کہ میری وجہ سے میری والدہ کے دل کو تکلیف ہوتی ہے۔
امام صاحبؒ کی اپنی والدہ سے محبت اور ان کی خدمت کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی آپ کو عزت بخشی اور آخرت میں بھی آپ سے راضی ہوا۔
حضرت امام ابو حنیفہؒ اللہ تعالیٰ کی عبادت بہت پیار اور توجہ کے ساتھ کرتے تھے۔ یزید بن لمیت، امام صاحبؒ کے ایک ساتھی تھے۔ آپ بتاتے ہیں کہ ایک دن مَیں نے اورامام صاحبؒ نے عشاء کی نماز مسجد میں ایک ساتھ پڑھی۔ اس دن نماز میں یہ سورۃ پڑھی گئی تھی۔ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا۔
بچو! تم اس سورۃکا ترجمہ تو جانتے ہی ہوگے ناکہ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کوہوشیار کیاہے کہ تم نے جو نیک کام کیے ہیں اور جو بُرے کام کیے ہیں ان کا بدلہ ضرور ملے گا۔ نماز پڑھنے کے بعد سب لوگ واپس چلے گئے۔ لیکن امام صاحبؒ اپنی جگہ پر بیٹھے رہے۔ مَیں نے سوچا کہ اگر مَیں یہاں بیٹھا رہا تو آپ کی توجہ بٹ جائے گی۔ اس لیے مَیں چراغ وہیں چھوڑ کر چلا گیا۔ صبح ہوئی مَیں نماز پڑھنے کے لیے مسجد گیا تو دیکھا کہ امام صاحب اسی حالت میں بیٹھے ہیں۔ آپ نے اپنی ریشِ مبارک پکڑی ہوئی ہے اور کہتے جاتے ہیں کہ:۔
اے وہ ذات! جو لوگوں کو ذرّہ ذرّہ نیکیوں کا بدلہ دے گا اپنے نعمان کو آگ سے محفوظ رکھ اور اپنی رحمت میں چُھپا لے۔
بچو! امام ابو حنیفہؒ کو قرآن کریم سے بہت زیادہ محبت تھی۔ اللہ میاں نے آپ کو آواز بھی بہت اچھی دی تھی۔ جب آپ قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تو آپ کی آواز لوگوں کے دل میں اُتر جاتی تھی۔
امام صاحب موصوف اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم اور درایت اور فہم و فراست میں آئمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل واعلیٰ تھے اور اُن کی خداداد قوت فیصلہ ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی قوت مدرکہ کو قرآن شریف کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی اور اُن کی فطرت کو کلام الہٰی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے۔ اسی وجہ سے اجتہاد و استنباط میں اُن کے لیے وہ درجہ علیا مسلّم تھا جس تک پہنچنے سے دوسرے سب لوگ قاصر تھے۔
پیارے بچو بھائیو بہنو یہ تھے ہمارے پیارے محترم امام اعظم حضرت ابو حنیفہ رح انکی خدمت اسلام اور محبت و وفا کا بہترین نمونہ