جنرل فیض حمید کے پاس سنانے کیلئے مختلف کہانی ہو سکتی ہے:انصار عباسی

1702714180590.png


جنرل فیض حمید کے پاس سنانے کیلئے مختلف کہانی ہو سکتی ہے

انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق 2018ء میں سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے اپنی برطرفی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کے ساتھ اپنی بات چیت کے بارے میں جنرل (ر) فیض حمید کے پاس سنانے کیلئے کوئی مختلف کہانی ہو سکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے جج شوکت عزیز صدیقی کے کیس میں جمعہ کو سابق انٹیلی جنس سربراہ جنرل فیض اور دیگر کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔

عدالتی نوٹس یا پھر 2018ء میں شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے عائد کردہ الزامات کے حوالے سے موقف معلوم کرنے کیلئے دی نیوز جنرل فیض حمید سے بات نہ کر پایا۔ تاہم، ایک ذریعے (جس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اس معاملے پر جنرل فیض سے بات چیت کی ہے) کا کہنا تھا کہ ریٹائرڈ جرنیل کے پاس سنانے کیلئے الگ کہانی ہے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ جنرل فیض اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ ان کی سابق جج سے ملاقات ہوئی تھی۔

انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ فیض حمید نے اپنی ڈی جی (سی) کی حیثیت سے تقرری کے دوران اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) نوید مختار کے کہنے پر ریٹائرڈ جج سے ملاقات کی تھی۔

ذرائع کے مطابق بات چیت کا موضوع آبپارہ
اسلام آباد میں آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کے سامنے سڑک کھولنے کے حوالے سے جسٹس صدیقی کا حکم تھا۔

انہوں نے جنرل فیض کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ابتدائی طور پر ایک بریگیڈیئر کو جسٹس صدیقی سے ملاقات کرنے اور سڑک کھولنے کیلئے عدالت کی ہدایت میں شامل حساسیت پر بات کا کام سونپا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر کے سامنے آبپارہ روڈ کو بلاک کر کے موڑ دیا گیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ آئی ایس آئی کے برگیڈیئر سے کہا گیا تھا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کو معاملے کی حساسیت سے آگاہ کریں اور ان سے فیصلے پر نظرثانی کیلئے کہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دونوں کے درمیان ملاقات اچھی نہیں رہی۔ بعد میں، کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے ڈی جی (سی) میجر جنرل فیض حمید اسی برگیڈیئر کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سے ملاقات کیلئے گئے۔

کہا جاتا ہے کہ یہ ملاقات ڈی جی آئی ایس آئی کی آشیرباد سے ہوئی تھی۔ ذریعے کا دعویٰ ہے کہ فیض حمید نے جج سے ان کی سرکاری رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ انہوں نے ابتدائی طور پر برگیڈیئر اور جج کے درمیان بات خراب ہونے پر افسوس کا اظہار کیا۔

دعویٰ کیا جاتا ہے کہ آئی ایس آئی کے ڈی جی سی نے سڑک کے مسئلے کے حوالے سے آئی ایس آئی کی درخواست پر دباؤ ڈالا تھا لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور ڈی جی سی سے کہا کہ وہ اس فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کریں۔

راولپنڈی بار ایسوسی ایشن میں خطاب کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس صدیقی ’’جج کیلئے ناشائشتہ طرز عمل‘‘ اختیار کرنے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔

جسٹس صدیقی نے آئی ایس آئی پر عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کیا اور کہا کہ ایجنسی کے کچھ افسران اسلام آباد ہائی کورٹ کے بینچوں کی تشکیل میں ہیرا پھیری میں ملوث ہیں۔ انہوں نے عدلیہ پر ملک میں جمہوری اقدار کو پامال کرنے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔

جسٹس صدیقی نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ جنرل فیض چاہتے تھے کہ نواز شریف اور مریم نواز 2018 کے انتخابات کی سیاسی جوڑ توڑ کیلئے جیل میں رہیں۔ جسٹس صدیقی کو 11 اکتوبر 2018 کو عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔

اس کے بعد جج نے 2018 میں سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے اپنی برطرفی کو چیلنج کیا تھا اور 13 جون 2022 کو آئینی درخواست کی آخری سماعت کے بعد سے ان کا کیس جاری ہے۔

جسٹس صدیقی نے اپنی درخواست میں، جس کی عدالت عظمیٰ اب بالآخر سماعت کر رہی ہے، استدعا کی ہے کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے طور پر ان کی برطرفی کا نوٹیفکیشن غیر قانونی قرار دیا جائے۔ جسٹس صدیقی کی نمائندگی سینئر وکیل حامد خان کر رہے ہیں جبکہ درخواست میں اسلام آباد بار ایسوسی ایشن اور کراچی بار ایسوسی ایشن کو بطور فریق شامل کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے شوکت صدیقی برطرفی کیس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کردیے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت بھی بینچ میں شامل ہیں۔
درخواست گزار کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے بتایا کہ ان کے مؤکل نے اپنی درخواست میں فریقین کے نام ڈال دیے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کیا درست ہیں؟ شوکت عزیز صدیقی کو ان الزامات پر مبنی تقریر پر برطرف کیا گیا، سوچ کر جواب دیں کہ کیا آپ کے الزمات درست ہیں، وہ جنرل جنہیں آپ فریق بنانا چاہتے ہیں کیا وہ خود 2018 میں اقتدار میں آنا چاہتے تھے؟

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا اگر آپ کے الزامات درست ہیں تو وہ جنرلز کسی کے سہولت کار بننا چاہ رہے تھے، جس کی یہ جنرل سہولت کاری کر رہے تھے وہ کون تھا؟ اگر آپ کے الزامات درست ہیں تو وہ وزیراعظم کو ہٹا کر کسی اور کو لانا چاہ رہے ہوں گے تو وہ کون تھا۔

شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ میرے مؤکل کی جانب سے لگائے گئے الزامات درست ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ ہمارے سامنے آرٹیکل 184 تین کے تحت آئے ہیں، یہ بھی یاد رکھیں کہ اصل دائرہ اختیار کے تحت کیا ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہا تھا کیا کوئی فوجی افسر خود وزیراعظم بننا چاہتا تھا؟ سہولت کاروں کو فریق بنا لیا ہے تو فائدہ اٹھانے والے کو کیوں نہیں بنایا؟ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا فائدہ کس نے لیا ایسی کوئی بات تقریر میں نہیں تھی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 کی درخواست میں عدالت کا اختیار شروع ہوچکا ہے، فوجی افسر کسی کو فائدہ دے تو وہ بھی اس جال میں پھنسے گا۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ فوج شاید مرضی کے نتائج لینا چاہتی تھی، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا ایک امیدوار کو سائڈ پر اسی لیے کیا جاتا ہے کہ من پسند امیدوار جیتے۔

سابق جج اسلام آباد ہائیکورٹ شوکت عزیز صدیقی نے کہا فوج نے اپنے امیداواروں کو جیپ کا نشان دلوایا تھا، جس پر چیف جسٹس نے کہا فوج ایک آزاد ادارہ ہے یا کسی کے ماتحت ہے؟ فوج کو چلاتا کون ہے؟

وکیل حامد خان نے کہا فوج حکومت کے ماتحت ہے،جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا حکومت فرد نہیں ہے، جو شخص فوج کو چلاتا ہے اس کا بتائیں،جب آپ ہمارے پاس آئیں گے تو ہم آئین کے مطابق چلیں گے، یہ آسان راستہ نہیں ہے، شوکت عزیز صدیقی نے جو سنگین الزامات لگائے انکے نتائج بھی سنگین ہوں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا سپریم کورٹ کو کسی کے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہمارے کندھے استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہم کسی ایک سائیڈ کی طرف داری نہیں کریں گے جبکہ وکیل بارکونسل صلاح الدین نے کہا سابق جج نے تحریری جواب میں جن کا نام لیا ہم ان کو فریق بنا رہے۔
 

Kavalier

Chief Minister (5k+ posts)
Justice Siddiqui, salute to you for your courage, you put your career, position and life in danger to expose the truth, hope you get justice from the only hope in Pakistan.