جولائی 2011 کی بات ہے، کراچی کمپنی اسلام آباد کی ایک بڑی مسجد میں نماز جمعہ ادا کیا، حسبِ معمول یہاں بھی جمعے کے بعد بھکاریوں کی ایک لائن لگی رہتی ہے ، اور عمومی نمازوں میں بھی پانچ دس بھکاری آپ کو ضرور ملیں گے، اس روز مجھے کراچی کمپنی کے ارد گرد ہی کوئی کام تھا، عشاء کے وقت جی نائن مرکز میں کھانا کھانے کے بعد نمازِ عشاء کی ادائیگی کیلئے پھر اسی مسجد جانا پڑا، نماز کے بعد باہر نکلا تو ایک خستہ حال سفید ریش بوڑھا بھیک مانگ رہا تھا، لیکن زبان سے ایک لفظ نہیں نکال رہا تھا، دیگر لوگ بھی وہاں موجود تھے لیکن ان کے برعکس یہ شخص بالکل مستحق اور سنجیدہ لگ رہا تھا، اس بابا جی کی طرف دل کھنچتا چلا گیا، اور میں نمازیوں کے اختتام تک انتظار کرتا رہا، جب تقریباً نمازی چلے گئے اور مجھے لگا کہ اب بابا جی اٹھ کر چلے جائیں گے، میں نے قریب جا کر پوچھا بابا جی آپ کے بچے نہیں ہیں ؟ کام وغیرہ کیا کرتے ہیں۔۔۔؟؟
میرے سوالوں پر اس بزرگ نے عجیب سے اجنبیت کا اظہار کیا، اور خاموشی برقرار رکھی، بابا جی کی آنکھوں میں ایک بلا کا کرب تھا، دوسری بار استفسار پر کہا کہ بیٹا اگر کچھ مدد کرسکتے ہو تو کرو، سوال کیوں پوچھ رہے ہو، تو میں نے کہا کہ بابا جی دل دکھ رہا ہے، اس لئے پوچھ رہا ہوں، مجھ سے جو ممکن ہوا کرلوں گا لیکن کیا آپ کے بیٹے وغیرہ نہیں ہیں ۔۔۔؟بابا جی نے دامن سمیٹا، آسمان کی جانب دیکھا۔۔۔۔ ایک آہ بھری اور پوچھا پشتو سمجھتے ہو؟ عرض کیا بول بھی لیتا ہوں۔۔۔۔۔ کچھ دیر بابا جی آنسو بہاتے رہے، ۔۔۔ مجھ میں بھی پوچھنے کی سکت نہ تھی، سوچ رہا تھا کہ شاید کہیں اولاد کی جانب سے بدسلوکی کا رونا رو رہے ہونگے۔۔۔ لیکن اگلے ہی لمحے بابا جی گویا ہوئے۔۔۔۔" اس دنیا میں میرا سوائے میرے اللہ کا اور کوئی نہیں "۔۔۔۔۔۔ حیرت و استعجاب میں تھا کہ کہا بیٹا ایک بات بتاؤں ؟ تم طالب (علم) لگتے ہو، میرے لئے دعا کرو کہ میں کامیاب ہوجاؤں۔۔۔۔۔ میں نے کہا باباجی حکم کریں،۔۔۔۔۔ بابا جی تقریباً سرگوشی میں ہچکیاں لیتےہوئے جو روداد سنانی شروع کی۔۔۔۔
میری 82 سال عمر ہے، وزیرستان کا رہائشی ہوں، کراچی میں لگ بھگ 30 سال جوتے پالش کرتا تھا، میرے 15 بچے ، جن میں 4 بیٹے اور گیارہ بیٹیاں تھیں، بیٹے سارے چھوٹے تھے، دو بیتے گاؤں میں ایک چھوٹا سا کھوکھا چلاتے تھے، میں کراچی سے کچھ نہ کچھ کرکے گھر بھیجتا تھا، میں ہر جمعرات اپنی بوڑھی بیگم کو فون کرکے گھر میں بیٹیوں اور بیٹوں سے بات کرتا تھا، چند ماہ پہلے میں نے جمعرات کے دن شام کو گھر فون کیا، موبائل نمبر بند جاتا رہا، کافی کوشش کے بعد جب کچھ نہ بن پایا تو میں نے ساتھ والے گاؤں میں اپنے ایک جاننے والے کو فون کیا، اس نے فون اٹھا کر بات کی تو لہجے میں کافی خوف تھا، میں نے اسے کہا کہ یار میری بیگم ناراض لگتی ہے، موبائل نمبر بند ہے، پڑوس میں بھی کسی کا نمبر نہیں لگ رہا، اس شخص نے پہلے تو خاموشی اختیار کی، لیکن جب میرا خدشہ بڑھا تو میں نے اسے اصرار کیا کہ بھئی خیرت تو ہے ؟ کیا ہوا معاملہ ہے، تو فون سننے والے نے آہوں اور سسکیوں میں ہی فون بند کردیا ، دوبارہ فون کرنے پر اس نے روتے ہوئے کہا کہ تمیاری دنیا اجڑ چکی ہے، تمہارا گھر، بیوی ، بچے اور پوتے سب کے سب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، دو دن پہلے امریکی ڈرون حملے میں تمہارے گھر سمیت پڑوسیوں کا گھر تباہ ہوا ہے، اور تمہارا سارا گھر مع اہل و عیال ملیا میٹ پوچکا ہے، اس لئے اب تم ان سے جنت میں ہی بات کرسکتے ہو،۔۔۔۔۔وہ بابا یہ کہانی سناتے ہوئے اس قدر رویا کہ اس کی میلی کچیلی داڑھی بھیگ گئی، کہنے لگا بیٹا پھر اس کے اگلے ہی روز میں گھر کی جانب روانہ ہوا، علاقے پہنچ کر گھر کی طرف گیا تو ایک کھنڈر تھا، مٹی اور ملبے کا ڈھیر تھا۔۔۔۔۔ میری قیامت اسی روز واقع ہوچکی تھی۔۔۔۔۔ میرے لئے محشر اس لمحے بپا ہوچکا تھا۔۔۔۔۔ میری دنیا لٹ چکی تھی۔۔۔۔ میرے گھر والوں پر طالبان کے ٹھکانے کا خدشہ کہہ کر حملہ کیا گیا، لیکن واللہ ہم طالبان اور ان کے کام سے کوسوں دور اپنا پیٹ پالنے کے چکر میں تھے۔۔۔۔یہ دلخراش واقعہ تھا، کہ بابا ایک لمحے کو خاموش ہوا، جیب سے ایک رومال نکال کر آنسو صاف کئے، اور کہنے لگا "پتہ ہے میں بھیک کیوں مانگ رہا ہوں ؟" میں نے کہا، جی بابا جی کمانے والا کوئی نہیں اس
لئے۔۔۔۔۔
کہنے لگا ۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔بالکل نہیں۔۔۔۔۔ میں بارود اور بم خریدنے کیلئے بھیک مانگ رہا ہوں۔۔۔۔" کچھ دیر تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، لیکن پوچھ لیا کہ آخر کرینگے کیا۔۔۔۔؟؟ جواب آیا۔۔۔۔" خود کش حملہ کروں گا۔۔۔۔"میری تو دنیا لٹ چکی ہے، میرا تو کوئی نہیں رہا، میں نے ویسے بھی مرنا ہے تو کسی دن بھوک ، پیاس اور غم سے مرنے کی بجائے اپنے ساتھ دس بیس اوروں کو لیکر مروں گا، تا کہ پتہ چلے دکھ کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ انہی باتوں کے دوران وہاں سے ایک خاکی ٹرک گزرا ۔۔۔۔۔ تھوڑی دور بریک لگائی، دو نوجوان آئے۔۔۔بابا سے پوچھ گچھ ہوئی، مجھ سے بھی گفت و شنید کی گئی تو کہا کہ بس یہ بھیک مانگ رہے تھے، ترس آیا ان کے پاس کھڑا رہا، ۔۔۔۔۔ ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس وہ نوجوان بابے کو اٹھا ٹرک میں ڈال رہے تھے، اور بابا چلاتا جارہا تھا۔۔۔۔۔وہ ٹرک نظروں سے اوجھل ہوگیا۔۔۔۔ میں دیر تک وہاں کھڑا سوچتا رہا کہ ایک 82 سالہ بوڑھا اپنا گھر لٹنے پر یہ سوچ رہا ہے تو بہادر امریکہ کے ڈرون حملوں میں شہید ہونے والے معصوم لوگوں کے ورثاء میں شامل وہ نادان اور کچی عمر کے گرم خون والے جوان کتنی شدت سے "خود کش بمبار" بننے کو تیار ہوتے ہونگے۔۔۔۔؟
خود سوچیئے کہ جب ایسے متاثرہ سوچ کے کچے اذہان کو جنت کی لالچ، اور انتقام کی آگ میں بھون کر ایک کمانڈر بم و بارود اس کے حوالے کرتا ہے تو وہ اندھا دھند دل و دماغ اور آنکھیں بند کرکے درجنوں نہتے لوگوں کو ایک ساتھ دھماکے میں اڑا دیتا ہے، اور اپنے بھی پرخچے فضاؤں میں بکھیر دیتا ہے۔۔۔۔۔یہاں اس معصوم ذہنیت کو استعمال کرنے والوں کی سفاکیت اور فکر پہ لعنت ضرور بھیجئے، لیکن ایک لمحے کو سوچئے بھی۔۔۔۔۔ کہ یہ خودکش بمبار بنا کیسے۔۔۔۔۔؟؟ یہ ایک حقیقت پر مبنی واقعہ ہے، جو کچھ کانوں سے سنا ، اور آنکھ سے دیکھا، وہ آج تقریباً ساڑھے پانچ سال بعد سپردِ قلم کررہا ہوں، اس وقت سے آج تک ہزاروں لوگ بم دھماکوں میں اپنی قیمتی جانیں گنوا چکے ہیں، اور وزیرستان میں بھی کئی ڈرون حملے ہوچکے، اب اندازہ لگالیں، بات کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی ہے۔۔۔۔ تھوڑی دیر کیلئے تصوراتی دنیا سے نکل کو سوچیئے۔۔۔۔ اور اس ناسور کی جڑ اکھاڑنے کیلئے اسی بنیاد پر "ضربِ عضب" لگائیں، جو اس سارے فساد، فتنے، خون، قتل، شر انگیزی اور انسنای المیے کا محرک ہے۔
(فیس بک سے منقول)
میرے سوالوں پر اس بزرگ نے عجیب سے اجنبیت کا اظہار کیا، اور خاموشی برقرار رکھی، بابا جی کی آنکھوں میں ایک بلا کا کرب تھا، دوسری بار استفسار پر کہا کہ بیٹا اگر کچھ مدد کرسکتے ہو تو کرو، سوال کیوں پوچھ رہے ہو، تو میں نے کہا کہ بابا جی دل دکھ رہا ہے، اس لئے پوچھ رہا ہوں، مجھ سے جو ممکن ہوا کرلوں گا لیکن کیا آپ کے بیٹے وغیرہ نہیں ہیں ۔۔۔؟بابا جی نے دامن سمیٹا، آسمان کی جانب دیکھا۔۔۔۔ ایک آہ بھری اور پوچھا پشتو سمجھتے ہو؟ عرض کیا بول بھی لیتا ہوں۔۔۔۔۔ کچھ دیر بابا جی آنسو بہاتے رہے، ۔۔۔ مجھ میں بھی پوچھنے کی سکت نہ تھی، سوچ رہا تھا کہ شاید کہیں اولاد کی جانب سے بدسلوکی کا رونا رو رہے ہونگے۔۔۔ لیکن اگلے ہی لمحے بابا جی گویا ہوئے۔۔۔۔" اس دنیا میں میرا سوائے میرے اللہ کا اور کوئی نہیں "۔۔۔۔۔۔ حیرت و استعجاب میں تھا کہ کہا بیٹا ایک بات بتاؤں ؟ تم طالب (علم) لگتے ہو، میرے لئے دعا کرو کہ میں کامیاب ہوجاؤں۔۔۔۔۔ میں نے کہا باباجی حکم کریں،۔۔۔۔۔ بابا جی تقریباً سرگوشی میں ہچکیاں لیتےہوئے جو روداد سنانی شروع کی۔۔۔۔
میری 82 سال عمر ہے، وزیرستان کا رہائشی ہوں، کراچی میں لگ بھگ 30 سال جوتے پالش کرتا تھا، میرے 15 بچے ، جن میں 4 بیٹے اور گیارہ بیٹیاں تھیں، بیٹے سارے چھوٹے تھے، دو بیتے گاؤں میں ایک چھوٹا سا کھوکھا چلاتے تھے، میں کراچی سے کچھ نہ کچھ کرکے گھر بھیجتا تھا، میں ہر جمعرات اپنی بوڑھی بیگم کو فون کرکے گھر میں بیٹیوں اور بیٹوں سے بات کرتا تھا، چند ماہ پہلے میں نے جمعرات کے دن شام کو گھر فون کیا، موبائل نمبر بند جاتا رہا، کافی کوشش کے بعد جب کچھ نہ بن پایا تو میں نے ساتھ والے گاؤں میں اپنے ایک جاننے والے کو فون کیا، اس نے فون اٹھا کر بات کی تو لہجے میں کافی خوف تھا، میں نے اسے کہا کہ یار میری بیگم ناراض لگتی ہے، موبائل نمبر بند ہے، پڑوس میں بھی کسی کا نمبر نہیں لگ رہا، اس شخص نے پہلے تو خاموشی اختیار کی، لیکن جب میرا خدشہ بڑھا تو میں نے اسے اصرار کیا کہ بھئی خیرت تو ہے ؟ کیا ہوا معاملہ ہے، تو فون سننے والے نے آہوں اور سسکیوں میں ہی فون بند کردیا ، دوبارہ فون کرنے پر اس نے روتے ہوئے کہا کہ تمیاری دنیا اجڑ چکی ہے، تمہارا گھر، بیوی ، بچے اور پوتے سب کے سب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، دو دن پہلے امریکی ڈرون حملے میں تمہارے گھر سمیت پڑوسیوں کا گھر تباہ ہوا ہے، اور تمہارا سارا گھر مع اہل و عیال ملیا میٹ پوچکا ہے، اس لئے اب تم ان سے جنت میں ہی بات کرسکتے ہو،۔۔۔۔۔وہ بابا یہ کہانی سناتے ہوئے اس قدر رویا کہ اس کی میلی کچیلی داڑھی بھیگ گئی، کہنے لگا بیٹا پھر اس کے اگلے ہی روز میں گھر کی جانب روانہ ہوا، علاقے پہنچ کر گھر کی طرف گیا تو ایک کھنڈر تھا، مٹی اور ملبے کا ڈھیر تھا۔۔۔۔۔ میری قیامت اسی روز واقع ہوچکی تھی۔۔۔۔۔ میرے لئے محشر اس لمحے بپا ہوچکا تھا۔۔۔۔۔ میری دنیا لٹ چکی تھی۔۔۔۔ میرے گھر والوں پر طالبان کے ٹھکانے کا خدشہ کہہ کر حملہ کیا گیا، لیکن واللہ ہم طالبان اور ان کے کام سے کوسوں دور اپنا پیٹ پالنے کے چکر میں تھے۔۔۔۔یہ دلخراش واقعہ تھا، کہ بابا ایک لمحے کو خاموش ہوا، جیب سے ایک رومال نکال کر آنسو صاف کئے، اور کہنے لگا "پتہ ہے میں بھیک کیوں مانگ رہا ہوں ؟" میں نے کہا، جی بابا جی کمانے والا کوئی نہیں اس
لئے۔۔۔۔۔
کہنے لگا ۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔بالکل نہیں۔۔۔۔۔ میں بارود اور بم خریدنے کیلئے بھیک مانگ رہا ہوں۔۔۔۔" کچھ دیر تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، لیکن پوچھ لیا کہ آخر کرینگے کیا۔۔۔۔؟؟ جواب آیا۔۔۔۔" خود کش حملہ کروں گا۔۔۔۔"میری تو دنیا لٹ چکی ہے، میرا تو کوئی نہیں رہا، میں نے ویسے بھی مرنا ہے تو کسی دن بھوک ، پیاس اور غم سے مرنے کی بجائے اپنے ساتھ دس بیس اوروں کو لیکر مروں گا، تا کہ پتہ چلے دکھ کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ انہی باتوں کے دوران وہاں سے ایک خاکی ٹرک گزرا ۔۔۔۔۔ تھوڑی دور بریک لگائی، دو نوجوان آئے۔۔۔بابا سے پوچھ گچھ ہوئی، مجھ سے بھی گفت و شنید کی گئی تو کہا کہ بس یہ بھیک مانگ رہے تھے، ترس آیا ان کے پاس کھڑا رہا، ۔۔۔۔۔ ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں ملبوس وہ نوجوان بابے کو اٹھا ٹرک میں ڈال رہے تھے، اور بابا چلاتا جارہا تھا۔۔۔۔۔وہ ٹرک نظروں سے اوجھل ہوگیا۔۔۔۔ میں دیر تک وہاں کھڑا سوچتا رہا کہ ایک 82 سالہ بوڑھا اپنا گھر لٹنے پر یہ سوچ رہا ہے تو بہادر امریکہ کے ڈرون حملوں میں شہید ہونے والے معصوم لوگوں کے ورثاء میں شامل وہ نادان اور کچی عمر کے گرم خون والے جوان کتنی شدت سے "خود کش بمبار" بننے کو تیار ہوتے ہونگے۔۔۔۔؟
خود سوچیئے کہ جب ایسے متاثرہ سوچ کے کچے اذہان کو جنت کی لالچ، اور انتقام کی آگ میں بھون کر ایک کمانڈر بم و بارود اس کے حوالے کرتا ہے تو وہ اندھا دھند دل و دماغ اور آنکھیں بند کرکے درجنوں نہتے لوگوں کو ایک ساتھ دھماکے میں اڑا دیتا ہے، اور اپنے بھی پرخچے فضاؤں میں بکھیر دیتا ہے۔۔۔۔۔یہاں اس معصوم ذہنیت کو استعمال کرنے والوں کی سفاکیت اور فکر پہ لعنت ضرور بھیجئے، لیکن ایک لمحے کو سوچئے بھی۔۔۔۔۔ کہ یہ خودکش بمبار بنا کیسے۔۔۔۔۔؟؟ یہ ایک حقیقت پر مبنی واقعہ ہے، جو کچھ کانوں سے سنا ، اور آنکھ سے دیکھا، وہ آج تقریباً ساڑھے پانچ سال بعد سپردِ قلم کررہا ہوں، اس وقت سے آج تک ہزاروں لوگ بم دھماکوں میں اپنی قیمتی جانیں گنوا چکے ہیں، اور وزیرستان میں بھی کئی ڈرون حملے ہوچکے، اب اندازہ لگالیں، بات کہاں سے کہاں تک پہنچ چکی ہے۔۔۔۔ تھوڑی دیر کیلئے تصوراتی دنیا سے نکل کو سوچیئے۔۔۔۔ اور اس ناسور کی جڑ اکھاڑنے کیلئے اسی بنیاد پر "ضربِ عضب" لگائیں، جو اس سارے فساد، فتنے، خون، قتل، شر انگیزی اور انسنای المیے کا محرک ہے۔
(فیس بک سے منقول)