ایک نظر حدیبیہ کیس کی طرف

Saiban

Politcal Worker (100+ posts)
پانامہ کیس کی سماعت کے دوران سب سے زیادہ شریف خاندان کے جس پرانے کیس کا ذکر آیا وہ حدیبیہ پیپر ملز کیس تھا جو کہ بنیادی طور پر شریف خاندان کی نوے کی دہائی میں منی لانڈرنگ کے متعلق ہے۔ویسے تو کئی بار خصوصا کاشف عباسی اور ارشد شریف اس کیس کی تفصیلات پچھلے ایک سال کے دوران اپنے شوز میں دکھا چکے لیکن پھر بھی جن نوجوانوں کو پانامہ کیس میں دلچسپی ہے

اور وہ نوے کی دہائی کے سیاسی معاملات کے بارے میں نہیں جانتے انکے لیے مختصرا اور سادہ الفاظ میں نیچے حدیبیہ پیپر ملز کی تفصیلات بیان کی گیئں ہیں۔جیسا کہ نام سے واضح ہے حدیبیہ دراصل شریف خاندان کی ایک پیپر مل ہے جسے نوے کی دہائی میں شریف خاندان کی بلیک منی کو وائٹ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

اور اس بات کا انکشاف تب ہوا جب 2000 میں اسحاق ڈار نے ایک اعترافی بیان میں وعدہ معاف گواہ بن کر شریف خاندان کی منی لانڈرنگ کا سارا کچہ چٹھا کھول دیا اور یہ بھی واضح کیا کہ وہ کس طریقہ کار سے شریف خاندان کے لیے منی لانڈرنگ کا گھناونا فعل سرانجام دیتے تھے۔

یہ کہانی اسحاق ڈار اور لندن کی قاضی فیملی گرد گھومتی ہے۔قاضی فیملی اسحاق ڈار کے قریبی عزیزوں میں تھی ۔ اس بات کا علم فلحال کسی کو نہیں کہ قاضی فیملی بھی اس زمانے میں شریف خاندان کی منی لانڈرنگ میں ملوث تھی یا پھر جیسا کہ انکا موقف ہے کہ یہ سب انکی لاعلمی میں کیا گیا ۔پانامہ کیس کی سماعت کے دوران مسعود قاضی کے بیٹے کاشف قاضی نے سپریم کورٹ کو خط لکھا جس میں انھوں نے یہ دعوی کیا کہ مے فیر کے اپارٹمنٹس اسی منی لانڈرنگ کے پیسے سے خریدے گئے ہیں جو انکے والد کے اکاونٹس کے ذریعے ہوتی تھی۔

انھوں نے مزید لکھا کہ وہ ایک محب وطن پاکستانی ہیں اور اگر عدالت انھیں تحفظ فراہم کرے تو وہ سپریم کورٹ میں گواہی دینے کو بھی تیار ہیں ۔قاضی فیملی کا موقف ہے کہ جن اکاونٹس کے ذریعے اسحاق ڈار منی لانڈرنگ کرتے تھے وہ دراصل انکی دستاویزات کی کاپیوں کے ذریعے کھولے گئے تھے جو انھوں نے اسحاق ڈار کو پاکستان میں آئی کارڈ کے حصول کیلیے فراہم کی تھیں ۔

وللہ عالم کہ قاضی فیملی کا لاعلمی کا دعوی حقیقت پر مبنی ہے یا نہیں ،بہرحال اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کے مطابق نوے کی دہائی میں انھوں نے میاں نواز اور شہباز شریف کے کہنے پر بینک آف امریکہ میں طلعت مسعود قاضی اورسکندرہ مسعود قاضی کے نام پر دو اکاونٹس کھلوائے اور ان اکاونٹس کیلیے جہاں جہاں بھی ان دو افراد کے دستخط کی ضرورت ہوتی وہ بھی اسھاق دار خود ہی کرتے گویا جعلی چیزوں کے ساتھ شریف خاندان کا رومانس پانامہ کیس سے کافی پرانا ہے۔

یہ منی لانڈرنگ صرف بینک آف امریکا نہیں بلکہ سٹی بینک ،التوفیق انوسٹمنٹ بینک،ال برقا اور بھی دیگر کئی بینکوں میں اکاونٹ کھلوا کر کی جاتی۔پیسہ پاکستان سے قاضی خاندان کے جعلی بینک اکاونٹس میں جاتا اور پھر واپس حدیبیہ پیپر ملز کے اکاونٹ میں ٹرانسفر ہو جاتا اور اسطرح بڑی آسانی سے شریف خاندان نوے کی دہائی میں چوری کا پیسہ وائٹ کرتا رہا۔

مشرف کے دور مین حدیبیہ کا کیس کھولا گیا مگر بعد میں چارٹر آف مک مکا کے تحت کالے دھن کو سفید کرنے کے اتنے بڑے کیس کو کھولنے کی نیب نے کبھی جراءت نہ کی۔سابق چیرمین نیب فاروق اعظم خان کے مطابق 1996 سے 1998 تک حدیبیہ ملز کے شیئر ڈپوزٹ اچانک بڑھ کر چھ سو بیالیس اشاریہ آٹھ ملین روپے ہو گیے جبکہ اس سے پہلےاس مل کا کیپٹیل شیئر صرف پچانوے اشاریہ سات ملین تھا۔فاروق اعظم کا یہ بھی بیان ہے کہ اتنے بڑے کیس کو نیب نے ایک ڈیل کی وجہ سے بند کر دیا تھا۔

حدیبیہ پیپر مل کیس شریف خاندان کی منی لانڈرنگ کے ابتدائیہ کارناموں مین سے ہے۔کل جب عدالت میں پانامہ کیس کی کلوزنگ کے وقت جج صاحب نے نیب کےنمایندے کو بلا کر سوال پوچھا کہ کیا آپ حدیبیہ کیس دوبارہ کھولیں گے تو انھوں نے بڑی بے شرمی سے جواب دیا"سوچیں رہے ہیں" ۔اگر حدیبیہ کا کیس دوبارہ کھل جاتا ہے

اور اسکی شفاف تحقیقات ہو جاتی ہیں تو شریف خاندان کی مے فیر اپارٹمنٹس کی منی ٹریل جو کہ پچھلے ایک سال سے گمشدہ ہے باآسانی برآمد ہو جائے گی ۔وہ علیحدہ بات ہے کہ اسکے بعد جیل اور شریف خاندان کے درمیان فاصلہ بلکل ختم ہو جائے گا۔

میں نے یہ تحریر اسلیے لکھی کیونکہ میرا خیال ہے کہ باشعور پاکستانی نوجوانوں کو انکے حکمرانوں کے کرتوتوں کا علم ہونا چاہیے ۔امید ہے اس تحریر سے آپ کی معلومات میں اضافہ ہو گا اور میری بھی کوشش ہو گی کہ ایسے اور کیسز کی تفصیلات سادہ الفاظ میں لکھوں۔

 
Last edited by a moderator: