گزشتہ چند برس سے مصر میں تحریر اسکوائر احتجاجی سیاست کا ایک استعارہ بن کے سامنے ابھرا ہے- حسنی مبارک اور محمد مرسی دونوں کی حکومتوں کو تحریر اسکوائر سے شروع ہونے والی تحریکوں کی وجہ سے جانا پڑا - ایک بات جو قابل غور ہے کہ حسنی مبارک کے خلاف چلائی جانے والی تحریک اپنی شدت میں سب سے مضبوط تھی اور ملک کے طاقتور ترین طبقے کو اسکی شدت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور مصری فوج چاھتے ہووے بھی حسنی مبارک کو نا بچا سکی -
محمد مرسی کے خلاف چلائی جانے والی تحریک ذرا کم تر شدت کی تھی اور اسکی کامیابی میں زیادہ ہاتھ اس بات کا تھا کہ فوج پہلے سے ہی محمد مرسی کے چند اقدامات کی وجہ سے اسکے خلاف ہو چکی تھی اور یہ تحریک فوجی مداخلت کے بنا کبھی بھی کامیاب نا ہوتی -
پچھلے سال السسیسی نے مصر میں مظاہرے کرنے پر پابندی لگا دی ہے-یہ وہ حکم تھا جو حسنی مبارک کے دور میں بھی نہیں دیا گیا تھا اور واضح طور پر ایسا اقدام تھا جس کے خلاف لوگوں کو احتجاج کرنا چاہیے تھا پر حیران کن طور پر تحریر اسکوائر کو آباد کرنے ولے لوگوں نے ایک آمر کے اس اقدام کو قبول کر لیا ہے اور اب تحریر اسکوائر اس وقت ویران پڑا ہے جب لوگوں کو اپنے اس حق کیلئے میدان میں آنا چاہیے تھا جسکی وجہ سے انہیں حسنی مبارک اور محمد مرسی کے خلاف تحریک چلانے کا موقع ملا تھا-
"پروٹیسٹ فٹیق" ایک ایسا عمل ہے جس کی وجہ سے لوگ مسلسل احتجاج سے تنگ آ کر احتجاجی مظاہروں اور تحریکوں میں حصہ لینا ترک کر دیتے ہیں - اور بلآخر ایسے معاملات جن کے خلاف آواز اٹھانا بہت ضروری ہوتا ہے انکے خلاف بھی آواز نہیں اٹھاتے- جسکا نقصان انکی آنے والی کئی نسلیں اٹھاتی ہیں -
خان صاحب بھی مسلسل جلسے جلوسوں کی صورت میں ایک لاحاصل احتجاجی تحریک چلایے ہووے ہیں اور وہ معاملات جو کہ بات چیت سے حل ہو سکتے تھے انکو بھی سڑکوں پر احتجاج سے حل کرنا چاھتے ہیں - انکے اس رویے سے ناصرف تحریک انصاف کو نقصان ہوگا بلکہ اسکی وجہ سے لوگوں کا احتجاج سے اعتماد اٹھ جائے گا اور وہ ان معاملات میں بھی باہر نکلنے سے انکار کر دیں گے جن معاملات میں انکا نکلنا انتہائی ضروری ہے -
اس دفعہ اگر خان صاحب اپنے انقلابی مارچ میں ناکام ہووے تو اگلی دفع انکے لیے دو سو بندہ بھی اکٹھا کرنا مشکل ہوگا - بدقسمتی سے خان صاحب کی کامیابی کے امکانات فلحال کم ہیں اور نواز حکوت صرف فوجی مداخلت کی بنا پر جائے گی کیونکہ ہمیں پتا ہے کہ نواز شریف جیسا ضدی شخص کبھی استیفہ نہیں دے گا کیونکہ یہ ایک طرح سے اس بات کا اقرار ہو گا کہ ان لوگوں نے انتخابات میں دھاندلی کی ہے - یہ بات طے ہے کہ فوجی مداخلت کا مطلب عمران خان کی کامیابی نہیں ہے خاص کرکے جب وہ خود بھی کہ چکے ہیں کہ وہ فوجی مداخلت نہیں چاہتے
محمد مرسی کے خلاف چلائی جانے والی تحریک ذرا کم تر شدت کی تھی اور اسکی کامیابی میں زیادہ ہاتھ اس بات کا تھا کہ فوج پہلے سے ہی محمد مرسی کے چند اقدامات کی وجہ سے اسکے خلاف ہو چکی تھی اور یہ تحریک فوجی مداخلت کے بنا کبھی بھی کامیاب نا ہوتی -
پچھلے سال السسیسی نے مصر میں مظاہرے کرنے پر پابندی لگا دی ہے-یہ وہ حکم تھا جو حسنی مبارک کے دور میں بھی نہیں دیا گیا تھا اور واضح طور پر ایسا اقدام تھا جس کے خلاف لوگوں کو احتجاج کرنا چاہیے تھا پر حیران کن طور پر تحریر اسکوائر کو آباد کرنے ولے لوگوں نے ایک آمر کے اس اقدام کو قبول کر لیا ہے اور اب تحریر اسکوائر اس وقت ویران پڑا ہے جب لوگوں کو اپنے اس حق کیلئے میدان میں آنا چاہیے تھا جسکی وجہ سے انہیں حسنی مبارک اور محمد مرسی کے خلاف تحریک چلانے کا موقع ملا تھا-
"پروٹیسٹ فٹیق" ایک ایسا عمل ہے جس کی وجہ سے لوگ مسلسل احتجاج سے تنگ آ کر احتجاجی مظاہروں اور تحریکوں میں حصہ لینا ترک کر دیتے ہیں - اور بلآخر ایسے معاملات جن کے خلاف آواز اٹھانا بہت ضروری ہوتا ہے انکے خلاف بھی آواز نہیں اٹھاتے- جسکا نقصان انکی آنے والی کئی نسلیں اٹھاتی ہیں -
خان صاحب بھی مسلسل جلسے جلوسوں کی صورت میں ایک لاحاصل احتجاجی تحریک چلایے ہووے ہیں اور وہ معاملات جو کہ بات چیت سے حل ہو سکتے تھے انکو بھی سڑکوں پر احتجاج سے حل کرنا چاھتے ہیں - انکے اس رویے سے ناصرف تحریک انصاف کو نقصان ہوگا بلکہ اسکی وجہ سے لوگوں کا احتجاج سے اعتماد اٹھ جائے گا اور وہ ان معاملات میں بھی باہر نکلنے سے انکار کر دیں گے جن معاملات میں انکا نکلنا انتہائی ضروری ہے -
اس دفعہ اگر خان صاحب اپنے انقلابی مارچ میں ناکام ہووے تو اگلی دفع انکے لیے دو سو بندہ بھی اکٹھا کرنا مشکل ہوگا - بدقسمتی سے خان صاحب کی کامیابی کے امکانات فلحال کم ہیں اور نواز حکوت صرف فوجی مداخلت کی بنا پر جائے گی کیونکہ ہمیں پتا ہے کہ نواز شریف جیسا ضدی شخص کبھی استیفہ نہیں دے گا کیونکہ یہ ایک طرح سے اس بات کا اقرار ہو گا کہ ان لوگوں نے انتخابات میں دھاندلی کی ہے - یہ بات طے ہے کہ فوجی مداخلت کا مطلب عمران خان کی کامیابی نہیں ہے خاص کرکے جب وہ خود بھی کہ چکے ہیں کہ وہ فوجی مداخلت نہیں چاہتے