پاکستان اپنی سرزمین اور شہریوں کے تحفظ کیلئے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لائیگا، انشاءاللہ!: وزیر دفاع
وفاقی وزیر دفاع ورہنما ن لیگ خواجہ آصف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سینئر رہنما پاکستان پیپلزپارٹی فرحت اللہ بابر کے پیغام پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ: افغانستان کا دہشت گردی بارے موقف کچھ بھی ہو، قطع نظر اس کے کہ کابل کی عسکریت پسندوں کے اپنی سرحدی حدود سے خاتمے کی خواہش ہے یا نہیں پاکستان دہشت گردی کو اپنی سرزمین سے جڑ سے اکھاڑنے کیلئے پرعزم ہے، اس کا ذریعہ چاہے کچھ بھی ہو۔
12 جولائی کو بلوچستان کے علاقے ژوب میں واقع گیریژن میں دہشت گردوں کے حملے میں 9 فوجی جوان جبکہ سوئی میں فوجی آپریشنز کے دوران 3 جوانوں نے جام شہادت نوش کیا اور 2 دہشت گرد ہلاک ہوئے تھے۔ واقعات کے بعد وزیر دفاع ورہنما ن لیگ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ افغانستان کی طرف سے ہمسایہ ملک ہونے کا حق ادا نہیں کیا جا رہا اور نہ وہ ہی دوحہ معاہدے کی پاسداری کر رہا ہے۔
50/60 لاکھ افغانوں کو تمام تر حقوق کے ساتھ پاکستان میں 40/50 سال سے پناہ میسر ہے جبکہ اس کے بر عکس پاکستانیوں کا خون بہانے والے دہشت گردوں کو افغان سر زمین پہ پناہ گاہیں میسر ہیں،یہ صورت حال مزید جاری نہیں رہ سکتی! پاکستان اپنی سرزمین اور شہریوں کے تحفظ کیلئے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لائیگا، انشاءاللہ!
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے خواجہ آصف کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ دوحہ معاہدہ طالبان نے امریکہ کے ساتھ کیا ہے، پاکستان کیساتھ نہیں، اس کیساتھ ہماری پالیسی مختلف ہے۔ فرحت اللہ بابر نے ردعمل میں لکھا کہ: ذبیح اللہ مجاہد کے بیان سے یہ سمجھا جائے کہ یہ معاہدہ طالبان حکومت کو کچھ عسکری پسندوں کیخلاف کارروائی کا پابند کرتا ہے کچھ کا نہیں، یہ انتہائی پریشان کن ہے!
یاد رہے کہ دہشت گردی واقعات پر آئی ایس پی آر کی طرف سے بیان جاری کیا گیا تھا کہ افغانستان کی عبوری حکومت سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ دوحہ معاہدے میں کیے گئے وعدوں کی روشنی میں حقیقی معنوں میں کسی بھی ملک کے خلاف اپنی سرزمین دہشت گردوں کی سہولت کاری کیلئے استعمال نہیں کرنے دی گی۔ ترجمان دفترخارجہ ممتاز زہرہ بلوچ کا کہنا تھا کہ افغان حکام اپنے وعدے پورے کریں اور اپنی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کی رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کی طرف سے حکومت کیساتھ جنگ بندی ختم ہونے کے بعد سے بلوچستان، کے پی کے میں دہشتگردی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق عسکریت پسندوں کی طرف سے رواں سال کے پہلے 6 مہینوں میں حملوں میں 80 فیصد اضافہ ہوا، 389 شہادتیں اور 656 افراد زخمی ہوئے۔
کے پی کے میں 174 حملوں میں 266 افراد جاں بحق، 463 زخمی، بلوچستان میں 75 واقعات کے نتیجے میں 100 افراد جاں بحق، 163 زخمی ہوئے، سندھ میں 13 حملوں میں 19 افراد جاں بحق، 19 زخمی جبکہ پنجاب میں 8 حملوں میں 6 افراد جاں بحق، 10 زخمی ہوئے۔ نیکٹا کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں بہت سی قوتیں دہشت گردی کی حمایت میں ملوث ہیںاور تعلیم کمی سمیت نوجوانوں کی سیاسی محرومی کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی افغانستان کی پناہ گاہوں میں رہتے ہوئے جدید ترین ہتھیار حاصل کرنے میں کامیاب ہو کر وہاں آزادانہ کام کر رہی ہے۔ پاکستان میں بدامنی کی تازہ ترین لہر کی بنیادی وجہ افغان حکومت کی کالعدم ٹی ٹی پی کو روکنے میں ناکامی ہے۔ بلوچستان میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں عسکریت پسندوں نے امریکی فوج کے زیراستعمال رہنے والی ایم 16 رائفلوں کا استعمال کیا۔
رپورٹ کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان کےعسکریت پسند امریکی وردیوں میں ملبوس تھے اور 2021ء میں افغانستان سے انخلاء کے وقت امریکی افواج کی طرف سے چھوڑے گئے اسلحہ وگولہ باردوں پر قابض ہے۔ پاکستان ایسے واقعات کو روکنے کیلئے پاک فوج کی طرف سے متعدد علاقوں میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔