آزادی صحافت پر ایک اور حملہ ہوا ہے جس کے تحت بول نیوز کے صحافی شاہد اسلم کو لاہور سے گرفتار کرلیا گیا۔ شاہد اسلم کو 3 سال پہلے سابق آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کے اہل خانہ کے ٹیکس ریکارڈ کے معاملہ میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے لاہور سے گرفتار کیا۔
ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتار صحافی شاہد اسلم پر احمد نورانی کو سابق آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کے اہل خانہ کے ٹیکس ریکارڈ سے متعلق ڈیٹا حاصل کرنے میں معاونت کا الزام ہے۔ ایف آئی اے کی جانب سے ڈیٹا لیک کیس میں ایف بی آر کے 3 اہلکاروں کو پہلے ہی گرفتار کیا جاچکا ہے۔
اس گرفتاری پر صحافیوں اور دیگر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے، صحافی وی لاگر و تجزیہ کار صدیق جان کا کہنا ہے کہ رانا ثناء اللہ کے ماتحت ایف آئی اے نے بول نیوز کے صحافی شاہد اسلم کو لاہور سے گرفتار کر لیا۔ شرمناک، انتہائی شرمناک، یہ ہورہا ہے نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کی حکومت میں۔
مبشر زیدی نے تبصرہ کیا کہ جنرل ریٹائرڈ باجوہ کے اثاثے رپورٹ کئے ہیں صحافی شاہد اسلم نے، کوئی نیوکلئیر کوڈ نہیں ظاہر کئے جو FIA نے اس کے خلاف مقدمہ کرکے اس کو اٹھا لیا ہے۔
صحافی غلام عباس شاہ نے کہا کہ سابق آرمی چیف سے منسلک ایک انکوائری کے سلسلے میں شاہد اسلم کو گرفتار کیا جانا قابل مذمت ہے، صحافت کوئی جرم نہیں ہے۔
صحافی عامر ضیا نے کہا شاہد اسلم فرنٹ لائن کے تحقیقاتی صحافی ہیں، ہمیشہ سچ اور حق کے ساتھ کھڑے رہنے والوں میں سے، ایف آئی اے انہیں گرفتار کرنے کیلئے اس کہانی میں فٹ کیا ہے، انہوں نے شاہد اسلم کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔
صحافی اسد علی طور نے بھی اس گرفتاری کی شدید مذمت کی اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ان کا قصور سابق آرمی چیف کے خلاف ثبوت نکالنا تھا۔
اعجاز وسیم باکھری نے بھی اس گرفتاری کی مذمت کی اور کہا کہ وہ ان کے کولیگ تھے انہیں فوری رہا کیا جانا چاہیے انہوں نے جو کیا وہ کوئی جرم نہیں تھا۔
ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ صحافی خبر دے تو اسے گرفتار کر لو، جنرل اربوں روپے کے اثاثے بنا لے، تم کو گھر سے اٹھوا لے، ننگا کر کے ویڈیو بنا لے وہ سب جائز ہے؟
صارف اویس صدیقی نے شاہد اسلم کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
مومنہ نے کہا امپورٹڈ، مسلط کردہ، نا اہل، چور، کرپٹ، فاشسٹ مافیا کی تمام تر سیاست تو دم توڑ چکی ہے، اب مزید اور کیا کرنا چاہ رہے ہیں؟