انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ

Amal

Chief Minister (5k+ posts)






انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ

ارشاد باری تعالیٰ ہے

اللہ تعالیٰ عدل،بھلائی اور قرابت داروں کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں ، ناشائستہ حرکتوں، ظلم اور زیادتی سے روکتا ہے۔ وہ خود تمہیں نصیحت کررہا ہے تا کہ تم نصیحت حاصل کرو۔سورۃ النحل، آیت 90

اس آیتِ مبارکہ میں پہلا حُکم عدل کرناہے،یعنی ایک انسان دو سرے انسان سے معاملات میں انصاف سے کام لے۔ کسی کے ساتھ دشمنی، عناد، محبت یا قرابت کی وجہ سے انصاف کے مروّج تقاضے مجروح نہ ہوں ۔ دوسرے معنوں میں اسے اعتدال بھی کہہ سکتے ہیں ۔ عدل کے ایک اور معنی برابر کرنے کے ہیں ۔اسے میزان یا ترازو کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ اس کے دونوں پلڑے برابر ہوتے ہیں۔ ذراسی بھی اونچ نیچ عدل اور انصاف کے منافی تصورکی جاتی ہے۔ روزِ قیامت حشر کاجو میدان وقوع پزیر ہوگا، وہاں بھی اللہ تعالیٰ اپنی میزان نصب کرے گا، جس میں بندوں کے اعمال کا وزن کیاجائے گا کیوں کہ وہ سب سے بڑا عادل اورسچّا انصاف کرنے والا ہے،

ارشاد فرمایا: اُس روز لوگ مختلف جماعتیں ہو کر (واپس )لوٹیں گے تاکہ اُنہیں اُن کے اعمال دکھا دیے جائیں ،پس جس نے ذرّہ برابرنیکی کی ہوگی، وہ اُسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرّہ برابر بُرائی کی ہوگی وہ اُسے دیکھ لے گا۔سورۃ الزلزال، آیات 6تا8

ان آیات ِ مبارکہ میں لفظ ذرّہ دو مرتبہ آیا ہے , بعض کے نزدیک ذرّہ چیونٹی سے بھی چھوٹی چیزہے ۔اہلِ لغت کہتے ہیں کہ انسان جب زمین پر ہاتھ مارتا ہے تواس عمل سے اُس کے ہاتھ پر جو مٹی لگ جاتی ہے وہ ذرّات ہیں، کچھ کاخیال ہے کہ سوراخ سے آنے والی سورج کی شعاعوں میں گردو غبار کے جو ذرّات سے نظر آتے ہیں ،اُس کا نام ذرّہ ہے ۔ اس ذرّے کا کتنا حجم اور وزن ہے؟ یہ سب روزِ حشر اللہ کی میزان میں تولے جائیں گے اور انسان کے جنّتی اور جہنمی ہونے کا پتا چل جائے گا۔ امام مقاتلؒ فرماتے ہیں کہ یہ آیاتِ مبارکہ اُن دو اصحاب کے بارے میں نازل ہوئی ہیں، جن میں ایک سائل کو تھوڑا دینے میں تامّل کرتا جب کہ دوسراا چھوٹا گناہ کرنے میں کوئی خوف محسوس نہیں کرتا تھا۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ انسان کو تھوڑے سے تھوڑا صدقہ بھی دیتے رہنا چاہیے اور کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے اجتناب برتنا چاہیے۔ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنا حاکم و رعایا سب پر یکساں لازم ہیں۔

حکام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا

اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل و انصاف سے کرو، یقیناً وہ بہتر چیزہے ،اس کی نصیحت تمہیں اللہ کر رہا ہے، بے شک اللہ سُنتا اور دیکھتا ہے ۔سورہ النساء آیت 58

اسی ضمن میں ایک حدیثِ مبارکہ بھی ہے
حاکم جب تک ظلم نہ کرے، اللہ اُس کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب وہ ظلم شروع کردیتا ہے تو اللہ اُسے اُس کے نفس کے حوالے کردیتا ہے۔ابنِ ماجہ کتاب الا حکام

ایک اور مقام پر بِلا تخصیص ِعوام و خواص فرمایا

اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ ۔کسی قوم کی عداوت تمہیں اِس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ عدل کیا کرو، جو پر ہیز گاری کے زیادہ قریب ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈر تے رہو۔ یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے ۔سورۃ المائدہ، آیت 8

عدل کا متوازی لفظ انصاف ہے ،جسے ہم اکثر استعمال کرتے ہیں ۔ عدل کرنے والے کو عادل جب کہ انصاف کرنے والے کو منصف کہتے ہیں، جسے عربی میں قاضی اور انگریزی میں جج کہا جاتاہے ۔ عادل اور منصف اللہ تعالیٰ کے ذاتی نام ہیں۔ یہ صفات آنحضرت محمدمصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو بھی عطا کی گئیں اوریہی تعلیم آپؐ نے اپنی پوری اُمّت ِمسلمہ کودی ۔قرآنِ حکیم میں متعدد مقامات پر اس کا ذکر ہے ۔فرمایا گیا

اے ایما ن والو! عدل و انصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے بن جاؤ اور اللہ کی خوش نُودی کے لیے سچّی گواہی دینے والے بن جاؤ ، گووہ خود تمہارے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتے دار عزیزوں کے، وہ شخص اگر امیر ہوتواور فقیر ہوتو ،دونوں کے ساتھ اللہ کو زیادہ تعلق ہے۔ اس لیے تم خواہشِ نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے ۔اللہ تعالیٰ اُس سے پوری طرح باخبر ہے ۔سورۃالنساء آیت135

اس آیۂ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل ِایمان کو عدل و انصاف قائم کرنے اور حق کے مطابق گواہی دینے کی تاکید فرمائی ہے، چاہے اس کی وجہ سے اسے بذاتِ خود، والدین یا اقربا کو نقصان ہی اُٹھانا پڑے ۔اس لیے حق سب پر مقدّم ہے ۔عدل وانصاف کے تقاضے پُورے کرنے کے لیے کسی امیر کو غریب پر یا غنی کو فقیر پر ہرگز ترجیح نہ دی جائے، کیوں کہ انصاف کرتے وقت تمہارے سب سے زیادہ قریب رَبّ العزت ہے۔ کہیں تم خواہشِ نفس، عصبیت یا بغض سے متاثر ہو کر انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ دو۔ اگر ایسا ہوگیا تو پھر جان لو، وہ خوب دیکھنے اور سُننے والا ہے اور اُس کی پکڑ بھی شدید ہے ۔ متعدد احادیثِ مبارکہ میں ہمیں عدل و انصاف کی تعلیم سے نوازا گیا ہے۔ایک حدیثِ مبارکہ میں آیا ہے

قیامت کے دن اللہ سے سب سے زیادہ قریب اور اللہ کو سب سے زیادہ پیارا امام عادل ہوگا۔

یعنی اللہ کے حکم کے مطابق انصاف کے ساتھ حکمرانی کرنے والا،ایک اور حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ رسولؐ اللہ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا

تم جانتے ہو کہ قیامت کے دن اللہ کے سایۂ رحمت میں کون لوگ سب سے پہلے آئیں گے؟ عرض کی گئی: اللہ اور اُس کا رسول ؐہی بہترجانتے ہیں لہٰذا آپؐ ہی بتائیں کہ کون خوش نصیب بندے قیامت کے دن سب سے پہلے رحمت کے سائے میں لیے جائیں گے ؟ آپؐ نے فرمایا:یہ وہ بندے ہوں گے، جن کا حال یہ ہوگا کہ جب اُنہیں اُن کا حق دیا جائے تو قبول کرلیں اور جب کوئی اُن سے اپنا حق مانگے تو وہ اُس کا حق ادا کردیں اوردوسرے لوگوں کے لیے بالکل اسی طرح فیصلہ کریں، جس طرح خود اپنے لیے فیصلہ کریں ۔اسلام کیا ہے؟ ص107

کُتب ِسیرت میں عدل و انصاف پر مبنی ایک اہم واقعہ موجود ہے: نبی کریم ؐ اُونٹنی پر سوار تھے، آپ ؐ نے دو موٹے جوتے پہن رکھے تھے۔ حضرت ابو رہم غفاریؓ کی اُونٹنی آپؐ کی اونٹنی سے ٹکرا گئی۔ اُنؓ کی جوتی کا کنارارسولؐ اللہ کی پنڈلی پر لگا۔رسولؐ اللہ نے فرمایا :اپنا پاؤں پیچھے کر۔ پھر آپؐ نے میرے پاؤں پرہلکاسا کوڑا مارا۔ میں بہت ڈرا کہ نہ جانے اللہ تعالیٰ میرے خلاف بے ادبی پر کیا حکم فرما دیں۔ الجعرانہ پہنچ کر میں صحابہ کرام ؓ کے اونٹوں کو چرانے کے لیے جنگل چلا گیا۔معاً حضوراکرم ؐ نے میری تلاش میں ایک صحابیؓ کو بھیجا ۔تلاش کے بعد صحابیؓ نے کہا: تمہیں حضوراکرم ؐ نے یاد کیا ہے۔اب تو میں بہت ڈرا کہ جوتے کا کنارہ لگنے کی پاداش میں مجھ پر عتاب آنے والا ہے ۔ میں نے حاضرِ خدمت ہو کر عرض کی:یارسولؐ اللہ!آپؐ نے مجھے طلب فرمایا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:ہاں ،تُو نے مجھے پاؤں سے تکلیف پہنچائی تھی اور میں نے تُجھے کوڑامارا تھا۔ لو، یہ بکریوں کاریوڑاور مجھ سے راضی ہو جاؤ۔ میں نے عرض کی:یا رسولؐ اللہ! آپؐ میرے ساتھ راضی ہیں تو آپؐ کی رضا مجھے دُنیا و مافیہا سے زیادہ عزیز ہے۔حضرت ابورہمؓ سابقون الاوّلون میں سے تھے ،جنہوں نے ہر غزوے اور بیعتِ رضوان میں شرکت کی تھی۔ انہیں دی جانے والی بکریوں کی تعداد 80تھی۔ (معازی للواقدی) آنحضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے کئی مرتبہ مجمع میں اعلان فرمایا کہ کسی شخص کو میری ذات سے تکلیف پہنچی ہو یا کسی کا قرض ہوتو وہ مجھ سے وصول کرلے۔ یہ نبی کریم ؐ کی تعلیمات ہی تھیں ،جن پر خلفائے راشدین اور صحابہ کرام ؓ عمل پیرا رہے ،یہی خلفاء خود کو ہمیشہ عوام کے سامنے احتساب کے لیے پیش کرتے رہے، جس کی مثال خلیفہ ٔ دو م کا یہ واقعہ تاریخِ اسلام کی زینت ہے ۔

حضرت عمر ؓ تقریرکے لیے کھڑے ہوئے اور لوگوں سے دریافت کیا: میں جو حکم تمہیں دوں گا،کیااُس کی اطاعت کرو گے ؟ تو لوگوں میں سے ایک اعرابی نے کھڑے ہوکر کہا:اے عمرؓ! ہم ہرگز تمہاری اطاعت نہیں کریں گے ۔دریافت کرنے پر اُس نے کہا: مالِ غنیمت میں چند چادریں آئی تھیں، آپؓ کے حصّے میں بھی ایک چادرآئی تھی لیکن لگتا ہے آپ ؓنے اپنے حق سے زیادہ وصول کیا (جو دیگر مسلمانوں کے حق سے نا انصافی ہے)کیوں کہ ایک چادر سے آپؓ جیسے قد کے انسان کا کرتہ نہیں بن سکتا۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس کا جواب یہ دیں گے۔ بیٹے نے کہا: ایک چادر سے ابا جان کا کرتہ نہ بن سکا تو میں نے اپنے حصّے کی چادر بھی ابا جان کو دے دی۔ اعرابی یہ جواب سُن کر کہنے لگا:اب آپؓ جو بھی حکم دیں گے، ہم اُس کی اطاعت کریں گے ۔

ہم آنحضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے اُمتّی ہیں لیکن اُن تعلیماتِ عدل و انصاف سے دور ہوکر خسارے میں پڑتے جارہے ہیں۔ اُمّت ِمسلمہ کے دُکھ درد کا مداوا اسی میں ہے کہ ہم آپؐ کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل پیرا ہو ں تاکہ روز قیامت سُرخ رو ہو سکیں۔حضرت انس بن مالکؓ، حضرت سہل ابن سعدؓ، حضرت عبداللہ ا بن عباسؓ اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضوراکرم ؐ نے فرمایا

جب میں حوض ِکوثرپر کھڑا ہوں گاتو میرے اُمّتی میری طرف آرہے ہوں گے۔ کچھ لوگوں کو فرشتے میری طرف آنے سے روک دیں گے کہ انہوں نے آپؐ کے بعد آپ ؐ کا طریقہ چھوڑ دیا تھا اور نئی چیزیں ایجاد کرلی تھیں، میں کہوں گا کہ پھراِنہیں پیچھے اور دُور لے جاؤ۔صحیح بخاری، ج2،کتاب

اللهُمَّ أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ
صحیح مسلم:486

اے اللہ میں تیری خوشنودی کے ساتھ تیری ناراضی سے، تیری عافیت کے ساتھ تیری سزا سے،(تیری) پناہ میں آتا ہون، میں تجھ سے تیری ہی پناہ طلب کرتا ہوں، میں تیری تعریف(کےکلمات)شمار نہیں کرسکتا، تو اسی طرح ہے جس طرح تو نے خود اپنی تعریف کی۔




14520563_1206117996113557_4571814257351855135_n.jpg



 
Last edited: