سانحہ بہاولپوریہ ہوا کہ ایک نوجوان نے ایک لڑکی سے زیادتی کی کوشش کی اور ایسی کوششیں اکثریتی خواتین سے زندگی میں متعدد بار ضرور ہوتی ہیں۔ اس کوشش کے پیچھے کچھ بیک گراونڈ ہونا ضروری نہیں کیونکہ ایسی کوشش جاب پر بھی ہوسکتی ہے۔ کوی گھر میں آنے جانے والا ہمسایہ بھی یہ حرکت کرسکتا ہے، عابد علی جیسا کوی پولیس کے زیرسایہ ڈاکو بھی، اور کوی کیپٹن حماد جیسا گھمنڈی جنرل کا بیٹا بھی ریپ کرسکتا ہے
اس تمہید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ خواتین سے جب کوی سانحہ ہوجاتا ہے تو اس کی تفتیش کرنے والے جاہل پولیس والے اس خاتون کو ذہنی طور پر ایسے جھٹکے دیتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو اس واقعہ کا ذمہ دار سمجھنے لگتی ہے اور کبھی کبھار خودکشی پر مجبور ہوجاتی ہے، اسے تھانے بلوا کر باپ بھای سے الگ کردیا جاتا ہے اور صرف بد کردار چھلڑوں ( ان کو افسر کی بجاے چھلڑ کہنا بہتر ہوگا) کے غلیظ سوالات کا جواب دینا ہوتا ہے جن کا اس جرم سے کوی دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا، تفتیشی چھلڑ کا رویہ مال پانی لے کر یکدم بدل جاتا ہے اور جب مال پانی نہ لگاو تو وہ فرعون بن کر عورت کو تنگ کرتا ہے اور اتنے غلیظ سوالات کرتا ہے کہ خاتون سوچتی ہے کہ اس سے تو اچھا تھا کہ ریپ ہوکر خاموش رہتی کم ازکم اس شیطان کی گندی نگاہوں اور گندے سوالات سے تو بچ جاتی
میں نے چند حقیقی واقعات سے یہ معلومات اکٹھی کی ہیں کسطرح تفتیشی چھلڑ غلیظ گفتگو کرتے ہیں حتی کہ لیڈی تفتیشی چھلڑ بھی ہو تو وہ یہی سوالات کررہی ہوتی ہے ملاحظہ فرمائیں چند تفتیشی سوالات
ایک نوجوان میرے ایریا کا جس پر کسی لڑکی کے باپ نے ریپ کا مقدمہ درج کروایا تھا تھانے میں تفتیش کیلئے گیا اس کے ساتھ ایک واقف اے ایس آی بھی تھا، پولیس انسپکٹر نے دونوں کو عزت سے بٹھا کر پہلے تو اپنے کولیگ سے گپ شپ کی چاے بسکٹ منگواے لڑکے کو ایک سوال تک نہیں کیا حالانکہ اس کے خلاف ریپ کا کیس تھا، آخر وہ انسپکٹر لڑکے کی طرف اشارہ کرکے بولا یار تم تو منہ ماتھے لگنے والے ہو (خوش شکل) لڑکی سے دوستی کرکے ٹھوک دیا ہوگا،جس کے بعد زور کا قہقہ لگا میٹنگ اوور ہوی اور اگلے دن لڑکی کے باپ نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر کیس واپس لے لیا
بہاولپور والی بہادر بیٹی کو جو سوالات کئے گئے ان کی نوعیت یوں تھی،،،، تمہاری اس کے ساتھ دوستی تھی؟۔۔۔۔۔۔۔دوستی نہ رہی تو ریپ کی کوشش کا الزام لگا دیا؟ اس نے تمہیں ریپ کرنے کی کوشش کیوں کی؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تو کہتا ہے تم نے خود اسے آفر کی تھی ؟۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا اس نے ریپ کی کوشش کی تو تمہیں کہاں سے پکڑا تھا؟،،،،،،مموں کو چھیڑا تھا؟۔۔۔۔۔۔۔۔شلوار اتاری تھی یا نہیں؟۔۔۔۔۔۔۔جسم پر کوی خراش یا ضرب کا نشان تو ہوگا؟،،،،،،،،،لڑکے نے کپڑے اتارے تھے یا نہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔لڑکے کا عضو تناسل دکھای دیا کیا وہ سخت تھا یا نہیں؟، اگر ریپ ہوا تھا تو کیا اس کا عضو تناسل تمہاری شرمگاہ کے اندر گیا تھا یا اوپر سے ہی فارغ ہوا؟
اس قسم کے سوالات کئے جاتے ہیں ا ور مجھے علم تھا کہ انہی سوالات سے تنگ آکر لڑکی نے یہ انتہای فیصلہ کر ڈالا اگرچہ ملا لوگ اسے غلط کہیں گے مگر فوجی بھی تو ملک کی عزت بچانے کیلئے بغیر سوچے یقینی موت میں کود جاتے ہیں اور ہم انہیں تمغہ جرات سے نوازتے ہیں
کیا اس لڑکی کو نشان پاکستان سے نوازا جاے گا جس نے جان دے کر پولیس کے تفتیشی طریقہ کار اور رشوت خور افسران کا اصل بھیانک و شیطانی چہرہ دنیا کو دکھا دیا؟ اس لڑکی کی موت کے بعد گندہ پولیس کلچر اب ننگا ہوچکا ہے شائد اب یہ گندا اور ننگا کلچر بدل دیا جاے؟
میری عدالت سے درخواست ہے کہ گرفتار تفتیشی چھلڑ ایک پاک دامن لڑکی کی موت کے ذمہ دار بلکہ قاتل ہیں انہیں سرعام عابد علی کے ساتھ ہی پھانسی پر لٹکایا جاے
اس تمہید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ خواتین سے جب کوی سانحہ ہوجاتا ہے تو اس کی تفتیش کرنے والے جاہل پولیس والے اس خاتون کو ذہنی طور پر ایسے جھٹکے دیتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو اس واقعہ کا ذمہ دار سمجھنے لگتی ہے اور کبھی کبھار خودکشی پر مجبور ہوجاتی ہے، اسے تھانے بلوا کر باپ بھای سے الگ کردیا جاتا ہے اور صرف بد کردار چھلڑوں ( ان کو افسر کی بجاے چھلڑ کہنا بہتر ہوگا) کے غلیظ سوالات کا جواب دینا ہوتا ہے جن کا اس جرم سے کوی دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا، تفتیشی چھلڑ کا رویہ مال پانی لے کر یکدم بدل جاتا ہے اور جب مال پانی نہ لگاو تو وہ فرعون بن کر عورت کو تنگ کرتا ہے اور اتنے غلیظ سوالات کرتا ہے کہ خاتون سوچتی ہے کہ اس سے تو اچھا تھا کہ ریپ ہوکر خاموش رہتی کم ازکم اس شیطان کی گندی نگاہوں اور گندے سوالات سے تو بچ جاتی
میں نے چند حقیقی واقعات سے یہ معلومات اکٹھی کی ہیں کسطرح تفتیشی چھلڑ غلیظ گفتگو کرتے ہیں حتی کہ لیڈی تفتیشی چھلڑ بھی ہو تو وہ یہی سوالات کررہی ہوتی ہے ملاحظہ فرمائیں چند تفتیشی سوالات
ایک نوجوان میرے ایریا کا جس پر کسی لڑکی کے باپ نے ریپ کا مقدمہ درج کروایا تھا تھانے میں تفتیش کیلئے گیا اس کے ساتھ ایک واقف اے ایس آی بھی تھا، پولیس انسپکٹر نے دونوں کو عزت سے بٹھا کر پہلے تو اپنے کولیگ سے گپ شپ کی چاے بسکٹ منگواے لڑکے کو ایک سوال تک نہیں کیا حالانکہ اس کے خلاف ریپ کا کیس تھا، آخر وہ انسپکٹر لڑکے کی طرف اشارہ کرکے بولا یار تم تو منہ ماتھے لگنے والے ہو (خوش شکل) لڑکی سے دوستی کرکے ٹھوک دیا ہوگا،جس کے بعد زور کا قہقہ لگا میٹنگ اوور ہوی اور اگلے دن لڑکی کے باپ نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر کیس واپس لے لیا
بہاولپور والی بہادر بیٹی کو جو سوالات کئے گئے ان کی نوعیت یوں تھی،،،، تمہاری اس کے ساتھ دوستی تھی؟۔۔۔۔۔۔۔دوستی نہ رہی تو ریپ کی کوشش کا الزام لگا دیا؟ اس نے تمہیں ریپ کرنے کی کوشش کیوں کی؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تو کہتا ہے تم نے خود اسے آفر کی تھی ؟۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا اس نے ریپ کی کوشش کی تو تمہیں کہاں سے پکڑا تھا؟،،،،،،مموں کو چھیڑا تھا؟۔۔۔۔۔۔۔۔شلوار اتاری تھی یا نہیں؟۔۔۔۔۔۔۔جسم پر کوی خراش یا ضرب کا نشان تو ہوگا؟،،،،،،،،،لڑکے نے کپڑے اتارے تھے یا نہیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔لڑکے کا عضو تناسل دکھای دیا کیا وہ سخت تھا یا نہیں؟، اگر ریپ ہوا تھا تو کیا اس کا عضو تناسل تمہاری شرمگاہ کے اندر گیا تھا یا اوپر سے ہی فارغ ہوا؟
اس قسم کے سوالات کئے جاتے ہیں ا ور مجھے علم تھا کہ انہی سوالات سے تنگ آکر لڑکی نے یہ انتہای فیصلہ کر ڈالا اگرچہ ملا لوگ اسے غلط کہیں گے مگر فوجی بھی تو ملک کی عزت بچانے کیلئے بغیر سوچے یقینی موت میں کود جاتے ہیں اور ہم انہیں تمغہ جرات سے نوازتے ہیں
کیا اس لڑکی کو نشان پاکستان سے نوازا جاے گا جس نے جان دے کر پولیس کے تفتیشی طریقہ کار اور رشوت خور افسران کا اصل بھیانک و شیطانی چہرہ دنیا کو دکھا دیا؟ اس لڑکی کی موت کے بعد گندہ پولیس کلچر اب ننگا ہوچکا ہے شائد اب یہ گندا اور ننگا کلچر بدل دیا جاے؟
میری عدالت سے درخواست ہے کہ گرفتار تفتیشی چھلڑ ایک پاک دامن لڑکی کی موت کے ذمہ دار بلکہ قاتل ہیں انہیں سرعام عابد علی کے ساتھ ہی پھانسی پر لٹکایا جاے