اسلامی علوم کی تدوین

khan_sultan

Banned



آپ نے بہت محنت کی۔ اللہ تعالی آپ کو اس کا صلہ عطا فرمائے۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ کسی بھی حدیث کے قبول یا رد کرنے کے کئی اسباب ہیں۔ روایات حدیث میں جرح صرف صحابی کے بعد ہوتی ہے۔ نیز یہ بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ کسی بھی فرد سے کم روایات کی تعداد کے بھی کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔
انمیں سے چند یہ ہیں۔
سند کے راوی تابعی یا تبع تابعی پر اعتراض یا سند میں شکوک۔
متعلقہ موضوع سے احادیث کی مطابقت نہ ہونا۔
مصنف کا کثرت روایات میں سےدیگر روایات پر اظہار اعتماد۔
تصنیف ترتیب کے وقت متعلقہ روایت موجود نہ ہونا۔ یا انہوں نے خود روایت نہ کی ہو۔
مخصوص مذہبی /سیاسی حالات کا اثر
اس موضوع پر زیادہ بحث نہ ہونا/ زیادہ معروف نہ ہونا۔ وغیرہ
پہلے بھی عرضکیا جا چکا کہ امام بخاری کی کتاب انکی مرتب کردہ ہے۔ اس میں سارا علم حدیث مجتمع نہیں۔ نہ تو انکا اپنا یہ دعوی ہے ۔ نہ کسی اورصاحب علم کا یہ دعوی ہے۔ بقول امام بخاری انہوں نے کم ازکم 1لاکھ احادیث صحیحہ میں سے یہ ذخیرہ مرتب فرمایا۔ یعنی ان کی اسناد انکے اصول کے مطابق درجہ صحت پر تھیں۔ آپ کی پیش کردہ روایات تو کئی کئی مرتبہ دہرائی گئ ہیں۔یعنی ایک حدیث کئی مرتبہ مختلف جگہ بیان ہوئی۔ کہیں سند ایک ہی ہے۔ کہیں سند الگ ہے۔
آپ نے ایک کتاب کا تذکرہ کر کے سبھی کو رگڑا لگا دیا۔ یہ بھی انتہائی ناانصافی ہے۔ جناب یہ بھی پہلے زکر کیا تھا کہ کسی کے کم روایات کرنے سے نہ تو شان علم کم ہوتی نہ مقام تقوی ، فضل و طہارت میں فرق واقع ہوتا ہے۔ نیز کسی کی کم روایات ملنے کے بھی کئی اسبا ب ہوتے ہیں۔ آپ کا زیادہ اعتراض ابو ہریرہ پر تھا۔ پھر آپ بھی اپنے سبھی کچھ چھپا نہیں پائے۔
جناب عرض ہے کہ کسی نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ سے فیض علم حاصل کیا ۔ مگر تعلیم وتدریس سے وابستہ نہ ہوئے ۔ اسی وجہ سے انکی روایات کم ملتی ہیں۔ کچھ مخصوص سیاسی حالات نے بھی اثرات مرتب کئے۔
اگر کسیعنوان پر ایک روایت نہ ملے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب آپ اس ساری کتاب کو ہی رد کردیں۔ یا کسی راوی پر اعتراض کے سبب سبھی روایات کو حرف غلط کہ دیا جائے۔ ہر حدیث کے متن و سند کو الگ پرکھا جاتا ہے۔
علم حدیث میں اگرچہ امام بخاری کی بہت خدمات ہیں مگر اس سب کے باوجود وہ مقام نبوت پر نہیں۔ انسے غلطی کا صدور ممکن ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کچھ باتیں بعد کے راویون نے شامل کی ہوں۔ مگراصول ہمیشہ مقدم رہیں گے۔
اگر ایک طرف خارج سے روایات ہیں تو دوسری طرف تشیع کی روایات بھی موجود ہیں۔ یعنی صرف اختلاف مسلک کی بنیاد پر تقریبا آدھا ذخیرہ احادیث مسترد کر دیں؟؟
یہ بھی متفقہ امر ہے کہ کسی کا کفر انکار رسالت سے یا رسول اللہ کی مخالفت سے یا طعنہ زنی سے لازم آتا ہے۔ اگرچہ اہلبیت و صحابہ کی تعظیم لازم ہے مگر اس میں کمی و تنقیص گمراہی تک لیجاتی ہے۔ کفر تک نہیں۔

محترم برادران احلست کے ہاں بہت ساری روایات ملتی ہیں کے کے جس میں جناب عمر نے ابو ہریرہ کو کوڑے تک مارے کیوں کے بقول ان کے وہ جھوٹی حدیثیں گھرتا تھا پر پھر ایسا کیا ہو گیا کے جناب عمر کے جانے کے بعد ان سے روایات لی گیں ؟ ایک طرف آپ لوگ درجہ دیتے ہیں انکو کے کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے یہ الگ بحث ہے خیر پھر آپ مزھب میں بہت ساری باتیں شریعت میں رسول خدا کی چھوڑ کرر ان کو اپنایا پر ادھر یہ اصول کیوں نہیں اپنایا ؟ اسی طرح ابن عمر وہ شخص تھا جو کے مولاے کائنات سے عداوت رکھتا تھا اور اس نے معاویہ اور یزید کی تو بیعت کر لی پر آپ کی نہیں اسے بھی بہت بڑی تعداد میں احادیث کی روایات لی گئی اسی طرح باقی امہات المومنین کو چھوڑ کر صرف اور صرف چھوٹی امی جان حضرت عایشہ سے اتنی کثیر تعداد میں روایات لی گیں جب کے حضرت ام سلمہ وہ آپ کی ازواج میں سے وہ ھیں جو سب سے آخر میں دنیا سے رخصت ہوئیں آخر ان سے اور باقیوں سے کیوں نہیں ؟ پھر ابو ہریرہ جس کا اوپر ذکر کر چکا ہوں جو کے عداوت رکھتا تھا امام متقیان سے اور معاویہ کا طرف دار بن گیا تھا اور شائد گورنر بھی رہا مدینہ کا معاویہ کے دور میں اس سے بھی روایات لی گیں آخر اہلبیت اور حضرت ابو بکر کی اولاد سے کیوں نہیں اتنی تعداد میں ؟ یہ سب کچھ ثابت کرتا ہے کے بعد از خلفا راشدہ کے بنو امیہ کی فیکٹری کے ذریعے دھڑا دھڑ احادیث بنوائی گیں اور ان سے لی گیں جو کے مولا سے عداوت رکھتے تھے اور معاویہ کے طرف دار معاویہ کی بد قسمتی تھی اگر اس کا عرصۂ بھی باقی اصحاب کی طرح لبما ذرا ہوتا تو آج ہمیں کتب میں اس کی بھی روایات کسر تعداد میں دیکھتے پر کم از کم وہ اس بات میں تو کامیاب ہو گیا کے اہلبیت سے کم سے کم روایات رکھی جائیں
رہی بات بخاری میں شیعہ راویوں کی تو وہ شیعہ راوی اپنے زمانے کے بہترین لوگ تھے نہ کے خوارج کی طرح دشمن اسلام اس لیے آپ کی بات ادھر بنتی نہیں ہے جو آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں دور معاویہ سے لے کر پورا بنو امہ کا دور ہو یا بنو عباس کا ان سب نے جو کامکا اس میں اس بات کی ہر ممکن کوشش کی کے ایک تو فضائل علی کو روکا جاے اور دوسرا ان سے کم روایت لی جائیں اور انکو جتنا نقصان پہنچایا جاے وہ کم ہے ایک دور ایسا بھی گزرا کے علی فاطمہ حسن حسین رکھنے والے کو قتل کیا جاتا تھا اور جو مولا کے چاہنے والے تھے انکو چن چن کر قتل کیا اہلسنت کی کتابیں اس بات کی شاہد ہیں
 

SachGoee

Senator (1k+ posts)
Hazrat Omar RA appointed Hazrat Abu Huraira RA as Governor of Bahrain. Hazrat Ali RA did not raise any objection to his Khalifa-tullah's decision.

Hazrat Ali RA held high regard for Hazrat Abu Huraira RA as he RA knew that He was one of Ashaab e Suffha MashaAllah.
 

Night_Hawk

Siasat.pk - Blogger
دیکھو میاں قادیانی جو بھی ہے میں اختلاف کی بنا پر انکیساتھ زیادتی کے حق میں نھی ہوں پر جو تم لوگون نے اپنا نبی بنایا پھر کہانی بدل کر امام مہدی اور حضرت عیسیٰ بھی بن گئے تو میں تم لوگوں کو اسلام کے دائرے میں شامل نہیں کرتا ہوں ادھر مجھے بہت سارے لوگ کافر بدعتی کہتے ہیں پر مجھے اس سے کوئی تکلیف نہیں ہےیہ ان کا حق ہے میں ان سے بات کرتا ہوں اور دلیل سے پوری امت مسلمہ کا عقیدہ ہے کے امام مہدی اہلبیت سے بی بی فاطمہ سلام الله علیہ کی نسل سے ہوں گے پر تمنے مرزا کو جو کے منگولوں کی نسل ہے امام بھی بنا دیا عیسیٰ بھی اور نبی بھی اس لیے اس پر توبہ کرو اور پھر مجھ سے بات کرو جو سوال پوچھا تھا اس کا جواب دے بغیر لمبی لمبی کہانیاں دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے تم اپنے اہلسنت بھائیوں سے بات کرو کیونکے مرزا بھی پہلے سنی ہی تھا

I agree with you 100%
 

SachGoee

Senator (1k+ posts)
Hazrat Ali RA Islam k Chothay Khalifa ko Maula kehne waalay aziz Shia Musalmaan bhaeeo behno !


Pehlay aap Hazrat Abu Bakr RA, Umar RA, Usman RA ko Khalifa nai maantay jinko Hazrat Ali RA Khalifa maantay thay.


Phir Hazrat Ayesha RA aor Hazrat Abu Huraira RA, imam Abu Hanifa mufti e azam ki shaan mein gustakhee kertay ho.


Aap logoun ne aesa konsa halaf uthaya hua hai k Hazrat Fatima RA, Hazrat Ali RA aor Hazrat Imam Hasan RA ki aap ne baat nai maan ni ? Wo halaf copy paste ker dein.




Sardioun ki chutteoun ka ye tohfa qabool kerein aor inka jawaab dein. Jinka maan bhartay hein unki taqleed bhee ker lein. Nawazish hogee.



1. Hazrat Ali RA, may Allah be pleased with him, said :

Al-mautu la walid-an wa la walad-an,
hadha-s-sabilu ila an la tara ahad.
Kana-an-nabi wa lam yakhlud li-ummati-hi
lau khallad-Allahu khalq-an tablahu khalada.

"Death spares not the father, nor the son, it is the path that leaves not anyone.

He (the Holy Prophet) was a prophet, yet he did not remain with his umma forever,
Had anyone before him lived forever, he (Holy Prophet) too would have lived forever."



2. Hazrat Fatima RA, May Allah be pleased with her, relates from the Holy Prophet:

"Jesus, son of Mary, lived to the age of 120 years."
(Kanz-ul-Ummal, vol. vi, p. 120)


3. Hazrat Imam Hasan RA ascended the pulpit after the martyrdom of Hazrat Ali RA and said:

"O people! This night there has died a man whose status cannot be reached by the earlier or later generations. The Messenger of Allah used to send him to battle, so on his right would be Gabriel and on his left Michael (Mikal), and he would not return without victory. And he has left but seven hundred Dirhems with which he intended to buy a slave. He died on the night on which the soul of Jesus, son of Mary, was taken up, that is the twenty-seventh of Ramadaan."
(Tabaqat Kabir, vol. iii, p. 26)


Hazrat Ali RA, Hazrat Fatima RA, Hazrat Imam Hasan RA Prophet Pbuh's household have not only revealed Jesus AS age at his death but make it clear that it was his soul, not his body, which was taken up to heaven, and that he died on the 27th of Ramadaan.




Hazrat Ali RA, Hazrat Fatima RA & Hazrat Imam Hasan RA are 100 % correct because Quran also denounces Hazrat Eesa AS as " Mutawaffi " dead.
 

انجام

MPA (400+ posts)
محترم برادران احلست کے ہاں بہت ساری روایات ملتی ہیں کے کے جس میں جناب عمر نے ابو ہریرہ کو کوڑے تک مارے کیوں کے بقول ان کے وہ جھوٹی حدیثیں گھرتا تھا پر پھر ایسا کیا ہو گیا کے جناب عمر کے جانے کے بعد ان سے روایات لی گیں ؟ ایک طرف آپ لوگ درجہ دیتے ہیں انکو کے کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے یہ الگ بحث ہے خیر پھر آپ مزھب میں بہت ساری باتیں شریعت میں رسول خدا کی چھوڑ کرر ان کو اپنایا پر ادھر یہ اصول کیوں نہیں اپنایا ؟ اسی طرح ابن عمر وہ شخص تھا جو کے مولاے کائنات سے عداوت رکھتا تھا اور اس نے معاویہ اور یزید کی تو بیعت کر لی پر آپ کی نہیں اسے بھی بہت بڑی تعداد میں احادیث کی روایات لی گئی اسی طرح باقی امہات المومنین کو چھوڑ کر صرف اور صرف چھوٹی امی جان حضرت عایشہ سے اتنی کثیر تعداد میں روایات لی گیں جب کے حضرت ام سلمہ وہ آپ کی ازواج میں سے وہ ھیں جو سب سے آخر میں دنیا سے رخصت ہوئیں آخر ان سے اور باقیوں سے کیوں نہیں ؟ پھر ابو ہریرہ جس کا اوپر ذکر کر چکا ہوں جو کے عداوت رکھتا تھا امام متقیان سے اور معاویہ کا طرف دار بن گیا تھا اور شائد گورنر بھی رہا مدینہ کا معاویہ کے دور میں اس سے بھی روایات لی گیں آخر اہلبیت اور حضرت ابو بکر کی اولاد سے کیوں نہیں اتنی تعداد میں ؟ یہ سب کچھ ثابت کرتا ہے کے بعد از خلفا راشدہ کے بنو امیہ کی فیکٹری کے ذریعے دھڑا دھڑ احادیث بنوائی گیں اور ان سے لی گیں جو کے مولا سے عداوت رکھتے تھے اور معاویہ کے طرف دار معاویہ کی بد قسمتی تھی اگر اس کا عرصۂ بھی باقی اصحاب کی طرح لبما ذرا ہوتا تو آج ہمیں کتب میں اس کی بھی روایات کسر تعداد میں دیکھتے پر کم از کم وہ اس بات میں تو کامیاب ہو گیا کے اہلبیت سے کم سے کم روایات رکھی جائیں رہی بات بخاری میں شیعہ راویوں کی تو وہ شیعہ راوی اپنے زمانے کے بہترین لوگ تھے نہ کے خوارج کی طرح دشمن اسلام اس لیے آپ کی بات ادھر بنتی نہیں ہے جو آپ ثابت کرنا چاہتے ہیں دور معاویہ سے لے کر پورا بنو امہ کا دور ہو یا بنو عباس کا ان سب نے جو کامکا اس میں اس بات کی ہر ممکن کوشش کی کے ایک تو فضائل علی کو روکا جاے اور دوسرا ان سے کم روایت لی جائیں اور انکو جتنا نقصان پہنچایا جاے وہ کم ہے ایک دور ایسا بھی گزرا کے علی فاطمہ حسن حسین رکھنے والے کو قتل کیا جاتا تھا اور جو مولا کے چاہنے والے تھے انکو چن چن کر قتل کیا اہلسنت کی کتابیں اس بات کی شاہد ہیں
جناب فقیر نے انتہائی کوشش کی کہ بحث کو بلاوجہ فرقہ واریت کا رنگ نہ دیا جائے۔ ایک صاحب بہت پہلے ہی فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش میں تھے۔ پہلے تو آپ نے جذبات پر قابو رکھا مگر زیادہ دیر ہضم نہں کر پائے۔ بالآخر اپنی اصل پر اتر آئے۔اب آکر مکمل فرقہ واریت پر ہی اتر آئے۔ جناب جیسا کہ موضوع کے عنوان سے ظاہر تھا کہ یہ اسلامی علوم کی تدوین کا دھاگہ ہے۔ ناچیز نے اپنی کم علمی کا اعتراف کر کے لکھا کہ مجھے اہل تشیع کی تدوین حدیث کی تاریخ بارے خبر نہیں۔ اس پر جناب اپنے مسلک کی نمائندگی کرتے ہوئے پہلے 250 سال میں تدوین حدیث کی تاریخ بیان فرماتے۔؟ خیر۔ جناب کو جس چیز سے چڑ تھی اسی پر آگئے۔ جیسا کہ عرض کیا کہ صحابہ پرجرح کا حق نہیں رکھتا۔ کیونکہ قرآن مجید میں انکے گھوڑوں کی اڑتی خاک کی قسمیں اللہ نے کھائیں میرے لئے نہیں کھائیں۔ جنکی قسمیں اللہ کھائے مجھے انکی صفائیاں دینے کی حاجت نہیں۔اہلسنت کے نزدیک اہلبیت اگر سفینہ نوح کی مانند ہیں تو صحابہ کرام آسمان کے ستارے۔ لہذا ہم دین کے ٹکڑے نہیں کرتے۔ پورے دین کو مانتے ہیں۔ اس پر خود حضرت علی کرم اللہ کے فرامین بھی نقل کر سکتا ہوں۔ بہتر ہے کہ آپ خود نہج البلاغہ کا مطالعہ فرما لیں۔ اگر صرف نہج ابلاغہ اور قرآن مجید ہی معیار ٹھہر جائے تو تعصبات کی بہت ساری فضا چھٹ جائے گی۔ شاید تعصب میں تم بہت ساری بیان کردہ چیزیں بھول گئے ہو۔ تمہارے بیان کے مطابق اگر بخاری و دیگر محدثین اہلسنت بغض علی رکھتے تھے تو سب سے عجیب بات یہ ہے کہ شان علی میں تو کثرت سے روایات ملتی ہیں مگر شان امیر معاویہ میں نہ روایات کی اتنی کثرت ملتی ہے ۔ نہ انکو اتنی شہرت و قبولیت۔ اہلسنت مجموعی طور پر امیر معاویہ کے حضرت علی سے مقابلے کا تصور بھی نہیں کرتے۔ کہ دونوں ہستیوں کا علم عمل تقوی طہارت ، فضائل میں کوئی مقابلہ بنتا ہی نہیں۔ اختلاف میں بھی حضرت علی کو ہی حق مانتے ہیں۔ انکی ہی حمایت کرتے ہیں۔ مگر امیر معاویہ کے مقام صحابیت کے سبب زبان بند رکھتے ہیں۔ حضرت علی المرتضی تو 30 ہجری میں شہید ہوگئے۔ جبکہ امیر معاویہ 59 ہجری کے قریب فوت ہوئے۔ حکومت بھی انکی تھی۔ بعد ازاں انکا خاندان رشتہ دار 100 سال حکمران رہے۔ اس سب کے باوجود نہ تو حضرت امیر معاویہ کی روایات کی تعداد اتنی کثیر ہے۔ نہ ہی انکی شان میں اتنی کثرت سے روایات ہیں۔ ؟؟؟ اس سے آپ کا اعتراض تو ہوا ہوگیا۔۔جو سوالات آپ نے اٹھائے ہیں اگر اسی کو معیار بنا لیا جائے تو قرآن پر بھی اعتراض آئے گا۔ کہ فلاں کی شان میں تو اتنی آیات نازل ہوئیں فلاں کے لئے کیوں نازل نہ ہوئیں؟ کسی کے لئے ایک 2 یا 17 یہ سب تفریق کیوں؟ شاید آپ کو تاریخ فہمی میں مغالطہ ہے۔ خلافت راشدہ کے مجموعی زمانے کے برابر صرف امیر معاویہ کی حکومت رہی۔ اسی طرح ابن عمر اور ابوہریرہ سے بھی جن کو تم دشمن اہلبیت کہ رہے ہو انسے بھی جسطرح کی روایات شان اہلبیت میں منقول ہیں ویسی روایات انکے محبوب حضرت امیر معاویہ کے لئے منقول نہیں۔ یعنی آپ کے نزدیک محبت و بغض کا مدار روایات کی تعداد ہے۔ جس کی رویات کم ہیں وہ متقی و محبوب و محب علی ہے۔ جسکی روایات کی تعداد زیادہ ہے وہ مبغوض اہلبیت ہے؟؟ اس لحاظ سے تو عمر اور حکومت کے باوجود سب سے کم روایتیں حضرت امیر معاویہ سے امام بخاری نے روایت کیں ۔ نیز اس حقیر نے عرض کیا تھا کہ تمام کتب احادیث کا تحقیقی جائزہ لینے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت علی المرتضی سب سے کثیر احادیث روایات کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ آپ نےصرف ایک کتاب جو بمشکل 5 فیصد٪ احادیث کا مجموعہ ہے اسی پر فیصلہ صادرفرما دیا۔ اگر آپ چاہیں تو جامع بخاری سے ہی شان علی المرتضی پر رویات دکھا دوں۔ نیز دیگر کتب سے بھی۔ مگر اس کے مقابل آپ کو شان امیر معاویہ میں اس معیار کی روایات شاید ہی مل سکیں۔ اہلسنت کی کتب احادیث کی درجن سے زائددرج ذیل اقسام ہیں۔ جوامع ، صحاح ، سنن ، مسانید ، مستدرکات ، مصنفات، اجزاء معاجم ، کتب آثار، مستخرجات وغیرہ۔۔ ذرا ان سب کا جائزہ لے لیں۔ حب و بغض کا معیار بھی بتا دیں۔اگر اسی طرح کے الزامات لگانا ہوں تو بہت طریقے ہیں۔ یہ سوالات بھی کئے جاسکتے ہیں۔آخر تشیع امام حسین کو ہی زیادہ اہمیت کیوں دیتے ہیں؟ امام حسن کا اتنا تذکرہ کیوں نہیں کرتے؟حضرت علی کے دونوں بیٹے امام جبکہ بعد میں ساری امامت صرف حضرت امام حسین کی اولاد میں کیوں؟بعد ازاں حضرت زین العابدین کی اولاد میں بھی صرف ایک ایک ہی کیوں؟ پھر یہ تسلسل رک کیوں گیا؟یہ تمام ہستیاں ہمارے لئے محترم ہیں ۔ بہتر یہی ہے کہ بلاوجہ اس فرقہ وارانہ بحث کو ہوا نہ دیں ۔ یہ چھی چیز نہیں۔ وگرنہ عرفان شاہ مشہدی، عابد جلالی، لدھیانوی، غفور حیدری، وغیرہ والا طریقہ چل نکلے گا۔ نہ تمہیں سمجھ ائے گی کیا کہ رہے ہو ۔ نہ کسی اور کو۔ ان ساری لغویات میں نہ تجھے کچھ ہوگا نہ مجھے۔ مگر جن کی صفائیاں دینی ہیں انہی پر کیچڑ اچھالنے لگیں گے۔ وہ بھی بد نام ہونگے دین بدنام ہوگا۔ لوگ دین سے نفرت کریں گے۔ ذمہ دار تم اور میں ہونگے۔ پھر انتظامیہ اپنا کام کرے گی۔
 
Last edited:

khan_sultan

Banned
جناب فقیر نے انتہائی کوشش کی کہ بحث کو بلاوجہ فرقہ واریت کا رنگ نہ دیا جائے۔ ایک صاحب بہت پہلے ہی فرقہ واریت کو ہوا دینے کی کوشش میں تھے۔ پہلے تو آپ نے جذبات پر قابو رکھا مگر زیادہ دیر ہضم نہں کر پائے۔ بالآخر اپنی اصل پر اتر آئے۔اب آکر مکمل فرقہ واریت پر ہی اتر آئے۔ جناب جیسا کہ موضوع کے عنوان سے ظاہر تھا کہ یہ اسلامی علوم کی تدوین کا دھاگہ ہے۔ ناچیز نے اپنی کم علمی کا اعتراف کر کے لکھا کہ مجھے اہل تشیع کی تدوین حدیث کی تاریخ بارے خبر نہیں۔ اس پر جناب اپنے مسلک کی نمائندگی کرتے ہوئے پہلے 250 سال میں تدوین حدیث کی تاریخ بیان فرماتے۔؟ خیر۔ جناب کو جس چیز سے چڑ تھی اسی پر آگئے۔ جیسا کہ عرض کیا کہ صحابہ پرجرح کا حق نہیں رکھتا۔ کیونکہ قرآن مجید میں انکے گھوڑوں کی اڑتی خاک کی قسمیں اللہ نے کھائیں میرے لئے نہیں کھائیں۔ جنکی قسمیں اللہ کھائے مجھے انکی صفائیاں دینے کی حاجت نہیں۔اہلسنت کے نزدیک اہلبیت اگر سفینہ نوح کی مانند ہیں تو صحابہ کرام آسمان کے ستارے۔ لہذا ہم دین کے ٹکڑے نہیں کرتے۔ پورے دین کو مانتے ہیں۔ اس پر خود حضرت علی کرم اللہ کے فرامین بھی نقل کر سکتا ہوں۔ بہتر ہے کہ آپ خود نہج البلاغہ کا مطالعہ فرما لیں۔ اگر صرف نہج ابلاغہ اور قرآن مجید ہی معیار ٹھہر جائے تو تعصبات کی بہت ساری فضا چھٹ جائے گی۔ شاید تعصب میں تم بہت ساری بیان کردہ چیزیں بھول گئے ہو۔ تمہارے بیان کے مطابق اگر بخاری و دیگر محدثین اہلسنت بغض علی رکھتے تھے تو سب سے عجیب بات یہ ہے کہ شان علی میں تو کثرت سے روایات ملتی ہیں مگر شان امیر معاویہ میں نہ روایات کی اتنی کثرت ملتی ہے ۔ نہ انکو اتنی شہرت و قبولیت۔ اہلسنت مجموعی طور پر امیر معاویہ کے حضرت علی سے مقابلے کا تصور بھی نہیں کرتے۔ کہ دونوں ہستیوں کا علم عمل تقوی طہارت ، فضائل میں کوئی مقابلہ بنتا ہی نہیں۔ اختلاف میں بھی حضرت علی کو ہی حق مانتے ہیں۔ انکی ہی حمایت کرتے ہیں۔ مگر امیر معاویہ کے مقام صحابیت کے سبب زبان بند رکھتے ہیں۔ حضرت علی المرتضی تو 30 ہجری میں شہید ہوگئے۔ جبکہ امیر معاویہ 59 ہجری کے قریب فوت ہوئے۔ حکومت بھی انکی تھی۔ بعد ازاں انکا خاندان رشتہ دار 100 سال حکمران رہے۔ اس سب کے باوجود نہ تو حضرت امیر معاویہ کی روایات کی تعداد اتنی کثیر ہے۔ نہ ہی انکی شان میں اتنی کثرت سے روایات ہیں۔ ؟؟؟ اس سے آپ کا اعتراض تو ہوا ہوگیا۔۔جو سوالات آپ نے اٹھائے ہیں اگر اسی کو معیار بنا لیا جائے تو قرآن پر بھی اعتراض آئے گا۔ کہ فلاں کی شان میں تو اتنی آیات نازل ہوئیں فلاں کے لئے کیوں نازل نہ ہوئیں؟ کسی کے لئے ایک 2 یا 17 یہ سب تفریق کیوں؟ شاید آپ کو تاریخ فہمی میں مغالطہ ہے۔ خلافت راشدہ کے مجموعی زمانے کے برابر صرف امیر معاویہ کی حکومت رہی۔ اسی طرح ابن عمر اور ابوہریرہ سے بھی جن کو تم دشمن اہلبیت کہ رہے ہو انسے بھی جسطرح کی روایات شان اہلبیت میں منقول ہیں ویسی روایات انکے محبوب حضرت امیر معاویہ کے لئے منقول نہیں۔ یعنی آپ کے نزدیک محبت و بغض کا مدار روایات کی تعداد ہے۔ جس کی رویات کم ہیں وہ متقی و محبوب و محب علی ہے۔ جسکی روایات کی تعداد زیادہ ہے وہ مبغوض اہلبیت ہے؟؟ اس لحاظ سے تو عمر اور حکومت کے باوجود سب سے کم روایتیں حضرت امیر معاویہ سے امام بخاری نے روایت کیں ۔ نیز اس حقیر نے عرض کیا تھا کہ تمام کتب احادیث کا تحقیقی جائزہ لینے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت علی المرتضی سب سے کثیر احادیث روایات کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ آپ نےصرف ایک کتاب جو بمشکل 5 فیصد٪ احادیث کا مجموعہ ہے اسی پر فیصلہ صادرفرما دیا۔ اگر آپ چاہیں تو جامع بخاری سے ہی شان علی المرتضی پر رویات دکھا دوں۔ نیز دیگر کتب سے بھی۔ مگر اس کے مقابل آپ کو شان امیر معاویہ میں اس معیار کی روایات شاید ہی مل سکیں۔ اہلسنت کی کتب احادیث کی درجن سے زائددرج ذیل اقسام ہیں۔ جوامع ، صحاح ، سنن ، مسانید ، مستدرکات ، مصنفات، اجزاء معاجم ، کتب آثار، مستخرجات وغیرہ۔۔ ذرا ان سب کا جائزہ لے لیں۔ حب و بغض کا معیار بھی بتا دیں۔اگر اسی طرح کے الزامات لگانا ہوں تو بہت طریقے ہیں۔ یہ سوالات بھی کئے جاسکتے ہیں۔آخر تشیع امام حسین کو ہی زیادہ اہمیت کیوں دیتے ہیں؟ امام حسن کا اتنا تذکرہ کیوں نہیں کرتے؟حضرت علی کے دونوں بیٹے امام جبکہ بعد میں ساری امامت صرف حضرت امام حسین کی اولاد میں کیوں؟بعد ازاں حضرت زین العابدین کی اولاد میں بھی صرف ایک ایک ہی کیوں؟ پھر یہ تسلسل رک کیوں گیا؟یہ تمام ہستیاں ہمارے لئے محترم ہیں ۔ بہتر یہی ہے کہ بلاوجہ اس فرقہ وارانہ بحث کو ہوا نہ دیں ۔ یہ چھی چیز نہیں۔ وگرنہ عرفان شاہ مشہدی، عابد جلالی، لدھیانوی، غفور حیدری، وغیرہ والا طریقہ چل نکلے گا۔ نہ تمہیں سمجھ ائے گی کیا کہ رہے ہو ۔ نہ کسی اور کو۔ ان ساری لغویات میں نہ تجھے کچھ ہوگا نہ مجھے۔ مگر جن کی صفائیاں دینی ہیں انہی پر کیچڑ اچھالنے لگیں گے۔ وہ بھی بد نام ہونگے دین بدنام ہوگا۔ لوگ دین سے نفرت کریں گے۔ ذمہ دار تم اور میں ہونگے۔ پھر انتظامیہ اپنا کام کرے گی۔
محترم آپ تو غصہ ہی کر بیٹھے ہیں اور غصے میں آپ سے تم کا صفر اتنی جلدی طہ کر لیا ہے کے مجھے بہت حیرت ہو رہی ہے خاکسار کا مقصد آپ جیسے صاحب علم سے علمی گفتگو کے ذریعے کچھ حاصل کرنا کچھ آگہی حاصل کرنا مقصود تھا نہ کے فرقہ واریت پر الجھنا اس کام کے لیے بہتیرے ادھر موجود ہیں ان سے یہ دل لگی اچھے طریقے سے ہو سکتی ہے میرا نقطہ نظر یہی تھا کے جو تعداد آپ فرما رہے ہیں ایسا ہر گز نہیں ہے ہاں یہ میں نے ضرور پڑھا ہے کے مولاے کائنات کے فضائل بیان کرنے پر امام نسائی کو جس طرح معاویہ کے لوگوں نے شہید کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے میں ان کی قدر کرتا ہوں اور دوسری طرف صحیح بخاری ہیں جنہوں نے غدیر جیسی کھلی حقیقت کو اپنی نو جلدوں میں شائد جگہ ہی نہیں دی

آپ نے اپنی پوسٹ میں مدہانی ہی چلا دی ہے خیر ایک دو بات پر آپ سے ادھر اختلاف کی جرأت کرتا ہوں پہلی بات صحابہ ستارے ہیں یہ ضیف حدیث ہے کشتی نوح کو ستاروں کی ضرورت نہیں تھی جب طوفان آیا تھا نوح علیہ سلام کی کشتی پر تو حضرت اتنے بڑے طوفان میں ستارے غائب تھے رہنمائی کے لیے ویسے بھی اہلبیت علم کے وارث ہیں جو خود ڈر اہلبیت سے رہنمائی حاصل کریں اور کہیں کے ابو الحسن نہ ہوتے تو ھلاک ہو جاتا خیر یہ عقلی دلیل ہے جو کے آپ کے دعوے کو باطل ثابت کرتی ہے اور اس سے پہلے عرض کر چکا ہوں کے یہ حدیث ویسے بھی ضیف ہے

دوسری بات ہمارے لیے امام حسن مجتبیٰ ہوں یا حسین ہوں دونوں ایک جیسے ہیں کوئی تفریق نہیں امامت کس کی نسل سے چلنی ہے یہ با حکم خدا اور رسول ہے جیسا کے یعقوب کی نسل سے نبوت یوسف کو ملنی تھی یا بھائیوں کو آخری نبی اسماعیل کی نسل سے یا بنی اسرئیل سے آدم کا وارث کون ہو گا اس لیے آپ اس موضوع پر شائد کچھ عرصۂ پہلے بھی بات ہو چکی ہے آپ کو یاد ہی ہو گا
جناب یہ عرفان شاہ ہوں یا لدھیانوی ہو یا کوئی اور ہو ہم ان سب سے نپٹ چکے ہیں علی شیر حیدری کی یو ٹیوب پر ہار سب دیکھ چکے ہیں ہمارے پاس کل بھی اگر مولانا اسمٰعیل دیو بندی بشیر فاتح ٹیکسلا یا اظہر حسین زیدی مرحوم جیسے لوگ موجود تھے تو آج بھی الحمد للہ ابھی بھی ہیں
میں نے کسی پرکیچڑ نہیں اچھالا صرف یہی بتایا ہے کے کیا ظلم کیا ان سب نے اہلبیت کے ساتھ معاویہ نے حدیثیں تو لکھوائیں پر خود کی اتنی نہیں لکھوا سکتا تھا کیوں کے اس کا اسلام میں بظاہر داخل ہونا رسالت مآب کے پردہ فرمانے سے کچھ پہلے ہی تھا یہ لوگ فتح مکہ کے وقت مسلمان بظاہر ہوے بہت عرصۂ پہلے میسج دیکھی تھی تو کیا خوبصورت اور معنی خیز جملہ ابو سفیان کا تاریخ میں رقم ہو گیا تھا وہ کہتا ہے
lets join them
 

انجام

MPA (400+ posts)
محترم آپ تو غصہ ہی کر بیٹھے ہیں اور غصے میں آپ سے تم کا صفر اتنی جلدی طہ کر لیا ہے کے مجھے بہت حیرت ہو رہی ہے خاکسار کا مقصد آپ جیسے صاحب علم سے علمی گفتگو کے ذریعے کچھ حاصل کرنا کچھ آگہی حاصل کرنا مقصود تھا نہ کے فرقہ واریت پر الجھنا اس کام کے لیے بہتیرے ادھر موجود ہیں ان سے یہ دل لگی اچھے طریقے سے ہو سکتی ہے میرا نقطہ نظر یہی تھا کے جو تعداد آپ فرما رہے ہیں ایسا ہر گز نہیں ہے ہاں یہ میں نے ضرور پڑھا ہے کے مولاے کائنات کے فضائل بیان کرنے پر امام نسائی کو جس طرح معاویہ کے لوگوں نے شہید کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے میں ان کی قدر کرتا ہوں اور دوسری طرف صحیح بخاری ہیں جنہوں نے غدیر جیسی کھلی حقیقت کو اپنی نو جلدوں میں شائد جگہ ہی نہیں دی

آپ نے اپنی پوسٹ میں مدہانی ہی چلا دی ہے خیر ایک دو بات پر آپ سے ادھر اختلاف کی جرأت کرتا ہوں پہلی بات صحابہ ستارے ہیں یہ ضیف حدیث ہے کشتی نوح کو ستاروں کی ضرورت نہیں تھی جب طوفان آیا تھا نوح علیہ سلام کی کشتی پر تو حضرت اتنے بڑے طوفان میں ستارے غائب تھے رہنمائی کے لیے ویسے بھی اہلبیت علم کے وارث ہیں جو خود ڈر اہلبیت سے رہنمائی حاصل کریں اور کہیں کے ابو الحسن نہ ہوتے تو ھلاک ہو جاتا خیر یہ عقلی دلیل ہے جو کے آپ کے دعوے کو باطل ثابت کرتی ہے اور اس سے پہلے عرض کر چکا ہوں کے یہ حدیث ویسے بھی ضیف ہے

دوسری بات ہمارے لیے امام حسن مجتبیٰ ہوں یا حسین ہوں دونوں ایک جیسے ہیں کوئی تفریق نہیں امامت کس کی نسل سے چلنی ہے یہ با حکم خدا اور رسول ہے جیسا کے یعقوب کی نسل سے نبوت یوسف کو ملنی تھی یا بھائیوں کو آخری نبی اسماعیل کی نسل سے یا بنی اسرئیل سے آدم کا وارث کون ہو گا اس لیے آپ اس موضوع پر شائد کچھ عرصۂ پہلے بھی بات ہو چکی ہے آپ کو یاد ہی ہو گا
جناب یہ عرفان شاہ ہوں یا لدھیانوی ہو یا کوئی اور ہو ہم ان سب سے نپٹ چکے ہیں علی شیر حیدری کی یو ٹیوب پر ہار سب دیکھ چکے ہیں ہمارے پاس کل بھی اگر مولانا اسمٰعیل دیو بندی بشیر فاتح ٹیکسلا یا اظہر حسین زیدی مرحوم جیسے لوگ موجود تھے تو آج بھی الحمد للہ ابھی بھی ہیں
میں نے کسی پرکیچڑ نہیں اچھالا صرف یہی بتایا ہے کے کیا ظلم کیا ان سب نے اہلبیت کے ساتھ معاویہ نے حدیثیں تو لکھوائیں پر خود کی اتنی نہیں لکھوا سکتا تھا کیوں کے اس کا اسلام میں بظاہر داخل ہونا رسالت مآب کے پردہ فرمانے سے کچھ پہلے ہی تھا یہ لوگ فتح مکہ کے وقت مسلمان بظاہر ہوے بہت عرصۂ پہلے میسج دیکھی تھی تو کیا خوبصورت اور معنی خیز جملہ ابو سفیان کا تاریخ میں رقم ہو گیا تھا وہ کہتا ہے
lets join them

القابات میں کمی بیشی چلتی رہتی ہے۔ غصہ کا ایک بڑا واضح سبب یہ تھا کہ پچھلی پوسٹ میں جو چیزیں بیان کی تھیں بالکل انہی چیزوں کو واضح طور پر پھر لیکر آئے۔پچھلی پوسٹ میں کچھ اعتدال تھا۔ اگلی پوسٹ میں واضح طور پرحد اعتدال پار ہو رہی تھی۔
آپ کایہ بات کرنا کہ یہ بات خلاف حقیقت ہے اسی سورت قابل قبول ہوتا جب آپ کم از کم صحاح ستہ کو تو پیش کرتے۔ مگر مری بات کو صرف ایک ہی کتاب کی بنیاد پر دیوار پر دے مارا۔ دلیل کو ئی نہیں دی۔
امام بخاری کو تم صرف حدیث غدیر نقل نہ کرنے پر خارجی بنا رہے ہو۔ ور مبغوض علی بنا دیا۔ درجن بھر احادیث یا اس سے بھی زیادہ اپنی کتب میں حضرت علی کی شان میں روایت کیں۔ ایک روایت کسی بھی وجہ سے کتاب میں ذکر نہ ہو سکی لہذا وہ ہدایت سے غضب کا حقدار ہو گیا۔ حب سے بغض میں چلا گیا۔ جبکہ بغض یا دشمنی کا معیار صرف تعداد قرار پایا۔
جناب میری بات بھی حرف آخر نہیں تھی۔ مگر کم از کم درجنوں کتب میں سے 4 سے 6 کتب تک تو جاتے۔ آپ نے تو سارا فیصلہ ایک کتاب پر ہی مکمل کر لیا۔
امام نسائی کو عباسی دور حکومت میں شہید کیا گیا۔ یہ تو ایک تھے جو حب اہلبیت میں شہید ہوئے۔ الزام سے تو شاید ہی کوئی محفوظ رہا ہو۔ اسی دھاگے میں ہی آپ نے دیکھا ہوگا احمد بن حنبل اور ابن ابی شیبہ، امام شافعی اور امام اعظم کا بھی ذکر ہو گزرا۔

جناب آپ نے جو کہا حدیث ضعیف ہے تو مان لیا۔ مگر ضعیف کا مطلب کمزور ہوتا ہے۔ اس سے مراد سند یعنی راویوں کی کمزوری مراد ہوتی ہے۔ ضعیف کمزور کو کہتے ہیں جھوٹے یا کذاب کو نہیں کہتے۔ اسی طرح روایت حدیث میں حدیث کے 3 بنیادی درجات ہیں۔ جن سے حدیث کی صحت کا معلوم ہوتا ہے۔ وہ درجات صحیح ، حسن اور ضعیف ہیں۔ جبکہ من گھڑت چیز کے لئے اہل علم لفظ موضؤع استعمال کرتے ہیں۔ یعنی من گھڑت۔ وہ حدیث نہیں ہوتی۔
آپ دونوں حدیثوں کو باہم متعارض کہ سکتے ہو۔ مگر میں انکو باہم متعارض نہیں سمجھتا۔ طوفان نوح اگر کشتی کا اشارہ دیتا ہے۔ تو ستارے بے سمت گھپ اندھیری رات میں منزل کا رستہ بتاتے ہیں۔
لہذا جب طوفان آب آئے گا تو جان بخشی کے لئے کشتی میں سواری چاہئے۔ ستارے رات میں چمکتے ہیں۔ رات کے وقت یعنی جب رات کے اندھیرے میں منزل دکھائی نہ دے تو ستارے دیکھ کر رستہ کی سمت متعین کر لو۔
لہذا یہ دونوں بیانات باہم ہم معنی ہیں خلاف قرآن بھی نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔ اہل بیت صحابہ میں اول ہیں۔ لہذا انکو 2 نسبتیں ہیں۔صحابہ و اہلبیت / اہلبیت و صحابہ دونوں کے ساتھ ہماری نسبت ایک ہی سبب سے ہے۔ وہ ہے ذات مصطفی ﷺ۔
جناب میرا جھگڑا ان ہستیوں سے نہیں۔ یہ تو پہلے بھی بیان ہوچکا۔ میرا آپ سے سوال اس لئے تھا کہ آپ نے سارا الزام تو دھر دیا امام بخاری پر۔ انہوں نے فلاں سے یہ کیا یہ کیا؟ اسی انداز میں میں نے پوچھا۔
آپ کا یہ کہنا کہ امام اللہ و رسول کے حکم سے بنتا ہے۔مگر حسنین کریمین کے بعد یہ حکم کیسے نافذ ہوا۔ اس کی وہی کب آئی۔ اس کا اعلان کب اور کہاں ہوا؟ مان لیا کہ حسنین کریمین کا تو خؤد نبی اکرم ﷺ اعلان فرما گئے۔ آپ کا فرمان ہی اللہ کا فرمان ہے۔ مگر اس کے بعد یہ امر کیسے ہوا۔ کیونکہ وحی تو منقطع ہو چکی۔
تمہارا سارا جھگڑا ایک کتاب کی روایتوں پر ہی تھا اور ہے۔ اس تعداد کو ہی تم ظلم کہ رہے ہو۔ باقی خانوادہ اہلبیت پر واقعہ کربلا سے بعد تک جو ظلم روا رکھے گئے انکا انکار نہیں۔ یہ بھی بڑی عجیب بات ہے جو دوسرے کو زچ کرنا چاہتا ہے اسی کے حق میں روایات لکھواتا رہا؟؟؟ واہ رے۔ شان علی المرتضی بارے روایات بھی اسی دور کی ہیں جب ابوسفیان و معاویہ ایمان لاچکے تھے۔

ہمیں کسی کا دل کھول کر اس کا ایمان پرکھنے کا حکم نہیں۔ میسیج فلم کوئی قرآنی آیت نہیں۔ میں اپنی ذات کو ان پر جرح کے قابل نہیں سمجھتا۔ مجھے یہی معلوم ہے کہ معاویہ کو حضرت علی و حسن و حسین و زین العابدین نے کافر نہیں کہا۔ وہ خاموش رہے میں بھی انکی سنت میں خاموش ہوں۔ مگر علم عمل تقوی طہارت،حسب ،نسب میں انکا کوئی مقابلہ نہیں۔

 

khan_sultan

Banned
القابات میں کمی بیشی چلتی رہتی ہے۔ غصہ کا ایک بڑا واضح سبب یہ تھا کہ پچھلی پوسٹ میں جو چیزیں بیان کی تھیں بالکل انہی چیزوں کو واضح طور پر پھر لیکر آئے۔پچھلی پوسٹ میں کچھ اعتدال تھا۔ اگلی پوسٹ میں واضح طور پرحد اعتدال پار ہو رہی تھی۔
آپ کایہ بات کرنا کہ یہ بات خلاف حقیقت ہے اسی سورت قابل قبول ہوتا جب آپ کم از کم صحاح ستہ کو تو پیش کرتے۔ مگر مری بات کو صرف ایک ہی کتاب کی بنیاد پر دیوار پر دے مارا۔ دلیل کو ئی نہیں دی۔
امام بخاری کو تم صرف حدیث غدیر نقل نہ کرنے پر خارجی بنا رہے ہو۔ ور مبغوض علی بنا دیا۔ درجن بھر احادیث یا اس سے بھی زیادہ اپنی کتب میں حضرت علی کی شان میں روایت کیں۔ ایک روایت کسی بھی وجہ سے کتاب میں ذکر نہ ہو سکی لہذا وہ ہدایت سے غضب کا حقدار ہو گیا۔ حب سے بغض میں چلا گیا۔ جبکہ بغض یا دشمنی کا معیار صرف تعداد قرار پایا۔
جناب میری بات بھی حرف آخر نہیں تھی۔ مگر کم از کم درجنوں کتب میں سے 4 سے 6 کتب تک تو جاتے۔ آپ نے تو سارا فیصلہ ایک کتاب پر ہی مکمل کر لیا۔

محترم آپ غصہ کر گئے ہیں خیر کوئی بات نہیں میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کے مقصود صرف اور صرف آپ سے کچھ حاصل کرنا تھا اور اپنی توجہات کو آپ تک پہنچانا تھا نہ کے اس بحث کو ایک فضول مقصد کے لیے آگے بڑھانا تھا عرض یہی ہے کے جب میںنے خود اس پر کام کیا کے کتنی روایات مولاے متقیان سے لی گیں ہیں تو سب سے پہلے صحیح بخاری کا انتخاب کیا کے یہ مسلمانوں کے ہاں سب سے بڑی اور معتبر کتب ہے اگر اس میں سے ایک کسیر تعداد مولا سے روایات کی مل گیں تو آپ کی بات کومان کر اس پر بحث نہیں کروں گا کیوں کے مقصد کچھ حاصل کرنا تھا اور ہے خیر جب اس کو کھنگالا تو نکلنے والی تعداد مایوس کن تھی جس کی بنا پر باقی کتب تسنن سے رجوع نہیں کیا پر آپ کے اس اعتراز جو کے بلکل بجا تھا اور ہے اس کو مانتے ہوے کچھ معلومات حاصل کیں تو اپنے دعوے کو مظبوط سے مظبوط تر پایا وہ آپ کی خدمت میں ہدیہ کرتا ہوں
محترم مولاۓ کائنات وہ واحد ہستی ہیں جو کے آنکھ کھولنے سے لے کر سرہانہ رسول خدا کے جب وہ رخصت ہوے اس دنیا سے ظاہری طور پر سب سے قریب رہے اصول تو یہ تھا کے ان سے روایات کو زیادہ سے زیادہ حاصل کیا جاتا پر ایسا نہیں ہوا آپ کا یہ بھی عرض کرنا کے معاویہ پر الزام تراشی کا جناب یہ درست ہے آپ نے میری توجہات کو قبل غور سمجھا ہی نہیں ورنہ ابو ہریرہ جس کی زندگی کا قلیل عرصۂ رسول خدا کے ساتھ گزرا اور جن کی پٹائی جناب عمر اس بنا پر کرتے تھے کے وہ جھوٹی حدیثیں گھڑتے تھے آخر کیا ہوا کے ان کے رخصت ہونے کے بعد معاویہ کے دور سے کے اتنی بڑی کثیر تعداد میں روایت ان سے لی گیں اور جناب عمر جو کے اہل تسنن کے مذھب کا سب سے مظبوط مینار ہیں جن کی ہدایت اتنی مظبوط تھیں آپ کے ہاں کے شریعت میں ان کے رد بدل کو بھی شریعت کا حصہ بنا لیا گیا ادھر ان کے اس اصول کو نہیں اپنایا گیا جب کے احادیث کو جمع کرنا ایک بہت اہم امور تھا ؟ رہی بات بقونکی بھی تو وہ سب وہ تھے جنہوں نے معاویہ کی تو بیعت کر لی پر مولاے کائنات کی نہیں کی یہی وہ جواز بنا کے ان سے احادیث اتنی بڑی تعداد میں لی گیں خیر آگے چلتے ہیں ادھر میں وہ تحقیق پیش کرتا ہوں روایات کی امید ے کے آپ اس کے بعد مزید جرح نہیں کریں گے کیوں کے ہم ادھر کچھ منوانا نہیں صرف آگہی حاصل کرنا چاہتے ہیں
FPc7Plq.png



امام نسائی کو عباسی دور حکومت میں شہید کیا گیا۔ یہ تو ایک تھے جو حب اہلبیت میں شہید ہوئے۔ الزام سے تو شاید ہی کوئی محفوظ رہا ہو۔ اسی دھاگے میں ہی آپ نے دیکھا ہوگا احمد بن حنبل اور ابن ابی شیبہ، امام شافعی اور امام اعظم کا بھی ذکر ہو گزرا۔ محترم دوست امام نسائی کی شہادت کس بنا پر ہوئی وہ ادھر آپ سمیت تمام پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ان کو صرف اور صرف فضائل علی علیہ سلام بیان کرنے پر اور معاویہ کے فضائل کے بارے حقیقت بیان کرنے پر شہید کیا گیا اور یہ واقعہ شام کا ہے جو کے بنو امہ کا ہمیشہ مرکز رہا اور ان کی شہادت جو وجہ بنی وہ ثابت میرے موقف کو ہی کرتی ہے
QhZxNZO.png


جناب آپ نے جو کہا حدیث ضعیف ہے تو مان لیا۔ مگر ضعیف کا مطلب کمزور ہوتا ہے۔ اس سے مراد سند یعنی راویوں کی کمزوری مراد ہوتی ہے۔ ضعیف کمزور کو کہتے ہیں جھوٹے یا کذاب کو نہیں کہتے۔ اسی طرح روایت حدیث میں حدیث کے 3 بنیادی درجات ہیں۔ جن سے حدیث کی صحت کا معلوم ہوتا ہے۔ وہ درجات صحیح ، حسن اور ضعیف ہیں۔ جبکہ من گھڑت چیز کے لئے اہل علم لفظ موضؤع استعمال کرتے ہیں۔ یعنی من گھڑت۔ وہ حدیث نہیں ہوتی۔
آپ دونوں حدیثوں کو باہم متعارض کہ سکتے ہو۔ مگر میں انکو باہم متعارض نہیں سمجھتا۔ طوفان نوح اگر کشتی کا اشارہ دیتا ہے۔ تو ستارے بے سمت گھپ اندھیری رات میں منزل کا رستہ بتاتے ہیں۔
لہذا جب طوفان آب آئے گا تو جان بخشی کے لئے کشتی میں سواری چاہئے۔ ستارے رات میں چمکتے ہیں۔ رات کے وقت یعنی جب رات کے اندھیرے میں منزل دکھائی نہ دے تو ستارے دیکھ کر رستہ کی سمت متعین کر لو۔
لہذا یہ دونوں بیانات باہم ہم معنی ہیں خلاف قرآن بھی نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔ اہل بیت صحابہ میں اول ہیں۔ لہذا انکو 2 نسبتیں ہیں۔صحابہ و اہلبیت / اہلبیت و صحابہ دونوں کے ساتھ ہماری نسبت ایک ہی سبب سے ہے۔ وہ ہے ذات مصطفی ﷺ۔



محترم صحابہ ستارے والی حدیث نہ صرف علما اہلسنت نے ضعیف قرار دی ہے بلکے اس کو موضوع بھی قرار دیا ہے اور یہ عقل سے بھی دور حدیث ہے کیوں کے صحابہ ستارے کی مانند یعنی کے جس کی بھی اتباع کرو گے کامیاب ہو جاؤ گے یہ عقل کے مخالف ہے کیوں کے صحاح ستہ میں بہت روایات ملنگی کے جس میں رسول مقبول نے فرمایا کے میرے صحابہ مجھے ملیں گے اور ان کو جہنم کی طرف لے جایا جا رہا ہو گا کی جگہ لکھا ہوا پایا کے وہ بدعتیں جاری کریں گے صحابہ میں سے آٹھ سو نے عثمان مظلوم کو شہید کیا کی صحابہ شراب نوشی میں پکڑے گئے اور انو سزا دی گئی کوڑوں کی اگر صحابہ ستارے مان لیا جاے تو پھر صحیح بخاری پر اہل تسنن کے اس دعوے کی بھی نفی ہوتی ہے کے جس میں یہ سب کچھ بیان کیا گیا کے وہ بدعتیں جاری کریں گے جہنم میں جا رہے ہونگے




ﺍﺱ ﺭﻭﺍﻳﺖ ﻛﻮ ﻋﺒﺪﺍﻟﺒﺮ ﻧﮯ ﺟﺎﻣﻊ ﺍﻟﻌﻠﻢ ﻣﻴﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻦ ﺣﺰﻡ ﻧﮯ ﺍﻻﺣﻜﺎﻡ ﻣﻴﮟ ﺑﻴﺎﻥ ﻛﻴﺎ ﻫﮯ۔
ﺿﻌﻒ ﻛﻲ ﻭﺟﻮﻫﺎﺕ ﻳﻪ ﻫﻴﮟ۔
1 ۔ ﺍﺱ ﻛﻲ ﺳﻨﺪ ﻣﻴﮟ ﺣﺎﺭﺙ ﺑﻦ ﻏﺼﻴﻦ ﺭﺍﻭﻱ ﻣﺠﻬﻮﻝ ﻫﮯ۔
2 ۔ ﺍﺑﻮ ﺳﻔﻴﺎﻥ ﺭﺍﻭﻱ ﺿﻌﻴﻒ ﻫﮯ۔
3 ۔ ﺳﻼﻡ ﺑﻦ ﺳﻠﻴﻤﺎﻥ ﺭﺍﻭﻱ ﻣﻦ ﮔﮭﮍﺕ ﺭﻭﺍﻳﺘﻴﮟ ﺑﻴﺎﻥ ﻛﺮﺗﺎ ﻫﮯ۔
ﺍﻟﺴﻠﺴﻠﺔ ﺍﻟﻀﻌﻴﻔﺔ : ﺭﻭﺍﻳﺖ ﻧﻤﺒﺮ 58 ﺝ 1 ،ﺹ 144
‏( ﺍﻟﻤﻜﺘﺒﺔ ﺍﻟﺸﺎﻣﻠﺔ )
ﺍﻻﺑﺎﻧﯽ ﻧﮯ ﮐﺘﺎﺏ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺿﻌﯿﻔﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺗﻔﺼﯿﻠﯽ ﺑﺤﺚ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﻌﻠﯽ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ :
( ﻣﻮﺿﻮﻉ ‏)
ﺃﺻﺤﺎﺑﻲ ﻛﺎﻟﻨﺠﻮﻡ ﺑﺄﻳﻬﻢ ﺍﻗﺘﺪﻳﺘﻢ ﺍﻫﺘﺪﻳﺘﻢ
ﺍﻟﺴﻠﺴﻠﺔ ﺍﻟﻀﻌﻴﻔﺔ ﺝ ۱ ﺹ ۱۴۴
ﺍﻟﻤﺆﻟﻒ : ﻣﺤﻤﺪ ﻧﺎﺻﺮ ﺍﻟﺪﻳﻦ ﺍﻷﻟﺒﺎﻧﻲ
ﺍﻟﻨﺎﺷﺮ : ﻣﻜﺘﺒﺔ ﺍﻟﻤﻌﺎﺭﻑ ﺍﻟﺮﻳﺎﺽ
ﮐﯿﺎ ﺃﺻﺤﺎﺑﻲ ﻛﺎﻟﻨﺠﻮﻡ ﺑﺄﻳﻬﻢ ﺍﻗﺘﺪﻳﺘﻢ ﺍﻫﺘﺪﻳﺘﻢ ﺍﮨﻞ ﺳﻨﺖ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﻣﻌﺘﺒﺮ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ؟
ﺍﺑﻦ ﺣﺰﻡ ﺍﺱ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﻮ ﺟﮭﻮﭦ ﺍﻭﺭ ﺟﻌﻠﯽ ﻟﮑﮭﺘﮯ

جناب میرا جھگڑا ان ہستیوں سے نہیں۔ یہ تو پہلے بھی بیان ہوچکا۔ میرا آپ سے سوال اس لئے تھا کہ آپ نے سارا الزام تو دھر دیا امام بخاری پر۔ انہوں نے فلاں سے یہ کیا یہ کیا؟ اسی انداز میں میں نے پوچھا۔
آپ کا یہ کہنا کہ امام اللہ و رسول کے حکم سے بنتا ہے۔مگر حسنین کریمین کے بعد یہ حکم کیسے نافذ ہوا۔ اس کی وہی کب آئی۔ اس کا اعلان کب اور کہاں ہوا؟ مان لیا کہ حسنین کریمین کا تو خؤد نبی اکرم ﷺ اعلان فرما گئے۔ آپ کا فرمان ہی اللہ کا فرمان ہے۔ مگر اس کے بعد یہ امر کیسے ہوا۔ کیونکہ وحی تو منقطع ہو چکی۔

رسالت مآب کا ارشاد ہے کے میرے بعد بارہ خلیفہ یا امام ہوں گے اور یہ سب اہلبیت سے ہوں گے سے ہوں گے اور ہمارے پاس نصوص آئمہ ع کی روایات موجود ہیں جو کے بارہ کا تعین کرتی ہین ناموں سمیت اور یہ اتنی زیادہ تعداد میں ہیں کے شیخ حرمالی نے اثبات الھداتہ پوری کتاب لکھی اور اس سے ملتی جلتی روایات اہل تسنن کے ہاں بھی ہیں کے بارہ اممحوں گے اور ہوں گے اہلبیت سے جو کے ثابت ہے قران حکم سے جب حضرت ابراہیم نے دعا مانگی کے امامت میری نسل سے قرار دے دے تو ان کی دعا پوری ہوئیاور ہمارے تمام آئمہ با فضل خدا نسل ابراہیم سےہی ہیں اس کے علاوہ کوئی بھی دعوه نہیں کر سکتا جب کے ہمارے سامنے کے آئمہ زیادہ تر ایرانی النسل ہی ہیں جب کے یہ الله نے فیصلہ فرما دیا کے امامت ابراہیم کی ذریت سے ہو گی








تمہارا سارا جھگڑا ایک کتاب کی روایتوں پر ہی تھا اور ہے۔ اس تعداد کو ہی تم ظلم کہ رہے ہو۔ باقی خانوادہ اہلبیت پر واقعہ کربلا سے بعد تک جو ظلم روا رکھے گئے انکا انکار نہیں۔ یہ بھی بڑی عجیب بات ہے جو دوسرے کو زچ کرنا چاہتا ہے اسی کے حق میں روایات لکھواتا رہا؟؟؟ واہ رے۔ شان علی المرتضی بارے روایات بھی اسی دور کی ہیں جب ابوسفیان و معاویہ ایمان لاچکے تھے۔

ہمیں کسی کا دل کھول کر اس کا ایمان پرکھنے کا حکم نہیں۔ میسیج فلم کوئی قرآنی آیت نہیں۔ میں اپنی ذات کو ان پر جرح کے قابل نہیں سمجھتا۔ مجھے یہی معلوم ہے کہ معاویہ کو حضرت علی و حسن و حسین و زین العابدین نے کافر نہیں کہا۔ وہ خاموش رہے میں بھی انکی سنت میں خاموش ہوں۔ مگر علم عمل تقوی طہارت،حسب ،نسب میں انکا کوئی مقابلہ نہیں۔

جناب محترم برادران اہلسنت کی کتابوں میں یہ روایات موجود ہیں کے بنو امہ کے بارے کے یہ وہی شجرہ خبیثہ ہیں جنکا ذکر قران حکم میں ہے اور سرکار دو جہاں نے ان پر لعنت بھی کی ہے اور جس طرح انہوں نے خانوادہ رسول خدا کے ساتھ کیا وہ اس بات کا ثبوت ہے میں اس طرف جانا نہیں چاہتا ہوں کیوں کے میں اس تھریڈ میں مثبت سوچ کے ساتھ آپ سے گفتگو کرتا آیا ہوں باوجود اس کے آپ نے صبرکے دامن کو چھوڑا بھی پر میرا یہ طریقہ ہے ا صاحب علم کے ساتھ ہمیشہ ایک بہتر انداز سے گفتگو کرنی چاہیے ہے




[SUB]امید ہے کے آپ محترم میری گزارشات پر غور فرمیں گے میں اپنا مقدمہ آپ کی عدالت میں پیش کر چکا ہوں اور وہ بھی آپ کی ہی کتب سے اس لیے مجھے یقینھے کے آپ محترم ایک صاحب علم ہونے کی بنا پر میں نہ مانوں والی بات پر عمل نہیں کریں گے کیوں کے جب دلیل آ پہنچے تو اس کو مان لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا ہے شکریہ [/SUB]
 
Last edited:

انجام

MPA (400+ posts)
روایات کی تعداد پر جھگڑا کرنے سے پہلے اگر اپنی پوسٹ میں انگریزی والی پوسٹ کا بغور مطالعہ فرما لیں۔ اسمیں سنن نسائی اور ترمذی کی تعداد نقل نہیں کی گئی۔ جبکہ نتیجہ بیان کرتے ہوئے واضح لکھا ہے کہ اہلسنت کی معتبر ترین 10 کتب میں حضرت علی کی روایات کا مجموعہ 6481 ہے۔ جبکہ مکررات یعنی 2 یا زائد مرتبہ آنے والی روایات کو نکال کر یہ تعداد 3360 بنتی ہے۔
یہ تعداد صرف 10 کتب کی ہے۔ اگر ان کے علاوہ دیگر کتب کو بھی شامل کیا جائے تو میری بات خؤد درست ثابت ہو جاتی ہے۔اس طرح یہ بھی واضح کر دوں کہ صحیح بخاری میں مکررات کی تعداد نکال دیجائے تو کل مجموعہ اڑھائی ہزار کے قریب بنتا ہے۔ اس طرح گیارہ گیارہ سو روایات والے 5 لوگوں کی روایات کی تعداد بمشکل 400 بچتی ہے۔ اور صحاح ستہ کی مجموعی روایات کی تعداد مبالغہ سے بمشکل 10 ہزار تک جاتی ہے مکررات کے بعد۔
صحیح اور غلط کیا ہے مجھے کہنے کی حاجت نہیں۔ خؤد ہی واضح ہوگیا۔
امام نسائی کی شہادت تو یقینا حب علی کے سبب ہوئی اس پر اختلاف نہیں تھا۔ صرف یہ عرض کیا تھا کہ تاریخی اعتبار سے وہ دور بنو عباس کا دور تھا۔ بنو امیہ کا دور نہیں تھا۔ یعنی خلافت عباسی خاندان کے پاس عراق میں تھی۔

جناب یاد رکھیں کسی کی بھی پیروی کرنے کے لئے اسلام میں سب سے پہلا مصدر قرآن ہے، اس کے حدیث/سنت اسکے بعد باقی سب آتے ہیں۔ جہاں تک بات صحابہ کرام کے گناہوں میں مبتلا ہونے کی ہے تو ہم انکو معصوم و محفوظ نہیں سمجھتے۔ کسی کی بھی پیروی صرف قرآن و سنت کی اتباع میں ہی ہوگی۔ صحابہ کرام کے گناہوں میں مبتلا ہونے کے بعد انکی سیرت سے یہ پہلو رہنمائی دیتا ہے کہ وہ گناہوں پر نادم ہوکر سزا کے لئے تیار ہوجاتے تھے۔ توبہ کرتے تھے۔ ہمیں اس سے توبہ کاسبق لینا ہے۔ جبکہ جو متقی ہیں انسے تقوی و پرہیزگاری کا درس لینا ہے۔ گناہوں سے بچنے کا درس ہے۔
متقین کی سیرت گناہوں سے بچنے اور نفرت کا درس دیتی ہے۔ جبکہ جو حالت جذبات کو سنبھال نہیں سکے نفس کے مکر کا شکار ہوئے، انکا طرز عمل ندامت ، شرمندگی، اور توبہ کی طرف مائل کرتا ہے

میرا آپ سے سوال یہ تھا کہ پہلے 3 ائمہ کا تعین تو ہوگیا۔ بعد والوں کا تعین کیسے ہوا؟؟
مجھے ان ائمہ اہل بیت کے تقوی و طہارت پر تو گلہ نہیں۔ شک بھی نہیں۔ میرا سوال آپ نے یا تو سمجھا نہیں یادائیں بائیں کر دیا۔
میرا سادہ سوال یہ تھا کہ ائمہ اہل بیت کی بارہ تک تعداد بھی مان لی۔ اب یہ 12 فلاں ہونگے یہ قرآن کی کس آیت میں تعین ہے؟ جبکہ نزول وحی تو ختم ہوچکی۔اور قرآن کی کسی آیت میں انکے نام نہیں ہیں۔

نیز بنو امیہ کے کچھ لوگوں کے خراب ہونے پر تو کلام نہیں جناب۔ آپ تو سبھی کو ایک ہی چھڑی سے ہانک رہے ہیں۔ یعنی واقعہ کربلا غلطی کسی کی ہے جبکہ آپ اسکے سارے آباؤ اجداد اور خاندان کو ہی رگید رہے ہیں۔ اہلبیت پر ہونے والے مظالم اور طالموں کی صفائی دینے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں مگر اس ایک طرف کی محبت میں دوسری طرف غلو بھی جائز نہیں سمجھتا ۔

ہم مسلمانوں کے لئے حرف آخر اللہ کا کلام و رسول کا فرمان ہے۔ دیگر کسی کی بھی روایت کو انکی روشنی میں پرکھے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا۔۔


 

khan_sultan

Banned
روایات کی تعداد پر جھگڑا کرنے سے پہلے اگر اپنی پوسٹ میں انگریزی والی پوسٹ کا بغور مطالعہ فرما لیں۔ اسمیں سنن نسائی اور ترمذی کی تعداد نقل نہیں کی گئی۔ جبکہ نتیجہ بیان کرتے ہوئے واضح لکھا ہے کہ اہلسنت کی معتبر ترین 10 کتب میں حضرت علی کی روایات کا مجموعہ 6481 ہے۔ جبکہ مکررات یعنی 2 یا زائد مرتبہ آنے والی روایات کو نکال کر یہ تعداد 3360 بنتی ہے۔
یہ تعداد صرف 10 کتب کی ہے۔ اگر ان کے علاوہ دیگر کتب کو بھی شامل کیا جائے تو میری بات خؤد درست ثابت ہو جاتی ہے۔اس طرح یہ بھی واضح کر دوں کہ صحیح بخاری میں مکررات کی تعداد نکال دیجائے تو کل مجموعہ اڑھائی ہزار کے قریب بنتا ہے۔ اس طرح گیارہ گیارہ سو روایات والے 5 لوگوں کی روایات کی تعداد بمشکل 400 بچتی ہے۔ اور صحاح ستہ کی مجموعی روایات کی تعداد مبالغہ سے بمشکل 10 ہزار تک جاتی ہے مکررات کے بعد۔
صحیح اور غلط کیا ہے مجھے کہنے کی حاجت نہیں۔ خؤد ہی واضح ہوگیا۔
امام نسائی کی شہادت تو یقینا حب علی کے سبب ہوئی اس پر اختلاف نہیں تھا۔ صرف یہ عرض کیا تھا کہ تاریخی اعتبار سے وہ دور بنو عباس کا دور تھا۔ بنو امیہ کا دور نہیں تھا۔ یعنی خلافت عباسی خاندان کے پاس عراق میں تھی۔

جناب یاد رکھیں کسی کی بھی پیروی کرنے کے لئے اسلام میں سب سے پہلا مصدر قرآن ہے، اس کے حدیث/سنت اسکے بعد باقی سب آتے ہیں۔ جہاں تک بات صحابہ کرام کے گناہوں میں مبتلا ہونے کی ہے تو ہم انکو معصوم و محفوظ نہیں سمجھتے۔ کسی کی بھی پیروی صرف قرآن و سنت کی اتباع میں ہی ہوگی۔ صحابہ کرام کے گناہوں میں مبتلا ہونے کے بعد انکی سیرت سے یہ پہلو رہنمائی دیتا ہے کہ وہ گناہوں پر نادم ہوکر سزا کے لئے تیار ہوجاتے تھے۔ توبہ کرتے تھے۔ ہمیں اس سے توبہ کاسبق لینا ہے۔ جبکہ جو متقی ہیں انسے تقوی و پرہیزگاری کا درس لینا ہے۔ گناہوں سے بچنے کا درس ہے۔
متقین کی سیرت گناہوں سے بچنے اور نفرت کا درس دیتی ہے۔ جبکہ جو حالت جذبات کو سنبھال نہیں سکے نفس کے مکر کا شکار ہوئے، انکا طرز عمل ندامت ، شرمندگی، اور توبہ کی طرف مائل کرتا ہے

میرا آپ سے سوال یہ تھا کہ پہلے 3 ائمہ کا تعین تو ہوگیا۔ بعد والوں کا تعین کیسے ہوا؟؟
مجھے ان ائمہ اہل بیت کے تقوی و طہارت پر تو گلہ نہیں۔ شک بھی نہیں۔ میرا سوال آپ نے یا تو سمجھا نہیں یادائیں بائیں کر دیا۔
میرا سادہ سوال یہ تھا کہ ائمہ اہل بیت کی بارہ تک تعداد بھی مان لی۔ اب یہ 12 فلاں ہونگے یہ قرآن کی کس آیت میں تعین ہے؟ جبکہ نزول وحی تو ختم ہوچکی۔اور قرآن کی کسی آیت میں انکے نام نہیں ہیں۔

نیز بنو امیہ کے کچھ لوگوں کے خراب ہونے پر تو کلام نہیں جناب۔ آپ تو سبھی کو ایک ہی چھڑی سے ہانک رہے ہیں۔ یعنی واقعہ کربلا غلطی کسی کی ہے جبکہ آپ اسکے سارے آباؤ اجداد اور خاندان کو ہی رگید رہے ہیں۔ اہلبیت پر ہونے والے مظالم اور طالموں کی صفائی دینے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں مگر اس ایک طرف کی محبت میں دوسری طرف غلو بھی جائز نہیں سمجھتا ۔

ہم مسلمانوں کے لئے حرف آخر اللہ کا کلام و رسول کا فرمان ہے۔ دیگر کسی کی بھی روایت کو انکی روشنی میں پرکھے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا۔۔




محترم میں نے آپ کی اہم ترین کتب کا خلاصہ پیش کر دیا ہے کے انھیں نے کتنی روایت لی ہین میرا کام آپ کو زبردستی منوانا نہیں ہے جب بخاری جی نے ہی اہمیت نہیں دی تو اس کے بعد آپ کو اس پر مزید بحث کرنی ہی نہیں چاہیے تھی دعوه آپ کا تھا کے دس ہزار روایات کا اور آپ کے دعوے کو میں ثابت کر رہاہوں یہ تو بہت انوکھی ہو گئی خیر میرے خیال میں اسے بھی اہم ٹاپک کی طرف آتے ہیں اور وہ ٹاپک خلافت امامت کا ہے جو کے شیعہ سنی کے نزدیک سب سے اہم مسلہ ہے اور رہے گا آپ نے پوچھا ہے کے آئمہ اہلبیت کی تعداد بارہ مان بھی لی تو یہ کیسے معلوم ہو گا کے فلاں فلاں ہوں گے ؟ تین آئمہ کا تو بتادیا گیا بعد والوں کا تعین کیسے ہو گا ؟ جب کے نزول وحی تو ختم ہو چکی اور آپ کے بقول میں آپ کا سوال سمجھا نہیں یا دائیں بائیں کر دیا ؟
شیعہ امامیہ کے ہاں یہ بات ثابت ہے کے نبی پاک کے بعد بارہ امام ھوں گے اور انکے نام بھی سرور کونین بتا کر گئے جن میں سے آخری امام محمد مہدی ہوں گے اور یہ نہ صرف شیعہ کتب میں انکی تفصیلات موجود ہے بلکے اہلسنت کی معتبر کتابوں میں بھی ہے شیعہ کتب میں سے اصول کافی بحار الانوار وسائل الشیعہ جیسی معتبرکتب میں موجود ہیں اسی طرح پچھلی پوسٹ میں آپ کو بتایا تھا کے
شیخ حرمالی نے اثبات الھداتہ پوری کتاب لکھی اسی طرح ہمارے ہان حدیث لوح کے نام سے وہ مستند حدیث موجود ہےجو کے اصول کافی کتاب الحجہ میں ہے اسی طرح فرائد السبطین وولیم دو اور کفایت ال اطہر اہلسنت کی کتاب میں یہ موجود ہے پر ادھر میں کچھ احادیث پیش کرتا ہوں ہمارے ہاں سے جو کے ثابت کرتی ہیں رسول مقبول نام دے کر گئے تھے اور بقول اہلسنت کے یہ تمام آئمہ اپنے اپنے دور میں سب سے بزرگ عالم متقی تھے اور الله کے قریب ترین تھے
221 - نص : الحسين بن علي ، عن هارون بن موسى ، عن محمد بن إسماعيل الفزاري ، عن عبد الله بن الصالح كاتب الليث ، عن رشد بن سعد ، عن الحسين بن يوسف الأنصاري ، عن سهل بن سعد الأنصاري قال : سألت فاطمة بنت رسول الله (ص) ، عن الأئمة ؟، فقالت : كان رسول الله (ص) : يقول لعلي (ع) : يا علي : أنت الإمام والخليفة بعدي وأنت أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضيت فإبنك الحسن أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضى الحسن فالحسين أولى بالمؤمنين من أنفسهم فإذا مضى الحسين فإبنه علي بن الحسين أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضى علي فإبنه محمد أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضى محمد فإبنه جعفر أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضى جعفر فإبنه موسى أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضى موسى فإبنه علي أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضى علي فإبنه محمد أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضى محمد فإبنه علي أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضى علي فإبنه الحسن أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضى الحسن فالقائم المهدي أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، يفتح الله به مشارق الأرض ومغاربها ، فهم أئمة الحق وألسنة الصدق ، منصور من نصرهم ، مخذول من خذلهم.
اس روایت کی سند بلکل صحیح ہے


خوہری علیہ الرحمۃ کی کتاب مقتضب الاثر یا ابن خراز قمی علیہ الرحمۃ کی کتاب کفایت الاثر وغیرہ ان کتابوں میں ان بے شمار روایات کو نقل کیا گیا ہے جن میں نبی اکرم صل اللہ علیہ و الہ و سلم نے اپنے بعد اپنے بارہ جانشینوں کے نام بھی بتلائے ہیں، دیگر کتب میں بھی ایسی روایات حد تواترتک ہیں کہ جنکا انکار نہیں کیا جا سکتا ہم نمونہ کے طور پر جناب مرحوم شیخ صدوق علیہ الرحمۃ کی بیان کردہ ایک صحیح سند روایت بیان کرتے ہیں جس میں نبی کریم نے اپنے بعد اپنے جانشین کا ذکر کیا ہے کہ وہ امیر المومنین، اور حسنین علیہم السلام کے بعد 9امام حسین کی نسل سے ہوں گے جنکے آخر امام مہدی علیہ السلام ہوں گے
- ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﺃَﺑِﻲ ﺭَﺿِﻲَ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻨْﻪُ ﻗَﺎﻝَ ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﺳَﻌْﺪُ ﺑْﻦُ ﻋَﺒْﺪِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺑْﻦِ ﺃَﺑِﻲ ﺧَﻠَﻒٍ ﻗَﺎﻝَ ﺣَﺪَّﺛَﻨِﻲ ﻳَﻌْﻘُﻮﺏُ ﺑْﻦُ ﻳَﺰِﻳﺪَ ﻋَﻦْ ﺣَﻤَّﺎﺩِ ﺑْﻦِ ﻋِﻴﺴَﻰ ﻋَﻦْ ﻋَﺒْﺪِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺑْﻦِ ﻣُﺴْﻜَﺎﻥَ ﻋَﻦْ ﺃَﺑَﺎﻥِ ﺑْﻦِ ﺗَﻐْﻠِﺐَ ﻋَﻦْ ﺳُﻠَﻴْﻢِ ﺑْﻦِ ﻗَﻴْﺲٍ ﺍﻟْﻬِﻠَﺎﻟِﻲِّ ﻋَﻦْ ﺳَﻠْﻤَﺎﻥَ ﺍﻟْﻔَﺎﺭِﺳِﻲِّ ﺭَﺣِﻤَﻪُ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻗَﺎﻝَ :
ﺩَﺧَﻠْﺖُ ﻋَﻠَﻰ ﺍﻟﻨَّﺒِﻲِّ ﺹ ﻭﺇِﺫَﺍ ﺍﻟْﺤُﺴَﻴْﻦُ ﻋَﻠَﻰ ﻓَﺨِﺬَﻳْﻪِ ﻭﻫُﻮَ ﻳُﻘَﺒِّﻞُ ﻋَﻴْﻨَﻴْﻪِ ﻭﻳَﻠْﺜِﻢُ ﻓَﺎﻩُ ﻭ ﻫُﻮَ ﻳَﻘُﻮﻝُ ﺃَﻧْﺖَ ﺳَﻴِّﺪٌ ﺍﺑْﻦُ ﺳَﻴِّﺪٍ ﺃَﻧْﺖَ ﺇِﻣَﺎﻡٌ ﺍﺑْﻦُ ﺇِﻣَﺎﻡٍ ﺃَﺑُﻮ ﺍﻟْﺄَﺋِﻤَّﺔِ ﺃَﻧْﺖَ ﺣُﺠَّﺔٌ ﺍﺑْﻦُ ﺣُﺠَّﺔٍ ﺃَﺑُﻮ ﺣُﺠَﺞٍ ﺗِﺴْﻌَﺔٍ ﻣِﻦْ ﺻُﻠْﺒِﻚَ ﺗَﺎﺳِﻌُﻬُﻢْ ﻗَﺎﺋِﻤُﻬُﻢْ ..
ﺍﻟﺼﺪﻭﻕ، ﺍﺑﻮﺟﻌﻔﺮ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺍﻟﺤﺴﻴﻦ ‏( ﻣﺘﻮﻓﺎﻯ 381 ﻫـ ‏) ، ﺍﻟﺨﺼﺎﻝ، ﺝ 2 ، ﺹ 475 ، ﺗﺤﻘﻴﻖ : ﻋﻠﻲ ﺃﻛﺒﺮ ﺍﻟﻐﻔﺎﺭﻱ، ﻧﺎﺷﺮ : ﺟﻤﺎﻋﺔ ﺍﻟﻤﺪﺭﺳﻴﻦ ﻓﻲ ﺍﻟﺤﻮﺯﺓ ﺍﻟﻌﻠﻤﻴﺔ ـ ﻗﻢ، 1403 ﻫـ ـ 1362

یاد رہے کے رسول مقبول یہ فرما گئے تھے کے میرے بعد بارہ خلیفہ یا امام ہوں گے اور اس کو ہم قران حکم سے بھی ثابت کرتے ہیں کے حضرت ابراہیم نے جب دعا کی کے امامت کو میری ذریت میں داخل کر دے اور دعا پوری ہوئی اب جن جن کو آپ خلیفہ مانتے ہیں وہ نہ تو نسل ابراہیم اسمٰعیل سے ہیں نہ ہی کوئی پاکیزہ ترین بندوں میں شمار ہوتے ہیں جب یہ کہا کے بارہ ہوں گےاس کے لیے یہ روایت دیکھیں صحیح مسلم کی














"It has been narrated on the authority of Jabir b. Samura who said: I joined the company of the Holy Prophet (pbuh) with my father and I heard him say: This Caliphate will not end until there have been twelve Caliphs among them. The narrator said: Then he (the Holy Prophet) said something that I could not follow. I said to my father: What did he say? He said: He has said: All of them will be from the Quraish.





اس حدیث کو جو کے صحیح مسلم کی ہے اور تمام اہل تسنن اس کو صحیح مانتے ہیں تو سوال یہ اٹھتا ہے کے یہ بارہ امام قیامت تک کے لیے ہیں اور جب ان سے سوال کیا جاے کے آپ ان بارہ کے نام دے جائیں تو ان کے پاس اس کا جوابھی نہیں ہوتا سواۓ اس کے کے ہمارے پاس خلفاء راشدین ہیں کچھ علما نے بارہ کی تعداد کے نام بھی بتاے ملا علی قاری حنفی نے جو بارہ امام بتاے ان میں یزید لعنتی اور بنو امہ کے وہ لوگ شامل تھے کے اہلسنت کی اکثریت نے اس فہرست کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ہمیشہ ہمارے آئمہ کو ہی اماموں کے نام سے پکارا آج تک کوئی سنی ایسا نہیں ملا جس نے حضرت ابو بکر کو امام ابو بکر یا امام عمر عثمان کہا ہو ہمیشہ انہوں نے جب بھی ذکر کیا امام حسین امام جعفر امام باقر امام زین العابدین امام علی رضا کہ کر پکارا
میرا آپ سے سوال ہے آخر میں کے جب رسالت مآب فرما گئے کے میرے بعد بارہ امام ہوں گے اور آپ حضرت امام مہدی علیہ سلام کو مانتے ہیں کے وہ آخری امام وہی ہوں گے تو آپ سے سوال یہ بنتا ہے کے بتائیں کے گیارواں دسواں نواں سے لے کر پہلا کون سا امام ہے اور گیارواں جو امام ہے اس کا نام کیا تھا اور وہ کون تھا اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کے اسمیں اور بارویں میں اتنا طولانی فاصلہ ہو ؟

 
Last edited:

انجام

MPA (400+ posts)
محترم میں نے آپ کی اہم ترین کتب کا خلاصہ پیش کر دیا ہے کے انھیں نے کتنی روایت لی ہین میرا کام آپ کو زبردستی منوانا نہیں ہے جب بخاری جی نے ہی اہمیت نہیں دی تو اس کے بعد آپ کو اس پر مزید بحث کرنی ہی نہیں چاہیے تھی دعوه آپ کا تھا کے دس ہزار روایات کا اور آپ کے دعوے کو میں ثابت کر رہاہوں یہ تو بہت انوکھی ہو گئی خیر میرے خیال میں اسے بھی اہم ٹاپک کی طرف آتے ہیں اور وہ ٹاپک خلافت امامت کا ہے جو کے شیعہ سنی کے نزدیک سب سے اہم مسلہ ہے اور رہے گا آپ نے پوچھا ہے کے آئمہ اہلبیت کی تعداد بارہ مان بھی لی تو یہ کیسے معلوم ہو گا کے فلاں فلاں ہوں گے ؟ تین آئمہ کا تو بتادیا گیا بعد والوں کا تعین کیسے ہو گا ؟ جب کے نزول وحی تو ختم ہو چکی اور آپ کے بقول میں آپ کا سوال سمجھا نہیں یا دائیں بائیں کر دیا ؟
شیعہ امامیہ کے ہاں یہ بات ثابت ہے کے نبی پاک کے بعد بارہ امام ھوں گے اور انکے نام بھی سرور کونین بتا کر گئے جنمیں سے آخری امام محمد مہدی ہوں گے اور یہ نہ صرف شیعہ کتب میں انکی تفاصیل موجود ہے بلکے اہلسنت کی معتبر کتابوں میں بھی ہے شیعہ کتب میں سے اصول کافی بحار الانوار وسائل الشیعہ جیسی معتبرکتب میں موجود ہیں اسی طرح پچھلی پوسٹ میں آپ کو بتایا تھا کے
شیخ حرمالی نے اثبات الھداتہ پوری کتاب لکھی اسی طرح ہمارے ہان حدیث لوح کے نام سے وہ مستند حدیث موجود ہےجو کے اصول کافی کتاب الحجہ میں ہے اسی طرح فرائد السبطین وولیم دو اور کفایت ال اطہر اہلسنت کی کتاب میں یہ موجود ہے پر ادھر میں کچھ احادیث پیش کرتا ہوں ہمارے ہاں سے جو کے ثابت کرتی ہیں رسول مقبول نام دے کر گئے تھے اور بقول اہلسنت کے یہ تمام آئمہ اپنے اپنے دور میں سب سے بزرگ عالم متقی تھے اور الله کے قریب ترین تھے
221 - نص : الحسين بن علي ، عن هارون بن موسى ، عن محمد بن إسماعيل الفزاري ، عن عبد الله بن الصالح كاتب الليث ، عن رشد بن سعد ، عن الحسين بن يوسف الأنصاري ، عن سهل بن سعد الأنصاري قال : سألت فاطمة بنت رسول الله (ص) ، عن الأئمة ؟، فقالت : كان رسول الله (ص) : يقول لعلي (ع) : يا علي : أنت الإمام والخليفة بعدي وأنت أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضيت فإبنك الحسن أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضى الحسن فالحسين أولى بالمؤمنين من أنفسهم فإذا مضى الحسين فإبنه علي بن الحسين أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضى علي فإبنه محمد أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضى محمد فإبنه جعفر أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضى جعفر فإبنه موسى أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضى موسى فإبنه علي أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضى علي فإبنه محمد أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضى محمد فإبنه علي أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضى علي فإبنه الحسن أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، فإذا مضى الحسن فالقائم المهدي أولى بالمؤمنين من أنفسهم ، يفتح الله به مشارق الأرض ومغاربها ، فهم أئمة الحق وألسنة الصدق ، منصور من نصرهم ، مخذول من خذلهم.
اس روایت کی سند بلکل صحیح ہے


خوہری علیہ الرحمۃ کی کتاب مقتضب الاثر یا ابن خراز قمی علیہ الرحمۃ کی کتاب کفایت الاثر وغیرہ ان کتابوں میں ان بے شمار روایات کو نقل کیا گیا ہے جن میں نبی اکرم صل اللہ علیہ و الہ و سلم نے اپنے بعد اپنے بارہ جانشینوں کے نام بھی بتلائے ہیں، دیگر کتب میں بھی ایسی روایات حد تواترتک ہیں کہ جنکا انکار نہیں کیا جا سکتا ہم نمونہ کے طور پر جناب مرحوم شیخ صدوق علیہ الرحمۃ کی بیان کردہ ایک صحیح سند روایت بیان کرتے ہیں جس میں نبی کریم نے اپنے بعد اپنے جانشین کا ذکر کیا ہے کہ وہ امیر المومنین، اور حسنین علیہم السلام کے بعد 9امام حسین کی نسل سے ہوں گے جنکے آخر امام مہدی علیہ السلام ہوں گے
- ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﺃَﺑِﻲ ﺭَﺿِﻲَ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻋَﻨْﻪُ ﻗَﺎﻝَ ﺣَﺪَّﺛَﻨَﺎ ﺳَﻌْﺪُ ﺑْﻦُ ﻋَﺒْﺪِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺑْﻦِ ﺃَﺑِﻲ ﺧَﻠَﻒٍ ﻗَﺎﻝَ ﺣَﺪَّﺛَﻨِﻲ ﻳَﻌْﻘُﻮﺏُ ﺑْﻦُ ﻳَﺰِﻳﺪَ ﻋَﻦْ ﺣَﻤَّﺎﺩِ ﺑْﻦِ ﻋِﻴﺴَﻰ ﻋَﻦْ ﻋَﺒْﺪِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺑْﻦِ ﻣُﺴْﻜَﺎﻥَ ﻋَﻦْ ﺃَﺑَﺎﻥِ ﺑْﻦِ ﺗَﻐْﻠِﺐَ ﻋَﻦْ ﺳُﻠَﻴْﻢِ ﺑْﻦِ ﻗَﻴْﺲٍ ﺍﻟْﻬِﻠَﺎﻟِﻲِّ ﻋَﻦْ ﺳَﻠْﻤَﺎﻥَ ﺍﻟْﻔَﺎﺭِﺳِﻲِّ ﺭَﺣِﻤَﻪُ ﺍﻟﻠَّﻪُ ﻗَﺎﻝَ :
ﺩَﺧَﻠْﺖُ ﻋَﻠَﻰ ﺍﻟﻨَّﺒِﻲِّ ﺹ ﻭﺇِﺫَﺍ ﺍﻟْﺤُﺴَﻴْﻦُ ﻋَﻠَﻰ ﻓَﺨِﺬَﻳْﻪِ ﻭﻫُﻮَ ﻳُﻘَﺒِّﻞُ ﻋَﻴْﻨَﻴْﻪِ ﻭﻳَﻠْﺜِﻢُ ﻓَﺎﻩُ ﻭ ﻫُﻮَ ﻳَﻘُﻮﻝُ ﺃَﻧْﺖَ ﺳَﻴِّﺪٌ ﺍﺑْﻦُ ﺳَﻴِّﺪٍ ﺃَﻧْﺖَ ﺇِﻣَﺎﻡٌ ﺍﺑْﻦُ ﺇِﻣَﺎﻡٍ ﺃَﺑُﻮ ﺍﻟْﺄَﺋِﻤَّﺔِ ﺃَﻧْﺖَ ﺣُﺠَّﺔٌ ﺍﺑْﻦُ ﺣُﺠَّﺔٍ ﺃَﺑُﻮ ﺣُﺠَﺞٍ ﺗِﺴْﻌَﺔٍ ﻣِﻦْ ﺻُﻠْﺒِﻚَ ﺗَﺎﺳِﻌُﻬُﻢْ ﻗَﺎﺋِﻤُﻬُﻢْ ..
ﺍﻟﺼﺪﻭﻕ، ﺍﺑﻮﺟﻌﻔﺮ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ ﺍﻟﺤﺴﻴﻦ ‏( ﻣﺘﻮﻓﺎﻯ 381 ﻫـ ‏) ، ﺍﻟﺨﺼﺎﻝ، ﺝ 2 ، ﺹ 475 ، ﺗﺤﻘﻴﻖ : ﻋﻠﻲ ﺃﻛﺒﺮ ﺍﻟﻐﻔﺎﺭﻱ، ﻧﺎﺷﺮ : ﺟﻤﺎﻋﺔ ﺍﻟﻤﺪﺭﺳﻴﻦ ﻓﻲ ﺍﻟﺤﻮﺯﺓ ﺍﻟﻌﻠﻤﻴﺔ ـ ﻗﻢ، 1403 ﻫـ ـ 1362

یاد رہے کے رسول مقبول یہ فرما گئے تھے کے میرے بعد بارہ خلیفہ یا امام ہوں گے اور اس کو ہم قران حکم سے بھی ثابت کرتے ہیںکے حضرت ابراہیم نے جب دعا کی کے امامت کو میری ذریت میں داخل کر دے اور دعا پوری ہوئی اب جن جن کو آپ خلیفہ مانتے ہیں وہ نہ تو نسل ابراہیم اسمٰعیل سے ہیں نہ ہی کوئی پاکیزہ ترین بندوں میں شمار ہوتے ہیں جب یہ کہا کے بارہ ہوں گےاس کے لیے یہ روایت دیکھیں صحیح مسلم کی














"It has been narrated on the authority of Jabir b. Samura who said: I joined the company of the Holy Prophet (pbuh) with my father and I heard him say: This Caliphate will not end until there have been twelve Caliphs among them. The narrator said: Then he (the Holy Prophet) said something that I could not follow. I said to my father: What did he say? He said: He has said: All of them will be from the Quraish.





اس حدیث کو جو کے صحیح مسلم کی ہے اور تمام اہل تسنن اس کو صحیح مانتے ہیں تو سوال یہ اٹھتا ہے کے یہ بارہ امام قیامت تک کے لیے ہیں اور جب ان سے سوال کیا جاے کے آپ ان بارہ کے نام دے جائیں تو ان کے پاس اس کا جوابھی نہیں ہوتا سواۓ اس کے کے ہمارے پاس خلفاء راشدین ہیں کچھ علما نے بارہ کی تعداد کے نامبھی بتاے ملا علی قاری حنفی نے جو بارہ امام بتاے ان میں یزید لعنتی اور بنو امہ کے وہ لوگ شامل تھے کے اہلسنت کی اکثریت نے اس فہرست کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ہمیشہ ہمارے آئمہ کو ہی اماموں کے نام سے پکارا آج تک کوئی سنی ایسا نہیں ملا جس نے حضرت ابو بکر کو امام ابو بکر یا امام عمر عثمان کہا ہو ہمیشہ انہوں نے جب بھی ذکر کیا امام حسین امام جعفر امام باقر امام زین العابدین امام علی رضا کہ کر پکارا
میرا آپ سے سوال ہے آخر میں کے جب رسالت مآب فرما گئے کے میرے بعد بارہ امام ہوں گے اور آپ حضرت امام مہدی علیہ سلام کو مانتے ہیں کے وہ آخری امام وہی ہوں گے تو آپ سے سوال یہ بنتا ہے کے بتائیں کے گیارواں دسواں نواں سے لے کر پہلا کون سا امام ہے اور گیارواں جو امام ہے اس کا نام کیا تھا اور وہ کون تھا اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کے اسمیں اور بارونمیں اتنا طولانی فاصلہ ہو ؟

جناب مختصر عرض ہے کہ یہ عنوان اسلامی علوم کی تدوین پر تھا۔ شاید پہلے بھی عرض کیا تھا کہ آپنی کتب احادیث کی تاریخ اور انکا تسلسل بیان کرتے تو بہتر ہوتا۔ جبکہ آپ بلا وجہ کی بحث کو لیکر بیٹھ گئے۔ یعنی کس مصنف / محدث نے کس صحابی کی کتنی روایات لی ہیں؟ کس کی زیادہ کیوں ہیں کم کیون ہین؟
آپ کی اس معاملے پر تمام دلیلیں یا بحث ایک کٹ حجتی ہی تھی۔ کیونکہ ابتدائی پوسٹوں میں ہی بیانن کر چکا تھا حدیث کا قبول یا رد کیا جانا اور راویوں کی چھان پھٹک تابعین سے ہوتی ہے۔ پھر اس کے بعد۔ آپ نے بغض علی کے لئے صرف یہ سب سے بڑی دلیل پکڑی کہ اس محدث نے روایات کی تعداد کم کیوں لی؟ اس کی کئی وجوہات بھی بیان کر دیں۔ دیگر کئی غیر ضروری چیزیں۔
تعداد روایات کا جھگڑا آپ نے ہی ڈالا تھا اور خود ہی اس کی چھان پھٹک میں پڑے۔ خود ہی میری بات کی تصدیق بھی کردی۔ بعد میں گلہ شکوہ کاہے کا۔

خلافت و امامت ہمارے نزدیک قطعا منصوص قطعی نہیں۔ بلکہ ظنی ہے۔ کتب میں نص کے 4 درجے / قسمیں بیان ہوئیں۔ اس بحث میں نہیں جاتا۔
مختصر یہ کہ خلافت / امارت امت مسلمہ کے مشورہ پر ہے۔ مسلمان جسے اچھا سمجھیں گے اسے منتخب کر لیں گے۔ امامت میں جو کوئی بھی شخص اسلام کی جتنی زیادہ خدمت کرے اس کا اسی مناسبت سے مرتبہ ہے۔ امام و پیشوا بننا اللہ رب العزت کے نزدیک تقوی و طہارت اور آزمائشوں میں پورا اترنے پر ہے۔ لہذا جو بھی آزمائش پر پورا اترتا ہے اسے دنیا کی امامت سے نوازا جاتا ہے۔
بلا شک و شبہ اہل بیت اطہار نے حضورﷺ کے بعد امت مسلمہ میں سب سے زیادہ مصائب برداشت کئے اور صبر کی عظیم مثالیں قائم کیں۔

اس سے زیادہ اس مسئلہ پر یہاں بحث مناسب نہیں سمجھتا۔ نہ ہی یہ عوامی ضرورت کا مسئلہ ہے کہ اس پر یوں غیر ضروری بحث کی جائے۔
آپ کے جواب کے لئے اہل تشیع کا عربی کا یہ لنک دے رہا ہوں۔ جس حدیث کو آپ صحیح السند کہ رہے ہیں اس کے راویوں کو اس لنک میں مجھول لکھا گیا ہے۔ جبکہ جواب دینے والے نے بھی ان اعتراضات کا جواب نہیں دیا۔
آپ کے نزدیک تواتر کیا ہے اسکاتو معلوم نہیں۔ مگر اہلسنت کے نزدیک تواتر صحابہ کرام سے لیکر بعد تک کم از کم 7 سے10 افراد نے ہر طبقے نے روایت کی ہو وہ روایت تواتر کو پہنچتی ہو وہ متواتر حدیث کہلاتی ہے۔
اسی روایت سے
[FONT=&quot]قطعی احکام ثابت ہوتے ہیں۔ میرا مذکورہ لنک تشیع کا ہے۔ دیگر روایات بھی دی گئی ہیں۔[/FONT][FONT=&quot]
امید ہے آپ تدوین حدیث پر اہل تشیع کا مؤقف پیش فرمائیں گے۔ اور تاریخ و تدوین حدیث کی وضاحت فرمائیں گے۔[/FONT]​
 

khan_sultan

Banned
جناب مختصر عرض ہے کہ یہ عنوان اسلامی علوم کی تدوین پر تھا۔ شاید پہلے بھی عرض کیا تھا کہ آپنی کتب احادیث کی تاریخ اور انکا تسلسل بیان کرتے تو بہتر ہوتا۔ جبکہ آپ بلا وجہ کی بحث کو لیکر بیٹھ گئے۔ یعنی کس مصنف / محدث نے کس صحابی کی کتنی روایات لی ہیں؟ کس کی زیادہ کیوں ہیں کم کیون ہین؟
آپ کی اس معاملے پر تمام دلیلیں یا بحث ایک کٹ حجتی ہی تھی۔ کیونکہ ابتدائی پوسٹوں میں ہی بیانن کر چکا تھا حدیث کا قبول یا رد کیا جانا اور راویوں کی چھان پھٹک تابعین سے ہوتی ہے۔ پھر اس کے بعد۔ آپ نے بغض علی کے لئے صرف یہ سب سے بڑی دلیل پکڑی کہ اس محدث نے روایات کی تعداد کم کیوں لی؟ اس کی کئی وجوہات بھی بیان کر دیں۔ دیگر کئی غیر ضروری چیزیں۔
تعداد روایات کا جھگڑا آپ نے ہی ڈالا تھا اور خود ہی اس کی چھان پھٹک میں پڑے۔ خود ہی میری بات کی تصدیق بھی کردی۔ بعد میں گلہ شکوہ کاہے کا۔
محترم مولا سے کتنی احادیث لی گیں ہیں وہ میرے موقف کی تائید کرتی ہیں آپ کے کی نہیں آپ نے تو یہ بھی گول کر دیا کے ابو ہریرہ جس کو جناب عمر سزا دیتے تھے کے وہ جھوٹی حدیثیں گھرٹنے میں ماہر تھا اس سے اتنی تعداد یں احادیث ؟
خلافت و امامت ہمارے نزدیک قطعا منصوص قطعی نہیں۔ بلکہ ظنی ہے۔ کتب میں نص کے 4 درجے / قسمیں بیان ہوئیں۔ اس بحث میں نہیں جاتا۔
مختصر یہ کہ خلافت / امارت امت مسلمہ کے مشورہ پر ہے۔ مسلمان جسے اچھا سمجھیں گے اسے منتخب کر لیں گے۔ امامت میں جو کوئی بھی شخص اسلام کی جتنی زیادہ خدمت کرے اس کا اسی مناسبت سے مرتبہ ہے۔ امام و پیشوا بننا اللہ رب العزت کے نزدیک تقوی و طہارت اور آزمائشوں میں پورا اترنے پر ہے۔ لہذا جو بھی آزمائش پر پورا اترتا ہے اسے دنیا کی امامت سے نوازا جاتا ہے۔
بلا شک و شبہ اہل بیت اطہار نے حضورﷺ کے بعد امت مسلمہ میں سب سے زیادہ مصائب برداشت کئے اور صبر کی عظیم مثالیں قائم کیں۔

اس سے زیادہ اس مسئلہ پر یہاں بحث مناسب نہیں سمجھتا۔ نہ ہی یہ عوامی ضرورت کا مسئلہ ہے کہ اس پر یوں غیر ضروری بحث کی جائے۔
آپ کے جواب کے لئے اہل تشیع کا عربی کا یہ لنک دے رہا ہوں۔ جس حدیث کو آپ صحیح السند کہ رہے ہیں اس کے راویوں کو اس لنک میں مجھول لکھا گیا ہے۔ جبکہ جواب دینے والے نے بھی ان اعتراضات کا جواب نہیں دیا۔
آپ کے نزدیک تواتر کیا ہے اسکاتو معلوم نہیں۔ مگر اہلسنت کے نزدیک تواتر صحابہ کرام سے لیکر بعد تک کم از کم 7 سے10 افراد نے ہر طبقے نے روایت کی ہو وہ روایت تواتر کو پہنچتی ہو وہ متواتر حدیث کہلاتی ہے۔
اسی روایت سے
[FONT=&amp]قطعی احکام ثابت ہوتے ہیں۔ میرا مذکورہ لنک تشیع کا ہے۔ دیگر روایات بھی دی گئی ہیں۔[/FONT][FONT=&amp]
امید ہے آپ تدوین حدیث پر اہل تشیع کا مؤقف پیش فرمائیں گے۔ اور تاریخ و تدوین حدیث کی وضاحت فرمائیں گے۔[/FONT]​

محترم مولا سے کتنی احادیث لی گیں ہیں وہ میرے موقف کی تائید کرتی ہیں آپ کے کی نہیں آپ نے تو یہ بھی گول کر دیا کے ابو ہریرہ جس کو جناب عمر سزا دیتے تھے کے وہ جھوٹی حدیثیں گھرٹنے میں ماہر تھا اس سے اتنی تعداد یں احادیث ؟
محترم یہ بحث آپ لوگوں کی چھڑی ہوئی تھی میں نے تو آکر اپنا موقف اس میں پیش کرنے کی کوشش کی تھی تواتر احادیث کیا ہوتی ہین اس پر بھی بات کریں گے ابھی آپ میرے سوالات کے جواب دینے کی کوشش کریں یہ وہ حدیث ہے جو کے سب فرقوں کے ہاں موجود ہے امام حسن حسین کی امامت بارے متواتر احادیث ہیں پر آپ ابھی اس بات پررہیں جس کا میں نے پوچھا ہے خلافت ہی وہ ٹاپک ہے شیعہ سنی کے ہاں جو اختلاف کا سب بڑا مسلہ ہے ادھر اس فورم پر احلسنت حضرات یا مختلف فورمز پر یہی بات دہراتے نظر آتے ہیں کے ابو بکر عمر عثمان کی خلافت کو شیعہ نہیں مانتا اس لیے کافر ہے وغیرہ وغیرہ تو آپ اور میں کیسے اس موضوع سے دور رہ سکتے این
محترم آپ نے اماموں کے بارے بات کی کے ان کو چنا کیسا جاتا ہے وہ میں نے بیان کر دیا ہے آپ میرے سوال سے ایسے گریز کر کے نہیں نکل سکتے ہیں کیوں میں جس حدیث کی بات کررہاہوں وہ برادران اہل تسنن کے ہاں بہت مقبول ہے کے میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے میں نے آپ کو بارہ کا بتا دیا اور ان کا رسول مقبول بتا کر گئے ہیں وہ ایک نہیں بہت ساری احادیث میں ہے اور اس پر کتب بھی لکھی گیں حتہ کے امام مہدی کے بارے میں بھی اہلسنت کی کتب میں موجود ہے کے وہ امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں
آپ سے سوال یہی ہے کے بتایے کے آپ کے ہاں بارہ خلیفہ امام کون سے ہیں ؟
آپ بارتویں پر تو متفق ہیں کے وہ امام مہدی ہوں گے اور نسل فاطمہ سے ہوں گے تو باقی گیارہ کونسے ہیں ؟
اور حدیث کہ الفاظ پر غورفرمیں اور مجھے ان باقی گیارہ کے نام دیں
اور جب باروان الله کا چنا ہوا ہے تو باقی گیارہ جو ہیں وہ بھی چنے ہوے ہی ہونے چاہیے ہیں تو جو آپ کے ہاں گیارہ ہیں ان کے بارے قران حکیم یا رسول مقبول کے فرمان سے ثابت کریں یاد رہے کے امامت ذریت ابراہیم میں ہے یہ ثابت ہے قران پاک سے
 
Last edited:

انجام

MPA (400+ posts)
محترم مولا سے کتنی احادیث لی گیں ہیں وہ میرے موقف کی تائید کرتی ہیں آپ کے کی نہیں آپ نے تو یہ بھی گول کر دیا کے ابو ہریرہ جس کو جناب عمر سزا دیتے تھے کے وہ جھوٹی حدیثیں گھرٹنے میں ماہر تھا اس سے اتنی تعداد یں احادیث ؟
محترم یہ بحث آپ لوگوں کی چھڑی ہوئی تھی میں نے تو آکر اپنا موقف اس میں پیش کرنے کی کوشش کی تھی تواتر احادیث کیا ہوتی ہین اس پر بھی بات کریں گے ابھی آپ میرے سوالات کے جواب دینے کی کوشش کریں یہ وہ حدیث ہے جو کے سب فرقوں کے ہاں موجود ہے امام حسن حسین کی امامت بارے متواتر احادیث ہیں پر آپ ابھی اس بات پررہیں جس کا میں نے پوچھا ہے خلافت ہی وہ ٹاپک ہے شیعہ سنی کے ہاں جو اختلاف کا سب بڑا مسلہ ہے ادھر اس فورم پر احلسنت حضرات یا مختلف فورمز پر یہی بات دہراتے نظر آتے ہیں کے ابو بکر عمر عثمان کی خلافت کو شیعہ نہیں مانتا اس لیے کافر ہے وغیرہ وغیرہ تو آپ اور میں کیسے اس موضوع سے دور رہ سکتے این
محترم آپ نے اماموں کے بارے بات کی کے ان کو چنا کیسا جاتا ہے وہ میں نے بیان کر دیا ہے آپ میرے سوال سے ایسے گریز کر کے نہیں نکل سکتے ہیں کیوں میں جس حدیث کی بات کررہاہوں وہ برادران اہل تسنن کے ہاں بہت مقبول ہے کے میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے میں نے آپ کو بارہ کا بتا دیا اور ان کا رسول مقبول بتا کر گئے ہیں وہ ایک نہیں بہت ساری احادیث میں ہے اور اس پر کتب بھی لکھی گیں حتہ کے امام مہدی کے بارے میں بھی اہلسنت کی کتب میں موجود ہے کے وہ امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں
آپ سے سوال یہی ہے کے بتایے کے آپ کے ہاں بارہ خلیفہ امام کون سے ہیں ؟
آپ بارتویں پر تو متفق ہیں کے وہ امام مہدی ہوں گے اور نسل فاطمہ سے ہوں گے تو باقی گیارہ کونسے ہیں ؟
اور حدیث کہ الفاظ پر غورفرمیں اور مجھے ان باقی گیارہ کے نام دیں
اور جب باروان الله کا چنا ہوا ہے تو باقی گیارہ جو ہیں وہ بھی چنے ہوے ہی ہونے چاہیے ہیں تو جو آپ کے ہاں گیارہ ہیں ان کے بارے قران حکیم یا رسول مقبول کے فرمان سے ثابت کریں یاد رہے کے امامت ذریت ابراہیم میں ہے یہ ثابت ہے قران پاک سے

تعدادروایات پر بے مقصد بحث لا حاصل ہے۔ رہی بات حضرت ابو ہریرہ کے روایات گھڑنے کی تو اس کا ثبوت ذکر کر دیں۔ بہتر ہوگا کہ سند کے ساتھ باحوالہ ذکر کریں تاکہ درست نتیجہ اخذ کیاجا سکے۔

امامت و خلافت کے بیان میں بہت ساری لاحاصل بحثیں ہیں۔ مختصر یہ ہے کہ خلافت راشدہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے جو قرآن مجید کی سورہ نور کی آیت استخلاف سے ثابت ہے۔ جو خلافت راشدہ کا انکار کرے ، یا ان پر دشنام طرازی کرے، ان کے ایمان میں شک کرے وہ اپنے ایمان کا محاسبہ کرے۔ رہی بات مقام و مرتبہ میں کمی بیشی کی تو اس پر اعتراض سے کفر ثابت نہیں ہوتا۔
نیز پہلے بھی ذکر کیا کہ یہ خلافت و جانشینی کے تعین کا موضؤع نہیں۔ نہ ہی امامت کے معنی و مفہوم و خلافت کو زیر بحث لانے کا عنوان ہے۔ لہذا بجائے غیر ضروری معاملات پر جھگڑنے کے نفس مسئلہ پر بات کرنی چاہیئے۔

آپ امامت و خلافت کے موضوع کے لئے الگ بحث کر لیں وہ مناسب رہے گا۔ نیز اہلسنت کی ہر کتاب کی ہر بات من و عن نہیں مانی جاتی۔ انسے بھی اختلاف کیا جاتا ہے اور کیا جاتا رہے گا۔
رہی بات ائمہ اہل بیت کے مناقب و فضائل کی تو انسے کسی کا جھگڑا نہیں۔ قرآن مجید میں ذریت ابراہیم کی جس امامت کی بات ہے ا سپر تو جھگڑا بھی نہیں۔

 

khan_sultan

Banned

تعدادروایات پر بے مقصد بحث لا حاصل ہے۔ رہی بات حضرت ابو ہریرہ کے روایات گھڑنے کی تو اس کا ثبوت ذکر کر دیں۔ بہتر ہوگا کہ سند کے ساتھ باحوالہ ذکر کریں تاکہ درست نتیجہ اخذ کیاجا سکے۔

امامت و خلافت کے بیان میں بہت ساری لاحاصل بحثیں ہیں۔ مختصر یہ ہے کہ خلافت راشدہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے جو قرآن مجید کی سورہ نور کی آیت استخلاف سے ثابت ہے۔ جو خلافت راشدہ کا انکار کرے ، یا ان پر دشنام طرازی کرے، ان کے ایمان میں شک کرے وہ اپنے ایمان کا محاسبہ کرے۔ رہی بات مقام و مرتبہ میں کمی بیشی کی تو اس پر اعتراض سے کفر ثابت نہیں ہوتا۔
نیز پہلے بھی ذکر کیا کہ یہ خلافت و جانشینی کے تعین کا موضؤع نہیں۔ نہ ہی امامت کے معنی و مفہوم و خلافت کو زیر بحث لانے کا عنوان ہے۔ لہذا بجائے غیر ضروری معاملات پر جھگڑنے کے نفس مسئلہ پر بات کرنی چاہیئے۔

آپ امامت و خلافت کے موضوع کے لئے الگ بحث کر لیں وہ مناسب رہے گا۔ نیز اہلسنت کی ہر کتاب کی ہر بات من و عن نہیں مانی جاتی۔ انسے بھی اختلاف کیا جاتا ہے اور کیا جاتا رہے گا۔
رہی بات ائمہ اہل بیت کے مناقب و فضائل کی تو انسے کسی کا جھگڑا نہیں۔ قرآن مجید میں ذریت ابراہیم کی جس امامت کی بات ہے ا سپر تو جھگڑا بھی نہیں۔


محترم یہ بہت آسانی سے آپ نے فرما دیا کے روایات کی تعداد پر بحث لا حاصل رہی ایسا آپ کا کہنا کوئی عجیب بھی نہیں لگا میرے ادھر دوست جو کے اہل تسنن ہیں آخر میں وہ یہی کہتے پاے گئے کے تم یہسب حوالے جھوٹے لگاتے ہو پر انکو توفیق نہیں ہوئی کے کم از کم ان حوالون کوخود بھی دیکھ لیتے اور ان سب نے صحاح ستہ کی کتب تک کو ماننے سے انکار کر دیا بہر حال صحیح بخاری اور دوسری صحاح ستہ کی کتب میں روایات کی تعداد میرے موقف کی تائید کرتی ہے ہے وہ ثبوت ادھر موجود ہیں پر ان پر مزید بحث اس لیے نہیں کرنا چاہتا ہوں کے میرا کام من مانی کر کے اپنی بات منوانہ نہیں ہے ورنہ میں بخوبی جانتا ہوں کے آپ بھی اس بات کو مان چکے ہیں اظہار بے شک مت ہو
خیر آپ نے بہت آسانی سے فرما دیا کے امامت و خلافت کے موضوع پر الگ بحث کر لیں تو عرض ہے کے بحث تو ہو چکی ہے میں اپنے دلائل مضبوطی کے ساتھ پیش کر چکا ہوں جناب کی خدمت میں کے امامت کے وارث صرف اور صرف ذریت ابراہیم سے ہیں اور ہمارے آئمہ کے سوا کوئی بھی یہ دعوه نہ کر سکا نہ کر سکتا تھا کے وہ ہی ذریت ابراہیم سے ہیں
پھر جب یہ روایت موجود ہے رسالت مآب کی کے میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے اور انکی تعداد جب معلوم ہو چکی آپ کے سوال پر یہ ثابت بھی کر دیا کے آپ ان کے نام بتا کر گئے تھے اور سواے ان آئمہ کے کسی کو بھی امام کہلوانے کا حق حاصل ہی نہیں ہوا اور کبھی بھی خلفاءسلاسہ یا پدر ہندہ سے لے کر بنو امہ کےحکمرانوں ہوں یا بنو عباس کے کوئی بھی یہ دعوه ہی نہیں کر سکا کے وہ ہی ان بارہ امام اماموں میں سے بارہ ہیں اور کر بھی نہیں سکتے تھے پہلی بات کے یہ سب کے سب آل محمد سے نہیں تھے جن کا سلسلہ اسمٰعیل سے لے کر ابراہیم خلیل الله پر ختم ہوتاتھا یعنی کے ذریت ابراہیم سے وہی ہیں
دوسری بات ان تمام حکمرانوں کی جو سقیفہ سے شروع ہوے ہوں اور بنو عباس تک رہے ہوں انکی تعداد بارہ سے بہت زیادہ ہے اور یہ سب وہ ہیں جو کےشریعت محمدی سے دور تھے اور انہوں نے اپنی ایک قسم کی بدعات جاری کیں یہ الگ بحث ہے پھر کبھی صحیح
بارہ خلیفہ یا اماموں کی فہرست ملاعلی قاری حنفی نے بھی بنائی جو کو کے قبول نہیں کیا گیا کیوں کے اس میں یزید پلید جیسے کو چھٹا امام کہا گیا
ان سببتوں کا نچوڑ تو یہ نکلتا ہے کے جب آپ آخری امام بارہ میں سے کو جو کے امام مہدی علیہ سلام ہوں گے کو تو مانتے ہیں کے وہ الله کے چنے ہوے ہیں اور نسل فاطمہ سے ہی ہوں گے تو یہ سوال میں دہرا چکا ہوں جناب سے کے کم از کم باقی گیارہ اماموں کے نام تو بتا دیں ؟ کیوں کے وہ آئیں گے قیمت سے پہلے آخری دور میں جو ثابت کرتا ہے شیعہ موقف کو کے باقی گیارہ کا دور ختم ہو چکا ہے
تو آپ سے گزارش ہے کے ان باقی گیارہ کے نام اور انکا نسب بتائیں ؟ بقول اگر آپ کے کے اس میں کوئی جھگڑا نہیں ذریت ابراہیم کے حوالے سے تو میرا سوال بہت سنجیدہ ہے
قیامت کے روز لوگ اپنے اماموں کے ساتھ اٹھیں گے اور ہیں بھی بارہ ہمارے رسول پاک کے بعد توپھر آپ نے ان کو چھوڑ کر دوسروں کو کیوں اپنایا ؟ کیا آپ یہ یاد نہیں رکھ سکے کے یہ اہلبیت جن کا ذکر بار بار رسالت مآب کرتے رہے وہ صرف انکی محبت کا نہیں ان کی اتباع کا ہے خالی محبت سے باتنہیں بنے گی کیوں کے جب فرما دیا کے میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک قران اور دوسرے میرے اہلبیت تو ان سے توسل آب کرنا تھا پر آپ نے کچھ اور لوگوں کو چن لیا اور انکی بنائی ہوئی فقہ اور اصولوں کو مان لیا پر ان کو چھوڑ دیا جو کے حقیقی وارث تھے اور قران کے ساتھ جڑے ہوے تھے
تو برے مہربانی مجھے ان گیارہ امامون کے نام بتایے تا کے مجھے بھی کچھ آگہی ہو

اب آتے ہیں ابو ہریرہ کی طرف تو محترم مجھے یقین نہیں تھا کے آپ جیسا صاحب علم میرے سے ابو ہریرہ کے بارے یہ حوالہ جات مانگے گا یہ تو سب اہل علم کو معلوم ہی ہے کے وہ کس طرح کی احادیث لکھتے تھے خیر میں ادھر کچھ آپ کو اور باقی پڑھنے والوں کے سامنے پیش کرتا ہوں
Z0RawsH.png


dHkn8nj.png



VcqD65E.png

اس حدیث کو پڑھنے کے بعد ایک بات کا تو فیصلہ ہو گا کے جناب عمر نے ان کو دشمن الله اور اسلام کہا اور یہ تو معلوم ہی ہے کے کوئی الزام کسی پر لگاےاور وہ ثابت نہ ہو تو وہ پلٹ کر اسی کی طرف آتا ہے فیصلہ آپ کر لیں ؟









vQrv3G8.png


ادھر اس حدیث میں وہ خود اقرا کر رہے ہیں کے آخری ٹکڑا انکی طرف سے ہے یعنی کے وہ تدلیس بھی کرتے تھے ماشاللہ


VgOIWwE.png


یہ حدیث دیکھں لوگ انکو جھوٹا کہتے تھے بقول خود انکے اور انکی اس حدیث کو بھی دیکھیں

p0SV0Yw.png

[SUP]استغفراللہ کیا الله انسانی شکل میں ہے اوراتنے ہاتھ لمبا اگر آپ انسے متفق ہیں تو قران پاک سے ثابت کریں ؟ کے الله کتنا لمبا اور انسانی شکل میں تھا ؟
[/SUP]

6EZW6QD.png


استغفراللہ الله پاک کا پاؤں جہنم میں ؟ کیا کوئی سوچ سکتا ہے اس جسارت کا

F87yR4M.png


3ZBMSYK.png




مزید بہت کچھ ہے لکھنے کو پر اسی پر ہی میں اپنا ہاتھ روکتا ہوں اگر آپ سمجھنا چاہیں گے تو بہت ہے


 
Last edited:

انجام

MPA (400+ posts)
محترم یہ بہت آسانی سے آپ نے فرما دیا کے روایات کی تعداد پر بحث لا حاصل رہی ایسا آپ کا کہنا کوئی عجیب بھی نہیں لگا میرے ادھر دوست جو کے اہل تسنن ہیں آخر میں وہ یہی کہتے پاے گئے کے تم یہسب حوالے جھوٹے لگاتے ہو پر انکو توفیق نہیں ہوئی کے کم از کم ان حوالون کوخود بھی دیکھ لیتے اور ان سب نے صحاح ستہ کی کتب تک کو ماننے سے انکار کر دیا بہر حال صحیح بخاری اور دوسری صحاح ستہ کی کتب میں روایات کی تعداد میرے موقف کی تائید کرتی ہے ہے وہ ثبوت ادھر موجود ہیں پر ان پر مزید بحث اس لیے نہیں کرنا چاہتا ہوں کے میرا کام من مانی کر کے اپنی بات منوانہ نہیں ہے ورنہ میں بخوبی جانتا ہوں کے آپ بھی اس بات کو مان چکے ہیں اظہار بے شک مت ہو
خیر آپ نے بہت آسانی سے فرما دیا کے امامت و خلافت کے موضوع پر الگ بحث کر لیں تو عرض ہے کے بحث تو ہو چکی ہے میں اپنے دلائل مضبوطی کے ساتھ پیش کر چکا ہوں جناب کی خدمت میں کے امامت کے وارث صرف اور صرف ذریت ابراہیم سے ہیں اور ہمارے آئمہ کے سوا کوئی بھی یہ دعوه نہ کر سکا نہ کر سکتا تھا کے وہ ہی ذریت ابراہیم سے ہیں
پھر جب یہ روایت موجود ہے رسالت مآب کی کے میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے اور انکی تعداد جب معلوم ہو چکی آپ کے سوال پر یہ ثابت بھی کر دیا کے آپ ان کے نام بتا کر گئے تھے اور سواے ان آئمہ کے کسی کو بھی امام کہلوانے کا حق حاصل ہی نہیں ہوا اور کبھی بھی خلفاءسلاسہ یا پدر ہندہ سے لے کر بنو امہ کےحکمرانوں ہوں یا بنو عباس کے کوئی بھی یہ دعوه ہی نہیں کر سکا کے وہ ہی ان بارہ امام اماموں میں سے بارہ ہیں اور کر بھی نہیں سکتے تھے پہلی بات کے یہ سب کے سب آل محمد سے نہیں تھے جن کا سلسلہ اسمٰعیل سے لے کر ابراہیم خلیل الله پر ختم ہوتاتھا یعنی کے ذریت ابراہیم سے وہی ہیں
دوسری بات ان تمام حکمرانوں کی جو سقیفہ سے شروع ہوے ہوں اور بنو عباس تک رہے ہوں انکی تعداد بارہ سے بہت زیادہ ہے اور یہ سب وہ ہیں جو کےشریعت محمدی سے دور تھے اور انہوں نے اپنی ایک قسم کی بدعات جاری کیں یہ الگ بحث ہے پھر کبھی صحیح
بارہ خلیفہ یا اماموں کی فہرست ملاعلی قاری حنفی نے بھی بنائی جو کو کے قبول نہیں کیا گیا کیوں کے اس میں یزید پلید جیسے کو چھٹا امام کہا گیا
ان سببتوں کا نچوڑ تو یہ نکلتا ہے کے جب آپ آخری امام بارہ میں سے کو جو کے امام مہدی علیہ سلام ہوں گے کو تو مانتے ہیں کے وہ الله کے چنے ہوے ہیں اور نسل فاطمہ سے ہی ہوں گے تو یہ سوال میں دہرا چکا ہوں جناب سے کے کم از کم باقی گیارہ اماموں کے نام تو بتا دیں ؟ کیوں کے وہ آئیں گے قیمت سے پہلے آخری دور میں جو ثابت کرتا ہے شیعہ موقف کو کے باقی گیارہ کا دور ختم ہو چکا ہے
تو آپ سے گزارش ہے کے ان باقی گیارہ کے نام اور انکا نسب بتائیں ؟ بقول اگر آپ کے کے اس میں کوئی جھگڑا نہیں ذریت ابراہیم کے حوالے سے تو میرا سوال بہت سنجیدہ ہے
قیامت کے روز لوگ اپنے اماموں کے ساتھ اٹھیں گے اور ہیں بھی بارہ ہمارے رسول پاک کے بعد توپھر آپ نے ان کو چھوڑ کر دوسروں کو کیوں اپنایا ؟ کیا آپ یہ یاد نہیں رکھ سکے کے یہ اہلبیت جن کا ذکر بار بار رسالت مآب کرتے رہے وہ صرف انکی محبت کا نہیں ان کی اتباع کا ہے خالی محبت سے باتنہیں بنے گی کیوں کے جب فرما دیا کے میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک قران اور دوسرے میرے اہلبیت تو ان سے توسل آب کرنا تھا پر آپ نے کچھ اور لوگوں کو چن لیا اور انکی بنائی ہوئی فقہ اور اصولوں کو مان لیا پر ان کو چھوڑ دیا جو کے حقیقی وارث تھے اور قران کے ساتھ جڑے ہوے تھے
تو برے مہربانی مجھے ان گیارہ امامون کے نام بتایے تا کے مجھے بھی کچھ آگہی ہو

اب آتے ہیں ابو ہریرہ کی طرف تو محترم مجھے یقین نہیں تھا کے آپ جیسا صاحب علم میرے سے ابو ہریرہ کے بارے یہ حوالہ جات مانگے گا یہ تو سب اہل علم کو معلوم ہی ہے کے وہ کس طرح کی احادیث لکھتے تھے خیر میں ادھر کچھ آپ کو اور باقی پڑھنے والوں کے سامنے پیش کرتا ہوں

اس حدیث کو پڑھنے کے بعد ایک بات کا تو فیصلہ ہو گا کے جناب عمر نے ان کو دشمن الله اور اسلام کہا اور یہ تو معلوم ہی ہے کے کوئی الزام کسی پر لگاےاور وہ ثابت نہ ہو تو وہ پلٹ کر اسی کی طرف آتا ہے فیصلہ آپ کر لیں ؟


ادھر اس حدیث میں وہ خود اقرا کر رہے ہیں کے آخری ٹکڑا انکی طرف سے ہے یعنی کے وہ تدلیس بھی کرتے تھے ماشاللہ


یہ حدیث دیکھں لوگ انکو جھوٹا کہتے تھے بقول خود انکے اور انکی اس حدیث کو بھی دیکھیں

[SUP]استغفراللہ کیا الله انسانی شکل میں ہے اوراتنے ہاتھ لمبا اگر آپ انسے متفق ہیں تو قران پاک سے ثابت کریں ؟ کے الله کتنا لمبا اور انسانی شکل میں تھا ؟
[/SUP]

استغفراللہ الله پاک کا پاؤں جہنم میں ؟ کیا کوئی سوچ سکتا ہے اس جسارت کا

مزید بہت کچھ ہے لکھنے کو پر اسی پر ہی میں اپنا ہاتھ روکتا ہوں اگر آپ سمجھنا چاہیں گے تو بہت ہے



تعداد روایات کی بحث سے آپ نے کیا اخذ کیا مجھے تو کچھ معلوم نہیں۔ مگر مجھے یہ جاننا تھا کہ آیا تعداد روایات سےآپ نے حضرت علی کی شان علم میں کمی دیکھی؟ انکے مقام و فضیلت میں کہیں کمی بیان ہوئی؟ بخاری کا سنی محدثین کا دشمن علی ہونا ثابت ہوا؟
اگر یہی سب ثابت کرنا ہے تو انکی تو کوئی دلیل تم نے دی ہی نہیں۔ باقی ہر کتاب کی اپنی اہمیت ہے۔ مگر کوئی بھی حدیث کی کتاب قرآن مجید کی طرح مکمل اور حرف آخر نہیں۔ کچھ ہماری مرضی کی احادیث اگر متعلقہ کتاب میں نہ ملیں تو ہم اس محدث پر حدیث اور اہل بیت کا باغی ہونے کا دعوی دائر کردیں۔

اگر آپ کو امامت و خلافت پر اتنی ہی ضروری بحث کرنی ہے تو مختصر الفاظ میں پہلے اپنا تصور خلافت بیان کر دیں۔ بلاوجہ غیر ضروری بحث لاحاصل ہے۔ آپ اس مسئلہ کو کس سطح کا منصوص سمجھتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ کے بارے آپ کے تمام اعتراضات کے جوابات تو خود آپ کی اپنی ہی پوسٹ میں موجود ہیں۔ یہ ملاحظہ فرمائیں۔
پہلی پوسٹ میں ایک آیت کا شان نزول بیان ہوا۔ اس پر اپنے اہل خاندان کو تنبیہ کی گئی۔ یہ کوئی غیر متعلقہ بات نہیں۔
بلکہ بعض اوقات کئی آیات ایک سے زائد مرتبہ نازل ہونے کا ثبوت ملتا ہے تو دوسری جانب ایک ہی طرح کے الفاظ کئی مواقع پر حدیث شریف میں بھی بیان ہوتے ہیں۔ اسمیں تو کوئی ایسا تضاد ہے ہی نہیں۔ اسکی واضح مثال حدیث پنجتن جو کئی مرتبہ دہرائی گئی۔

دوسری مثال میں آپ نے مستدرک سے جو اعتراض پیش کیا ، وہ بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ بلکہ نہایت ہی واضح الفاظ میں ایک الگ حقیقت واضح کر رہا ہے۔
یہ اس روایت کا ترجمہ ایک شیعہ کی پوسٹ سے دے رہا ہوں۔

ابو ہریرہ نے کہا کہ عمر نے مجھ سے کہا: اے اللہ کے دشمن اور اسلام کے دشمن ؛ تم نے اللہ کے مال کے ساتھ غداری کی ہے ؛ میں نے کہا کہ : میں اللہ کا دشمن نہیں اور نہ ہی اسلام کا دشمن ہوں بلکہ میں اس کا دشمن ہو جو انکا دشمن ہے اور میں نے اللہ کے مال کے ساتھ کوئی غداری نہیں کی بلکہ وہ تو اونٹ اور نیزوں کا پیسہ جمع ہوا تھا عمر نے کہا: اسکی واپسی کرو اور میں نے ان سے پھر وہی بات کی ؛انہوں نے مجھے 12000 جرمانہ کیا پھر میں ظہر کی نماز کے لیے کھڑا ہوا اور کہا اے اللہ امیر المومنین کو بخش دینااور اسکے بعد انہوں نے کہا کہ میں کام کروں پر میں نے نا کیا؛حضرت عمر نے کہا کہ کیا یوسف نے کام نہیں کیا تھا اور وہ تم سے بہتر تھا؛میں نے کہا کہ یوسف نبی کا بیٹا تھا جبکہ میں امیہ کا بیٹا ہوں اور میں 3 اور 2 سے ڈرتا ہوں عمر نے کہا نے 5 کیوں نا کہا؟ میں نے کہا نہیں ؛اس نے پوچھا وہ کیا ہیں؟میں نے کہا کے میں ڈرتا ہوں کے بغیر علم کے بولو؛بغیر علم کے فتویٰ دوں اور یہ کہ میری کمر پر مارا جائے اور یہ کہ میری بات کی توہین ۔کی جائے
یہ خود دیکھیں۔ یہ مواخذے کی بحث ہے۔ جس میں خؤد ابوہریرہ ہی اپنے اور عمر فاروق کے الفاظ بیان کر رہے ہیں۔ یعنی مواخذے کے وقت سخت الفاظ استعمال کئے گئے۔ یہ مؤاخذے کا تقاضا بھی ہے۔ جب حساب کتاب مانگا جاتا ہے تو سخت الفاط ہی استعمال کئے جانے چاہئیں۔
اس کے بعد ابوہریرہ کا عمل بھی ذکر ہے۔ کہ انہوں نے حساب دیا۔ وسائل کا ماخذ بتایا۔ حاکم کی طرف سے مطالبے پر تمام رقم جمع کروا دی گئی۔ اسکے بعد پھر حضرت عمر نے انکو عامل مقرر کرنا چاہا ، مگر آپ نے انکار کردیا۔ بلکہ اس بوجھ کو اٹھانے سے معذرت کر لی۔ اب آپ ہی بتائیں کہ آپ کی طر ف سے کوڑے لگانے کا الزام کہاں ہے؟ اس کی بنیاد کیا ہے ؟ یہ تو بالکل ہی الگ کہانی تھی۔

اگلی حدیث بھی بھی بالکل الگ ہے۔ نیز اس ایک ٹکڑے کی تحریر سے بہت ساری باتیں واضح نہیں ہوتیں۔ کبھی استاد اپنے شاگردوں کو آزمانے کے لئے مختلف چیزیں ملا کر پڑھتا ہے۔ انکی صلاحیتوں کا امتحان لیتا ہے۔ اس روایت میں ایسا کچھ نہیں جس سے یہ واضح ہو کہ ابوہریرہ اپنی طرف سے حدیث میں اضافہ کرتے تھے۔ بلکہ وہ تو خؤد بتا رہے ہیں کہ جناب پہلا حصہ فرمان رسول ہے جبکہ اگلا حصہ میری طرف سے ہے۔ یہ بات ضرور ہے کہ شاگرد نے سوال کیا۔ اس کی بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو پہلے بیان ہو چکی۔ جبکہ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ دوران تدریس تسلسل میں دونوں حصے الگ واضح نہ کر سکے ہوں۔ جس کی شاگرد نے توجہ دلائی۔ آپ نے اس کی وضاحت فرما دی۔
ہمیشہ ہر بات کے مثبت و منفی دونوں پہلو ہو سکتے ہیں۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ مثبت پہلو لیتے ہیں یا منفی یہ آپ کا انتخاب ہے۔
اگلی روایت بھی بڑی واضح ہے۔ جناب ہر الزام یا تہمت بغیر ثبوت کے قبول نہیں ہوتی۔ ابوہریرہ خود ہی تو فرما رہے ہیں کہ تم مجھے ہر بات میں طعنہ/الزام/تہمت دیتے ہو جبکہ مجھے تو حضور ﷺ کے اتنے سادہ فرامین اور آداب زندگی بھی معلوم ہیں۔ اس میں کہیں کوئی ثبوت ہو تو فرمائیں۔ یعنی وہ ایک الزام کا جواب دے رہے ہیں۔ آپ اسکو ہی جھوٹ قرار دے رہے ہیں۔؟؟
اگلی روایت بھی بڑی واضح تھی۔ جناب اسمیں تخلیق آدم کا ذکر ہے۔ آپ نے تخلیق کی بجائے خالق کی لمبائی مراد لے لی۔ یہ تو آپ کا قصور ہے۔ راوی کا نہیں۔
ویسے سابقہ ادوار میں لوگوں کے قد لمبے ہوتے تھے۔ مگر آدم علیہ السلام کی لمبائی کتنی تھی ہم کچھ نہیں کہ سکتے۔
اسی طرح ہاتھ کی لمبائی کے بارے بھی مختلف آراء ہیں۔ ایک میں صرف ہاتھ ، دوسرے میں ہاتھ کہنیوں تک ، جبکہ ایک میں سارا بازو ہی ہاتھ کہلاتا ہے۔ لہذا ایسی روایات پر بحث نہیں کرنی چاہئے۔

اس کے بعد والی روایت بھی عام الفاظ میں ہی نہیں کہی جائی گی۔ بلکہ اس کی وضاحت میں کہا جائے گا جیسے اللہ چاہے گا۔ یعنی جیسے قرآن مجید کے الفاظ جو دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔ اسی طرح یہاں بھی دوزخ کی حقارت کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے۔ چونکہ ایسی روایات کا حقیقی علم سوائے رسول اللہ ﷺکے کسی کے ذریعے اب حاصل نہیں ہوسکتا ۔ اور وہ سلسلہ براہ راست امت سے منقطع ہو چکا۔ لہذا اس پر بحث سے بچنا چاہیئے۔
تاریخ ابن کثیر کی روایت بھی بڑی واضح ہے۔ جو سیاق و سباق سے مزید واضح ہورہی ہے۔ یعنی حضرت عمر روایت حدیث سے منع نہیں فرماتے تھے بلکہ صرف عمومی عمل والی احادیث کی تعلیم پر زور دیتے تھے۔ نیز اس میں بھی احتیاط کا ایک پہلو غالب تھا۔
اسی طرح حضور ﷺ سے بھی ایک حدیث مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے خلوص دل سے کلمہ طیبہ پڑھا وہ جنت میں جائے گا۔ صحابی کہتے ہیں میں نے سوال کیا کیا میں یہ لوگوں کو بتا دوں تو آپ ﷺ نے منع فرما دیا۔ کہ لوگ غفلت میں پڑ جائیں گے۔ مگر صحابی نے آخری وقت میں علم رک جانے کے خوف سے بیان کیا۔
حضرت عمر فاروق کی احتیاط بھی اسی طرح کی تھی۔ اس میں بھی آپ کا مطلوبہ پہلو میسر نہیں آتا۔
کنزالعمال کی روایت بیان کرنے والے نے اس کے ساتھ متصل عربی عبارت کاٹ کر فتنہ پھیلانے کے لئے یہ پوسٹ کر دی۔ اگر وہاں عربی عبارت پڑھ لیتے تو مشکل آسان ہوجاتی۔ اسمیں لکھا ہے کہ متعلقہ راوی ایک نا معلوم راوی ہے۔ اس کی ابوہریرہ سے روایات ثابت ہی نہیں۔ یعنی یہ الزام ابوہریرہ پر نہیں بلکہ انکی طرف منسوب کرنے والے کی غلطی ہے۔

لہذا امید ہے کہ آئندہ اعتراض سے قبل کچھ غور وخوض کر کے اعتراض پیش کریں۔ کنزالعمال پرمیری بات کو آپ یہاں سے تصدیق کر سکتے ہیں۔

 
Last edited:

khan_sultan

Banned
[FONT=&amp]تعداد روایات کی بحث سے آپ نے کیا اخذ کیا مجھے تو کچھ معلوم نہیں۔ مگر مجھے یہ جاننا تھا کہ آیا تعداد روایات سےآپ نے حضرت علی کی شان علم میں کمی دیکھی؟ انکے مقام و فضیلت میں کہیں کمی بیان ہوئی؟ بخاری کا سنی محدثین کا دشمن علی ہونا ثابت ہوا؟
[/FONT]

[FONT=&amp]جناب محترم دعوه آپ کا ہی تھا کے دس ہزار روایات کا تو جناب نے بھی دیکھا اور سب نے دیکھا کے یہ تعداد آپ کی بتائی ہوئی جس کو ثابت کرنے میں آپ قاصر رہے ہیں باقی باتوں کی طرح ادھر جو کچھ بھی ثابت کر رہاہوں وہ میری ہی ذات ہے اور شکر ہے اس پاک ذات کا کے اہلبیت ہی وہ ہستیاں ہیں کے جنکا دفاع کرنا کوئی مسلہ ہی نہیں ہے بس سمجھنے والی کی عاقبت نہ خراب ہو جناب بخاری کا دشمن علی نہ بھی کہیں تو بفغز علی تو ثابت کر ہی دیا تھا کیوں کے حدیث غدیر کی تقریبن ہر کسی کتابنے لکھا سواے بخاری کے اور یہ وہ حدیث ہے جو کے سقیفہ کے بیابان میں نہیں بلکے کھلے آسمان تلے ہے جدھر ایک لکھ سے اوپر صحابہ موجود تھے اور یہ وہ حدیث ہے جس میں جناب عمر کا یہ فرمانا کے اے علی مبارک ہو مبارک ہو آج سے آپ ہمارے بھی مولا ہو گئے ایسی حدیث کو بخاری بھول تو نہیں سکتا پر بغض علی میں یہ فضائل علی تھا اس کو نہیں جگہ دی اپنی کتب میں
اگر یہی سب ثابت کرنا ہے تو انکی تو کوئی دلیل تم نے دی ہی نہیں۔ باقی ہر کتاب کی اپنی اہمیت ہے۔ مگر کوئی بھی حدیث کی کتاب قرآن مجید کی طرح مکمل اور حرف آخر نہیں۔ کچھ ہماری مرضی کی احادیث اگر متعلقہ کتاب میں نہ ملیں تو ہم اس محدث پر حدیث اور اہل بیت کا باغی ہونے کا دعوی دائر کردیں۔

اگر آپ کو امامت و خلافت پر اتنی ہی ضروری بحث کرنی ہے تو مختصر الفاظ میں پہلے اپنا تصور خلافت بیان کر دیں۔ بلاوجہ غیر ضروری بحث لاحاصل ہے۔ آپ اس مسئلہ کو کس سطح کا منصوص سمجھتے ہیں۔
[/FONT]

[FONT=&amp]محترم سوال آپ کا ہی تھا کے آپ کسطرح حسنین کے بعد باقی آئمہ کو منجانب الله ثابت کریں گے اور اس کو سبت کرنے کے بعد بار بار سوال کیا کے کیا آپ اماممہدی کے علاوہ باقی گیارہ آئمہ کے نام بتایں گے ؟ کیوں کے مہدی علیہ سلام تو آخری ہیں اور نسل فاطمہ سے ہوں گے مجھے معلوم ہے کے آپ حضرت نہیں بتا سکیں گے شرمندگی کی وجہ سے کیوں کے آپ کے علما خاص طور پر ملا علی قاری حنفی نے جو فہرست دی اس میں یزید پلید بھی چھٹا خلیفہ ہے اس فہرست میں مروان سمیت

حضرت ابوہریرہ کے بارے آپ کے تمام اعتراضات کے جوابات تو خود آپ کی اپنی ہی پوسٹ میں موجود ہیں۔ یہ ملاحظہ فرمائیں۔
پہلی پوسٹ میں ایک آیت کا شان نزول بیان ہوا۔ اس پر اپنے اہل خاندان کو تنبیہ کی گئی۔ یہ کوئی غیر متعلقہ بات نہیں۔
بلکہ بعض اوقات کئی آیات ایک سے زائد مرتبہ نازل ہونے کا ثبوت ملتا ہے تو دوسری جانب ایک ہی طرح کے الفاظ کئی مواقع پر حدیث شریف میں بھی بیان ہوتے ہیں۔ اسمیں تو کوئی ایسا تضاد ہے ہی نہیں۔ اسکی واضح مثال حدیث پنجتن جو کئی مرتبہ دہرائی گئی۔

دوسری مثال میں آپ نے مستدرک سے جو اعتراض پیش کیا ، وہ بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ بلکہ نہایت ہی واضح الفاظ میں ایک الگ حقیقت واضح کر رہا ہے۔
یہ اس روایت کا ترجمہ ایک شیعہ کی پوسٹ سے دے رہا ہوں۔
[FONT=&amp]
ابو ہریرہ نے کہا کہ عمر نے مجھ سے کہا: اے اللہ کے دشمن اور اسلام کے دشمن ؛ تم نے اللہ کے مال کے ساتھ غداری کی ہے ؛ میں نے کہا کہ : میں اللہ کا دشمن نہیں اور نہ ہی اسلام کا دشمن ہوں بلکہ میں اس کا دشمن ہو جو انکا دشمن ہے اور میں نے اللہ کے مال کے ساتھ کوئی غداری نہیں کی بلکہ وہ تو اونٹ اور نیزوں کا پیسہ جمع ہوا تھا عمر نے کہا: اسکی واپسی کرو اور میں نے ان سے پھر وہی بات کی ؛انہوں نے مجھے 12000 جرمانہ کیا پھر میں ظہر کی نماز کے لیے کھڑا ہوا اور کہا اے اللہ امیر المومنین کو بخش دینااور اسکے بعد انہوں نے کہا کہ میں کام کروں پر میں نے نا کیا؛حضرت عمر نے کہا کہ کیا یوسف نے کام نہیں کیا تھا اور وہ تم سے بہتر تھا؛میں نے کہا کہ یوسف نبی کا بیٹا تھا جبکہ میں امیہ کا بیٹا ہوں اور میں 3 اور 2 سے ڈرتا ہوں عمر نے کہا نے 5 کیوں نا کہا؟ میں نے کہا نہیں ؛اس نے پوچھا وہ کیا ہیں؟میں نے کہا کے میں ڈرتا ہوں کے بغیر علم کے بولو؛بغیر علم کے فتویٰ دوں اور یہ کہ میری کمر پر مارا جائے اور یہ کہ میری بات کی توہین ۔کی جائے
[/FONT]
[FONT=&amp]یہ خود دیکھیں۔ یہ مواخذے کی بحث ہے۔ جس میں خؤد ابوہریرہ ہی اپنے اور عمر فاروق کے الفاظ بیان کر رہے ہیں۔ یعنی مواخذے کے وقت سخت الفاظ استعمال کئے گئے۔ یہ مؤاخذے کا تقاضا بھی ہے۔ جب حساب کتاب مانگا جاتا ہے تو سخت الفاط ہی استعمال کئے جانے چاہئیں۔
اس کے بعد ابوہریرہ کا عمل بھی ذکر ہے۔ کہ انہوں نے حساب دیا۔ وسائل کا ماخذ بتایا۔ حاکم کی طرف سے مطالبے پر تمام رقم جمع کروا دی گئی۔ اسکے بعد پھر حضرت عمر نے انکو عامل مقرر کرنا چاہا ، مگر آپ نے انکار کردیا۔ بلکہ اس بوجھ کو اٹھانے سے معذرت کر لی۔ اب آپ ہی بتائیں کہ آپ کی طر ف سے کوڑے لگانے کا الزام کہاں ہے؟ اس کی بنیاد کیا ہے ؟ یہ تو بالکل ہی الگ کہانی تھی۔
[/FONT]
[/FONT]

[FONT=&amp]اگلی حدیث بھی بھی بالکل الگ ہے۔ نیز اس ایک ٹکڑے کی تحریر سے بہت ساری باتیں واضح نہیں ہوتیں۔ کبھی استاد اپنے شاگردوں کو آزمانے کے لئے مختلف چیزیں ملا کر پڑھتا ہے۔ انکی صلاحیتوں کا امتحان لیتا ہے۔ اس روایت میں ایسا کچھ نہیں جس سے یہ واضح ہو کہ ابوہریرہ اپنی طرف سے حدیث میں اضافہ کرتے تھے۔ بلکہ وہ تو خؤد بتا رہے ہیں کہ جناب پہلا حصہ فرمان رسول ہے جبکہ اگلا حصہ میری طرف سے ہے۔ یہ بات ضرور ہے کہ شاگرد نے سوال کیا۔ اس کی بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو پہلے بیان ہو چکی۔ جبکہ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ دوران تدریس تسلسل میں دونوں حصے الگ واضح نہ کر سکے ہوں۔ جس کی شاگرد نے توجہ دلائی۔ آپ نے اس کی وضاحت فرما دی۔
ہمیشہ ہر بات کے مثبت و منفی دونوں پہلو ہو سکتے ہیں۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ مثبت پہلو لیتے ہیں یا منفی یہ آپ کا انتخاب ہے۔
اگلی روایت بھی بڑی واضح ہے۔ جناب ہر الزام یا تہمت بغیر ثبوت کے قبول نہیں ہوتی۔ ابوہریرہ خود ہی تو فرما رہے ہیں کہ تم مجھے ہر بات میں طعنہ/الزام/تہمت دیتے ہو جبکہ مجھے تو حضور ﷺ کے اتنے سادہ فرامین اور آداب زندگی بھی معلوم ہیں۔ اس میں کہیں کوئی ثبوت ہو تو فرمائیں۔ یعنی وہ ایک الزام کا جواب دے رہے ہیں۔ آپ اسکو ہی جھوٹ قرار دے رہے ہیں۔؟؟
اگلی روایت بھی بڑی واضح تھی۔ جناب اسمیں تخلیق آدم کا ذکر ہے۔ آپ نے تخلیق کی بجائے خالق کی لمبائی مراد لے لی۔ یہ تو آپ کا قصور ہے۔ راوی کا نہیں۔
ویسے سابقہ ادوار میں لوگوں کے قد لمبے ہوتے تھے۔ مگر آدم علیہ السلام کی لمبائی کتنی تھی ہم کچھ نہیں کہ سکتے۔
اسی طرح ہاتھ کی لمبائی کے بارے بھی مختلف آراء ہیں۔ ایک میں صرف ہاتھ ، دوسرے میں ہاتھ کہنیوں تک ، جبکہ ایک میں سارا بازو ہی ہاتھ کہلاتا ہے۔ لہذا ایسی روایات پر بحث نہیں کرنی چاہئے۔

اس کے بعد والی روایت بھی عام الفاظ میں ہی نہیں کہی جائی گی۔ بلکہ اس کی وضاحت میں کہا جائے گا جیسے اللہ چاہے گا۔ یعنی جیسے قرآن مجید کے الفاظ جو دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔ اسی طرح یہاں بھی دوزخ کی حقارت کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے۔ چونکہ ایسی روایات کا حقیقی علم سوائے رسول اللہ ﷺکے کسی کے ذریعے اب حاصل نہیں ہوسکتا ۔ اور وہ سلسلہ براہ راست امت سے منقطع ہو چکا۔ لہذا اس پر بحث سے بچنا چاہیئے۔
تاریخ ابن کثیر کی روایت بھی بڑی واضح ہے۔ جو سیاق و سباق سے مزید واضح ہورہی ہے۔ یعنی حضرت عمر روایت حدیث سے منع نہیں فرماتے تھے بلکہ صرف عمومی عمل والی احادیث کی تعلیم پر زور دیتے تھے۔ نیز اس میں بھی احتیاط کا ایک پہلو غالب تھا۔
اسی طرح حضور ﷺ سے بھی ایک حدیث مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جس نے خلوص دل سے کلمہ طیبہ پڑھا وہ جنت میں جائے گا۔ صحابی کہتے ہیں میں نے سوال کیا کیا میں یہ لوگوں کو بتا دوں تو آپ ﷺ نے منع فرما دیا۔ کہ لوگ غفلت میں پڑ جائیں گے۔ مگر صحابی نے آخری وقت میں علم رک جانے کے خوف سے بیان کیا۔
حضرت عمر فاروق کی احتیاط بھی اسی طرح کی تھی۔ اس میں بھی آپ کا مطلوبہ پہلو میسر نہیں آتا۔
کنزالعمال کی روایت بیان کرنے والے نے اس کے ساتھ متصل عربی عبارت کاٹ کر فتنہ پھیلانے کے لئے یہ پوسٹ کر دی۔ اگر وہاں عربی عبارت پڑھ لیتے تو مشکل آسان ہوجاتی۔ اسمیں لکھا ہے کہ متعلقہ راوی ایک نا معلوم راوی ہے۔ اس کی ابوہریرہ سے روایات ثابت ہی نہیں۔ یعنی یہ الزام ابوہریرہ پر نہیں بلکہ انکی طرف منسوب کرنے والے کی غلطی ہے۔

لہذا امید ہے کہ آئندہ اعتراض سے قبل کچھ غور وخوض کر کے اعتراض پیش کریں۔ کنزالعمال پرمیری بات کو آپ یہاں سے تصدیق کر سکتے ہیں۔
[/FONT]

[FONT=&amp]
[/FONT]

محترم آپ بھولے تو یقین نھیں پر خیانت کے مرتکب ضرور ہوے ہیں ادھر میری پیش کردہ روایت کو آپ کے نزدیک ابو ہریرہ کا ناجائز دفاع زیادہ ضروری ہے بجاے اس کے کے نبی پاک اور الله پاک کی شان میں کوئی کوتاہی نہ ہو جاے

حضرت یاد رکھیے کے ابو ہریرہ افضل نہیں ہے افضل رسول خدا ہیں یہی حدیث دیکھیں میں پھر پیش کرتا ہوں اور ثابت کرتا ہوں جیسا کے پہلے ثابت کیا ہے محترم آپ نے گمراہ کن طریقے سے جس طرح روایت کا ترجمہ کیا اوہ آپ کے شان شیاں نہیں تھا پہلے بھی عرض کیا تھا کے اسلام کا ہی حکم ہے کے کوئی اگر کسی پر جھوٹا الزام لگاے اور اگے وہ ثابت نہ ہو سکے تو وہ خود اس کی طرف ہی پلٹتا ہے ادھر آپ ابو ہریرہ کو بچانے کے لیے اپنے خلیفہ دوئم کا بھی خیال نہیں رکھ رہے بقول آپ کی کتب کے کے اگر کوئی اور نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتے ادھر عمر اس پر الزام لگا رہے ہیں چور کا اور اسلام دشمن کا اگر وہ دعوه بقول آپ کے درست نہیں تو پھر دعوه پلٹ کر کس کی طرف جاے گا میں یہ جسارت نہیں کرتا
1BkrmMZ.png


JVHF9wY.png


بخاری نے ابو ہریرہ سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا نبی اکرم نے فرمایا بدترین صدقہ وھ ھے جو بے نیاز کردے ...... روایت کے بیان کے بعد لوگوں نے پوچھا کیا توں نے رسول الله سے اس روایت کو سنا اس نےنہیں یہ میری جیب سے ہے یعنی کے جب چوری پکڑی گئی تو کہا نہیں میری جیب سے ہے رسول الله نے نہیں فرمایا استغفراللہ
اب کوئی بھی بندہ خدا فیصلہ کرے کے کیا ابو ہریرہ نے الله کے رسول پر جھوٹ نہیں بولا خدا را انصاف کریں ابو ہریرہ کی نہیں شریعت محمد کی ہے ابھی آگے دیکھیں آپ کے ہاں سے ہی ابن عمر


R4i5C9J.png


Mty58J0.png

یہ امام عبد البرکی کتاب ہے انہوں نے با سند صحیح نقل کیا ہے کے ابن عمر ابو ہریرہ کو کذاب کہا یاد رہے یہ ابن عمر فرما رہے ہیں یعنی کے باپ کے بعد بیٹا بھی ان کو کذب سمجھتا تھا تو پھر رہ کیا گیا ؟

bGEZpGg.png

wxX6PPx.png

ابن عساکر نے امی جان حضرت عایشہ سے روایت کی ہے کے دو لوگوںنے بنی عامر میں سے عایشہ سے کہا کے ابو ہریرہ کہتا ہے کے نبی اکرم نے فرمایا نحوست تین بڑی چیزوں میں ہے چوپایہ عورت اور گھوڑے میں امی جان حضرت عایشہ نے فرمایا کے جھوٹ بولا ہے اس نے اس کی قسم جس نے محمد فرقان نازل کیا آپ نے ایسا نہیں فرمایا

باقی تو رہ گئے حضرت امی جانخود کیا فرما رہی ہیں ان کے علاوہ بہت کچھ ہے پر میں اسی پر ہی اقتفا کرتا ہوںمیں سمجھتا تھا کے محترم کچھ علمی گفتگو کے دوران حق کو ماں لیں گے پر صد ہاے افسوس کے ایسا نہیں ہوا لمبی لمبی پوسٹیں کرنا اور بات ہے دلیل دے کر بات کرنا بلکل مختلف ہے




محترم اب اس کے بعد اگر خلافت پر گفتگو چاہتے ہیں تو براے مہربانی اپنے گیارہ خلفاؤں کے ناموں کی فہرست ادھر دیجیے جو کےذریت ابراہیمی سے ہوں ورنہ آپ اس محاز پر بھی کچھ ثابت نہیں کر پائیں گے میرا مقصد صرف اور صرف حقائق بیان کرنا تھا نہ کے کوئی زور [FONT=&amp] زبردستی [/FONT] اپنی بات منوانہ ورنہ گزشتہ روایت پر ہی بحث کروں تو آپ حضرت کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی ہو گی پر میں نے مزید حوالہ جات سے اپنے دعوے کو ثابت کیا
 
Last edited:

SachGoee

Senator (1k+ posts)
پیارے بچو بھاءیو بہنو امام اعظم کی قست دوءم حاضر ہے


بچو! اب تو تمہاری سمجھ میں یہ بات آگئی ہوگی کہ فقہ اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں مختلف قسم کے مسائل کے متعلق حل بیان کیے جاتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ وضو اس طرح کرنا چاہیے، نماز اس طرح پڑھنی چاہیے۔ اسی طرح زکوٰۃ، روزہ، حج، نکاح کے علاوہ لین دین اور ورثہ اور روزمرہ کے مسائل۔ بچے کی ولادت سے لے کراس کی وفات تک کے مسائل کو علم فقہ کے ذریعہ بتایا گیاہے۔

فقہ کا علم جاننے والا فقیہ کہلاتاہے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ فقہ کے علم کو جاننے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ حدیث اور قرآن کریم کا علم اچھی طرح آتا ہو۔ اس لیے آپ نے قرآن کریم اور حدیث کا علم بھی حاصل کیا۔ آپ نے کوفہ میں کوئی ایسا محدث یعنی حدیث بیان کرنے والا نہیں چھوڑا جس سے آپ نے حدیث کا علم حاصل نہ کیاہو۔ حدیث کے متعلق علم حاصل کرنے کے لیے آپ بصرہ اور شام بھی تشریف لے گئے۔ امام حمادؒ کے علاوہ آپ نے فقہ کا علم حضرت امام جعفرصادقؒ سے بھی سیکھا حضرت امام اعظم نے امام حمادؒ سے فقہ کا علم اتنا سیکھ لیا تھا کہ ایک بار امام حمادؒ نے فرمایا کہ:۔

اے ابو حنیفہ! تو نے مجھ کو خالی کردیا۔

یعنی جتنا علم میرے پاس تھا تو نے وہ سب حاصل کرلیا۔ آپ کے استاد امام حمادؒ آپ سے بہت محبت کرتے تھے ایک بار امام حمادؒ سفر پر گئے۔ کچھ دن بعد واپس آئے تو آپ کے صاحبزادے اسمٰعیل نے آپ سے پوچھا: ابّاجان! آپ کو سب سے زیادہ کس کو دیکھنے کا شوق تھا؟ انہوں نے فرمایا: ابو حنیفہ کو دیکھنے کا۔ اگر یہ ہوسکتا کہ مَیں کبھی نگاہ ان کے چہرے سے نہ ہٹاؤں تو یہی کرتا۔ امام ابو حنیفہ سے محبت اور ان کے علم و ذہانت کی وجہ سے ایک بار جب امام حمادؒ سفر پر روانہ ہوئے تو اپنی جگہ امام ابو حنیفہ کو بٹھا گئے۔

کوفہ میں حضرت امام ابو حنیفہؒ نے امام حمادؒ سے فقہ اور حدیث کا علم سیکھا۔ لیکن ان کاخیال تھا کہ اب مجھے مکّہ معظمہ جانا چاہیے اس لیے کہ وہ تمام مذہبی علوم کا اصل مرکز ہے۔ چنانچہ آپ مکّہ معظمہ پہنچے اور مزید علم حاصل کرنے کے لیے عطاء بن ابی رباحؒ کی درس گاہ کا انتخاب کیا۔ عطاء بن ابی رباحؒ مشہور تابعین میں سے تھے۔ تابعین سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے صحابہ کرامؓ کا زمانہ پایا ہو اور ان سے ملاقات کی ہو۔ یہاں پر بھی آپ نے اپنے علم اور ذہانت کی وجہ سے جلد ہی استاد محترم کے دل میں اپنے لیے محبت پیدا کرلی۔

یہ تو امام صاحبؒ کے بچپن اور ان کی تعلیمی زندگی کا مختصر حال تھا۔ چلو اب دیکھتے ہیں کہ امام اعظمؒ نے علم حاصل کرنے کے بعد عملی زندگی کس طرح بسر کی۔

امام صاحبؒ کو اپنے استاد امام حمادؒ سے بہت محبت تھی اس لیے ان کی زندگی میں آپ نے یہ گوارہ نہ کیا کہ اپنا الگ سکول قائم کریں۔ امام صاحبؒ کی اپنے استاد محترم کے ساتھ محبت کا اندازہ تم اس بات سے لگا سکتے ہو کہ جب تک امام حمادؒ زندہ رہے حضرت ابو حنیفہؒ نے ان کے مکان کی طرف کبھی پاؤں نہیں پھیلائے۔ 120ھ میں امام حمادؒ کا انتقال ہوگیا امام حمادؒ کے انتقال کے بعد لوگوں نے امام صاحبؒ سے درخواست کی کہ اب آپ درس دیا کریں۔ آپ نے شروع میں تو انکار کیا مگر جب لوگوں کا اصرار بڑھ گیا تو آپ اپنے استاد محترم امام حمادؒ کے سکول میں ہی درس دینے لگے۔

جب امام اعظمؒ نے درس دینا شروع کیا توایک دن خواب میں دیکھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کھود رہے ہیں اور آپؐ کی مبارک اور پاک ہڈیوں کو جمع کررہے ہیں۔ امام اعظمؒ اس خواب کو دیکھ کر ڈر گئے اورسمجھنے لگے کہ شایدمَیں درس دینے کے قابل نہیں ہوں۔ آپؒنے امام ابنِ سیرینؒ جو کہ خوابوں کی تعبیر کا علم جانتے تھے اور اس علم میں امام اور استاد تھے ان سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے فرمایاکہ اس خواب کو دیکھنے والا شخص مردہ علم کو زندہ کرے گا۔

جب آپ کو خواب کی تعبیر معلوم ہوگئی توآپ اطمینان کے ساتھ درس دینے میں مشغول ہوگئے۔ شروع شروع میں توصرف امام حمادؒ کے شاگرد درس میں شامل ہوتے تھے۔ لیکن چند دنوں میں ہی آپ کی شہرت اتنی زیادہ ہوگئی کہ کوفہ میں موجود اکثر دوسری درس گاہں بھی ٹوٹ کر آپ کے حلقۂ درس میں شامل ہوگئیں۔ دُور دراز کے مقامات سے لوگ علم حاصل کرنے کے لیے آپ کی درس گاہ میں آنے لگے۔ ان مقامات میں مکّہ، مدینہ، دمشق، بصرہ، رملہ، یمن، مصر، بحرین، بغداد، ہمدان، بخارا، سمرقند وغیرہ کے طالبعلم شامل تھے۔

امام ابو حنیفہؒ کے زمانہ میں بنواُمیّہ کی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا اور عباسی حکومت قائم ہوگئی۔ عباسی خاندان کا پہلا حاکم ابوالعباس عبداللہ تھا۔ وہ اس قدرظالم تھا کہ لوگ اسے سفّاح یعنی خونی کہنے لگے۔ اُس نے کُل چار سال حکومت کی۔ 132ھ میں اس کا بھائی ابوجعفر المنصور تختِ حکومت پر بیٹھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب اسلام کی تعلیم عرب سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل رہی تھی مگر جو لوگ اسلام کے دشمن تھے وہ تو اسلام کی ترقی دیکھ ہی نہیں سکتے تھے نا! اس لیے انہوں نے نئے نئے عقیدے بنانا شروع کردیے اور تو اور وہ حدیثیں بھی اپنی طرف سے ہی بنا لیتے تھے۔ حاکم منصور چاہتا تھا کہ جتنے بھی عالم لوگ ہیں وہ میرے دربار میں آئیں۔ انہیں سرکاری عہدے بھی دیے جائیں گے۔ مثلاً یہ کہ علمائے کرام کو قاضی کا عہدہ دیاجائے گا مگر فیصلہ وہی ہوگا جو وہ خودچاہے گا۔

یہ سب کچھ اس لیے ہورہا تھا کہ مُلک میں کوئی ایسا قانون نہیں تھا جس کے مطابق حکومت کے فیصلے کیے جاتے۔ امام اعظمؒ نے جب یہ تمام حالات دیکھے تو اس موقع پر اپنی سمجھ اور ذہانت سے کام لیا اور انسانی ضروریات کے متعلق ایک اسلامی قانون قرآن اور سنّت کی روشنی میں قائم کیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کا کرم تھا کہ اس نے امام اعظمؒ کوا س عظیم دینی خدمت کی توفیق عطا فرمائی۔

ابوجعفر منصور کے دَورِ حکومت میں اس کے ظلم اور زیادتیوں کے خلاف مدینہ میں محمد بن عبداللہ نے حاکم ہونے کا دعویٰ کیا۔ محمدبن عبداللہ عالمِ دین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بہادر اور دلیر تھے۔ جب آپ نے حاکم ہونے کا دعویٰ کیا تو امام اعظمؒ نے ان کی حمایت کی۔ کوفہ کے لوگ بھی ان کے ساتھ ہوگئے۔ ابتداء میں محمدبن عبداللہ نے نہایت بہادری اور دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا۔ آخر کار شہید ہوگئے۔ اس کے بعد ان کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ نے ان کی جگہ لی۔ ابراہیمؒ بھی بہت بڑے عالم تھے۔ کوفہ کے تقریباً ایک لاکھ آدمی ان کے ساتھ جان دینے کو تیار ہوگئے۔ انہوں نے ڈٹ کر نہایت بہادری کے ساتھ منصور کا مقابلہ کیا۔ مگر حلق میں تیر لگ جانے کی وجہ سے شہید ہوگئے۔

امام ابو حنیفہؒ نے منصور کے خلاف محمدبن عبداللہ اور ابراہیم بن عبداللہ کا ساتھ اس لیے دیا کہ آپ نے سفّاح کی حکومت کا زمانہ دیکھا پھر ابوجعفر منصور کے ظلم اور اس کی زیادتیوں کو دیکھا۔ آپ سمجھتے تھے کہ یہ لوگ حکومت کے اہل نہیں ہیں۔

پھر ایسا ہوا کہ جب منصور نے محمدبن عبداللہ اور ابراہیم بن عبداللہ کو شکست دے دی تو پھر ان لوگوں کی طرف توجہ کی جنہوں نے ان کا ساتھ دیا تھا۔ منصور کو علم تھا کہ امام صاحبؒ نے نہ صرف ان لوگوں کی حمایت کی بلکہ پیسہ سے بھی ان کی مدد کی ہے۔ منصور کوفہ آیا لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ کوفہ میں امام صاحبؒ سے محبت اور عقیدت رکھنے والے لوگ ہزاروں کی تعدادمیں موجود ہیں۔ اس لیے اس نے یہ چال چلی کہ امام صاحبؒ کو کوفہ سے بغداد بلایا جائے۔ پھر آپ کو قاضی کا عہدہ پیش کیا جائے۔ جسے وہ ہرگز قبول نہیں کریں گے پھر حاکم کے حکم کا انکار کرنے کی صورت میں انہیں آسانی کے ساتھ قید وبند میں ڈالا جاسکے گا۔

پیارے بچو بھائیو بہنو امام اعظم کی قست ثوئم حاضر ہے۔


جب منصور نے اپنے منصوبہ کے تحت امام صاحبؒ کو بغداد بلوایا تو آپ ساری بات سمجھ گئے۔ آپ سمجھ گئے تھے کہ اب آزمائش کا وقت آگیا ہے۔ آپ نے لوگوں کی امانںید ان کے حوالے کیں اور بغداد تشریف لے گئے۔ منصور نے انہیں قاضی کا عہدہ پیش کیا۔ آپ نے انکار کردیااور اس کی یہ وجوہات بیان کیں۔

1۔ مَیں عربی النسل نہیں ہوں۔ اس لیے اہلِ عرب کو میری حکومت پسند نہیں آئے گی۔

2۔ درباریوں کی تعظیم کرنا پڑے گی اور یہ مجھ سے نہ ہوسکے گا۔

جب آپ کسی بھی صورت میں نہیں مانے تو منصور نے آپ کو جیل میں ڈلوا کر کوڑوں کی سزا کا حکم دیا۔

دیکھو بچو! خدا تعالیٰ کے ہر فعل میں کوئی نہ کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے۔ منصور یہ چاہتا تھا کہ مَیں امام صاحب کو قید میں ڈال کر اتنی تکالیف دوں کہ وہ حق وصداقت کا راستہ چھوڑ کر میری مرضی پر چلنے لگیں لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ امام صاحب کو قید و بند میں ڈالنے سے ان کی شہرت میں اَور اضافہ ہوجائے گا اورلوگ پہلے سے بھی زیادہ ان کی عزت کرنے لگیں گے۔ امام صاحب کی شہرت صرف کوفہ میں ہی نہیں تھی بلکہ بغداد میں بھی ایک علمی جماعت ایسی تھی جو آپ سے عقیدت رکھتی تھی۔ قیدوبند کی حالت نے آپ کے اثر کو کم کرنے کی بجائے اور زیادہ کردیا۔ لوگ قید خانہ میں امام صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔

بچو! اب تو منصور بہت پریشان ہوا کہ یہ تو سب کام غلط ہوتاجارہا ہے۔ مَیں تو انہیں اپنے راستے سے ہٹا رہا تھا اور یہ لوگوں کے دلوں میں اپنے لیے راستہ بناتے جارہے ہیں۔ چنانچہ آخری تدبیر اس نے یہ کی کہ امام صاحبؒ کو شربت میں زہر ملا کر دے دیا۔ آپ کو پتہ چل گیا تھا کہ اس میں زہر ہے۔ آپ نے پینے سے انکار کردیا توزبردستی وہ زہر کا پیالہ آپ کو پلایا گیا۔ جب آپ نے محسوس کیا کہ زہر نے اپنا اثر کرنا شروع کردیا ہے تو آپ سجدہ میں گِر گئے اور اسی حالت میں اپنی جان اپنے پیارے مولیٰ کے سپرد کردی۔

اِنَّاللہ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ



جسم مرسکتا ہے لیکن اعلیٰ مقصد کو لے کر اٹھنے والی روح نہیں مرسکتی۔

تم نے دیکھا کہ منصور نے اپنے ناپاک منصوبہ سے امام اعظمؒ کو زہر کا پیالہ پلوا دیا مگر بعد میں اس نے خود دیکھا کہ امام اعظمؒ زہر کا پیالہ پی کر اگرچہ جسمانی طور پر وفات پاگئے تھے مگر اپنے عمل، نیک مقاصد اور حق وصداقت کی وجہ سے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ آج بھی لوگ ان کانام بہت عزت اور احترام سے لیتے ہیں۔ قرآن وسنّت کی روشنی میں آپ نے جواسلامی فقہی قانون ترتیب دیا وہ آج بھی حنفی فقہ کے نام سے موجود ہے۔ تم مسلمان حاکم ہارون الرشید کے نام سے تو ضرور واقف ہوگے۔ اس کی سلطنت جو سندھ سے لے کر ایشیائے کوچک تک پھیلی ہوئی تھی، حنفی فقہ کے اصولوں پر ہی قائم تھی۔ اس کے زمانے کے تمام مقدمات اور فیصلے اسی قانون کی بنیاد پر ہی کیے جاتے تھے۔

بچو! تم سوچتے ہوگے کہ حضرت ابو حنیفہؒ اتنے بڑے آدمی کیسے بن گئے؟

دیکھو بچو! یہ بات ٹھیک ہے کہ بڑا آدمی بننے کے لیے ضروری ہے کہ بہت بڑے بڑے کام کیے جائیں۔ مگر ایسا بھی تو ہوتاہے ناکہ بہت سی چھوٹی چھوٹی پیاری پیاری باتیں جن کا ہم اپنی عام زندگی میں بالکل خیال نہیں کرتے وہی چھوٹی چھوٹی اور پیاری پیاری باتیں انسان کو بڑا آدمی بنا دیتی ہیں۔ مثلاً والدین کی خدمت، ہمیشہ سچ بولنا، دشمن کو معاف کر دینا، راستہ میں سے کانٹا ہٹا دینا، غریبوں کی مدد کرنا، پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا وغیرہ۔ تو جناب ہمارے پیارے امام ابو حنیفہؒ اتنے اچھے، اتنے پیارے انسان تھے کہ باوجود اس کے کہ آپ علم بھی حاصل کرتے تھے، تجارت بھی کرتے تھے مگر بچپن ہی سے یہ ساری پیاری پیاری عادتیں آپ میں موجود تھیں۔ آپ کو اپنی والدہ محترمہ سے بہت محبت تھی۔ آپ نے تمام زندگی ان کی بہت زیادہ خدمت کی۔ امام صاحبؒ کی والدہ مزاج کی بہت شکّی تھیں۔ اس زمانے میں کوفہ۔ میں ایک عالم عمرو بن ذرؒ تھے۔ وہ لوگوں کو وعظ ونصیحت کیا کرتے تھے۔ امام ابو حنیفہؒ کی والدہ ان سے بہت عقیدت رکھتی تھیں۔ انہیں جب کوئی مسئلہ پیش آتا تو وہ امام صاحبؒ سے کہیتں جاؤ اُن سے اس مسئلہ کا حل پوچھ کر آؤ۔ اکثر ایساہوتاتھا کہ عمرو بن ذرؒ امام صاحبؒ سے اس مسئلہ کا حل پوچھ کر بتایا کرتے تھے۔ اب دیکھو کہ امام صاحبؒ اتنے بڑے عالمِ دین تھے۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ان کے عقیدت مند تھے لیکن جب ان کی والدہ ان سے کہتیں کہ مجھے عمروبن ذرؒ کے پاس لے جاؤ مَیں خود ان سے اس مسئلہ کا حل پوچھوں گی۔ تو آپ انہیں خچّر پر سوار کرا کے ساتھ لے جاتے۔ خود پیدل چلتے تھے۔

یہ تو تمہیں معلوم ہے کہ امام صاحبؒ نے کبھی بھی حکومت کی طرف سے کوئی عہدہ قبول نہیں کیا۔ ابن ہبیرہ نے امام صاحب کو میرمنشی مقرر کرنا چاہا۔ آپ نے انکار کردیا تو اُس نے سزا کے طور پر آپ کو کوڑے لگوائے۔

بچو! اس وقت آپ کی والدہ زندہ تھیں۔ امام صاحبؒ فرماتے ہیں کہ مجھے اپنی تکلیف کا ذرا بھی احساس نہیں تھا۔ مگر اس بات سے تکلیف ہوتی تھی کہ میری وجہ سے میری والدہ کے دل کو تکلیف ہوتی ہے۔

امام صاحبؒ کی اپنی والدہ سے محبت اور ان کی خدمت کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی آپ کو عزت بخشی اور آخرت میں بھی آپ سے راضی ہوا۔

حضرت امام ابو حنیفہؒ اللہ تعالیٰ کی عبادت بہت پیار اور توجہ کے ساتھ کرتے تھے۔ یزید بن لمیت، امام صاحبؒ کے ایک ساتھی تھے۔ آپ بتاتے ہیں کہ ایک دن مَیں نے اورامام صاحبؒ نے عشاء کی نماز مسجد میں ایک ساتھ پڑھی۔ اس دن نماز میں یہ سورۃ پڑھی گئی تھی۔ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا۔

بچو! تم اس سورۃکا ترجمہ تو جانتے ہی ہوگے ناکہ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کوہوشیار کیاہے کہ تم نے جو نیک کام کیے ہیں اور جو بُرے کام کیے ہیں ان کا بدلہ ضرور ملے گا۔ نماز پڑھنے کے بعد سب لوگ واپس چلے گئے۔ لیکن امام صاحبؒ اپنی جگہ پر بیٹھے رہے۔ مَیں نے سوچا کہ اگر مَیں یہاں بیٹھا رہا تو آپ کی توجہ بٹ جائے گی۔ اس لیے مَیں چراغ وہیں چھوڑ کر چلا گیا۔ صبح ہوئی مَیں نماز پڑھنے کے لیے مسجد گیا تو دیکھا کہ امام صاحب اسی حالت میں بیٹھے ہیں۔ آپ نے اپنی ریشِ مبارک پکڑی ہوئی ہے اور کہتے جاتے ہیں کہ:۔

اے وہ ذات! جو لوگوں کو ذرّہ ذرّہ نیکیوں کا بدلہ دے گا اپنے نعمان کو آگ سے محفوظ رکھ اور اپنی رحمت میں چُھپا لے۔

بچو! امام ابو حنیفہؒ کو قرآن کریم سے بہت زیادہ محبت تھی۔ اللہ میاں نے آپ کو آواز بھی بہت اچھی دی تھی۔ جب آپ قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تو آپ کی آواز لوگوں کے دل میں اُتر جاتی تھی۔

امام صاحب موصوف اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم اور درایت اور فہم و فراست میں آئمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل واعلیٰ تھے اور اُن کی خداداد قوت فیصلہ ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی قوت مدرکہ کو قرآن شریف کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی اور اُن کی فطرت کو کلام الہٰی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے۔ اسی وجہ سے اجتہاد و استنباط میں اُن کے لیے وہ درجہ علیا مسلّم تھا جس تک پہنچنے سے دوسرے سب لوگ قاصر تھے۔


پیارے بچو بھائیو بہنو یہ تھے ہمارے پیارے محترم امام اعظم حضرت ابو حنیفہ رح انکی خدمت اسلام اور محبت و وفا کا بہترین نمونہ
 

انجام

MPA (400+ posts)
جناب کی پوسٹ پڑھ نہایت تکلیف ہوئی۔ آپ نے کسی بھی مناسب علمی دلیل کی زحمت نہیں کی۔ جناب سے گزارش ہے کہ میری تحریر کے جس حصہ پر اعتراض ہو وہ کسی غیر جانبدار صآحب علم کو دکھا دیں۔ حق و باطل میں فرق واضح ہوجائے گا۔
نیز یہ بھی واضح کردوں کہ سابقہ پوسٹ میں نقل کردہ ترجمہ ایک شیعہ کی فیسبک پوسٹ سے کاپی کیا تھا۔ آپ تلاش کر کے تسلی کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کو بہت شوق ہو تو مکمل عربی تحلیل کرکے ہر ہر کلمہ کو واضح کر سکتا ہوں۔ مگر سابقہ پوسٹ میں جواب کی ضرورت کے مطابق ترجمہ کے الفاظ نقل کئے۔
یاد رکھیں رسول اللہ ﷺ کا مقام مرتبہ ساری دنیا سے افضل ہے۔ مگر اس مقام کا تقاضہ ہے کہ ہم انکے ساتھ نسبت / تعلق رکھنے والے سب رشتوں کو انکا مناسب مقام دیں۔ اپنے مسلک سے محبت اور نام نہاد واعظوں اور ذاکروں کے لچھے دار الفاظ اور منطقی بحثوں میں الجھ کر اپنا دین برباد نہ کریں۔ اسی محبت رسول ﷺ کا تقاضہ ہے کہ آپ حق کوپہچانیں اور باطل کو جدا رکھیں۔ عدل و انصاف کو اپنائیں۔ کسی کی مخالفت میں حد سے تجاوز نہ کریں۔
آپ کی بہت ہی ابتدائی پوسٹوں سے بہت کچھ توقع کر رہا تھا۔ میری توقعات سے بڑھ کر آپ ثابت ہو رہے ہیں۔ یعنی جو میں سمجھ رہا تھا بالکل اسی طرز عمل میں آپ آگے بڑھ رہے ہیں۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ آپ نے پورے مجموعہ حدیث میں سے ایک کتاب اٹھائی۔ اس کے اصول کو پڑھے بغیر ہی اس پر جرح شروع کردی۔ وہ کتاب جس کے جامع نے خود لکھا کہ یہ کتاب 1 لاکھ صحیح الاسناد ذخیرہ میں سے مرتب کی گئی ہے۔ جبکہ اسمیں کل ساڑھے 7 ہزار احادیث جمع ہیں۔ یعنی صرف 7 فیصد سے بھی کم۔ اور یہ کل مجموعہ احادیث کی بات بھی نہیں ۔ بلکہ صرف انکے اپنے مجموعہ کی بات ہے۔ اب اگر اس 7 فیصد میں مکررات سند و متن نکال دیا جائے تو یہ کل مجموعہ صرف تہائی برابر بچ جاتا ہے۔
جناب کو اپنی بات کا انتہائی پاس ہے۔ کہ صرف بخاری کے اڑھائی فیصد مجموعہ میں 1 حدیث جناب کی مرضی کی نہیں آئی، لہذا وہ جامع ہی مشکوک ہے۔ اور دیگر محدثین جنہوں نے یہ روایت بیان کی صرف اس روایت کی وجہ سے حب علی سے سرفراز ہوئے۔

حالانکہ نہ تو یہ کتاب خود رسول ﷺ نے لکھائی نہ خؤد اس کو لکھنے کا براہ راست حکم فرمایا۔ اہل علم کے ہاں یہ حتمی کتاب بھی نہیں۔ اس کی اہمیت کی وجہ صرف یہ ہے کہک تم سے صرف بخاری کی کتاب پر مناظرہ کرے۔ تم صرف ایک ہی نکتے پر اڑے ہوئے ہو۔ اس خبط سے باہر آجاؤ۔ جب یہ بات ثابت ہو چکی کہ حضرت علی المرتضی بھی کثیر الروایات صحابہ کرام میں ہیں، تو اب جھگڑا کیاہے؟ کیا کہیں ہمارا ساری بحث میں حضرت علی المرتضی کے ضعیف یا مردود الروایۃ ہونے پر جھگرا ہوا؟ انکے بیٹوں بارے کوئی جھگڑا ہوا جب ایسی بات ہی نہیں تو اس لاحاصل بحث سے کیا نتیجہ اخذ کر رہے ہو؟
کیا بخاری کی کتاب حدیث غدیر کی روایت نقل نہ ہونے سے حضرت علی کی شان میں کمی واقع ہو ئی؟؟ اگر اس بحث کا کوئی اہم پہلو جو آپ تم ثابت کرنا چاہتے ہو وہ مختصر بیان کردو تو مدعا واضح ہو۔
یہاں جوابات لکھنا تمہارے ساتھ مناظرے کے سبب نہیں بلکہ صرف احقاق حق کی خاطر ہے۔ مجھے تم سے نہ تو کچھ منوانا ہے۔ نہ ہی ہرانا ہے۔ جو کچھ تم نے لکھا اس کی وضاحت میں یہ جان کر کہ اسمیں حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ کے اہلبیت و صحابہ کے بارے میں نوجوانوں میں گلط فہمیاں جنم نہ لیں اسکی علمی وضاحت کردی تاکہ نوجوان نسل دین کی حقیقی تعلیمات سے مستفید ہو۔

پچھلی پوسٹ میں جو کچھ بیان ہو چکا اسی طرح کی پوسٹ پھر تم نے بیان کر دی۔
پہلی روایت بخاری شریف کی ہے۔ اس میں حجرت ابوہریرہ تعلیم دے رہے تھے۔ یہ بھی سابقہ روایت کی طرح ہے۔ اس کے 2 حصے ہیں۔ ایک حصہ حدیث رسول ﷺ ہے، جبکہ دوسرا حصہ اس کی وضاحت ہے۔ اس کی وضاحت پچھلی پوسٹ میں کر چکا ہوں۔
حدیث مبارکہ کے الفاط ہیں کہ حضوﷺ نے فرمایا بہتر صدقہ یہ ہے کہ جو پیچھے مالدار چھوڑے(یعنی اپنی ضرورت کا خیال رکھ کر خرچ کرنا) اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے(یعنی دینے والا ہاتھ لینے والے سے بہتر ہے)۔ اور اسکی ابتدا اپنے عیال سے کرو۔
اگلا حصہ اس کی تفسیر ہے۔ جس میں ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ عورت کہے کہ مجھے خرچہ دویا مجھے طلاق دو، غلام کہے مجھے کھلاؤ پھر مجھ سے کام لو اور بیٹا کہے مجھے کھلاؤ، مجھے کس پر چھوڑتے ہو۔ اس کے بعد انہوں نے سوال کیا اے ابوہریرہ کیا تم نے یہ رسول اللہ ﷺ سے سنا؟ جواب دیا نہیں، بلکہ یہ میری طرف سے ہے۔یعنی یہ وضاحت/ تفصیل/ تشریح ہے۔
کچھ چیزیں تو پہلے بھی عرض کر چکا ہوں۔ یہاں دہرا دیتا ہوں۔ ہمیشہ واعظ یا استاد یا خطیب جب بیان کر رہا ہوتا ہے تو کچھ چیزیں وہ اصل بیان کر رہا ہوتا ہے۔ جبکہ اسی سے متصل کچھ چیزیں اصل بیان کے ذیل میں بیان کرتا ہے۔ یہ مجلس میں موجود لوگوں کی استعداد ہوتی ہے کہ وہ دونوں چیزوں میں فرق رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔ کبھی تو مقرر خؤد اسکی وضاحت کردیتا ہے جبکہ کبھی اسکی توجہ اس جانب نہیں ہوتی وہ اپنے تسلسل میں ہوتا ہے۔ اگر وہ خطبہ یا مجمع عام نہ ہو بلکہ کلاس ہو تو طالبعلم اس کی وضاحت حاصل کر لیتے ہیں۔ اس میں بھی کچھ ایسی ہی حالت نظر آتی ہے۔ نہ کہ یہ کہا جائے کہ چوری پکری گئی۔
اس پر بھی پہلے عرض کیا تھا کہ مثبت ومنفی ہر دو پہلو موجود ہیں۔ آپ اس سے مری وضاحت مراد لیکر سعادت حاصل کرتے ہیں یا دوسرا پہلو اخذ کر کے دنیا و عاقبت برباد کرتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ دوسری 2 روایات میں بھی ہے۔ اس میں جناب نے جو پیش کیا وہ ابوہریرہ کی رائے کو ابن عمر رد کر رہے ہیں۔ جبکہ یہی الفاط سیدنا علی المرتضی سے بھی مروی ہیں جامع ترمذی میں۔ ابوہریرہ کہتے ہیں وتر لازمی نہیں چاہے پڑھ لو چاہے چھوڑ دو/ ترک کر دو۔ یہاں غور فرمائیں کہ ابوہریرہ کی رائے کسی فریق ثانی نے پہنچائی۔ وہ حدیث رسول نہیں بلکہ انکی رائے ہے۔ اس پر ابن عمر اپنی رائے کی جگہ حدیث رسول بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کے جواب میں فرمایا کہ صلاۃ الیل کا کیا حکم ہے تو جواب فرمایا کہ دو، دو رکعتیں پڑھو مگر صبح ہوجانے کا خوف ہو تو ایک ہی پڑھ لو۔
حضرت علی کا فرمان جامع ترمذی میں مروی ہے کہ وتر لازمی نہیں مگر سنت ہیں۔ ۔۔۔۔ الی آخر۔
یعنی ابن عمر کا یہ ابوہریرہ سے اختلاف ہے۔ اور اسکی رائے کو رد کر رہے ہیں۔ یہ اختلاف رائے ہوتا ہے اہل علم میں۔
اس سے آپ نے انکا جھوٹا ہونا جو اخذ کیا یہاں وہ معنی مراد نہیں۔ کیونکہ جب آپ کسی بھی علم پر بحث کرتے ہیں تو اس علم سے واقفیت لازم ہونی چاہئے۔ وگرنہ بدبختی مقدر میں آئے گی۔ جیسے آپ نے حضرت عمر کے قول کو لیکر ابوہریرہ کو دشمن الہی بنا دیا۔
بجائے اس پر اپنی اصلاح کے مجھے کوس رہے ہیں۔ جناب جہاں میری غلطی ہے اس کی نشاندہی کریں۔ مگر اپنی ضد کو کسی پر بلا وجہ مسلط نہ کریں۔
حضور ﷺ کا جو فرمان آپ نے نقل کیا ہے وہ بجا ہے۔ مگر مذکورہ واقعہ میں حضرت عمر نے نہ توانکو جھوٹا کہا نہ دشمن خدا ہونے کا طعنہ دیا۔ بلکہ عرب رواج کے مطابق سختی کرنے کے لئے یہ الفاظ استعمال کئے۔ جبکہ آج کا کوئی تھانیدار ہوتا تو کئی گالیاں سنا دیتا۔
جبکہ حضرت عمر نے ابوہریرہ جو کہ مالدار نہیں تھے ،انکے پاس مال اسباب دیکھا تو جب مؤخذہ فرمانا چاہا تو سخت الفاظ استعمال کئے جو اس مؤاخذے کا تقاضہ بھی تھا۔ جب معاملہ صاف ہو گیا تو پھر اسی ذمہ داری پر بحال کرنا چاہا مگر انہوں نے انکار کر دیا۔

جبکہ دوسری طرف ابن عمر کو دیکھں تو وہ خؤد جب ابوہریرہ کے جنازے میں شریک ہوتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ یہ کثرت سے رسول اللہ ﷺ سے احآدیث روایت کرنے والے تھے۔ یہ بھی واقعہ ابن عساکر کی "تاریخ مدنہ دمشق " میں ہے۔
اگلی روایت جو تم نے بیان کی اسکو اگر بعد والی روایت کے ساتھ ملا کر پڑھ لیں تو بات واضھ ہوجائگی۔ نیز حضرت عائشہ کے پاس ایک بات بیان کی گئی۔ بیان کرنے والے مجھول ہیں ۔ انکے نام ذکر نہیں۔ اگر تو حضرت عائشہ اپنی طرف سے کوئی بات کہ کر یہ فرماتیں کہ ابوہریرہ نے جھوٹ کہا یا ابو ہریرہ جھوٹا ہے تو اس کو اس تناظر میں پرکھا جاتا۔ جبکہ یہاں تو صاحب کتاب نے اس پر بات ختم نہیں کی بلکہ اس کے بعد اس کی وضاحت بھی کی ہے۔ یہ روایت ابن عمر سے بھی مروی ہے مگر اس میں الفاظ دابۃ کی جگہ دار کے ہیں۔ نیز اس کی وضاحت میں سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ جاہلیت میں ایسا کیا جاتا تھا۔
اس سے اگلی روایت میں بھی بنی عامر کے 2 افراد بارے ہی ہے۔ جبکہ اس میں صاحب کتاب ابوبکر بن خزیمہ کی روایت نقل کر کے سابقہ روایت کی اصلاح کرتے ہیں۔ جبکہ اس کے بعد والی روایت میں وضاحت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں پہلی روایت میں میں الفاط کی غلطی ہے، جبکہ دوسری روایت کے مطابق بنی عامر کے مجھول افراد نے ایسا لگتا ہے کہ غلط بیانی سے کام لیا ہے۔۔
یہ آخری روایت کی تفصیل کا کچھ حصہ ہے۔ جناب اب آپ فرمائیں کہ صرف کذب کے لفظ سے آپ ابوہریرہ کو جھوٹا کہنے چلے۔
آپ کے پاس کوئی مصدقہ چیز ہے تو ضرور پیش کریں۔ مگر یہ اٹکل پچو سے کام نہ چلائیں۔ یعنی جہاں حجرت ابن عمر اورابوہریرہ کا اختلاف ہوا انہوں نے انکی بات کا رد کیا آپ نے سمجھا ابن عمر نے ابو ہریرہ کو جھوٹا کہ دیا اب ہم بھی شروع ہو جائیں۔
جہاں سیدہ عائشہ کا اختلاف ہوا، انہوں نے قائل کی بات سن کر کہا ابوہریرہ کی بات جھوٹ / غلط ہے۔ اسمیں قائل کی غلط بیانی بھی ممکن ہے، اسکی سمجھ میں بھی غلطی ہو سکتی ہے، جبکہ اسی طرح فریق اول یا فریق ثانی دونوں کے مؤقف میں اختلاف بھی وجہ ہو سکتی ہے ۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کے فرمان کو ایک فریق نے پہلے سنا جبکہ بعد والا بیان اس تک نہ پہنچا، جبکہ یہی کچھ دوسرے فریق بارے بھی ممکن ہے۔
اسی لئے پہلے بھی عرض کیا کہ ہر بات کے دونوں پہلو مد نظر رکھ کر نتیجہ اخذ کرنا چاہئیے۔ اپنے نتیجہ میں بھی غلطی کا امکان مد نظر رکھنا چاہیئے۔
 
Last edited:

khan_sultan

Banned
جناب کی پوسٹ پڑھ نہایت تکلیف ہوئی۔ آپ نے کسی بھی مناسب علمی دلیل کی زحمت نہیں کی۔ جناب سے گزارش ہے کہ میری تحریر کے جس حصہ پر اعتراض ہو وہ کسی غیر جانبدار صآحب علم کو دکھا دیں۔ حق و باطل میں فرق واضح ہوجائے گا۔
نیز یہ بھی واضح کردوں کہ سابقہ پوسٹ میں نقل کردہ ترجمہ ایک شیعہ کی فیسبک پوسٹ سے کاپی کیا تھا۔ آپ تلاش کر کے تسلی کر سکتے ہیں۔
اگر آپ کو بہت شوق ہو تو مکمل عربی تحلیل کرکے ہر ہر کلمہ کو واضح کر سکتا ہوں۔ مگر سابقہ پوسٹ میں جواب کی ضرورت کے مطابق ترجمہ کے الفاظ نقل کئے۔
یاد رکھیں رسول اللہ ﷺ کا مقام مرتبہ ساری دنیا سے افضل ہے۔ مگر اس مقام کا تقاضہ ہے کہ ہم انکے ساتھ نسبت / تعلق رکھنے والے سب رشتوں کو انکا مناسب مقام دیں۔ اپنے مسلک سے محبت اور نام نہاد واعظوں اور ذاکروں کے لچھے دار الفاظ اور منطقی بحثوں میں الجھ کر اپنا دین برباد نہ کریں۔ اسی محبت رسول ﷺ کا تقاضہ ہے کہ آپ حق کوپہچانیں اور باطل کو جدا رکھیں۔ عدل و انصاف کو اپنائیں۔ کسی کی مخالفت میں حد سے تجاوز نہ کریں۔
آپ کی بہت ہی ابتدائی پوسٹوں سے بہت کچھ توقع کر رہا تھا۔ میری توقعات سے بڑھ کر آپ ثابت ہو رہے ہیں۔ یعنی جو میں سمجھ رہا تھا بالکل اسی طرز عمل میں آپ آگے بڑھ رہے ہیں۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ آپ نے پورے مجموعہ حدیث میں سے ایک کتاب اٹھائی۔ اس کے اصول کو پڑھے بغیر ہی اس پر جرح شروع کردی۔ وہ کتاب جس کے جامع نے خود لکھا کہ یہ کتاب 1 لاکھ صحیح الاسناد ذخیرہ میں سے مرتب کی گئی ہے۔ جبکہ اسمیں کل ساڑھے 7 ہزار احادیث جمع ہیں۔ یعنی صرف 7 فیصد سے بھی کم۔ اور یہ کل مجموعہ احادیث کی بات بھی نہیں ۔ بلکہ صرف انکے اپنے مجموعہ کی بات ہے۔ اب اگر اس 7 فیصد میں مکررات سند و متن نکال دیا جائے تو یہ کل مجموعہ صرف تہائی برابر بچ جاتا ہے۔
جناب کو اپنی بات کا انتہائی پاس ہے۔ کہ صرف بخاری کے اڑھائی فیصد مجموعہ میں 1 حدیث جناب کی مرضی کی نہیں آئی، لہذا وہ جامع ہی مشکوک ہے۔ اور دیگر محدثین جنہوں نے یہ روایت بیان کی صرف اس روایت کی وجہ سے حب علی سے سرفراز ہوئے۔

حالانکہ نہ تو یہ کتاب خود رسول ﷺ نے لکھائی نہ خؤد اس کو لکھنے کا براہ راست حکم فرمایا۔ اہل علم کے ہاں یہ حتمی کتاب بھی نہیں۔ اس کی اہمیت کی وجہ صرف یہ ہے کہک تم سے صرف بخاری کی کتاب پر مناظرہ کرے۔ تم صرف ایک ہی نکتے پر اڑے ہوئے ہو۔ اس خبط سے باہر آجاؤ۔ جب یہ بات ثابت ہو چکی کہ حضرت علی المرتضی بھی کثیر الروایات صحابہ کرام میں ہیں، تو اب جھگڑا کیاہے؟ کیا کہیں ہمارا ساری بحث میں حضرت علی المرتضی کے ضعیف یا مردود الروایۃ ہونے پر جھگرا ہوا؟ انکے بیٹوں بارے کوئی جھگڑا ہوا جب ایسی بات ہی نہیں تو اس لاحاصل بحث سے کیا نتیجہ اخذ کر رہے ہو؟
کیا بخاری کی کتاب حدیث غدیر کی روایت نقل نہ ہونے سے حضرت علی کی شان میں کمی واقع ہو ئی؟؟ اگر اس بحث کا کوئی اہم پہلو جو آپ تم ثابت کرنا چاہتے ہو وہ مختصر بیان کردو تو مدعا واضح ہو۔
یہاں جوابات لکھنا تمہارے ساتھ مناظرے کے سبب نہیں بلکہ صرف احقاق حق کی خاطر ہے۔ مجھے تم سے نہ تو کچھ منوانا ہے۔ نہ ہی ہرانا ہے۔ جو کچھ تم نے لکھا اس کی وضاحت میں یہ جان کر کہ اسمیں حضور نبی اکرم ﷺ اور آپ کے اہلبیت و صحابہ کے بارے میں نوجوانوں میں گلط فہمیاں جنم نہ لیں اسکی علمی وضاحت کردی تاکہ نوجوان نسل دین کی حقیقی تعلیمات سے مستفید ہو۔

پچھلی پوسٹ میں جو کچھ بیان ہو چکا اسی طرح کی پوسٹ پھر تم نے بیان کر دی۔
پہلی روایت بخاری شریف کی ہے۔ اس میں حجرت ابوہریرہ تعلیم دے رہے تھے۔ یہ بھی سابقہ روایت کی طرح ہے۔ اس کے 2 حصے ہیں۔ ایک حصہ حدیث رسول ﷺ ہے، جبکہ دوسرا حصہ اس کی وضاحت ہے۔ اس کی وضاحت پچھلی پوسٹ میں کر چکا ہوں۔
حدیث مبارکہ کے الفاط ہیں کہ حضوﷺ نے فرمایا بہتر صدقہ یہ ہے کہ جو پیچھے مالدار چھوڑے(یعنی اپنی ضرورت کا خیال رکھ کر خرچ کرنا) اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے(یعنی دینے والا ہاتھ لینے والے سے بہتر ہے)۔ اور اسکی ابتدا اپنے عیال سے کرو۔
اگلا حصہ اس کی تفسیر ہے۔ جس میں ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ عورت کہے کہ مجھے خرچہ دویا مجھے طلاق دو، غلام کہے مجھے کھلاؤ پھر مجھ سے کام لو اور بیٹا کہے مجھے کھلاؤ، مجھے کس پر چھوڑتے ہو۔ اس کے بعد انہوں نے سوال کیا اے ابوہریرہ کیا تم نے یہ رسول اللہ ﷺ سے سنا؟ جواب دیا نہیں، بلکہ یہ میری طرف سے ہے۔یعنی یہ وضاحت/ تفصیل/ تشریح ہے۔
کچھ چیزیں تو پہلے بھی عرض کر چکا ہوں۔ یہاں دہرا دیتا ہوں۔ ہمیشہ واعظ یا استاد یا خطیب جب بیان کر رہا ہوتا ہے تو کچھ چیزیں وہ اصل بیان کر رہا ہوتا ہے۔ جبکہ اسی سے متصل کچھ چیزیں اصل بیان کے ذیل میں بیان کرتا ہے۔ یہ مجلس میں موجود لوگوں کی استعداد ہوتی ہے کہ وہ دونوں چیزوں میں فرق رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔ کبھی تو مقرر خؤد اسکی وضاحت کردیتا ہے جبکہ کبھی اسکی توجہ اس جانب نہیں ہوتی وہ اپنے تسلسل میں ہوتا ہے۔ اگر وہ خطبہ یا مجمع عام نہ ہو بلکہ کلاس ہو تو طالبعلم اس کی وضاحت حاصل کر لیتے ہیں۔ اس میں بھی کچھ ایسی ہی حالت نظر آتی ہے۔ نہ کہ یہ کہا جائے کہ چوری پکری گئی۔
اس پر بھی پہلے عرض کیا تھا کہ مثبت ومنفی ہر دو پہلو موجود ہیں۔ آپ اس سے مری وضاحت مراد لیکر سعادت حاصل کرتے ہیں یا دوسرا پہلو اخذ کر کے دنیا و عاقبت برباد کرتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ دوسری 2 روایات میں بھی ہے۔ اس میں جناب نے جو پیش کیا وہ ابوہریرہ کی رائے کو ابن عمر رد کر رہے ہیں۔ جبکہ یہی الفاط سیدنا علی المرتضی سے بھی مروی ہیں جامع ترمذی میں۔ ابوہریرہ کہتے ہیں وتر لازمی نہیں چاہے پڑھ لو چاہے چھوڑ دو/ ترک کر دو۔ یہاں غور فرمائیں کہ ابوہریرہ کی رائے کسی فریق ثانی نے پہنچائی۔ وہ حدیث رسول نہیں بلکہ انکی رائے ہے۔ اس پر ابن عمر اپنی رائے کی جگہ حدیث رسول بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کے جواب میں فرمایا کہ صلاۃ الیل کا کیا حکم ہے تو جواب فرمایا کہ دو، دو رکعتیں پڑھو مگر صبح ہوجانے کا خوف ہو تو ایک ہی پڑھ لو۔
حضرت علی کا فرمان جامع ترمذی میں مروی ہے کہ وتر لازمی نہیں مگر سنت ہیں۔ ۔۔۔۔ الی آخر۔
یعنی ابن عمر کا یہ ابوہریرہ سے اختلاف ہے۔ اور اسکی رائے کو رد کر رہے ہیں۔ یہ اختلاف رائے ہوتا ہے اہل علم میں۔
اس سے آپ نے انکا جھوٹا ہونا جو اخذ کیا یہاں وہ معنی مراد نہیں۔ کیونکہ جب آپ کسی بھی علم پر بحث کرتے ہیں تو اس علم سے واقفیت لازم ہونی چاہئے۔ وگرنہ بدبختی مقدر میں آئے گی۔ جیسے آپ نے حضرت عمر کے قول کو لیکر ابوہریرہ کو دشمن الہی بنا دیا۔
بجائے اس پر اپنی اصلاح کے مجھے کوس رہے ہیں۔ جناب جہاں میری غلطی ہے اس کی نشاندہی کریں۔ مگر اپنی ضد کو کسی پر بلا وجہ مسلط نہ کریں۔
حضور ﷺ کا جو فرمان آپ نے نقل کیا ہے وہ بجا ہے۔ مگر مذکورہ واقعہ میں حضرت عمر نے نہ توانکو جھوٹا کہا نہ دشمن خدا ہونے کا طعنہ دیا۔ بلکہ عرب رواج کے مطابق سختی کرنے کے لئے یہ الفاظ استعمال کئے۔ جبکہ آج کا کوئی تھانیدار ہوتا تو کئی گالیاں سنا دیتا۔
جبکہ حضرت عمر نے ابوہریرہ جو کہ مالدار نہیں تھے ،انکے پاس مال اسباب دیکھا تو جب مؤخذہ فرمانا چاہا تو سخت الفاظ استعمال کئے جو اس مؤاخذے کا تقاضہ بھی تھا۔ جب معاملہ صاف ہو گیا تو پھر اسی ذمہ داری پر بحال کرنا چاہا مگر انہوں نے انکار کر دیا۔

جبکہ دوسری طرف ابن عمر کو دیکھں تو وہ خؤد جب ابوہریرہ کے جنازے میں شریک ہوتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ یہ کثرت سے رسول اللہ ﷺ سے احآدیث روایت کرنے والے تھے۔ یہ بھی واقعہ ابن عساکر کی "تاریخ مدنہ دمشق " میں ہے۔
اگلی روایت جو تم نے بیان کی اسکو اگر بعد والی روایت کے ساتھ ملا کر پڑھ لیں تو بات واضھ ہوجائگی۔ نیز حضرت عائشہ کے پاس ایک بات بیان کی گئی۔ بیان کرنے والے مجھول ہیں ۔ انکے نام ذکر نہیں۔ اگر تو حضرت عائشہ اپنی طرف سے کوئی بات کہ کر یہ فرماتیں کہ ابوہریرہ نے جھوٹ کہا یا ابو ہریرہ جھوٹا ہے تو اس کو اس تناظر میں پرکھا جاتا۔ جبکہ یہاں تو صاحب کتاب نے اس پر بات ختم نہیں کی بلکہ اس کے بعد اس کی وضاحت بھی کی ہے۔ یہ روایت ابن عمر سے بھی مروی ہے مگر اس میں الفاظ دابۃ کی جگہ دار کے ہیں۔ نیز اس کی وضاحت میں سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ جاہلیت میں ایسا کیا جاتا تھا۔
اس سے اگلی روایت میں بھی بنی عامر کے 2 افراد بارے ہی ہے۔ جبکہ اس میں صاحب کتاب ابوبکر بن خزیمہ کی روایت نقل کر کے سابقہ روایت کی اصلاح کرتے ہیں۔ جبکہ اس کے بعد والی روایت میں وضاحت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں پہلی روایت میں میں الفاط کی غلطی ہے، جبکہ دوسری روایت کے مطابق بنی عامر کے مجھول افراد نے ایسا لگتا ہے کہ غلط بیانی سے کام لیا ہے۔۔
یہ آخری روایت کی تفصیل کا کچھ حصہ ہے۔ جناب اب آپ فرمائیں کہ صرف کذب کے لفظ سے آپ ابوہریرہ کو جھوٹا کہنے چلے۔
آپ کے پاس کوئی مصدقہ چیز ہے تو ضرور پیش کریں۔ مگر یہ اٹکل پچو سے کام نہ چلائیں۔ یعنی جہاں حجرت ابن عمر اورابوہریرہ کا اختلاف ہوا انہوں نے انکی بات کا رد کیا آپ نے سمجھا ابن عمر نے ابو ہریرہ کو جھوٹا کہ دیا اب ہم بھی شروع ہو جائیں۔
جہاں سیدہ عائشہ کا اختلاف ہوا، انہوں نے قائل کی بات سن کر کہا ابوہریرہ کی بات جھوٹ / غلط ہے۔ اسمیں قائل کی غلط بیانی بھی ممکن ہے، اسکی سمجھ میں بھی غلطی ہو سکتی ہے، جبکہ اسی طرح فریق اول یا فریق ثانی دونوں کے مؤقف میں اختلاف بھی وجہ ہو سکتی ہے ۔ یعنی رسول اللہ ﷺ کے فرمان کو ایک فریق نے پہلے سنا جبکہ بعد والا بیان اس تک نہ پہنچا، جبکہ یہی کچھ دوسرے فریق بارے بھی ممکن ہے۔
اسی لئے پہلے بھی عرض کیا کہ ہر بات کے دونوں پہلو مد نظر رکھ کر نتیجہ اخذ کرنا چاہئیے۔ اپنے نتیجہ میں بھی غلطی کا امکان مد نظر رکھنا چاہیئے۔


جناب میری پوسٹ پر کر آپ کو تکلیف نہیں ہوئی بلکے آپ ہوش حواس کھو کر مکالمے کے طریقے سے بھی واقفیت رکھتے ہوے بھی اس سے نا وقف ہو گئے کے مجھے ڈائریکٹ قوٹ بھی نہیں کر سکے مجھے ہی نہیں باقی پڑھنے والوں کو بھی اس بات کا مکمل اندازہ ہے کے آپ کے پاس کوئی مزید دلیل نہیں ہے دینے کو اور آپ ان باتوں سے ہی انحراف کر رہے ہیں جو کے خود ثابت شدہ ہیں میری تمام پوسٹوں میں آپ کو محترم اور آپ کہ کر مخاطب کیا گیا پر جس طریقے سے آپ تم تراق پر اترے ہیں اس سے مجھے یقین ہو چلا ہے کے مزید کی گنجائش نہیں ہے کیوں کے مخالف فریق کے اوسان ان کے بس میں نہیں ہیں بہر حال یہ آخری پوسٹ صرف اپنی طرف سے حجت تمام کرنے کے لیے کر رہا ہوں اس یقین کے بعد کے الفاظوں کے چناؤ سے دلائل کی جنگ نہیں جیتی جاتی ہے بلکے اس کے لیے ٹھوس دلائل اور جن کی وکالت کی جا ری ہے وہ بھی آیا مظبوط شواہد رکھتے ہیں اپنے وکیل کے لیے یا نہیں ؟
اس سے پہلے کے مختصر جوابات آپ کے اشکال کے دوں یہ عرض کر دوں کے کاش میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوا آپ کی تقرر سن رہا ہوتا ایک مرید کی حثیت سے تو یقینن میں جھوم رہا ہوتا کے حضرت جی نے کیا خوب جوابات دے کر مخالف فریق کو مات دی ہے
کچھ چیزیں تو پہلے بھی عرض کر چکا ہوں۔ یہاں دہرا دیتا ہوں۔ ہمیشہ واعظ یا استاد یا خطیب جب بیان کر رہا ہوتا ہے تو کچھ چیزیں وہ اصل بیان کر رہا ہوتا ہے۔ جبکہ اسی سے متصل کچھ چیزیں اصل بیان کے ذیل میں بیان کرتا ہے۔ یہ مجلس میں موجود لوگوں کی استعداد ہوتی ہے کہ وہ دونوں چیزوں میں فرق رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔ کبھی تو مقرر خؤد اسکی وضاحت کردیتا ہے جبکہ کبھی اسکی توجہ اس جانب نہیں ہوتی وہ اپنے تسلسل میں ہوتا ہے۔ اگر وہ خطبہ یا مجمع عام نہ ہو بلکہ کلاس ہو تو طالبعلم اس کی وضاحت حاصل کر لیتے ہیں۔ اس میں بھی کچھ ایسی ہی حالت نظر آتی ہے۔ نہ کہ یہ کہا جائے کہ چوری پکری گئی۔


جواب: ادھر حدیث کے بیان کا مقام ہے نہ کہ تشریح کا، اگر یہ ہونے لگے تو مجھے بتائے پھر دیگر جو ابوھریرہ سے احادیث منقول ہیں ان کی کیا حیثیت رہ جائے گی، وہاں بھی عین ممکن کہ اس کی اپنی تفسیرات موجود ہوں اور یاد رکھیں یہ بات اس وقت اچھی ہوتی جب ابو ہریرہ خود واضح کرتا کے بقیہ الفاظ میرے ہیں جب کے ادھر لوگوں کو پوچھنے پر بتایا جا رہا ہے چناچہ اگر لوگ نہ پوچھتے تو ابو ہریرہ نہ بتاتا یہی استدلال ہمارا ہے کے اگر نہیں بتایا جاے گا تو کس روایت ابو ہریرہ پر یقین جاے گا ؟



ایسا ہی کچھ دوسری 2 روایات میں بھی ہے۔ اس میں جناب نے جو پیش کیا وہ ابوہریرہ کی رائے کو ابن عمر رد کر رہے ہیں۔ جبکہ یہی الفاط سیدنا علی المرتضی سے بھی مروی ہیں جامع ترمذی میں۔ ابوہریرہ کہتے ہیں وتر لازمی نہیں چاہے پڑھ لو چاہے چھوڑ دو/ ترک کر دو۔ یہاں غور فرمائیں کہ ابوہریرہ کی رائے کسی فریق ثانی نے پہنچائی۔ وہ حدیث رسول نہیں بلکہ انکی رائے ہے۔ اس پر ابن عمر اپنی رائے کی جگہ حدیث رسول بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کے جواب میں فرمایا کہ صلاۃ الیل کا کیا حکم ہے تو جواب فرمایا کہ دو، دو رکعتیں پڑھو مگر صبح ہوجانے کا خوف ہو تو ایک ہی پڑھ لو۔









[FONT=&amp]
جواب :یعنی ابن عمر کا یہ ابوہریرہ سے اختلاف ہے۔ اور اسکی رائے کو رد کر رہے ہیں۔ یہ اختلاف رائے ہوتا ہے اہل علم میں۔ مشروعیت و عدم مشروعیت پر بحث نہیں بلکہ ادھر پوری نسبت کذب کی بات ہے، اگر کذب کہا ہے تو مان لیجئے کہ ابوھریرہ کذاب ہے۔ ورنہ علمی اختلاف کا بھی ڈھنگ ہوتا ہے ادھر کذب وغیرہ کی نسبت نہیں دی جاتی ہے


[/FONT]

اگلی روایت جو تم نے بیان کی اسکو اگر بعد والی روایت کے ساتھ ملا کر پڑھ لیں تو بات واضھ ہوجائگی۔ نیز حضرت عائشہ کے پاس ایک بات بیان کی گئی۔ بیان کرنے والے مجھول ہیں ۔ انکے نام ذکر نہیں۔ اگر تو حضرت عائشہ اپنی طرف سے کوئی بات کہ کر یہ فرماتیں کہ ابوہریرہ نے جھوٹ کہا یا ابو ہریرہ جھوٹا ہے تو اس کو اس تناظر میں پرکھا جاتا۔ جبکہ یہاں تو صاحب کتاب نے اس پر بات ختم نہیں کی بلکہ اس کے بعد اس کی وضاحت بھی کی ہے۔ یہ روایت ابن عمر سے بھی مروی ہے مگر اس میں الفاظ دابۃ کی جگہ دار کے ہیں۔ نیز اس کی وضاحت میں سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ جاہلیت میں ایسا کیا جاتا تھا۔



جواب: روایت پھر سے پڑھیں قائل کی بات نہیں بلکہ ابوھریرہ کا جو قول نقل کیا ہے اس پر کذب کا اطلاق ہوا ہے​




[FONT=&amp]

[/FONT]

اس کے علاوہ حضرت اعلی کی بات کوئی ایسی نہیں جس پر مزید توجہ دوں صرف یہ عرض کروں گا کے وکالت کرنی ہی ہے تو ان کی کریں جنہوں نے روز محشر شفاعت کروانی ہے اور پل صراط پر جنکی ولایت کے بارے پوچھا جاے گا صحیح بخاری میں ایسی ایسی فضول حدیثیں جمع ہیں پر غدیر پر انہوں نے حدیث نہیں لکھی تو اس کو انکی بھول نہیں کہا جاے گا یہ ایک مولا کی وہ فضیلت تھی جس کو کے انہوں نے اس قابل ہی نہیں سمجھا کے اس کو اپنی کتاب میں جگہ دیتے میں ہی نہیں کوئی بھی غیر جانب دار شخص اس کو بغض ہی سمجھے گا غدیر کوئی سقیفہ بنی ساعدہ کا واقعہ نہیں تھا بلکے یہ وہ واقعہ ہے جس پر اسلام ایک مکمل دین ہو کر ثابت ہوا بہر حال میری باتیں ہر گز آپ کو اچھی نہیں لگیں گی پر میرا کام حق بیان کرنا ہے میں آپ سے کبھی بھی نہیں چاہوں گا کے آپ میری بات کو تسلیم کریں یہ آپ کا حق ہے اور اس کو ضرور استمعال کیجیے پر آخرت کے بارے ضرور سوچنے کے بعد شکریہ





 
Last edited:

انجام

MPA (400+ posts)
تلاش حق کے لئے دوافرادیا گروہوں کاباہم دلائل کا تبادلہ خیال مباحثہ اور فریق ثانی کو نیچا دکھانےکے لئے اپنی ضد اور عناد کے تحت اپنی رائے منوانے پر بالواسطہ یا بلا واسطہ مجبور کرنے کا نام مناظرہ ہے۔
اپنی ناقص سوچ سے یہی کچھ سمجھ پایا ہوں۔ جو کچھ یہاں بیان ہوچکا اسمیں دونوں طرف کی آراء کا جائزہ لیکر کوئی بھی غیر جانبدار طریقے سے اپنی رائے پیش کر سکتا ہے۔ نہ تو مجھے اپنی صفائی دینی ہے نہ ہی کسی سے صفائی لینی ہے۔ پچھلی کئی پوسٹوں سے ایک مخصوص متعصبانہ نظریے کے تحت آپ کی لگاتار پوسٹیں دیکھ رہا تھا۔ اپنی پوسٹوں کے جواب میں رد عمل میں بھی کہیں کسی علمی دلیل کے بغیر صرف ضد اور ہٹ دھرمی پر اس سے بہتر جواب اپنے تئیں ممکن نہیں سمجھ رہا تھا۔ جبتک یہ بحث ایک بحث کے دائرے میں تھی تب تک علمی انداز میں جواب بھی دیتا رہا۔ مگر اب یہ بحث اختلاف سے نکل انا اور مناظرانہ طریقے میں چلی گئی۔ اسی وجہ سےاپنا رد عمل بلا کم وکاست ظاہر کیا۔
رہی بات سامنے بٹھا کر کسی کی داد و تحسین کی تو مجھے اس کی کوئی طلب نہیں۔ مگر بیکار دیوار سے سر پھوڑنا بھی مقصد زیست نہیں۔

حضرت ابوہریرہ کی پہلی روایت کا معاملہ ہو یا دوسری روایت کا معاملہ دونوں مقامات پر پرکھ کرنا اصحاب تحقیق محدثین کا کام ہے جو اصول روایت و درایت کو پرکھیں گے۔ اور پرکھتے ہیں۔ وہ جوسمندر علم میں غوطہ زن ہوتے ہیں وہ حدیث رسول ﷺ اور اقوال صحابہ کے طرز بیان میں پرکھ رکھتے ہیں اور کرتے ہیں۔ اسی لئے کہیں حدیث قولی بیان ہوتی ہے کہیں حدیث فعلی بیان ہوتی ہے۔
کہیں روایت بالمعنی یعنی رسول اللہ ﷺ کے اصل فرامین اصل الفاظ میں یاد نہ رہی تو صرف معنی میں فرمان رسول ﷺ کا مفہوم امت تک پہنچایا جبکہ اصل الفاظ کے بھولنے کا ذکر کردیا۔
حدیث رسول ﷺ کوئی سو دو سو صفحات کی بات نہیں بلکہ یہ 6 سو سال پر محیط امت کی محنتوں کا ثمر ہے جس سے امت مسلمہ مستفید ہو رہی ہے۔ یہ کسی بھی سائنسی علم سے زیادہ وسیع اور مربوط علم ہے۔ چند الجھے ذہن اگر بے معنی و بے ربط چیزوں کو لیکر امت کو منتشر کرنیکی کوشش کریں تو وہاں امت کے صحیح علمی دلائل کو اجاگر کرنا ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے۔

حضرت ابوہریرہ سےابن عمر کا اختلاف اور رد کیا جانا جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ یہ بات باہم اختلاف ہے۔ اگر ابن عمر کی روایت میں کسی بات کی تردید ہو رہی ہے تو یہ لازم نہیں ابن عمر کی بات کلام الہی یا فرمان رسول ﷺ ہے۔ انسے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ نیز انکی بات کو بھی تو دیکھا جائے گا جس بات کو وہ جھوٹ کہ رہے ہیں اس کی بنیاد کیا ہے۔
جیسا کہ عرض کیا ابو ہریرہ کی متعلقہ روایت میں پہلا حصہ حضرت علی کے قول کے موافق ہے۔ اب صرف آدھا قول بچا۔ لہذا واضح ہوا کہ ابن عمر دراصل اس بات سے اختلاف رکھتے تھے، انہوں نے انکی رائے کو رد کیا۔ نہ تو انہوں کہا کہ وہ جھوٹ بولا کرتا ہے نہ یہ کہا وہ جھوٹ بولا کرتا تھا۔ بلکہ کہا جھوٹ کہا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ اس سے ابن عمر صر ف ابوہریرہ کی یہ رائے وتر لازمی نہیں۔ دل کرے پڑھ لو چاہے چھوڑ دو ۔ یہ آخری حصۃ سے اختلاف تھا۔
یہ بات کرنا کہ ابوہریرہ خود واضح کرتا تمہارے لب و لہجہ سے بہت خوب عیاں ہے۔ بہت اچھا ہوتا۔ مگر کیا دوسرے کے متوجہ کرانے سے وہ کفر کا مرتکب ہوگیا؟؟
ایک مختصر روایت جس کا سیاق و سباق واضح نہیں اس سے مکمل نتیجہ کیسے اخذ کر لیں۔ پہلے بھی عرض کیا کہ دونوں راستے ہمارے پاس موجود ہیں ۔ تمہارے پاس وہ راستہ ہمارے پاس حسن ظن ہے۔ ہم کہتے ہیں دین اسلام کےلئے خدمات اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ انکی قربانیوں کا تقاضہ ہے کہ جیسے ہم رسول اللہ ﷺ کے اہلبیت کے بارے حسن ظن سے کام لیتے ہیں تو انسے نسبت کی وجہ سے ہی انکے رفقاء اور اصحاب و احباب و خدام کو بھی بعد والے تمام مسلمانوں سےافضل جانیں۔
یہی کچھ ہم نے سیکھا ہے۔ یہی اہلبیت کی تعلیم ہے اسی پر عمل کرتے ہیں۔
سیدہ عائشہ کی روایت نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کی۔مگر برا ہو تعصب کا آپ کو ہر حال میں مجہول راویوں کی روایت پر اعتماد سے ابوہریرہ کو جھوٹا ثابت کرنا ہے۔ تو جناب آپ اپنی بات پر قائم رہیں۔ اپنی محنت جاری رکھیں۔ ایسی ہزارہا روایتیں جمع کر کے انکو روز پڑھیں حفظ کر لیں۔
جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ میری تحریر نہیں بلکہ کتاب میں روایت کرنے والے صاحب علم ابن عساکر کے استاد علامہ ابوبکر ابن خذیمہ کا جواب نقل کیا۔ اسمیں وہ اس روایت پر دو آراء تحریر کرتے ہیں۔
وہ فرماتے ہیں کہ بنی عامر کے آنے والے دوافراد مجہول ہیں یعنی انکے نام روایت میں موجود نہیں۔ سیدہ عائشہ نے الفاظ سننے کے بعد فرمایا اس نے یعنی ابوہریرہ نے جھوٹ کہا۔
جبکہ ابوبکر ابن خذیمہ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ کی اپنی روایت اسکے خلاف ہے۔ بلکہ متواتر اخبار سے ثابت ہے کہ ابوہریرہ نے روایت کیا : لاعدوی ولا طیرۃ۔ بنی کے لوگوں نے سیدہ عائشہ کے سامنے یہ الفاظ یا تو ذکر نہیں کئے یا انہوں نے ابوہریرہ سے سننے میں غلطی کی۔ یعنی اصل فساد کی جڑ کچھ اور ہے جبکہ تمہاری لکیر کسی اور جگہ پٹ رہی ہے۔ تم نے حضرت عائشہ کے لفظ کذب سے ابوہریرہ کو جھوٹا کہنا ہے اور مجھ سے یہی ثابت کرانا ہے کہ ابوہریرہ جھوٹا تھا۔ حالانکہ دلیل سرے سے موجود ہی نہیں۔
ایک طرف تعلیم دیتے آ رہے ہو کہ کسی پر الزام لگانے والا خؤد ویسا ہے
یہ بات پہلے عمر فاروق پر تھونپی اب سیدہ عائشہ پر تھونپ رہے ہو۔ اپنی اصلاح نہیں کرتے۔ ذرا دامن میں جھانک لو کہ درست ہے کہ ہماری نجات اہلبیت کے دامن سے ہے مگر کیا الفاظ کے اختلاف اور روایات کے الجھاؤ میں اپنا دین بھی برباد کر لیں۔
[FONT=&amp]کیا کسی روایت میں لفظی سقم کو سمجھ کر الفاظ کو درست تناظر میں استعمال کرنے سے اہلبیت کے مقام میں فرق آتا ہے؟؟
مجھے ایسا بالکل نہیں لگتا۔ نیز پہلے بھی تحریر کر چکا ہوں کہ اہلبیت سے محبت کا تقاضہ ہے کہ انسے محبت کرنے والے تمام سچے محبین سے بھی محبت کیجائے۔ یہی میرا ایمان ہے۔
نیز کسی کے ایمان کے فیصلہ سے قبل لازم ہے کہ اس کی باتوں کی 100 تاویلیں بھی ممکن ہوں تو کرکے اسوقت تک کفر کا فتوی صادر نہیں ہوگا جبتک وہ ساری تاویلیں رد ہوجائیں ۔ ایک بھی معمولی سی تاویل حق میں ہوئی تو فائدہ ملزم کو ہوگا۔ کچھ ایسا ہی حکم حد قائم ہونے کا بھی ہے۔ اس میں بھی شک کا فائدہ ملزم کو ہوگا۔
جبکہ یہاں تو ساری بنیاد ہی غلط ہے بغیر تاویل کے ہی معاملہ روز روشن کی طرح واضح ہے۔
عمر فاروق کا بیان مؤاخذہ کے الفاظ ہیں۔مؤاخذہ کے الفاظ سخت ہی ہوتے ہیں۔ ابن عمر کے الفاظ انکا ابوہریرہ سے دلیل کی قوت کا فرق ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ کے الفاظ راویوں کی جہالت یا بد دیانتی کا سبب ہیں۔ اور انہوں نے اسی بات کا رد کیا جو انکو بتائی گئی۔ اس میں ام المؤمنین کا کوئی قصور نہیں۔ انہوں نے صرف حق بات واضح کی۔
[/FONT]​
 
Last edited:

Back
Top