ہمارے فوجی افسران سرکاری پروٹوکول، جیسے ریڈ کارپٹ ، لگژری گاڑیوں، درجنوں ملازمین، بنگلوز، زرعی فارمز اور میگا پراجیکٹس کے سربراہ بننا پسند کرتے ہیں مگر انڈین فوجی افسران انتہای
سادگی سے زندگی بسر کرتے ہیں ان کو دیکھ کر ہی پتا چلتا ہے کہ وہ اپنی پروفیشنل زندگی میں اپنے دائرہ کار سے باہر نہیں نکلتے اور سادہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کی امریکہ میں کمپنیاں نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی فیمیلیز امریکہ و یورپ میں سیٹل ہیں۔
شائد یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں انڈیا سے امن کی بھیک مانگنی پڑتی ہے کیونکہ ہمارے فوجی افسران پر تعیش زندگی کے عادی ہوچکے ہیں۔ یہ دھول مٹی میں بھاگ دوڑ کرنے والے سخت جان فوجیوں کی طرح نہیں رہے۔ میں بہت سارے فوجی افسران کے بچوں کو دیکھ چکا ہوں جو بالکل ممی ڈیڈی بچے تھے مگر گھر کے ملازمین کو انتہای بدتمیزی سے گالیاں تک دے دیتے تھے۔ ایک فوجی افسر کا پانچ سالہ بیٹا فوجی ملازم کو سٹوپڈ اور ایڈیٹ کہہ رہا تھا مگر اس کاباپ خوش ہورہا تھا۔ ہم اس پر ناخوش تھے مگر فوجی افسر کے چہرے پر ذرا بھی شرمندگی نہیں تھی
میرا خیال ہے کہ وقت آن پنہچا ہے کہ ان رنگیلے یحیی خانوں اور نیازیوں سے قوم کی جان چھڑوا کر اس ملک کو بنگلہ دیش کی طرح ترقی کے راستے پر ڈالا جاے۔ فوج کا بجٹ ایک ارب ڈالر بھی قوم کیلئے بوجھ ہے مگر ابھی تک ہمارا دفاعی بجٹ سات ارب ڈالر ہے جو کہ بہت ہی زیادہ ہے۔
قوم آرمی چیف سے مطالبہ کرتی ہے کہ جو کچھ پہلے ہوچکا سو ہوچکا مگر فوری طور پر آرمی افسران کیلئے تمام مراعات جو انہیں پرتعیش زندگی کا عادی بناتی ہیں ختم کی جائیں چار چار نوکر فوج کی طرف سے دینے بند کیے جائیں ، انہیں سادہ زندگی بسر کرنے کی تعلیم دی جاے جس کیلئے اسوہ حسنہ سے بہتر کوی مثال نہیں مل سکتی، انکی گاڑیاں بھی جرمن سے آتی ہیں اور سازوسامان امریکہ سے اس کی بجاے انہیں پاکستان میڈ فوجی یونیفارمز دئیے جایئں