بلال' احد' ظالم' مظلوم

Username

Senator (1k+ posts)
بات دو انسانوں کی ہے
بلال بن رباح بلال غلام ابن غلام تھے- ماں بھی غلام اور باپ بھی غلام اور اسی غلامی میں بلال پیدا ہوئے- اسلام کے ابتدائی دور میں جب غربا اور غلامان اسلام کی طرف مائل ہو رہے تھے بلال نے بھی اسلام قبول کر لیا
امیہ بن خلف اوائل اسلام مکے کی ایک محترم و مکرم شخصیت- مکہ کا طواف کرنے والوں کی خدمت میں پیش پیش اور اپنی دوست نوازی اور حسن سلوک سے وجہ سے مشہور- اس درجہ حسن سلوک اور دوست نوازی کہ ہجرت نبوی کے بعد اس وقت اپنے مسلمان دوست سعد بن ماعوز کو مکہ کا طواف کروانے لے گئے- جب فریقین میں تناؤ اپنے عروج پر تھا- ایسے ہی عبدالرحمن بن عوف جنکا پرانا نام عبدو عمر تھا اور جو مسلمان ہو کے ہجرت کر چکے تھے ان سے یہ معاہدہ کیا کہ امیہ مکہ میں انکی پراپرٹی اور خاندان کی حفاظت کریں گے جبکہ عبدالرحمان مدینہ میں امیہ کی پراپرٹی اور خاندان کی حفاظت کریں گے

بلال امیہ کے غلام تھے اور امیہ مکہ کےسرکردہ لیڈر ہونے کی وجہ سے اور اسلام کو ناپسند کرنے میں پیش پیش تھے- بلال کا اسلام قبول کرنا کیسے گوارا ہوتا کہ اپنے ہی گھر میں کوئی مسلمان بن جائے- بلال نے امیہ کے کہنے پر اسلام چھوڑنے سے انکار کر دیا- امیہ نے بلال کو مجبور کرنے کے لئے تشدد کا سہارا لیا- کیوں کہ امیہ اپنے قبیلے کے سردار تھے اس لئے وہ بلال پر تشدد کو ایک کیس کے طور پر اوروں کے سامنے رکھتے- اس تشدد میں امیہ کے قبیلے والے مدد کرتے اس لئے بلال پی تشدد کی بات سبھی جانب مشھور ہو گئی- ورقہ بن نوفل نے امیہ سے کہا اگر یہ غلام اس جگہ تشدد سہتے سہتے مر گیا تو میں ضرور اس جگہ اسکا مزار بناؤں گا- ایک دن ابو بکر وہاں سے گزر رہے تھے انہوں سے امیہ سے کہا کہ کب تک تشدد کرو گے- امیہ نے کہا کہ تم لوگوں نے بلال کو خراب کیا ہے اب تم ہی اسے بچاؤ- یہ الفاظ ابن اسحاق نے بیان کیے ہیں- اس پر ابو بکر نے امیہ سے کہا کہ میرے پاس ایک غیر اہل کتاب کالا غلام ہے- جو اس غلام (بلال) سے زیادہ طاقتور اور زیادہ مضبوط ہے- امیہ نے غلاموں کے تبادلہ کی حامی بھری اور ایسے ابو بکر نے بلال کی ملکیت حاصل کرنے کے بعد انہیں آزاد کر دیا

یقینا آپ کے دل میں امیہ کے خلاف اچھے جذبات نہیں ابھرے ہونگے یہ پڑھنے کے بعد مگر ایک متوازن رائے قائم کرنے کے لئے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا باقی لوگوں کا چلن بھی ایسا ہی تھا یا امیہ ہی ایک ظالم رہ گیا تھا مکہ میں- بلال پر تشدد کی جو روایات ابن اسحاق اور ابن سعد نے بیان کی ہیں انمیں بلال کو دھوپ میں لٹایا جانااور انکے سینے پر ایک بڑا پتھر رکھ دیا جانا ہے تاکہ وہ کروٹ نہ بدل سکیں- اس سے زیادہ کوئی اور چیز کسی کتاب میں بیان نہیں ہوئی- بلال غلام ابن غلام تھے- مرد تھے- جوان تھے- ان میں یہ تنگی اور تشدد سہنے کی ہمت تھی اور انہوں نے سہا - مگر اسی جگہ کچھ اوربھی لوگ تھے جو اپنے غلامان کے ساتھ اس سے بھی بڑھ کر غلط سلوک کر رہے تھے- غلام مرد تو ایک طرف وہ غلام خواتین تک پر تشدد کی انتہا کر دیتے تھے- آئیے آپ کو اصل تاریخ لفظ بہ لفظ یاد دلاتے ہیں- ابن اسحاق جنہوں نے بلال پر تشدد کو ریکارڈ کیا انہوں نے ہی اپنی کتاب سیرت رسول الله " کے صفحہ ١٤٤ کے پیراگراف نمبر ٤ میں لکھا ہے"

ابو بکرقبیلہ بنوعدی کی ایک برادری بنو موعمل کی ایک غلام "لڑکی" کے پاس سے گزرے- عمر بن خطاب اس "پر اسلام کو چھوڑنے کے لئے تشدد کر رہے تھے- عمر نے اسے اتنا مارا کہ مار مار کہ خود تھک گئے- کہا ابھی میں نے مارنا صرف اس لئے چھوڑا ہے کہ میں تھک گیا ہوں- غلام لڑکی نے جواب دیا- خدا تم سے بھی "ایسا ہی سلوک کرے- ابو بکر نے عمر سے اس لڑکی کو "خرید" لیا اور پھر اسے آزاد کر دیا

ذرا سوچئے کہ وہ عمر جن کی ہمّت اور طاقت کے قصے مسلمانوں میں زبان زد عام ہیں جب وہ مارتے ہونگے تو کیسا مارتے ہونگے اور جب وہ مارتے مارتے تھک جاتے ہونگے تو مار کھانے والا کیسے روئی کی طرح دھنک جاتا ہو گا- کتنا خون نکلتا ہو گا اور کتنی ہڈیاں ٹوٹتی ہونگی- مارنے والا عمر جیسا عظیم و شان اور مار کھانے والی محض ایک لڑکی- ایک غلام خاتون نہیں- ایک غلام لڑکی

تو پھر بلال کا "احد" ہی کیوں یاد رہا؟ پھر امیہ کی ستم کاری پہ زبان طرازی کیوں؟ ایمانداری سے سوچیں اور بتائیں کہ ان دونوں واقعات میں کون زیادہ ظالم تھا امیہ یا عمر اور کون زیادہ مظلوم تھا بلال یا وہ غلام لڑکی؟ سوچئے- کیوں کہ اس کا میری تحریر کے اگلے حصے سے گہرا تعلق ہے

بلال کی آزادی کو سالہا سال گزر چکے تھے- بدر کی جنگ میں امیہ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ آیا- ممتاز صحابی عبدالرحمان بن عوف کا معاہدہ تھا امیہ کے ساتھ- وہ رات کو اٹھے اور امیہ کو اپنا قیدی بنا لیا امیہ نے بدر کی لڑائی میں حصہ نہیں لیا تھا- وہ بھی عبدالرحمان بن عوف کے قیدی بن گئے- اس میں حکمت یہ تھی کہ ایک صحابی کا قیدی بن چکنے کے بعد امیہ کو قتل نہیں کیا جا سکتا تھا- پھر انکا حساب جنگی قیدی کے طور پر ہی ہونا تھا- اسی اثنا میں بلال کی نظر امیہ پر پڑ گئی- انہوں نے امیہ کو پہچان لیا اور یکایک شدید جذبات میں آ کے کہا "میں برباد ہوں اگر میں امیہ کو جانے دوں"یا یہ کہا "مجھے موت آئے اگر میں امیہ کو چھوڑ دوں"یہ کہنے کے بعد بلال نے شور کر کے انصار کو اکٹھا کیا اور امیہ اور عبدالرحمان کے پیچھے بھاگےعبدلرحمان بن عوف نے امیہ کے بیٹے سے کہا کہ وہ انصار کو مصروف رکھے تاکہ امیہ کو' جس نے سرنڈر کر دیا ہے اسے محفوظ جگا پہنچایا جا سکے- بلال کی سرکردگی میں امیہ کے بیٹے کو قتل کر دیا گیا اور امیہ کا پیچھا جاری رکھا گیا- آخر کار بلال نے امیہ کو آن لیا- عبدالرحمان بن عوف نے بتایا کہ اب امیہ قیدی ہے اور اسے قتل نہیں کیا جا سکتا- بلال نے سنی ان سنی کر دی عبدلرحمان بن عوف امیہ کو زمین پر گرا کر خود اسکے اوپر لیٹ گئے- تاکہ بلال امیہ کی جان نہ لے سکیں- وحشت اور نفرت کا یہ عالم تھا کہ عبدالرحمان بن عوف کو بھی نہ بخشا گیا- انکے جسم کو بھی داغدار کیا گیا اور انکے نیچے دبے ہوئے امیہ بن خلف کے کے جسم پر جہاں ہو سکا وار کر کے انکی جان لے لی- اس بات کے کچھ حصے کو اختصار کے ساتھ صحیح بخاری اس طرح بیان کرتی ہے اور راوی خود عبدالرحمان بن عوف ہیں

Volume 3, Book 38, Number 498:

Narrated 'Abdur-Rahman bin 'Auf:

I got an agreement written between me and Umaiya bin Khalaf that Umaiya would look after my property (or family) in Mecca and I would look after his in Medina. When I mentioned the word 'Ar-Rahman' in the documents, Umaiya said, "I do not know 'Ar-Rahman.' Write down to me your name, (with which you called yourself) in the Pre-lslamic Period of Ignorance." So, I wrote my name ' 'Abdu 'Amr'. On the day (of the battle) of Badr, when all the people went to sleep, I went up the hill to protect him. Bilal(1) saw him (i.e. Umaiya) and went to a gathering of Ansar and said, "(Here is) Umaiya bin Khalaf! Woe to me if he escapes!" So, a group of Ansar went out with Bilal to follow us ('Abdur-Rahman and Umaiya). Being afraid that they would catch us, I left Umaiya's son for them to keep them busy but the Ansar killed the son and insisted on following us. Umaiya was a fat man, and when they approached us, I told him to kneel down, and he knelt, and I laid myself on him to protect him, but the Ansar killed him by passing their swords underneath me, and one of them injured my foot with his sword. (The sub narrator said, " 'Abdur-Rahman used to show us the trace of the wound on the back of his foot.")

جب مسجد میں مولبی جمعہ کی نماز کے خطبے میں بلال پہ ہونے والے "ظلم و ستم" کی کہانی رو رو کے سنایا کرتے تھے تو ہم بھی "احد احد " کی آوازوں پر سر دھنا کرتے تھے- امیہ سا ظالم کوئی نظر نہ آتا اور بلال سا مظلوم کہیں دنیا میں نہ پایا جاتا - اوپر سے "مولبی ساب" کی پر سوزیت' آنسو' راگ'اور آواز کا زیرو بم لاؤڈ سپیکر کی کرشمہ کاری کے ساتھ مل کر دل پہ ایک عجیب اثر کرتا تھا- بلال کا ایک ایسا تخیل ذھن میں بنتا تھا جسکے سامنے سب ہیچ- جب بڑے ہوئے اور پڑھنا شروع کیا توایسے محسوس ہوا جیسے آہستہ آہستہ انددھیرےسے روشنی میں آرہے ہیں- جیسے دھند چھٹ رہی ہے- جیسے تخیلاتی بت' ذھن کے صنم خانے میں خود ہی آہستہ آ ہستہ چکنا چور ہوتے جا رہے ہیںامیہ کا بلال سے کوئی ذاتی عناد نہیں تھا- ہوتا تو امیہ کبھی بلال کا تبادلہ نہ کرتے بلکہ ہمیشہ پاس رکھتے اور تشدد کرتے رہتے- ذاتی مخاصمت ہوتی تو بلال کے قبول اسلام سے پہلے کبھی ان سے اچھا سلوک نہ کرتے-( کیوں کہ انکے اچھے سلوک کی بھی روایت ملتی ہے)- پھر بھی امیہ کا تشدد غلط' غیر من اور غیر انسانی تھی- پر کیا عمر کے تشدد سے بھی زیادہ غیر انسانی تھا؟ کیا بلال نے ظلم کی انتہا نہیں کر دی؟ کیا ایک نہتے' موٹے' خوفزدہ' ہتھیار ڈالے ہوئے جنگی قیدی کو قتل کرنا ظلم کی انتہا نہیں؟ جب امیہ اپنی طاقت کے عروج پر تھے اور بلال محض ایک غلام ابن غلام تب بھی امیہ نے بلال کا نہ خون بہایا اور جان لی- جونہی بلال کا بس چلا امیہ سے انکی زندگی ہی چھین لی- کوئی بتائے کہ بلال کےاحد" سے کیسے متاثر ہوا جائے- کیسے ان سے اظہار ہمدردی کی جائے- کیسے اس انسانیت سوز قتل اور ظلم ناروا کی حمایت کی جائے

 
Last edited:

jahanzaibi

Senator (1k+ posts)
Sahih Bukhari
Volume 1, Book 4, Number 241:
Narrated 'Abdullah bin Mas'ud:
Once the Prophet was offering prayers at the Ka'ba. Abu Jahl was sitting with some of his companions. One of them said to the others, "Who amongst you will bring the abdominal contents (intestines, etc.) of a camel of Bani so and so and put it on the back of Muhammad, when he prostrates?" The most unfortunate of them got up and brought it. He waited till the Prophet prostrated and then placed it on his back between his shoulders. I was watching but could not do any thing. I wish I had some people with me to hold out against them. They started laughing and falling on one another. Allah's Apostle was in prostration and he did not lift his head up till Fatima (Prophet's daughter) came and threw that (camel's abdominal contents) away from his back. He raised his head and said thrice, "O Allah! Punish Quraish." So it was hard for Abu Jahl and his companions when the Prophet invoked Allah against them as they had a conviction that the prayers and invocations were accepted in this city (Mecca). The Prophet said, "O Allah! Punish Abu Jahl, 'Utba bin Rabi'a, Shaiba bin Rabi'a, Al-Walid bin 'Utba, Umaiya bin Khalaf, and 'Uqba bin Al Mu'it (and he mentioned the seventh whose name I cannot recall). By Allah in Whose Hands my life is, I saw the dead bodies of those persons who were counted by Allah's Apostle in the Qalib (one of the wells) of Badr.

Sahih Bukhari
Volume 3, Book 30, Number 113:
Narrated 'Aisha:
When Allah's Apostle reached Medina, Abu Bakr and Bilal became ill. When Abu Bakr's fever got worse, he would recite (this poetic verse): "Everybody is staying alive with his People, yet Death is nearer to him than His shoe laces." And Bilal, when his fever deserted him, would recite: "Would that I could stay overnight in A valley wherein I would be Surrounded by Idhkhir and Jalil (kinds of good-smelling grass). Would that one day I could Drink the water of the Majanna, and Would that (The two mountains) Shama and Tafil would appear to me!" The Prophet said, "O Allah! Curse Shaiba bin Rabi'a and 'Utba bin Rabi'a and Umaiya bin Khalaf as they turned us out of our land to the land of epidemics." Allah's Apostle then said, "O Allah! Make us love Medina as we love Mecca or even more than that. O Allah! Give blessings in our Sa and our Mudd (measures symbolizing food) and make the climate of Medina suitable for us, and divert its fever towards Aljuhfa." Aisha added: When we reached Medina, it was the most unhealthy of Allah's lands, and the valley of Bathan (the valley of Medina) used to flow with impure colored water.


Bahi shatem-e-rasool ki saza sirif moot hay.

hazrat umer kay gunnah saab islam lanay kay baad maaf ho gay, uskay baad koi jurm ho to wo bateen.
 
Last edited:

ابابیل

Senator (1k+ posts)
حضرت بلال بن رباحؓ

حضرت بلال بن رباحؓ

عظیم احمد


شدید گرمیوں کے دن تھے۔ سورج کی تپش ریت کو انگاروں کی طرح دہکا رہی تھی۔ پیاس کے مارے حلق سوکھ کر کانٹا ہو رہے تھے۔ پرندے بھی اپنے اپنے گھونسلوں میں دبکے بیٹھے تھے۔ گرمی کا ایک لمحہ بھی برداشت سے باہر تھا۔ ایسے میں امیہ بن خلف اپنے حبشی غلام بلال بن رباحؓ کے گلے میں رسی ڈالے انہیں گھسیٹتا ہوا لایا اور صحرا کی گرم اور تپتی ہوئی ریت پر لٹا دیا۔


شدید گرمیوں کے دن تھے۔ سورج کی تپش ریت کو انگاروں کی طرح دہکا رہی تھی۔ پیاس کے مارے حلق سوکھ کر کانٹا ہو رہے تھے۔ پرندے بھی اپنے اپنے گھونسلوں میں دبکے بیٹھے تھے۔ گرمی کا ایک لمحہ بھی برداشت سے باہر تھا۔ ایسے میں امیہ بن خلف اپنے حبشی غلام بلال بن رباحؓ کے گلے میں رسی ڈالے انہیں گھسیٹتا ہوا لایا اور صحرا کی گرم اور تپتی ہوئی ریت پر لٹا دیا۔ بلال بن رباحؓ نے محمد ﷺ کا دین اختیار کر لیا تھا۔ وہ ایک اللہ پر ایمان لے آیا تھا اور محمدﷺ کے ساتھیوں میں شریک ہو گیا تھا۔ اب وہ بتوں کی عبادت سے متنفر تھا۔ بتوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ یہ بے معنی پتھر کے بت جنہیں لوگ خدا کہتے تھے۔ بلال بن رباحؓ نے انہیں خدا تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ خبر امیہ بن خلف پر بجلی بن کر گری۔ وہ تو بلال بن رباح رضی اللہ تعالی عنہ کو تمام غلاموں سے زیادہ چاہتا تھا۔ وہ تو آپ پر بڑا اعتماد رکھتا تھا۔ اس نے تو بت خانے کا انچارج بھی آپ کو مقرر کیا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ جب کسی دل کو ایمان کی روشنی سے منور کر دیتا ہے تو ظلمت خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔

حضرت بلال بن رباح رضی اللہ تعالی عنہ کو جسے لوگ اسلام سے پہلے بلال بن رباحؓ کے نام سے جانتے تھے، اسلام لانے کے بعد وہ سیدنا بلال حبشیؓ کے لقب سے پکارے جانے لگے۔ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں دولت ایمان سے سرفراز فرمایا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ صنم کدے میں بھی اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ دوسرے لوگ بتوں کو اور سیدنا بلال حبشیؓ اس وحدہٗ لاشریک کو سجدہ کرتے۔ جب امیہ بن خلف کو اس کی اطلاع ملی تو اس نے سیدنا بلالؓ کو اس عہدے سے معزول کر دیا۔ وہ تو پہلے ہی اسلام کا سخت دشمن تھا اس کے دل پر کفر کا قفل لگ چکا تھا۔ وہ یہ کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ اس اپنا غلام اس مذہب کا پیروکار ہو جائے جسے وہ سخت ناپسند کرتا ہے۔ اب امیہ بن خلف نے انہیں سزا دینے کا انوکھا طریقہ ایجاد کیا۔ وہ سیدنا بلالؓ کو شدید ترین گرمی میں دوپہر کے وقت تپتی ہوئی ریت پر لٹا دیتا۔ جب اس سے بھی اس لعین کے سینے کی آگ ٹھنڈی نہ ہوتی، تو وہ اپنے انتقام کو کندن بنانے کے لیے سیدنا بلالؓ کے سینے پر بھاری پتھر رکھ دیتا۔ نیچے گرم تپتی ہوئی ریت جسم جھلسا دیتی اور سینے پر بھاری پتھر جاں کی اذیت میں مزید اضافہ کر دیتا۔ سورج کی تپش رہی سہی کسر کو پورا کر دیتی۔

امیہ بن خلف نے اپنی طرف سے ہر کوشش کر ڈالی، مگر وہ سیدنا بلالؓ کے دل سے ایمان کی روشنی کم نہ کر سکا۔ وہ لعین آپ کو ہر روز نئی نئی اذیتیں دیتا اور کہتا :اگر میری بات نہیں مانو گے تو اسی طرح گھٹ گھٹ کر مر جاؤ گے اگر زندگی عزیز ہے تو اسلام سے کنارہ کشی اختیار کر لو، واپس اپنے باپ دادا کے دین پر آ جاؤ۔ مگر سیدنا بلالؓ کی زبان پر تو صرف یہی لفظ جاری تھا: احد، احد، احد۔ معبود ایک ہی ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ امیہ بن خلف کے حکم سے رات کے وقت سیدنا بلالؓ کو زنجیروں سے باندھ کر کوڑے مارے جاتے اور پھر اگلے دن ان زخموں کو گرم زمین پر ڈال کر اور زیادہ زخمی کیا جاتا۔ شیطان پوری طرح اس لعین امیہ بن خلف کا ساتھ دے رہا تھا۔ امیہ بن خلف کے حکم سے ہر روز تکلیفوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا جاتا، تاکہ سیدنا بلالؓ ان تکلیفوں سے گھبرا کر اسلام سے پھر جائیں یا پھر تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دیں۔ عذاب دینے والے اکتا جاتے، ظلم کرتے کرتے وہ تھک جاتے، ان کے حوصلے کمزور پڑ جاتے مگر سیدنا بلالؓ کی استقامت میں کوئی فرق نہ آتا بلکہ ہر تکلیف پر آپؓ کا حوصلہ بڑھ جاتا۔ کبھی ابوجہل آپؓ کو عذاب دینے میں پیش پیش ہوتا اور کبھی امیہ بن خلف کا نمبر آ جاتا

اور کبھی کسی اور شخص کی باری آ جاتی اور ہر شخص اسی کوشش میں رہتا کہ وہ انہیں ایذائیں دینے میں اپنا پورا زور صرف کر دے۔ تذکرہ ملتا ہے کہ حضرت بلال بن رباحؓ اسلام آنے کی خبر سنتے ہی دامن اسلام کی آغوش میں آ گئے اور اس لعین امیہ بن خلف نے اپنے غلاموں کو حکم دیا : دن چڑھے بلال کے بدن پر ببول کے کانٹے چبھو دیا کرو اور جب سورج اپنے پورے شباب پر ہو تو انہیں گرم زمین پر لٹا کر سر سے پاؤں تک پورے جسم پر گرم پتھر رکھ دیا کرو تاکہ وہ ہل نہ سکیں اور ان کے گرد آگ لگا دیا کرو۔ کہا جاتا ہے کہ آفتاب نصف النہار پر پہنچ جاتا اور گرمی اپنے عروج پر ہوتی اور زمین تنور کی طرح دہک رہی ہوتی تو بلال بن رباحؓ کو مکہ کی پتھریلی زمین کے کھلے میدان میں لے جایا جاتا تھا اور انہیں برہنہ کر کے اس چلچلاتی دھوپ میں ہاتھ پاؤں باندھ کر گرم ریت پر لٹا دیا جاتا، اور وہ ریت اور پتھر جن پر گوشت بھن کر کباب ہو جائے ایسے وقت وہ لعین آپ کے سینے پر پتھر اور گرم ریت ڈالتے تاکہ آپ ان تکالیف سے گھبرا کر محمد ﷺ کے دین کو چھوڑ دیں۔ سختیاں جس قدر شدت اختیار کرتی جاتیں آپ پر مستی عشق اور زیادہ غالب آ جاتی۔ بعض اوقات امیہ بن خلف کا رویہ اور زیادہ سخت ہو جاتا۔

وہ آپ کو مکہ کے لڑکوں کے حوالے کر دیتا جو آپ کو مکہ کے گلی کوچوں میں گھسیٹتے پھرتے دیتے اور سیدنا بلال بن رباحؓ کی زبان پر ایک ہی صدا رہتی: اللہ ایک ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں ایمان لایا اس خدا پر جو زمین وآسمان کا خالق ہے نہ صرف دن کو بلکہ جب شام ہوتی تو آپ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اندھیرے میں رکھا جاتا اور امیہ بن خلف اپنے غلاموں کو حکم دیتا: اسے باری باری کوڑے مارو یہاں تک کہ وہ اپنی ضد چھوڑ دے یا پھر اس کی روح اس کے جسم کا ساتھ چھوڑ جائے اگر یہ اپنی بات پر قائم رہے تو صبح تک اسے کوڑے مارے جائیں۔ دن گزرتے چلے گئے۔ ہر روز حضرت بلال بن رباحؓ پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے۔ ہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ مشکل گزرتا مگر آپ کے پائے استقلال میں ذرہ بھر لغزش نہ آئی۔ آپ کی زبان پر صرف ایک ہی ورد جاری رہتا: اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں : میں ایک دن حضرت بلالؓ کے پاس سے گزرا تو وہ ازلی بدبخت امیہ بن خلف آپ کو ایذائیں دے رہا تھا اور کہتا جا تا تھا :بتوں پر ایمان لے آؤ ورنہ تمہیں جان سے ہارنا پڑے گا۔ آپ جواب دیتے:میں بتوںسے بیزار ہوں۔ یہ سن کر امیہ بن خلف لعین کا غصہ اور تیز ہو جاتا پھر میں نے دیکھا کہ وہ آپ کے سینے پر چڑھ گیا اور دو زانو بیٹھ کر آپ کا گلا گھونٹنے لگا یہاں تک کہ آپ کی سانس بند ہو گئی اور بے حس و حرکت پڑے محسوس ہونے لگے۔ میں سمجھا کہ آپ فوت ہو گئے۔

میں جس کام کے لیے جا رہا تھا، اسے پورا کر کے واپس لوٹا تو ابھی تک آپ بے ہوش پڑے ہوئے تھے۔ میرے آتے وقت آپ اچانک ہوش میں آئے تو اس لعین نے پھر پوچھا: اے بلال بتوں پر ایمان لاؤ گے یا نہیں؟ حضرت بلالؓ نے آسمان کی طرف منہ کر کے کچھ کہا لیکن میں کچھ نہ سمجھ سکا۔ اس لیے کہ کمزوری اور نقاہت کی وجہ سے آپ کی آواز نہ ہونے کے برابر تھی۔ حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں : میں نے اس شخص سے سنا جس نے حضرت بلالؓ سے سنا تھا۔ حضرت بلالؓ نے بتایا : اس امیہ نے ایک روز مجھے موسم گرما میں باندھ کر تمام رات اسی حالت میں رہنے دیا۔ پھر دوپہر کے وقت برہنہ کر کے دھوپ میں سنگریزوں پر ڈال دیا اور گرم پتھر لا کر میرے سینے پر رکھ دیئے جس سے میں بے ہو ش ہو گیا معلوم نہیں کس شخص نے وہ پتھر میرے سینے سے اتارے جب ہوش میں آیا تو شام ہو چکی تھی۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور کہا : وہ مصیبت میں کیسی نعمت ہے۔ بعض روایات میں آیا ہے۔ وہ لعین لوہے کی سلاخیں گرم کر کے آپ کی زبان پر رکھ دیتا اور کہتا : اب تو محمد ﷺ کا نام لینا چھوڑ دے۔ لیکن حضرت بلال بن رباحؓ اور زیادہ محمد ﷺ، محمد ﷺ کہتے یہاں تک کہ بے ہوش ہو جاتے۔ حضرت بلال بن رباحؓ کا بیان ہے: ایک روز اس خبیث نے مجھ پر ظلم ڈھایا کہ اونٹ کے بالوں کی ایک پچاس گز لمبی رسی میری گردن میں ڈال کر مکہ کے لڑکوں کو پکڑا دی وہ مجھے اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کھینچتے یہاں تک کہ میری گردن زخمی ہو گئی۔

اس کے بعد مجھے خدا تعالیٰ نے اس سے نجات دی۔ ورقہ بن نوفل کا ایک روز گزر ہوا۔ حضرت بلال بن رباح حبشیؓ پر ظلم و تشدد جاری تھا اور ان کی حالت دیکھ کروہ تھر ا اٹھے۔ کچھ دیر کھڑے ہو کر ان کی احد احد کی پکار سنی اور کہنے لگے:بخدا اے بلال ! احد احد کے سوا کچھ نہیں۔ روایت ہے کہ ابوجہل لعین نے حضرت بلالؓ کو دیکھ کر کہا: تم بھی وہی کہتے ہو جو محمد ﷺ کہتے ہیں۔ پھر انہیں پکڑ کر منہ کے بل گرا کر دھوپ میں لٹا دیا اور ان کے سینے کے اوپر چکی کا پاٹ رکھ دیا اور وہ احد احد پکارتے رہے۔ ایک دن وہاں سے حضرت ابوبکرؓ کا گزر ہوا تو امیہ بن خلف کے گھر سے آہ و زاری کی آوازیں آ رہی تھیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ حضرت بلال حبشیؓ کے ساتھ ظلم وستم ہو رہا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے امیہ بن خلف کو ملامت کی: تیرا اس کام سے کیا سنورتا ہے؟ تو بلالؓ کو اذیت نہ دے۔ امیہ بن خلف نے کہا :میں نے اسے دام دے کر خریدا ہے۔ تیرا دل چاہتا ہے تو اسے خرید لے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاں ایک رومی غلام فسطاط تھا جو حضرت ابوبکرؓ کی دعوتِ اسلامی قبول نہیں کرتا تھا۔ آپ نے فرمایا:وہی غلام اور ساتھ چالیس اوقیہ چاندی لے کر بلالؓ میرے حوالے کر دو۔

امیہ بن خلف نے منظور کر لیاسودا طے پا جانے کے بعد امیہ بن خلف ہنسنے لگا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سبب پوچھا تو امیہ بن خلف نے کہا :تم اتنے زمانہ شناس انسان ہو اور کامیاب تاجر ہو مگر آج تم نے گھاٹے کا سودا کر لیا۔ مجھے بے حد قیمتی غلام اور ساتھ چالیس اوقیہ چاندی دے کر ایک بیکار غلام خرید لیا۔ ایسے غلام کو جسے میں ایک درہم کے عوض فروخت کرنے پر تیار تھا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا:بخدا آج تو مجھ سے بلالؓ کے عوض میں یمن کی بادشاہت بھی مانگتا تو وہ بھی تجھے دینے کو تیار تھا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت بلالؓ کے گرد و غبار کو اپنی چادر سے صاف کیا اور امیہ بن خلف کے سامنے انہیں نیا لباس پہنایا اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں لائے اور عرض کیا:یا رسول اللہﷺ میں نے اسے آزاد کیا لیکن شرط یہ ہے کہ آپ ﷺ کی خدمت میں زندگی بسر کریں۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا :میں حضورﷺ سے جدائی نہیں چاہتا، آپ یہ شرط چاہے رکھیں یا نہ رکھیں۔ حضرت بلالؓ کی استقامت و استقلال کو ان کا یہ صلہ ملا کہ رسول اللہ ﷺ کے مؤذن بنے اور سفر و حضر میں ہمیشہ اذان کی خدمت ان کے سپرد ہوئی۔ مولانا روم فرماتے ہیں: امیہ بن خلف نے حضرت بلالؓ کو سستے داموں خریدا۔ وہ آپ سے دن بھر کام لیا کرتا تھا۔ ایک دن حضرت بلالؓ نے سرکار ﷺ کی زیارت کی تو ان ہی کے ہو کر رہ گئے۔ جسم کافر کا غلام کا تھا لیکن روح زلف مصطفیٰﷺ کی اسیر تھی۔ وہ تمام دن اپنے مالک کا کام کرتے رہتے لیکن دل یاد مصطفی ﷺ کی آماجگاہ بن چکا تھا۔ دست بکار دل بہ یار۔ ایک دن جوش محبت میں حضرت بلالؓ احد احد اور محمدﷺ، محمدﷺ کے نعرے لگانے لگے۔

امیہ نے سنا تو مارنے لگا۔ تو محمد ﷺ کو کیوں پکار رہا ہے ؟ اے میرے غلام کیا تو میرے دین کا منکر ہے؟ مالک سخت دھوپ میں آپ کو کانٹوں کے ساتھ مارنے لگا لیکن حضرت بلالؓ بڑے افتخار کے ساتھ احد احد پکار نے لگے۔ اس دوران حضرت ابوبکرؓ بھی تشریف لائے۔ آپ بلالؓ کا حال دیکھ کر سخت مضطرب ہوئے۔ دوسرے دن پھر آپ نے یہی منظر دیکھا تو آپ نے حضرت بلالؓ کو علیحدگی میں مشورہ دیا کہ تمہارا مالک کافر ہے۔ اس کے سامنے محمد عربی ﷺ کا نام مبارک نہ لیا کرو۔ اپنے محبوب کو دل ہی دل میں یاد کر لیا کرو۔ حضرت بلالؓ نے جواب دیا:نہیں صدیق ! یہ میرے بس کا روگ نہیں، رہی بات امیہ کے ظلم وستم کی اس کی مجھے قطعاً پرواہ نہیں وہ مجھے شہید بھی کر ڈالے تو میرے بدن کا ہر مو یار کا نام پکارے گا۔ حضرت بلالؓ کے والد کا نام رباح اور والدہ کا نام حمامہ تھا۔آپ کی کنیت ابو عبداللہ یا ابو حازن تھی۔ آپ سراۃ میں پیدا ہوئے۔ آپؓ کے اسلامی بھائی کا نام خالد اور بہن کا نام عفراء تھا۔ آپ حبشی النسل تھے۔ حضرت بلالؓ خالص حبشی تو نہ تھے بلکہ ان کی والدہ حبشی تھی لیکن ان کے والد عرب کی سر زمین ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا رنگ کالا تھا، جسم دبلا پتلا اور لمبا، سینہ آگے کو ابھرا ہوا تھا۔ سر پر گھنے بال تھے، رخساروں پر گوشت بہت کم تھا۔ ان اوصاف سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ خالص حبشی نہ تھے۔ بعض تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ ان کے ایک بھائی بھی تھے جن کا نام خالد اور کنیت ابو رویحہ تھی لیکن وہ ان کے حقیقی بھائی نہ تھے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے جب مسلمانوں میں بھائی چارہ قائم کیا تو خالد ان کے بھائی بنے تھے۔ حضرت بلالؓ کی پرورش مکہ میں قریش کے مشہور قبیلے بنو جمح میں ہوئی اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے تینوں موذن حضرت بلالؓ، حضرت مخدورہؓ اور عمرو بن کلثومؓ نے مکہ کے اسی قبیلے میں پرورش پائی۔

زمانہ جاہلیت میں اس قبیلے کے لوگ تیروں کے ذریعے فال نکالا کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس قبیلے میں پرورش پانے کی وجہ سے حضرت بلالؓ کو اس قبیلے کی رسموں سے سخت نفرت ہو گئی تھی، اور رات دن دیکھتے رہتے تھے کہ ان کے قبیلے کے لوگ مکار تھے، دھوکہ باز تھے، رحمدلی ان سے کوسوں دور تھی۔ یہی نفرت ان کے اسلام لانے کا سبب بنی۔ خانہ کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا صرف ایک اللہ واحدہ لاشریک کی عبادت کے لیے لیکن پھر انسانی ذہنوں میں کچھ ایسا خلفشار پیدا ہوا کہ یہ عظیم عبادت گاہ لکڑی اور پتھروں سے بنائے ہوئے بتوں کا گودام بن کر رہ گئی۔ ان بتوں کو عرب اپنے خداؤں کا درجہ دیتے تھے لیکن پہلے تو اس قادر مطلق کا تصور گم ہوا۔ پھر اس کی جگہ بتوں نے لے لی، اور پھر ایک نہیں سینکڑوں خداؤں کا تصور ابھرا اور پھر وحدانیت الٰہی کی یہ قدیم علامت تین سو ساٹھ بتوں کا مسکن بن گئی۔ وہ خدا جو فروخت کیے جاتے تھے۔ خریدے جاتے تھے اور ان خداؤں کی خرید و فروخت پر منافع کمایا جاتا تھا۔ ہر خدا مختلف کام کے لیے مخصوص تھا۔ کوئی دن کا خدا تھا، کوئی رات کا، کوئی معذوروں کا خدا تھا، کوئی صحت مندوں کا۔ خوش نصیبی کے خدا الگ تھے۔ سفر کے الگ اور کچھ دنیوی منفعت کے لیے۔ ابدی بہبود اور اخروی بہتری کا کوئی عنصر ان کی عبادت میں شامل نہ تھا۔

خانہ کعبہ میں آنے جانے والے قافلوں کے پاس صرف نفع کمانے کا تصور تھا جو بازاروں اور منڈیوں میں نظر آتا ہے۔ ہر سال ایک خاص مہینے میں عرب کے قبائل میلوں کی مسافت طے کر کے اپنے اپنے خداؤں کے حضور حاضری کے لیے آتے تھے۔ ایک میلہ سا لگ جاتا تھا۔ شام کے تاجر، یمن کے سمندری تجارت کرنے والے تاجر، فارس کے تاجر اور دور دراز مقامات سے آئے ہوئے غلاموں کی خرید و فروخت کرنے والے تاجر سب ہی یہاں جمع ہوتے تھے۔ اس میلے میں سونا، چاندی، کپڑے اور خوشبویات بھی فروخت ہوتی تھیں، غلام اور خدا بھی۔ موسم گرما کی ایک صبح تھی۔ امیہ بن خلف حسب معمول اپنے تاجر ساتھیوں کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے گھر سے نکلا۔ تاجروں کی یہ محفل خانہ کعبہ کے سائے میں لگتی تھی۔ تاجروں کے ساتھ ان کے غلام بھی ہوتے تھے جو کچھ فاصلے پر بیٹھے اپنے اپنے آقاؤں کے اشاروں کے منتظر رہتے تھے۔ ان غلاموں میں امیہ بن خلف کے غلام بلالؓ بھی تھے۔ تمام تاجر خانہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ان تاجروں کے غلام بھی سائے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں ابو جہل کی آواز نے غلاموں کو چونکا دیا۔ ابوجہل کا غلام ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا مگر ابو جہل تو کچھ اور ہی کہہ رہا تھا۔ اسے دیکھو وہ کہتا ہے وہ خدا سے باتیں کرتا ہے۔ ابو جہل کا فقرہ قہقہوں میں ڈوب گیا۔ محمد بن عبداللہﷺ نے خاموشی اختیار رکھی۔ پیغمبر صاحب ! آپ ﷺ ہمیں پانی پر چل کر کیوں نہیں دکھاتے؟ اس بار امیہ بن خلف کی آواز ابھری۔ محمد بن عبداللہﷺ ہمیشہ کی طرح تنہا پہاڑوں کی سمت جا رہے تھے جہاں لوگ کہتے تھے کہ ایک فرشتے نے ان سے بات کی تھی۔

وہ ابوجہل کے طنز سے بے نیاز کعبہ کے گرد چلتے چلتے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ ادھر تاجروں کی محفل میں ہر چہرے پر ہنسی تھی۔ ہر شخص اس مذاق میں شریک تھا۔ صرف ابوسفیان تھا جس کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہ تھی۔ اچانک وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ محفل میں سنجیدگی لوٹ آئی وہ کہنے لگا : ایک خدا کو ماننے والا خدا کا منکر ہے۔ ہمیشہ کی طرح ابوسفیان نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا کیونکہ کفار کو سب سے زیادہ تکلیف اسی بات کی تھی کہ محمد بن عبداللہ ﷺ ایک خدا کی عبادت کی دعوت دیتا ہے۔ کفار نے اپنی ضعیف الاعتقادی میں موقع محل کے لحاظ سے کئی خدا بنا رکھے تھے۔ وحدہٗ لاشریک کا تصور ان کے دائرہ فکر سے باہر تھا۔ ابوسفیان فکرمند تھا:اگر ہم نے اس فتنے کو ختم نہ کیا تو خدا ہم سے ناراض ہو جائیں گے اور اپنی رحمتیں کسی اور شہر پر نچھاور کرنے لگیں گے۔ ابوجہل جو اب تک خاموش تھا۔ یکایک بول اٹھا:ابو لہب! تم اس کے چچا ہو۔ یہ تم قریبی رشتے داروں کی ذمے داری ہے کہ اسے سمجھاؤ اور اسے راہ راست پر لاؤ۔ ابولہب گھبرا گیا۔ اس نے اب تک دانستہ طور پر خود کو اس ساری گفتگو سے الگ رکھا تھا۔ وہ اس میں شریک نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اب ابو جہل نے خواہ مخواہ اسے گھسیٹ لیا تھا۔ راہ راست پر لاؤں اس کو ؟ محمد ﷺ کو وہ کوئی بچہ ہے ؟ چالیس سال کا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ سراسر بدنامی کا باعث ہے۔

میرے لیے، اپنے خاندان کے لیے، اپنے نسب عالی کے لیے۔ کل اس نے ایک غلام کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا ہے۔ جو کوئی اس سے کچھ مانگتا ہے اٹھا کر اس کے حوالے کر دیتا ہے۔ جہاں بھر کے چور اچکوں اور مقروضوں کو کھلاتا ہے۔ جب دیکھو اس کے دروازے پر دس بارہ جمع رہتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ہو جو اس کے گھر سے کوئی بھیڑ بکری یا کچھ اور لے کر نہ جائے، ہم کیا کرسکتے ؟ گھبراہٹ میں ابولہب نے ابوسفیان کا بازو تھام لیا۔ ابوسفیان ! تم ہی بتاؤ ایک جوان شخص مضبوط و توانا، خوبصورت، سر کا ایک بال سفید نہیں، ایک رئیس عورت کا خاوند، خود عالی نسب، وہ مکہ میں جو چاہے کر سکتا ہے مگر کرتا کیا ہے۔ اپنے گھر کا آرام دہ بستر چھوڑ کر پہاڑوں کے غاروں میں بیٹھا سردی سے ٹھٹھرتا رہتا ہے۔ محض اس وہم پر کہ ایک فرشتہ اس سے باتیں کرتا ہے۔ یہ فرشتہ اس کی جان کا روگ بن گیا ہے۔ ابولہب تھک ہار کر بیٹھ گیا۔ اس کے دوست بھی کچھ پریشان، کچھ شرمندہ لگ رہے تھے۔ ابولہب بیٹھا بیٹھا پھر کہنے لگا:ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا۔ سب اس کے دوست تھے۔ اس کی عزت کرتے تھے۔ اس وقت کسی کو اس پر ہنسنے کی جرأت نہ تھی۔ وہ تمہارے درمیان فیصلے کراتا تھا۔ تمہارے قرضے چکاتا تھا۔ وہ تمہاری امانت کا محافظ تھا۔ لوگ اسے صادق اور امین کہتے ہیں۔ لوگ اس کے پاس جاتے تھے اور اسے عادل و منصف سمجھ کر اپنے معاملات میں رہنمائی حاصل کرتے تھے۔

صرف ایک سال پہلے۔ پھر ابو لہب نے پکار کر کہا:مجھے یہ فکر نہیں ہے کہ وہ ہمارے خداؤں کے بارے میں کیا الٹی سیدھی باتیں کرتا ہے۔ ہمارے خدا اس سے خود ہی نمٹ لیں گے لیکن وہ انسانوں کو جو سبق پڑھا رہا ہے وہ بے حد خطرناک ہے مگر اس کا جلد فیصلہ ہو جائے گا۔سب سے پہلے ہم ان غلاموں اور لا وارثوں سے نمٹیں گے جو اس کے گرد جمع رہتے ہیں۔ حضرت بلال بن رباحؓ یہ سب کچھ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ ان بتوں سے تو پہلے ہی متنفر تھے۔ اب جو انہوں نے نئے دین کے متعلق سنا تو ان کے دل و دماغ میں کشمکش جاری ہو گئی۔ ایک دن حضرت بلالؓ غلاموں کے مخصوص انداز میں دیوار سے ٹیک لگائے کھڑے تھے۔ اتنے میں کچھ لوگ حضرت عمار بن یاسرؓ کو لے کر آئے اور انہیں دھکا دے کر زمین پر گرا دیا۔ حضرت بلالؓ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ بتاؤ محمد ﷺ تمہیں کیا سکھاتا ہے؟ ابوسفیان نے تیز لہجے میں پوچھا۔ حضرت عمار بن یاسرؓنے فرمایا:وہ سکھاتے ہیں کہ اللہ کی نظر میں سب انسان برابر ہیں، بالکل ایسے جیسے کنگھے کے دندانے۔ حضرت بلالؓ یہ سن کر سر تا پاؤں لرز گئے اور ان کے جسم میں ایک سرد لہر دو ڑ گئی مگر امیہ بن خلف کا چہرہ تپ کر سرخ ہو گیا تھا۔ ایک بار پھر حضرت عمارؓ کی آواز ابھری : محمد ﷺ ہمیں سکھاتے ہیں کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو۔

ابوسفیان کو دوسرے آقاؤں کے مقابلے میں نیک سمجھا جاتا تھا۔ غلاموں کے حلقے میں اس کی شہرت اچھی تھی۔ جہاں جنبش ابرو سے کام چل سکتا وہاں وہ کبھی زبان نہ ہلاتا تھا۔ شاید عمار بن یاسرؓ نے اسی دھیمے لہجے میں دھوکہ کھا لیا تھا جوسب کہتے چلے گئے۔ جب ابو سفیان نے اپنے مخصوص لہجے میں سوال کیا تو عمار بن یاسرؓ نے یہ سمجھا کہ وہ ان کے برابر کی حیثیت سے بات کر رہا ہے، اور واقعی ان سے صحیح جواب چاہتا ہے۔ایک اللہ، لیکن ہمارے تو تین سو ساٹھ خدا ہیں جو ہماری حفاظت کرتے ہیں اور ہماری مرادیں بر لاتے ہیں۔ پھر ابو سفیان قدرے توقف کے بعد بولا:محمد ﷺ کو احساس نہیں کہ ہم مکہ میں خداؤں کو گھر مہیا کرتے ہیں، یہی ہماری روزی ہے۔ سب قبائل کے اپنے اپنے خدا ہیں جن کی عبادت کے لیے وہ یہاں آتے ہیں۔ خدا ہمارے معبود بھی ہیں اور ہمارا ذریعہ معاش بھی اور کیا ہم غریبوں اور کمزوروں کی نگہداشت نہیں کرتے۔ ابوسفیان کہتے کہتے رک گیا۔ پھر کچھ توقف کے بعد دوبارہ بولا:اگر ہم تین سو ساٹھ بتوں کو چھوڑ کر ایک خدا کو ماننے لگیں جو نظر بھی نہیں آتا اور جو ہر جگہ بتایا جاتا ہے۔ اس باغ میں، طائف میں، مدینہ میں، یروشلم میں، چاند پر تو پھر مکہ کہاں جائے گا ؟

جب ہر گھر میں خدا ہو گا تو یہاں کوئی کیا کرنے آئے گا؟ اب امیہ بن خلف اپنا ریشمی لباس لہراتا ہوا حضرت عمار بن یاسرؓ کے قریب پہنچا اور کہنے لگا:یہ سیاہ فام بلالؓ جسے میں نے اپنے پیسے سے خریدا ہے، میرے برابر ہے؟ یہ کہہ کر وہ رکا اور بزعم خود اپنے سوال کی معقولیت کا لطف اٹھانے لگا۔ محمد ﷺ کہتے ہیں اللہ کے نزدیک تمام انسان برابر ہیں۔ خواہ وہ کسی نسل، کسی رنگ کے ہوں۔ محفل پر سناٹا چھا گیا۔ پھر حضرت بلال بن رباحؓ کے آقا امیہ بن خلف کی آواز ابھری: بلال! حضرت بلالؓ کو کچھ خبر نہ تھی کہ اس بار ان کا نام اس لیے پکارا جا رہا کہ انہیں ایک زندگی سے دوسری زندگی ملنے والی تھی۔ بس اللہ ہی ہے کہ جو جانتا ہے کہ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے۔ حضرت بلالؓ پلک جھپکنے میں حکم کی تعمیل کے لیے حاضر ہو گئے۔ امیہ بن خلف نے کہا :بلالؓ اسے بتاؤ کہ تم میں اور ایک رئیس مکہ میں کیا فرق ہے ؟ یہ لو اور مار مار کا اس کا چہرہ لہولہان کر دو، مسخ کر دو تاکہ اسے اس کی سرکشی کی سزا مل جائے اور یہ لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بن جائے۔ یہ کہہ کر امیہ بن خلف نے کوڑا حضرت بلالؓ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ کیسا واضح حکم تھا، کتنا مختصر اور جامع۔

حضرت عمار بن یاسرؓ نے زمین پر اوندھے پڑے پڑے سر اٹھا کر اپنا چہرہ حضرت بلالؓ کے سامنے سزا کے لیے پیش کر دیا۔ امیہ بن خلف کی آنکھیں غصے سے باہر کو ابلی آ رہی تھیں۔ ابوسفیان نے نظریں دوسری طرف پھیر لی تھیں۔ ابوسفیان سزا دینے کا تو قائل تھا مگر وہ اس میں براہِ راست شرکت کو اپنے منصب سے گری ہوئی بات سمجھتا تھا۔ حضرت عمار بن یاسرؓ حضرت بلالؓ کی آنکھوں کے سامنے تھے۔ وہ ٹکٹکی باندھے حضرت بلالؓ کو دیکھ رہے تھے۔ ان کی نظروں میں پاکیزگی تھی۔ سکون تھا بے خوفی تھی، سر تا پا مجبور مگر پر عزم۔ حضرت بلالؓ نے ان کی آنکھوں میں ایسی قوت دیکھی جو انہیں غلامی کے بندھن سے بھی زیادہ طاقتور محسوس ہوئی۔ ٹھیک اس لمحے امیہ بن خلف کا غلام، جو غلام ابن غلام تھا جو امیہ بن خلف کے ایک اشارہ ابرو پر اپنی جان قربان کر دینے کے لیے تیار رہتا تھا، کسی اور کا غلام ہو گیا۔ حضرت بلالؓ نے کوڑا ہاتھ سے گرا دیا۔ یہ دیکھ کر سب کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ایک اور غلام باغی ہو گیا ہے۔ لوگ حیرت زدہ ہو کر بلالؓ کی طرف دیکھنے لگے۔ حضرت عمار بن یاسرؓ نے گھسٹتے گھسٹتے ہاتھ بڑھا کر کوڑا پکڑنے کی کوشش کی۔ پھر انہوں نے وہ کوڑا دوبارہ حضرت بلالؓ کے ہاتھ میں پکڑا دیا اور انہوں نے سرگوشیانہ انداز میں کہا۔بلال ! یہ جو کہتے ہیں کرو، بلال ان کی حکم عدولی نہ کرو ورنہ یہ تمہیں مار ڈالیں گے۔ مگر حضرت بلالؓ کا ہاتھ بلند نہ ہوا۔ انہوں نے ایک بار پھر کوڑا زمین پر پھینک دیا۔

حضرت بلالؓ کو یوں محسوس ہوا، جیسے وہ نور میں نہا کر رہ گئے ہوں۔ یہ دیکھ کر ابو سفیان نے امیہ بن خلف کو اشارہ کیا۔ امیہ بن خلف کا چہرہ غصے سے لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ وہ خاموش تھا۔ اس کی تو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔ کیا اس کا غلام بھی باغی ہو سکتا ہے۔ پھر یکدم اس نے حضرت بلالؓ کی طرف دیکھا اور کہنے لگا: بلالؓ اگر تمہیں یہ زعم ہے کہ تم انسان ہو اور تم کو بھی خدا رکھنے کا حق ہے تو میری بات کان کھول کر سن لو تمہارے خدا وہی ہوں گے جو تمہارے آقا کے خدا ہیں، کوئی نیا خدا میرے غلام خانہ میں نہیں لایا جا سکتا۔ پھر امیہ بن خلف نے نظر دوڑائی اور کہا :تمہاری اصلاح کرنی پڑے گی لیکن آج نہیں میں سورج کے نصف النہار پر آنے کا انتظار کروں گا آج وہ ذرا ڈھل گیا ہے۔ پھر اس نے اپنے دوسرے غلاموں کو اشارہ کیا اگلے ہی لمحے حضرت بلالؓ کے بازوؤں اور گردن کو رسیوں سے جکڑ دیا گیا۔ حضرت بلالؓ امیہ بن خلف کے غلام تھے، اور یہ لعین و بدبخت مشرک تھا۔ حضرت بلالؓ کا شمار ان سات اسلام لانے والوں میں ہوتا ہے جو سب سے پہلے اللہ کے آخری رسول ﷺ پر ایمان لائے۔ چونکہ یہ اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا۔ دشمنانِ اسلام مسلمانوں کو چین سے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ اللہ کے نور کو بجھانے کے لیے دن رات ہر وقت کوشش میں مصروف رہتے لیکن حق تعالیٰ کو اپنا نور پھیلانا تھا۔ وہ منور ہو کر رہا اور کفار کی تمام کوششیں غارت ہو کر رہ گئیں۔ حضرت بلالؓ چاہتے تو اپنا ایمان مخفی رکھ سکتے تھے اور اس اخفاء کی بدولت کفار کی ایذارسانیوں سے محفوظ رہ سکتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت نے کلمہ توحید ظاہر کرنے پر آپ کو مجبور کر دیا۔ حضرت بلالؓ کا نعرۂ حق لگانا تھا کہ آپ پر ظلم وستم کے پہاڑ ٹوٹنے لگے۔ کفار آپ کو اس قدر زد و کوب کرتے کہ آپؓ لہولہان ہو جاتے۔ پھر زخمی حالت میں آپ کو تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹا جاتا لیکن اس ظلم و تعدی کے باوجود حضرت بلالؓ سچے عاشق رسول نکلے۔ ان کے پایۂ استقلال میں رائی برابر لغزش نہ آئی آپ ان اذیتوں کو راہ حق میں آسان سمجھتے۔ امیہ بن خلف آپؓ کو دوپہر کے وقت مکہ کے رہ گزاروں میں لے جاتا اور آپ کے گلے میں رسی باندھ کر لٹا دیتا اور بہت بڑا پتھر آپؓ کے سینے پر رکھ دیتا، تاکہ آپؓ اس کے نیچے دبے دبے جان دے دیں یا حضور ﷺ کے منکر ہو جائیں اور لات و عزیٰ کی پرستش دوبارہ شروع کر دیں۔ حضرت بلالؓ کو رسیوں سے باندھ کر
مکہ کے گلی کوچوں میں پھرا جاتا لیکن وہ احد احد ہی پکارتے۔
جاری ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 
Last edited by a moderator:

pakistani786

Minister (2k+ posts)
Bhai log, i think we should be very careful when giving Fatwa on Those Great Suhabee of rasool Allah SAW.
We are nowhere near the dust of their feet.

Yeh Hazarat Bilal Wo-he hain ke jab logon ne ehtraz kiya aur aap ne subah ke azan na dey.
unhoun ne azan na dey to Sorraj na nikla. raat khatam he nehin ho rehey they. Log pereshan ho gay-ay, aur Nabee SAW ke paas ayay.
Aap SAW ne fermaya ke jab tak Bilal Azan dein gay to he Subah ho gey. Jab Hazarat bilal ne azan dey, us ke bad he subah hoyey.

My point was be careful to what you say.
 

pakistani786

Minister (2k+ posts)
Never-Miss-your-namaz.jpg
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
not sure if the thread starter is trying to correct the history? if so I do not believe this is the right place to do that.
 

Username

Senator (1k+ posts)
Sahih Bukhari
Volume 1, Book 4, Number 241:
Narrated 'Abdullah bin Mas'ud:
Once the Prophet was offering prayers at the Ka'ba. Abu Jahl was sitting with some of his companions. One of them said to the others, "Who amongst you will bring the abdominal contents (intestines, etc.) of a camel of Bani so and so and put it on the back of Muhammad, when he prostrates?" The most unfortunate of them got up and brought it. He waited till the Prophet prostrated and then placed it on his back between his shoulders. I was watching but could not do any thing. I wish I had some people with me to hold out against them. They started laughing and falling on one another. Allah's Apostle was in prostration and he did not lift his head up till Fatima (Prophet's daughter) came and threw that (camel's abdominal contents) away from his back. He raised his head and said thrice, "O Allah! Punish Quraish." So it was hard for Abu Jahl and his companions when the Prophet invoked Allah against them as they had a conviction that the prayers and invocations were accepted in this city (Mecca). The Prophet said, "O Allah! Punish Abu Jahl, 'Utba bin Rabi'a, Shaiba bin Rabi'a, Al-Walid bin 'Utba, Umaiya bin Khalaf, and 'Uqba bin Al Mu'it (and he mentioned the seventh whose name I cannot recall). By Allah in Whose Hands my life is, I saw the dead bodies of those persons who were counted by Allah's Apostle in the Qalib (one of the wells) of Badr.

Sahih Bukhari
Volume 3, Book 30, Number 113:
Narrated 'Aisha:
When Allah's Apostle reached Medina, Abu Bakr and Bilal became ill. When Abu Bakr's fever got worse, he would recite (this poetic verse): "Everybody is staying alive with his People, yet Death is nearer to him than His shoe laces." And Bilal, when his fever deserted him, would recite: "Would that I could stay overnight in A valley wherein I would be Surrounded by Idhkhir and Jalil (kinds of good-smelling grass). Would that one day I could Drink the water of the Majanna, and Would that (The two mountains) Shama and Tafil would appear to me!" The Prophet said, "O Allah! Curse Shaiba bin Rabi'a and 'Utba bin Rabi'a and Umaiya bin Khalaf as they turned us out of our land to the land of epidemics." Allah's Apostle then said, "O Allah! Make us love Medina as we love Mecca or even more than that. O Allah! Give blessings in our Sa and our Mudd (measures symbolizing food) and make the climate of Medina suitable for us, and divert its fever towards Aljuhfa." Aisha added: When we reached Medina, it was the most unhealthy of Allah's lands, and the valley of Bathan (the valley of Medina) used to flow with impure colored water.


Bahi shatem-e-rasool ki saza sirif moot hay.

hazrat umer kay gunnah saab islam lanay kay baad maaf ho gay, uskay baad koi jurm ho to wo bateen.


Thank you for quoting two Sahih Ahadith.

These Ahadith however do not justify Ummaya's killing for two reasons:

1. He's surrendered. He's under asylum of a prominent Sahabi. He's unarmed. He's a prisoner.

2. Whenever Prophet SAW wanted to get rid of somebody, he asked for volunteers to kill that person. For example in this list Kab was murdered. Prophet SAW sent two volunteers to kill him as stated in Sahih Bukhari. In Ummaya's case, his murder was NOT ordered. Neither were any volunteers sent to kill him. He was merely cursed.

It's a general perception amongst Muslims that Prophet SAW had never cursed. They quote the incidenf of Taif when he refused to curse but they don't know that Prophet had cursed and did BadDua for many people at different occasions. Thanks for bringing these facts forth.
 

Username

Senator (1k+ posts)
Bhai log, i think we should be very careful when giving Fatwa on Those Great Suhabee of rasool Allah SAW.
We are nowhere near the dust of their feet.

Yeh Hazarat Bilal Wo-he hain ke jab logon ne ehtraz kiya aur aap ne subah ke azan na dey.
unhoun ne azan na dey to Sorraj na nikla. raat khatam he nehin ho rehey they. Log pereshan ho gay-ay, aur Nabee SAW ke paas ayay.
Aap SAW ne fermaya ke jab tak Bilal Azan dein gay to he Subah ho gey. Jab Hazarat bilal ne azan dey, us ke bad he subah hoyey.

My point was be careful to what you say.

This story is a lid. Got no references.
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
ممتاز صحابی عبدالرحمان بن عوف کا معاہدہ تھا امیہ کے ساتھ- وہ رات کو اٹھے اور امیہ کو اپنا قیدی بنا لیا
ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی. ایسے کیسے قیدی بنا لیا. کون کون یہ بات جانتا تھا

Volume 3, Book 38, Number 498:
کہیں تذکرہ نہیں ہے کے کسی کو معاہدے کا بتایا گیا ہو یا قیدی بنانے/امان دینے کا کہا گیا ہو

ایک صحابی نے محض اس شبے میں ایک مخالف سپاہی کو قتل کر دیا کے اس نے موت کے ڈر سے کلمہ پڑھا ہے. حضورpbuh نے صحابی کی سرزنش کی. آپpbuh کی طرف سے اس واقعہ پر کیا ردعمل تھا
 

Username

Senator (1k+ posts)
ممتاز صحابی عبدالرحمان بن عوف کا معاہدہ تھا امیہ کے ساتھ- وہ رات کو اٹھے اور امیہ کو اپنا قیدی بنا لیا
ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی. ایسے کیسے قیدی بنا لیا. کون کون یہ بات جانتا تھا

Volume 3, Book 38, Number 498:
کہیں تذکرہ نہیں ہے کے کسی کو معاہدے کا بتایا گیا ہو یا قیدی بنانے/امان دینے کا کہا گیا ہو

ایک صحابی نے محض اس شبے میں ایک مخالف سپاہی کو قتل کر دیا کے اس نے موت کے ڈر سے کلمہ پڑھا ہے. حضورpbuh نے صحابی کی سرزنش کی. آپpbuh کی طرف سے اس واقعہ پر کیا ردعمل تھا

One can surrender before war. Ummaya's surrendered. Happening of war is not a condition for the enemy to surrender.

Prophet SAW gave no response.
 

pakistani786

Minister (2k+ posts)
I Heard the story many time from diff people. There may not be reference as you said.
But whatever the case may be, you should not be giving fatwas here.



QUOTE=Username;3846654]This story is a lid. Got no references.[/QUOTE]
 

Username

Senator (1k+ posts)
ممتاز صحابی عبدالرحمان بن عوف کا معاہدہ تھا امیہ کے ساتھ- وہ رات کو اٹھے اور امیہ کو اپنا قیدی بنا لیا
ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی. ایسے کیسے قیدی بنا لیا. کون کون یہ بات جانتا تھا

Volume 3, Book 38, Number 498:
کہیں تذکرہ نہیں ہے کے کسی کو معاہدے کا بتایا گیا ہو یا قیدی بنانے/امان دینے کا کہا گیا ہو

ایک صحابی نے محض اس شبے میں ایک مخالف سپاہی کو قتل کر دیا کے اس نے موت کے ڈر سے کلمہ پڑھا ہے. حضورpbuh نے صحابی کی سرزنش کی. آپpbuh کی طرف سے اس واقعہ پر کیا ردعمل تھا

There's many other incidents too where Prophet SAW kept quiet on innocent killings. For example killing of Amr Bin Hadrami who was killed by Abdullah Bin Jahsh in the sacred month of Rajab and without aggression. He was also forgiven by Prophet SAW. There's other examples too when Prophet SAW kept silent. I can quote em as needed.
 

Username

Senator (1k+ posts)
قیدی بنانے والی بات کس کس کے علم میں تھی؟

Abdul Rehman Bin Auf told this to Bilal and Ansaar when they were killing Ummaya. Moreover, it was commonly known that both were at agreement as others saw them taking care of each other's family and property.

However the point is not related to the agreement but to the plight and status of Ummaya. Ummaya was given the status of a Prisoner.. He was unarmed. He did not fight. He had surrendered. A Sahabi was guarding him as his prisoner. In this situation, Bilal kiilled him. During killing him they wounded a Sahabi even.
 

Username

Senator (1k+ posts)
I Heard the story many time from diff people. There may not be reference as you said.
But whatever the case may be, you should not be giving fatwas here.



QUOTE=Username;3846654]This story is a lid. Got no references.
[/QUOTE]

People love telling lies and fabricated stories. Islam is full of fabricated stories or Half Truths where people take their favourite piece of history and leave the rest.

Had you ever heard that Bilal had killed his former Boss so cold bloodedly, before?
Mullah don't discuss this story as it doesn't suit them. They'd rather collect sympathies by telling only one third of the story related to the misery of Bilal.
I'm telling the rest of the story
 

pakistani786

Minister (2k+ posts)
I would like to know what is your religion, you are pretending to be muslim but are you muslim ?


QUOTE=Username;3846654]

People love telling lies and fabricated stories. Islam is full of fabricated stories or Half Truths where people take their favourite piece of history and leave the rest.

Had you ever heard that Bilal had killed his former Boss so cold bloodedly, before?
Mullah don't discuss this story as it doesn't suit them. They'd rather collect sympathies by telling only one third of the story related to the misery of Bilal.
I'm telling the rest of the story[/QUOTE]
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
There's many other incidents too where Prophet SAW kept quiet on innocent killings. For example killing of Amr Bin Hadrami who was killed by Abdullah Bin Jahsh in the sacred month of Rajab and without aggression. He was also forgiven by Prophet SAW. There's other examples too when Prophet SAW kept silent. I can quote em as needed.
وہ بھی دیکھ لیں گے پہلے یہ تو بتاؤ قیدی بنائے جانے کا معاملہ کس کس کے علم میں تھا

دراصل مذہب کو باعث شرم سمجھنے والا مائینڈ سیٹ ہر چیز کو اسی عینک سے دیکھتا اور غیروں کے سامنے باعزت بننے کے لئے خود کو شرمندہ کرکے فخر محسوس کرتا ہے اور نچلے درجے کے شرمندہ مذہب اپنی اپنی بساط کے مطابق شرمندہ ہونے کی جگہ ڈھونڈ لیتے ہیں
Abdul Rehman Bin Auf told this to Bilal and Ansaar when they were killing Ummaya. Moreover, it was commonly known that both were at agreement as others saw them taking care of each other's family and property.

However the point is not related to the agreement but to the plight and status of Ummaya. Ummaya was given the status of a Prisoner.. He was unarmed. He did not fight. He had surrendered. A Sahabi was guarding him as his prisoner. In this situation, Bilal kiilled him. During killing him they wounded a Sahabi even.
اپنے مائنڈ سیٹ کی مناسبت سے جو چاہے کہانی بنا لو، کہانی ہی رہے گی
 

Username

Senator (1k+ posts)

People love telling lies and fabricated stories. Islam is full of fabricated stories or Half Truths where people take their favourite piece of history and leave the rest.

Had you ever heard that Bilal had killed his former Boss so cold bloodedly, before?
Mullah don't discuss this story as it doesn't suit them. They'd rather collect sympathies by telling only one third of the story related to the misery of Bilal.
I'm telling the rest of the story[/QUOTE]

I would like to know what is your religion, you are pretending to be muslim but are you muslim ?


QUOTE=Username;3846654]

People love telling lies and fabricated stories. Islam is full of fabricated stories or Half Truths where people take their favourite piece of history and leave the rest.

Had you ever heard that Bilal had killed his former Boss so cold bloodedly, before?
Mullah don't discuss this story as it doesn't suit them. They'd rather collect sympathies by telling only one third of the story related to the misery of Bilal.
I'm telling the rest of the story
[/QUOTE]

Come up with arguments. No irrelevant discussion.
 

Username

Senator (1k+ posts)
وہ بھی دیکھ لیں گے پہلے یہ تو بتاؤ قیدی بنائے جانے کا معاملہ کس کس کے علم میں تھا

دراصل مذہب کو باعث شرم سمجھنے والا مائینڈ سیٹ ہر چیز کو اسی عینک سے دیکھتا اور غیروں کے سامنے باعزت بننے کے لئے خود کو شرمندہ کرکے فخر محسوس کرتا ہے اور نچلے درجے کے شرمندہ مذہب اپنی اپنی بساط کے مطابق شرمندہ ہونے کی جگہ ڈھونڈ لیتے ہیں

اپنے مائنڈ سیٹ کی مناسبت سے جو چاہے کہانی بنا لو، کہانی ہی رہے گی

You keep uttering same words every single day. Speak on topic. Come up with arguments and references as I have.

Your question has been answered that those who killed Ummaya were told by Abdul Rehman Bin Auf that he was under his asylum. Dint you read Sahih Ahadith where he tried his best to protect Ummaya.
And it was a custom to make prisoners and every warrior was responsible for their captives unless they were handed over to the Chief. Nobody kills umarmed and non-fighting men specially who are declared as prisoners.
Prophet SAW daughter Zainab gave asylum to her own husband. Did she ask anybody? But everybody respected that.

You try to DISCUSS but when you fail, suddenly you start blaming others for ill-intentions.

It's not my story. You perhaps dint bother to read references. It's Ibn Ishaq and Sahih Bukhari story.

Your mind has been fogged by excessive propoganda. Can't think proper. Your eyes are darkened by faith. Can't see proper.
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
You keep uttering same words every single day. Speak on topic. Come up with arguments and references as I have.

Your question has been answered that those who killed Ummaya were told by Abdul Rehman Bin Auf that he was under his asylum. Dint you read Sahih Ahadith where he tried his best to protect Ummaya.
And it was a custom to make prisoners and every warrior was responsible for their captives unless they were handed over to the Chief. Nobody kills umarmed and non-fighting men specially who are declared as prisoners.
Prophet SAW daughter Zainab gave asylum to her own husband. Did she ask anybody? But everybody respected that.

You try to DISCUSS but when you fail, suddenly you start blaming others for ill-intentions.

It's not my story. You perhaps dint bother to read references. It's Ibn Ishaq and Sahih Bukhari story.

Your mind has been fogged by excessive propoganda. Can't think proper. Your eyes are darkened by faith. Can't see proper.
اپنے مرضی کے جملے لکھنے کی بجائے جو پوچھا ہے اس کے ثبوت دو. جو حوالہ دیا ہے اس سے ثابت نہیں ہوتا ہے کسی کی خبر تھی کے قیدی بنایا گیا ہے

امیہ کو قیدی ہی بنا تھا تو امیہ مکہ ہی میں رہتا. اسے یہ بھی خیال نہیں آیا کے جنگ سے پہلے ہی قیدی بن کر اپنے قبیلے والوں کو کیا منہ دیکھائے گا. قیدی بنا تھا تو خود کو نبی
pbuh کے حوالے کرتا